ٹیگ کے محفوظات: چاک

اس کو تِرا اِک حَلقَہِ فِتراک بہت ہے

نخچیرِ خِرَد کو یہی اِدراک بہت ہے
اس کو تِرا اِک حَلقَہِ فِتراک بہت ہے
قرطاس و قَلَم حلقۂ زنجیرِ رَہ و رَسم
اُور ذہنِ رَسا مائلِ افلاک بہت ہے
اِک حُسن کہ ہے سارے حجابوں میں بھی محتاط
اِک جوشِ تمنّا ہے کہ بیباک بہت ہے
اِک حُسن کہ چاہے ہے سَدا زندگیٔ خضر
اِک وقت کی رَو ہے کہ جو سفّاک بہت ہے
کچھ شَوقِ رَفُو سے وہ سِتَمگَر بھی ہے عاری
کُچھ دامَنِ حَسرَت بھی مِرا چاک بہت ہے
آنکھوں میں نہاں یادِ نشیمَن کے ہیں سَیلاب
میرے لیے ذکرِ خَس و خاشاک بہت ہے
کیا کیا نہ دِلِ بُلبُلِ بیتاب پہ گُذری
یُوں دیکھئے تَو دامنِ گُل پاک بہت ہے
وہ سَیر کو مَقتَل کی ذَرا جا کے تَو دیکھیَں
واں دُھول اُڑانے کو مِری خاک بہت ہے
ضامنؔ بھی ہے اِک اہلِ ضمیر اِس کے لیے بھی
کیا خلعتِ زَر! خون کی پوشاک بہت ہے
ضامن جعفری

مُجھ سا کیا اَفلاک پَر کوئی نہ تھا

کیا ہُوا کیوں چاک پَر کوئی نہ تھا
مُجھ سا کیا اَفلاک پَر کوئی نہ تھا
طَے شُدہ تھی گُمرَہی شاید مِری
نقشِ پا تَک خاک پَر کوئی نہ تھا
بارہا میں جا کے سَرگَرداں رَہا
سَرحَدِ اِدراک پَر کوئی نہ تھا
بَھر لِیا بانہوں میں مِٹّی نے مُجھے
خاک تھی پِھر خاک پَر کوئی نہ تھا
بے رُخی پَر تھا مُجھے بَس اعتراض
لہجہَِ بیباک پَر کوئی نہ تھا
داغ جتنے بھی تھے ضامنؔ دِل پَہ تھے
دامَنِ صَد چاک پَر کوئی نہ تھا
ضامن جعفری

کیا عجب نکلے جو پانی کی جگہ خاک سے خون

گر برستا ہی رہا اِس طرح افلاک سے خون
کیا عجب نکلے جو پانی کی جگہ خاک سے خون
میرے زخموں کو میسر نہیں مرہم پٹی
پونچھتا رہتا ہوں بس اپنی ہی پوشاک سے خون
جیسے دریا سے نکلتی ہوں بہت سی نہریں
ایسے بہتا ہے مرے دامنِ صد چاک سے خون
کیا ہوا ہے مرے اندر کہ ہوا ہے جاری
میری آنکھوں سے مرے منہ سے مری ناک سے خون
اتنا تڑپی ہے یہ مے خواروں کی محرومی پر
مے نہیں آج ٹپکتا ہے رگِ تاک سے خون
پھر شبِ ہجر مرے شہر پہ ہے سایہ فگن
آج پھر چاہیے اِس کو کسی بے باک سے خون
باصر کاظمی

موجِ شراب یک مژۂ خوابناک ہے

دیوانِ غالب ۔ غزل نمبر 264
مستی، بہ ذوقِ غفلتِ ساقی ہلاک ہے
موجِ شراب یک مژۂ خوابناک ہے
جُز زخمِ تیغِ ناز، نہیں دل میں آرزو
جیبِ خیال بھی ترے ہاتھوں سے چاک ہے
جوشِ جنوں سے کچھ نظر آتا نہیں، اسدؔ
صحرا ہماری آنکھ میں یک مشتِ خاک ہے
مرزا اسد اللہ خان غالب

