زمرہ جات کے محفوظات: آفتاب اقبال شمیم

متفرق اشعار

آفتاب اقبال شمیم ۔

متفرق اشعار
حیران ہوں کرشمۂ خطاط دیکھ کر
یہ چشم و لب ہیں یا کوئی آیت لکھی ہوئی
سر پھوڑیے ضرور مگر احتیاط سے
دیوار پر یہی ہے ہدایت لکھی ہوئی

ایّام کی کتاب میں مرقوم کچھ نہیں
کیا مقصدِ وجود ہے معلوم کچھ نہیں
رہ جائے گا سماں وہی میلے کی شام کا
یہ سب ہجوم اور یہ سب دھوم کچھ نہیں

تم ابھی چُپ رہو صبر خود بولتا ہے
نشۂ خون میں ، جبر خود بولتا ہے
شرط ہے تن پہ اک تازیانہ لگے
زیرِ زورِ ہوا ابر خود بولتا ہے
آفتاب اقبال شمیم

مکاں کو راس نہ آئے مکیں تو کیا کیجے

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 111
یہ فرش و بام یہ دیوار و در سوال کریں
مکاں کو راس نہ آئے مکیں تو کیا کیجے
سمجھ میں آئے اگر شک پہ شک کیا جائے
اگر یقین پہ نہ آئے یقیں تو کیا کیجے
یہی ہے قصد و قضا، وقت کرتا رہتا ہے
نہیں کو ہاں کبھی ہاں کو نہیں تو کیا کیجے
آفتاب اقبال شمیم

بوزنہ سا رہ گیا ہے ، قامت و قد کے بغیر

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 110
کل جو آمر تھا اس ے اب دیکھ مسند کے بغیر
بوزنہ سا رہ گیا ہے ، قامت و قد کے بغیر
آدمی کو اک ذرا انسان ہو لینے تو دو
تم کو ہر بستی نظر آئے گی سرحد کے بغیر
خواب میں یہ بھی کرشمہ ہے اسی کے خواب کا
یعنی دن نکلا ہوا ہے اس کی آمد کے بغیر
تم بتاؤ وہ بڑے آدرش والے کیا ہوئے
کیا برا ہے ہم اگر زندہ ہیں مقصد کے بغیر
آفتاب اقبال شمیم

میرے تلخاب کو وہ جام بنا دیتا ہے

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 109
عرض سنتے ہی مرا کام بنا دیتا ہے
میرے تلخاب کو وہ جام بنا دیتا ہے
خاک و افلاک میں رشتہ ہے، شعور اتنا ہی
خاص کو ہم نسبِ عام بنا دیتا ہے
چھاؤں بھر دھوپ کی مہلت میں شجر میرے لئے
ایک خس خانۂِ آرام بنا دیتا ہے
ثبت و محکم بھی تغیّر کی حد و زد میں ہے
جب بھی چاہے وہ اسے خام بنا دیتا ہے
تجربہ جیسے کوئی نسخۂِ بینائی ہو
میرے دکھ کو مرا انعام بنا دیتا ہے
جو یہاں اایا یہاں سے کبھی نکلا ہی نہیں
شہر، رستوں کا عجب دام بنا دیتا ہے
اپنی قامت بھی ضروری ہے کہ پہچانے جاؤ
یوں تو نقاد بڑا نام بنا دیتا ہے
آفتاب اقبال شمیم

واقعہ پردۂ ساعت سے نکلتا ہی نہیں

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 108
یہ جو ٹھہرا ہوا منظر ہے، بدلتا ہی نہیں
واقعہ پردۂ ساعت سے نکلتا ہی نہیں
آگ سے تیز کوئی چیز کہاں سے لاؤں
موم سے نرم ہے وہ اور پگھلتا ہی نہیں
یہ مری خمس حواسی کی تماشا گاہیں
تنگ ہیں ، ان میں مرا شوق بہلتا ہی نہیں
پیکرِ خاک ہیں اور خاک میں ہے ثقل بہت
جسم کا وزنِ طلب ہم سے سنبھلتا ہی نہیں
غالباً وقت مجھے چھوڑ گیا ہے پیچھے
یہ جو سکہ ہے میری جیب میں چلتا ہی نہیں
ہم پہ غزلیں بھی نمازوں کی طرح فرض ہوئیں
قرضِ ناخواستہ ایسا ہے کہ ٹلتا ہی نہیں
آفتاب اقبال شمیم

زرِ تہذیب کے بدلے اسے تہذیبِ زر دیں گے

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 107
وہ شہرِ بے انا کو کثرتِ اشیا سے بھر دیں گے
زرِ تہذیب کے بدلے اسے تہذیبِ زر دیں گے
کبھی تعبیر سے انکی کھلا تھا باغ دنیا کا
اگر یہ خواب سچے ہیں تو دوبارہ ثمر دیں گے
ترا پیغام برحق ہے، مگر تعمیل مشکل ہے
زیادہ سے زیادہ ہم تجھے دادِ ہنر دیں گے
کرشمے دیکھتے جاؤ خداوندانِ مغرب کے
کہ وہ انسان کو آخر میں نا انسان کر دیں گے
شکوہِ سبزِ بے موسم صلہ ہے سخت جانی کا
تمہیں اس کی گواہی برف زاروں کے شجر دیں گے
آفتاب اقبال شمیم

خدا والا ہوں لیکن دہریوں سے یاریاں بھی ہیں

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 106
تضادوں کے سمجھنے میں مجھے دشواریاں بھی ہیں
خدا والا ہوں لیکن دہریوں سے یاریاں بھی ہیں
کہیں سوتے نہ رہ جائیں زنِ خواہش کے پہلو میں
ہمیں درپیش کل کے کوچ کی تیاریاں بھی ہیں
بجا ہے اور بڑھ جاتی ہے زیر پائے لنگ آ کر
مگر اس راہ صد جادہ میں ناہمواریاں بھی ہیں
یہ خالی پن کہاں پیمانۂ مقدار میں آئے
مزے کے انت میں بے انت کی بیزاریاں بھی ہیں
میں سوتے جاگتے کی داستاں دہراتا رہتا ہوں
مری بیداریوں میں خواب کی سرشاریاں بھی ہیں
آفتاب اقبال شمیم

وہ ہستی اپنے ہونے کے نشاں پوشیدہ رکھتی ہے

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 105
بدن میں جاں ، زمیں میں آسماں پوشیدہ رکھتی ہے
وہ ہستی اپنے ہونے کے نشاں پوشیدہ رکھتی ہے
شئے نازک ذرا سی ضرب سے تقسیم ہو جائے
کہ آئینے کی وحدت کرچیاں پوشیدہ رکھتی ہے
ذرا پرہیز ہے مجھ کو زرِ دنیا کی نعمت سے
یہ میرے سود میں میرا زیاں پوشیدہ رکھتی ہے
جسے بانٹوں تو سب ناداریاں دنیا کی مٹ جائیں
زمیں اپنا وہ گنجینہ کہاں پوشیدہ رکھتی ہے
ہے اپنی ذات میں جو رنگ و نسلِ لفظ سے بالا
خموشی اپنے اندر وہ زباں پوشیدہ رکھتی ہے
یہ اولاد مسیحا اصل میں آلِ سکندر ہے
دکھاوے کی صلیبوں میں سناں پوشیدہ رکھتی ہے
آفتاب اقبال شمیم

مانگ جن کی ہے میں اُن چیزوں کا بیوپاری نہیں

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 104
نام کی خواہش مرے وجدان پر بھاری نہیں
مانگ جن کی ہے میں اُن چیزوں کا بیوپاری نہیں
سوچتا ہوں کس سے لکھواؤں سند پہچان کی
شہر کے شہرت نویسوں سے میری یاری نہیں
دے خداوندا مجھے بعدِ بصیرت کا سراغ
آنکھ کا یہ زخم گہرا ہے مگر کاری نہیں
شعرِ مشکل کی سماعت نا پسند آئے انہیں
اور آساں ہو تو کہتے ہیں کہ تہ داری نہیں
مشکلیں سہنے کا جینے میں سلیقہ آ گیا
اب تو مر جانے میں مجھ کو کوئی دشواری نہیں
خیر ہو اے یار! تیری دلبری کی خیر ہو
عاشقوں نے ہار کر بازی ابھی ہاری نہیں
آفتاب اقبال شمیم

