رَواجِ سجدہ ہُوا ہے نمازِ عِشق کے بَعد

ہے نازِ حُسن سے پہلے نیازِ عِشق کے بَعد
رَواجِ سجدہ ہُوا ہے نمازِ عِشق کے بَعد
نہ رازِ حُسن کُھلا ہے نہ رازِ حُسنِ نَظَر
اَگَر کُھلے تَو کُھلیں گے یہ رازِ عِشق کے بَعد
نہ جانے حُسن کو اِس کی خَبَر بھی ہے کہ نہیں
جنوں کی آتی ہے مَنزِل فَرازِ عِشق کے بَعد
طَبیِب و حَضرَتِ ناصح، مَسِیحا و ہَمدَم
رَہے ضروری نہ تجھ کارسازِ عِشق کے بَعد
مِزاجِ حُسن کے ضامنؔ یہ کہتے آئے ہیں
یہ راس آتا ہے سوز و گُدازِ عِشق کے بَعد
ضامن جعفری

جنونِ کوچَہِ جاناں ہے سَر فروشوں میں

ہے شور اہلِ محبّت کے عیب کوشوں میں
جنونِ کوچَہِ جاناں ہے سَر فروشوں میں
عجب نہیں ہے دیارِ خرَد کی ویرانی
یہ دَورِ رقصِ جنوں ہے تماش بینوں میں
نظر ہے حال پَہ کوئی نہ فکرِ آیندہ
بقا کا ذِکر بہت ہے فنا بدوشوں میں
کبھی رہے نہ خریدارِ عالَمِ فانی
ہمیَں شمار نہ کیجے سکوں فروشوں میں
وہ حُبِّ جاہ ہو یا شوقِ خُود نُمائی ہو
تمام رنگ مِلیں گے سفید پوشوں میں
یہ کون مطلعِ انوار بَن کے روشَن ہے
حواس و ہوش کے ضامنؔ تمام گوشوں میں
ضامن جعفری

کُچھ روز اَپنے آپ سے بیگانہ ہو کے دیکھ

ہوش و خِرَد فَریب ہیں دِیوانہ ہو کے دیکھ
کُچھ روز اَپنے آپ سے بیگانہ ہو کے دیکھ
پھِر دیکھیو کہاں کا خلوص اُور کہاں کا عشق
مَنظَر سے کَٹ ذَرا، ذرا اَفسانہ ہو کے دیکھ
مَت پُوچھ رَبطِ ساقی و میِنا و بادہ خوار
سَب راز کھُلتے جائیں گے پیمانہ ہو کے دیکھ
کیا جانے کَب سے ٹھوکروں میں تھا اِک اہلِ ہوش
آخر ضَمِیر چیخا کہ دیوانہ ہو کے دیکھ
سَمجھا رَہا ہُوں دیکھئے کَب تَک سَمَجھ میں آئے
اَپنا ہی ہو کے دیکھ لے میرا نہ ہو کے دیکھ
ضامنؔ! مُصِر ہے کَب سے کِسی کی نگاہِ ناز
خُودسوز! شَمعِ حُسن کا پَروانہ ہو کے دیکھ
ضامن جعفری

میں دل کی بات جانے کب کَہُوں گا

ہمیشہ سوچتا ہُوں اب کَہُوں گا
میں دل کی بات جانے کب کَہُوں گا
جو سب کچھ ہو کے بھی تم کہہ نہ پائے
وہ میں بے عہدہ و منصب کَہُوں گا
تمہارے دن ہیں تم جو چاہو کہہ لو
مرا وقت آئے گا میں تب کَہُوں گا
مُصِر ہیں وہ کہ جو دل میں ہے کہہ دُوں
قیامت ہو گی لیکن جب کَہُوں گا
یہ دعوے کفر کے اِک دوسرے پر
بھَلا میں اور اِسے مذہب کَہُوں گا
کوئی سُننے پہ راضی ہو تَو ضامنؔ
اَلِف سے لے کے یے تک سب کَہُوں گا
ہوچکا جو وہ دوبارا نہیں ہونے دوں گا
میں سرِ راہ تماشا نہیں ہونے دوں گا
گوشہِ چشم میں رہ پائے تو بیشک رہ لے
قطرہِ اشک کو دریا نہیں ہونے دوں گا
یہ کوئی بات ہے جب چاہے نکالے مجھ کو
بزم کو عالمِ بالا نہیں ہونے دوں گا
دل کو سمجھاؤں گا جیسے بھی ہو ممکن لیکن
اب میں اظہارِ تمنّا نہیں ہونے دوں گا
اے مرے ظرف و اَنا اِتنے پریشاں کیوں ہو
کہہ چکا ہُوں تمہیں رُسوا نہیں ہونے دوں گا
مر بھی جائے گی اگر دنیا تو خود کو ضامنؔ
جیسی یہ خود ہے میں ایسا نہیں ہونے دوں گا
ضامن جعفری

خُلوص و مہر و وفا در بَدَر گئے ہَوں گے

ہمارے بعد، نہ جانے کِدَھر گئے ہَوں گے
خُلوص و مہر و وفا در بَدَر گئے ہَوں گے
وہ میرا حلقہِ احباب کیا ہُوا ہو گا
وہ میرے لعل و جواہر بکھر گئے ہَوں گے
جو شوق و عجلتِ منزل میں تھے نہ ڈھونڈ اُن کو
وہ قافلے تو کبھی کے گذر گئے ہَوں گے
نہ معذرت نہ ندامت، تم اپنی فکر کرو
تمہارے ہاتھ مرے خوں میں بھر گئے ہَوں گے
کوئی تَو منزلِ جاناں پہ سرخ رُو پہنچا
نہیں تھے ہم نہ سہی، ہَمسَفَر گئے ہَوں گے
ہر ایک تاج محل میں ہے دفن یہ بھی سوال
نجانے کتنوں کے دستِ ہُنَر گئے ہَوں گے
یونہی تو سر نہ ہوئی ہو گی منزلِ مقصود
ہزاروں راہِ طَلَب ہی میں مر گئے ہَوں گے
ہمارے بعد سکوں سب کو ہو گیا ہو گا
چڑھے ہوئے تھے جو دریا اُتَر گئے ہَوں گے
فرازِ دار سے ضامنؔ! نظر نہ آیا کوئی
سکونِ قلب سے احباب گھر گئے ہَوں گے
ضامن جعفری

ہاتھ میں آئینہ نہیں ہوتا

ہم نے گر کچھ کَہَا نہیں ہوتا
ہاتھ میں آئینہ نہیں ہوتا
کیا یہاں سب خدا ہی بستے ہیں ؟
کیا یہاں وہ خدا نہیں ہوتا
گر نہ کرتا وہ خلق حُسنِ مجاز
کوئی قبلہ نُما نہیں ہوتا
موت سے بھی ذرا بنا کے رکھ
زندگی کا پتا نہیں ہوتا
شہر رہتا ہے عادتاً بے چین
جب کوئی حادثہ نہیں ہوتا
عکس ہیں لوگ یا ہیں ردِّ عمل
کوئی اچّھا بُرا نہیں ہوتا
گر تغیّر ہے لابدی ضامنؔ
آدمی کیوں بڑا نہیں ہوتا
ضامن جعفری

بن بن میں گھومنا کوئی سَودائی ڈھونڈنا

ہم سا اگر کبھی کوئی شیدائی ڈھونڈنا
بن بن میں گھومنا کوئی سَودائی ڈھونڈنا
بالائے طاق رکھ کے ہر اِک احتیاط کو
خود مشغلہ ہے حسن کا رُسوائی ڈھونڈنا
چِڑ ہے وفا کے نام سے ایسی بھی کیا بھلا
جب ڈھونڈنا تمہیں کوئی ہرجائی ڈھونڈنا
خود سے بھی مِل سکوگے نہ ضامنؔ کے بعد تم
یادوں کے ازدحام میں تنہائی ڈھونڈنا
ضامن جعفری

شایانِ شان مَدِّ مُقابِل تلاش کر

ہم جیسا کوئی عِشق میں کامِل تلاش کر
شایانِ شان مَدِّ مُقابِل تلاش کر
منزل سمجھ کے بیٹھ نہ ہر سنگِ میِل کو
حُسنِ نَظَر کو بھُول کے حاصل تلاش کر
خاطِر میں لا نہ گردِشِ لیل و نَہار کو
راہوں میں مَت بھَٹَک کوئی مَنزِل تلاش کر
ہر چیز بے جگہ ہے تَو اس کا سَبَب بھی ہے
ترتیبِ نَو کے واسطے عادِل تلاش کر
شکوہ شکستِ دل کا نہ کر سنگ و خشت سے
پتّھر کو توڑنے کے لیے دل تلاش کر
مَقتَل سے آ رَہی ہے صَدا اَے اَمیرِ شہر
اِظہارِ غم نہ کر مِرا قاتل تلاش کر
ضامنؔ لَگا کے سینے سے ایک ایک یاد کو
تنہائیوں میں رونَقِ محفل تلاش کر
ضامن جعفری

ہر گھڑی ہوش و خرَد کی گفتگو مت کیجٔو

ہم جنوں والوں سے ہرگز دو بدو مت کیجٔو
ہر گھڑی ہوش و خرَد کی گفتگو مت کیجٔو
خود شناسائے جنوں ہے وہ، یہ بس رکھیو خیال
جا کے چپکا بیٹھ رہیو ہاؤ ہُو مت کیجٔو
یہ دہانِ زخم بہلاتے ہیں غم کو مثلِ گُل
دل کی آرائش ہیں اِن کو کُو بہ کُو مت کیجٔو
انتظارِ دید میں تکتے رہیں گے در ترا
کشتۂ الفت ہیں ، ہم کو قبلہ رُو مت کیجٔو
بجلیاں ہیں جہل کی نخلِ خِرَد کی تاک میں
ضامنؔ! اِس جا خواہشِ ذوقِ نمو مت کیجٔو
ضامن جعفری

غُربَت نَصیب خوابِ وَطَن دیکھتے رَہے

ہَم اِفتراقِ رُوح و بَدَن دیکھتے رَہے
غُربَت نَصیب خوابِ وَطَن دیکھتے رَہے
کیسے ہُوئے شَریکِ بَہاراں نہ پُوچھیے
ہَم رَوزَنِ قَفَس سے چَمَن دیکھتے رَہے
کِس کو بھَلا تھی جُراتِ اعلانِ حَرفِ حَق
حَسرَت سے سَب کو دار و رَسَن دیکھتے رَہے
تَرکِ تَعَلُّقات کا مَنظَر عَجیب تھا
چیِنِ جبیِنِ وعدہ شکَن دیکھتے رَہے
کُہرامِ آگَہی تھا ہر اِک سُو خزاں بَدوش
جہلِ خِرَد کے سَرو و سَمَن دیکھتے رَہے
دادِ سُخَن میں اُن کے کِسی کو نہ ہوش تھا
اِک ہَم ہی تھے جو رُوئے سُخَن دیکھتے رَہے
ضامنؔ! شِگُفتِ عالَمِ تَنہائی کیا کَہیَں !
ہَر گام ایک نَقشِ کُہَن دیکھتے رَہے
ضامن جعفری

ہَر بَندِ قَفَس کو توڑا ہے ہَر دامِ فسوں سے گُذرے ہیں

ہر مقتل سے ہو آئے ہیں ہَر موجَہِ خُوں سے گُذرے ہیں
ہَر بَندِ قَفَس کو توڑا ہے ہَر دامِ فسوں سے گُذرے ہیں
اَندیشَہِ فَردا کے ماروں کی صَف میں ہَم کَب شامِل تھے
اے اہلِ خِرَد کُچھ پاسِ اَدَب ہَم لوگ جنوں سے گذرے ہیں
کِس چیز کا غَرّہ ہے اِن کو؟ کِس بات پَر اِتنے نازاں ہیں؟
یہ واعِظ و ناصِح کون سے دَردِ روز اَفزُوں سے گُذرے ہیں
یہ روز بَدَلتے مَوسِم جَب چاہیں جا کَر دَریافت کریں
طُوفانِ حَوادِث حَیراں تھے ہَم اِتنے سکوں سے گُذرے ہیں
کیا جان کی بازی لگنی ہے؟ گر یہ ہے تَو چَلیے یہ ہی سَہی!
ہَم لوگ تَواِس کے عادی ہیں ہَم خاک اُور خُوں سے گُذرے ہیں
بینائی بَغیَرِ دانائی اِلزام ہے اَندھی آنکھوں پَر
کیا اہلِ دَوَل دیکھیں گے ہَم کِس کَربِ دَروں سے گُذرے ہیں
کُچھ کارِ جنوں تھا بے پایاں کُچھ تَنگیِ دامَنِ وَقت بھی تھی
کُچھ ہَم بھی عُجلَت میں ضامنؔ بے "کُن”، "فَیَکُوں” سے گُذرے ہیں
ضامن جعفری

بس قیامت اب آنے والی ہے

ہر طرف اِک لہو کی لالی ہے
بس قیامت اب آنے والی ہے
آسماں پر ہے زندگی کا دماغ
سانس اِک مستعار کیا لی ہے
جس سے پیش آئیے محبّت سے
وہ سمجھتا ہے یہ سوالی ہے
آپ جانیں اور آپ کی دُنیا
ہم نے دُنیا نئی بَسا لی ہے
ہر نظر میں ہے ایک ہی پیغام
بزمِ دل جانے کب سے خالی ہے
جِس کو قحط الرجال کہتے ہیں
کیا وہ صورت کوئی نِرالی ہے
چُپ سے ہیں اہلِ انجمن جب سے
آپ نے انجمن سنبھالی ہے
روح اور دل میں فاصلے ہیں بہت
کس نے یہ طرزِ نَو نکالی ہے؟
آؤ ضامنؔ! نئی جگہ ڈھونڈیں
یاں کی ہر چیز دیکھی بھالی ہے
ضامن جعفری