دھوئے گئےہم ایسے کہ بس پاک ہو گئے

دیوانِ غالب ۔ غزل نمبر 212
رونے سے اور عشق میں بےباک ہو گئے
دھوئے گئےہم ایسے کہ بس پاک ہو گئے
صرفِ بہائے مے ہوئے آلاتِ میکشی
تھے یہ ہی دو حساب، سو یوں پاک ہو گئے
رسوائے دہر گو ہوئے آوارگی سے تم
بارے طبیعتوں کے تو چالاک ہو گئے
کہتا ہے کون نالۂ بلبل کو بے اثر
پردے میں گُل کے لاکھ جگر چاک ہو گئے
پوچھے ہے کیا وجود و عدم اہلِ شوق کا
آپ اپنی آگ کے خس و خاشاک ہو گئے
کرنے گئے تھے اس سے تغافُل کا ہم گِلہ
کی ایک ہی نگاہ کہ بس خاک ہو گئے
اس رنگ سے اٹھائی کل اس نے اسدؔ کی نعش
دشمن بھی جس کو دیکھ کے غمناک ہو گئے
مرزا اسد اللہ خان غالب

دشت دشت اب کے ہے گل تریاک

دیوان پنجم غزل 1664
شاد افیونیوں کا دل غمناک
دشت دشت اب کے ہے گل تریاک
تین دن گور میں بھی بھاری ہیں
یعنی آسودگی نہیں تہ خاک
ہاتھ پہنچا نہ اس کے دامن تک
میں گریباں کروں نہ کیوں کر چاک
تیز جاتا ہوں میں تو جوں سیلاب
میرے مانع ہو کیا خس و خاشاک
عشق سے ہاتھ کیا ملاوے کوئی
یاں زبردستوں کی ہے کشتی پاک
بندگی کیشوں پر ستم مت کر
ڈر خدا سے تو اے بت بیباک
عشق مرد آزما نے آخرکار
کیے فرہاد و قیس میر ہلاک
میر تقی میر

پھرتے ہیں کمھاروں کے پڑے چاک سے اب تک

دیوان پنجم غزل 1663
کیا ہم میں رہا گردش افلاک سے اب تک
پھرتے ہیں کمھاروں کے پڑے چاک سے اب تک
تھے نوخطوں کی خاک سے اجزا جو برابر
ہو سبزہ نکلتے ہیں تہ خاک سے اب تک
تا مدنظر چھا رہے ہیں لالۂ صد برگ
جنگل بھرے ہیں سب گل تریاک سے اب تک
دشمن ہوئی ہے جس کے لیے ساری خدائی
مربوط ہیں ہم اس بت بیباک سے اب تک
ہر چند کہ دامن تئیں ہے چاک گریباں
ہم ہیں متوقع کف چالاک سے اب تک
گو خاک سی اڑتی ہے مرے منھ پہ جنوں میں
ٹپکے ہے لہو دیدئہ نمناک سے اب تک
وے کپڑے تو بدلے ہوئے میر اس کو کئی دن
تن پر ہے شکن تنگی پوشاک سے اب تک
میر تقی میر

آج تو کشتہ کوئی کیا زینت فتراک تھا

دیوان پنجم غزل 1562
کل تلک داغوں سے خوں کے دامن زیں پاک تھا
آج تو کشتہ کوئی کیا زینت فتراک تھا
کیا جنوں کو روئوں تردستی سے اس کی گل نمط
لے گریباں سے زہ دامن تک اک ہی چاک تھا
رو جو آئی رونے کی مژگاں نہ ٹھہری ایک پل
راہ میں اس رود کی گویا خس و خاشاک تھا
اک ہی شمع شعلہ خو کے لائحے میں جل بجھا
جب تلک پہنچے کوئی پروانہ عاشق خاک تھا
بادشاہ وقت تھا میں تخت تھا میرا دماغ
جی کے چاروں اور اک جوش گل تریاک تھا
ڈھال تلوار اس جواں کے ساتھ اب رہتی نہیں
وہ جفا آئیں شلائیں لڑکا ہی بیباک تھا
تنگ پوشی تنگ درزی اس کی جی میں کھب گئی
کیا ہی وہ محبوب خوش ترکیب خوش پوشاک تھا
بات ہے جی مارنا بازیچہ قتل عام ہے
اب تو ہے صدچند اگر دہ چند وہ سفاک تھا
غنچۂ دل وا ہوا نہ باغوں باغوں میں پھرا
اب بھی ہے ویسا ہی جیسا پیشتر غمناک تھا
درک کیا اس درس گہ میں میر عقل و فہم کو
کس کے تیں ان صورتوں میں معنی کا ادراک تھا
میر تقی میر