ہو گیا جزوِ زمین و آسماں ، کیا پوچھئے

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 103
مردِ نسیاں بُرد کا نام و نشاں کیا پوچھئے
ہو گیا جزوِ زمین و آسماں ، کیا پوچھئے
نامقرر راستوں کی سیرِ ممنوعہ کے بعد
کیوں ہنسی کے ساتھ آنسو ہیں رواں، کیا پوچھئے
ہر نئے ظاہر میں پوشیدہ ہے اک ظاہر نیا
ایک حیرت ہے نہاں اندر نہاں کیا پوچھئے
خود کو نامشہور کرنے کے یہی تو ڈھنگ ہیں
آفتاب اقبال کا طرزِ بیاں کیا پوچھئے
کیوں اُسے پرتوں کی پرتیں کھو جنا اچھا لگے
کیوں کئے جاتا ہے کارِ رائیگاں کیا پوچھئے
لیکھ ہی ایسا تھا یا آدرش میں کچھ کھوٹ تھی
زندگی ہم سے رہی کیوں بدگماں کیا پوچھئے
ہم نے سمجھا یا تو تھا لیکن وہ سمجھا ہی نہیں
آج کا یہ سود ہے کل کا زیاں کیا پوچھئے
ہم سبھی جس داستاں کے فالتو کردار ہیں
زندگی ہے ایک ایسی داستاں ، کیا پوچھئے
آفتاب اقبال شمیم

خیال کی باغبانیاں کر اُگا یہ نظمیں

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 102
بدل بھی سکتی ہیں اس چمن کی فضا یہ نظمیں
خیال کی باغبانیاں کر اُگا یہ نظمیں
یہ رات مانگے جنوں سے نذرانہ روشنی کا
جلا جلا کر سروں سے اونچی اُڑا یہ نظمیں
مجھے بہت ہے یہ میری گمنامیوں کی خلوت
مگر کسی دن قبول کر لے خدا یہ نظمیں
سخی صلے میں کسی سے کچھ مانگتا نہیں ہے
یہ لوگ بہرے ہیں ان کو اکثر سنا یہ نظمیں
تمام اوصاف ان میں جیسے ہوں دلبروں کے
حسین و خودبیں ، وفا سے نا آشنا یہ نظمیں
میں غیب و حاضر کا نامہ بر ہوں ، یہ میرا منصب
یہاں وہاں بانٹتا رہوں گا سدا یہ نظمیں
آفتاب اقبال شمیم

جیتوں نہ جیت سے کبھی ہاروں نہ ہار سے

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 101
اِس درجہ ہو گیا ہوں سبک غم کے بار سے
جیتوں نہ جیت سے کبھی ہاروں نہ ہار سے
جب چاہے جس کو پھینک دے، منہ زور ہے بہت
وہ دیکھو! زین ہو گئی خالی سوار سے
خوش ہوں کہ تجھ سے ایک تعلق بنا رہا
ٹوٹا کبھی نہ ربط مرا انتظار سے
بیکار ہی سہی ولے شعروں کے شغل نے
مجھ کو بچا لیا ہے مرے انتشار سے
قربت کے ساتھ خواہشِ دیگر بھی چاہئے
باہر ہے لطفِ لمس مرے اختیار سے
خوشبوئیں لڑکیوں کی طرح گھومتی پھریں
کیا مشورہ ہے، آؤ نا پوچھیں بہار سے
آفتاب اقبال شمیم

میں ڈھونڈتا ہوں جِسے غالباً وہ ہے ہی نہیں

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 100
وہ کون اور کہاں ہے ابھی یہ طے ہی نہیں
میں ڈھونڈتا ہوں جِسے غالباً وہ ہے ہی نہیں
بغیر اُس کے کہاں کثرتیں اکائی بنیں
کہ سا زِ ہفتِ نوا میں وہ ایک لے ہی نہیں
فریبِ نشّہ بھی نشّے کی ایک صورت ہے
کہ پی رہا ہوں پیالے میں گرچہ مے ہی نہیں
نکال دے جو سمندر کو اپنے ساحل سے
سرِشتِ آب میں وہ موج پے بہ پے ہی نہیں
میں کائنات ہوں اپنے وجود کے اندر
مرے قریب یہ دنیا تو کوئی شے ہی نہیں
آفتاب اقبال شمیم

ترے سوا یہ کسی کو ہنر نہیں آنا

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 99
نظر کے سامنے رہنا نظر نہیں آنا
ترے سوا یہ کسی کو ہنر نہیں آنا
یہ انتظار مگر اختیار میں بھی نہیں
پتہ تو ہے کہ اُسے عمر بھر نہیں آنا
بس ایک اشک پسِ چشم تم چھپائے رکھو
بغیر اس کے سخن میں اثر نہیں آنا
ذرا وہ دوسری کھڑکی بھی کھول کمرے کی
وگرنہ تازہ ہوا نے ادھر نہیں آنا
یہ ہجرتیں ہیں زمین و زماں سے آگے کی
جو جا چکا ہے اُسے لوٹ کر نہیں آنا
ہر آنے والا نیا راستہ دکھاتا ہے
اسی لئے تو ہمیں راہ پر نہیں آنا
کروں مسافتیں نا افریدہ راہوں کی
مجھ ایسا بعد میں آوارہ سر نہیں آنا
آفتاب اقبال شمیم

کہ میں تو اپنے ہی گھر میں سدا پرایا رہا

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 98
وہ اختلاف نظر درمیاں میں آیا رہا
کہ میں تو اپنے ہی گھر میں سدا پرایا رہا
وہاں کی روشنیاں بھی مثالِ ظلمت تھیں
جہاں جہاں مری نادیدنی کا سایا رہا
یہی کہ نذرِ تب و تابِ زر ہوئیں آنکھیں
غبارِ بے بصری بستیوں پہ چھایا رہا
یہ معجزہ تھا سرِ چشم ایک آنسو کا
تمام منظرِ شب دھوپ میں نہایا رہا
بنامِ عشق اِسے قرض جاریہ کہئے
کہ نقدِ جاں بھی ادا کر کے جو بقایا رہا
آفتاب اقبال شمیم

یادوں کا تعویذ ہمیشہ گلے میں ڈالے رکھتا ہوں

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 97
وقت کی ہر آفت کو اپنے سر سے ٹالے رکھتا ہوں
یادوں کا تعویذ ہمیشہ گلے میں ڈالے رکھتا ہوں
خواب کے روزن سے در آئی روشنیوں کا کیا کہنا
گھور اندھیرے میں بھی اپنے پاس اُجالے رکھتا ہوں
ہر مایوسی سہہ لیتا ہوں شاید اس کی برکت سے
یہ جو انہونی کا سپنا دل میں پالے رکھتا ہوں
کیا معلوم کہ جانے والا سمت شناس فردا ہو
تھوڑی دُور تو ہر مرکب کی باگ سنبھالے رکھتا ہوں
اپنے اس انکار کے باعث دین کا ہوں نہ ہی دنیا کا
ہر خواہش کو پاؤں کی ٹھوکر پہ اچھالے رکھتا ہوں
زہر کا پیالہ، سوکھا دریا اور صلیب و دار و رسن
میں بھی اپنے ہونے کے دو چار حوالے رکھتا ہوں
آفتاب اقبال شمیم

اے میرے مستِ ہمہ وقت، سدا جیتا رہ

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 96
بادۂ شعر سے تُو مفت کی مے پیتا رہ
اے میرے مستِ ہمہ وقت، سدا جیتا رہ
کارِ بیگارِ تمنّا سے رہائی کیسی
زخم جو سل نہیں سکتا ہے اُسے سیتا رہ
کیا تصّور میں بھی پینے کی سرا ہوتی ہے
جو نہیں ہے تو سرِ عام اِسے پیتا رہ
خاکِ نسیاں سے بھلا کون اٹھائے گا تجھے
تُو کہ اک واقعہ تھا، بیت چکا، بِیتا رہ
آفتاب اقبال شمیم

منجمد ہوتی ہوئی اور پگھلتی ہوئی شام

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 95
اپنی کیفیتیں ہر آن بدلتی ہوئی شام
منجمد ہوتی ہوئی اور پگھلتی ہوئی شام
ڈگمگاتی ہوئی ہر گام سنبھلتی ہوئی شام
خواب گاہوں سے اِدھر خواب میں چلتی ہوئی شام
گوندھ کر موتیے کے ہار گھنی زلفوں میں
عارض و لب پہ شفق سرخیاں ملتی ہوئی شام
اک جھلک پوشش بے ضبط سے عریانی کی
دے گئی، دن کے نشیبوں سے پھسلتی ہوئی شام
ایک سناٹا رگ و پے میں سدا گونجتا ہے
بجھ گئی جیسے لہو میں کوئی جلتی ہوئی شام
وقت بپتسمہ کرے آبِ ستارہ سے اِسے
دستِ دنیا کی درازی سے نکلتی ہوئی شام
آفتاب اقبال شمیم

