ٹیگ کے محفوظات: گواہ

اک آئینہ تھا، اُسی کو سیاہ میں نے کیا

بزعمِ عقل یہ کیسا گناہ میں نے کیا
اک آئینہ تھا، اُسی کو سیاہ میں نے کیا
یہ شہرِ کم نظراں، یہ دیارِ بے ہنراں
کسے یہ اپنے ہنر کا گواہ میں نے کیا
حریمِ دل کو جلانے لگا تھا ایک خیال
سو گُل اُسے بھی بیک سرد آہ میں نے کیا
وہی یقین رہا ہے جوازِ ہم سفری
جو گاہ اُس نے کیا اور گاہ میں نے کیا
بس ایک دل ہی تو ہے واقفِ رموزِ حیات
سو شہرِ جاں کا اِسے سربراہ میں نے کیا
ہر ایک رنج اُسی باب میں کیا ہے رقم
ذرا سا غم تھا جسے بے پناہ میں نے کیا
یہ راہِ عشق بہت سہل ہو گئ جب سے
حصارِ ذات کو پیوندِ راہ میں نے کیا
یہ عمر کی ہے بسر کچھ عجب توازن سے
ترا ہُوا، نہ ہی خود سے نباہ میں نے کیا
خرد نے دل سے کہا، تُو جنوں صفت ہی سہی
نہ پوچھ اُس کی کہ جس کو تباہ میں نے کیا
عرفان ستار

نظامِ ہستی رہے گا یوں ہی نکال لے کوئی راہ ساقی

قیودِ رسم و رواج سے کب ملی کسی کو پناہ ساقی
نظامِ ہستی رہے گا یوں ہی نکال لے کوئی راہ ساقی
ملے گی اُن کو جو ہیں تہی ظرف اگر یہی رسمِ میکَدہ ہے
تَو تیری محفل تجھے مبارک نہ ہو گا اپنا نباہ ساقی
کہاں پہ ناز و ادا ہیں اچّھے کہاں پہ ہے احتیاط بہتَر
ہمِیں سے آدابِ بزم سیکھے ہمِیں سے پرہیز واہ ساقی
یہ کون پیرِ مغاں ہے یارو؟ عجیب حالت ہے میکَدے کی
نگوں ہیں ساغر، خموش مِینا، اُداس رند و تباہ ساقی
نہ بدگماں ہو ہم اہلِ دِل سے کہ اِس تِری بزمِ حُسن میں بھی
بہت سے ہوں گے ہمارے ضامنؔ بہت سے ہوں گے گواہ ساقی
ضامن جعفری

منظور ہمیں تباہ رہنا

بے منّت خضرِ راہ رہنا
منظور ہمیں تباہ رہنا
یاروں کو نصیب سرفرازی
مجھ کو تری گردِ راہ رہنا
دل ایک عجیب گھر ہے پیارے
اس گھر میں بھی گاہ گاہ رہنا
گر یونہی رہی دلوں کی رنجش
مشکل ہے بہم نباہ رہنا
بھر آئے گی آنکھ بھی کسی دن
خالی نہیں صرفِ آہ رہنا
میں ہاتھ نہیں اُسے لگایا
اے بیگنہی گواہ رہنا
ناصرؔ یہ وفا نہیں جنوں ہے
اپنا بھی نہ خیرخواہ رہنا!
ناصر کاظمی

نظر میں اہلِ ہوس کی گناہ کرتے رہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 19
نگاہ ہم پہ جو وہ گاہ گاہ کرتے رہے
نظر میں اہلِ ہوس کی گناہ کرتے رہے
تھے اُن کے ناز نظر میں، نیاز تھے اپنے
بیاں حکایتِ محتاج و شاہ کرتے رہے
بھٹکنے دی نہ نگہ تک کسی کی پاس اپنے
یہی وہ جبر تھا جو اہلِ جاہ کرتے رہے
ہر ایک شب نے دئیے زخم جو ہمیں، اُن پر
ستارۂ سحری کو گواہ کرتے رہے
ہمیں سے پوچھئے اِس ربط میں مزے کیا ہیں
کہ رفعتوں سے ہمیں رسم و راہ کرتے رہے
چمن میں برق نے پھر کی ہے کوئی صنّاعی
ہوا کے ہونٹ جبھی واہ واہ کرتے رہے
کرم غیاب میں کچھ اُس سے تھا جُدا ماجدؔ
ہمارے سامنے جو خیر خواہ کرتے رہے
ماجد صدیقی

اک آئینہ تھا، اُسی کو سیاہ میں نے کیا

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 18
بزعمِ عقل یہ کیسا گناہ میں نے کیا
اک آئینہ تھا، اُسی کو سیاہ میں نے کیا
یہ شہرِ کم نظراں، یہ دیارِ بے ہنراں
کسے یہ اپنے ہنر کا گواہ میں نے کیا
حریمِ دل کو جلانے لگا تھا ایک خیال
سو گُل اُسے بھی بیک سرد آہ میں نے کیا
وہی یقین رہا ہے جوازِ ہم سفری
جو گاہ اُس نے کیا اور گاہ میں نے کیا
بس ایک دل ہی تو ہے واقفِ رموزِ حیات
سو شہرِ جاں کا اِسے سربراہ میں نے کیا
ہر ایک رنج اُسی باب میں کیا ہے رقم
ذرا سا غم تھا جسے بے پناہ میں نے کیا
یہ راہِ عشق بہت سہل ہو گئ جب سے
حصارِ ذات کو پیوندِ راہ میں نے کیا
یہ عمر کی ہے بسر کچھ عجب توازن سے
ترا ہُوا، نہ ہی خود سے نباہ میں نے کیا
خرد نے دل سے کہا، تُو جنوں صفت ہی سہی
نہ پوچھ اُس کی کہ جس کو تباہ میں نے کیا
عرفان ستار

