زمرہ جات کے محفوظات: فیض احمد فیض
خورشیدِ محشر کی لو
آج کے دن نہ پوچھو، مرے دوستو
دور کتنے ہیں خوشیاں منانے کے دن
کھُل کے ہنسنے کے دن، گیت گانے کے دن
پیار کرنے کے دن، دل لگانے کے دن
آج کے دن نہ پوچھو، مرے دوستو
زخم کتنے ابھی بختِ بسمل میں ہیں
دشت کتنے ابھی راہِ منزل میں ہیں
تیر کتنے ابھی دستِ قاتل میں ہیں
آج کا دن زبوں ہے، مرے دوستو
آج کے دن تو یوں ہے، مرے دوستو
جیسے درد و الم کے پرانے نشاں
سب چلے سوئے دل کارواں، کارواں
ہاتھ سینے پہ رکھو تو ہر استخواں
سے اٹھے نالہءالاماں، الاماں
آج کے دن نہ پوچھو،مرے دوستو
کب تمہارے لہو کے دریدہ عَلم
فرقِ خورشیدِ محشر پہ ہوں گے رقم
از کراں تا کراں کب تمہارے قدم
لے کے اٹھے گا وہ بحرِ خوں یم بہ یم
جس میں دھُل جائے گا آج کے دن کا غم
سارے درد و الم سارے جور و ستم
دور کتنی ہے خورشید محشر کی لو
آج کے دن نہ پوچھو، مرے دوستو
مرثیے
۔۱۔
دور جا کر قریب ہو جتنے
ہم سے کب تم قریب تھے اتنے
اب نہ آؤ گے تم نہ جاؤ گے
وصل و ہجراں بہم ہوئے کتنے
۔۲۔
چاند نکلے کسی جانب تری زیبائی کا
رنگ بدلے کسی صورت شبِ تنہائی کا
دولتِ لب سے پھر اے خسروِ شیریں دہناں
آج ارزاں ہو کوئی حرف شناسائی کا
گرمیِ رشک سے ہر انجمنِ گُل بدناں
تذکرہ چھیڑے تری پیرہن آرائی کا
صحنِ گلشن میں کبھی اے شہِ شمشاد قداں
پھر نظر آئے سلیقہ تری رعنائی کا
ایک بار اور مسیحائے دلِ دل زدگاں
کوئی وعدہ، کوئی اقرار مسیحائی کا
دیدہء و دل کو سنبھالو کہ سرِ شامِ فراق
ساز و سامان بہم پہنچا ہے رسوائی کا
۔۳۔
کب تک دل کی خیر منائیں، کب تک رہ دکھلاؤ گے
کب تک چین کی مہلت دو گے، کب تک یاد نہ آؤ گے
بیتا دید اُمید کا موسم، خاک اُڑتی ہے آنکھوں میں
کب بھیجو گے درد کا بادل، کب برکھا برساؤ گے
عہدِ وفا یا ترکِ محبت، جو چاہو سو آپ کرو
اپنے بس کی بات ہی کیا ہے، ہم سے کیا منواؤ گے
کس نے وصل کا سورج دیکھا، کس پر ہجر کی رات ڈھلی
گیسوؤں والے کون تھے کیا تھے، ان کو کیا جتلاؤ گے
فیض دلوں کے بھاگ میں ہے گھر بھرنا بھی، لُٹ جانا بھی
تم اس حسن کے لطف و کرم پہ کتنے دن اتراؤ گے
عہد و پیماں سے گزر جانے کو جی چاہتا ہے
ہارٹ اٹیک
درد اتنا تھا کہ اس رات دلِ وحشی نے
ہر رگِ جاں سے الجھنا چاہا
ہر بُنِ مُو سے ٹپکنا چاہا
اور کہیں دور ترے صحنِ چمن میں گویا
پتا پتا مرے افسردہ لہو میں دھل کر
حسنِ مہتاب سے آزردہ نظر آنے لگا
میرے ویرانہء تن میں گویا
سارے دُکھتے ہوئے ریشوں کی طنابیں کُھل کر
سلسلہ وار پتا دینے لگیں
رخصتِ قافلہء شوق کی تیاری کا
اور جب یاد کی بجھتی ہوئی شمعوں میں نظر آیا کہیں
ایک پل آخری لمحہ تری دلداری کا
درد اتنا تھا کہ اس سے بھی گزرنا چاہا
ہم نے چاہا بھی ، مگر دل نہ ٹھہرنا چاہا
دلدار دیکھنا
طوفاں بہ دل ہے ہر کوئی دلدار دیکھنا
گُل ہو نہ جائے مشعلِ رخسار دیکھنا
آتش بہ جاں ہے ہر کوئی سرکار دیکھنا
لو دے اٹھے نہ طرہء طرار دیکھنا
جذبِ مسافرانِ رہِ یار دیکھنا
سر دیکھنا، نہ سنگ، نہ دیوار دیکھنا
کوئے جفا میں قحطِ خریدار دیکھنا
ہم آ گئے تو گرمیِ بازار دیکھنا
اُس دلنواز شہر کے اطوار دیکھنا
بے التفات بولنا، بیزار دیکھنا
خالی ہیں گرچہ مسند و منبر، نگوں ہے خلق
رعبِ قبا و ہیبتِ دستار دیکھنا
جب تک نصیب تھا ترا دیدار دیکھنا
جس سمت دیکھنا، گل و گلزار دیکھنا
پھر ہم تمیزِ روز و مہ و سال کر سکیں
اے یادِ یار پھر اِدھر اِک بار دیکھنا
دُعا
آئیے ہاتھ اٹھائیں ہم بھی
ہم جنہیں رسمِ دعا یاد نہیں
ہم جنہیں سوزِ محبت کے سوا
کوئی بت، کوئی خدا یاد نہیں
آئیے عرض گزاریں کہ نگارِ ہستی
زہر امروز میں شیرینیِ فردا بھردے
وہ جنہیں تابِ گراں باریِ ایام نہیں
ان کی پلکوں پہ شب و روز کو ہلکا کردے
جن کی آنکھوں کو رخِ صبح کا یارا بھی نہیں
ان کی راتوں میں کوئی شمع منور کردے
جن کے قدموں کو کسی رہ کا سہارا بھی نہیں
ان کی نظروں پہ کوئی راہ اجاگر کردے
جن کا دیں پیرویِ کذب وریا ہے ان کو
ہمتِ کفر ملے، جرأتِ تحقیق ملے
جن کے سر منتظرِ تیغِ جفا ہیں ان کو
دستِ قاتل کو جھٹک دینے کی توفیق ملے
عشق کا سرِ نہاں جانِ تپاں ہے جس سے
آج اقرار کریں اور تپش مٹ جائے
حرفِ حق دل میں کھٹکتا ہے جو کانٹے کی طرح
آج اظہار کریں اور خلش مٹ جائے
(یومِ آزادی)
سرِ وادیِ سینا
پھر برق فروزاں ہے سرِ وادیِ سینا
پھر رنگ پہ ہے شعلہء رخسارِ حقیقت
پیغامِ اجل دعوتِ دیدارِ حقیقت
اے دیدہء بینا
اب وقت ہے دیدار کا دم ہے کہ نہیں ہے
اب قاتلِ جاں چارہِ گرِ کلفتِ غم ہے
گلزارِ ارم پرتوِ صحرائے عدم ہے
پندارِ جنوں
حوصلہء راہِ عدم ہے کہ نہیں ہے
پھر برق فروزاں ہے سرِ وادیِ سینا،اے دیدہء بینا
پھر دل کو مصفا کرو، اس لوح پہ شاید
مابینِ من و تو نیا پیماں کوئی اترے
اب رسمِ ستم حکمت خاصانِ زمیں ہے
تائیدِ ستم مصلحتِ مفتیِ دیں ہے
اب صدیوں کے اقرارِ اطاعت کو بدلنے
لازم ہے کہ انکار کا فرماں کوئی اترے
نہ کرم ہے ہم پہ حبیب کا، نہ نگا ہ ہم پہ عدو کی ہے
سوچنے دو
اک ذرا سوچنے دو
اس خیاباں میں
جو اس لحظہ بیاباں بھی نہیں
کون سی شاخ میں پھول آئے تھے سب سے پہلے
کون بے رنگ ہوئی رنگ و تعب سے پہلے
اور اب سے پہلے
کس گھڑی کون سے موسم میں یہاں
خون کا قحط پرا
گُل کی شہ رگ پہ کڑا
وقت پڑا
سوچنے دو
اک ذرا سوچنے دو
یہ بھرا شہر جو اب وادئ ویراں بھی نہیں
اس میں کس وقت کہاں
آگ لگی تھی پہلے
اس کے صف بستہ دریچوں میں سے کس میں اول
زہ ہوئی سرخ شعاعوں کی کماں
کس جگہ جوت جگی تھی پہلے
سوچنے دو
ہم سے اس دیس کا تم نام ونشاں پوچھتے ہو
جس کی تاریخ نہ جغرافیہ اب یاد آئے
اور یاد آئے تو محبوبِ گزشتہ کی طرح
روبرو آنے سے جی گھبرائے
ہاں مگر جیسے کوئی
ایسے محبوب یا محبوبہ کا دل رکھنے کو
آ نکلتا ہے کبھی رات بِتانے کے لئے
ہم اب اس عمر کو آ پہنچے ہیں جب ہم بھی یونہی
دل سے مل آتے ہیں بس رسم نبھانے کے لیے
دل کی کیا پوچھتے ہو
سوچنے دو
شب و روزِ آشنائی مہ و سال تک نہ پہنچے
پھر دل کے آئینے سے لہو پھوٹنے لگا
ایک شہرِ آشوب کا آغاز
اب بزمِ سخن صحبتِ لب سوختگاں ہے
اب حلقہء مے طائفہء بے طلباں ہے
گھر رہیے تو ویرانیِ دل کھانے کو آوے
رہ چلیے تو ہر گام پہ غوغائے سگاں ہے
پیوندِ رہِ کوچہء زر چشمِ غزالاں
پابوسِ ہوس افسرِ شمشاد قداں ہے
یاں اہلِ جنوں یک بہ دگر دست و گریباں
واں جیشِ ہوس تیغ بکف درپئے جاں ہے
اب صاحبِ انصاف ہے خود طالبِ انصاف
مُہر اُس کی ہے میزان بہ دستِ دگراں ہے
ہم سہل طلب کون سے فرہاد تھے لیکن
اب شہر میں تیرے کوئی ہم سا بھی کہاں ہے
سپاہی کا مرثیہ
اٹھو اب ماٹی سے اٹھو
جاگو میرے لال،
اب جاگو میرے لال
تمری سیج سجاون کارن
دیکھو آئی رین اندھیارن
نیلے شال دو شالے لے کر
جن میں اِن دُکھیَن اکھیَن نے
ڈھیر کیے ہیں اتنے موتی
اتنے موتی جن کی جیوتی
دان سے تمرا
جگ جگ لاگا
نام چمکنے
اٹھو اب ماٹی سے اٹھو
جاگو میرے لال
اب جاگو میرے لال
گھر گھر بکھرا بھور کا کندن
گھور اندھیرا اپنا آنگن
جانے کب سے راہ تکے ہیں
بالی دلہنیا ، بانکے ویِرن
سونا تمرا راج پڑا ہے
دیکھو کتنا کاج پڑا ہے
بیری بیراجے راج سنگھاسن
تم ماٹی میں لال
اٹھو اب ماٹی سے اٹھو ، جاگو میرے لال
ہٹ نہ کرو ماٹی سے اٹھو ، جاگو میرے لال
اب جاگو میرے لال
اعلانِ جنوں دل والوں نے اب کے بہ ہزار انداز کیا
بَلیک آؤٹ
جب سے بے نور ہوئی ہیں شمعیں
خاک میں ڈھونڈتا پھرتا ہوں نہ جانے کس جا
کھو گئی ہیں میری دونوں آنکھیں
تم جو واقف ہو بتاؤ کوئی پہچان مری
اس طرح ہے کہ ہر اِک رگ میں اُتر آیا ہے