میں جانتا ہوں فلک میرے رہ گزار میں ہے

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 94
زمیں کے ساتھ میری آنکھ بھی مدار میں ہے
میں جانتا ہوں فلک میرے رہ گزار میں ہے
سفر ہے پیشِ قدم صد ہزار صدیوں کا
تمہاری شہرتِ دو گام کس شمار میں ہے
بندھی ہوئی ہیں اکائی میں کثرتیں ساری
ہر ایک اور کسی اور کے حصار میں ہے
خرد تو آج کا زنداں ہے اس سے باہر بھی
یہ آنکھ وہم و تصور کے اختیار میں ہے
انا کے نشے میں ورنہ خدا ہی بن جاتا
یہی تو جیت ہے جو آدمی کی ہار میں ہے
کبھی جو دھیان میں لاؤں تو ڈگمگا جاؤں
عجیب نشّہ تری آنکھ کے خمار میں ہے
بلا سے، آج کسی نے اگر نہ پہچانا
وُہ دیکھ! کل کا جہاں میرے انتظار میں ہے
آفتاب اقبال شمیم

ایسے ابنائے زمانہ سے مجھے وحشت ہو

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 93
وقت کے ساتھ بدلنے کی جنہیں عادت ہو
ایسے ابنائے زمانہ سے مجھے وحشت ہو
جیسے دیوار میں در وقفۂ آزادی ہے
کیا خبر جبر و ارادہ میں وہی نسبت ہو
روزمرہ کے مضافات میں ہم گھوم آئیں
اتنی فرصت ہو، مگر اتنی کسے فرصت ہو
آدمی روز کی روٹی پہ ہی ٹل جاتا ہے
اور بیچارے پہ کیا اِس سے بڑی تہمت ہو
ایک رفتار میں یوں وقفہ بہ وقفہ چلنا
کیا عجب، وقت کو چلنے میں کوئی دقّت ہو
سرخ منقار کا میں سبز پرندہ تو نہیں
کیوں نہ تکرار کی خُو میرے لئے زحمت ہو
آفتاب اقبال شمیم

ہم نے بدل لیا ہے پیالہ گلاس میں

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 92
وہ عطرِ خاک اب کہاں پانی کی باس میں
ہم نے بدل لیا ہے پیالہ گلاس میں
کل رات آسمان میرا میہماں رہا
کیا جانے کیا کشش تھی مِرے التماس میں
ممنون ہوں میں اپنی غزل کا، یہ دیکھئے
کیا کام کر گئی میرے غم کے نکاس میں
میں قیدِ ہفت رنگ سے آزاد ہو گیا
کل شب نقب لگا کے مکانِ حواس میں
پھر یہ فسادِ فرقہ و مسلک ہے کس لئے
تو اور میں تو ایک ہیں اپنی اساس میں
آفتاب اقبال شمیم

اور دولتِ دنیا کو پاپوش پہ رکھتا ہوں

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 91
اک چادرِ بوسیدہ میں دوش پہ رکھتا ہوں
اور دولتِ دنیا کو پاپوش پہ رکھتا ہوں
آنکھوں کو ٹکاتا ہوں ہنگامہ دنیا پر
اور کان سخن ہائے خاموش پہ رکھتا ہوں
کیفیتِ بے خبری کیا چیز ہے کیا جانوں
بنیاد ہی ہونے کی جب ہوش پہ رکھتا ہوں
میں کون ہوں ! ازلوں کی حیرانیاں کیا بولیں
اک قرض ہمیشہ کا میں گوش پہ رکھتا ہوں
جو قرض کی مے پی کر تسخیر سخن کر لے
ایماں اُسی دلی کے مے نوش پہ رکھتا ہوں
آفتاب اقبال شمیم

یا قلم کی ہمت سے واقعہ بڑا ہے کیا

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 90
ذات کی نظربندی میں ادب پڑا ہے کیا
یا قلم کی ہمت سے واقعہ بڑا ہے کیا
بھر گیا ہے لاشوں سے ،آئینہ خراشوں سے
اپنے آپ سے کوئی رات بھر لڑا ہے کیا
عین ہیں اکائی میں خط و قوس ابجد کے
اُس نے عین فرصت میں وہ بدن گھڑا ہے کیا
اپنے آپ کو دیکھوں اور دیکھتا جاؤں
آئینے کے اندر بھی آئینہ جڑا ہے کیا
عزم لے کے جاتا ہوں اور لوٹ آتا ہوں
سنگِ میل قسمت کا راہ میں گڑا ہے کیا؟
اس سپاہِ پسپائی، سے سوال کیا پوچھوں
جان سے گزرنے کا مرحلہ کڑا ہے کیا؟
آفتاب اقبال شمیم

وہ شہ گلاب میری زندگی کے باغ میں آئے

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 89
اسی گماں کا سراپا دل و دماغ میں آئے
وہ شہ گلاب میری زندگی کے باغ میں آئے
پڑھوں تو صبح تلک ہچکیوں میں پڑھتا ہی جاؤں
کشید حرف کچھ ایسی مرے ایاغ میں آئے
خلا بھی خالی نہیں ہے ادھر نگاہ کروں تو
پلٹ کے روشنی سی دل کے داغ داغ میں آئے
عذابِ کارِ جہاں سے اُسے نکلنا سکھاؤں
اُسے کہو کہ مرے حجلۂ فراغ میں آئے
میں شب کے طاقچۂ لامکاں میں رکھا گیا ہوں
میری ہی چشم نما روشنی چراغ میں آئے
کرن کی تابِ فزودہ سے جو بنایا گیا ہو
وہ مہر زادہ کہاں آنکھ کے سراغ میں آئے
آفتاب اقبال شمیم

اک اشکِ فراموش مرے دھیان میں آیا

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 88
لرزہ سا کبھی تن میں کبھی جان میں آیا
اک اشکِ فراموش مرے دھیان میں آیا
خوں ہو کہ یہ دل طاق ہوا عرضِ ہنر میں
یہ ساز سدا ٹوٹ کے ہی تان میں آیا
تھا خواب بھی اک کرمکِ شب تاب کی صورت
جو روز میرے تیرہ شبستان میں آیا
کچھ یوں بھی مجھے عمر کے گھٹنے کا قلق تھا
کچھ سخت خسارہ میرے ارمان میں آیا
اے ربِ سخن! میں کوئی ایسا تو نہیں تھا
کیا جانئے، کیسے تیری پہچان میں آیا
وہ دید بھی کیا دید تھی، پر کیسے بتاؤں
اک عمر ہوئی میں نہیں اوسان میں آیا
آفتاب اقبال شمیم

زمین ایک خلل ہے مری اکائی میں

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 87
میں کائنات کے مانند ہوں خدائی میں
زمین ایک خلل ہے مری اکائی میں
میں دل کا اتنا سخی ہوں، خدا معاف کرے
کہ ڈھونڈ سکتا ہوں نیکی، تری برائی میں
یہ جسم شخص لگے روح کے علاقے کا
عجیب لطفِ دو عالم ہے آشنائی میں
رکا ہوا کوئی لمحہ نہ مجھ کو روک سکے
خدا کرے کہ رہوں رات دن رہائی میں
ملا تھا نقدِ سرِ راہ اس کے جلوے کا
گزر بسر ہوئی اپنی اسی کمائی میں
میں روز جیتا رہا اور روز مرتا رہا
مرا بھی نام لکھو کل کی کارروائی میں
آفتاب اقبال شمیم

بقا بھی آئینہ دارِ بقا کی بخشش ہے

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 86
اُسی کا عکس ہے مجھ میں ، خدا کی بخشش ہے
بقا بھی آئینہ دارِ بقا کی بخشش ہے
میں کس عذاب میں یہ بار سر اٹھائے ہوئے
جیا ہوں اور یہ میری انا کی بخشش ہے
یہ اُس کی پُرسشِ یک لفظ اس زمانے میں
میرے خیال میں تو انتہا کی بخشش ہے
نظیر اس کی زمیں پر کہیں نہیں ملتی
یہ شاعری اِسی آب و ہوا کی بخشش ہے
آفتاب اقبال شمیم