کیا کیا چرخ نے چکر مارے پیس کے مجھ کو خاک کیا

دیوان پنجم غزل 1550
کیسی سعی حوادث نے کی آخرکار ہلاک کیا
کیا کیا چرخ نے چکر مارے پیس کے مجھ کو خاک کیا
ایسا پلید آلودئہ دنیا خلق نہ آگے ہوا ہو گا
شیخ شہر موا کہتے ہیں شہر خدا نے پاک کیا
قدرت حق میں کیا قدرت جو دخل کسو کی فضولی کرے
اس کو کیا پرکالۂ آتش مجھ کو خس و خاشاک کیا
آہ سے تھے رخنے چھاتی میں پھیلنا ان کا یہ سہل نہ تھا
دو دو ہاتھ تڑپ کر دل نے سینۂ عاشق چاک کیا
خوگر ہونا حزن و بکا سے میر ہمارا یوں ہی نہیں
برسوں روتے کڑھتے رہے ہم تب دل کو غمناک کیا
میر تقی میر

پھول غیرت سے جل کے خاک ہوا

دیوان سوم غزل 1063
وہ جو گلشن میں جلوہ ناک ہوا
پھول غیرت سے جل کے خاک ہوا
اس کے دامن تلک نہ پہنچا ہاتھ
تھا سر دست جیب چاک ہوا
کس قدر تھا خبیث شیخ شہر
اس کے مرنے سے شہر پاک ہوا
ڈریے اس رشک خور کی گرمی سے
کچھ تو ہے ہم سے جو تپاک ہوا
میر ہلکان ہو گیا تھا بہت
سو طلب ہی میں پھر ہلاک ہوا
میر تقی میر

یارب یہ آسمان بھی مل جائے خاک میں

دیوان دوم غزل 885
کرتا نہیں قصور ہمارے ہلاک میں
یارب یہ آسمان بھی مل جائے خاک میں
گرمی نہیں ہے ہم سے وہ اے رشک آفتاب
اب آگیا ہے فرق بہت اس تپاک میں
اس ڈھنگ سے ہلا کہ بجا دل نہیں رہے
اس گوش کے گہر سے دم آئے ہیں ناک میں
اب کے جنوں میں فاصلہ شاید نہ کچھ رہے
دامن کے چاک اور گریباں کے چاک میں
کہیے لطافت اس تن نازک کی میر کیا
شاید یہ لطف ہو گا کسو جان پاک میں
میر تقی میر

ملک ان ستم زدوں کا سب پاک ہو گیا ہے

دیوان اول غزل 603
خنجر بہ کف وہ جب سے سفاک ہو گیا ہے
ملک ان ستم زدوں کا سب پاک ہو گیا ہے
جس سے اسے لگائوں روکھا ہی ہو ملے ہے
سینے میں جل کر ازبس دل خاک ہو گیا ہے
کیا جانوں لذت درد اس کی جراحتوں کی
یہ جانوں ہوں کہ سینہ سب چاک ہو گیا ہے
صحبت سے اس جہاں کی کوئی خلاص ہو گا
اس فاحشہ پہ سب کو امساک ہو گیا ہے
دیوار کہنہ ہے یہ مت بیٹھ اس کے سائے
اٹھ چل کہ آسماں تو کا واک ہو گیا ہے
شرم و حیا کہاں کی ہر بات پر ہے شمشیر
اب تو بہت وہ ہم سے بے باک ہو گیا ہے
ہر حرف بسکہ رویا ہے حال پر ہمارے
قاصد کے ہاتھ میں خط نمناک ہو گیا ہے
زیر فلک بھلا تو رووے ہے آپ کو میر
کس کس طرح کا عالم یاں خاک ہو گیا ہے
میر تقی میر

سو گریبان مرے ہاتھ سے یاں چاک ہوئے

دیوان اول غزل 567
بسکہ دیوانگی حال میں چالاک ہوئے
سو گریبان مرے ہاتھ سے یاں چاک ہوئے
سر رگڑ پائوں پہ قاتل کے کٹائی گردن
اپنے ذمے سے تو صد شکر کہ ہم پاک ہوئے
پائمالی سے فراغت ہی نہیں میر ہمیں
کوے دلبر میں عبث آن کے ہم خاک ہوئے
میر تقی میر

