ٹیگ کے محفوظات: گئی

مجھ کو ملا جَہاں سے یہ انعامِ آگہی

سینہ ہے زَخم زخم تو ہونٹوں پہ خامشی
مجھ کو ملا جَہاں سے یہ انعامِ آگہی
بے نغمہ و صدا ہے وہ بُت خانہِ خیال
کرتے تھے گفتگو جہاں پتھر کے ہونٹ بھی
اِک تارہ ٹوٹ کر، یمِ گردوں میں کھو گیا
اک چیخ، کائنات کے دل میں اتر گئی
کتنے ہی چاند تھے اُفقِ دل پہ جلوہ گر
یادوں سے جن کی آج بھی چھنتی ہے روشنی
کیا کیا نہ یاد آئے ہیں احساں بہار کے
جب دیکھتا ہوں کشتِ غمِ دل ہری بھری
تنہائیوں کے ساز پہ بجتا ہے دیپ راگ
جس دم ہواے شب سے سُلگتی ہے چاندنی
شا خو ! بھری بہار میں رقصِ برہنگی!
مہکی ہوئی وہ چادرِ گُل بار کیا ہوئی!
وہ پھر رہے ہیں زخم بپا آج دشت دشت
قدموں میں جن کے شاخِ گلِ تر جُھکی رہی
یوں بھی بڑھی ہے وسعتِ ایوانِ رنگ و بُو
دیوارِ گلستاں درِ زنداں سے جا ملی
رعنائیاں چمن کی تو پہلے بھی کم نہ تھیں
اب کے مگر، سجائی گئی شاخِ دار بھی
(۱ سے ۵ اشعار’روشنی اے روشنی، میں
شامل ہیں یہاں مکمل غزل قارئین کی نذر ہے)
شکیب جلالی

یہ شگفتِ گل کا موسم بڑا خوش گوار ہوتا

ہمیں جیب و آستیں پر اگر اختیار ہوتا
یہ شگفتِ گل کا موسم بڑا خوش گوار ہوتا
گونجتے ہیں شکیبؔ آنکھوں میں
آنے والی کسی صدی کے گیت
ثاند کی پر بہار وادی میں
ایک دوشیزہ چن رہی ہے کپاس
بھاگتے سایوں کی چیخیں، ٹوٹے تاروں کا شور
میں ہوں اور اک محشرِ بے خواب آدھی رات کو
بات میری کہاں سمجھتے ہو
آنسوؤں کی زباں سمجھتے ہو
ہاۓ وہ آگ کہ جو دل میں سلگتی ہی رہے
ہاۓ وہ بات کہ جس کا کبھی اظہار نہ ہو
جنگل جلے تو ان کو خبر تک نہ ہو سکی
چھائی گھٹا تو جھوم اٹھے بستیوں کے لوگ
مجھ کو آمادہِ سفر نہ کرو
راستے پر خطر نہ ہو جائیں
خوشی کی بات نہیں ہے کوئی فسانے میں
وگرنہ عذر نہ تھا آپ کو سنانے میں
پائلیں بجتی رہیں کان میں سودائی کے
کوئی آیا نہ گیا رات کے سنّاٹے میں
خاموشی کے دکھ جھیلو گے ہنستے بولتے شہروں میں
نغموں کی خیرات نہ بانٹو جنم جنم کے بہروں میں
ہر شاخ سے گہنے چھین لیے ، ہر دال سے موتی بین لیے
اب کھیت سنہرے کھیت نہیں، ویرانے ہی ویرانے ہیں
طلسمِ گردشِ ایّام کس طرح ٹوٹے
نظر علیل، جنوں خام، فکر آوارہ
اس گلبدن کی بوۓ قبا یاد آ گئی
صندل کے جنگلوں کی ہوا یاد آ گئی
آبلہ پائی کا ہم کو غم نہ تھا
رہنماؤں کی ہنسی تڑپا گئی
جس دم قفس میں موسمِ گل کی خبر گئی
اک بار قیدیوں پہ قیامت گزر گئی
کتنے ہی لوگ صاحبِ احساس ہو گئے
اک بے نوا کی چیخ بڑا کام کر گئی
اب انہیں پرسشِ حالات گراں گزرے گی
بد گمانی ہے تو ہر بات گراں گزرے گی
دیکھ زخمی ہوا جاتا ہے دو عالم کا خلوص
ایک انساں کو تری ذات سے دکھ پہنچا ہے
سحر میں حسن ہے کیسا، بہارِ شب کیا ہے
جو دل شگفتہ نہیں ہے تو پھر یہ سب کیا ہے
گمرہی ہمیں شکیبؔ دے رہی ہے یہ فریب
رہنما غلط نہیں، راستہ طویل ہے
اس طرح گوش بر آواز ہیں اربابِ ستم
جیسے خاموشیِٔ مظلوم صدا رکھتی ہے
کسی کا قرب اگر قربِ عارضی ہے شکیبؔ
فراقِ یار کی لذّت ہی پائیدار رہے
ہوا جو صحنِ گلستاں میں راج کانٹوں کا
صبا بھی پوچھنے آئی مزاج کانٹوں کا
ہم نے گھبرا کے موند لیں آنکھیں
جب کوئی تارہ ٹوٹتا دیکھا
تھکن سے چور ہیں پاؤں کہاں کہاں بھٹکیں
ہر ایک گام نیا حسن رہ گزار سہی
کمتر نہ جانیں لوگ اسے مہر و ماہ سے
ہم نے گرا دیا جسے اپنی نگاہ سے
یہ لطف زہر نہ بن جاۓ زندگی کے لیے
چلے تو آۓ ہو تجدیدِ دوستی کے لیے
ہم نے جسے آزاد کیا حلقہِ شب سے
حاصل نہیں ہم کو اسی سورج کا اجالا
ہم اپنے چاکِ قبا کو رفو تو کر لیتے
مگر وہی ہے ابھی تک مزاج کانٹوں کا
سچ کہو میری یاد بھی آئی؟
جب کبھی تم نے آئینہ دیکھا
سکوں بدوش کنارا بھی اب ابھر آئے
سفینہ ہائے دل و جاں بھنور کے پار سہی
یا میں بھٹک گیا ہوں سرِ رہ گزر شکیبؔ
یا ہٹ گئی ہے منزلِ مقسود راہ سے
نہ جانے ہو گیا کیوں مطمئن تجھے پا کر
بھٹک رہا تھا مرا دل خود آگہی کے لیے
شکیب جلالی