نیلی چھتری تھام کے تار پہ چلتا آدمی

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 85
پاؤں پاؤں ڈولتا، اور سنبھلتا آدمی
نیلی چھتری تھام کے تار پہ چلتا آدمی
آتی جاتی کثرتیں کارگہِ ایّام کی
قالب جیسی روح پہ، جسم بدلتا آدمی
جسم دہکتا کوئلہ پھونک بناتی سانس سے
عمر کے آتش دان کی آگ میں جلتا آدمی
مٹی کے باغات میں تیز ہوا کا شور ہے
گر ہی نہ جائے شاخ سے پھولتا پھلتا آدمی
آفتاب اقبال شمیم

دلیلِ شعر میں تھوڑا سا کشف ڈالتا ہوں

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 84
میں اپنے واسطے رستہ نیا نکالتا ہوں
دلیلِ شعر میں تھوڑا سا کشف ڈالتا ہوں
بہت ستایا ہوا ہوں لئیم دنیا کا
سخی ہوں، دل کی پرانی خلش نکالتا ہوں
زمانہ کیا ہے؟ کبھی من کی موج میں آؤں
تو نوکِ نقش پہ اپنی اسے اچھالتا ہوں
یہ میرا کنج مکاں، میرا قصرِ عالی ہے
میں اپنا سکۂِ رائج یہیں پہ ڈھالتا ہوں
مری غزل میں زن و مرد جیسے باہم ہوں
اِسے جلالتا ہوں، پھر اُسے جمالتا ہوں
ذرا پڑھیں تو مری اختیار میں نہ رہیں
یہ نونہال جنہیں مشکلوں سے پالتا ہوں
آفتاب اقبال شمیم

وہ کہ جو کل نہ ہوا، کل نہیں ہونے والا

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 83
مسئلہ آدمی کا حل نہیں ہونے والا
وہ کہ جو کل نہ ہوا، کل نہیں ہونے والا
ایک تعمیر جو ہر دم زدِ تخریب میں ہے
اس جگہ کچھ بھی مکمل نہیں ہونے والا
جھیل ہے آنکھ مری، ایک پرت پانی کی
جس سے جلوہ ترا اوجھل نہیں ہونے والا
اس عنایت میں کوئی اس کی غرض بھی ہو گی
یہ کرم تم پہ مسلسل نہیں ہونے والا
شوق سے بوجھ مصائب کا بڑھاتے جاؤ
یہ جو ہے دوش مرا، شل نہیں ہونے والا
آفتاب اقبال شمیم

ہمیں بنامِ وفا اُس نے آزمانا بہت ہے

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 82
اُسے تو وعدۂِ فردا کا ہی بہانہ بہت ہے
ہمیں بنامِ وفا اُس نے آزمانا بہت ہے
نئے سفر پہ چلے ہو، اسے اتارتے جاؤ
تمہارا پیرہنِ زندگی پرانا بہت ہے
دیارِ غیر میں کیوں خفتیں سمیٹنے جاؤں
مرے لئے مری مٹی کا یہ ٹھکانا بہت ہے
میں اپنی ارضِ حسیں سے سلوک جیسا کروں
مجھے ہے اس سے محبت، یہی بہانہ بہت ہے
عدو سے دوستی کر لی تو کیا برائی ہے اس میں
مگر یہ کارِ سیاست منافقانہ بہت ہے
مجھے بھی عرش کے آدرش سے اترنا پڑے گا
کہ میری وقت کا معیار درمیانہ بہت ہے
میں اس سے صلح بھی کر لیتا، کچھ بعید نہیں
مگر وہ اپنے رویّے میں درمیانہ بہت ہے
آفتاب اقبال شمیم

عشق کو حسن بنا دے وہ کرشمہ ہے بہت

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 81
دار پر اس کی گواہی کا ہے حوالہ ہے بہت
عشق کو حسن بنا دے وہ کرشمہ ہے بہت
ناتوانی کو توانائی کا یہ معجزہ ہے
ہر ہلاکو کے لئے ایک فلوجہ ہے بہت
اے انا الوقت! محبت کے کسی روپ میں آ
خود کو برباد نہ کر لوں، مجھے خطرہ ہے بہت
حسن دریا ہے میری آنکھ میں گرنے والا
پھر بھی پیاسا ہوں اگرچہ تجھے دیکھا ہے بہت
اتنا سادہ ہوں تو کچھ وجہ بھی ہو گی شاید
ضبط میں میری انا نے مجھے رکھا ہے بہت
اور اس وہم سے بھی جا کے نمٹ لے پیارے
شہرِ فردا میں سنا ہے ترا چرچا ہے بہت
زندگی جیسے سبھی موسموں کا میلہ ہو
سیر کے واسطے یہ گلشنِ دنیا ہے بہت
آفتاب اقبال شمیم

کہ میرے کیسۂِ خواہش میں زر زیادہ نہیں

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 80
فقیر ہوں مجھے لٹنے کا ڈر زیادہ نہیں
کہ میرے کیسۂِ خواہش میں زر زیادہ نہیں
کرن کی قید میں ہے آئینے کی بینائی
میں اس کو دیکھ تو سکتا ہوں پر زیادہ نہیں
ہمارے دور میں تو واقعہ بھی کرتب ہے
یہ ہم جو دیکھتے ہیں، معتبر زیادہ نہیں
اور ان میں ایک درِ مے کدہ بھی شامل ہے
غمعں سے بچ کے نکلنے کے در زیادہ نہیں
میں اس کی شکل بناتا ہوں، پر نہیں بنتی
قلم کی نوک میں تابِ ہنر زیادہ نہیں
میں اہلِ دل کی ثنا خوانیوں میں رہتا ہوں
بلا سے، نام مرا مشتہر زیادہ نہیں
آفتاب اقبال شمیم

میں سوتے جاگتے کی داستاں میں رہ رہا ہوں

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 79
عجب خواب و حقیقت کے جہاں میں رہ رہا ہوں
میں سوتے جاگتے کی داستاں میں رہ رہا ہوں
رواں رہتا ہوں عالم گیر ہجرت کے سفر میں
زمیں پر رہ رہاں ہوں اور زماں میں رہ رہا ہوں
ذرا پہلے گماں آبادِ فردا کا مکیں تھا
اور اب نسیاں سرائے رفتگاں میں رہ رہا ہوں
مرے پرکھوں نے جو میرے لئے خالی کیا تھا
میں اگلے وارثوں کے اس مکاں میں رہ رہا ہوں
مکاں میں لامکاں کا چور دروازہ بنا کر
ہمیشہ سے ہجومِ دلبراں میں رہ رہا ہوں
زمین و آسماں کا فاصلہ ہے درمیاں میں
میں سجدہ ہوں تمہارے آستاں میں رہ رہا ہوں
آفتاب اقبال شمیم

بنانا جس کا ممکن تو نہیں ہے، پر بنانا چاہتا ہوں

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 78
محبت کے ابد آباد میں اک گھر بنانا چاہتا ہوں
بنانا جس کا ممکن تو نہیں ہے، پر بنانا چاہتا ہوں
یہ لامحدود آزادی مگر میرے مقدر میں نہیں ہے
کہ میں دیوار میں دیوار جتنا در بنانا چاہتا ہوں
یہ آنسو جو بہت شوریدہ سر ہے، ضبط میں رکھا ہوا ہے
میں اس کی پرورش کر کے اسے گوہر بنانا چاہتا ہوں
کہیں امکان سے باہر نہ ہو یہ خواہشِ تعمیر میری
کہ میں دنیا کو دنیا سے ذرا بہتر بنانا چاہتا ہوں
زمیں پیرانہ سالی میں جھکے افلاک سے تنگ آ گئی ہے
نیا سورج، نئے تارے، نیا امبر بنانا چاہتا ہوں
یہ دنیا ان گنت اصنام کا اک بت کدہ لگتی ہے مجھ کو
انہیں مسمار کر کے ایک ہی پیکر بنانا چاہتا ہوں
آفتاب اقبال شمیم