ہر بہانے ستا رہا ہے مجھے

ہر طرح یاد آ رہا ہے مجھے
ہر بہانے ستا رہا ہے مجھے
حالِ دل روز پوچھنے والو
کوئی اندر سے کھا رہا ہے مجھے
اُس سے ملنے کو جا رہا ہوں میں
طُور پر کیا بُلا رہا ہے مجھے
ڈُوب کر رہ گئی مری آواز
جو ہے اپنی سُنا رہا ہے مجھے
ظلم اتنا نہ رکھ روا خود پر
جانے کب سے بُھلا رہا ہے مجھے
جان میں جان آ گئی ضامنؔ
جب سُنا وہ بُلا رہا ہے مجھے
ضامن جعفری

اچّھا یہ میرے درد کا درماں کِیا گیا

ہر زخمِ دل کو بزم میں عُریاں کِیا گیا
اچّھا یہ میرے درد کا درماں کِیا گیا
روزِ اَزَل ہی سے مجھے حیراں کِیا گیا
مسجود کر کے ہمسرِ یزداں کِیا گیا
آساں کتابِ زیست نہ تھی، اُس پہ مستزاد
اَوراقِ زندگی کو پریشاں کِیا گیا
دُشواریاں تھیں اِتنی اگر راہِ عشق میں
کیوں وصلِ یار داخلِ امکاں کِیا گیا
روشن شبِ فراق رہے تیرے خدّ و خال
ہر داغِ دل سے دل میں چراغاں کِیا گیا
بدلا تھا تُو نے خُود مِرا مفہومِ زندگی
اب خُود ہی کہہ رَہا ہے کہ احساں کِیا گیا
اِظہارِ عشق کیا ہے، تقاضائے حُسن ہے
خُود اُس طَرَف سے دِید کا ساماں کِیا گیا
ضامنؔ نے اِنتباہِ مسلسل کے باوجود
پِھر سچ کہا تَو داخلِ زنداں کِیا گیا
ضامن جعفری

مرا جواب بھی اپنے سوال میں رکّھا

ہر ایک چیز کو اُس نے خیال میں رکّھا
مرا جواب بھی اپنے سوال میں رکّھا
وہ پاس تھا تو یہ سب بھی عزیز تھے مجھ کو
وگرنہ کیا ہے بھلا ماہ و سال میں رکّھا
خلوصِ عشق تَو حسنِ عروج ہی پہ رہا
عروجِ حسن کو پھر کیوں زوال میں رکّھا
تری نظر کا مرے دل سے کھیل ہے سارا
حقیقتاً ہے نہ کچھ سُر نہ تال میں رکّھا
سنبھال سکتیں یہ کیا وسعتِ خیال مری
حقیقتوں کو بھی میں نے خیال میں رکّھا
عجیب حسنِ ارادت ہے تجھ سے ضامنؔ کو
ترا ہر ایک سخن نیک فال میں رکّھا
ضامن جعفری

کسی کو ترکِ تعلّق سَتا رہا ہو گا

ہر انجمن میں مرا ذکر آ رہا ہو گا
کسی کو ترکِ تعلّق سَتا رہا ہو گا
دل و دماغ میں اِک کشمکش تو ہو گی ابھی
لبوں پہ نام مرا ڈگمگا رہا ہو گا
زہے نصیب وہ پھر آ رہا ہے بستی میں
گئے زمانوں کو بھی ساتھ لا رہا ہو گا
خوشی میں بھی مجھے رہتی ہے فکر دامن گیر
کہ وقت تِیر کماں میں لگا رہا ہو گا
لحد میں ہوں گے حقوقِ بشر مرے لب پر
فرشتہ حکمِ اِلٰہی سُنا رہا ہو گا
بنایا کرتے تھے ہنس ہنس کے سب کو دیوانہ
زمانہ اب وہ اُنہیں یاد کیا رہا ہو گا
ضامن جعفری

وہ جانے کیوں مجھے اِتنا حسیں معلوم ہوتا ہے

ہر اِک انداز اُس کا دل نشیں معلوم ہوتا ہے
وہ جانے کیوں مجھے اِتنا حسیں معلوم ہوتا ہے
نظر سے دُور ہے دل سے قریں معلوم ہوتا ہے
وہ ساحر ہے مگر ساحر نہیں معلوم ہوتا ہے
تلطّف حسنِ جاناں کا بھری محفل میں کیا کہیے
کہ یہ ہوتا کہیِں ہے اُور کہیِں معلوم ہوتا ہے
خمار آلود نظروں میں ہیں کیا کیا رفعتیں پنہاں
مجھے ضامنؔ! فلک مثلِ زمیں معلوم ہوتا ہے
ضامن جعفری

کیا یہ دن رات میری قید میں ہیں ؟

نور و ظلمات میری قید میں ہیں ؟
کیا یہ دن رات میری قید میں ہیں ؟
تو کہے تَو اِنہَیں رِہا کردوں
کچھ سوالات میری قید میں ہیں
قید میں خوش ہُوں سُن کے یہ افواہ
اختیارات میری قید میں ہیں
اِک اشارے کی دیر ہے ورنہ
سب طلسمات میری قید میں ہیں
وقت لا علم ہے ابھی شاید
چند لمحات میری قید میں ہیں
حُسن کو اپنے تُو سنبھال کے رکھ
ابھی جذبات میری قید میں ہیں
محورِ کائنات ہُوں ضامنؔ
انقلابات میری قید میں ہیں
ضامن جعفری

محبّت ہے اُسے پر مانتا نئیں

نہیں یہ بھی نہیں کہ جانتا نئیں
محبّت ہے اُسے پر مانتا نئیں
نجانے کب سے دل میں رہ رہا ہے
مگر اب تک مجھے پہچانتا نئیں
بَنا میں بھی ہُوں اِس مٹّی کا لیکن
میں اِس مٹّی میں خود کو سانتا نئیں
بہت دشمن ہے میرا چرخِ گردوں
مگر میں اس کو کچھ گردانتا نئیں
محبّت تَو اشاروں کی زباں ہے!
تُمہیں ہوتی تَو میں پہچانتا نئیں ؟
سُکونِ و چیَن اَگَر بَستی میں مِلتے
میں خاکِ دَشت و صحرا چھانتا نئیں
فریبِ آگَہی مَت کھانا ضامنؔ
سُکونِ دِل کو یہ پہچانتا نئیں
ضامن جعفری

اَب آرزو ہی نہیں ہے تَو جُستجو بھی نہیں

نہ وہ چمن نہ چَلَن ہے سو رنگ و بُو بھی نہیں
اَب آرزو ہی نہیں ہے تَو جُستجو بھی نہیں
سُرود و ساز و مُغَنّی کو ڈھونڈنے نکلوں
مِرا مِزاج نہیں ہے یہ میری خُو بھی نہیں
یہ کہہ کے آخری خواہش کو کر دیا رُخصَت
کہ آج سے میں اَکیلا رَہوں گا تُو بھی نہیں
مَزہ ہے زیست کا جب تک کہ روح ہے سَرشار
اَگر نہیں ہے تَو پھر لُطفِ ہاؤ ہُو بھی نہیں
نہیں تھے تُم تَو نَظَر ہو چلی تھی آوارہ
تُم آگئے تَو اِسے شوقِ کُو بہ کُو بھی نہیں
زَمانے تُجھ سے مِرے زَخم مُختلِف کیوں ہیں
مشابہَت بھی نہیں کوئی ہُو بَہُو بھی نہیں
یہ میں ہُوں یا ہے کوئی مُجھ میں اَجنَبی ضامنؔ
جو خُود سے رہتی تھی اَب تَو وہ گُفتگُو بھی نہیں
ضامن جعفری

بھَلا بر وقت کس نے نیّتِ قاتل کو پہچانا

نہ میں اُس کی نظر سمجھا نہ اُس کے دل کو پہچانا
بھَلا بر وقت کس نے نیّتِ قاتل کو پہچانا
تھی عادت قتل کر نے کی سو اُس نے کر دیا لیکن
نگاہِ واپسیں دیکھی تو پھر بسمل کو پہچانا
تلاشِ عافیت میں کس قدر خوش فہم تھیں موجیں
پٹختی رہ گئیں جب سر، تو پھر ساحل کو پہچانا
سدا انسان خود کو رفعتِ افلاک پر سمجھا
نہ پستی پر نظر ڈالی نہ آب و گِل کو پہچانا
میں ضامنؔ گَردِ مایُوسی میں منزل کھو چُکا ہوتا
غُبارِ راہ نے اِس وحشیِ کامل کو پہچانا
ضامن جعفری

تمہیں خبر کیا ہنسا ہے کیا کیا رُلا رُلا کے ہمیں زمانہ

نہ کوئی مونس نہ کوئی ہمدم کہیَں تَو کس سے کہیَں فسانہ
تمہیں خبر کیا ہنسا ہے کیا کیا رُلا رُلا کے ہمیں زمانہ
بسی تَو بستی ہمارے دل کی چلو بالآخر اِسی بَہانے
مِلا نہ کون و مکاں میں رنج و غم و اَلَم کو کوئی ٹھکانہ
قسم ہے تجھ کو بھی اے ستمگر شریکِ بزمِ طرب ہو آ کر
زمانہ خوشیاں منا رہا ہے جلا رہا ہُوں میں آشیانہ
جہاں کی نیرنگیوں سے شکوہ ہو کیا کہ تم خود بدل گئے ہو
نظر اُٹھاؤ اِدھر تَو دیکھو بنا رہے ہو عبَث بہانہ
ہر اِک طبیعت ہوئی ہے مضطر ہر اِک کو بھُولا ہے روزِ محشر
بہت پریشاں ہیں آج وہ بھی حضورِ حق ہے مرا فسانہ
سکونِ دل آج بھی ہے غارت ملے نہیں گو کہ مدّتوں سے
قدم قدم پر ہے بے قراری کو یادِ ماضی کا تازیانہ
وہ کس رعونت سے کہہ رہے ہیں اگر نہ ہَوں ہم کسی کے ضامنؔ
تو وہ سمجھ لے کہ اُٹھ گیا اِس جہان سے اُس کا آب و دانہ
ضامن جعفری

اَب کَہاں مُعجَزَہِ کُن فَیَکُوں ہوتا ہے

نہ کوئی سِحرِ نَظَر ہے نہ جُنوں ہوتا ہے
اَب کَہاں مُعجَزَہِ کُن فَیَکُوں ہوتا ہے
جِتنی وحشَت ہو سِوا اُتنا سُکوں ہوتا ہے
رَہرَوِ راہِ جُنوں کہتا ہے یُوں ہوتا ہے
لوگ کہتے ہیں کہ ہوتا ہے محبت میں جُنوں
ہَم یہ کہتے ہیں کہ ہوتا ہے تَو کیوں ہوتا ہے
مَنزِلِ جَذب و جُنُوں اِتنی بھی آسان نہیں
یہ سَمَجھ لیَں کہ تَمَنّاؤں کا خُوں ہوتا ہے
کُل سے مِلنے کے لیے راہِ فَنا میں ضامنؔ
عِشق آغاز ہے پھِر جَذب و جُنُوں ہوتا ہے
ضامن جعفری

اَگَر جَہاں میں نہ ہَم سا کوئی ہُوا ہوتا

نہ عِشق اُور نہ کوئی مُجرِمِ وَفا ہوتا
اَگَر جَہاں میں نہ ہَم سا کوئی ہُوا ہوتا
وقارِ عشق کو مِلتی نہ گر اَنا ہم سے
ہَر اِک حَسین بَزعمِ خُود اِک خُدا ہوتا
ضَمِیرِ عَصر کا یہ جَشنِ مَرگ ہے، وَرنہ
بھَرے جَہاں میں کِسی نے تَو کُچھ کَہا ہوتا
فَقَط بَشَر ہے وہ اس پر اَگَر یہ عالَم ہے
جو گُل کِھلاتا وہ کَم تھا، اَگَر خُدا ہوتا
وہ حُسن ہوتا نہ گَر حُسنِ مُنفَرِد ضاؔمن
لَبوں پہ بَن کے نہ یوں حَرفِ مُدّعا ہوتا
ضامن جعفری

وہ بے گھری کہ جو ہوتی ہے گھر کے ہوتے ہُوئے

نہ سمجھے اہلِ نظر بھی نظر کے ہوتے ہُوئے
وہ بے گھری کہ جو ہوتی ہے گھر کے ہوتے ہُوئے
تلاشِ وسعتِ صحرا ہو نطق و لہجے کو
تَو کون بولے گا دِیوار و دَر کے ہوتے ہُوئے
تِرے جنوں میں یقیناً کمی رَہی ہو گی
جو سَر جھُکا دِیا سَودائے سَر کے ہوتے ہُوئے
اَزَل اَبَد کی نظر بندیاں معاذ اللہ
یہ اِک عذاب ہے ذَوقِ نظر کے ہوتے ہُوئے
حواس و ہوش سے ہَم کو شکایتیں کیسی؟
شکار ہو گئے ہَم بال و پَر کے ہوتے ہُوئے
ہَر ایک سانس میں ہے ایک دَشتِ تَنہائی
سَفَر میں رہتا ہُوں میں اَپنے گھر کے ہوتے ہُوئے
سُکونِ قَلب کو اِس اَنجمن سے کیا نِسبَت
بَھلا بَتائیے! اِس شور و شَر کے ہوتے ہُوئے
یہاں کے بعد وہاں کی بھی فکر ہے ضامنؔ
اِک اَور بوجھ ہے اِس بارِ سَر کے ہوتے ہُوئے
ضامن جعفری