مجھ کو بھی پوچھتے رہو تو کیا گناہ ہو

دیوانِ غالب ۔ غزل نمبر 144
تم جانو، تم کو غیر سے جو رسم و راہ ہو
مجھ کو بھی پوچھتے رہو تو کیا گناہ ہو
بچتے نہیں مواخذۂ روزِ حشر سے
قاتل اگر رقیب ہے تو تم گواہ ہو
کیا وہ بھی بے گنہ کش و حق نا شناس@ ہیں
مانا کہ تم بشر نہیں خورشید و ماہ ہو
ابھرا ہوا نقاب میں ہے ان کے ایک تار
مرتا ہوں میں کہ یہ نہ کسی کی نگاہ ہو
جب مے کدہ چھٹا تو پھر اب کیا جگہ کی قید
مسجد ہو، مدرسہ ہو، کوئی خانقاہ ہو
سنتے ہیں جو بہشت کی تعریف، سب درست
لیکن خدا کرے وہ ترا جلوہ گاہ ہو
غالب بھی گر نہ ہو تو کچھ ایسا ضرر نہیں
دنیا ہو یا رب اور مرا بادشاہ ہو
@حق ناسپاس نسخۂ نظامی میں ہےٍ، حق نا شناس۔ حسرت، مہراور عرشی میں۔ ’ناسپاس‘ کتابت کی غلطی بھی ممکن ہے۔
مرزا اسد اللہ خان غالب

یا اب کی وے ادائیں جو دل سے آہ نکلے

دیوان دوم غزل 994
یا پہلے وے نگاہیں جن سے کہ چاہ نکلے
یا اب کی وے ادائیں جو دل سے آہ نکلے
کیونکر نہ چپکے چپکے یوں جان سے گذریے
کہیے بتھا جو اس سے باتوں کی راہ نکلے
زردی رنگ و رونا دونوں دلیل کشتن
خوش طالعی سے میری کیا کیا گواہ نکلے
اے کام جاں ہے تو بھی کیا ریجھ کا پچائو
مر جایئے تو منھ سے تیرے نہ واہ نکلے
خوبی و دلکشی میں صدچند ہے تو اس سے
تیرے مقابلے کو کس منھ سے ماہ نکلے
یاں مہر تھی وفا تھی واں جور تھے ستم تھے
پھر نکلے بھی تو میرے یہ ہی گناہ نکلے
غیروں سے تو کہے ہے اچھی بری سب اپنی
اے یار کب کے تیرے یہ خیر خواہ نکلے
رکھتے تو ہو مکدر پر اس گھڑی سے ڈریو
جب خاک منھ پہ مل کر یہ روسیاہ نکلے
اک خلق میر کے اب ہوتی ہے آستاں پر
درویش نکلے ہے یوں جوں بادشاہ نکلے
میر تقی میر

میں ہی فرید اور میں ہی بلھے شاہ پیارے

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 60
مجھ سے پوچھ طریقت کی ہر راہ پیارے
میں ہی فرید اور میں ہی بلھے شاہ پیارے
لائے نہ لائے لہر صدف کو ساحل پر
یہ دولت تو ملتی ہے ناگاہ پیارے
وُہ جو دید میں رہ کر بھی نا دید میں ہے
اُس گوری کی خاطر بھر لے آہ پیارے
وہ تاروں سے سے ماتھا چُھو کر چلتا ہے
جاہِ جہاں ہے اُس کے آگے کاہ پیارے
کون رفیق تھا اُس تنہا کا سُولی پر
دل کے سوا ہوتا ہے کون گواہ پیارے
اُن آنکھوں نے دل کو یوں تاراج کیا
جیسے گزرے شہر سے کوئی سپاہ پیارے
اپنے اچھا ہونے کا اقرار تو کر
کر لے، ہرج ہی کیا ہے، ایک گناہ پیارے
آفتاب اقبال شمیم

صحنِ سفید پوش میں کالی سیاہ دھوپ

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 246
غم کی طویل رات کا اک انتباہ دھوپ
صحنِ سفید پوش میں کالی سیاہ دھوپ
احمق ہے جانتی ہی نہیں میری برف کو
جم جائے آپ ہی نہ کہیں بادشاہ دھوپ
میں چل رہا ہوں تیری تمنا کے دشت میں
میرے رفیق آبلے، میری گواہ دھوپ
پردے ابھی نہ کھینچ مری کھڑکیوں کے دوست
مجھ سے بڑھا رہی ہے ذرا رسم و راہ دھوپ
برطانیہ کی برف میں کتنی یتیم ہے
صحرائے تھل میں جو تھی بڑی کج کلاہ دھوپ
جھلسا دیا دماغ بھی چہروں کے ساتھ ساتھ
مشرق کے المیے میں نہیں بے گناہ دھوپ
منصور اپنی چھت سے رہو ہمکلام بس
تنہائیوں کی شہر میں ہے بے پناہ دھوپ
منصور آفاق