سب روشنی اسی سے منسوب سی لگے ہے

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 77
جیسی ہے وہ ہمیں تو، محبوب سی لگے ہے
سب روشنی اسی سے منسوب سی لگے ہے
پھر موسم تمنا، باران اشک لایا
خوابوں کی ہر خیاباں مرطوب سی لگے ہے
اُس بات کا حوالہ بدلا گیا ہے شاید
ناخوب تھی جو پہلے اب خوب سی لگے ہے
نکلے کشید ہو کر، لب کی گلاہیوں سے
ایسے سخن کی تلخی مرغوب سی لگے ہے
جس رخ سے منعکس ہوں کرنیں دو چند ہو کر
ہر چیز اُس کے آگے معیوب سی لگے ہے
خود کو چھپائے رکھے آنکھوں کی اوڑھنی میں
وُہ بے حجابیوں میں محبوب سی لگے ہے
ہر وقت دھیان میں ہے اور دھیان سے پرے بھی
یہ زندگی تو ہم کو مجذوب سی لگے ہے
آفتاب اقبال شمیم

مکالمے کے لئے عصر کی زبان میں آؤ

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 77
اسیرِ حافظہ ہو، آج کے جہان میں آؤ
مکالمے کے لئے عصر کی زبان میں آؤ
پئے ثبات، تغیّر پکارتے ہوئے گزرے
چھتیں شکستہ ہیں نکلو، نئے مکان میں آؤ
زمیں کا وقت سے جھگڑا ہے خود نپٹتے رہیں گے
کہا ہے کس نے کہ تم ان کے درمیان میں آؤ
یہ آٹھ پہر کی دنیا تمہیں بتاؤں کہ کیا ہے!
نکل کے جسم سے کچھ دیر اپنی جان میں آؤ
تمہیں تمہاری الف دید میں میں دیکھنا چاہوں
نظر بچا کے زمانے سے میرے دھیان میں آؤ
آفتاب اقبال شمیم

وُہ نغمہ زار اس آواز کے بنجر سے آگے ہے

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 76
خیالوں کا نگر، اُجڑے ہوئے منظر سے آگے ہے
وُہ نغمہ زار اس آواز کے بنجر سے آگے ہے
نفس ۔ اک موجِ کم آواز ہے لیکن روانی میں
لہو کی ٹہنیوں کو کاٹتی حر حر سے آگے ہے
کبھی بیگانگی کا فاصلہ طے ہو نہیں پایا
ہمارے ساتھ کا گھر بھی ہمارے گھر سے آگے ہے
وہ خواب افروز منظر چشم و دل کی سیر گاہوں کا
ابھی آگے ہے اِس اقلیمِ زور و زر سے آگے ہے
کبھی حیرت، فصیل لفظ توڑے تو خبر آئے
کہ معنی کا جہاں الفاظ کی کشور سے آگے ہے
ابھی یہ ریزہ ریزہ روشنی مٹی میں گرنے دے
نمو کا مرحلہ آنکھوں کی خاکستر سے آگے ہے
آفتاب اقبال شمیم

نقش اک زنداں ہے جس میں قید ہو جاتا ہوں میں

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 76
اس کو پیدا کر کے خود ناپید ہو جاتا ہوں میں
نقش اک زنداں ہے جس میں قید ہو جاتا ہوں میں
کیا نشانہ ہے کہ اک چشمِ غلط انداز سے
کتنی آسانی سے اس کا صید ہو جاتا ہوں میں
اک فقیرِ بےنوا ہوں اپنی جلوت میں مگر
تخلیئے میں قیصر و جمشید ہو جاتا ہوں میں
بھیڑ جیسے فرد کا مرقد ہو جس کے درمیاں
میں نہیں رہتا ہوں کوئی زید ہو جاتا ہوں میں
آفتاب اقبال شمیم

سزائے موت، سارے شہر کو اُس نے سنا دی ہے

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 75
منادی ہے بموں کے طبلِ دہشت پر منادی ہے
سزائے موت، سارے شہر کو اُس نے سنا دی ہے
بگولا جو اٹھا ہے پھیل کر طوفاں نہ بن جائے
کسی نے خار و خس کو زورِ آتش سے ہوا دی ہے
اسے ہم عقدِ مستقبل کا ہنگامہ سمجھتے ہیں
یہ کوئی شورِ ماتم ہے نہ کوئی جشنِ شادی ہے
نہیں ،کچھ بھی نہیں خواب و شکستِ خواب سے آگے
یہی سمجھو کہ ساری عمر ہی ہم نے گنوا دی ہے
وہ کیا جانے کہ توہینِ غرورِ عاشقاں کیا ہے
ہمارے یار نے تو خیر سے گردن جھکا دی ہے
مفاد اول، مفاد آخر، یہی محور ہے رشتوں کا
یہاں جو آج کا دشمن ہے کل کا اتحادی ہے
آفتاب اقبال شمیم

یہ کیا کہ لمس میں آتے ہی دوسرے ہو جاؤ

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 75
میں جب بھی چھونے لگوں تم ذرا پرے ہو جاؤ
یہ کیا کہ لمس میں آتے ہی دوسرے ہو جاؤ
یہ کارِ عشق مگر ہم سے کیسے سرزد ہو
الاؤ تیز ہے صاحب! ذرا پرے ہو جاؤ
تمہاری عمر بھی اس آب کے حساب میں ہے
نہیں کہ اس کے برسنے سے تم ہرے ہو جاؤ
یہ گوشہ گیر طبیعت بھی ایک محبس ہے
ہوا کے لمس میں آؤ، ہرے بھرے ہو جاؤ
کبھی تو مطلعِٔ دل سے ہو اتنی بارشِ اشک
کہ تم بھی کھل کے برستے ہوئے کھرے ہو جاؤ
آفتاب اقبال شمیم

کہنا اُسے، دنیا مجھے راس آئی نہیں ہے

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 74
تخلیق سے فن کار کی باس آئی نہیں ہے
کہنا اُسے، دنیا مجھے راس آئی نہیں ہے
شاید کہ ہو اُمّید کے تاروں کا خزانہ
پاس آ کے یہ دولت میرے پاس آئی نہیں ہے
سورج کو نکلنا ہی نہ ہو مطلعِٔ شب سے
پھر کس لئے یہ شام اُداس آئی نہیں ہے
یا ذائقہ ہے تلخ کسی شے کی کمی سے
یا بھول میں موسم کی مٹھاس آئی نہیں ہے
کھوئے گئے حالات کے آشوب میں ایسے
کچھ اپنی خبر تا بہ حواس آئی نہیں ہے
آفتاب اقبال شمیم

تمہارے جبر کو میں مسترد کرتا رہوں گا

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 74
یہ کارِ خیر تا روزِ ابد کرتا رہوں گا
تمہارے جبر کو میں مسترد کرتا رہوں گا
چراغِ خواب یونہی تو نہیں روشن رکھا ہے
میں کل کے آنے والوں کی مدد کرتا رہوں گا
خبر سازی کے دن ہیں اور یہ ہے کارِ مشکل
مگر میں امتیازِ نیک و بد کرتا رہوں گا
آفتاب اقبال شمیم

اُس کے کم ہونے کا کفّارہ ادا کرنا تو ہے

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 73
استطاعت سے زیادہ دل بڑا کرنا تو ہے
اُس کے کم ہونے کا کفّارہ ادا کرنا تو ہے
مت کہو، اِن دوریوں کے بعد بھی ہیں دوریاں
پُر کسی شے سے یہ آنکھوں کا خلا کرنا تو ہے
اس لئے اِس سے سلوکِ ناروا بھی ہے روا
زندگی کو ایک دن ہم سے دغا کرنا تو ہے
قتل کا الزام بھی مقتول پر ہی آئے گا
قاتلوں نے خود کو ثابت بے خطا کرنا تو ہے
ہم کہ ٹھہرے اپنی عادت میں تغیّر نا پسند
جو میسّر ہے اُسی پر اکتفا کرنا تو ہے
ہم کہ تنہائی کے اک پُرہول سنّاٹے میں ہیں
کچھ نہ کچھ، ایسے میں ہنگامہ بپا کرنا تو ہے
آفتاب اقبال شمیم

کوئی یہ سوکھی ہوئی دار ہری کر جائے

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 73
پھر بپا شہر میں افراتفری کر جائے
کوئی یہ سوکھی ہوئی دار ہری کر جائے
جب بھی اقرار کی کچھ روشنیاں جمع کروں
میری تردید میری بے بصری کر جائے
معدنِ شب سے نکالے کوئی زر کرنوں کا
کچھ تو کم تیری مری کم نظری کر جائے
وہ جو منصف بھی ہے، محرم بھی ہے مجبوری کا
فائدہ شک کا مجھے دے کے بری کر جائے
آفتاب اقبال شمیم

