ٹیگ کے محفوظات: لیے

یہ شگفتِ گل کا موسم بڑا خوش گوار ہوتا

ہمیں جیب و آستیں پر اگر اختیار ہوتا
یہ شگفتِ گل کا موسم بڑا خوش گوار ہوتا
گونجتے ہیں شکیبؔ آنکھوں میں
آنے والی کسی صدی کے گیت
ثاند کی پر بہار وادی میں
ایک دوشیزہ چن رہی ہے کپاس
بھاگتے سایوں کی چیخیں، ٹوٹے تاروں کا شور
میں ہوں اور اک محشرِ بے خواب آدھی رات کو
بات میری کہاں سمجھتے ہو
آنسوؤں کی زباں سمجھتے ہو
ہاۓ وہ آگ کہ جو دل میں سلگتی ہی رہے
ہاۓ وہ بات کہ جس کا کبھی اظہار نہ ہو
جنگل جلے تو ان کو خبر تک نہ ہو سکی
چھائی گھٹا تو جھوم اٹھے بستیوں کے لوگ
مجھ کو آمادہِ سفر نہ کرو
راستے پر خطر نہ ہو جائیں
خوشی کی بات نہیں ہے کوئی فسانے میں
وگرنہ عذر نہ تھا آپ کو سنانے میں
پائلیں بجتی رہیں کان میں سودائی کے
کوئی آیا نہ گیا رات کے سنّاٹے میں
خاموشی کے دکھ جھیلو گے ہنستے بولتے شہروں میں
نغموں کی خیرات نہ بانٹو جنم جنم کے بہروں میں
ہر شاخ سے گہنے چھین لیے ، ہر دال سے موتی بین لیے
اب کھیت سنہرے کھیت نہیں، ویرانے ہی ویرانے ہیں
طلسمِ گردشِ ایّام کس طرح ٹوٹے
نظر علیل، جنوں خام، فکر آوارہ
اس گلبدن کی بوۓ قبا یاد آ گئی
صندل کے جنگلوں کی ہوا یاد آ گئی
آبلہ پائی کا ہم کو غم نہ تھا
رہنماؤں کی ہنسی تڑپا گئی
جس دم قفس میں موسمِ گل کی خبر گئی
اک بار قیدیوں پہ قیامت گزر گئی
کتنے ہی لوگ صاحبِ احساس ہو گئے
اک بے نوا کی چیخ بڑا کام کر گئی
اب انہیں پرسشِ حالات گراں گزرے گی
بد گمانی ہے تو ہر بات گراں گزرے گی
دیکھ زخمی ہوا جاتا ہے دو عالم کا خلوص
ایک انساں کو تری ذات سے دکھ پہنچا ہے
سحر میں حسن ہے کیسا، بہارِ شب کیا ہے
جو دل شگفتہ نہیں ہے تو پھر یہ سب کیا ہے
گمرہی ہمیں شکیبؔ دے رہی ہے یہ فریب
رہنما غلط نہیں، راستہ طویل ہے
اس طرح گوش بر آواز ہیں اربابِ ستم
جیسے خاموشیِٔ مظلوم صدا رکھتی ہے
کسی کا قرب اگر قربِ عارضی ہے شکیبؔ
فراقِ یار کی لذّت ہی پائیدار رہے
ہوا جو صحنِ گلستاں میں راج کانٹوں کا
صبا بھی پوچھنے آئی مزاج کانٹوں کا
ہم نے گھبرا کے موند لیں آنکھیں
جب کوئی تارہ ٹوٹتا دیکھا
تھکن سے چور ہیں پاؤں کہاں کہاں بھٹکیں
ہر ایک گام نیا حسن رہ گزار سہی
کمتر نہ جانیں لوگ اسے مہر و ماہ سے
ہم نے گرا دیا جسے اپنی نگاہ سے
یہ لطف زہر نہ بن جاۓ زندگی کے لیے
چلے تو آۓ ہو تجدیدِ دوستی کے لیے
ہم نے جسے آزاد کیا حلقہِ شب سے
حاصل نہیں ہم کو اسی سورج کا اجالا
ہم اپنے چاکِ قبا کو رفو تو کر لیتے
مگر وہی ہے ابھی تک مزاج کانٹوں کا
سچ کہو میری یاد بھی آئی؟
جب کبھی تم نے آئینہ دیکھا
سکوں بدوش کنارا بھی اب ابھر آئے
سفینہ ہائے دل و جاں بھنور کے پار سہی
یا میں بھٹک گیا ہوں سرِ رہ گزر شکیبؔ
یا ہٹ گئی ہے منزلِ مقسود راہ سے
نہ جانے ہو گیا کیوں مطمئن تجھے پا کر
بھٹک رہا تھا مرا دل خود آگہی کے لیے
شکیب جلالی

