ٹیگ کے محفوظات: گنے

شام کے شعلے بھی گنے جائیں

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 295
شعر کچھ موت پر کہے جائیں
شام کے شعلے بھی گنے جائیں
اس سے، آٹو گراف بک پہ نہیں
دستخط ہاتھ پر لیے جائیں
رفتگاں کا خیال آتا ہے
روح سے رابطے کئے جائیں
ہم کوگوتم بھی زخم دیتا ہے
شاردا سے کہاں پرے جائیں
پانیوں کو زمیں پہ آنا ہے
جتنی اونچائی پر چلے جائیں
دو وجودوں کی ایک آہٹ سے
خواب کچھ ریت پر بنُے جائیں
بانسری کی سریں کہیں منصور
گیت دریا کے بھی سنے جائیں
منصور آفاق

اِس بجھتی چتا کے بھی شعلے تو گنے جائیں

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 294
مرتے ہوئے سورج پر دو شعر کہے جائیں
اِس بجھتی چتا کے بھی شعلے تو گنے جائیں
گل کرتا ہوں اب شمعیں ا ے قافلے والومیں
جو چاہتے ہیں جانا ،وہ لوگ چلے جائیں
چل سندھ کے ساحل پرہر موجہ ء طوفاں میں
دریا کے مغنی سے کچھ گیت سنے جائیں
پھر پائے محمدﷺکے مصحف کی تلاوت ہو
پھر نقشِ کفِ پا کے الہام پڑھے جائیں
سو زخم اثاثہ ہوں اک پاؤں دھروں جب بھی
خنجر مرے رستے میں اس طرح چنے جائیں
ہم دار ستادوں سے منصور نہیں ممکن
جس سمت زمانہ ہو اس سمت بہے جائیں
منصور آفاق