ٹیگ کے محفوظات: چاہیے

مجرم ہمیں ہی ایک نہ ٹھہرانا چاہئے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 154
اپنے کیے پہ بھی اُنہیں پچھتانا چاہیے
مجرم ہمیں ہی ایک نہ ٹھہرانا چاہئے
ممنوع جو بھی ہے اسُے جرأت سے دیکھنا
آدم کی رِیت ہے اِسے دہرانا چاہیے
شاخوں کے درمیاں ہے جہاں حُسن کی نمو
اُس سمت بھی نظر کو کبھی جانا چاہیے
بندش سے جس کی خوں میں گرہ سی پڑی لگے
وہ لفظ بھی زباں پہ کبھی لانا چاہیے
ماجدؔ کرم وُہ جس سے بٹے کرچیوں میں دل
ہم پر کرم وُہ اُن کو، نہ فرمانا چاہیے
ماجد صدیقی

کچھ نصیبوں نے بھی دیے ہیں سانپ

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 243
کچھ تلاش آپ ہی کیے ہیں سانپ
کچھ نصیبوں نے بھی دیے ہیں سانپ
گفتگو زہر سے بھری ہی نہیں
سر پہ دستار بھی لیے ہیں سانپ
چھاؤں کو ڈس رہے ہیں شاخوں سے
دھوپ کے سرخ زاویے ہیں سانپ
شام ہوتے ہی چاٹتے ہیں دل
بس وہ دوچار ثانیے ہیں سانپ
پھر کہا خواب سے سپیرے نے
اور اب کتنے چاہیے ہیں سانپ
بھر گیا زہرِ غم سے اپنا دل
یعنی یادوں کے بھی دیے ہیں سانپ
منصور آفاق

گہری کالی رات کے دو المیے تھے آس پاس

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 187
روشنی کے خواب، خوشبو کے دیے تھے آس پاس
گہری کالی رات کے دو المیے تھے آس پاس
آ گئے، اچھا کیا، بھیگی ہوئی اِس شام میں
ایسی رت میں آپ ہی بس چاہیے تھے آس پاس
اک رندھی آواز تھی میرے گلے میں ہجر کی
درد کے روتے ہوئے کچھ ماہیے تھے آس پاس
ہونٹ میرے رات بھر، یہ سوچیے، ہونٹوں پہ تھے
ہاتھ میرے، آپ اتنا جانیے، تھے آس پاس
جب بدن میں بادلوں کا شور تھا تم تھے کہاں
جب چمکتے بجلیوں کے زاویے تھے آس پاس
دیکھتی تھیں اس کی آنکھیں میرے چہرے کے نقوش
زندگی کے آخری جب ثانیے تھے آس پاس
اک فریبِ ذات تھا پھیلا ہوا صدیوں کے بیچ
چاند جیسے ناموں والے کالیے تھے آس پاس
رات کی دیوار پر فوٹو گراف اک چاند کا
اور کالے بادلوں کے حاشیے تھے آس پاس
نظم کی میت کوئی لٹکا رہا تھا پیڑ سے
اور پریشاں حال کچھ بالشتیے تھے آس پاس
اک سفر میں نے کیا تھا وادیِ تاریخ میں
بین تھے چیخوں بھرے اور مرثیے تھے آس پاس
جب مرا سر کٹ رہا تھا کربلائے وقت میں
اہل کوفہ اپنی دستاریں لیے تھے آس پاس
ہفتہ بھر سے ڈائری ملتی نہیں منصور کی
فون پر کچھ رابطے میں نے کیے تھے آس پاس
منصور آفاق