زمانہ مجھ میں پِھر کیا دیکھتا ہے

نظر میری نہ چہرہ دیکھتا ہے
زمانہ مجھ میں پِھر کیا دیکھتا ہے
نظر کا کام ہے پیغام دینا
مگر دِل تَو ارادہ دیکھتا ہے
زمانے سے توقّع رکھنے والے
زمانہ بس تماشا دیکھتا ہے
ہُوا دِل مثلِ سنگِ میل بے حِس
نہ جانے روز کیا کیا دیکھتا ہے
مِرے چہرے پَہ وہ نظریں جمائے
تغیّر آتا جاتا دیکھتا ہے
وہ کچھ سمجھا نَہ ہو ممکن ہے ضامنؔ
پَہ رنگِ رُخ تَو اُڑتا دیکھتا ہے
ضامن جعفری

خزاں سے چھیِن کے لے آئیں گے بَہاروں کو

نَظَر اُٹھا کے وہ دیکھیں تَو جاں نِثاروں کو
خزاں سے چھیِن کے لے آئیں گے بَہاروں کو
بَلائیں ڈھُونڈتی پھِرتی ہیں بے سَہاروں کو
سُکونِ قَلب کہاں زِندَگی کے ماروں کو
بھَلا مَجال ہے اِک اَشکِ غَم بھی جھانک تَو لے
سَلام، چَشمِ نَم! اِن تیرے آبشاروں کو
خِزاں نے اہلِ چمن کو یہ دی ہے آزادی
بَسالیں چَشمِ تَصَوُّر میں بَس بَہارَوں کو
ہَمارے قَتل پہ جَب بھی اُداس ہَوں قاتل
نَویدِ جَشنِ طَرَب دینا، سوگواروں کو
سَفینہ ڈُوب چکا، جَشن کی ہو تیّاری
یہ ناخُدا کا نَیا حُکم ہے کناروں کو
نِگار خانۂ دِل خَستہ حال ہے، ضامنؔ
بہت سَنبھال کے رَکّھا ہے یادگاروں کو
ضامن جعفری

محض خیال سے آگے نکل رہا ہے کوئی

نشاطِ درد کا عنواں بدل رہا ہے کوئی
محض خیال سے آگے نکل رہا ہے کوئی
قیام لگتی ہیں ساری مسافتیں جب سے
ہر ایک سانس کے ہمراہ چل رہا ہے کوئی
مرے خیال کی زینت رہے گا ہر منظر
بدل کے دیکھ لے رُخ گر بدل رہا ہے کوئی
یہ بے کلی تَو تری انجمن کا ہے دستور
بھلا یہاں پہ کبھی ایک کل رہا ہے کوئی
وہ شخص قید ہوں میں جس کی ذات میں ضامنؔ
اُسے خبر ہی نہیں ہے سنبھل رہا ہے کوئی
ضامن جعفری

اس کو تِرا اِک حَلقَہِ فِتراک بہت ہے

نخچیرِ خِرَد کو یہی اِدراک بہت ہے
اس کو تِرا اِک حَلقَہِ فِتراک بہت ہے
قرطاس و قَلَم حلقۂ زنجیرِ رَہ و رَسم
اُور ذہنِ رَسا مائلِ افلاک بہت ہے
اِک حُسن کہ ہے سارے حجابوں میں بھی محتاط
اِک جوشِ تمنّا ہے کہ بیباک بہت ہے
اِک حُسن کہ چاہے ہے سَدا زندگیٔ خضر
اِک وقت کی رَو ہے کہ جو سفّاک بہت ہے
کچھ شَوقِ رَفُو سے وہ سِتَمگَر بھی ہے عاری
کُچھ دامَنِ حَسرَت بھی مِرا چاک بہت ہے
آنکھوں میں نہاں یادِ نشیمَن کے ہیں سَیلاب
میرے لیے ذکرِ خَس و خاشاک بہت ہے
کیا کیا نہ دِلِ بُلبُلِ بیتاب پہ گُذری
یُوں دیکھئے تَو دامنِ گُل پاک بہت ہے
وہ سَیر کو مَقتَل کی ذَرا جا کے تَو دیکھیَں
واں دُھول اُڑانے کو مِری خاک بہت ہے
ضامنؔ بھی ہے اِک اہلِ ضمیر اِس کے لیے بھی
کیا خلعتِ زَر! خون کی پوشاک بہت ہے
ضامن جعفری

وہ تنہا تھا تَو کتنا تھا یہ سمجھانا نہیں آتا

میں رازِ کُن ہُوں مجھ کو فاش ہو جانا نہیں آتا
وہ تنہا تھا تَو کتنا تھا یہ سمجھانا نہیں آتا
خبر شاید نہیں ہے اُس کے حسنِ بے محابا کو
خلوصِ عشق کو مایوس ہو جانا نہیں آتا
جنوں کی اور میری اِن دِنوں اچھّی گذرتی ہے
یہاں بس ہم ہی دو ہیں کوئی انجانا نہیں آتا
میں لڑتا پھِر رہا ہُوں آئینہ خانوں سے جا جا کر
سمجھ میں آئینوں کا یوں بدل جانا نہیں آتا
یونہی تشنہ رہے گا میرا ذوقِ نا رسائی کیا
مرے جلوہ نُما کیا تجھ کو ترسانا نہیں آتا
حقیقت وہ ہے جو آنکھوں سے بِن برسے نہیں رہتی
ٹپکنے کو کبھی دامن پہ افسانا نہیں آتا
وہ اظہارِ محبت ہی نہیں سمجھا تَو میرا دِل
معافی چاہتا ہے اِس کو دوہرانا نہیں آتا
سفر میں بستیوں کے اِک زمانہ ہو گیا ضامنؔ
سکوں حیراں ہے کیا رستے میں ویرانا نہیں آتا
ضامن جعفری

سبھی نے چِیر کے سینے دِکھا دیے اپنے

میں آہ بھَرنے کو تھا، لب جو وا کیے اپنے
سبھی نے چِیر کے سینے دِکھا دیے اپنے
زمین و اہلِ زمیں کیا ہیں جبکہ انساں نے
خدا کو بانٹ کے حِصّے بنا لیے اپنے
میں تیز دھوپ سے بچنے جہاں جہاں پہنچا
ہر اِک دَرَخت نے پَتّے گِرادیے اپنے
اگرچہ پہلو تہی زندگی نے کی ضامنؔ
اَجَل دِکھاتی رَہی سارے زاویے اپنے
ضامن جعفری

کس کو ہے اختیار جتانا پڑا مجھے

موضوعِ جبر بحث میں لانا پڑا مجھے
کس کو ہے اختیار جتانا پڑا مجھے
باغِ عدم کو چھوڑ کے دشتِ وجود میں
آتا کبھی نہیں مگر آنا پڑا مجھے
اِس درجہ روشنی سے عداوت بڑھی یہاں
"جلتا ہُوا چراغ بجھانا پڑا مجھے”
عالم وہ ایک ہُو کا کہ موت آ کے لَوٹ جائے
مرنے سے پہلے شور مچانا پڑا مجھے
ضامنؔ! وہ فردِ جرم تھی یا فردِ جبر تھی
خاموش ہو کے سر کو جھکانا پڑا مجھے
ضامن جعفری

اَب ہَم رَہیں گے کوچہِ قاتل کے آس پاس

منصف کے آس پاس نہ عادل کے آس پاس
اَب ہَم رَہیں گے کوچہِ قاتل کے آس پاس
اے عافیَت نَشیں ! میں وہ طُوفاں پَسَند ہُوں
پَھٹکا تَلَک نہیں کبھی ساحِل کے آس پاس
واقِف ہیں اِن امُور سے ہَم، ہَم سے پُوچھنا
محسوس گَر ہو دَرد کبھی دِل کے آس پاس
دِیوانہ ہَنس رَہا ہے، تصوّر کا فیض ہے
چہرا ہے کوئی، شورِ سَلاسِل کے آس پاس
آسُودَگانِ عِشق سے پوچھو کہ لُطفِ زِیست
مَنزِل پہ ہے زِیادَہ کہ مَنزِل کے آس پاس
شاخَیں شکستہ بَرگ پَریشاں چمن اُداس
ہَر سمت، پَر ہی پَر ہیں عنادِل کے، آس پاس
خُوشیوں کی بَزم سے ہَم اَبھی ہو کے آئے ہیں
کوئی نہ کوئی غَم تھا ہَر اِک دِل کے آس پاس
دِلدادگانِ عِشق کو کیا فکرِ قید و بَند
رُک جاتے ہیں یہ خُود ہی سَلاسِل کے آس پاس
یارب! جہانِ حُسن ہو ضامنؔ پَہ مہرباں
کوئی حَسین آ بَسے سائل کے آس پاس
ضامن جعفری

قیامت میں اَور اِک قیامت مچا دوں

مِلے زِندگی سے جو تحفے دِکھا دُوں
قیامت میں اَور اِک قیامت مچا دوں
زمانے سے اَپنا تَعارُف کَرا دُوں
ہَر اِک زَخم دِیوارِ دِل پَر سَجا دُوں
نہ جانے مِزاجِ گِرامی ہیں کیسے
میں نوحہ پَڑھوں یا قَصیِدہ سُنا دُوں
مُکَمَّل سے شاید کہ شَرمِندَگی ہو
تُمہیَں آؤ آدھی کَہانی سُنا دُوں
فَقیِروں کی بَستی سے آیا ہُوا ہُوں
تُمہیَں کیا میں جِس دَر پہ چاہُوں صَدا دُوں
یہ دِل اِحتیاطَوں کا مارا ہُوا ہے
کئی بار سوچا کہ سَب کچھ بَتا دُوں
وہ خاموش بیٹھے ہیں میں کہہ رہا ہُوں
یہ تَصویر دے دو میں دِل میں لَگا دُوں
اِشارے کِنائے سِکھائے ہیں کِس نے
کَہو تَو میں سَب اَپنے اِحساں گِنا دُوں
غَزَل مَت سُنانا اَبھی اُن کو ضامِنؔ
میں شعروں میں خُونِ جِگَر تَو مِلا دُوں
ضامن جعفری

"اِس تَکَلُّف سے کہ گویا مَیکَدے کا دَر کُھلا”

مَطلَعِ اَنوارِ دِل پَر اِک عَجَب مَنظَر کُھلا
"اِس تَکَلُّف سے کہ گویا مَیکَدے کا دَر کُھلا”
ہے اَزَل سے پَردَہ دارِ عِزَّت و نامُوسِ عِشق
بَن کے چَشمِ مُنتَظِر ہَر زَخمِ دِل اَندَر کُھلا
وحشَتِ دِل سے ہے مَحوِ گُفتگو پَیہَم سکوت
رازِ رَبطِ حُسن و عِشق اَلقصَّہ اب جا کر کُھلا
زحمَتِ دَستَک نَہ کر، تَعبیِرِ خوابِ آرزُوً!
خانَہِ دِل کا ہمیشہ سے رَہا ہے دَر کُھلا
باعِثِ کَربِ سَماعَت کیوں ہے آوازِ ضَمیِر
عُقدَہِ لایَنحَل اَکثَر دار پَر جا کَر کُھلا
حُسن کو دینا پَڑیں گے سَب سوالوں کے جَواب؟
حَشر کے دِن عِشق ہو گا پا بَرہنَہ سَر کُھلا
یہ نہ ہو ضامنؔ کوئی دستک نہ سُن پاوں کہیں
احتِیاطاً، مستقل رکھتا ہُوں دِل کا دَر کُھلا
ضامن جعفری

میں گِر کے اُٹھتا رَہا یَہاں تَک کہ ساری بَستی نے ہار مانی

مِری خودی کے نَشے سے آخر خُمارِ ہَستی نے ہار مانی
میں گِر کے اُٹھتا رَہا یَہاں تَک کہ ساری بَستی نے ہار مانی
اَمیرِ شہر اَب تُو کہہ چُکا ہے تَو ایک میری بھی بات سُن لے
تِری شِکَم پَروَری سے کَب میری فاقہ مَستی نے ہار مانی
ہَر ایک خواہِش نے خُود کو تَرجیح دینا چاہی تھی مُجھ پَہ لیکِن
مِرے اُصولوں کے سامنے اُس کی خُود پَرَستی نے ہار مانی
لِباسِ مَظلوم میں ہو ظالِم بُہَت مِثالیں مِلیں گی اِس کی
کَہیِں بھی تاریخ میں نَہیِں ہے کہ چیِرہ دَستی نے ہار مانی
کَبھی پَہاڑوں کی چوٹیوں نے نَظَر بھی ڈالی نہ اُس پَہ جُھک کَر
بَلَندِیوں کی بَلا سے ضامنؔ اَگَر نَہ پَستی نے ہار مانی
ضامن جعفری

کیا ہنستے ہو اے دنیا والو، دیوانے کو بہلاتا ہُوں

مجبور ہُوں دل کے ہاتھوں سے پھر کوئے بتاں کو جاتا ہُوں
کیا ہنستے ہو اے دنیا والو، دیوانے کو بہلاتا ہُوں
ہُوں نَو سَفَرِ راہِ الفت، تا راس آجائے خوئے بتاں
اے محوِ تماشا دیکھ ذرا، کس شوق سے ٹھوکر کھاتا ہُوں
محرومیِ منزل قسمت ہے، اتمامِ سَفَر ہو گا نہ کبھی
دو چار قدم پر منزل ہے اور میں ہُوں کہ بیٹھا جاتا ہُوں
اخلاص و محبّت سے عاری اِس حرص و ہَوس کی دنیا میں
اِخلاص و محبّت جُرم مرے، میں خوارِ جہاں کہلاتا ہُوں
کچھ گرمیِ محشر تیز ہُوئی، کچھ داوَرِ محشر چونک اُٹھا
کچھ وہ بھی پریشاں ہیں ضامنؔ، میں داغِ جگر دِکھلاتا ہُوں
ضامن جعفری

