پھرتے ہیں ہم بھی ہاتھ میں سر کو لیے ہوئے

دیوان اول غزل 611
ظالم کہیں تو مل کبھو دارو پیے ہوئے
پھرتے ہیں ہم بھی ہاتھ میں سر کو لیے ہوئے
آئوگے ہوش میں تو ٹک اک سدھ بھی لیجیو
اب تو نشے میں جاتے ہو زخمی کیے ہوئے
جی ڈوبتا ہے اس گہرتر کی یاد میں
پایان کار عشق میں ہم مرجیے ہوئے
سی چاک دل کہ چشم سے ناصح لہو تھمے
ہوتا ہے کیا ہمارے گریباں سیے ہوئے
کافر ہوئے بتوں کی محبت میں میرجی
مسجد میں آج آئے تھے قشقہ دیے ہوئے
میر تقی میر