موج در موج کسی زہر کا قاتل دریا
تیرا ارمان، تری یاد لیے جان مری
جانے کس موج میں ٖغلطاں ہے کہاں دل میرا
ایک پل ٹھہرو کہ اُس پار کسی دنیا سے
برق آئے مری جانب، یدِ بیضا لے کر
اور مری آنکھوں کے گُم گشتہ گہر
جامِ ظلمت سے سیہ مست
نئی آنکھوں کے شب تاب گُہر
لوٹا دے
ایک پل ٹھہرو کہ دریا کا کہیں پاٹ لگے
اور نیا دل میرا
زہر میں دھُل کے، فنا ہو کے
کسی گھاٹ لگے
پھر پئے نذر نئے دیدہ و دل لے کے چلوں
حسن کی مدح کروں، شوق کا مضمون لکھوں
غم نہ کر، غم نہ کر
درد تھم جائے گا غم نہ کر، غم نہ کر
یار لوٹ آئیں گے، دل ٹھہر جائے گا، غم نہ کر، غم نہ کر
زخم بھر جائے گا،
غم نہ کر، غم نہ کر
دن نکل آئے گا
غم نہ کر، غم نہ کر
ابر کھُل جائے گا، رات ڈھل جائے گی
غم نہ کر، غم نہ کر
رُت بدل جائے گی
غم نہ کر، غم نہ کر
یوں فضا مہکی کہ بدلا مرے ہمراز کا رنگ
یہاں سے شہر کو دیکھو
یہاں سے شہر کو دیکھو تو حلقہ در حلقہ
کھنچی ہے جیل کی صورت ہر ایک سمت فصیل
ہر ایک راہ گزر گردشِ اسیراں ہے
نہ سنگِ میل، نہ منزل، نہ ؐمخلصی کی سبیل
جو کوئی تیز چلے رہ تو پوچھتا ہے خیال
کہ ٹوکنے کوئی للکار کیوں نہیں آئی
جو کوئی ہاتھ ہلائے تو وہم کو ہے سوال
کوئی چھنک، کوئی جھنکار کیوں نہیں آئی
یہاں سے شہر کو دیکھو تو ساری خلقت میں
نہ کوئی صاحبِ تمکیں، نہ کوئی والیِ ہوش
ہر ایک مردِ جواں مجرمِ رسن بہ گلو
ہر اِک حسینہء رعنا، کنیزِ حلقہ بگوش
جو سائے دُور چراغوں کے گرد لرزاں ہیں
نہ جانے محفلِ غم ہے کہ بزمِ جام و سبُو
جو رنگ ہر در و دیوار پر پریشاں ہے
یہاں سے کچھ نہیں کھُلتا یہ پھول ہیں کہ لہو
کراچی، مارچ 1965ء
کاسہء چشم میں خوں نابِ جگر لے کے چلو
خونِ تمنا دریا دریا، دریا دریا عیش کی لہر
لہو کا سراغ
کہیں نہیں ہے کہیں بھی نہیں لہو کا سراغ
نہ دست و ناخن قاتل نہ آستیں پہ نشاں
نہ سرخیِ لبِ خنجر نہ رنگِ نوکِ سناں
نہ خاک پر کوئی دھبا نہ بام پر کوئی داغ
کہیں نہیں ہے کہیں بھی نہیں لہو کا سراغ
نہ صرف خدمتِ شاہاں کہ خوں بہا دیتے
نہ دیں کی نذر کہ بیعانہء جزا دیتے
نہ رزم گاہ میں برسا کہ معتبر ہوتا
کسی عَلم پہ رقم ھو کے مشتہر ہوتا
پکارتا رہا بے آسرا یتیم لہو
کسی کو بہرِ سماعت نہ وقت تھا نہ دماغ
نہ مدعی، نہ شہادت، حساب پاک ہوا
یہ خون خاک نشیناں تھا رزقِ خاک ہوا
کراچی، جنوری 1965ء
انتساب
آج کے نام
اور
آج کے غم کے نام
آج کا غم کہ ہے زندگی کے بھرے گلستاں سے خفا
زرد پتوں کا بن
زرد پتوں کا بن جو مرا دیس ہے
درد کی انجمن جو مرا دیس ہے
کلرکوں کی افسردہ جانوں کے نام
کِرم خوردہ دلوں اور زبانوں کے نام
پوسٹ مینوں کے نام
تانگے والوں کے نام
ریل بانوں کے نام
کارخانوں کے بھوکے جیالوں کے نام
بادشاہِ جہاں، والیِ ما سوا، نائب اللہ فی الارض،
دہقاں کے نام
جس کے ڈھوروں کو ظالم ہنکا لے گئے
جس کی بیٹی کو ڈاکو اٹھالے گئے
ہاتھ بھر کھیت سے ایک انگشت پٹوار نے کاٹ لی ہے
دوسری مالیے کے بہانے سے سرکار نے کاٹ لی ہے
جس کی پگ زور والوں کے پاؤں تلے
دھجیاں ہو گئی ہے
ان دکھی ماؤں کے نام
رات میں جن کے بچے بلکتے ہیں اور
نیند کی مار کھائے ہوئے بازوؤ ں میں سنبھلتے نہیں
دکھ بتاتے نہیں
منتوں زاریوں سےبہلتے نہیں
ان حسیناؤں کے نام
جن کی آنکھوں کے گُل
چلمنوں اور دریچوں کی بیلوں پہ بیکار کھل کھل کے
مرجھاگئے ہیں
ان بیاہتاؤ ں کے نام
جن کے بدن
بے محبت ریا کار سیجوں پہ سج سج کے اکتا گئے ہیں
بیواؤں کے نام
کٹڑیوں؎۱ اور گلیوں، محلوں کے نام
جن کی ناپاک خاشا ک سے چاند راتوں
کو آ آ کے کرتا ہے اکثر وضو
جن کے سایوں میں کرتی ہے آہ و بکا
آنچلوں کی حنا
چوڑیوں کی کھنک
کاکلوں کی مہک
آرزو مند سینوں کی اپنے پسینےمیں جلنے کی بو
پڑھنے والوں کے نام
وہ جو اصحابِ طبل و علم
کے دروں پر کتاب اور قلم
کا تقاضا لیے ہاتھ پھیلائے
پہنچے، مگر لوٹ کر گھر نہ آئے
وہ معصوم جو بھولپن میں
وہاں اپنے ننھے چراغوں میں لو کی لگن
لے کے پہنچے جہاں
بٹ رہے تھے، گھٹا ٹوپ، بے انت راتوں کے سائے
ان اسیروں کے نام
جن کے سینوں میں فردا کے شب تاب گوہر
جیل خانوں کی شوریدہ راتوں کی صر صر میں
جل جل کے انجم نما ہو گئے ہیں
آنے والے دنوں کے سفیروں کے نام
وہ جو خوشبوئے گل کی طرح
اپنے پیغام پر خود فدا ہو گئے ہیں
(ناتمام)
؎۱ کٹڑی۔ کٹڑے کی تصغیر، پنجابی میں ملحقہ مکانوں کے احاطے کو کہتے ہیں
فیض
میں فیض سے کوئی بیس سال قبل اس وقت متعارف ہواتھا جب وہ ایم ۔اے۔او کالج ، امرتسر میں لیکچرار تھے۔ایک اور پرانے دوست جو اس وقت فیض کے رفیق کار تھے، کل اچانک ایڈنبرا میں دکھائی دیے اور ان سے مل کر مجھے بیتے ہوئے دن یاد آگئے، معلوم یہ ہوا کہ فیض کو یہ ذمہ داری سونپی گئی تھی کہ وہ اس قدیم دوست کی ایڈنبرا میں آمد سے مجھے مطلع کریں گے۔لیکن وہ بھول گئے، اس زمانے میں بھی وہ اپنی بھول جانے کی عادت اور غائب دماغی کی وجہ سے خاصے مشہور تھے، لیکن ان کے طالب علم ان کی اس عادت کو آسانی سے درگزر کردیتے تھے۔کیونکہ کوئی پروفیسر یہ بھول جائے کہ اسے طلبا کولیکچر دینا تھا تو انہیں کبھی اس کا افسوس نہیں ہوتا۔اسی طرح تانگہ چلانے والوں کا بھی ان کے ساتھ یہی رویہ تھا، کیونکہ وہ کسی کے گھر جا کر باتوں میں مصروف ہوجاتے اور یہ بھول جاتے کہ باہر تانگہ کھڑا ہوا ہے اور اس طرح تانگے والوں کا کرایہ بڑھتا رہتا تھا۔اور ادبی لوگ انہیں یوں معاف کردیتے تھے کہ وہ اس وقت بھی ایک اہم شاعر تھے۔مجھے یہ معلوم کرکے بڑی مسرت ہوئی کہ اس ہفتے لندن میں ایک ادبی تقریب ان کے اعزاز میں منعقد کی جارہی ہے اور مجھے اس کا افسوس ہے کہ میں خود وہاں حاضر ہونے سے قاصر ہوں۔گزشتہ بار کوئی پانچ سال قبل جب وہ انگلستان آئے تھے تو ایک ایسی ہی تقریب میں شریک ہونے کا مجھے شرف حاصل ہوا تھا۔اس تقریب کے فوراًبعد فیض یورپ روانہ ہورہے تھے تاکہ وطن واپس جا سکیں۔جہاں انہیں جیل میں ڈال کر ان کا پرجوش خیر مقدم کیا گیا، کئی ادبی شخصیتوں کی زندگی میں اس قسم کی خفیف غلط فہمیاں پیدا ہوتی رہی ہیں۔اس بار وہ نسبتاً زیادہ طویل مدت کے لیے انگلستان میں قیام کررہے ہیں تاکہ خوش قسمتی سے ان کے دوستوں کو مستقبل قریب میں اسی قسم کسی اور غلط فہمی کا خوف باقی نہ رہے، نیز کسی محب وطن شاعر کو اپنے وطن سے خواہ کتنا ہی لگاؤ کیوں نہ ہو، یہ امر خاصا دل خوش کن ہوتا ہے کہ بعض اوقات وہ (کسی دوست کی طرح)بہت قریب سے جائزہ لینے کے بجائے چار یا پانچ ہزار میل کے فاصلے سے اپنے وطن کے بارے میں غور و خوض کرے۔یہ امر بلاشبہ افسوسناک ہے کہ فیض مع اہل و عیال ہمارے یہاں کے متعدد پر سکون اور رومان انگیز مقامات مثلاً میرے آبائی شہر مانچسٹر، بالیک ڈسٹرکٹ جہاں ایک زمانے میں اتنے سارے شاعروں نے عروج پایا، سب سے بڑھ کر ایڈنبرا میں رہنے کے بجائے لندن میں سکونت اختیار کررہے ہیں۔اسی شہر میں جو اینٹوں، کہر ، شور و غل اور اہالیان لندن کا ایک دیو ہیکل مجموعہ ہے۔ڈاکٹر جانسن کہا کرتے تھے کہ جب آدمی لندن سے اکتا جائے تو وہ زندگی سے اکتا جاتا ہے۔لیکن یہ اٹھارہویں صدی میں ہوتا تھا، آج تو یہ کہنا زیادہ صحیح ہو گا کہ جب آدمی زندگی سے اکتا جائے تو وہ لندن کا رخ کرتا ہے۔فیض بلا کے سگریٹ نوش واقع ہوئے ہیں، ہ بری عادت لندن کے کہر اور دھند کے ساتھ مل کر کہیں ان کی انتہائی تابناک صلاحیتوں کو ماند نہ کردے تاہم مجھے کامل یقین ہے کہ اپنی بیوی اور بچیوں کی مدد سے وہ اس مسئلے پر قابو پا لیں گے۔نیز یہ کہ ایک ادبی شخصیت کی حیثیت سے اس ملک میں ان کا قیام حقیقی معنوں میں تخلیقی ثابت ہو گا، وہ اب تک بہت کچھ کرچکے ہیں، لیکن انہیں ابھی اور بہت کچھ کرنا ہے۔اور اب جب کہ وہ دوسرے ہنگاموں سے آزاد ہیں، انہیں یقیناً خیال آئے گا کہ ان سے کس قدر زیادہ توقع کی جاتی ہے۔ان بیس برسوں میں مجھے یقین ہے کہ میں نے انہیں اس قسم کے موضوعات پر کم از کم بیس کتابیں لکھنے کا مشورہ دیا ہے۔جدید معاشرے میں فنکار کا مرتبہ، تاریخ ادب اردو یا مغربی تہذیب کے مقابلے میں اسلامی تہذیب کی نوعیت وغیرہ وغیرہ۔