رُوح و بدن کا کوئی مداوا کیے بغیر

مَت جائیے علاجِ تمنّا کیے بغیر
رُوح و بدن کا کوئی مداوا کیے بغیر
حیرت ہے تُو سکون سے ہے اے مِرے طبیب
اپنے مریضِ ہجر کو اچّھا کیے بغیر
میرے خلوصِ عشق کی رفعت پَہ غور کر
دیکھا کِیا میں تجھ کو تمنّا کیے بغیر
یادوں کے اِک ہجوم میں ضامنؔ! وہ چھوڑ کر
تنہائی دے گیا مجھے تنہا کیے بغیر
ضامن جعفری

عجب میلہ سا میلہ تھا چراغاں سا چراغاں تھا

مبارک خاطرِ ویراں یہ کل شب کون مہماں تھا
عجب میلہ سا میلہ تھا چراغاں سا چراغاں تھا
اُمنگیں ، آرزوئیں ، حسرتیں ، رقصاں رہیِں پَیہَم
اُدھر تھی فرصتِ یک شب اِدھر برسَوں کا ساماں تھا
اِدھر تصویرِ حیرت عشق تھا اُس کو قریں پا کر
اُدھر وارفتگیِ عشق پر خود حسن حیراں تھا
مرے جذبات کی پستی نے معراجِ فنا پائی
کہ وہ حسنِ مجسّم تھا مگر شعلہ بداماں تھا
مجھے تَو اُن سے یہ قربت قیامت ہو گئی ضامنؔ
ذرا سا فاصلہ رہتا تَو کچھ جینے کا امکاں تھا
ضامن جعفری

پھر وہی ہم وہی پُرانے لوگ

لیجیے! آگئے! سَتانے لوگ
پھر وہی ہم وہی پُرانے لوگ
کوئی کچھ تَو کہے! میں ٹھیک تَو ہُوں ؟
کیوں کھڑے ہیں مِرے سرہانے لوگ؟
وقت خُود اُن میں زندہ رہتا ہے
خُود میں ہوتے ہیں جو زمانے لوگ
ہو گیا کیا میں اِتنا غیر اَہَم؟
کیوں نہیں آئے دل دُکھانے لوگ؟
میں اصولوں کی جنگ لڑتا رہا
داد دیتے رہے، سیانے لوگ
کاش تم ہوتے گذرے وقتوں میں
تم نے دیکھے نہیں پُرانے لوگ
زخمِ دل بھر رہی ہے تنہائی
پھر نہ لگ جائیں آنے جانے لوگ
ایک سچ بات مُنہ سے نکلی تھی
لگے محفل سے اُٹھ کے جانے لوگ
بات سچ ہے تَو میں کہوں گا ضرور
لَوٹ آؤں گا گر نہ مانے لوگ
مشعلِ جاں سے روشنی کی ہے
جب بھی آئے دِیے بجھانے لوگ
وقت ضائع نہ کیجئے ضامنؔ
جب بنانے لگیں بہانے لوگ
ضامن جعفری

وجودِ حرف و قَلَم بال بال خون میں ہے

لہو لہو ہے سخن ہر خیال خون میں ہے
وجودِ حرف و قَلَم بال بال خون میں ہے
لَگا ہے خُون سَعُود و وَہاب کے مُنہ کو
ہِلال خُون میں بَدرِ کَمال خُون میں ہے
تِرے تَصَوُّرِ دِینِ سَلامَتی کے طُفیل
جَوان و پِیر ہو یا نَونہال، خُون میں ہے
خَبَر کَرو مِرے دُشمَن کو میں حُسیَنی ہُوں
وہ جِس کا سجدَہِ اَوجِ کَمال خُون میں ہے
عدو سے اب بہ زبانِ عدو کلام کرو
جواب خون میں دو گر سوال خون میں ہے
ضامن جعفری

ہر بار مگر زخم نئے کھول رہا ہے

لہجے کی حلاوت میں وہ انمول رہا ہے
ہر بار مگر زخم نئے کھول رہا ہے
وہ حُسن کی خیرات نہ دینے پہ ہے مائل
ہم ہیں کہ سدا ہاتھ میں کشکول رہا ہے
اے ہوش و خرد! وقت نہیں اِذنِ سُخن کا
خاموش! کہ سر چڑھ کے جنوں بول رہا ہے
ہر سمت ہے گھنگھور گھٹا صائقہ بردار
اُور طائرِ فکر اُڑنے کو پر تول رہا ہے
یہ مسندِ انصاف ہے محرومِ بصارت
ہر حرفِ صداقت میں یہاں جھول رہا ہے
آئینے سے نظریں وہ ہٹائیں تو نظر آئے
میں ڈول رہا ہُوں کہ جہاں ڈول رہا ہے
یہ لاش یقیناً کسی سچائی کی ہو گی
جم جم کے ہر اک قطرہِ خُوں بول رہا ہے
ضامنؔ! کوئی ہو گا نہ کبھی گوش بر آواز
یوں زہر سماعت میں جو تُو گھول رہا ہے
ضامن جعفری

سَمَجھ رہے ہیں جو کرنے تھے کام کر آئے

لگا کے پیڑ نہ جن میں کبھی ثَمَر آئے
سَمَجھ رہے ہیں جو کرنے تھے کام کر آئے
دُعا کا کیا ہے؟ دُعا لب پہ عمر بھر آئے
مزا تَو جب ہے دعاؤں میں کچھ اَثَر آئے
جنوں اُنھِیں کا اُنھِیں کی ہُوئیں منازلِ شوق
جو ہر سَفَر میں نیا سنگِ میِل دھَر آئے
نظامِ گلشنِ رَدّ و قبول کو تَو سَمَجھ
جو چاہے نخلِ تمنّا میں کچھ ثَمَر آئے
خلوصِ حُسنِ نَظَر کی فصِیل حائل تھی
بہت خیال نے چاہا مُراد بَر آئے
نہ وہ فضا نہ وہ خوشبُو نہ وہ در و دیوار
ہم اجنبی سے تھے ضامنؔ جب اپنے گھر آئے
ضامن جعفری

گمان یہ ہے کہ کچھ ہے مگر یقیں بھی نہیں

لبوں پہ ہاں نہیں دل میں مگر نہیں بھی نہیں
گمان یہ ہے کہ کچھ ہے مگر یقیں بھی نہیں
محبتوں کے تقاضے عجیب ہوتے ہیں
لُٹا کے بیٹھے ہیں سب کچھ، جبیں پہ چِیں بھی نہیں
تمہارے راندۂ درگاہ جائیں بھی تَو کہاں
دوائے درد تمہارے سِوا کہیں بھی نہیں
منانا چاہیں اُسے اور ہم منا نہ سکیں
دیارِ حسن میں ایسا کوئی حسیں بھی نہیں
نگاہ و دل کی حقیقت بھی کھُل گئی ضامنؔ
کہ اِن سے بڑھ کے کوئی مارِ آستیں بھی نہیں
ضامن جعفری

میرا کمال یہ ہے میں مَر تَو نہیں گیا

گو دِل شکستگی کا اثر تَو نہیں گیا
میرا کمال یہ ہے میں مَر تَو نہیں گیا
تا حَشر دیکھ بھال کی ایک ایک زَخم کی
دَھڑکا لگا رَہا کہیِں بَھر تَو نہیں گیا
وحشَت کی لاج رَکّھی ہے میں نے تمام عُمر
کیا کیا نَہ خاک اُڑائی پَہ گھر تَو نہیں گیا
رَستے میں کوئی چاک گریباں نہیں مِلا
لینا خَبَر کہیِں وہ سُدَھر تَو نہیں گیا
حُسنِ بُتاں ! یہ واقفِ خُوئے بُتاں بھی ہے
دِل پُوچھتا رَہا میں اُدَھر تَو نہیں گیا
آواز کس طرح کی یہ سینے سے آئی ہے
ضامنؔ! دِلِ شکستہ بِکھر تَو نہیں گیا
ضامن جعفری

مَت بھول مِرا عشق بھی چالاک بہت ہے

گو حُسن تِرا صاحبِ اِدراک بہت ہے
مَت بھول مِرا عشق بھی چالاک بہت ہے
اِک حُسن کہ ہے سارے حجابوں میں بھی محتاط
اِک جوشِ تمنّا ہے کہ بیباک بہت ہے
اِک حُسن کہ چاہے ہے سَدا زندگیٔ خضر
اِک وقت کی رَو ہے کہ جو سفّاک بہت ہے
قرطاس و قَلَم، حلقۂ زنجیرِ رَہ و رَسم
اُور ذہنِ رَسا، مائلِ افلاک بہت ہے
آنکھوں میں نہاں یادِ نشیمَن کے ہیں سَیلاب
میرے لیے ذکرِ خَس و خاشاک بہت ہے
ضامنؔ بھی ہیں اِک اہلِ ضمیر، ان کے لیے بھی
کیا خلعتِ زَر! خون کی پوشاک بہت ہے
ضامن جعفری

پھر نقشِ خوش خرامیِ تقدیر کھینچتے

گردن کا طوق پاؤں کی زنجیر کھینچتے
پھر نقشِ خوش خرامیِ تقدیر کھینچتے
دستِ دعا کو تھام لیا تم نے ورنہ ہم
حرفِ دعا کو تا دمِ تاثیر کھینچتے
سب کو یہ زعم تھا کہ تقدّس مآب ہیں
ہم کیوں حصارِ آیہِ تطہیر کھینچتے
اہلِ جنوں نے معرکے وہ سر کئے جہاں
اہلِ خِرَد کا کام تھا شمشیر کھینچتے
بہتر یہ ہوتا آپ کماں کھینچنے سے قبل
پہلی عنایتوں کے تو کچھ تِیر کھینچتے
کیسا نظامِ عدل میاں ! سُن لِیا کرو!
ہم در بہ در گئے ہیں یہ زنجیر کھینچتے
لے لے کے اُن کا نام مجھے دیکھتے ہیں لوگ
ایسے میں کاش وہ مری تصویر کھینچتے
خود سے نکل کے دیکھتے گر عکسِ حُسنِ یار
آئینے نقشِ حیرتِ تصویر کھینچتے
تِنکے نکالنے میں رہے چشمِ غیر سے
ضامنؔ! وہ اپنی آنکھ کا شہتیر کھینچتے
ضامن جعفری

اُڑ جاؤں گا لے کر پَرِ پَروازِ تخیّل

گر قید کروگے مِرا اندازِ تخیّل
اُڑ جاؤں گا لے کر پَرِ پَروازِ تخیّل
قرطاس و قَلَم مجھ سے اگر چھیِن بھی لوگے
گونجے گی جہاں میں مِری آوازِ تخیّل
ہر گوشِ سَماعَت پہ نقوش اِس کے رہیں گے
مقبولِ زمانہ ہے مِرا سازِ تخیّل
تخلیق بھی تخریب بھی تعمیر بھی اِس میں
تفصیل کے اِجمال میں ہے رازِ تخیّل
پابندیٔ افکار نے ذہنوں کو کِیا قتل
دو چار نَفَس باقی ہیں دَمسازِ تخیّل
تُو واقفِ تاریخ ہے اے گردِشِ ایّام
ضامنؔ ہے تغیّر کا یہ آغازِ تخیّل
ضامن جعفری

کس نے دل توڑا جو ہم یاد آئے

کیوں تجھے اپنے ستم یاد آئے
کس نے دل توڑا جو ہم یاد آئے
جھک گئی کیوں یہ نظر ملتے ہی
کیا کوئی قول و قسم یاد آئے
کچھ نہ کچھ ہے تو اُداسی کا سبب
مان بھی جاؤ کہ ہم یاد آئے
بت کدہ چھوڑ کے جانے والو
کیا کروگے جو صنم یاد آئے
جب بھی پامالیِ اقدار ہوئی
وقت کو اہلِ قلم یاد آئے
کیا ہُوا راہِ جنوں کو ضامنؔ
کیوں مرے نقشِ قدم یاد آئے
ضامن جعفری

وہ اگر ٹُوٹ کے بِکھرا ہو گا

کیسے اپنے کو سَمیٹا ہو گا
وہ اگر ٹُوٹ کے بِکھرا ہو گا
ایک رَٹ دل نے لگا رکّھی ہے
"چاند کس شہر میں اُترا ہو گا”
نئی دولت جو یہ ہاتھ آئی ہے
میرے دل کا کوئی ٹکڑا ہو گا!
چاند تاروں کو ہَٹا دے کوئی
یہ مری آہ کا رَستا ہو گا
دولتِ غم ہے تمہارے دم سے
تم نہیں ہو گے تو پھر کیا ہو گا
اب ہیں اہداف خلوص اور وفا
اب ہر اِک زخم ہمارا ہو گا
زندگی رہنِ گماں ہے ضامنؔ
وہ مجھے دیکھنے آتا ہو گا
ضامن جعفری

