ٹیگ کے محفوظات: جانیے

بس ہے یہ ایک حرف کہ مشتاق جانیے

دیوان اول غزل 591
کاتب کہاں دماغ جو اب شکوہ ٹھانیے
بس ہے یہ ایک حرف کہ مشتاق جانیے
غیروں کا ساتھ موجب صد وہم ہے بتاں
اس امر میں خدا بھی کہے تو نہ مانیے
شب خواب کا لباس ہے عریاں تنی میں یہ
جب سویئے تو چادر مہتاب تانیے
اپنا یہ اعتقاد ہے تجھ جستجو میں یار
لے اس سرے سے اس سرے تک خاک چھانیے
پھر یانصیب یہ بھی ہے طالع کی یاوری
مر جائیں ہم تو اس پہ بھی ہم کو نہ جانیے
لوٹے ہے خاک و خون میں غیروں کے ساتھ میر
ایسے تو نیم کشتہ کو ان میں نہ سانیے
میر تقی میر

گہری کالی رات کے دو المیے تھے آس پاس

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 187
روشنی کے خواب، خوشبو کے دیے تھے آس پاس
گہری کالی رات کے دو المیے تھے آس پاس
آ گئے، اچھا کیا، بھیگی ہوئی اِس شام میں
ایسی رت میں آپ ہی بس چاہیے تھے آس پاس
اک رندھی آواز تھی میرے گلے میں ہجر کی
درد کے روتے ہوئے کچھ ماہیے تھے آس پاس
ہونٹ میرے رات بھر، یہ سوچیے، ہونٹوں پہ تھے
ہاتھ میرے، آپ اتنا جانیے، تھے آس پاس
جب بدن میں بادلوں کا شور تھا تم تھے کہاں
جب چمکتے بجلیوں کے زاویے تھے آس پاس
دیکھتی تھیں اس کی آنکھیں میرے چہرے کے نقوش
زندگی کے آخری جب ثانیے تھے آس پاس
اک فریبِ ذات تھا پھیلا ہوا صدیوں کے بیچ
چاند جیسے ناموں والے کالیے تھے آس پاس
رات کی دیوار پر فوٹو گراف اک چاند کا
اور کالے بادلوں کے حاشیے تھے آس پاس
نظم کی میت کوئی لٹکا رہا تھا پیڑ سے
اور پریشاں حال کچھ بالشتیے تھے آس پاس
اک سفر میں نے کیا تھا وادیِ تاریخ میں
بین تھے چیخوں بھرے اور مرثیے تھے آس پاس
جب مرا سر کٹ رہا تھا کربلائے وقت میں
اہل کوفہ اپنی دستاریں لیے تھے آس پاس
ہفتہ بھر سے ڈائری ملتی نہیں منصور کی
فون پر کچھ رابطے میں نے کیے تھے آس پاس
منصور آفاق