تا ابد دھوم مچ گئی میری

دیکھ مستی وجود کی میری
تا ابد دھوم مچ گئی میری
تُو توجہ اِدھر کرے نہ کرے
کم نہ ہو گی سپردگی میری
دل مرا کب کا ہو چکا پتھر
موت تو کب کی ہو چکی میری
اب تو برباد کر چکے، یہ کہو
کیا اسی میں تھی بہتری میری؟
میرے خوش رنگ زخم دیکھتے ہو؟
یعنی پڑھتے ہو شاعری میری؟
اب تری گفتگو سے مجھ پہ کھُلا
کیوں طبیعت اداس تھی میری
دل میں اب کوئی آرزو ہی نہیں
یعنی تکمیل ہو گئی میری
زندگی کا مآل اتنا ہے
زندگی سے نہیں بنی میری
چاند حسرت زدہ سا لگتا ہے
کیا وہاں تک ہے روشنی میری؟
دھوپ اُس کی ہے میرے آنگن میں
اُس کی چھت پر ہے چاندنی میری
اک مہک روز آ کے کہتی ہے
منتظر ہے کوئی گلی میری
جانے کب دل سے آنکھ تک آکر
بہہ گئی چیز قیمتی میری
اب میں ہر بات بھول جاتا ہوں
ایسی عادت نہ تھی، کہ تھی میری؟
رات بھر دل میں غُل مچاتی ہے
آرزو کوئی سرپھری میری
میری آنکھوں میں آ کے بیٹھ گیا
شامِ فرقت اجاڑ دی میری
پہلے سینے میں دل دھڑکتا تھا
اب دھڑکتی ہے بے دلی میری
کیا عجب وقت ہے بچھڑنے کا
دیکھ، رکتی نہیں ہنسی میری
خود کو میرے سپرد کربیٹھا
بات تک بھی نہیں سنی میری
تیرے انکار نے کمال کیا
جان میں جان آگئی میری
خوب باتیں بنا رہا تھا مگر
بات اب تک نہیں بنی میری
میں تو پل بھر جیا نہیں عرفان
عمر کس نے گزار دی میری؟
عرفان ستار