ہر شخص کو جو ان سے واقف ہے، فطری طور پر یہ توقع بھی ہو گی کہ وہ اپنے فرصت کے اوقات میں مزید نظمیں لکھیں گے۔میری ہمیشہ سے یہ خواہش بھی رہی ہے کہ وہ دوسرے ممالک کی بعض نظمیں خصوصاً ہمارے عہد کی ترقی پسند شاعری کا ترجمہ اردو میں کریں۔جو اسی روایت یا عالمی تحریک سے تعلق رکھتی ہو، جس سے خود ان کی شاعری وابستہ ہے۔ویسے جارج بارد، جنہوں نے آئرستان ، ڈنمارک اور دوسرے علاقوں کی شاعری کو انگریزی میں منتقل کرنے کی کوشش کی ہے، اپنی ایک کتاب لیونگرومیں لکھتے ہیں کہ ’ترجمہ زیادہ سے زیادہ ایک بازگشت ہی ہوتا ہے۔‘تمام ترجمہ کرنے والے یقیناًیہی محسوس کرتے ہونگے لیکن کچھ نہ ہونے سے باز گشت بھی بہرحال بہتر ہے۔اور فیض کی پیدا کردہ بازگشت کم از کم مترنم ضرور ہو گی۔گزشتہ دنوں ان سے یہ سن کر میں بے حد متاثر ہو ا کہ خود ان کی بعض نظمیں سواحلی زبان میں ترجمہ ہونے کے بعد مشرقی افریقہ میں پڑھی جارہی ہیں۔جہاں ایک ملک گیر زبان کی حیثیت سے سواحلی کا مستقبل بہت تابناک نظر آتا ہے۔مجھے امید ہے کہ جلد ہی دوسری زبانوں میں بھی ان کے کلام کا ترجمہ ہوجائے گا۔
ایک اسکاٹ خاتون نے جو کئی سال تک افغانستان میں رہی ہیں، فیض کے والد کے بارے میں ایک کتاب لکھی ہے، جو اس زمانے میں وہاں وزیر اعلیٰ تھے(فیض کے والد سلطان احمد خاں افغانستان میں چیف سکریٹری کے عہدے پر فائز تھے۔)مصنفہ کے بیان کے مطابق وہ بڑے پختہ عز م و ارادے کے مالک تھے اور انتہائی انتشار کے ماحول میں نظم و نسق قائم کرنے کی کوشش کررہے تھے۔امرتسر کی آزادانہ زندگی کے زمانے سے فیض بھی دوسرے متعدد باحوصلہ انسانوں کے دوش بدوش اس جد و جہد میں مصروف ہیں کہ ہمارے جدید عہد کے انتشار میں ضبط و توازن قائم کیا جائے۔جو کبھی کبھی افغانستان کے دور قدیم سے زیادہ مایوس کن نظر آتا ہے۔میں ایک اور پشت کو سرگرم عمل دیکھنے کا خواہاں ہوں، اور چشم تصور سے فیض کی بیٹیوں کو اپنی اپنی رغبت کے عظیم کارناموں کی تکمیل میں منہمک دیکھ بھی رہا ہوں، ان میں ایک کو غالباً پاکستان کی پہلی عظیم مصورہ کی حیثیت سے اور دوسری کو شاید پہلی خاتون صدر کی حیثیت سے۔دریں اثنا فیض کے دوستوں کو ہر ہفتے کے خاتمے پر ان سے دریافت کرت رہنا چاہیے کہ کہ انہوں نے کتنے صفحات لکھ لیے ہیں اور ہر روز شام کو معلوم کرتے رہنا چاہیے کہ انہوں نے کتنے سگریٹ نہیں پیے ہیں۔
27، نیلس سٹریٹ ایڈنبر
منظر
رہ گزر ، سائے شجر ، منزل و در، حلقۂ بام
بام پر سینۂ مہتاب کھُلا، آہستہ
جس طرح کھولے کوئی بندِ قبا، آہستہ
حلقۂ بام تلے ،سایوں کا ٹھہرا ہُوا نیل
نِیل کی جِھیل
جِھیل میں چُپکے سے تَیرا، کسی پتّے کا حباب
ایک پل تیرا، چلا، پُھوٹ گیا، آہستہ
بہت آہستہ، بہت ہلکا، خنک رنگِ شراب
میرے شیشے میں ڈھلا، آہستہ
شیشہ و جام، صراحی، ترے ہاتھوں کے گلاب
جس طرح دور کسی خواب کا نقش
آپ ہی آپ بنا اور مِٹا آہستہ
دل نے دُہرایا کوئی حرفِ وفا، آہستہ
تم نے کہا ’’آہستہ‘‘
چاند نے جھک کے کہا
’’اور ذرا آہستہ‘‘
(ماسکو)
غربت کدے میں کس سے تری گفتگو کریں
دھوکے دئیے کیا کیا ہمیں بادِ سحری نے
نہ شب کو دن سے شکایت ، نہ دن کو شب سے ہے
پاس رہو
تم مرے پا س رہو
میرے قاتل ، مرے دِلدار،مرے پاس رہو
جس گھڑی رات چلے،
آسمانوں کا لہو پی کے سیہ رات چلے
مرہمِ مُشک لئے، نشترِالماس لئے
بَین کرتی ہوئی، ہنستی ہُوئی ، گاتی نکلے
درد کے کاسنی پازیب بجاتی نکلے
جس گھڑی سینوں میں ڈُوبے ہُوئے دل
آستینوں میں نہاں ہاتھوں کی رہ تکنے لگیں
آس لئے
اور بچوں کے بلکنے کی طرح قُلقُل مے
بہرِ ناسودگی مچلے تو منائے نہ مَنے
جب کوئی بات بنائے نہ بنے
جب نہ کوئی بات چلے
جس گھڑی رات چلے
جس گھڑی ماتمی ، سُنسان، سیہ رات چلے
پاس رہو
میرے قاتل، مرے دلِدار مرے پاس رہو!
(ماسکو)
رنگ ہے دل کا مرے
تم نہ آئے تھے تو ہر چیز وہی تھی کہ جو ہے
آسماں حدِّ نظر ، راہگزر راہگزر، شیشہ مَے شیشہ مے
اور اب شیشہ مَے ،راہگزر، رنگِ فلک
رنگ ہے دل کا مرے ،’’خون جگر ہونے تک‘‘
چمپئی رنگ کبھی راحتِ دیدار کا رنگ
سرمئی رنگ کہ ہے ساعتِ بیزار کا رنگ
زرد پتّوں کا ،خس وخار کا رنگ
سُرخ پُھولوں کا دہکتے ہوئے گلزار کا رنگ
زہر کا رنگ ، لہو رنگ ، شبِ تار کا رنگ
آسماں ، راہگزر،شیشہ مَے،
کوئی بھیگا ہُوا دامن ،کوئی دُکھتی ہوئی رگ
کوئی ہر لخطہ بدلتا ہُوا آئینہ ہے
اب جو آئے ہو تو ٹھہرو کہ کوئی رنگ ،کوئی رُت ،کوئی شے
ایک جگہ پر ٹھہرے،
پھر سے اک بار ہر اک چیز وہی ہو کہ جو ہے
آسماں حدِّ نظر ، راہگزر راہگزر، شیشہ مَے شیشہ مے
(ماسکو)
جب تیری سمندر آنکھوں میں
یہ دُھوپ کنارا، شام ڈھلے
مِلتے ہیں دونوں وقت جہاں
جو رات نہ دن ، جو آج نہ کل
پل بھر کو امر ،پل بھر میں دھواں
اِس دھوپ کنارے، پل دو پل
ہونٹوں کی لپک
باہوں کی چھنک
یہ میل ہمارا ، جھوٹ نہ سچ
کیوں زار کرو، کیوں دوش دھرو
کس کارن، جھوٹی بات کرو
جب تیری سمندر آنکھوں میں
اس شام کا سورج ڈوبے گا
سُکھ سوئیں گے گھر دَر والے
اور راہی اپنی رہ لے گا
(لندن سے)
خوشا ضمانتِ غم
دیارِ یار تری جوششِ جنوں پہ سلام
مرے وطن ترے دامانِ تار تار کی خیر
رہِ یقین افشانِ خاک و خوں پہ سلام
مرے چمن ترے زخموں کے لالہ زار کی خیر
ہر ایک خانۂ ویراں کی تیرگی پہ سلام
ہر ایک خاک بسر، خانماں خراب کی خیر
ہر ایک کشتۂ ناحق کی خامشی پہ سلام
ہر ایک دیدۂ پُرنم کی آب و تاب کی خیر
رواں رہے یہ روایت ، خوشا ضمانتِ غم
نشاطِ ختمِ غمِ کائنات سے پہلے
ہر اک کے ساتھ رہے دولتِ امانتِ غم
کوئی نجات نہ پائے نَجات سے پہلے
سکوں ملے نہ کبھی تیرے پافگاروں کو
جمالِ خونِ سرِ خار کو نظر نہ لگے
اماں ملے نہ کہیں تیرے جاں نثاروں
جلالِ فرقِ سرِ دار کو نظر نہ لگے
(لندن)
جو بچے ہیں سنگ سمیٹ لو، تنِ داغ داغ لُٹا دیا
شہرِ یاراں
آسماں کی گود میں دم توڑتا ہے طفل ابر
جم رہا ہے ابر کے ہونٹوں پہ خوں آلود کف
بُجھتے بُجھتے بُجھ گئی ہے عرش کے حُجروں میں آگ
دھیرے دھیرے بِچھ رہی ہے ماتمی تاروں کی صف
اے صبا شاید ترے ہمراہ یہ خونناک شام
سر جھکائے جارہی ہے شہرِ یاراں کی طرف
شہر یاراں جس میں اِس دم ڈھونڈتی پھرتی ہے موت
شیر دل بانکوں میں اپنے تیر و نشتر کے ہدف
اِک طرف بجتی ہیں جوشِ زیست کی شہنائیاں
اِک طرف چنگھاڑتے ہیں اہرمن کے طبل و دف
جاکے کہنا اے صبا ، بعد از سلامِ دوستی
آج شب جس دم گُزر ہو شہرِ یاراں کی طرف
دشتِ شب میں اس گھڑی چپ چاپ ہے شاید رواں
ساقیِ صبحِ طرب ، نغمہ بلب ، ساغر بکف
وہ پہنچ جائے تو ہو گی پھر سے برپا انجمن
اور ترتیبِ مقام و منصب و جاہ و شرف
فصلِ گُل آئی امتحاں کی طرح
کہاں جاؤ گے
اور کچھ دیر میں لُٹ جائے گا ہر بام پہ چاند
عکس کھو جائیں گے آئینے ترس جائیں گے
عرش کے دیدۂ نمناک سے باری باری
سب ستارے سرِ خاشاک برس جائیں گے
آس کے مارے تھکے ہارے شبستانوں میں
اپنی تنہائی سمیٹے گا ، بچھائے گا کوئی
بے وفائی کی گھڑی ، ترکِ مدارات کا وقت
اس گھڑی اپنے سوا یاد نہ آئے گا کوئی!