سبھی نے چِیر کے سینے دِکھا دیے اپنے

میں آہ بھَرنے کو تھا، لب جو وا کیے اپنے
سبھی نے چِیر کے سینے دِکھا دیے اپنے
زمین و اہلِ زمیں کیا ہیں جبکہ انساں نے
خدا کو بانٹ کے حِصّے بنا لیے اپنے
میں تیز دھوپ سے بچنے جہاں جہاں پہنچا
ہر اِک دَرَخت نے پَتّے گِرادیے اپنے
اگرچہ پہلو تہی زندگی نے کی ضامنؔ
اَجَل دِکھاتی رَہی سارے زاویے اپنے
ضامن جعفری

معجزہ ہے کہ جیے جاتا ہُوں

زہرِ غم روز پیے جاتا ہُوں
معجزہ ہے کہ جیے جاتا ہُوں
پَڑ گئی ہے مجھے کچھ عادَت سی
خُود کو اِلزام دِیے جاتا ہُوں
زخم پَر زخم لگے جاتے ہیں
اُس کا احسان لیے جاتا ہُوں
مشغلہ ہے یہی تنہائی کا
گفتگو اُس سے کیے جاتا ہُوں
کتنی خُوش مجھ سے ہے دُنیا ضامنؔ
ہونٹ اُور زخم سِیے جاتا ہُوں
ضامن جعفری

یا اُن سے کوئی بات ہو جھگڑا کیے بغیر

ممکن نہیں خموش رہوں لب سیے بغیر
یا اُن سے کوئی بات ہو جھگڑا کیے بغیر
انصاف کا اصولِ توازن یہ خوب ہے
دیتے نہیں وہ حق بھی مرا کچھ لیے بغیر
لگتا ہے تیرے ساتھ ملی زندگی ہمیں
گویا کہ اِس سے پہلے جیے ہم جیے بغیر
ناصح کریں گے تیری نصیحت پہ ہم عمل
ہو آئے اُس گلی سے جو تُو دل دیے بغیر
اب اُس کی ہوش مندی کی دینی پڑے گی داد
شیشے میں جس نے تجھ کو اُتارا پیے بغیر
باصر کاظمی

میں جانتی تھی، پال رہی ہوں سنپولیے

پروین شاکر ۔ غزل نمبر 15
ڈسنے لگے ہیں خواب مگر کِس سے بولیے
میں جانتی تھی، پال رہی ہوں سنپولیے
بس یہ ہُوا کہ اُس نے تکلّف سے بات کی
اور ہم نے روتے روتے دوپٹے بھگو لیے
پلکوں پہ کچی نیندوں کا رَس پھیلتا ہو جب
ایسے میں آنکھ دُھوپ کے رُخ کیسے کھولیے
تیری برہنہ پائی کے دُکھ بانٹتے ہُوئے
ہم نے خُود اپنے پاؤں میں کانٹے چبھو لیے
میں تیرا نام لے کے تذبذب میں پڑ گئی
سب لوگ اپنے اپنے عزیزوں کو رو لیے!
’’خوشبو کہیں نہ جائے‘‘ یہ اصرار ہے بہت
اور یہ بھی آرزو کہ ذرا زُلف کھولیے
تصویر جب نئی ہے ، نیا کینوس بھی ہے
پھر طشتری میں رنگ پُرانے نہ گھولیے
پروین شاکر

چل نکلتے جو مے پیے ہوتے

دیوانِ غالب ۔ غزل نمبر 216
میں انہیں چھیڑوں اور کچھ نہ کہیں
چل نکلتے جو مے پیے ہوتے
قہر ہو یا بلا ہو جو کچھ ہو
کاشکے تم مرے لیے ہوتے
میری قسمت میں غم گر اتنا تھا
دل بھی یا رب کئی دیے ہوتے
آ ہی جاتا وہ راہ پر غالب
کوئی دن اور بھی جیے ہوتے
مرزا اسد اللہ خان غالب

پھرتے ہیں ہم بھی ہاتھ میں سر کو لیے ہوئے

دیوان اول غزل 611
ظالم کہیں تو مل کبھو دارو پیے ہوئے
پھرتے ہیں ہم بھی ہاتھ میں سر کو لیے ہوئے
آئوگے ہوش میں تو ٹک اک سدھ بھی لیجیو
اب تو نشے میں جاتے ہو زخمی کیے ہوئے
جی ڈوبتا ہے اس گہرتر کی یاد میں
پایان کار عشق میں ہم مرجیے ہوئے
سی چاک دل کہ چشم سے ناصح لہو تھمے
ہوتا ہے کیا ہمارے گریباں سیے ہوئے
کافر ہوئے بتوں کی محبت میں میرجی
مسجد میں آج آئے تھے قشقہ دیے ہوئے
میر تقی میر