وہ خود کو ثقلِ زمیں سے بچائے رکھتا ہے

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 72
اک آشیانہ فلک پر بنائے رکھتا ہے
وہ خود کو ثقلِ زمیں سے بچائے رکھتا ہے
یہ کون اپنے کفِ جاں کی اوٹ میں رکھ کر
چراغ تیز ہوا میں جلائے رکھتا ہے
تو کیوں نہ توڑ کے دیکھوں اِسے کہ میں کیا ہوں !
یہ آئینہ مجھے مجھ سے چھپائے رکھتا ہے
وہ عقلِ کُل مجھے حیرت سے دیکھ کر پوچھے
یہ کون شخص ہے جو اپنی رائے رکھتا ہے
یہ ایک روز کی دُوری تو حشر تک نہ کٹے
وفائے عہد وہ کل پر اٹھائے رکھتا ہے
سفر میں دھوپ کے دکھ سے ہوا ہے شائستہ
یہ نخل راہ مجھے سائے سائے رکھتا ہے
آفتاب اقبال شمیم

اب دن کے کٹہرے میں خطاوار کھڑی ہیں

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 72
نسلیں جو اندھیرے کے محاذوں پہ لڑی ہیں
اب دن کے کٹہرے میں خطاوار کھڑی ہیں
نکلیں تو شکستوں کے اندھیرے اُبل آئیں
رہنے دو، جو کرنیں مری آنکھوں میں گڑی ہیں
آ ڈوب! ابھرنا ہے تجھے اگلے نگر میں
منزل بھی بلاتی ہے، صلیبیں بھی کھڑی ہیں
کیا رات کے آشوب میں وُہ خود سے لڑا تھا
آئینے کے چہرے پہ خراشیں سی پڑی ہیں
خاموشیاں اس ساحلِ آواز سے آگے
پاتال سے گہری ہیں سمندر سے بڑی ہیں
بے نام سی آوازِ شگفت آئی کہیں سے
کچھ پتیاں شاید شجرِ شب سے جھڑی ہیں
آفتاب اقبال شمیم

باقی سب خیریت ہے

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 71
جینا ایک اذیت ہے
باقی سب خیریت ہے
ہم نے جی کر دیکھ لیا
مرنے میں عافیت ہے
سب نقلوں کی نقلیں ہیں
اور یہی اصلیت ہے
وقت کے لاتعدادوں میں
کس کی کیا حیثیت ہے
معنی کے بھی معنی ہیں
یعنی سب رمزیت ہے
اس میں رنگِ مے بھرے لے
منظر بے کیفیت ہے
گھر میں بھی اور باہر بھی
یار! بڑی بوریت ہے
آفتاب اقبال شمیم

دو بجے رات کے، سورج کو اُبھرتے دیکھا

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 71
اُس کی جرات کو عجب معجزہ کرتے دیکھا
دو بجے رات کے، سورج کو اُبھرتے دیکھا
تختۂِ دار پہ اقرار کے اکے لمحے نے
اپنی دہلیز پہ صدیوں کو ٹھہرتے دیکھا
آج جو ہو گیا سُولی کے بھنور میں روپوش
چشمِ فردا نے اُسے پار اُترتے دیکھا
اپنے مرنے کا لیا موت سے پہلے بدلہ
یوں بھی ہم نے کسی سفاک کو مرتے دیکھا
کر گئیں گِر کے اُسے اپنی فصیلیں عریاں
شہر کا شہر ہواؤں میں بکھرتے دیکھا
جبر کی چھاؤنی میں قہر کا سناٹا تھا
دیوار سے سے آواز کو ڈرتے دیکھا
دور کی ڈوریوں سے خود بھی وہ پا بستہ تھا
ہم نے پُتلی کا تماشا جسے کرتے دیکھا
رات کی خاک سے پھوٹا گُلِ منظر ایسا
سو بہ سو ایک مشفق زار نکھرتے دیکھا
آفتاب اقبال شمیم

وہ جو ہم کثرت والوں میں یکتا ہے

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 70
چشم غلط انداز سے کیسے تکتا ہے
وہ جو ہم کثرت والوں میں یکتا ہے
یہ وہ باغ لئیم ہے جس کی شاخوں پر
نفعِ یک طرفہ کا میوہ پکتا ہے
یہ بھی کرم ہے اپنے وعدہ نوازوں کا
سامنے اوندھا رکھا جام چھلکتا ہے
یونہی اس شعلے کو جلتا رہنے دو
اور بجھانے سے یہ اور بھڑکتا ہے
شاید سیلِ ہوا کی آمد آمد ہو
ورنہ کیوں گلشن میں ایسا سکتا ہے
یاد آ جائے کوئی ناہمواری سی
ورنہ مے پینے سے کون مہکتا ہے
آفتاب اقبال شمیم

دھوپ کی زرّیں قبا سو سو جگہ سے چاک تھی

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 70
تنگ سائے کے بدن پر کس قدر پوشاک تھی
دھوپ کی زرّیں قبا سو سو جگہ سے چاک تھی
در پہ ہوتی ہی رہیں بن کھٹکھٹائے دستکیں
ایک نامعلوم اندیشے کی گھر میں دھاک تھی
شہرِ دل میں تھا عجب جشنِ چراغاں کا سماں
ٹمٹماتی گرم بوندوں سے فضا نمناک تھی
مدتوں سے آشتی اپنی تھی اپنے آپ سے
اس رواداری میں لیکن عافیت کیا خاک تھی
تھے حدِ امکاں سے باہر بھی ارادے کے ہدف
حادثوں کو ورنہ کیوں دائم ہماری تاک تھی
ہم نے پایا تجربے کا بےبہا انعام تو
گو شکستِ خواب کی ساعت اذیت ناک تھی
حال آزادوں کو دورِ جبر میں کیا پوچھنا
اس فضا میں تو ہوا بھی حبس کی خوراک تھی
آفتاب اقبال شمیم

کیا گلہ کرتے کہ ہم کچھ عادتاً اچھے ہی تھے

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 69
کیوں نہیں ، ہم سے زمانے کے چلن اچھے ہی تھے
کیا گلہ کرتے کہ ہم کچھ عادتاً اچھے ہی تھے
کاٹیے اپنی صلیبوں کے اُٹھانے کی سزا
اور کہئیے، ہم سے قیس و کوہکن اچھے ہی تھے
تیرے پہلو کی گھنی نیندیں نہ راس آئیں ہمیں
ہجر کے وہ رت جگے اے جانِ من اچھے ہی تھے
یہ تصّور خود فریبی کے سوا کچھ بھی نہیں
آج کے باغات سے کل کے چمن اچھے ہی تھے
اس سلامت دامنی میں ربطِ گُل جاتا رہا
اپنے بوسیدہ دریدہ پیرہن اچھے ہی تھے
بعد ہم جلتے چراغوں کی طرح شاہد رہے
شوخ چہرے انجمن در انجمن اچھے ہی تھے
آ گئے کیوں عشرتِ یک جام کی خاطر یہاں
اِس مسرت سے تو غم ہائے وطن اچھے ہی تھے
آفتاب اقبال شمیم

گھنگھرو سایوں کے بجیں ڈھلتی دھوپ کے پاؤں میں

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 69
جاتی رُت کا شور ہے بے آواز صداؤں میں
گھنگھرو سایوں کے بجیں ڈھلتی دھوپ کے پاؤں میں
بدن چرائے دھوپ سے نکلی نہر سے سانولی
چھلکے رنگ غروب کے دن دوپہرے گاؤں میں
عکس ابھرتا آنکھ میں کیسے کل کے خواب کا
نیلا کانچ تھا آسماں پیلی زرد خزاؤں میں
سورج جس کا تاج تھا، دنیا جس کا تخت تھی
وہ بھی شامل ہو گیا بالآخر تنہاؤں میں
بیٹھے آمنے سامنے کہنیاں ٹیکے میز پہ
چٹکے چہرے پھول سے شہر کی شام سراؤں میں
گزرا اپنی اوٹ میں دیکھا کس نے زید کو
ہوتی کیوں سرگوشیاں بستی کی لیلاؤں میں
آفتاب اقبال شمیم

