ٹیگ کے محفوظات: مرثیے

مرثیے

۔۱۔

دور جا کر قریب ہو جتنے

ہم سے کب تم قریب تھے اتنے

اب نہ آؤ گے تم نہ جاؤ گے

وصل و ہجراں بہم ہوئے کتنے

۔۲۔

چاند نکلے کسی جانب تری زیبائی کا

رنگ بدلے کسی صورت شبِ تنہائی کا

دولتِ لب سے پھر اے خسروِ شیریں دہناں

آج ارزاں ہو کوئی حرف شناسائی کا

گرمیِ رشک سے ہر انجمنِ گُل بدناں

تذکرہ چھیڑے تری پیرہن آرائی کا

صحنِ گلشن میں کبھی اے شہِ شمشاد قداں

پھر نظر آئے سلیقہ تری رعنائی کا

ایک بار اور مسیحائے دلِ دل زدگاں

کوئی وعدہ، کوئی اقرار مسیحائی کا

دیدہء و دل کو سنبھالو کہ سرِ شامِ فراق

ساز و سامان بہم پہنچا ہے رسوائی کا

۔۳۔

کب تک دل کی خیر منائیں، کب تک رہ دکھلاؤ گے

کب تک چین کی مہلت دو گے، کب تک یاد نہ آؤ گے

بیتا دید اُمید کا موسم، خاک اُڑتی ہے آنکھوں میں

کب بھیجو گے درد کا بادل، کب برکھا برساؤ گے

عہدِ وفا یا ترکِ محبت، جو چاہو سو آپ کرو

اپنے بس کی بات ہی کیا ہے، ہم سے کیا منواؤ گے

کس نے وصل کا سورج دیکھا، کس پر ہجر کی رات ڈھلی

گیسوؤں والے کون تھے کیا تھے، ان کو کیا جتلاؤ گے

فیض دلوں کے بھاگ میں ہے گھر بھرنا بھی، لُٹ جانا بھی

تم اس حسن کے لطف و کرم پہ کتنے دن اتراؤ گے

فیض احمد فیض

کربلا کی رات ہے اور مرثیے ممنوع ہیں

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 369
اک بلیک آوٹ ہے روشن دئیے ممنوع ہیں
کربلا کی رات ہے اور مرثیے ممنوع ہیں
ہم محبت کی ریاضی پاس کر سکتے نہیں
اک مثلت لازمی ہے زاویے ممنوع ہیں
کوئی تحفہ تو کجا خط بھی پہنچ سکتا نہیں
اُس گلی میں ہر طرح کے ڈاکیے ممنوع ہیں
ہجر میں ممکن نہیں ہے استراحت کا خیال
راحتوں کے سلسلے میرے لئے ممنوع ہیں
بارشیں منصور برسانے کا آڈر ہے مگر
آسماں پر بادلوں کے حاشیے ممنوع ہیں
منصور آفاق

گہری کالی رات کے دو المیے تھے آس پاس

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 187
روشنی کے خواب، خوشبو کے دیے تھے آس پاس
گہری کالی رات کے دو المیے تھے آس پاس
آ گئے، اچھا کیا، بھیگی ہوئی اِس شام میں
ایسی رت میں آپ ہی بس چاہیے تھے آس پاس
اک رندھی آواز تھی میرے گلے میں ہجر کی
درد کے روتے ہوئے کچھ ماہیے تھے آس پاس
ہونٹ میرے رات بھر، یہ سوچیے، ہونٹوں پہ تھے
ہاتھ میرے، آپ اتنا جانیے، تھے آس پاس
جب بدن میں بادلوں کا شور تھا تم تھے کہاں
جب چمکتے بجلیوں کے زاویے تھے آس پاس
دیکھتی تھیں اس کی آنکھیں میرے چہرے کے نقوش
زندگی کے آخری جب ثانیے تھے آس پاس
اک فریبِ ذات تھا پھیلا ہوا صدیوں کے بیچ
چاند جیسے ناموں والے کالیے تھے آس پاس
رات کی دیوار پر فوٹو گراف اک چاند کا
اور کالے بادلوں کے حاشیے تھے آس پاس
نظم کی میت کوئی لٹکا رہا تھا پیڑ سے
اور پریشاں حال کچھ بالشتیے تھے آس پاس
اک سفر میں نے کیا تھا وادیِ تاریخ میں
بین تھے چیخوں بھرے اور مرثیے تھے آس پاس
جب مرا سر کٹ رہا تھا کربلائے وقت میں
اہل کوفہ اپنی دستاریں لیے تھے آس پاس
ہفتہ بھر سے ڈائری ملتی نہیں منصور کی
فون پر کچھ رابطے میں نے کیے تھے آس پاس
منصور آفاق