ترکِ دنیا کا سماں ، ختمِ ملاقات کا وقت
اِس گھڑی اے دلِ آوارہ کہاں جاؤ گے
اِس گھڑی کوئی کسی کا بھی نہیں ، رہنے دو
کوئی اس وقت ملے گا ہی نہیں رہنے دو
اور ملے گا بھی تو اس طور کہ پچھتاؤ گے
اس گھڑی اے دلِ آوارہ کہاں جاؤ گے
اور کچھ دیر ٹھہر جاؤ کہ پھر نشترِ صبح
زخم کی طرح ہر اک آنکھ کو بیدار کرے
اور ہر کشتۂ واماندگیِ آخرِ شب
بھول کر ساعتِ درماندگی آخرِ شب
جان پہچان ملاقات پہ اصرار کرے
جیسے خوشبوئے زلفِ بہار آگئی، جیسے پیغامِ دیدارِ یار آگیا
قاصدا ، قیمتِ گلگشتِ بہاراں کیا ہے
دو مرثیے
۔ ۱ ۔
ملاقات مری
ساری دیوار سیہ ہو گئی تا حلقۂ دام
راستے بجھ گئے رُخصت ہُوئے رہ گیر تمام
اپنی تنہائی سے گویا ہوئی پھر رات مری
ہو نہ ہو آج پھر آئی ہے ملاقات مری
اک ہتھیلی پہ حِنا ، ایک ہتھیلی پہ لُہو
اک نظر زہر لئے ایک نظر میں دارو
دیر سے منزلِ دل میں کوئی آیا نہ گیا
فرقتِ درد میں بے آب ہُوا تختۂ داغ
کس سے کہیے کہ بھرے رنگ سے زخموں کے ایاغ
اور پھر خود ہی چلی آئی ملاقات مری
آشنا موت جو دشمن بھی ہے غم خوار بھی ہے
وہ جو ہم لوگوں کی قاتل بھی ہے دلدار بھی ہے
۔۲ ۔
ختم ہوئی بارشِ سنگ
ناگہاں آج مرے تارِ نظر سے کٹ کر
ٹکڑے ٹکڑے ہوئے آفاق پہ خورشید و قمر
اب کسی سَمت اندھیرا نہ اُجالا ہو گا
بُجھ گئی دل کی طرح راہِ وفا میرے بعد
دوستو! قافلۂ درد کا اب کیا ہو گا
اب کوئی اور کرے پرورشِ گلشنِ غم
دوستو ختم ہوئی دیدۂ تر کی شبنم
تھم گیا شورِ جنوں ختم ہوئی بارشِ سنگ
خاکِ رہ آج لئے ہے لبِ دلدار کا رنگ
کُوئے جاناں میں کُھلا میرے لہو کا پرچم
دیکھئے دیتے ہیں کِس کِس کو صدا میرے بعد
’’کون ہوتا ہے حریفِ مَے مرد افگنِ عشق
ہے مکرّر لبِ ساقی پہ صلا میرے بعد‘‘
سنتے تھے وہ آئیں گے ، سنتے تھے سحر ہو گی
کِھلتی ہے صبح گل کی طرح رنگ و بُو سے پُر
سِل گئے ہونٹ ، کوئی زخم سِلے یا نہ سلے
تری رہ میں کرتے تھے سر طلب ، سرِ رہگزار چلے گئے
زندگی
ملکۂ شہرِ زندگی تیرا
شُکر کسِ طور سے ادا کیجے
دولتِ دل کا کچھ شمار نہیں
تنگ دستی کا کیا گلہ کیجے
جو ترے حُسن کے فقیر ہوئے
ان کو تشویشِ روزگار کہاں؟
درد بیچیں گے گیت گائیں گے
اِس سے خوش وقت کاروبارکہاں؟
جام چھلکا توجم گئی محفل
مِنّت لُطفِ غم گسار کسے؟
اشک ٹپکا تو کِھل گیا گلشن
رنجِ کم ظرفیِ بہار کسے؟
خوش نشیں ہیں کہ چشم و دل کی مراد
دَیر میں ہے نہ خانقاہ میں ہے
ہم کہاں قسمت آزمانے جائیں
ہر صنم اپنی بارگاہ میں ہے
کون ایسا غنی ہے جس سے کوئی
نقدِ شمس و قمر کی بات کرے
جس کو شوقِ نبرد ہو ہم سے
جائے تسخیرِ کائنات کرے
جو عُمر سے ہم نے بھر پایا سب سامنے لائے دیتے ہیں
قیدِ تنہائی
دُور آفاق پہ لہرائی کوئی نُور کی لہر
خواب ہی خواب میں بیدار ہُوا درد کا شہر
خواب ہی خواب میں بیتاب نظر ہونے لگی
عدم آبادِ جُدائی میں سحر ہونے لگی
کاسۂ دل میں بھری اپنی صبُوحی میں نے
گھول کر تلخی دیروز میں اِمروز کا زہر
دُور آفاق پہ لہرائی کوئی نُور کی لہر
آنکھ سے دُور کسی صبح کی تمہید لیے
کوئی نغمہ ، کوئی خوشبو ، کوئی کافر صورت
بے خبر گزری ، پریشانیِ اُمیّد لیے
گھول کر تلخیِ دیروز میں اِمروز کا زہر
حسرتِ روزِ ملاقات رقم کی میں نے
دیس پردیس کے یارانِ قدح خوار کے نام
حُسنِ آفاق ، جمالِ لب و رخسار کے نام
(زندانِ قلعۂ لاہور)
ترا حُسن دستِ عیسیٰ ، تری یاد رُوئے مریم
آج بازار میں پابجولاں چلو
چشمِ نم ، جانِ شوریدہ کافی نہیں
تہمتِ عشق پوشیدہ کافی نہیں
آج بازار میں پابجولاں چلو
دست افشاں چلو ، مست و رقصاں چلو
خاک بر سر چلو ، خوں بداماں چلو
راہ تکتا ہے سب شہرِ جاناں چلو
حاکم شہر بھی ، مجمعِ عام بھی
تیرِ الزام بھی ، سنگِ دشنام بھی
صبحِ ناشاد بھی ، روزِ ناکام بھی
ان کا دم ساز اپنے سوا کون ہے
شہرِ جاناں میں اب باصفا کون ہے
دستِ قاتل کے شایاں رہا کون ہے
رختِ دل باندھ لو دل فگارو چلو
پھر ہمیں قتل ہو آئیں یار چلو
(لاہورجیل)
شورشِ زنجیر بسم اللہ
ہُوئی پھر امتحانِ عشق کی تدبیر بسم اللہ
ہر اک جانب مچا کہرامِ دار و گیر بسم اللہ
گلی کوچوں میں بکھری شورشِ زنجیر بسم اللہ
درِ زنداں پہ بُلوائے گئے پھر سے جُنوں والے
دریدہ دامنوں والے ،پریشاں گیسوؤں والے
جہاں میں دردِ دل کی پھر ہوئی توقیر بسم اللہ
ہوئی پھر امتحانِ عشق کی تدبیر بِسم اللہ
گنو سب داغ دل کے ، حسرتیں شوقیں نگاہوں کی
سرِ دربار پُرسش ہورہی ہے پھر گناہوں کی
کرو یارو شمارِ نالۂ شب گیر بسم اللہ
ستم کی داستاں ، کُشتہ دلوں کا ماجرا کہیے
جو زیر لب نہ کہتے تھے وہ سب کچھ برملا کہیے
مُصرِ ہے محتسب رازِ شہیدانِ وفا کہیے
لگی ہے حرفِ نا گُفتہ پر اب تعزیر بِسم اللہ
سرِ مقتل چلو بے زحمتِ تقصیر بِسم اللہ
ہُوئی پھر امتحانِ عشق کی تدبیر بِسم اللہ
(لاہورجیل)
تم اچھے مسیحا ہو شِفا کیوں نہیں دیتے
کوئی بھی حیلۂ تسکیں نہیں اور آس بہت ہے
تم یہ کہتے ہو اب کوئی چارہ نہیں!
تم یہ کہتے ہو وہ جنگ ہو بھی چکی!
جس میں رکھا نہیں ہے کسی نے قدم
کوئی اترا نہ میداں میں ، دشمن نہ ہم
کوئی صف بن نہ پائی ، نہ کوئی علم
منتشرِ دوستوں کو صدا دے سکا
اجنبی دُشمنوں کا پتا دے سکا
تم یہ کہتے ہو وہ جنگ ہو بھی چُکی!
جس میں رکھا نہیں ہم نے اب تک قدم
تم یہ کہتے ہو اب کوئی چارہ نہیں
جسم خستہ ہے ، ہاتھوں میں یارا نہیں
اپنے بس کا نہیں بارِ سنگ ستم
بارِ سنگِ ستم ، بار کہسار غم
جس کو چُھوکر سبھی اک طرف ہو گئے
بات کی بات میں ذی شرف ہو گئے
دوستو، کوئے جاناں کی نا مہرباں
خاک پر اپنے روشن لہو کی بہار
اب نہ آئے گی کیا؟ اب کِھلے گا نہ کیا
اس کفِ نازنیں پر کوئی لالہ زار؟
اس حزیں خامشی میں نہ لَوٹے گا کیا
شورِ آوازِ حق ، نعرئہ گیر و دار
شوق کا امتحاں جو ہُوا سو ہُوا
جسم و جاں کا زیاں جو ہُوا سو ہُوا
سُود سے پیشتر ہے زیاں اور بھی
دوستو ماتمِ جسم وجاں اور بھی
اور بھی تلخ تر امتحاں اور بھی
سجے گی کیسے شبِ نگاراں کہ دل سر شام بجھ گئے ہیں
شام
اس طرح ہے کہ ہر اِک پیڑ کوئی مندر ہے
کوئی اُجڑا ہوا ، بے نُور پُرانا مندر
ڈھونڈتا ہے جو خرابی کے بہانے کب سے
چاک ہر بام ، ہر اک در کا دمِ آخر ہے
آسماں کوئی پروہت ہے جو ہر بام تلے
جسم پر راکھ ملے ، ماتھے پہ سیندور ملے
سرنگوں بیٹھا ہے چپ چاپ نہ جانے کب سے
اس طرح ہے کہ پسِ پردہ کوئی ساحر ہے
جس نے آفاق پہ پھیلایا ہے یوں سحر کا دام
دامنِ وقت سے پیوست ہے یوں دامنِ شام
اب کبھی شام بُجھے گی نہ اندھیرا ہو گا
اب کبھی رات ڈھلے گی نہ سویرا ہو گا
آسماں آس لئے ہے کہ یہ جادو ٹُوٹے
چُپ کی زنجیر کٹے ، وقت کا دامن چُھوٹے
دے کوئی سنکھ دہائی ، کوئی پایل بولے
کوئی بُت جاگے ، کوئی سانولی گھونگھٹ کھولے
کرنے آئی ہے مری ساقی گری شام ڈھلے
آگ سُلگاؤ آبگینوں میں
جشن کا دن
جنُوں کی یاد مناؤ کہ جشن کا دن ہے
صلیب و دار سجاؤ کہ جشن کا دن ہے
طرب کی بزم ہے بدلو دِلوں کے پیراہن
جگر کے چاک سِلاؤ کہ جشن کا دن ہے
تنک مزاج ہے ساقی نہ رنگِ مَے دیکھو
بھرے جو شیشہ ، چڑھاؤ کہ جشن کا دن ہے
تمیزِ رہبر و رہزن کرو نہ آج کے دن
ہر اک سے ہاتھ ملاؤ کہ جشن کا دن ہے
ہے انتظارِ ملامت میں ناصحوں کا ہجوم
نظر سنبھال کے جاؤ کہ جشن کا دن ہے
وہ شورشِ غمِ دل جس کی لے نہیں کوئی
غزل کی دُھن میں سُناؤ کہ جشن کا دن ہے
سفر نامہ
۱ ۔ پیکنگ
یوں گماں ہوتا ہے بازو ہیں مرے ساٹھ کروڑ
اور آفاق کی حد تک مرے تن کی حد ہے
دل مرا کوہ و دمن دشت و چمن کی حد ہے
میرے کیسے میں ہے راتوں کا سیہ فام جلال
میرے ہاتھوں میں ہے صبحوں کی عنانِ گلگوں
میری آغوش میں پلتی ہے خدائی ساری
میرے مقدور میں ہے معجزۂ کُن فَیَکُوں
۲ ۔ سِنکیانگ
اب کوئی طبل بجے گا ، نہ کوئی شاہسوار
صبحدم موت کی وادی کو روانہ ہو گا!