مُجھ سا کیا اَفلاک پَر کوئی نہ تھا

کیا ہُوا کیوں چاک پَر کوئی نہ تھا
مُجھ سا کیا اَفلاک پَر کوئی نہ تھا
طَے شُدہ تھی گُمرَہی شاید مِری
نقشِ پا تَک خاک پَر کوئی نہ تھا
بارہا میں جا کے سَرگَرداں رَہا
سَرحَدِ اِدراک پَر کوئی نہ تھا
بَھر لِیا بانہوں میں مِٹّی نے مُجھے
خاک تھی پِھر خاک پَر کوئی نہ تھا
بے رُخی پَر تھا مُجھے بَس اعتراض
لہجہَِ بیباک پَر کوئی نہ تھا
داغ جتنے بھی تھے ضامنؔ دِل پَہ تھے
دامَنِ صَد چاک پَر کوئی نہ تھا
ضامن جعفری

جرم جتنا ہے بس اُتنی ہی سزا دیں مجھ کو

کیا ضروری ہے کہ مٹّی میں مِلا دیں مجھ کو
جرم جتنا ہے بس اُتنی ہی سزا دیں مجھ کو
میرے پندارِ جنوں کا بھی بھرم رکھ لیجے
لذتِ درد بڑھے ایسی دوا دیں مجھ کو
ترک کر دیجئے من من کے بگڑنے کی ادا
آپ کے بس کا نہیں ہے کہ بھلا دیں مجھ کو
دردِ دل مجھ سے ہے اور میں ہی دوائے دل ہوں
’’اختیار آپ کا رکھیں کہ گنوادیں مجھ کو‘‘
جان لے لیتا ہے بے وجہ تغافل دیکھیں !
کم سے کم کوئی خطا ہے تو بتا دیں مجھ کو
میں خود اپنے کو مٹانے پہ تُلا ہوں ضامنؔ
چاہنے والے مرے لاکھ دعا دیں مجھ کو
ضامن جعفری

ہر روز ایک زخم نیا چاہئے مجھے

کیا پوچھتے ہو مجھ سے کہ کیا چاہئے مجھے
ہر روز ایک زخم نیا چاہئے مجھے
اپنے سکونِ دل کا پتا چاہئے مجھے
اِک دردِ لا دوا کی دوا چاہئے مجھے
وہ حبسِ التفات ہے گھٹنے لگا ہے دم
سانس آ سکے بس اتنی ہَوا چاہئے مجھے
اب چشم و گوش پر ہے فقط انحصارِ زیست
چہرہ وہی، اُسی کی صدا چاہئے مجھے
شایانِ شان ہو مرے جرم حسین کی
ایسی کوئی حسین سزا چاہئے مجھے
زاہد! ترے خدا کی ضرورت نہیں مجھے
جو میرے دل میں ہے وہ خدا چاہئے مجھے
کچھ کا خیال ہے کہ شہیدِ وفا ہوں میں
کچھ لوگ کہہ رہے ہیں سزا چاہئے مجھے
تشخیص ہو چکی ہے تو اب جا چکیں طبیب
جا کر اُسے بتائیں کہ کیا چاہئے مجھے
ضامنؔ! مرے خلوص و وفا کو تَرَس نہ جائے
میرا تو کیا ہے؟ اُس کا بھلا چاہئے مجھے
ضامن جعفری

ایک مَنظَر شکستہ حالوں میں

کیا اندھیروں میں کیا اُجالوں میں
ایک مَنظَر شکستہ حالوں میں
اَور کوئی جگہ نہیں محفوظ
چَین سے رہ مِرے خیالوں میں
حُسن و عشق آج کس قَدَر خُوش ہیں
آپ و ہم جیسے با کمالوں میں
جان چھوڑ اے تمازَتِ خُورشید
چاندنی آگئی ہے بالوں میں
یہی کہہ دے، جواب کے قابل
کیا ہے؟ ضامنؔ! تِرے سوالوں میں
ضامن جعفری

کیا تمہیں اپنی نظر کا خود بھی اندازہ نہیں

کون سا ہے زخم جو کاری نہیں تازہ نہیں
کیا تمہیں اپنی نظر کا خود بھی اندازہ نہیں
منتشر ہونے کو ہے چاہو تو اب بھی روک لو
میرے بس میں اب مری ہستی کا شیرازہ نہیں
ہیچ ہیں عشق و جنون و جذب سب پیشِ فنا
منزلِ آخر پَہ کوئی خوفِ خمیازہ نہیں
چشمِ گریاں سے ٹپکتی نطقِ خاموشی کی گونج
محض آوازِ شکستِ دِل ہے آوازہ نہیں
جب محبت ہو گئی ضامنؔ! تب اندازہ ہُوا
یہ وہ زنداں ہے کہ جس میں کوئی دروازہ نہیں
ضامن جعفری

وہ بے حِجاب رَہے لُطفِ عام کَرتے ہُوئے

کَہیِں گُزَرتے کَہیِں پَر قَیام کَرتے ہُوئے
وہ بے حِجاب رَہے لُطفِ عام کَرتے ہُوئے
اُنہیَں تَو اِس پہ بھی احسان کا گُمان رَہا
ہَر ایک ظُلم و سِتَم میرے نام کَرتے ہُوئے
مِری جبیں پَر اُسے حَسرتِ شِکَن ہی رَہی
میں اَنجُمَن سے اُٹھا احترام کَرتے ہُوئے
ہَر ایک مَوجِ حَوادِث کو فِکر تھی میری
مِزاج پُوچھنے آئی سَلام کَرتے ہُوئے
نگاہِ یار نے کیا کُچھ نہ جانے بھانپ لِیا
مُجھے خَموشی سے اپنی کَلام کَرتے ہُوئے
نزاعِ رُوح و بَدَن میں گِھرے رَہے ضامنؔ
تمام عُمر کَٹی ایک کام کرتے ہُوئے
ضامن جعفری

سَو کھوٹ جہاں تیرے اِک بات کھری میری

کھَلتی ہے تجھے دنیا کیوں ہم سَفَری میری
سَو کھوٹ جہاں تیرے اِک بات کھری میری
سُنتا ہُوں سُکوں سے ہیں سب اہلِ فَلَک جب سے
سیکھی ہے دُعاؤں نے بے بال و پَری میری
رونق ہیں سب اِس بزمِ افکار و حوادث کی
سرمستی و سرشاری آشفتہ سری میری
روتا ہے ہر اِک دریا آلام و مصائب کا
رَستا ہی نہیں دیتی یہ بے خَبَری میری
ہر دُکھ ہے یہاں سُکھ سے، ہر زخم سُکوں سے ہے
آ کر تو کبھی دیکھو تم چارہ گری میری
یہ گردشِ روز و شب کیوں اِتنی پریشاں ہے
کیا اِس نے نہیں دیکھی ہے در بَدَری میری
گلشن کا بھروسا ہے نے شاخ و نشیمن کا
لے آئی کَہاں مجھ کو کوتہ نظری میری
آنکھوں کا تحیّر بھی پہنچا نہ سکا دل تک
کس کام کی ہے ضامنؔ! یہ نامہ بَری میری
ضامن جعفری

کدھر کے رُخ پہ ہے، پہلے بَہَاؤ دیکھ تو لو

کنارِ آب اگر گھر بناؤ دیکھ تو لو
کدھر کے رُخ پہ ہے، پہلے بَہَاؤ دیکھ تو لو
سفر پہ جاؤ بڑے طمطراق سے لیکن
لگا سکو گے کنارے پہ ناؤ دیکھ تو لو
تمام زخم نہیں ہوتے ایک جیسے کبھی
گمان سے بھی نہ گَہرا ہو گھاؤ دیکھ تو لو
تمہاری چشمِ کرَم نے جو گُل کِھلائے ہیں
بس اِک نَظَر ہی سہی، آؤ آؤ دیکھ تو لو
نہ ہانکو ایک ہی لاٹھی سے ظالم و مظلوم
چراغ کس کا ہے پہلے ہَواؤ دیکھ تو لو
تُم اپنی اَنجمنِ ناز سے نکل کے کبھی
ہماری بزم کا بھی رَکھ رَکھاؤ دیکھ تو لو
قدم قدم پہ ہے بزمِ اَنا سجی ضامنؔ
شریکِ بزم نہ ہونا پہ جاؤ دیکھ تو لو
ضامن جعفری

ہَر اِک سوال پَر اُن کا جَواب دیکھا تھا؟

کِسی نے میرا وہ دَورِ عَذاب دیکھا تھا؟
ہَر اِک سوال پَر اُن کا جَواب دیکھا تھا؟
اَبھی اَبھی تَو یَہاں تھے وہ گفتگو بھی ہوئی
یَقین ہی نہیں آتا کہ خواب دیکھا تھا
کَہا ہے کِس نے کہ آباد و شاد ہے اَب تَو
کِسی نے کیا دِلِ خانہ خَراب دیکھا تھا
عَجیِب شَخص تھا ٹھَنڈَک بھی تھا تَمازَت بھی
وہ آفتاب تھا یا ماہتاب دیکھا تھا
شَرابِ حُسن سے گَر ہو نہ تِشنَگی سیراب
جَواز یہ ہے کہ تُو نے سَراب دیکھا تھا
عجیب دَور تھا ایک ایک پَل تھی نیند حَرام
اَور اُس پہ دونوں نے اِک مِل کَے خواب دیکھا تھا
خدا ہی جانے وہ دن تھا کہ رات تھی ضامنؔ
طُلُوعِ صُبح سے قَبل آفتاب دیکھا تھا
ضامن جعفری

مبادا طنز ہو یہ بھی سو حَشر اُٹھایا نہیں

کسی کو زَخم دِکھا کَر میں مُسکرایا نہیں
مبادا طنز ہو یہ بھی سو حَشر اُٹھایا نہیں
کِسے خَبَر کہ اَبھی کِتنی دُور ہے مَنزِل
اَبھی تَلَک تَو کوئی سَنگِ میِل آیا نہیں
سَبھی ہیں یُوں تَو مِرے دِل کے بوجھ سے واقِف
کِسی نے بارِ اَمانَت مَگَر اُٹھایا نہیں
درُست ہو گا تِرا دعویِٰ مَسیِحائی
خُدا کا شُکر کَبھی ہَم نے آزمایا نہیں
فَصیِلِ شہرِ جنوں پَر میں مُنتَظِر ہی رَہا
خِرَد کے مارے ہُوؤں میں سے کوئی آیا نہیں
کوئی سَبَب تَو ہے! چہرے اُتَر گئے سارے
اَبھی تَو میں نے کِسی کو بھی کُچھ بَتایا نہیں
ہیں میرے عِلم میں مَجبُوریاں مَسیِحا کی
جبھی تَو اُس کا رَوَیّہ اُسے جَتایا نہیں
سَبھی ہیں قافلہ سالار قافلے میں تِرے
مُسافِر اِس میں بَجُز تیرے کوئی پایا نہیں
ہَر ایک دَردِ حَیات آ کے کہہ گیا ضامنؔ
کہ تیری طَرح کِسی نے گَلے لَگایا نہیں
ضامن جعفری

اب دیکھئے شکایتِ بیجا نہ کیجئے

کس نے کہا تھا حسن کا دیوانہ کیجئے
اب دیکھئے شکایتِ بیجا نہ کیجئے
یا غیر سے بھی کیجئے محفل میں احتیاط
یا مجھ کو انجمن میں بلایا نہ کیجئے
ناکام ہو چکی رَوِشِ عجز و انکسار
اب اُن سے عرضِ حال دلیرانہ کیجئے
سرکار مانئے تو کٹھن ہے رہِ حیات
کافی سفر طویل ہے تنہا نہ کیجئے
اے دل نگاہِ ناز بڑی مہرباں ہے آج
کیوں انتظارِ ساقی و پیمانہ کیجئے
پوچھا تھا اُن سے ہجر میں کیونکر ہوئی بسر
مُنہ پھیر کر کہا کہ ستایا نہ کیجئے
چھُٹ جائے پھر نہ دامنِ صبر و رضا کہیں
گر ہو سکے تو خواب میں آیا نہ کیجئے
کمسن ہیں سنگ دل نہیں سمجھے نہ ہوں گے بات
دامانِ صبر ہاتھ سے چھوڑا نہ کیجئے
ضامنؔ وہ لے کے بھول گئے دل تو کیا ہُوا
ہے مقتضائے ظرف تقاضا نہ کیجئے
ضامن جعفری

اُس کے انکار میں کچھ شائبہ اقرار کا ہے

کس کو سمجھاؤں سبب جو مرے اصرار کا ہے
اُس کے انکار میں کچھ شائبہ اقرار کا ہے
کفر و ایماں کا نہ اقرار نہ انکار کا ہے
مسئلہ سارے کا سارا ترے دیدار کا ہے
تو نے پوچھا ہے ترا مجھ سے تعلق کیا ہے
وہی رشتہ ہے مصور سے جو شہکار کا ہے
دل میں میرے بھی وہی ہے جو ہے تیرے دل میں
فرق ہم دونوں میں پیرایۂ اظہار کا ہے
وہ مسیحائی پہ مائل ہیں یقیناً میری
ذکر محفل میں سنا ہے کسی بیمار کا ہے
کر کے تُو بیخ کَنی میری پشیماں کیوں ہے
یہ کرشمہ تَو تری پستیٔ کردار کا ہے
کس قدر بزم میں انجان سے بن جاتے ہیں
فکر یہ بھی ہے سبب کیا مرے آزار کا ہے
حسنِ خود بیں سے ہماری تَو نہ نبھتی ضامنؔ
یہ کمال اُور یہ ہنر عشقِ روا دار کا ہے
ضامن جعفری