جس کا ڈر تھا یہ وہ گھڑی ہے میاں

دل لگی، دل کو لگ گئی ہے میاں
جس کا ڈر تھا یہ وہ گھڑی ہے میاں
لوگ کیوں اِس قَدَر سکون سے ہیں ؟
بے حِسی ہے کہ بے رُخی ہے میاں؟
آ رہی ہے تپش مِرے دِل تَک
کیا کہیِں آگ لگ گئی ہے میاں ؟
ہنس رہے ہیں تمام دیوانے
جانے غفلت کہ آگَہی ہے میاں
حادثے نقش ہونا چاہتے ہیں
میری دہلیز دیکھ لی ہے میاں
ڈھونڈتا پھِر رہا ہے دشمن کو
جبکہ دشمن خود آدمی ہے میاں
ضامنؔ! اَللہ دے شفا تُم کو
تُم کو تَو کَربِ آگہی ہے میاں
سہل ہوتا تَو کہہ چکے ہوتے
جیسی بھی ہے گذر رہی ہے میاں
گُل کبھی ہو گیا تھا ایک چراغ
آج تک اُس کی روشنی ہے میاں
اِس مَرَض کا علاج کیسے ہو؟
ہر طرف ایک اَبتَری ہے میاں !
کوچہِ حُسن تَو نہیں یہ جگہ
دیکھی بھالی سی لگ رہی ہے میاں
کوئی پہچان جائے گا ضامنؔ
چُپ رہو یہ وہی گَلی ہے میاں
ضامن جعفری

اب تو آ جا کہ رات بھیگ چلی

سو گئی شہر کی ہر ایک گلی
اب تو آ جا کہ رات بھیگ چلی
کوئی جھونکا چلا تو دل دھڑکا
دل دھڑکتے ہی تیری یاد آئی
کون ہے تو کہاں سے آیا ہے
کہیں دیکھا ہے تجھ کو پہلے بھی
تو بتا کیا تجھے ثواب ملا
خیر میں نے تو رات کاٹ ہی لی
مجھ سے کیا پوچھتا ہے میرا حال
سامنے ہے ترے کتاب کھلی
میرے دل سے نہ جا خدا کے لیے
ایسی بستی نہ پھر بسے گی کبھی
میں اسی غم میں گھلتا جاتا ہوں
کیا مجھے چھوڑ جائے گا تو بھی
ایسی جلدی بھی کیا، چلے جانا
مجھے اِک بات پوچھنی ہے ابھی
آ بھی جا میرے دل کے صدر نشیں
کب سے خالی پڑی ہے یہ کرسی
میں تو ہلکان ہو گیا ناصر
مدتِ ہجر کتنی پھیل گئی
ناصر کاظمی

چھتوں پہ گھاس ہوا میں نمی پلٹ آئی

یہ خوابِ سبز ہے یا رُت وہی پلٹ آئی
چھتوں پہ گھاس ہوا میں نمی پلٹ آئی
کچھ اس ادا سے دُکھایا ہے تیری یاد نے دل
وہ لہر سی جو رگ و پے میں تھی پلٹ آئی
تری ہنسی کے گلابوں کو کوئی چھو نہ سکا
صبا بھی چند قدم ہی گئی پلٹ آئی
خبر نہیں وہ مرے ہمسفر کہاں پہنچے
کہ رہگزر تو مرے ساتھ ہی پلٹ آئی
کہاں سے لاؤ گے ناصر وہ چاند سی صورت
گر اِتفاق سے وہ رات بھی پلٹ آئی
ناصر کاظمی