نزدیک اپنے کب کے ہوئے ہیں ہلاک ہم

دیوان اول غزل 279
کرتے نہیں ہیں دوری سے اب اس کی باک ہم
نزدیک اپنے کب کے ہوئے ہیں ہلاک ہم
بیٹھے ہم اپنے طور پہ مستوں میں جب اٹھے
جوں ابرتر لیے اٹھے دامن کو پاک ہم
آہستہ اے نسیم کہ اطراف باغ کے
مشتاق پر فشانی ہیں اک مشت خاک ہم
شمع و چراغ و شعلہ و آتش شرار و برق
رکھتے ہیں دل جلے یہ بہم سب تپاک ہم
مستی میں ہم کو ہوش نہیں نشأتین کا
گلشن میں اینڈتے ہیں پڑے زیر تاک ہم
جوں برق تیرے کوچے سے ہنستے نہیں گئے
مانند ابر جب اٹھے تب گریہ ناک ہم
مدت ہوئی کہ چاک قفس ہی سے اب تو میر
دکھلا رہے ہیں گل کو دل چاک چاک ہم
میر تقی میر

ہوچکے حشر میں پھرتا ہوں جگر چاک ہنوز

دیوان اول غزل 234
مجھ کو پوچھا بھی نہ یہ کون ہے غم ناک ہنوز
ہوچکے حشر میں پھرتا ہوں جگر چاک ہنوز
اشک کی لغزش مستانہ پہ مت کیجو نظر
دامن دیدئہ گریاں ہے مرا پاک ہنوز
ایک بھی تار گریبان کفن بیچ نہیں
جم ہوئی بیٹھی ہے چھاتی پہ مری خاک ہنوز
بھر نظر دیکھنے پاتا نہیں میں نزع میں بھی
منھ کے تیں پھیرے ہی لیتا ہے وہ بیباک ہنوز
بعد مرنے کے بھی آرام نہیں میر مجھے
اس کے کوچے میں ہے پامال مری خاک ہنوز
میر تقی میر

دھوپ کی زرّیں قبا سو سو جگہ سے چاک تھی

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 70
تنگ سائے کے بدن پر کس قدر پوشاک تھی
دھوپ کی زرّیں قبا سو سو جگہ سے چاک تھی
در پہ ہوتی ہی رہیں بن کھٹکھٹائے دستکیں
ایک نامعلوم اندیشے کی گھر میں دھاک تھی
شہرِ دل میں تھا عجب جشنِ چراغاں کا سماں
ٹمٹماتی گرم بوندوں سے فضا نمناک تھی
مدتوں سے آشتی اپنی تھی اپنے آپ سے
اس رواداری میں لیکن عافیت کیا خاک تھی
تھے حدِ امکاں سے باہر بھی ارادے کے ہدف
حادثوں کو ورنہ کیوں دائم ہماری تاک تھی
ہم نے پایا تجربے کا بےبہا انعام تو
گو شکستِ خواب کی ساعت اذیت ناک تھی
حال آزادوں کو دورِ جبر میں کیا پوچھنا
اس فضا میں تو ہوا بھی حبس کی خوراک تھی
آفتاب اقبال شمیم

اُس سمت امیرِ مقتل بھی، ہے خصلت میں سفّاک بہت

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 22
اس سمت محلے گلیوں کے یہ لڑکے ہیں بیباک بہت
اُس سمت امیرِ مقتل بھی، ہے خصلت میں سفّاک بہت
ان سڑکوں پر جب خون بہا اور جب شاخیں بے برگ ہوئیں
دیکھا کہ پرانے قصّہ گو، کی آنکھیں تھیں نمناک بہت
آزاد ہے اُس کے قبضے سے تا حال علاقہ جذبوں کا
ویسے تو جہاں پر بیٹھی ہے اُس زور آور کی دھاک بہت
وُہ اوّل اوّل دیوانہ، تھا آخر آخر فرزانہ
اے دنیا! تیرا کیا کہنا، تو نکلی ہے چالاک بہت
کوتاہ نظر کا رشتہ ہے اور نوک ہنر بھی تیز نہیں
کچھ وقفۂ ہستی تھوڑا ہے اور سینے کو ہیں چاک بہت
دائم ناداری پیسوں کی اور یاری اپنے جیبوں کی
آئے ہیں ہمارے حصے میں اسباب بہت، اِملاک بہت
اکثر یہ شکایت کی ہم سے، اس شہر کے خوش پوشاکوں نے
وُہ جنم جنم کا آوارہ رستے میں اُڑانے خاک بہت
آفتاب اقبال شمیم