جن پہ برسائے گئے سنگِ ستم، کتنے ہی تھے

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 68
اُس جگہ تنہا نہ تھے تم اور ہم، کتنے ہی تھے
جن پہ برسائے گئے سنگِ ستم، کتنے ہی تھے
اُنگلیوں سے جو نشانِ فتح لہراتے ہوئے
بڑھ رہے تھے سوئے مقتل دم بدم، کتنے ہی تھے
کر سکو گے صفحۂ منظر پہ دھبوں کا شمار
وُہ جو کٹ کے گر گئے دست و قلم کتنے ہی تھے
گا ہے شب روشن ہوئی اور گا ہے دن تیرہ ہوا
آنکھ کو حیرت کے یہ ساماں بہم کتنے ہی تھے
خود سے مُنکر کیا ہوا بس سلسلہ ہی چل پڑا
میرے دورِ ہست میں دورِ عدم کتنے ہی تھے
نارسائی کام آئی، ورنہ سلجھاتے کہاں
گیسوئے سرکشن کہ جس میں پیچ و خم کتنے ہی تھے
آفتاب اقبال شمیم

دلہنیں فرش گل پر چلیں ، دور تک اُن کی آہٹ گئی

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 68
سو بہ سو زرد رنگوں کی پھیلی ہوئی تیرگی چھٹ گئی
دلہنیں فرش گل پر چلیں ، دور تک اُن کی آہٹ گئی
کون جانے کہ ہم راہ پر ہیں کہ گم کردۂ راہ ہیں
منزلوں کے دئیے کیا بجھے آنکھ میں روشنی گھٹ گئی
سانس نے چھو لیا کس کی سانسوں کی بھیگی ہوئی آگ کو
فرش سے لے کے پاتال تک جسم میں سنسناہٹ گئی
تھا شکنجے میں سارا بدن، حادثہ رونما نہ ہوا
ایک پل کے گزرنے میں ایسے لگا اک صدی کٹ گئی
آنکھ پر سوچ کے اَن گنت ماخذوں کی شعاعیں پڑیں
راستوں سے نکلتے ہوئے راستوں میں نظر بٹ گئی
کیوں پرِ کاہ کے زور سے جبر کے کوہ اُڑنے لگے
کیا ذرا سی انا آمرِ وقت کے سامنے ڈٹ گئی
آفتاب اقبال شمیم

معتبر مانئے حیلے اُس کے

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 67
حکمتیں اسکی، وسیلے اُس کے
معتبر مانئے حیلے اُس کے
وُہ جو مصلوب ہوا، زندہ ہے
دیں گواہی یہ قبیلے اُس کے
جس سے تخریب بپا ہو، وُہ شرر
دُور سے لائیں فتیلے اُس کے
آ گئی دستِ تصور پہ خراش
نقش ایسے تھے کٹیلے اُس کے
کیسی یکسانیوں میں رہتا ہے
سارے آفاق ہیں نیلے اُس کے
معجزہ گر ہے تمنا کی کشید
ایک دو گھونٹ ہی پی لے اُس کے
آفتاب اقبال شمیم

لہو کا ولولہ شاید مری ہوس میں نہیں

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 67
نہیں کہ آگ تری انگلیوں کے مس میں نہیں
لہو کا ولولہ شاید مری ہوس میں نہیں
کروں زبانِ غزل میں اسے ادا کیوں کر؟
وہ راز جو کہ اشاروں کی دسترس میں نہیں
یہ فصلِ گل ہے، مگر اے ہوائے آوارہ
وہ خوشبوؤں کا ترنم ترے نفس میں نہیں
برائے سیر، خزاں کو کہاں پسند آئے
وہ راستہ کہ گزرگاہِ خار و خس میں نہیں
سمٹ گیا مرے اندر کا ریگ زار کہ اب
جو تھی کبھی وہ کسک نغمۂِ جرس میں نہیں
آفتاب اقبال شمیم

لطف تو آئے مگر سخت خرابی ہووے

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 66
عکسِ رخسار سے جب آنکھ گلابی ہووے
لطف تو آئے مگر سخت خرابی ہووے
ایک دُوری ہے جو کٹتی ہی نہیں قربت سے
بے حجابی بھی حقیقت میں حجابی ہووے
ہم کہ چلتی ہوئی راہوں کے مسافر ٹھہرے
دوستو! اگلی ملاقات شتابی ہووے
آنکھ بھر دیکھ تو لوں اُس کو مگر سوچتا ہوں
زندگی بھر کے لئے کون شرابی ہووے
بحر زادہ ہوں، کسی روز تو اے میرے خدا!
یہ ٹھکانا مرا صحرائی سے آبی ہووے
آفتاب اقبال شمیم

تھے جیب میں جو سکّے، رستے میں اُچھال آئے

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 66
لو حسرت ناداری، ہم دل سے نکال آئے
تھے جیب میں جو سکّے، رستے میں اُچھال آئے
سر کہنیوں پر ٹیکے، بیٹھے ہیں پیا سے ہم
منہ بند شرابوں میں شاید کہ اُبال آئے
تاریک مناظر نے آنکھوں کے نگر لوٹے
ہم منزلِ خواہش سے بے نقد خیال آئے
برسیں مری آنکھوں پر جب ٹوٹ کے دوپہریں
شاید مرے اندر کے سایوں کو زوال آئے
ہم خوار ہوئے کتنے انکار کے صحرا میں
سوچوں میں بگولے سے بن بن کے سوال آئے
جو جان کے گوہر سے قیمت میں زیادہ تھی
لو طاقِ زیاں میں ہم وُہ چیز سنبھال آئے
آفتاب اقبال شمیم

اُترے وُہ آفتاب لہو کے سپہر سے

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 65
سایوں سے ہو کر برہنہ زمیں جس کے قہر سے
اُترے وُہ آفتاب لہو کے سپہر سے
نشے کے شہ نشین پہ کچھ دیر بیٹھ کر
آؤ نا انتقام لیا جائے دیر سے
ہرچند دی خرام کی مہلت ہواؤں نے
لیکن خراجِ مرگ لیا لہر لہر سے
بنجر پڑی ہوئی ہے زمیں جسم و جان کی
سیراب کر اسے کبھی سانسوں کی نہر سے
کب تک بچے گا اپنے تعاقب سے دیکھئے
لے کر مزاجِ شہر، وُہ نکلا ہے شہر سے
ہے جامِ خوابِ عشرت فردا بہت، مجھے
میں مر نہیں سکا ہوں کسی دکھ کے زہر سے
آفتاب اقبال شمیم

واقعہ ہے یہ ستمبر کی کسی سہ پہر کا

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 65
ہانپتی ندی میں دم ٹوٹا ہوا تھا لہر کا
واقعہ ہے یہ ستمبر کی کسی سہ پہر کا
سرسراہٹ رینگتے لمحے کی سرکنڈوں میں تھی
تھا نشہ ساری فضا میں ناگنوں کے زہر کا
تھی صدف میں روشنی کی بوند تھرّائی ہوئی
جسم کے اند کہیں دھڑکا لگا تھا قہر کا
دل میں تھیں ایسے فساد آمادہ دل کی دھڑکنیں
ہو بھرا بُلوائیوں سے چوک جیسے شہر کا
آسماں اترا کناروں کو ملانے کے لئے
یہ بھی پھر دیکھا کہ پُل ٹوٹا ہوا تھا نہر کا
عیش بے معیاد ملتی، پر کہاں ملتی تجھے
میری مٹی کی مہک میں شائبہ ہے دہر کا
آفتاب اقبال شمیم

تو کیا یہ رات ٹلے گی نہیں مرے مر سے!