نالوں نے میرے ہوش جرس کے اڑا دیے

دیوان اول غزل 562
محمل کے ساتھ اس کے بہت شور میں کیے
نالوں نے میرے ہوش جرس کے اڑا دیے
فصاد خوں فساد پہ ہے مجھ سے ان دنوں
نشتر نہ تو لگاوے تو میرا لہو پیے
عشق بتاں سے نبض مری دیکھ کر حکیم
کہنے لگا خدا ہی ہو اب تو تو یہ جیے
صوت جرس کی طرز بیاباں میں ہائے میر
تنہا چلا ہوں میں دل پر شور کو لیے
میر تقی میر

جسم کی ہر اک سڑک پر کیمرے موجود ہیں

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 366
مخبری کے غیر مرئی ڈاکیے موجود ہیں
جسم کی ہر اک سڑک پر کیمرے موجود ہیں
کھل نہیں سکتے اگر بابِ نبوت کے کواڑ
سینکڑوں جبریل مجھ میں کس لیے موجود ہیں
بس صدا ڈی کوڈ کرنی ہے خموشی کی مجھے
کتنے سگنل عرش سے آئے ہوئے موجود ہیں
چاند شاید پیڑ کی شاخوں میں الجھا ہے کہیں
صحن میں کچھ روشنی کے شیڈ سے موجود ہیں
قیمتی سوٹوں کی جلسہ گاہ میں خاموش رہ
کرسیوں پر کیسے کیسے نابغے موجود ہیں
کھول کر اپنے گریباں کے بٹن ہم سرفروش
موت کی بندوق کے پھر سامنے موجود ہیں
منصور آفاق

شام کے شعلے بھی گنے جائیں

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 295
شعر کچھ موت پر کہے جائیں
شام کے شعلے بھی گنے جائیں
اس سے، آٹو گراف بک پہ نہیں
دستخط ہاتھ پر لیے جائیں
رفتگاں کا خیال آتا ہے
روح سے رابطے کئے جائیں
ہم کوگوتم بھی زخم دیتا ہے
شاردا سے کہاں پرے جائیں
پانیوں کو زمیں پہ آنا ہے
جتنی اونچائی پر چلے جائیں
دو وجودوں کی ایک آہٹ سے
خواب کچھ ریت پر بنُے جائیں
بانسری کی سریں کہیں منصور
گیت دریا کے بھی سنے جائیں
منصور آفاق

کچھ نصیبوں نے بھی دیے ہیں سانپ

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 243
کچھ تلاش آپ ہی کیے ہیں سانپ
کچھ نصیبوں نے بھی دیے ہیں سانپ
گفتگو زہر سے بھری ہی نہیں
سر پہ دستار بھی لیے ہیں سانپ
چھاؤں کو ڈس رہے ہیں شاخوں سے
دھوپ کے سرخ زاویے ہیں سانپ
شام ہوتے ہی چاٹتے ہیں دل
بس وہ دوچار ثانیے ہیں سانپ
پھر کہا خواب سے سپیرے نے
اور اب کتنے چاہیے ہیں سانپ
بھر گیا زہرِ غم سے اپنا دل
یعنی یادوں کے بھی دیے ہیں سانپ
منصور آفاق

گہری کالی رات کے دو المیے تھے آس پاس

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 187
روشنی کے خواب، خوشبو کے دیے تھے آس پاس
گہری کالی رات کے دو المیے تھے آس پاس
آ گئے، اچھا کیا، بھیگی ہوئی اِس شام میں
ایسی رت میں آپ ہی بس چاہیے تھے آس پاس
اک رندھی آواز تھی میرے گلے میں ہجر کی
درد کے روتے ہوئے کچھ ماہیے تھے آس پاس
ہونٹ میرے رات بھر، یہ سوچیے، ہونٹوں پہ تھے
ہاتھ میرے، آپ اتنا جانیے، تھے آس پاس
جب بدن میں بادلوں کا شور تھا تم تھے کہاں
جب چمکتے بجلیوں کے زاویے تھے آس پاس
دیکھتی تھیں اس کی آنکھیں میرے چہرے کے نقوش
زندگی کے آخری جب ثانیے تھے آس پاس
اک فریبِ ذات تھا پھیلا ہوا صدیوں کے بیچ
چاند جیسے ناموں والے کالیے تھے آس پاس
رات کی دیوار پر فوٹو گراف اک چاند کا
اور کالے بادلوں کے حاشیے تھے آس پاس
نظم کی میت کوئی لٹکا رہا تھا پیڑ سے
اور پریشاں حال کچھ بالشتیے تھے آس پاس
اک سفر میں نے کیا تھا وادیِ تاریخ میں
بین تھے چیخوں بھرے اور مرثیے تھے آس پاس
جب مرا سر کٹ رہا تھا کربلائے وقت میں
اہل کوفہ اپنی دستاریں لیے تھے آس پاس
ہفتہ بھر سے ڈائری ملتی نہیں منصور کی
فون پر کچھ رابطے میں نے کیے تھے آس پاس
منصور آفاق