اب کوئی جنگ نہ ہو گی نہ کبھی رات گئے
خون کی آگ کو اشکوں سے بُجھانا ہو گا
کوئی دل دھڑکے گا شب بھر نہ کسی آنگن میں
وہم منحوس پرندے کی طرح آئے گا
سہم ، خونخوار درندے کی طرح آئے گا
اب کوئی جنگ نہ ہو گی مے و ساغر لاؤ
خوں لُٹانا نہ کبھی اشک بہانا ہو گا
ساقیا! رقص کوئی رقصِ صبا کی صورت
مطربہ! کوئی غزل رنگِ حِنا کی صورت
اپنا لی ہوس والوں نے جو رسم چلی ہے
دستِ تہِ سنگ آمدہ
بیزار فضا ، درپئے آزارِ صبا ہے
یوں ہے کہ ہر اک ہمدمِ دیرینہ خفا ہے
ہاں بادہ کشو آیا ہے اب رنگ پہ موسم
اب سیر کے قابل روشِ آب و ہوا ہے
اُمڈی ہے ہر اک سمت سے الزام کی برسات
چھائی ہوئی ہر وانگ ملامت کی گھٹا ہے
وہ چیز بھری ہے کہ سلگتی ہے صراحی
ہر کاسۂ مے زہرِ ھلاہل سے سوا ہے
ہاں جام اٹھاؤ کہ بیادِ لبِ شیریں
یہ زہر تو یاروں نے کئی بار پیا ہے
اس جذبۂ دل کی نہ سزا ہے نہ جزا ہے
مقصودِ رہِ شوق وفا ہے نہ جفا ہے
احساسِ غمِ دل جو غمِ دل کا صلا ہے
اس حسن کا احساس ہے جو تیری عطا ہے
ہر صبح گلستاں ہے ترا روئے بہاریں
ہر پھول تری یاد کا نقشِ کفِ پا ہے
ہر بھیگی ہوئی رات تری زلف کی شبنم
ڈھلتا ہوا سورج ترے ہونٹوں کی فضا ہے
ہر راہ پہنچتی ہے تری چاہ کے در تک
ہر حرفِ تمنّا ترے قدموں کی صدا ہے
تعزیرِ سیاست ہے ، نہ غیروں کی خطا ہے
وہ ظلم جو ہم نے دلِ وحشی پہ کیا ہے
زندانِ رہِ یار میں پابند ہوئے ہم
زنجیر بکف ہے ، نہ کوئی بند بپا ہے
"مجبوری و دعوائے گرفتاریِ الفت
دستِ تہِ سنگ آمدہ پیمانِ وفا ہے”
کس راہ کی جانب سے صبا آتی ہے دیکھو
فیض از فیض
اپنے بارے میں باتیں کرنے سے مجھے سخت وحشت ہوتی ہے ۔اس لئے کہ سب لوگوں کا مرغوب مشغلہ یہی ہے۔اس انگریزی لفظ کے معذرت چاہتاہوں لیکن اب تو ہمارے ہاں اس کے مشتقات بوریت وغیرہ بھی استعمال میں آنے لگے ہیں۔اس لئے اب اسے اردو میں روزمرہ میں شامل سمجھنا چاہیے۔تومیں یہ کہہ رہا تھاکہ مجھے اپنے بارے میں قیل وقال بری لگتی ہے۔بلکہ میں تو شعر میں بھی حتیٰ الامکان واحد متکلم کا صیغہ استعمال نہیں کرتا،اور ’’میں ‘‘کے بجائے ہمیشہ’’ہم‘‘لکھتاآیا ہوں۔چنانچہ جب ادبی ساغران حضرات مجھ سے یہ پوچھنے بیٹھتے ہیں کہ تم شعرکیوں کہتے ہو تو بات کو ٹالنے کے لئے جو دل میں آئے کہہ دیتاہوں۔مثلاً یہ کہ بھئی میں جیسے بھی کہتاہوں جس لئے بھی کہتا ہوں تم شعر میں خود ڈھونڈواورمیرا سر کھانے کی کیاضرورت ہے۔لیکن ان میں ڈھیٹ قسم کے لوگ جب بھی نہیں مانتے۔چنانچہ آج کی گفتگوکی سب ذمہ داری ان حضرات کے سر ہے مجھ پر نہیں ہے۔
شعر گوئی کا واحدعذرِ گناہ تومجھے نہیں معلوم۔اس میں بچپن کی فضائے گردوپیش میں شعر کا چرچا دوست احباب کی ترغیب اور دل کی لگی سبھی کچھ شامل ہے۔یہ نقشِ فریادی کے پہلے حصے کی بات ہے جس میں ۹۲۔۸۲ء سے۵۳ء تک کی تحریریں شامل ہیں،جو ہماری طالب العلمی کے دن تھے۔یوں توان سب اشعارکاقریب قریب ایک ہی ذہنی اورجذباتی واردات سے تعلق ہے اور اس واردات کا ظاہری محرک تو وہی ایک حادثہ ہے جواس عمر میں نوجوان دلوں پر گزرجایاکرتا ہے۔لیکن اب جو دیکھتا ہوں تویہ دور بھی ایک دور نہیں تھا بلکہ اس کے بھی دو الگ الگ حصے تھے۔جن کی داخلی اورخارجی کیفیت کافی مختلف تھی۔وہ یوں ہے کہ۰۲ء سے۰۳ء تک زمانہ ہمارے ہاں معاشی اورسماجی طورسے کچھ عجب طرح کی بے فکری،آسودگی اورولولہ انگیزی کا زمانہ تھا،جس میں اہم قومی اورسیاسی تحریکوں کے ساتھ ساتھ نثر ونظم میں بیشتر سنجیدہ فکرومشاہدہ کے بجائے کچھ رنگ رلیاں منانے کا سا اندازتھا۔شعر میں اولاً حسرت موہانی اوران کے بعد جوش،حفیظ جالندھری اوراختر شیرانی کی ریاست قائم تھی،افسانے میں یلدرم اورتنقید میں حسن برائے حسن اور ادب برائے ادب کا چرچاتھا۔نقشِ فریادی کی ابتدائی نظمیں ، ’’خدا وہ وقت نہ لائے کہ سوگوارہوتو‘‘مری جاں اب بھی اپنا حسن واپس پھیر دے مجھ کو‘‘ تہ نجوم کہیں چاندنی کے دامن میں‘‘وغیرہ وغیرہ اسی ماحول کے زیراثر مرتب ہوئیں اور اس فضا میں ابتدائے عشق کا تحیر بھی شامل تھا۔لیکن ہم لوگ اس دور کی ایک جھلک بھی ٹھیک سے نہ دیکھ پائے تھے کہ صحبتِ یار آخرشد۔پھر دیس پرعالمی کساد بازاری کے سائے ڈھلنے شروع ہوئے۔کالج کے بڑے بڑے بانکے تیس مارخاں تلاشِ معاش میں گلیوں کی خاک پھانکنے لگے۔یہ وہ دن تھے جب یکایک بچوں کی ہنسی بجھ گئی‘اجڑے ہوئے کسان کھیت کھلیان چھوڑکر شہروں میں مزدوری کرنے لگے اوراچھی خاصی شریف بہو بیٹیاں بازار میں آبیٹھیں۔گھر کے باہر یہ حال تھااورگھر کے اندر مرگِ سوزِ محبت کا کہرام مچاتھا۔یکایک یوں محسوس ہونے لگا کہ دل و دماغ پر سبھی راستے بندہو گئے ہیں اور اب یہاں کوئی نہیں آئے گا۔اس کیفیت کا اختتام جو نقشِ فریادی کے پہلے حصے کی آخری نظموں کی کیفیت ہے ایک نسبتا غیر معروف نظم پر ہوتا ہے، جسے میں نے یاس کا نام دیا تھا۔وہ یوں ہے:
یاس
بربطِ دل کے تار ٹوٹ گئے
ہیں زمیں بوس راحتوں کے محل
مٹ گئے قصہ ہائے فکر وعمل
برم ہستی کے جام پھوٹ گئے
چِھن گیا کیف کوثر و تسنیم
زحمتِ گریہ و بکا بے سود
شکوہ بختِ نارسا بے سود
ہوچکا ختم رحمتوں کا نزول
بند ہے مدتوں سے بابِ قبول
بے نیازِ دُعا ہے رب کریم
بُجھ گئی شمعِ آرزوئے جمیل
یاد باقی ہے بے کسی کی دلیل
انتظارِ فضول رہنے دے
راز الفت نباہنے والے
بارِ غم سے کراہنے والے
کاوش بے حصول رہنے دے
34ء میں ہم لوگ کالج سے فارغ ہوئے اور 35ء میں میں نے ایم اے او کالج امرتسر میں ملازمت کرلی۔یہاں سے میری اور میرے بہت سے ہمعصرلکھنے والوں کی ذہنی اورجذباتی زندگی کا نیا دور شروع ہوتا ہے۔اس دوران کالج میں اپنے رفقاء صاحب زادہ محمود الظفر مرحوم اوران کی بیگم رشیدہ جہاں سے ملاقات ہوئی۔پھر ترقی پسند تحریک کی داغ بیل پڑی ، مزدور تحریک کا سلسلہ شروع ہوا اور یوں لگا کہ جیسے گلشن میں ایک نہیں کئی دبستان کھل گئے ہیں۔اس دبستان میں سب سے پہلا سبق جو ہم نے سیکھا تھاکہ اپنی ذات باقی دنیا سے الگ کرکے سوچنااول تو ممکن ہی نہیں،اس لئے کہ اس میں بہر حال گردوپیش کے سبھی تجربات شامل ہوتے ہیں اوراگر ایسا ممکن ہوبھی تو انتہائی غیر سودمند فعل ہے کہ ایک انسانی فرد کی ذات اپنی سب محبتوں اورکدورتوں مسرتوں اور رنجشوں کے باوجود بہت ہی چھوٹی سی بہت محدود اورحقیر شے ہے۔اس کی وسعت اور پہنائی کا پیمانہ تو باقی عالم موجودات سے اس کے ذہنی اورجذباتی رشتے ہیں،خاص طور پر انسانی برادری کے مشترکہ دکھ درد کے رشتے۔چنانچہ غمِ جاناں اورغمِ دوراں تو ایک ہی تجربے کے دو پہلو ہیں۔اسی نئے احساس کی ابتداء نقشِ فریادی کے دوسرے حصے کی پہلی نظم سے ہوتی ہے۔اس نظم کا عنوان ہے ’’مجھ سے پہلی سی محبت مری محبوب نہ مانگ‘‘
اور اگر آپ خاتون ہیں تو’’مرے محبوب نہ مانگ‘‘
’’مجھ سے پہلی سی محبت مری محبوب نہ مانگ
میں نے سمجھاتھا کہ توہے درخشاں ہے حیات
تیرا غم ہے تو غمِ دہر کا جھگڑا کیا ہے
تیری صورت سے ہے عالم میں بہاروں کو ثبات
تیری آنکھوں کے سوا دنیا میں رکھا کیا ہے؟
تومل جائے تو تقدیر نِگُوں ہوجائے
یوں نہ تھا،میں نے فقط چاہاتھا یُوں ہوجائے
اور بھی دُکھ ہیں زمانے میں محبت سے سوا
راحتیں اور بھی وصل کی راحت کے سوا
ان گنت صدیوں کے تاریک بہیمانہ طلسم
ریشم و اطلس و کمخاب میں بُنوائے ہوئے
جا بجا بکتے ہوئے کوچہ و بازار میں جسم
خاک میں لتھڑے ہوئے خون میں نہائے ہوئے
جسم نکلے ہوئے امراض کے تنوروں سے
پیپ بہتی ہوئی گلتے ہوئے ناسوروں سے
لوٹ جاتی ہے ادھر کوبھی نظرکیا کیجئے
اب بھی دلکش ہے ترا حسن ،مگرکیا کیجئے
اور بھی دکھ ہیں زمانے میں محبت کے سوا
راحتیں اور بھی ہیں وصل کی راحت کے سوا
مجھ سے پہلی سی محبت مری محبوب نہ مانگ