رات نیند آ گئی درختوں میں

گا رہا تھا کوئی درختوں میں
رات نیند آ گئی درختوں میں
چاند نکلا اُفق کے غاروں سے
آگ سی لگ گئی درختوں میں
مینہ جو برسا تو برگ ریزوں نے
چھیڑ دی بانسری درختوں میں
یہ ہوا تھی کہ دھیان کا جھونکا
کس نے آواز دی درختوں میں
ہم اِدھر گھر میں ہو گئے بے چین
دُور آندھی چلی درختوں میں
لیے جاتی ہے موسموں کی پکار
اجنبی اجنبی درختوں میں
کتنی آبادیاں ہیں شہر سے دُور
جا کے دیکھو کبھی درختوں میں
نیلے پیلے سفید لال ہرے
رنگ دیکھے سبھی درختوں میں
خوشبوؤں کی اُداس شہزادی
رات مجھ کو ملی درختوں میں
دیر تک اُس کی تیز آنکھوں سے
روشنی سی رہی درختوں میں
چلتے چلتے ڈگر اُجالوں کی
جانے کیوں مڑ گئی درختوں میں
سہمے سہمے تھے رات اہلِ چمن
تھا کوئی آدمی درختوں میں
ناصر کاظمی

کچھ تو بتا کیا بات ہوئی ہے

آج تجھے کیوں چپ سی لگی ہے
کچھ تو بتا کیا بات ہوئی ہے
آج تو جیسے ساری دُنیا
ہم دونوں کو دیکھ رہی ہے
تو ہے اور بے خواب دریچے
میں ہوں اور سنسان گلی ہے
خیر تجھے تو جانا ہی تھا
جان بھی تیرے ساتھ چلی ہے
اب تو آنکھ لگا لے ناصر
دیکھ تو کتنی رات گئی ہے
ناصر کاظمی

میں اپنے ہاتھ کاٹ لوں تو اپنے ہونٹ سی

اے ہم سخن وفا کا تقاضا ہے اب یہی
میں اپنے ہاتھ کاٹ لوں تو اپنے ہونٹ سی
کن بے دِلوں میں پھینک دیا حادثات نے
آنکھوں میں جن کی نور نہ باتوں میں تازگی
بول اے مرے دیار کی سوئی ہوئی زمیں
میں جن کو ڈھونڈتا ہوں کہاں ہیں وہ آدمی
وہ شاعروں کا شہر وہ لاہور بجھ گیا
اگتے تھے جس میں شعر وہ کھیتی ہی جل گئی
میٹھے تھے جِن کے پھل وہ شجر کٹ کٹا گئے
ٹھنڈی تھی جس کی چھاؤں وہ دیوار گر گئی
بازار بند راستے سنسان بے چراغ
وہ رات ہے کہ گھر سے نکلتا نہیں کوئی
گلیوں میں اب تو شام سے پھرتے ہیں پہرہ دار
ہے کوئی کوئی شمع سو وہ بھی بجھی بجھی
اے روشنیٔ دِیدہ و دل اب نظر بھی آ
دُنیا ترے فراق میں اندھیر ہو گئی
القصہ جیب چاک ہی کرنی پڑی ہمیں
گو اِبتدائے غم میں بڑی احتیاط کی
اب جی میں ہے کہ سر کسی پتھر سے پھوڑیے
ممکن ہے قلبِ سنگ سے نکلے کوئی پری
بیکار بیٹھے رہنے سے بہتر ہے کوئی دِن
تصویر کھینچیے کسی موجِ خیال کی
ناصر بہت سی خواہشیں دل میں ہیں بے قرار
لیکن کہاں سے لاؤں وہ بے فکر زندگی
ناصر کاظمی

