زہرِ غم روز پیے جاتا ہُوں
معجزہ ہے کہ جیے جاتا ہُوں
پَڑ گئی ہے مجھے کچھ عادَت سی
خُود کو اِلزام دِیے جاتا ہُوں
زخم پَر زخم لگے جاتے ہیں
اُس کا احسان لیے جاتا ہُوں
مشغلہ ہے یہی تنہائی کا
گفتگو اُس سے کیے جاتا ہُوں
کتنی خُوش مجھ سے ہے دُنیا ضامنؔ
ہونٹ اُور زخم سِیے جاتا ہُوں
ضامن جعفری