اس کے بعد تیر ہ چودہ برس’’کیوں نہ جہاں کا غم اپنالیں‘‘میں گزرے اورپھر فوج،صحافت ٹریڈیونین وغیرہ میں گزارنے کے بعد ہم چار برس کے لئے جیل خانے چلے گئے۔نقشِ فریادی کے بعد کی دوکتابیں’’دست صبا‘‘اور’’زنداں نامہ‘‘اسی جیل خانے کی یادگار ہیں۔بنیادی طورپر تویہ تحریریں انہیں ذہنی محسوسات اور معمولات سے منسلک ہیں جن کا سلسلہ مجھ سے پہلی سی محبت ،سے شروع ہو اتھالیکن جیل خانہ عاشقی کی طرح خود ایک بنیادی تجربہ ہے،جس میں فکرونظر کا ایک آدھ نیا دریچہ خودبخود کھل جاتا ہے۔چنانچہ اول تویہ ہے کہ ابتدائے شباب کی طرح تمام حسیات یعنی(Sensations)پھر تیز ہوجاتی ہیں اور صبح کی پَو،شام کے دُھندلکے،آسمان کی نیلاہٹ،ہوا کے گذار کے بارے میں وہی پہلا سا تحیر لوٹ آتا ہے۔دوسرے یوں ہوتا ہے کہ باہر کی دنیا کا وقت اورفاصلے دونوں باطل ہوجاتے ہیں۔نزدیک کی چیزیں بھی بہت دور ہوجاتی ہیں اوردور کی نزدیک اورفرداودی کا تفرقہ کچھ اس طور سے مت جاتا ہے کہ کبھی ایک لمحہ قیامت معلوم ہوتا ہے اورکبھی ایک صدی کل کی بات۔تیسری بات یہ ہے کہ فراغتِ ہجراں میں فکرومطالعہ کے ساتھ عروسِ سخن کے ظاہری بناؤ سنگھاؤ پر توجہ دینے کی زیادہ مہلت ملتی ہے۔جیل خانے کے بھی دو دور تھے۔ایک حیدرآباد جیل کا جواس تجربے کے انکشاف کے تحیر کا زمانہ تھا،ایک منٹگمری جیل کا جو اس تجربے سے اکتاہٹ اورتھکن کا زمانہ تھا۔ان دو کیفیتوں کی نمائندہ یہ دو نظمیں ہیں ،پہلی’’دستِ صبا‘‘ میں ہے دوسری’’زندان نامہ‘‘میں ہے۔
زندان نامہ کی ایک شام
شام کے پیچ و خم ستاروں سے
زینہ زینہ اُتر رہی ہے رات
یوں صبا پاس سے گزرتی ہے
جیسے کہہ دی کسی نے پیار کی بات
صحنِ زنداں کے بے وطن اشجار
سرنگوں ، محو ہیں بنانے میں
دامنِ آسماں پہ نقش و نگار
شانہ بام پر دمکتا ہے
مہرباں چاندنی کا دست جمیل
خاک میں گُھل گئی ہے آب نجوم
نُور میں گُھل گئی ہے عرش کا نیل
سبز گوشوں میں نیلگوں سائے
لہلہاتے ہیں جس طرح دل میں
موجِ دردِ فراقِ یار آئے
دل سے پیہم خیال کہتا ہے
اتنی شیریں ہے زندگی اس پل
ظلم کا زہر گھولنے والے
کامراں ہوسکیں گے آج نہ کل
جلوہ گاہِ وصال کی شمعیں
وہ بجھا بھی چکے اگر تو کیا
چاند کو گُل کریں تو ہم جانیں
’’اے روشنیوں کے شہر‘‘
سبزہ سبزہ سوکھ رہی ہے پھیکی زرد دوپہر
دیواروں کو چاٹ رہا ہے تنہائی کا زہر
دور افق تک گھٹتی،بڑھتی ،اٹھتی،گرتی رہتی ہے
کہر کی صورت بے رونق دردوں کی گدلی لہر
بستا ہے اِس کُہر کے پیچھے روشنیوں کا شہر
اے روشنیوں کے شہر
اے روشنیوں کے شہر
کون کہے کس سمت ہے تیری روشنیوں کی راہ
ہر جانب بے نورکھڑی ہے ہجر کی شہر پناہ
تھک کر ہر سُو بیٹھ رہی ہے شوق کی ماند سپاہ
آج مرا دل فکر میں ہے
اے روشنیوں کے شہر
شبخوں سے منہ پھیر نہ جائے ارمانوں کی رو
خیر ہو تیری لیلاؤں کی ،ان سب سے کہہ دو
آج کی شب جب دیئے جلائیں اونچی رکھیں لو
زنداں نامے کے بعد کچھ ذہنی افراتفری کا زمانہ ہے جس میں اپنا اخباری پیشہ چُھٹا ،ایک بار جیل گئے۔مارشل لاء کا دور آیا،اورذہنی گردوپیش کی فضا میں پھر سے کچھ انسداد راہ اورکچھ نئی راہوں کی طلب کا احساس پیداہوا۔اس سکوت اورانتظار کی آئینہ دار ایک نظم ہے’’شام‘‘اور ایک نامکمل غزل کے چند اشعار:
کب ٹھہرے گا درد اے دل کب رات بسر ہو گی!
فیض
تقریر
محترم اراکینِ مجلسِ صدارت ، خواتین اور حضرات!
الفاظ کی تخلیق وترتیب شاعر اور ادیب کا پیشہ ہے۔لیکن زندگی میں بعض مواقع ایسے بھی آتے ہیں جب قدرت کلام جواب دے جاتی ہے ۔ آج عجزِ بیان کا ایسا ہی مرحلہ مجھے درپیش ہے۔ایسے کوئی الفاظ میرے ذہن میں نہیں آرہے ، جن میں اپنی عزت افزائی کے لئے لینن پرائز کمیٹی،سوویٹ یونین کے مختلف اداروں ،دوستوں اور سب خواتین اورحضرات کا شکریہ خاطر خواہ طور سے ادا کرسکوں۔لینن امن انعام کی عظمت تو اسی ایک بات سے واضح ہے کہ اس سے لینن کا محترم نام اور مقدس لفظ وابستہ ہے۔لینن جو دور حاضر میں انسانی حریت کا سب سے بزرگ علم بردار ہے اور امن جو انسانی زندگی اور اس زندگی کے حسن وخوبی کی شرطِ اول ہے۔مجھے اپنی تحریر وعمل میں ایسا کوئی کام نظر نہیں آتا جس اس عظیم اعزاز کے شایان شان ہو۔لیکن اس عزت بخشی کی ایک وجہ ضرور ذہن میں آتی ہے اور وہ یہ ہے کہ جس تمنا اور آدرش کے ساتھ مجھے اور میرے ساتھیوں کو وابستگی رہی ہے یعنی امن اور آزادی کی تمنا وہ بجائے خود اتنی عظیم ہے کہ اس واسطے سے ان کے حقیر اور ادنیٰ کارکن بھی عزت اوراکرام کے مستحق ٹھہرتے ہیں۔
یوں تو ذہنی طور سے مجنون اور جرائم پیشہ لوگوں کے علاوہ سبھی مانتے ہیں کہ امن اور آزادی بہت حسین اور تابناک چیز ہے اور سبھی تصور کرسکتے ہیں کہ امن گندم کے کھیت ہیں اور سفیدے کے درخت،دلہن کا آنچل ہے اور بچوں کے ہنستے ہوئے ہاتھ،شاعر کا قلم ہے اور مصور کاموئے قلم اورآزادی ان سب صفات کی ضامن اورغلامی ان سب خوبیوں کی قاتل ہے جو انسان اورحیوان میں تمیز کرتی ہے۔یعنی شعور اورذہانت ،انصاف اور صداقت،وقار اورشجاعت،نیکی اور رواداری____اس لئے بظاہر امن اورآزادی اورکے حصول اور تکمیل کے متعلق ہوشمند انسانوں میں اختلاف کی گنجائش نہ ہونا چاہیے۔لیکن بدقسمتی سے یوں نہیں ہے کہ انسانیت کی ابتدارء سے اب تک ہر عہداور ہر دور میں متضاد عوامل اور قوتیں برسرِعمل اور برسرپیکار رہی ہیں۔یہ قوتیں ہیں ،تخریب وتعمیر،ترقی اور زوال،روشنی اور تیرگی،انصا ف دوستی کی قوتیں۔یہی صورت آج بھی ہے اور اسی نوعیت کی کشمکش آج بھی جاری ہے۔لیکن ساتھ ہی ساتھ آج کل انسانی مسائل اور گزشتہ دور کی انسانی الجھنوں میں کئی نوعیتوں سے بھی فرق ہے۔دورِ حاضر میں جنگ سے دوقبیلوں کا باہمی خون خرابہ مراد نہیں ہے۔نہ آج کل امن سے خون خرابے کا خاتمہ مراد ہے۔آج کل جنگ اور امن کے معنی ہیں امنِ آدم کی بقااور فنا۔بقااورفنا ان دو الفاظ پر انسانی تاریخ کے خاتمے یا تسلسل کا دارومدار ہے۔انہیں پرانسانوں کی سرزمین کی آبادی اوربربادی کا انحصار ہے۔یہ پہلا فرق ہے۔دوسرا فرق یہ ہے کہ اب سے پہلے انسانوں کو فطرت کے ذخائر پر اتنی دسترس اور پیداوار کے ذرائع پر اتنی قدرت نہ تھی کہ ہر گروہ اوربرادری کی ضرورتیں پوری طرح تسکین پاسکتیں۔اس لئے آپس میں چھین جھپٹ اور لوٹ مار کا کچھ نہ کچھ جواز بھی موجود ہے۔لیکن اب یہ صورت حال نہیں ہے۔انسانی عقل ، سائنس اورصنعت کی بدولت اس منزل پر پہنچ چکی ہے کہ جس میں سب تن بخوبی پل سکتے ہیں اور سبھی جھولیاں بھرسکتی ہیں۔بشرطیکہ قدرت کے یہ بے بہا ذخائر پیداوار کے یہ بے اندازہ خرمن،بعض اجارہ داروں اورمخصوص طبقوں کی تسکینِ ہوس کے لئے نہیں،بلکہ جملہ انسانوں کی بہبود کے لئے کام میں لائے جائیں۔اورعقل اورسائنس اورصنعت کی کل ایجادیں اورصلاحتیں تخریب کے بجائے تعمیری منصوبوں میں صرف ہوں۔لیکن یہ جبھی ممکن ہے کہ انسانی معاشرے میں ان مقاصد سے مطابقت پیدا ہو اورانسانی معاشرے کے ڈھانچے کی بنائیں ہوسِ ،استحصال اوراجارہ داری کے بجائے انصاف برابری،آزادی اوراجتماعی خوش حالی میں اٹھائیں جائیں۔اب یہ ذہنی اورخیالی بات نہیں،عملی کام ہے۔اس عمل میں امن کی جدوجہد اورآزادی کی حدیں آپس میں مل جاتی ہیں۔اس لئے کہ امن کے دوست اوردشمن اورآزادی کے دوست اور دشمن ایک ہی قبیلے کے لوگ،ایک ہی نوع کی قوتیں ہیں۔ایک طرف وہ سامراجی قوتیں ہیں جن کے مفاد،جن کے اجارے جبر اورحسد کے بغیر قائم نہیں رہ سکتے اورجنہیں ان اجاروں کے تحفظ کے لئے پوری انسانیت کی بھینٹ بھی قبول ہے۔دوسری طرف وہ طاقتیں ہیں جنہیں بنکوں اور کمپنیوں کی نسبت انسانوں کی جان زیادہ عزیز ہے۔جنہیں دوسروں پر حکم چلانے کے بجائے آپس میں ہاتھ بٹانے اورساتھ مل کر کام کرنے میں زیادہ لطف آتا ہے۔سیاست واخلاق،ادب اورفن،روزمرہ زندگی،غرض کئی محاذوں پر کئی صورتوں میں تعمیر اورتخریب انسان دوستی اور انسان دشمنی کی یہ چپقلش جاری ہے۔
آزادی پسند اور امن پسند لوگوں کے لئے ان میں سے ہر محاز اورہرصورت پر توجہ دینا ضروری ہے۔مثال کے طور پر سامراجی اورغیر سامراجی قوتوں کی لازمی کشمکش کے علاوہ بدقسمتی سے بعض ایسے ممالک میں بھی شدید اختلاف موجود ہیں،جنہیں حال ہی میں آزادی ملی۔ایسے اختلافات ہمارے ملک پاکستان اور ہمارے سب سے قریبی ہمسایہ ہندوستان میں موجود ہیں۔بعض عرب ہمساہہ ممالک میں اور بعض افریقی حکومتوں میں موجود ہیں۔ظاہر ہے کہ ان کے اختلافات سے وہی طاقتیں فائدہ اٹھاسکتی ہیں جو امن عالم اورانسانی برادری کی دوستی اور یگانگت کو پسند نہیں کرتیں۔اسلئے صلح پسنداورامن دوست صفوں میں ان اختلافات کے منصفانہ حل پر غوروفکر اوراس حل میں امداددینا بھی لازم ہے۔