منزلوں چھا گئی خامشی سو رہو سو رہو

دن ڈھلا رات پھر آ گئی سو رہو سو رہو
منزلوں چھا گئی خامشی سو رہو سو رہو
سارا دن تپتے سورج کی گرمی میں جلتے رہے
ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا پھر چلی سو رہو سو رہو
گرم سنسان قریوں کی دھرتی مہکنے لگی
خاک رشکِ ارم بن گئی سو رہو سو رہو
رزم گاہِ جہاں بن گئی جائے امن و اماں
ہے یہی وقت کی راگنی سو رہو سو رہو
کیسے سنسان ہیں آسماں چپ کھڑے ہیں مکاں
ہے فضا اجنبی اجنبی سو رہو سو رہو
تھک گئے ناقہ و سارباں تھم گئے کارواں
گھنٹیوں کی صدا سو گئی سو رہو سو رہو
چاندنی اور دھوئیں کے سوا دور تک کچھ نہیں
سو گئی شہر کی ہر گلی سو رہو سو رہو
گردشِ وقت کی لوریاں رات کی رات میں
پھر کہاں یہ ہوا یہ نمی سو رہو سو رہو
ساری بستی کے لوگ اس مدھر لے میں کھوئے گئے
دُور بجنے لگی بانسری سو رہو سو رہو
دُور شاخوں کے جھرمٹ میں جگنو بھی گم ہو گئے
چاند میں سو گئی چاندنی سو رہو سو رہو
گھر کے دیوار و دَر راہ تک تک کے شل ہو گئے
اب نہ آئے گا شاید کوئی سو رہو سو رہو
سُست رفتار تارے بھی آنکھیں جھپکنے لگے
غم کے مارو گھڑی دو گھڑی سو رہو سو رہو
منہ اندھیرے ہی ناصر کسے ڈھونڈنے چل دیے
دُور ہے صبحِ روشن ابھی سو رہو سو رہو
ناصر کاظمی

چاند خود محوِ چاندنی ہے آج

یوں فضا آئنہ بنی ہے آج
چاند خود محوِ چاندنی ہے آج
جس سے ملنے کو میں ترستا تھا
اُس نے خود مجھ سے بات کی ہے آج
کتنی مدت کے بعد لوگوں نے
کوئی سچی خبر سنی ہے آج
ایک بھی آشیاں نہیں محفوظ
آگ کچھ اِس طرح لگی ہے آج
آنکھ دھندلا گئی تو غم کیسا
دلِ پرشوق تو وہی ہے آج
صاف ظاہر ہے تیری صورت سے
تیری نیت بدل گئی ہے آج
باصر کاظمی

زہر کیسا لگا، ہو چکی خودکشی

اے زمانے بتا، کیا ہوئی خودکشی
زہر کیسا لگا، ہو چکی خودکشی؟
سُرخروئی کے درجے کو پہنچی ہوئی
ہائے! ہائے! مری آخری خودکشی
ایک بھی کام دل سے نہیں ہو سکا
زندگی، شاعری، کافری، خودکشی
بھوک نے چاٹ لی وقفۂ شور میں
برتنوں میں سجائی گئی خودکشی
چار بچّوں کی ماں کیا کرے گی، جسے
کم سِنی میں ملی کاغذی خودکشی
سارہؔ، ثروتؔ، شکیبؔ اور میرے لیے
لا کوئی مدھ بھری مذہبی خودکشی
عشق نے جو کیا حال، مت پوچھیے
کر گئے ہوش میں شیخ جی خودکشی
روکنے ٹوکنے والا کوئی نہیں
روز کرتا ہوں میں داخلی خودکشی
پیڑ، پودے فلکؔ چیخنے لگ گئے
سب پرندوں نے جب سوچ لی خودکشی
افتخار فلک

دبنے والی نہیں مری آواز

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 32
کیا ہے مدّھم اگر پڑی آواز
دبنے والی نہیں مری آواز
تیری نظریں کہ آبشار گرے
میرا دامن کہ گونجتی آواز
یوں ہُوا ہے کہ ذکر سے تیرے
تیرے پیکر میں ڈھل گئی آواز
ہائے کس جذبۂ جواں سے ہے
نکھری نکھری دُھلی دھُلی آواز
کوئی غنچہ چٹک رہا ہو گا
تھی توانا بھری بھری آواز
نامُرادی کا کیا گلہ ماجدؔ
ہم نے اُٹھنے ہی جب نہ دی آواز
ماجد صدیقی

ہاں مرحلہ یہ بھی دیدنی ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 45
رستے میں جو شام پڑ گئی ہے
ہاں مرحلہ یہ بھی دیدنی ہے
دشوار نہ تھی کچھ ایسی رہ بھی
کیوں سانس اُکھڑ اُکھڑ گئی ہے
دیکھا تھا جو دُکھ عروج پر بھی
اَب شام اُسی کی ڈھل چلی ہے
کِس چاند کی ضَو زمیں پہ لایا
یہ جسم ترا، کہ چاندنی ہے
ماجدؔ ترے ہونٹ چُوم لوں مَیں
کیا بات پتے کی تُو نے کی ہے
ماجد صدیقی