ہر طرف حدِّ نظَر تک ہے بیاباں جاناں

کس طرف جائیں ترے بے سر و ساماں جاناں
ہر طرف حدِّ نظَر تک ہے بیاباں جاناں
ہوتا جاتا ہے ہر اِک شہرِ محبّت تاراج
اہرمن سُنتا ہے کچھ اَور نہ یزداں جاناں
سَفَرِ عشق میں اب شرطِ وفا ختم ہُوئی
جنسِ دل ہو گئی اب اَور بھی ارزاں جاناں
کہا کہیَں کیفیتِ قلب و گذرگاہِ خیال
بستیوں کی طرح رستے بھی ہیں ویراں جاناں
دشتِ وحشت میں ہے سرمستیِ وحشت معدوم
چشمِ آہُو ہے نہ وہ لعلِ بدخشاں جاناں
پھر قزح رنگ گلستاں میں نہ آیا کوئی
پھیکا پھیکا ہے بہت رنگِ گلستاں جاناں
جس طرف دیکھتے ہیں دیکھتے رہ جاتے ہیں
اب ہے نرگس بھی ہمیں دیکھ کے حیراں جاناں
تیرے دیوانے کو بہلانے کے ساماں ہیں بہم
کُنجِ تنہائی ہے اور یادوں کے طوفاں جاناں
یوں ہی بے حال رہے ہجر کی راتوں میں اگر
اب کے کس طرح سے گزرے گا زمستاں جاناں
دیکھ! بن جائیں گے ضامنؔ کی غزل کی پہچان
زخم تَو زخم ہیں وہ لاکھ ہَوں پنہاں جاناں
ضامن جعفری

بارشِ سنگ میں گئے شعلوں کے درمیاں گئے

کر کے رَقَم قَدَم قَدَم ہم نئی داستاں گئے
بارشِ سنگ میں گئے شعلوں کے درمیاں گئے
گھر سے یونہی نکل چلے، زادِ سَفَر تھے وَلوَلے
آگ لگی تَو قافلے، ہو کے دُھواں دُھواں گئے
رَقصِ اَجَل چہار سُو، وحشت و یاس کُو بہ کُو
ذکرِ نشاطِ آرزو لے کے جہاں جہاں گئے
رکّھا ہے کیا سُراغ میں ؟ لکّھا ہے داغ داغ میں
آگ لگانے باغ میں ، جب گئے باغباں گئے
شہر تَو خیر جَل چکا، آتشِ جہل! یہ بتا
کیا ہُوا اہلِ عِلم کا؟ لوگ کہاں کہاں گئے؟
ضامنِؔ قلبِ سخت کوش! کوچہ ہے یہ اَجَل بَدوش
علم و خِرَد، حواس و ہوش، کہتے اَماں اَماں گئے
ضامن جعفری

سوچیے! وجہِ اضطرار ہے کیا؟

کچھ نہیں ہو گا انتظار ہے کیا؟
سوچیے! وجہِ اضطرار ہے کیا؟
باقی پہلو نکھر چکے ہیں سب؟
صرف کردار داغدار ہے کیا؟
منزل، اسبابِ رَاہ، عزمِ سفَر
کسی چہرے سے آشکار ہے کیا؟
میں تَو ناقابلِ بَھروسا ہُوں
آپ کو اپنا اعتبار ہے کیا؟
اپنے آئینہِ ضمیر سے پُوچھ
فکر میں کوئی بھی نکھار ہے کیا؟
جو ہیں پَروَردَہِ خزاں ضامنؔ
اُن کو کیا عِلم کہ بہار ہے کیا
ضامن جعفری

پِھر فقَط میں اُور جنونِ آبلہ پائی رَہا

کچھ دِنوں تَک تَو اُنہیں شوقِ مسیحائی رَہا
پِھر فقَط میں اُور جنونِ آبلہ پائی رَہا
کوچہِ اقدار میں اَچّھا رَہا اپنا قیام
ہم کو آسانی یہ تھی ہر دَرد آبائی رَہا
ایک بھی مانی نہ دُنیا کی ، سَدا اپنی کہی
اہلِ دانش! تم سے بہتر تَو یہ سودائی رَہا
اُن کا یہ احسان تھا ہر دَم تصوّر میں رَہے
اِس لیے اہلِ وفا کو پاسِ تنہائی رَہا
اُنگلیاں اُٹھتی رہیں ہر گام اہلِ جہل کی
زندگی بَھر مجھ کو ضامنؔ فخرِ رُسوائی رَہا
ضامن جعفری

رَہِ سُلوک و صَفا میں وضاحتیں کیسی

کِتابِ عِشق میں شکووں کی آیتیں کیسی
رَہِ سُلوک و صَفا میں وضاحتیں کیسی
نہ کارواں ہے نہ منزل نہ راہ و راہنما
تَو مشکلاتِ سفر کی حکایتیں کیسی
اِنہیں اُجالوں سے روزِ اَزَل سے بَیر رَہا
یہ ظُلمَتوں کی یکایک عنایتیں کیسی
تُمہاری بزم کے آداب میں نہ ہَوں شامل
"یہ ہم پہ بیت رہی ہیں قیامتیں کیسی”
نہ توڑے کوئی جنون و خِرَد کے پیمانے
گذشتہ عہد نے دی ہیں ہدایتیں کیسی
کِیا نہ دعویِٰ بینائی کور چشموں میں
نبھائیں ہم نے بھی ضامنؔ روایتیں کیسی
ضامن جعفری

تِرے ساتھ گُذرے موسِم مِرے نام ہو گئے ہیں

کبھی شَب کو رُک گئے ہیں کبھی شام ہو گئے ہیں
تِرے ساتھ گُذرے موسِم مِرے نام ہو گئے ہیں
تِری نَغمَہ سَنجیوں نے کِیے سارے زَخم تازہ
مُجھے اَب تَو دے اِجازَت تِرے کام ہو گئے ہیں
یہ حِجابِ حُسن تیرا کوئی دَم ہی کا ہے مہماں
کہ مِرے جنوں کے چرچے سَرِ عام ہو گئے ہیں
ہُوا حُسن کا تعارُف! کیے ناز کے بھی چَرچے!
تِرے سارے کرنے والے جو تھے کام ہو گئے ہیں
مُجھے جِن کی تھی تَمَنّا، تُجھے جِن کی آرزو تھی
وہ دُعائیں مِل چُکی ہیں وہ سَلام ہو گئے ہیں
تِری احتیاطِ حُسن اُور مِری جُراَتِ نظارہ!
کئی کام رُک گئے ہیں ، کئی کام ہو گئے ہیں
ہو نَویدِ عیش و عشرَت تِرے حُسنِ ظن کو ضامنؔ
کہ جنون و عشق و مَستی سَبھی عام ہو گئے ہیں
ضامن جعفری

کب مجھ پہ التفاتِ فراواں کروگے تُم

کَب میری آرزوؤں کو حیراں کروگے تُم
کب مجھ پہ التفاتِ فراواں کروگے تُم
دِل میں بَسائے بیٹھے ہو اِک شہرِ آرزو
کوچے میں کیسے شہر کو پنہاں کروگے تُم
ماضی کے اِرتباطِ فراواں کی یاد میں
تنہائیوں میں جَشنِ چراغاں کروگے تُم
اَچھّا چلو یہی سہی تُم سا کوئی نہیں
ہم بھی ہیں خُوش کہ ہو کے خُوش اب ہاں کروگے تُم
زندہ ہے اِس اُمید پہ ضامنؔ کہ ایک روز
تکمیلِ آرزو پہ پشیماں کروگے تُم
ضامن جعفری

ہم کیا تھے محبّت کے حوالوں نے بَتایا

کب خُود نگَر و عَرش خیالوں نے بَتایا
ہم کیا تھے محبّت کے حوالوں نے بَتایا
بے نُور دِیوں نے کبھی بانٹے تھے اُجالے
طاقَوں میں لَٹَکتے ہُوئے جالوں نے بَتایا
لُوٹا گیا جب دِل تَو ہمَیں ہوش ہی کب تھا
یہ سَب تَو ہمَیں دیکھنے والوں نے بَتایا
کچھ خُوب نہ تھا اُن کے جوابوں کا رَوَیّہ
لَوٹے تَو مِرے تشنہ سوالوں نے بَتایا
لازم ہے کہاں عجزِ بیاں نُطق کو ضامنؔ
یہ خامشیِ زہرہ جمالوں نے بَتایا
ضامن جعفری

نظامِ ہستی رہے گا یوں ہی نکال لے کوئی راہ ساقی

قیودِ رسم و رواج سے کب ملی کسی کو پناہ ساقی
نظامِ ہستی رہے گا یوں ہی نکال لے کوئی راہ ساقی
ملے گی اُن کو جو ہیں تہی ظرف اگر یہی رسمِ میکَدہ ہے
تَو تیری محفل تجھے مبارک نہ ہو گا اپنا نباہ ساقی
کہاں پہ ناز و ادا ہیں اچّھے کہاں پہ ہے احتیاط بہتَر
ہمِیں سے آدابِ بزم سیکھے ہمِیں سے پرہیز واہ ساقی
یہ کون پیرِ مغاں ہے یارو؟ عجیب حالت ہے میکَدے کی
نگوں ہیں ساغر، خموش مِینا، اُداس رند و تباہ ساقی
نہ بدگماں ہو ہم اہلِ دِل سے کہ اِس تِری بزمِ حُسن میں بھی
بہت سے ہوں گے ہمارے ضامنؔ بہت سے ہوں گے گواہ ساقی
ضامن جعفری

وہ خاک لے گا مِری خامیوں میں دلچسپی

فلک نے لی ہے سدا کامِلوں میں دِلچسپی
وہ خاک لے گا مِری خامیوں میں دلچسپی
میں بحرِ زیست میں خُوش ایک موجِ آوارَہ
جسے کبھی نہ رہی ساحلوں میں دِلچسپی
عجیب لوگ ہیں ہم بے نیازِ مقتولین
ہمیں رہی ہے فقَط قاتلوں میں دِلچسپی
جنابِ میرؔ نے کیِں اُس سے اِس قَدَر باتیں
کہ چاند لینے لگا باولوں میں دِلچسپی
مَزید ہو مِرے قارونِ حُسن کی دَولت
اُسے سَدا سے ہے ہم سائلوں میں دِلچسپی
ہماری سادگیِ دِل کا مَشوَرَہ یہ ہے
حضور! لیجیے سادَہ دِلوں میں دِلچسپی
سکونِ قلب و نظر ہی نہ جب رَہا ضامنؔ
ہمَیں بھی پِھر نہ رہی محفلوں میں دِلچسپی
ضامن جعفری

متاعِ زیست کو وقفِ اَلَم کروں نہ کروں

فسانہِ غمِ ہستی رَقَم کروں نہ کروں
متاعِ زیست کو وقفِ اَلَم کروں نہ کروں
وہ جن میں دھڑکنیں اُن کے بھی دل کی ہیں شامل
وہ حادثات سپُردِ قَلَم کروں نہ کروں
تمام عمر لیے دل میں سوچتا ہی رَہا
قبول ہو نہ ہو نذرِ صَنَم کروں نہ کروں
ہو بحثِ رشتہِ عصیاں و زلف گر ضامنؔ
کہو کہ تذکرہِ پیچ و خَم کروں نہ کروں
ضامن جعفری

ہمیں چمن میں اِک امکاں نے روک رکّھا ہے

فریبِ رنگِ بَہاراں نے روک رکّھا ہے
ہمیں چمن میں اِک امکاں نے روک رکّھا ہے
یہ کیسے ہاتھ ہیں تن سے جُدا نہیں ہیں مگر
اِنہیں ذرا سے گریباں نے روک رکّھا ہے
سُنا ہے ہم نے کہ وہ مائلِ کَرَم ہیں بہت
ہماری تنگیِ داماں نے روک رکّھا ہے
جنابِ شیخ یہ کہہ کر چُھپا گئے کیا کیا
خیالِ خاطرِ یزداں نے روک رکّھا ہے
کسی کی راہگذر میں ہُوں منتظر کب سے
بس ایک شعر کے امکاں نے روک رکّھا ہے
لہو کے چِھینٹَوں نے ضامنؔ پکڑ لیے ہیں قدَم
رَگوں میں خوں کے چراغاں نے روک رکّھا ہے
ضامن جعفری

تَمام عُمر سَفَر میں نَہیں رَہا جاتا

فَریبِ حُسنِ نَظَر میں نَہیں رَہا جاتا
تَمام عُمر سَفَر میں نَہیں رَہا جاتا
میں اِنتِظار کی گَھڑیوں سے کہنے والا ہُوں
سَدا دَریچہ و دَر میں نَہیں رَہا جاتا
مِری خَطا ہے، اُسے آئینہ دِیا لا کَر
اَب اُس سے شام کو گَھر میں نَہیں رَہا جاتا
یہ رازِ عِشق کی خُوبی ہے یا خرابی ہے؟
کہ اُس سے دیِدہِ تَر میں نَہیں رَہا جاتا
تَو کیا میں ظُلمَتِ شَب ہی سے دوستی کَرلُوں ؟
گر اِنتِظارِ سَحَر میں نَہیں رَہا جاتا!
کوئی بَتائے کہ کَب تَک میں پیش پیش رَہوں
نزاعِ زیر و زَبَر میں نَہیں رَہا جاتا
جنوں نے جَب سے حصارِ خِرَد کو توڑا ہے
قیودِ شام و سَحَر میں نَہیں رَہا جاتا
بَدَل گیا ہے کوئی یُوں مِرے دَر و دِیوار
کہ مجھ سے اپنے ہی گھر میں نہیں رہا جاتا
چَلو! دیارِ جنوں چل کر اب رہیں ضامنؔ
خِرَد کے سحر و اَثَر میں نہیں رَہا جاتا
ضامن جعفری