اب سے کچھ دن پہلے جب سوویت فضاؤں کا تازہ کارنامہ ہر طرف دنیا میں گونج رہا تھاتومجھے باربارخیال آتا رہا کہ آج کل جب ہم ستاروں کی دنیا میں بیٹھ کر اپنی ہی دنیا کا نظارہ کرسکتے ہیں توچھوٹی چھوٹی کمینگیاں،خود غرضیاں ،یہ زمین کے چند ٹکڑوں کو بانٹنے کو کوششیں اورانسانوں کی چند ٹولیوں پر اپنا سکہ چلانے کی خواہش کیسی بعیدازعقل باتیں ہیں۔اب جبکہ ساری کائنات کے راستے ہم پرکشادہ ہو گئے ہیں۔ساری دنیاکے خزینے انسانی بس میں آسکتے ہیں،توکیاانسانوں میں ذی شعور،منصف مزاج اوردیانت دارلوگوں کی اتنی تعداد موجود نہیں ہے جو سب کو منواسکے کہ یہ جنگی اڈے سمیٹ لو۔یہ بم اورراکٹ ،توپیں بندوقیں سمندر میں غرق کردو اور ایک دوسرے پر قبضہ جمانے کی بجائے سب مل کر تسخیر کائنات کو چلو۔جہاں جگہ کی کوئی تنگی نہیں ہے،جہاں کس کو کسی سے الجھنے کی ضرورت نہیں ہے،جہاں لا محدود فضائیں ہیں اوران گنت دنائیں۔مجھے یقین ہے کہ سب رکاوٹوں اورمشکلوں کے باوجود ہم لوگ اپنی انسانی برادری سے یہ بات منواکررہیں گے۔
مجھے یقین ہے کہ انسانیت جس نے اپنے دشمنوں سے آج تک کبھی ہار نہیں کھائی اب بھی فتح یاب ہوکررہے گی۔اورآخرِکار جنگ ونفرت اورظلم کدورت کے بجائے ہمارے باہمی زندگی کی بناوہی ٹھہرے گی جس کی تلقین اب سے بہت پہلے فارسی شاعر حافظ نے کی تھی
خلل پذیر بود ہر بناکہ می بینی
مگر بنائے محبت کہ خالی از خلل است
آگ سلگاو آبگینوں میں
نہ شب کو دن سے شکایت نہ دن کو شب سے ہے
کیا خبر آج خراماں سرِگلزار ہے کون
تو صبح جھوم کے گلزار ہو گئی یکسر
تمہاری یاد سے دل ہمکلام رہتا ہے
ہر اک صدا میں ترے حرفِ لطف کا آہنگ
کوچہء یار سے بے نیلِ مرام آتا ہے
کوئی کرتا ہی نہیں ضبط کی تاکید اب کے
کوئی عاشق کسی محبوبہ سے
یاد کی راہگزر جس پہ اسی صورت سے
مدتیں بیت گئی ہیں تمہیں چلتے چلتے
ختم ہو جائے جو دو چار قدم اور چلو
موڑ پڑتا ہے جہاں دشتِ فراموشی کا
جس سے آگے نہ کوئی میں ہوں نہ کوئی تم ہو
سانس تھامے ہیں نگاہیں کہ نہ جانے کس دم
تم پلٹ آؤ، گزر جاؤ، یا مڑ کردیکھو
گرچہ واقف ہیں نگاہیں کہ یہ سب دھوکا ہے
گر کہیں تم سے ہم آغوش ہوئی پھر سے نظر
پھوٹ نکلے گی وہاں اور کوئی راہگزر
پھر اسی طرح جہاں ہو گا مقابل پیہم
سایہء زلف کا اور جنببشِ بازو کا سفر
دوسری بات بھی جھوٹی ہے کہ دل جانتا ہے
یاں کوئی موڑ کوئی دشت کوئی گھات نہیں
جس کے پردے میں مرا ماہِ رواں ڈوب سکے
تم سے چلتی رہے یہ راہ، یونہی اچھا ہے
تم نے مڑ کر بھی نہ دیکھا تو کوئی بات نہیں
بنیاد کچھ تو ہو
کوئے ستم کی خامشی آباد کچھ تو ہو
کچھ تو کہو ستم کشو، فریاد کچھ تو ہو
بیداد گر سے شکوۂ بیداد کچھ تو ہو
بولو، کہ شورِ حشر کی ایجاد کچھ تو ہو
مرنے چلے تو سطوتِ قاتل کا خوف کیا
اتنا تو ہو کہ باندھنے پائے نہ دست و پا
مقتل میں کچھ تو رنگ جمے جشنِ رقص کا
رنگیں لہو سے پنجۂ صیاد کچھ تو ہو
خوں پر گواہ دامنِ جلّاد کچھ تو ہو
جب خوں بہا طلب کریں ،بنیاد کچھ تو ہو
گرتن نہیں ، زباں سہی، آزاد کچھ تو ہو
دشنام، نالہ، ہاؤ ہو، فریاد کچھ تو ہو
چیخے ہے درد، اے دلِ برباد کچھ تو ہو
بولو کہ شورِ حشر کی ایجاد کچھ تو ہو
بولو کہ روزِ عدل کی بنیاد کچھ تو ہو
(منٹگمری جیل)
یہ فصل امیدوں کی ہمدم
سب کاٹ دو بسمل پودوں کو
بے آب سسکتے مت چھوڑو
سب نوچ لو
بیکل پھولوں کو
شاخوں پہ بلکتے مت چھوڑو
یہ فصل امیدوں کی ہمدم
اس بار بھی غارت جائے گی
سب محنت، صبحوں شاموں کی
اب کے بھی اکارت جائے گی
کھیتی کے کونوں، کھدروں میں
پھر اپنے لہو کی کھاد بھرو
پھر مٹی سینچو اشکوں سے
پھر اگلی رت کی فکر کرو
پھر اگلی رت کی فکر کرو
جب پھر اک بار اُجڑنا ہے
اک فصل پکی تو بھر پایا
جب تک تو یہی کچھ کرنا ہے
(منٹگمری جیل)
گل کھلے جاتے ہیں وہ سایہء در تو دیکھو
Africa Come Back
آجاؤ، میں نے سن لی ترے ڈھول کی ترنگ
آجاؤ، مست ہو گئی میرے لہو کی تال
“آجاؤ ایفریقا“
آجاؤ، میں نے دھول سے ماتھا اٹھا لیا
آجاؤ، میں نے چھیل دی آنکھوں سے غم کی چھال
آجاؤ، میں نے درد سے بازو چھڑا لیا
آجاؤ، میں نے نوچ دیا بے کسی کا جال
’’جاؤ ایفریقا“
پنجے میں ہتھکڑی کی کڑی بن گئی ہے گرز
گردن کا طوق توڑ کے ڈھالی ہے میں نے ڈھال
“آجاؤ ایفریقا“
جلتے ہیں ہر کچھار میں بھالوں کے مرگ نین
دشمن لہو سے رات کی کالک ہوئی ہے لال
“آجاؤ ایفریقا“
دھرتی دھڑک رہی ہے مرے ساتھ ایفریقا
دریا تھرک رہا ہے توبن دے رہا ہے تال
میں ایفریقا ہوں، دھار لیا میں نے تیرا روپ
میں تو ہوں ،میری چال ہے تیری ببر چال
“آجاؤ ایفریقا“
آؤ ببر کی چال
“آجاؤ ایفریقا“
(منٹگمری جیل ۔ ؎۱افریقی حریت پسندوں کا نعرہ)
رنگِ رخسار کی پھوہار گری
درد آئے گا دبے پاؤں
اور کچھ دیر میں ، جب پھر مرے تنہا دل کو
فکر آ لے گی کہ تنہائی کا کیا چارہ کرے
درد آئے گا دبے پاؤں لیے سرخ چراغ
وہ جو اک درد دھڑکتا ہے کہیں دل سے پرے
شعلہء درد جو پہلو میں لپک اٹھے گا
دل کی دیوار پہ ہر نقش دمک اٹھے گا
حلقہء زلف کہیں، گوشہء رخسار کہیں
ہجر کا دشت کہیں، گلشنِ دیدار کہیں
لطف کی بات کہیں، پیار کا اقرار کہیں
۔۔
دل سے پھر ہو گی مری بات کہ اے دل اے دل
یہ جو محبوب بنا ہے تری تنہائی کا
یہ تو مہماں ہے گھڑی بھر کا، چلا جائے گا
اس سے کب تیری مصیبت کا مداوا ہو گا
مشتعل ہو کے ابھی اٹھیں گے وحشی سائے
یہ چلا جائے گا، رہ جائیں گے باقی سائے
رات بھر جن سے ترا خون خرابا ہو گا
جنگ ٹھہری ہے کوئی کھیل نہیں ہے اے دل
دشمنِ جاں ہیں سبھی، سارے کے سارے قاتل
یہ کڑی رات بھی ، یہ سائے بھی ، تنہائی بھی
درد اور جنگ میں کچھ میل نہیں ہے اے دل
لاؤ سلگاؤ کوئی جوشِ غضب کا انگار
طیش کی آتشِ جرار کہاں ہے لاؤ
وہ دہکتا ہوا گلزار کہاں ہے لاؤ
جس میں گرمی بھی ہے ، حرکت بھی توانائی بھی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہو نہ ہو اپنے قبیلے کا بھی کوئی لشکر
منتظر ہو گا اندھیرے کی فصیلوں کے اُدھر
ان کو شعلوںکے رجز اپنا پتا تو دیںگے
خیر، ہم تک وہ نہ پہنچیں بھی، صدا تو دیں گے
دور کتنی ہے ابھی صبح، بتا تو دیں گے
(منٹگمری جیل)
دریچہ
گڑی ہیں کتنی صلیبیں مرے دریچے میں
ہر ایک اپنے مسیحا کے خوں کا رنگ لیے
ہر ایک وصلِ خداوند کی امنگ لیے
کسی پہ کرتے ہیں ابرِ بہار کو قرباں
کسی پہ قتل مہِ تابناک کرتے ہیں
کسی پہ ہوتی ہے سرمست شاخسار دو نیم
کسی پہ بادِ صبا کو ہلاک کرتے ہیں
ہر آئے دن یہ خداوندگانِ مہر و جمال
لہو میں غرق مرے غمکدے میں آتے ہیں
اور آئے دن مری نظروں کے سامنے ان کے
شہید جسم سلامت اٹھائے جاتے ہیں
(منٹگمری جیل)
ہم بادہ کشوں کے حصے کی، اب جام میں کمتر جاتی ہے
منتِاین و آں تو چھوٹے گی
ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے
تیرے ہونٹوں کے پھولوں کی چاہت میں ہم
دار کی خشک ٹہنی پہ وارے گئے
تیرے ہاتوںکی شمعوں کی حسرت میں ہم
نیم تاریک راہوں میں مارے گئے
سولیوں پر ہمارے لبوں سے پرے
تیرے ہونٹوںکی لالی لپکتی رہی
تیری زلفوں کی مستی برستی رہی
تیرے ہاتھوں کی چاندی دمکتی رہی
جب گھلی تیری راہوں میں شامِ ستم
ہم چلے آئے ،لائے جہاں تک قدم
لب پہ حرفِ غزل ، دل میں قندیلِغم
اپنا غم تھا گواہی ترے حسن کی
دیکھ قائم رہے اس گواہی پہ ہم
ہم جو تاریک راہوںمیں مارے گئے
نارسائی اگر اپنی تقدیر تھی
تیری الفت تو اپنی ہی تدبیر تھی
کس کو شکوہ ہے گر شوق کے سلسلے
ہجر کی قتل گاہوں سے سب جا ملے
قتل گاہوں سے چُن کر ہمارے علم
اور نکلیں گے عُشاق کے قافلے
جن کی راہِ طلب سے ہمارے قدم
مختصر کر چلے درد کے فاصلے
کرچلے جن کی خاطر جہاں گیر ہم
جاں گنوا کر تری دلبری کا بھرم
ہم جو تاریک راہوں میں مارے گئے
چلے بھی آؤ کہ گلشن کا کاروبار چلے
اے روشنیوںکے شہر
سبزہ سبزہ، سوکھ رہی ہے پھیکی، زرد دوپہر
دیواروںکو چاٹ رہا ہے تنہائی کا زہر
دور افق تک گھٹتی، بڑھتی ، اُٹھتی، گرتی رہتی ہے
کہر کی صورت بے رونق دردوں کی گدلی لہر
بستا ہے اس کہر کے پیچھے روشنیوں کا شہر
اے روشنیوں کے شہر
کون کہے کس سمت ہے تیری روشنیوں کی راہ
ہر جانب بے نور کھڑی ہے ہجر کی شہر پناہ
تھک کر ہرسو بیٹھ رہی ہے شوق کی ماند سپاہ
آج مرا دل فکر میں ہے
اے روشنیوں کے شہر
شب خوں سے منھ پھیر نہ جائے ارمانوں کی رو
خیر ہو تیری لیلاؤں کی، ان سب سے کہہ دو
آج کی شب جب دیے جلائیں، اونچی رکھیں لو
(لاہور جیل)
دشنام تو نہیں ہے، یہ اکرام ہی تو ہے
صد شکر کہ اپنی راتوں میں اب ہجر کی کوئی رات نہیں
شوخیِ رنگِ گلستاں ہے وہی
واسوخت
سچ ہے ہمیں کو آپ کے شکوے بجا نہ تھے
بے شک ستم جناب کے سب دوستانہ تھے
ہاں، جو جفا بھی آپ نے کی قاعدے سے کی!