تو مری پہلی محبت تھی مرے آخری دوست

احمد فراز ۔ غزل نمبر 33
تجھ سے مل کر تو یہ لگتا ہے کہ اے اجنبی دوست
تو مری پہلی محبت تھی مرے آخری دوست
لوگ ہر بات کا افسانہ بنا دیتے ہیں
یہ تو دنیا ہے مری جاں کئی دشمن کئی دوست
تیرے قامت سے بھی لپٹی ہے امربیل کوئی
میری چاہت کو بھی دنیا کی نظر کھا گئی دوست
یاد آئی ہے تو پھر ٹوٹ کے یاد آئی ہے
کوئی گزری ہوئی منزل کوئی بھولی ہوئی دوست
اب بھی آئے ہو تو احسان تمہارا لیکن
وہ قیامت جو گزرتی تھی گزر بھی گئی دوست
تیرے لہجے کی تھکن میں ترا دل شامل ہے
ایسا لگتا ہے جدائی کی گھڑی آ گئی دوست
بارش سنگ کا موسم ہے مرے شہر میں تو
تو یہ شیشے سا بدن لے کے کہاں آ گئی دوست
میں اسے عہد شکن کیسے سمجھ لوں جس نے
آخری خط میں لکھا تھا کہ فقط "آپ کی دوست”
احمد فراز

تا ابد دھوم مچ گئی میری

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 58
دیکھ مستی وجود کی میری
تا ابد دھوم مچ گئی میری
تُو توجہ اِدھر کرے نہ کرے
کم نہ ہو گی سپردگی میری
دل مرا کب کا ہو چکا پتھر
موت تو کب کی ہو چکی میری
اب تو برباد کر چکے، یہ کہو
کیا اسی میں تھی بہتری میری؟
میرے خوش رنگ زخم دیکھتے ہو؟
یعنی پڑھتے ہو شاعری میری؟
اب تری گفتگو سے مجھ پہ کھُلا
کیوں طبیعت اداس تھی میری
دل میں اب کوئی آرزو ہی نہیں
یعنی تکمیل ہو گئی میری
زندگی کا مآل اتنا ہے
زندگی سے نہیں بنی میری
چاند حسرت زدہ سا لگتا ہے
کیا وہاں تک ہے روشنی میری؟
دھوپ اُس کی ہے میرے آنگن میں
اُس کی چھت پر ہے چاندنی میری
اک مہک روز آکے کہتی ہے
منتظر ہے کوئی گلی میری
جانے کب دل سے آنکھ تک آکر
بہہ گئی چیز قیمتی میری
اب میں ہر بات بھول جاتا ہوں
ایسی عادت نہ تھی، کہ تھی میری؟
رات بھر دل میں غُل مچاتی ہے
آرزو کوئی سرپھری میری
میری آنکھوں میں آکے بیٹھ گیا
شامِ فرقت اجاڑ دی میری
پہلے سینے میں دل دھڑکتا تھا
اب دھڑکتی ہے بے دلی میری
کیا عجب وقت ہے بچھڑنے کا
دیکھ، رکتی نہیں ہنسی میری
خود کو میرے سپرد کربیٹھا
بات تک بھی نہیں سنی میری
تیرے انکار نے کمال کیا
جان میں جان آگئی میری
خوب باتیں بنا رہا تھا مگر
بات اب تک نہیں بنی میری
میں تو پل بھر جیا نہیں عرفان
عمر کس نے گزار دی میری؟
عرفان ستار

تم سے مل کر بہت خوشی ہو کیا

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 41
گاہے گاہے بس اب یہی ہو کیا
تم سے مل کر بہت خوشی ہو کیا
مل رہی ہو بڑ ے تپاک کے ساتھ
مجھ کو یکسر بھلا چکی ہو کیا
یاد ہیں اب بھی اپنے خواب تمہیں
مجھ سے مل کر اداس بھی ہو کیا
بس مجھے یوں ہی اک خیال آیا
سوچتی ہو ، تو سوچتی ہو کیا
اب مری کوئی زندگی ہی نہیں
اب بھی تم میری زندگی ہو کیا
کیا کہا عشق جاودانی ہے
آخری بار مل رہی ہو کیا
ہاں فضا یاں کی سوئی سوئی سی ہے
تو بہت تیز روشنی ہو کیا؟
میرے سب طنز بے اثر ہی رہے
تم بہت دور جا چکی ہو کیا؟
دل میں اب سوزِ انتظار نہیں
شمعِ امید بجھ گئی ہو کیا؟
اس سمندر پہ تشنہ کام ہوں میں
بان، تم اب بھی بہہ رہی ہو کیا
جون ایلیا