مضمون اگر کم ہوں تو افلاک سے لے آؤں

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 130
اے فکر سخن کیوں زر گل خاک سے لے آؤں
مضمون اگر کم ہوں تو افلاک سے لے آؤں
پھر کام ہیں کچھ اور بھی لیکن دل ناداں
پہلے تو تجھے زلف کے پیچاک سے لے آؤں
کیا گنج گہر کی مرے دامن کو کمی ہے
چاہوں تو ابھی دیدۂ نمناک سے لے آؤں
دکھلاؤں تمہیں اپنے قبیلے کی نشانی
کچھ تار کسی پیرہن چاک سے لے آؤں
چمکے تو اندھیرے میں مرا طرۂ دستار
دوچار ستارے تری پوشاک سے لے آؤں
عرفان صدیقی

آدمی خاک سے افلاک پہن کر آئے

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 514
ذہن اللہ کا ادراک پہن کر آئے
آدمی خاک سے افلاک پہن کر آئے
لوگ تو ننگ لباسوں میں چھپا کر نکلے
ہم گریباں کے فقط چاک پہن کر آئے
فصلِ گل ہاتھ پہ رکھ کر کوئی تھل سے نکلا
ہم چمن سے خس و خاشاک پہن کر آئے
نور و سایہ کی کثافت سے منزہ تھے مگر
میری دنیا کی طرف خاک پہن کر آئے
ہم عمامہ و قبا روند کے باہر نکلے
شیخ دستاروں کے پیچاک پہن کر آئے
کیا ڈبوئے گی اسے موجۂ وحشت منصور
چشمِ گرداب جو پیراک پہن کر آئے
منصور آفاق

دل میں ہو غیر تو سجدہِ خاک بے فائدہ

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 417
جسم نا پاک پر جامہء پاک بے فائدہ
دل میں ہو غیر تو سجدہِ خاک بے فائدہ
صاحبِ فہم ہو توتمہیں اک الف کافی ہے
یہ کتابوں بھرا عقل و ادراک بے فائدہ
آدمی آخری حد ہے تشکیل و تخلیق کی
گردشِ وقت کا گھومتا چاک بے فائدہ
اس کی ساری توجہ رہی اپنی تلوار کی دھار پر
میں نے پہنی ہے زخموں کی پوشاک بے فائدہ
اِس دماغِ شرر خیز میں جھوٹ کے ڈھیر ہیں
تیری دستار کے اتنے پیچاک بے فائدہ
کون سا ا س نے منصور کمرے میں آ جانا ہے
گریۂ شب کا شورِ المناک بے فائدہ
منصور آفاق

تم لوگ بڑے لوگ ہو، ہم خاک نشیں ہیں

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 374
ویسے ہی تمہیں وہم ہے، افلاک نشیں ہیں
تم لوگ بڑے لوگ ہو، ہم خاک نشیں ہیں
خس خانہ و برفاب کی خواہش نہیں رکھتے
ہم دھوپ صفت لوگ ہیں خاشاک نشیں ہیں
امید بغاوت کی ہم ایسوں سے نہ رکھو
ہم ظلم کے نخچیر ہیں ، فتراک نشیں ہیں
اطراف میں بکھری ہوئی ہے سوختہ بستی
ہم راکھ اڑاتے ہوئے املاک نشیں ہیں
معلوم ہے کیا تم نے کہا ہے پسِ تحریر
اسباقِ خفی ہم کو بھی ادراک نشیں ہیں
کیا کوزہ گری بھول گیا ہے کوئی منصور
ہم لوگ کئی سال ہوئے چاک نشیں ہیں
منصور آفاق

قریۂ خوں ریزہے ادراک کی جلتی زمیں

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 350
زندگی ہے دیدۂ سفاک کی جلتی زمیں
قریۂ خوں ریزہے ادراک کی جلتی زمیں
ٹوٹتے جاتے ہیں قسمت کے ستارے ان دنوں
گر رہی ہے خاک پر افلاک کی جلتی زمیں
ہر طرف خودکُش دھماکے ہر طرف ظالم فساد
مانگتی ہے رحم ارضِ پاک کی جلتی زمیں
بند کمرے میں در آئی ہے کسی دیوار سے
ہجر میں دشتِ گریباں چاک کی جلتی زمیں
دیکھتا ہوں خواب میں منصور بمباری کے بعد
سوختہ شہروں سے اڑتی خاک کی جلتی زمیں
منصور آفاق