ہاں، ہم ہی کاربندِ اصولِ وفا نہ تھے
آئے تو یوں کہ جیسے ہمیشہ تھے مہرباں
بھولے تو یوں کہ گویا کبھی آشنا نہ تھے
کیوں دادِ غم، ہمیں نے طلب کی، برا کیا
ہم سے جہاں میں کشتہء غم اور کیا نہ تھے
گر فکرِ زخم کی تو خطاوار ہیں کہ ہم
کیوں محوِ مدح خوبیء تیغِ ادا نہ تھے
ہر چارہ گر کو چارہ گری سے گریز تھا
ورنہ ہمیں جو دکھ تھے ، بہت لادوا نہ تھے
لب پر ہے تلخیء مئے ایام ، ورنہ فیض
ہم تلخیء کلام پہ مائل ذرا نہ تھے
دل کی حالت سنبھل چلی ہے
وہ رات جو کہ ترے گیسوؤں کی رات نہیں
ملاقات
یہ رات اُس درد کا شجر ہے
جو مجھ سے ، تجھ سے عظیم تر ہے
عظیم تر ہے کہ اس کی شاخوں
میں لاکھ مشعل بکف ستاروں
کے کارواں، گھِر کے کھو گئے ہیں
ہزار مہتاب، اس کے سائے
میں اپنا سب نور، رو گئے ہیں
یہ رات اُس درد کا شجر ہے
جو مجھ سے تجھ سے عظیم تر ہے
مگر اسی رات کے شجر سے
یہ چند لمحوں کے زرد پتے
گرے ہیں، اور تیرے گیسوؤں میں
الجھ کے گلنار ہو گئے ہیں
اسی کی شبنم سے خامشی کے
یہ چند قطرے، تری جبیں پر
برس کے ، ہیرے پرو گئے ہیں
۔ ۲ ۔
بہت سیہ ہے یہ رات لیکن
اسی سیاہی میں رونما ہے
وہ نہرِ خوں جو مری صدا ہے
اسی کے سائے میں نور گر ہے
وہ موجِ زر جو تری نظر ہے
وہ غم جو اس وقت تیری باہوں
کے گلستاں میں سلگ رہا ہے
(وہ غم، جو اس رات کا ثمر ہے)
کچھ اور تپ جائے اپنی آہوں
کی آنچ میں تو یہی شرر ہے
ہر اک سیہ شاخ کی کماں سے
جگر میںٹوٹے ہیں تیر جتنے
جگر سے نوچے ہیں، اور ہر اک
کا ہم نے تیشہ بنا لیا ہے
الم نصیبوں، جگر فگاروں
کی صبح، افلاک پر نہیں ہے
جہاں پہ ہم تم کھڑے ہیں دونوں
سحر کا روشن افق یہیں ہے
یہیںپہ غم کے شرار کھل کر
شفق کا گلزار بن گئے ہیں
یہیں پہ قاتل دکھوں کے تیشے
قطار اندر قطار کرنوں
کے آتشیں ہار بن گئے ہیں
یہ غم جو اس رات نے دیا ہے
یہ غم سحر کا یقیں بنا ہے
یقیں جو غم سے کریم تر ہے
سحر جو شب سے عظیم تر ہے
(منٹگمری جیل)
شبِ سیہ سے طلب حسنِ یار کرتے رہے
دل تھا کہ پھر بہل گیا، جاں تھی کہ پھر سنبھل گئی
سزا، خطائے نظر سے پہلے، عتاب جرمِ سخن سے پہلے
اے حبیبِ عنبر دست!
کسی کے دستِ عنایت نے کنجِ زنداں میں
کیا ہے آج عجب دل نواز بندوبست
مہک رہی ہے فضا زلفِ یار کی صورت
ہوا ہے گرمیء خوشبو سے اس طرح سرمست
ابھی ابھی کوئی گزرا ہے گل بدن گویا
کہیں قریب سے ، گیسو بدوش ، غنچہ بدست
لیے ہے بوئے رفاقت اگر ہوائے چمن
تو لاکھ پہرے بٹھائیں قفس پہ ظلم پرست
ہمیشہ سبز رہے گی وہ شاخِ مہرووفا
کہ جس کے ساتھ بندھی ہے دلوں کی فتح و شکست
یہ شعرِ حافظِ شیراز ، اے صبا! کہنا
ملے جو تجھ سے کہیں وہ حبیبِ عنبر دست
"خلل پذیر بود ہر بنا کہ مے بینی
بجز بنائے محبت کہ خالی از خلل است”
(سنٹرل جیل حیدر آباد ٨٢)
ہم لوگ سرخرو ہیں کہ منزل سے آئے ہیں
شکر ہے زندگی تباہ نہ کی
دیباچہ
ایک زمانہ ہوا جب غالب نے لکھا تھا کہ جو آنکھ قطرے میں دجلہ نہیں دیکھ سکتی دیدہ بینا نہیں بچوں کا کھیل ہے۔اگر غالب ہمارے ہم عصر ہوتے تو غالبا کوئی نہ کوئی ناقد ضرور پکار اٹھتا کہ غالب نے بچوں کے کھیل کی تو ہین کی ہے یا یہ کہ غالب ادب میں پروپگینڈا کے حامی معلوم ہوتے ہیں۔ شاعر کی آنکھ قطرے میں دجلہ دیکھنے کی تلقین کرنا صریح پروپگینڈا ہے۔اس کی آنکھ کو تو محض حسن سے غرض ہے اور حسن اگر قطرے میں دکھائی دے جائے تو وہ قطرہ دجلہ کا ہو یا گلی کی بدرو کا، شاعر کو اس سے کیا سروکار یہ دجلہ دیکھنا دکھانا حکیم فلسفی یا سیاستداں کا کام ہو گا شاعر کا کام نہیں ہے۔اگر ان حضرات کا کہنا صحیح ہوتا تو آبروئے شیوہ اہل ہنر، رہتی یا جاتی، اہل ہنر کا کام یقینا بہت سہل ہو جاتا، لیکن خوش قسمتی یا بد قسمتی سے فن سخن (یا کوئی اور فن)بچوں کا کھیل نہیں ہے۔اس کے لیے تو غالب کا دیدہ بینا بھی کافی نہیں۔اس لیے کافی نہیں کہ شاعر یا ادیب کو قطرے میں دجلہ دیکھنا ہی نہیں دکھانا ہی ہوتا ہے۔مزید برآں اگر غالب کے دجلہ سے زندگی اور موجودات کا نظام مراد لیا جائے تو ادیب خود بھی اسی دجلہ کا ایک قطرہ ہے۔اس کے معنی یہ ہیں کہ دوسرے ان گنت قطروں سے مل کر اس دریا کے رخ، اس کے بہاؤ، اس کی ہیت اور اس کی منزل کے تعین کی ذمہ داری بھی ادیب کے سر آن پڑتی ہے۔
یوں کہیے کہ شاعر کا کام محض مشاہدہ ہی نہیں، مجاہدہ بھی اس پر فرض ہے۔گردو پیش کے مضطرب قطروں میں دجلہ کا مشاہدہ اس کی بینائی پر ہے، اسے دوسروں کو دکھانا اس کی فنی دسترس پر، اس کے بہاؤ میں دخل انداز ہونا اس کے شوق کی صلابت اور لہو کی حرارت پر۔اور یہ تینوں کام مسلسل کاوش اور جد و جہد چاہتے ہیں۔
نظام زندگی کسی حوض کا ٹھہرا ہوا سنگ بستہ مقید پانی نہیں ہے، جسے تماشائی کی ایک غلط انداز نگاہ احاطہ کرسکے۔ دور دراز، اوجھل دشوار گزار پہاڑیوں میں برفیں پگھلتی ہیں، چشمے ابلتے ہیں، ندی نالے پتھروں کو چیر کر، چٹانوں کو کاٹ کر آپس میں ہمکنار ہوتے ہیں اور پھر یہ پانی کتنا بڑھتا، گھاٹیوں، وادیوں، جنگلوں اور میدانوں میں سمٹتا اور پھیلتا چلا جاتا ہے۔جس دیدہ بینا نے انسانی تاریخ میں زندگی کے یہ نقوش و مراحل نہیں دیکھے اس نے دجلہ کا کیا دیکھا ہے۔پھر شاعر کی نگاہ ان گزشتہ اور حالیہ مقامات تک پہنچ بھی گئی لیکن ان کی منظر کشی میں نطق و لب نے یاوری نہ کی یا اگلی منزل تک پہنچنے کے لیے جسم و جاں جہد وطلب پہ راضی نہ ہوئے تو بھی شاعر اپنے فن سے پوری طرح سرخرو نہیں ہے۔
غالبا اس طویل و عریض استعارے کو روز مرہ الفاظ میں بیان کرنا غیر ضروری ہے۔مجھے کہنا صرف یہ تھا کہ حیات انسانی کی اجتماعی جد و جہد کا ادراک، اور اس جدو جہد میں حسب توفیق شرکت، زندگی کا تقاضا ہی نہیں فن کا بھی تقاضا ہے۔
فن اسی زندگی کا ایک جزو اور فنی جدو جہد اسی جد و جہد کا ایک پہلو ہے۔یہ تقاضا ہمیشہ قائم رہتا ہے اس لیے طالب فن کے مجاہدے کا کوئی نروان نہیں، اس کا فن ایک دائمی کوشش ہے اور مستقل کاوش۔اس کوشش میں کامرانی یا ناکامی تو اپنی اپنی توفیق اور استطاعت پر ہے لیکن کوشش میں مصروف رہنا بہر طور ممکن بھی ہے اور لازم بھی۔یہ چند صفحات بھی اسی نوع کی ایک کوشش ہیں۔ممکن ہے کہ فن کی عظیم ذمہ داریوں سے عہد بر آہونے کی کوشش کے مظاہرے میں بھی نمائش یا تعلی اور خود پسندی کا ایک پہلو نکلتا ہو لیکن کوشش کیسی بھی حقیر کیوں نہ ہو زندگی سے یا فن سے فرار اور شرمساری پر فائق ہے۔
اس مجموعے کی ابتدائی تین نظمیں نقش فریادی کی آخری اشاعت میں شامل ہیں۔یہ تکرار اس لیے کی گئی ہے کہ اسلوب اور خیال کے اعتبار سے یہ نظمیں نقش فریادی کی نسبت اس مجموعہ سے زیادہ ہم آہنگ ہیں۔
فیض احمد فیض
سنٹرل جیل، حیدرآباد(سندھ)