آفتاب اقبال شمیم ۔
متفرق اشعار
حیران ہوں کرشمۂ خطاط دیکھ کر
یہ چشم و لب ہیں یا کوئی آیت لکھی ہوئی
سر پھوڑیے ضرور مگر احتیاط سے
دیوار پر یہی ہے ہدایت لکھی ہوئی
ایّام کی کتاب میں مرقوم کچھ نہیں
کیا مقصدِ وجود ہے معلوم کچھ نہیں
رہ جائے گا سماں وہی میلے کی شام کا
یہ سب ہجوم اور یہ سب دھوم کچھ نہیں
تم ابھی چُپ رہو صبر خود بولتا ہے
نشۂ خون میں ، جبر خود بولتا ہے
شرط ہے تن پہ اک تازیانہ لگے
زیرِ زورِ ہوا ابر خود بولتا ہے
آفتاب اقبال شمیم