ٹیگ کے محفوظات: بنے

کر نہیں بنتی کسو سے جو بنے

دیوان سوم غزل 1265
میر کیوں رہتے ہیں اکثر ان منے
کر نہیں بنتی کسو سے جو بنے
خون ہو کر بہ گیا مدت ہوئی
دل جو ڈھونڈو ہو سو کیسا کس کنے
ہے تو کل جب سے ہم درویش ہیں
کر ہی چکتے ہیں جو کچھ دل میں ٹھنے
عالم خاکی بھی بسمل گاہ ہے
ہو رہے ہیں ڈھیر یاں سو سو جنے
اس شکارافگن کے ہم بھی صید ہیں
خاک و خوں میں لوٹتے چھاتی چھنے
میر تقی میر

شام کے شعلے بھی گنے جائیں

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 295
شعر کچھ موت پر کہے جائیں
شام کے شعلے بھی گنے جائیں
اس سے، آٹو گراف بک پہ نہیں
دستخط ہاتھ پر لیے جائیں
رفتگاں کا خیال آتا ہے
روح سے رابطے کئے جائیں
ہم کوگوتم بھی زخم دیتا ہے
شاردا سے کہاں پرے جائیں
پانیوں کو زمیں پہ آنا ہے
جتنی اونچائی پر چلے جائیں
دو وجودوں کی ایک آہٹ سے
خواب کچھ ریت پر بنُے جائیں
بانسری کی سریں کہیں منصور
گیت دریا کے بھی سنے جائیں
منصور آفاق