جُنوں کے نام ہر اِک سمت سے سلام آئے

فرازِ دار پہ جب ہم فلک مقام آئے
جُنوں کے نام ہر اِک سمت سے سلام آئے
ہمیَں نہیں پَڑی منزل وہ لن ترانی کی
ابھی گئے ہیں ابھی ہوکے ہمکلام آئے
چھِڑا ہے ذکر کہ ہے کون منتظر کس کا
مری دُعا ہے ترے ساتھ میرا نام آئے
یقیں کو بھی ہو جہاں جستجوئے نادیدہ
رہِ حیات میں اپنی نہ وہ مقام آئے
خدا کا شکر ہے اُس نے بچا لیا ضامنؔ
مرے رفیق کہیِں بھی نہ میرے کام آئے
ضامن جعفری

وہ کسی کو بھی کہیِں کا نہیں رہنے دیتا

غیر تو غیر خود اپنا نہیں رہنے دیتا
وہ کسی کو بھی کہیِں کا نہیں رہنے دیتا
اُس کی آواز ہے دشمن مرے سنّاٹوں کی
اُس کا چہرہ مجھے تنہا نہیں رہنے دیتا
وہ مجھے بھول چکا ہے تو یہ سب کچھ کیا ہے
کیوں کوئی بزم میں مجھ سا نہیں رہنے دیتا
بھرنے لگتے ہیں تو یادوں پہ اثر پڑتا ہے
دل کے زخموں کو میں اچھا نہیں رہنے دیتا
وہ کہیں راہ میں مل جائے تو پوچھوں ضامنؔ
کیوں کبھی مجھ کو اکیلا نہیں رہنے دیتا
ضامن جعفری

ابھی کچھ کم ہیں اُلجھے! اَور اُلجھانے سے کیا ہو گا

غمِ ہستی کے افسانوں کو دوہرانے سے کیا ہو گا
ابھی کچھ کم ہیں اُلجھے! اَور اُلجھانے سے کیا ہو گا
جنونِ عشق میرا حشر میں سب کو بچا لایا
زمانہ یہ سمجھتا تھا کہ دیوانے سے کیا ہو گا
رہَے کچھ فاصلہ تَو حُسنِ منظر لطف دیتا ہے
تمہیں معلوم ہے؟ نزدیک آجانے سے کیا ہو گا؟
ضرورت جس کی دَوارنِ سَفَر ہو گی نہ منزل پر
وہ سامانِ سَفَر سب ساتھ لے جانے سے کیا ہو گا
جنوں والوں میں ضامنؔ کچھ نتیجہ عین ممکن ہے
جنہیں زعمِ خِرَد ہے اُن کو سمجھانے سے کیا ہو گا
ضامن جعفری

وہاں بھی پُرسِشِ اَفکار و آگَہی ہو گی

عقوبَتوں میں وہاں بھی نہ کچھ کمی ہو گی
وہاں بھی پُرسِشِ اَفکار و آگَہی ہو گی
عقیدَتوں کا سَفَر ہو گا اِختتام پِذیر
خیال و خواب کی دُنیا بِکھَر رَہی ہو گی
فرشتے حکمِ مشیّت سُنا رہے ہوں گے
اُدھَر حقائق اِدھَر خُوش عقیدَگی ہو گی
کھُلے گا حَشر میں سب کی عقیدَتوں کا بھَرَم
ہجومِ یاس میں ہر سمت خامشی ہو گی
نہ جانے حَشر میں اِنصاف کِس طَرَح ہو گا
اَگر وہاں بھی یہاں سی کَہا سُنی ہو گی
حجابِ حُسن ہی ہو گا نہ عشق کا اِصرار
وہاں ہر ایک کو اپنی پَڑی ہوئی ہو گی
سُنا ہے ہم سے محبّت کسی کو تھی ضامنؔ
زبانِ خلق اَگر ہے تو پھر رہی ہو گی
ضامن جعفری

اُس غزل چَشم کو رُولا ہی دے

عشق کے حق میں کچھ گواہی دے
اُس غزل چَشم کو رُولا ہی دے
اے سَرِشک! اے سفیِرِ خاموشی
آج تُو نُطق کو ہَرا ہی دے
کب تلک روز روز کی قَسمیں
ایک دن داغِ دِل دِکھا ہی دے
اُس سے شکوہ دَبی زبان سے کر
یہ نہ ہو بزم سے اُٹھا ہی دے
وہ تغافل پہ مائل اَور اِدَھر
ہَر نیا زخم اِک مزا ہی دے
جاؤ! لا کَر دِکھاؤ! ایسا دِل
جو دُکھے جائے اُور دُعا ہی دے
کوئی اُس سے کہے یہ ہیں ضامنؔ
پِھر تعارف مِرا کَرا ہی دے
ضامن جعفری

ندائے وقت ہے دار و رَسن پَہ پابندی

عَبَث ہے حَرف و قَلم یا سُخن پَہ پابندی
ندائے وقت ہے دار و رَسن پَہ پابندی
بَہار وقت کی آواز سُن کر آتی ہے
خَزاں کے بَس کی نہیں ہے چمن پَہ پابندی
مقابلے پَہ ہے خُورشیدِ وقت کے ظُلمت
یہ کیا لگائے گی ایک اِک کرَن پَہ پابندی
لگا سکا ہے بَھلا کون اَزَل سے تا اِیں دَم
شبابِ فِکر تِرے بانکپَن پَہ پابندی
دَرونِ ذات کو گر کر دِیا نَظَر انداز
نَہ دے گی کام فقط پَیرَہَن پَہ پابندی
شعورِ وقت کا ضامنؔ! خطاب رُوح سے ہے
بَلا سے اس کی لگے گر بدن پَہ پابندی
ضامن جعفری

موجیں سمجھ رہی ہیں کہ طوفاں نہیں ہیں ہم

ظاہر میں چونکہ حشر بہ داماں نہیں ہیں ہم
موجیں سمجھ رہی ہیں کہ طوفاں نہیں ہیں ہم
ہمّت بھی ہے نظر بھی ہے قصدِ سفر بھی ہے
ایسے بھی کوئی بے سر و ساماں نہیں ہیں ہم
موجیں تَو مطمئن ہیں ہمیں جانتی ہیں وہ
طوفاں کو فکر ہے کہ پریشاں نہیں ہیں ہم
شعلے لَرَز رہے ہیں تَو اُس کا سبب یہ ہے
آثار کہہ رہے ہیں کہ آساں نہیں ہیں ہم
آنکھیں ہیں اشک اشک جگر ہے لہو لہو
پھر بھی وہ کہہ رہے ہیں غزلخواں نہیں ہیں ہم
ضامنؔ ہماری راہ میں کانٹے بِچھا کے وہ
حیران رہ گئے ہیں کہ حیراں نہیں ہیں ہم
ضامن جعفری

لو! خون کے چھینٹے سُوئے افلاک چلے ہیں

طوفان سے لڑنے خَس و خاشاک چلے ہیں
لو! خون کے چھینٹے سُوئے افلاک چلے ہیں
اِک عمر بِتا دیتے ہیں منزل کے لئے لوگ
دو چار قدم آپ یہ کیا خاک چلے ہیں
بن جائیں نہ پہچان کہِیں داغ لہو کے
سو اب وہ پہن کے نئی پوشاک چلے ہیں
کردے گا یہ وقت اُن کی نمائش سرِ محفل
وہ لوگ بہت بن کے جو چالاک چلے ہیں
تعمیر محل عشق کا کرتی ہے فقط روح
ضامنؔ ہیں کہ مُٹّھی میں لئے خاک چلے ہیں
ضامن جعفری

حَریمِ ناز کے سارے مُعامَلات اَلَگ

طِلِسمِ حُسن اَلَگ، عِشقِ خُوش صِفات اَلَگ
حَریمِ ناز کے سارے مُعامَلات اَلَگ
تُمہاری رات میں بھی دِن شَریک رہتا ہے
ہَماری رات اَکیلی، ہَماری رات اَلَگ
سَتائے جاتی ہے یادِ بَہارِ خَلوَت بھی
جو کھائے جاتا ہے وہ حُسنِ اِلتفات اَلَگ
یہ اَنجُمَن ہے یہاں جو کَہو گے کہہ دَیں گے
جو تُم سے کہنی ہے تَنہائی میں وہ بات اَلَگ
سَبَق دِیا ہے یہ اُستادِ وَقت نے ضامنؔ
حَقیقَتیں ہیں اَلَگ اُور تَوَقُّعات اَلَگ
ضامن جعفری

اِک یہی قرض ہے باقی سو ادا کردوں کیا؟

طائرِ روح قفس میں ہے رِہا کردوں کیا؟
اِک یہی قرض ہے باقی سو ادا کردوں کیا؟
میری حق گوئی سے ہے سارا زمانہ عاجز
بس خدا باقی ہے اُس کو بھی خفا کردوں کیا؟
چھیڑ کر بحث کہ کیا اُس نے کِیا کیا میں نے
کہئے! محشر میں نیا حشر بپا کردوں کیا؟
بندگی رکھتی ہے کس طرح خدائی پہ نظر
یہ ہُنَر مجھ میں ہے تجھ کو بھی عطا کردوں کیا؟
قطرہِ فانیِ ہستی ہُوں اَزَل سے لیکن
کر بھی سکتا ہُوں اِسے جوئے بقا، کردوں کیا؟
اُس کی خاطر نہ سہی اپنی اَنا کی خاطر
اِک نئے عزم سے آغازِ وفا کردوں کیا؟
اختلافِ جَسَد و روح سے عاجز ہُوں میں
امن کس طرح ہو؟ دونوں کو جُدا کردوں کیا؟
میرے گھر آئے گا اِک حُسنِ مجسّم ضامنؔ
سوچ میں بیٹھا ہُوں بندے کو خدا کردوں کیا؟
ضامن جعفری

وقت کی امانت ہیں قیمَتی حوالے ہیں

طاقچوں کی کالَک ہے کھڑکیوں کے جالے ہیں
وقت کی امانت ہیں قیمَتی حوالے ہیں
زَخم وا نہیں کرتے تا نہ پُوچھ لے کوئی
دل کہاں گیا صاحب یہ تَو صِرف چھالے ہیں
پھول ہَوں کہ پتّھر ہَوں اب تو بس یہ عالَم ہے
جو بھی آئے آنے دو سب ہی دیکھے بھالے ہیں
کہہ رہے ہیں دیوانے دَور آئے گا اچّھا
سُن رہے ہیں ہم جب سے ہوش کچھ سنبھالے ہیں
زَخمِ دل کے مَرہَم کا نِرخ بڑھ گیا صاحب
یہ خَبَر ہے گردش میں آپ آنے والے ہیں
گردشِ زمانہ کیوں فکرمند ہے ضامنؔ
اس نے سُن لِیا ہو گا ہَم نے پَر نِکالے ہیں
ضامن جعفری

صیّاد کو گلشن سے نکلنا ہی پڑے گا

طاقت کے توازن کو بدلنا ہی پڑے گا
صیّاد کو گلشن سے نکلنا ہی پڑے گا
یہ راستہ منزل کو تَو جاتا ہی نہیں ہے
اب اَور کسی راہ پہ چلنا ہی پڑے گا
یہ آگ لگائی بھی تَو ہے آپ نے صاحب
اِس آگ میں اب آپ کو جلنا ہی پڑے گا
ہاں تیری تمازت سے بہت تنگ ہیں ہم لوگ
خورشیدِ تظلّم! تجھے ڈھَلنا ہی پڑے گا
سیلابِ لہو چاہیے تطہیرِ چمن کو
اب خون کے قطروں کو مچلنا ہی پڑے گا
وہ لوگ جو خوں پی کے تنومند ہُوئے ہیں
اُن لوگوں کو اب خون اُگلنا ہی پڑے گا
یہ زہرِ رعونت جو تری جان کا ہے روگ
اُگلا نہیں جاتا تَو نگلنا ہی پڑے گا
منزل کی طرف پُشت اگر کر کے چلیں گے
ضامنؔ! کفِ افسوس تَو مَلنا ہی پڑے گا
ضامن جعفری

یا خرابے میں فقط خوف و خَطَر زندہ ہے

شہر آشوب بتا! کیا کوئی گھر زندہ ہے
یا خرابے میں فقط خوف و خَطَر زندہ ہے
قتل کر ڈالے ہیں ظلمت نے فَلَک پر انجم
کوئی خورشید ہے باقی نہ قَمَر زندہ ہے
آنکھ ہے در کی نہ اب کان ہیں دیواروں کے
ایسا لگتا ہے نہ دیوار نہ در زندہ ہے
مرگئے قافلے کیا حسرتِ منزل لے کر؟
پوچھتی رہتی ہے جو راہ گزر زندہ ہے
میں بھی سب جیسا ہُوں مجھ سے بھی کوئی بات کرے
مجھ کو آواز تَو دے کوئی اگر زندہ ہے
وہ ہے اِس فکر میں ہر ایک کا ترکہ لے لُوں
مجھ کو یہ فکر بچالُوں کوئی گر زندہ ہے
میں نے مانگی تھی دعا ہاتھ اُٹھا کر دونوں
میں یہ سمجھا تھا دعاؤں میں اَثَر زندہ ہے
نہ وہ مالی نہ وہ گلشن ہے نہ وہ شاخ و شَجَر
لوگ ہیں مطمئن و خوش کہ ثَمَر زندہ ہے
قصرِ تخریب کی تعمیر مکمّل نہ کرو
ورنہ کَٹ جائے گا جو دستِ ہُنَر زندہ ہے
خلق ہونے کو ہیں کچھ تازہ مناظر ضامنؔ
میں پریشاں ہُوں ابھی میری نظر زندہ ہے
ضامن جعفری

لَبَوں پر آہ اور آنکھوں میں نَم تَو ہو گا نا!