الاؤ سا خس و خاشاک پر بناتا ہوں

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 278
عدم کو صفحہء ادراک پر بناتا ہوں
الاؤ سا خس و خاشاک پر بناتا ہوں
زمیں سے دور بناتا ہوں خاک کے چہرے
خدا بناؤں تو افلاک پر بناتا ہوں
مری زمین کی بنیاد میں شرارے ہیں
مکان سوختہ املاک پر بناتا ہوں
ستارہ لفظ تراشوں میں چاند تحریریں
اک آسمانِ ادب خاک پر بناتا ہوں
لہو کی بوندیں گراتا ہوں اپنے دامن سے
دلِ تباہ کو پوشاک پر بناتا ہوں
مرا وجود مکمل ابھی نہیں منصور
سو اپنے آپ کو پھر چاک پر بناتا ہوں
منصور آفاق

دو گز زمین چاہیے افلاک کے عوض

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 199
مٹی ذرا سی قریہء لولاک کے عوض
دو گز زمین چاہیے افلاک کے عوض
جاگیر بھی حویلی بھی چاہت بھی جسم بھی
تم مانگتے ہو دامنِ صد چاک کے عوض
اِس شہر میں تو ایک خریدار بھی نہیں
سورج کہاں فروخت کروں خاک کے عوض
وہ پیٹ برگزیدہ کسی کی نگاہ میں
جو بیچتے ہیں عزتیں خوراک کے عوض
مثلِ غبار پھرتا ہوں آنکھوں میں جھانکتا
اپنے بدن کی اڑتی ہوئی راکھ کے عوض
دے سکتا ہوں تمام سمندر شراب کے
اک جوش سے نکلتے ہوئے کاک کے عوض
بھونچال آئے تو کوئی دو روٹیاں نہ دے
میلوں تلک پڑی ہوئی املاک کے عوض
غالب کا ہم پیالہ نہیں ہوں ، نہیں نہیں
جنت کہاں ملے خس و خاشاک کے عوض
ہر روز بھیجنا مجھے پڑتا ہے ایک خط
پچھلے برس کی آئی ہوئی ڈاک کے عوض
جاں مانگ لی ہے مجھ سے سرِ اشتیاقِ لمس
بندِ قبا نے سینہء بیباک کے عوض
کام آ گئی ہیں بزم میں غم کی نمائشیں
وعدہ ملا ہے دیدئہ نمناک کے عوض
آیا عجب ہے مرحلہ شوقِ شکار میں
نخچیر مانگتا ہے وہ فتراک کے عوض
نظارئہ جمال ملا ہے تمام تر
تصویر میں تنی ہوئی پوشاک کے عوض
منصور ایک چہرۂ معشوق رہ گیا
پہنچا کہاں نہیں ہوں میں ادراک کے عوض
منصور آفاق

محمدﷺ کی زمینِ پاک کی تاریخ

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 151
فلک سے بھی پرانی خاک کی تاریخ
محمدﷺ کی زمینِ پاک کی تاریخ
مکمل ہو گئی ہے آخرش مجھ پر
جنوں کے دامن صد چاک کی تاریخ
ابھی معلوم کرتا پھر رہا ہوں میں
تری دستار کے پیچاک کی تاریخ
مری آنکھوں میں اڑتی راکھ کی صورت
پڑی ہے سوختہ املاک کی تاریخ
رگِ جاں میں اتر کر عمر بھر میں نے
پڑھی ہے خیمہء افلاک کی تاریخ
سرِ صحرا ہوا نے نرم ریشوں سے
پھٹا کویا تو لکھ دی آک کی تاریخ
مسلسل ہے یہ کیلنڈر پہ میرے
جدائی کی شبِ سفاک کی تاریخ
پہن کر پھرتی ہے جس کو محبت
مرتب کر تُو اُس پوشاک کی تاریخ
ہوائے گل سناتی ہے بچشمِ کُن
جہاں کو صاحبِ لولاک کی تاریخ
کھجوروں کے سروں کو کاٹنے والو
دکھائی دی تمہیں ادراک کی تاریخ
ہے ماضی کے مزاروں میں لکھی منصور
بگولوں نے خس و خاشاک کی تاریخ
منصور آفاق