دل میں پتھر کی طرح بیٹھ گئی

فیض احمد فیض ۔ غزل نمبر 16
شام دھندلانے لگی اور مری تنہائی
دل میں پتھر کی طرح بیٹھ گئی
چاند ابھرنے لگا یک بار تری یاد کے ساتھ
زندگی مونس و غم خوار نظر آنے لگی​
قطعہ
فیض احمد فیض

ہے یاد مجھے رنگوں بھری سات مئی تھی

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 482
اک شخص نے ہونٹوں سے کوئی نظم کہی تھی
ہے یاد مجھے رنگوں بھری سات مئی تھی
میں انگلیاں بالوں میں یونہی پھیر رہا تھا
وہ کمرے کی کھڑکی سے مجھے دیکھ رہی تھی
اس شخص کے گھر وہی حالت تھی مگر اب
بِڈ روم کی دیوار پہ تصور نئی تھی
آئی ہے پلٹ کر کئی صدیوں کے سفر سے
اس گیٹ کے اندر جو ابھی کار گئی تھی
موسم کے تغیر نے لکھا مرثیہ اس کا
منصور ندی مل کے جو دریا سے بہی تھی
منصور آفاق

روشنی اے روشنی اے روشنی چشم توجہ

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 416
قبر سے تاریک تر جیون گلی چشم توجہ
روشنی اے روشنی اے روشنی چشم توجہ
چھپ نہیں سکتا خدا اگلی صدی تک آدمی سے
ہے ابھی افلاک پر کچھ سرسری چشم توجہ
وقتِ رخصت دیر تک جاتی ہوئی بس کا تعاقب
دھول میں پھر کھو گئی اشکوں بھری چشم توجہ
آپ جیسی ایک لڑکی پر لکھی ہے نظم میں نے
اک ذرا سی چاہیے بس آپ کی چشم توجہ
وہ اندھیرا تھا کہ میلوں دور چلتی گاڑیوں کی
روشنی کے ساتھ فوراً چل پڑی چشمِ توجہ
بیل بجی مدھم سروں میں در ہوا وا دھیرے دھیرے
اس کو دیکھا اور پھر پتھرا گئی چشمِ توجہ
اپنے چہرے پر سیاہی تھوپ دے منصور صاحب
اس کی ساری نیگرو کی سمت تھی چشم توجہ
منصور آفاق

ایک مرحوم آدمی اور میں

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 323
غم کی تقریبِ ملتوی اور میں
ایک مرحوم آدمی اور میں
اک پہاڑی درے میں مل بیٹھے
شہر والوں کا ایلچی اور میں
اپنا ماضی تلاش کرتے ہیں
تیری آنکھوں میں زندگی اور میں
بات کرتی ہوئی اندھیرے سے
ایک لڑکی حرام کی اور میں
اپنی بستی کے گارہاہوں گیت
اینٹ سے اینٹ بج چکی اور میں
پڑھ رہا ہوں کتابِ دل منصور
وقت کی آنکھ لگ گئی اور میں
منصور آفاق

جہاں ہر آشنا بھی اجنبی ہے

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 237
جنون عشق کی منزل وہی ہے
جہاں ہر آشنا بھی اجنبی ہے
انہی مجبوریوں نے مارا ڈالا
کہ تیری ہر خوشی میری خوشی ہے
ابھی ہے ان کے آنے کی توقع
ابھی راہوں میں کچھ کچھ روشنی ہے
مری بربادیوں کا پوچھنا کیا
تری نظروں کی قیمت بڑھ گئی ہے
جہاں ان کا سوال آیا ہے باقیؔ
وہاں اپنی کمی محسوس کی ہے
باقی صدیقی