شِکَستَہ دِل ہیں تَو چہرے پہ غَم تَو ہو گا نا!
لَبَوں پر آہ اور آنکھوں میں نَم تَو ہو گا نا!
بَڑھا ہُوا ہے بہت دَرد آ کَے دیکھ تَو لو!
نہ بھی گیا تَو کَم اَز کَم یہ کَم تَو ہو گا نا!
چَلو یہ مان لِیا احتیاط بہتَر ہے
عَدَم تَوَجُّہی لیکن سِتَم تَو ہو گا نا!
گَر اَب پُہُنچ بھی گیا مُژدَہِ وِصال تَو کیا!
مَریضِ ہِجر کا ہونٹوں پہ دَم تَو ہو گا نا!
ہُجومِ یاس میں یَک دَم یہ جَلوَہ آرائی
حَواس و ہوش کا یَکلَخت رَم تَو ہو گا نا!
پُہُنچ ہی جائے گا خوں میرا اُن کے داماں تَک
قَدَم قَدَم کوئی نَقشِ قَدَم تَو ہو گا نا!
دِیارِ کِذب میں حَق گوئی! کیا کِیا ضامنؔ؟
یہ قتلِ کِذب ہے، اَب سَر قَلَم تَو ہو گا نا!
ضامن جعفری

تُو اُن کی بَزم میں کچھ دِن رَہا یہ کم تَو نہیں

شکستِ آرزو اے دِل! کوئی سِتَم تَو نہیں
تُو اُن کی بَزم میں کچھ دِن رَہا یہ کم تَو نہیں
یہ عَکس سازِشِ وقت اَور آئینہ ہے فَقَط
ہمارے دِل نے ہمیشہ کَہا یہ ہم تَو نہیں
ابھی تَلَک وہی سرشاریٔ رفاقَت ہے
دِلِ شکستہ سے پوچھا تھا کوئی غَم تَو نہیں ؟
دِل و نَظَر بھی وہی کام کرتے آئے ہیں
جنابِ خضر کوئی خاص مُحترَم تَو نہیں
خَموش بیٹھے ہیں ضامنؔ وہ سَر جُھکائے ہُوئے
نَظَر اُٹھائیں تَو دیکھوں کہ آنکھ نَم تَو نہیں
ضامن جعفری

کوئی صدا مرے اندر سے آرہی ہے مُجھے

شعورِ ذات کی منزل بُلارہی ہے مُجھے
کوئی صدا مرے اندر سے آرہی ہے مُجھے
خیالِ دہر سے پیچھا چُھڑا رہا ہُوں میں
ہَوائے دہر وہیں لے کے جا رہی ہے مُجھے
میں اپنے آپ سے بیٹھا ہُوا ہُوں رُوٹھا ہُوا
گھڑی گھڑی یہ خرد کیوں منا رہی ہے مُجھے
تو کیا یہ طے ہے کہ میں آپ اپنے بس میں نہیں
کسی کی یاد یہ کیوں آئے جارہی ہے مُجھے
میں پار کر ہی نہ لُوں سَرحَدِ جنوں کو کہیں
خِرَد کو خَوف ہے سو وَرغَلا رہی ہے مُجھے
تُلا ہُوا ہُوں میں خُود کو شکست دینے پَر
مِری اَنائے مُسلسل سَتا رہی ہے مجھے
حدودِ سَرحَدِ اِدراک سے پَرے ضامنؔ
کوئی چُھپائی گئی حِس بُلا رہی ہے مُجھے
ضامن جعفری

الزام دوسروں کو دیے جارہے ہیں ہم

سیلابِ بے حسی میں بَہے جارہے ہیں ہم
الزام دوسروں کو دیے جارہے ہیں ہم
پچھتاوا کیسا اور کہاں کی ندامَتیں
خود کو تباہ کر کے ہنسے جا رہے ہیں ہم
سب کھو کے حرف و لفظ و معانی کا اعتبار
نطق و سماع دفن کیے جا رہے ہیں ہم
رستے سے زادِ راہ سے منزل سے بے نیاز
حیرت کا اِک سفر ہے چلے جارہے ہیں ہم
وہ باغباں ہیں ہم کہ تلاشِ بَہار میں
صیّاد جو کہے وہ کیے جا رہے ہیں ہم
مایوسیوں کو دے کوئی امرت امید کا
اے خواہشِ حیات! مرے جا رہے ہیں ہم
ہَم کو بَھلا زَمانے کے رَدِّ عمل سے کیا
ضامنؔ! جو مُنہ میں آئے کہے جارہے ہیں ہم
ضامن جعفری

نقوشِ ماضی، متاعِ رفتہ، بہ طاقِ نسیاں سجا رہا ہوں

سیاحتِ کوئے گلعذاراں میں جو بھی سیکھا بھُلا رہا ہوں
نقوشِ ماضی، متاعِ رفتہ، بہ طاقِ نسیاں سجا رہا ہوں
میں مد و جذر نَفَس رہا ہوں کبھی قرارِ نظر کسی کا
بہت سہانی رُتیں تھیں جب میں دلوں کی دھڑکن بنا رہا ہوں
کسی کی دُھن میں مگن ہوں دنیا مجھے شکارِ جنوں نہ سمجھے
یہ ایک ہی نقش جو مسلسل بنا رہا ہوں مٹا رہا ہوں
مٹا سکیں تو مٹا دیں بالکل بیاضِ دل سے وہ نام میرا
پر اُس حقیقت کا کیا کریں گے وہ دل میں جو میں بسا رہا ہوں
خبر کرو بجلیوں کو کوئی کہ میری ہمّت جواں ہے اب بھی
ابھی کہاں سے ہے مات بازی میں پھر نشیمن بنا رہا ہوں
نکل ہی آ ئے گا اِک نہ اِک دن مسائلِ زیست کا کوئی حل
سکون فی الحال تو یہی ہے گذر رہی ہے نبھا رہا ہوں
نہ جانے کس چیز کا تھا دھڑکا کھٹک رہا تھا وجود میرا
رہو سکوں سے اب اہلِ دنیا یہ لو میں دنیا سے جا رہا ہوں
حضورِ داور کھڑا ہوا ہوں مصر ہوں سننے پہ فردِ عصیاں
بہت سی نظریں یہ کہہ رہی ہیں میں سوئے فتنے جگا رہا ہوں
میں جاتے جاتے بھی اس جہاں سے رہا ہوں مصروفِ کار ضامنؔ
بلندیٔ دوشِ اقرباء سے مآلِ ہستی دکھا رہا ہوں
ضامن جعفری

کَہیِں بھی رہ، تُو مِرے دِل سے جا، یَہاں سے نکل

سُن اے ہجومِ تَمَنّا! اَب اِس مَکاں سے نکل
کَہیِں بھی رہ، تُو مِرے دِل سے جا، یَہاں سے نکل
بَتا دِیا تھا کہ کھُل جائے گا یقیں کا بھَرَم
کَہا تھا عَقل سے مَت حَلقَہِ گُماں سے نکل
یہ کائنات سَنبھَل جائے گی پَہ شَرط یہ ہے
اِدھَر مَکاں سے میں نکلوں تُو لامکاں سے نکل
خِرَد پُکاری جو دیکھا مُجھے حضورِ جنوں
یہ تیرے بَس کا نہیں ہے اِس اِمتحاں سے نکل
چَمَن میں اَب تُو اَکیلا نہیں ہے بَرق بھی ہے
یہ باغ و غُنچَہ و گُل چھوڑ! آشیاں سے نکل
قَدَم نَہ چَپقَلِشِ خَیر و شَر میں رَکھ ضامنؔ
کَہیِں کا بھی نَہ رَہے گا تُو دَرمیاں سے نکل
ضامن جعفری

مری تنہائی میرا قافلہ ہے

سفر یادوں کا اچھّا کَٹ رہا ہے
مری تنہائی میرا قافلہ ہے
بظاہر کھو گیا ہے قربتوں میں
ہمارے درمیاں اِک فاصلہ ہے
زمانے سے توقّع رکھنے والے
زمانہ بس تماشا دیکھتا ہے
نظر بیشک تمہاری تیز ہو گی
مگر آنکھوں پہ جو پردہ پڑا ہے
درِ دل کھول کر دیکھو تَو ضامنؔ!
لگا جیسے کوئی کھٹکا ہُوا ہے
ضامن جعفری

کچھ اختیار کے کچھ بے بَسی کے قصّے ہیں

سزا جزا کے ہیں یا بَندَگی کے قصّے ہیں
کچھ اختیار کے کچھ بے بَسی کے قصّے ہیں
طِلِسم خانہِ تخلیق اَزَل سے تا بہ اَبَد
سب، عشقِ ذات کے اَور آزَری کے قصّے ہیں
یہ جَبرِ باد یہ ذَرّوَں کی دَشت پیمائی
یہ سب مری تری آوارَگی کے قصّے ہیں
مآلِ گُل کی و پژمردگیِ گُل کی قَسَم
سکوتِ غنچہ میں لب بستگی کے قصّے ہیں
کتابِ عشق میں بابِ اَنا نہیں کوئی
دلوں پہ زخم لبوں پر ہنسی کے قصّے ہیں
سکونِ جہل کو دیکھا تَو یہ ہُوا معلوم
کہ سنگ و خشت فقط آگَہی کے قصّے ہیں
دُکھی دِلَوں کی سُنیِں جب حکایتیں ضامنؔ
مجھے لگا یہ مری زِندَگی کے قصّے ہیں
ضامن جعفری

ما ایم در کمندِ تو اقرار کردہ ای

سِرّے چہ خوش زِ چشمِ خود اظہار کردہ ای
ما ایم در کمندِ تو اقرار کردہ ای
یارب زِ ہفت رنگیِ ما عاصیانِ خلد
این عرصۂ وجود را، شہکار کردہ ای
اغماضِ تو کسے نشناسد جز اہلِ دل
دانیم ہمچنیں جہت اصرار کردہ ای
یک غنچہ ما زِ گلشنِ حُسنَت نچیدہ ایم
با این ہمہ بہ خاطرِ خود خار کردہ ای
بِنشِیں و بِشنَوی زِ دلم ہر چہ بِگزَرَد
زاں نقشِ دل کہ نقش بہ دیوار کردہ ای
آن کارِ حسن بود کو آدم زِ خلد راند
ما را بہ چہ گناہ سرِ دار کردہ ای
ما خواستیم دولتِ یک حرفِ صد سخن
باوَر نمی کنیم کہ انکار کردہ ای
ہر کس گسست و رست زِ بندِ کمندِ تو
کاغازِ رسمِ قدغنِ اظہار کردہ ای
ضامنؔ ہنوز پا بہ رکاب اَست و منتظر
اقرار خواہی کرد کہ انکار کردہ ای
ضامن جعفری

مَیں کِتنے فخر سے اَپنا مقام دیکھتا ہُوں

سَرِ صَحیفَہِ عِشق ایک نام دیکھتا ہُوں
مَیں کِتنے فخر سے اَپنا مقام دیکھتا ہُوں
تِرے لَبوں پہ، ہَمیشہ ہے مُہرِ خاموشی
تِری نِگاہ میں ، روز اِک پَیام دیکھتا ہُوں
مِری نَظَر پَسِ پَردہ بھی دیکھ لیتی ہے
لَرَزتے لَب پَسِ قَصدِ سَلام دیکھتا ہُوں
کَلامِ حُسن سے مَرعُوب ہونے والے لوگ
ہیں مُعتَرِض کہ میں حُسنِ کَلام دیکھتا ہُوں
فَرازِ جَذب و جنوں تَک نہ پہنچَے گر ضامنؔ
تَو اِدّعائے محبّت کو خام دیکھتا ہُوں
ضامن جعفری

میں وہ میں ہی نہ رَہا پِھر اَثَرِ عِشق کے بَعد

سارے دَر کُھلتے گئے، ایک دَرِ عِشق کے بَعد
میں وہ میں ہی نہ رَہا پِھر اَثَرِ عِشق کے بَعد
ایک قَطرہ ہُوا کَرتا تھا، سَمَندَر ہُوں میں
سَفَرِ عِشق سے پہلے سَفَرِ عِشق کے بَعد
قَدر کرنا ہو تَو کر لو کہ یہی آخری ہے
کوئی آئے گا نہ اِس دَر بَدَرِ عِشق کے بَعد
حِدَّتِ رُوح نے پایا نہ کبھی سایہ فِگَن
کوئی پیڑ اِتنا گَھنا پِھر شَجَرِ عِشق کے بَعد
تُم یہ سَمجھوگے اَبھی نُقطَہِ آغاز پہ ہُوں
مُجھ کو دیکھو کبھی آ کر سَفَرِ عِشق کے بَعد
ہَر قَدَم لَگتا تھا ضامنؔ یہی مَنزِل ہے مِری
رہگُزَر ڈُھونڈتا کیا رہگُزَرِ عِشق کے بَعد
ضامن جعفری

معجزہ ہے کہ جیے جاتا ہُوں

زہرِ غم روز پیے جاتا ہُوں
معجزہ ہے کہ جیے جاتا ہُوں
پَڑ گئی ہے مجھے کچھ عادَت سی
خُود کو اِلزام دِیے جاتا ہُوں
زخم پَر زخم لگے جاتے ہیں
اُس کا احسان لیے جاتا ہُوں
مشغلہ ہے یہی تنہائی کا
گفتگو اُس سے کیے جاتا ہُوں
کتنی خُوش مجھ سے ہے دُنیا ضامنؔ
ہونٹ اُور زخم سِیے جاتا ہُوں
ضامن جعفری