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 64
لگے کہ آنکھ تراشی گئی ہے پتھر سے
تو کیا یہ رات ٹلے گی نہیں مرے مر سے!
وُہ اور دَور تھا، لاؤں کہاں سے وہ راتیں
کہ چھت پہ سوئے ہوئے مجھ پہ چاندنی برسے
وُہ اپنے خواب سفینے کا ناخدا ٹھہرا
گیا تو تھا ابھی لوٹا نہیں سمندر سے
خدا یہاں بھی ہے، یہ خلقتیں سوال کریں
تو کیوں نہ وعظ عطا ہو گلی کے منبر سے
یہ عین وقت ہے شمع معاش جلنے کا
اُڑے ہیں دن کے پتنگے نکل کے گھر گھر سے
بلا کا دشمنِ آتش ہے آب پروردہ
کرن کی کرچیاں گرتی ہیں دستِ گوہر سے
پھر اس کے بعد سنانے کی آرزو نہ رہے
سُنون وہ شعر کسی دن کسی سخنور سے
آفتاب اقبال شمیم

کچھ سدھائے ہوئے جذبات سے آگے نہ گیا

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 64
تو تعصب کے مقامات سے آگے نہ گیا
کچھ سدھائے ہوئے جذبات سے آگے نہ گیا
یہ بھی انداز تھا حالات کے مفروروں کا
ذہن پُر پیچ سوالات سے آگے نہ گیا
معرکہ ہائے شر و خیر کا اک سلسلہ تھا
جو کبھی جیت، کبھی مات سے آگے نہ گیا
کیا سجھائے کہ حدِ لمس سے آگے کیا ہے
ہاتھ تو خاص مقامات سے آگے نہ گیا
کر دیا سِحرِ سیاست نے دھڑوں کو تقسیم
کوئی اس شہرِ طلسمات سے آگے نہ گیا
لفظ اترا نہ کبھی حاشیئے کے ساحل سے
میں بھی چلتا ہی رہا، رات سے آگے نہ گیا
آفتاب اقبال شمیم

وہ زندگی کو بطورِ سزا قبول کرے

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 63
وفا یہی ہے کہ اُن کی رضا قبول کرے
وہ زندگی کو بطورِ سزا قبول کرے
رکھی ہے شرطِ ضرورت پہ منصفی کی اساس
خطا ہو اُس سے مگر دوسرا قبول کرے
برائے سیرِ شہر ہو اُفق اس کا
سوائے قیدِ مکاں اور کیا قبول کرے
یہ اور بات، ستم کی فضا نہیں بدلی
تری نیازِ دل و جاں ، خدا قبول کرے!
یہ سلسلہ تو چلے بارِ جبر ڈال اتنا
بقدرِ ظرف جسے حوصلہ قبول کرے
آفتاب اقبال شمیم

کایا شیتل دھوپ کی، میرا دکھ کیا جانتی

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 63
گزری آنکھیں میچ کے، شام نگر سے شانتی
کایا شیتل دھوپ کی، میرا دکھ کیا جانتی
تو دھرتی تھی پیار کی، رہتی کیوں بے آسماں
اپنے جلتے جسم پر میرا سایہ تانتی
ایک اشارت خوف کی، ایک بلاوا خون کا
عقل عجب حیران تھی، کس کا کہنا مانتی
رستے رستے آنکھ سے، برسیں زرد اداسیاں
لوٹ کے خالی آ گئی سارے منظر چھانتی
کیسے مَیں اس بھیڑ میں آتا اُس کے دھیان میں
ایک اکیلی زندگی کس کس کو پہچانتی
آفتاب اقبال شمیم

گل کفِ شاخ کو حنائی کرے

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 62
جب وہ اقرارِ آشنائی کرے
گل کفِ شاخ کو حنائی کرے
جس کو کم کم نیازِ جاں ہو نصیب
کوئی اقدام انتہائی کرے
پھر سے تالیفِ دل ہو، پھر کوئی
اِس صحیفے کی رُو نمائی کرے
ہائے یہ نازنینِ مرد افگن
کون دنیا سے آشنائی کرے
آفتاب اقبال شمیم

اٹھایا جاؤں تو پھر شاخ پر لگا کے دکھا

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 62
خدائے برگ! مجھے خاک سے اٹھا کے دکھا
اٹھایا جاؤں تو پھر شاخ پر لگا کے دکھا
میں سنگِ شام سے سر پھوڑنے چلا ہوں ذرا
کنول سے خواب مجھے میری ابتدا کے دکھا
میں نیل نیل ترا حلفیہ بیاں تو پڑھوں
فگار پشت سے کُرتا ذرا اٹھا کے دکھا
تجھے میں ہدیۂِ تائید دوں مگر پہلے
مرے وجود سے حرفِ نفی مٹا کے دکھا
تو پربتوں کو زمیں پر پچھاڑ دے تو کیا
ہوس کو جسم کے گھمسان میں ہرا کے دکھا
اسی کے نام کی ہر سُو اذاں سنائی دے
نقیبِ شہر! ہمیں معجزے صدا کے دکھا
نظر فروز ہو جو کل کی سرخیوں کی طرح
وہ لفظ آج سرِ طاقِ لب جلا کے دکھا
آفتاب اقبال شمیم

مکاں میں رہتے ہوئے بھی رہوں مکاں سے پرے

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 61
وُہ بے دلی ہے کہ زندہ ہوں جسم و جاں سے پرے
مکاں میں رہتے ہوئے بھی رہوں مکاں سے پرے
خفاں کہ ایک ستارہ نہ زیرِ دام آیا
کمندِ فکر تو ڈالی تھی کہکشاں سے پرے
سماعتوں پہ جھمکے ہیں عجیب سائے سے
نکلی گیا ہوں میں شاید حدِ بیاں سے پرے
بلا سے سامنے آئے کہ بے نمود رہے
وُہ حادثہ کہ ابھی ہے مرے گماں سے پرے
ابھی سے بننے لگیں وہم کی پناہ گاہیں
ابھی تو حشر کا سورج ہے سائباں سے پرے
کچھ ایسا لطف ملا خود یہ رحم کھانے میں
گیا نہ شوقِ غزل لذت زیاں سے پرے
آفتاب اقبال شمیم

بھٹک رہا ہوں گھاٹ گھاٹ روشنی کی پیاس میں

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 61
زمینِ پنج آب! تیری چاہتوں کے طاس میں
بھٹک رہا ہوں گھاٹ گھاٹ روشنی کی پیاس میں
نکل نہیں رہیں گھروں سے، سوہنیوں کی خیر ہو
دھوئیں کا ذائقہ ہے آج دھوپ کی مٹھاس میں
اگر مشقتوں کا ہے معاوضہ برہنگی
لگائیں کیوں نہ چل کے آگ پھولتی کپاس میں
ابھی بہے گی خلوتوں سے روشنی شراب کی
بجیں گی نرم قہقہوں کی گھنٹیاں گلاس میں
بنامِ چشم و گوش آئیں فیصلے شکوک کے
مچی ہوئی ہے اک عجیب ابتری حواس میں
وُہ عرضِ مدعا میں پیچ ڈھونڈتے ہی رہ گئے
بہت زیادہ سادگی تھی میرے التماس میں
کہاں ہوں ! آئنے سے کٹ گیا ہے میرا عکس کیا؟
کہ میری شکل آ نہیں رہی مرے قیاس میں
آفتاب اقبال شمیم

میں ہی فرید اور میں ہی بلھے شاہ پیارے

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 60
مجھ سے پوچھ طریقت کی ہر راہ پیارے
میں ہی فرید اور میں ہی بلھے شاہ پیارے
لائے نہ لائے لہر صدف کو ساحل پر
یہ دولت تو ملتی ہے ناگاہ پیارے
وُہ جو دید میں رہ کر بھی نا دید میں ہے
اُس گوری کی خاطر بھر لے آہ پیارے
وہ تاروں سے سے ماتھا چُھو کر چلتا ہے
جاہِ جہاں ہے اُس کے آگے کاہ پیارے
کون رفیق تھا اُس تنہا کا سُولی پر
دل کے سوا ہوتا ہے کون گواہ پیارے
اُن آنکھوں نے دل کو یوں تاراج کیا
جیسے گزرے شہر سے کوئی سپاہ پیارے
اپنے اچھا ہونے کا اقرار تو کر
کر لے، ہرج ہی کیا ہے، ایک گناہ پیارے
آفتاب اقبال شمیم

رنگ کچھ ادھورے سے، تھرتھرائے آنسو میں

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 60
چاپ گرتے پتوں کی، مل رہی ہے خوشبو میں
رنگ کچھ ادھورے سے، تھرتھرائے آنسو میں
میرے پاؤں کے نیچے دلدلیں ہیں سایوں کی
شام آ پڑی شاید پربتوں کے پہلو میں
وصف دیوتاؤں کے، ڈھونڈتے ہو کیا مجھ میں
کون تاب سورج کی، پا سکا ہے جگنو میں
عدل ہے یہ آمر کا، اس طرح اسے سہہ جا
آندھیاں تُلیں جیسے برگ کے ترازو میں
تالیاں بجا کر رو، دیکھ اس تماشے کو
المیے کا ہیرو ہے، مسخرے کے قابو میں
سہہ رہا ہوں برسوں سے یورشیں زمانے کی
لوچ ہے شجر کی سی میرے دست و بازو میں
آفتاب اقبال شمیم

یہ وہ چراغ ہیں جو روشنی نہیں دیتے

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 59
خوشی کی آسر دلا کے خوشی نہیں دیتے
یہ وہ چراغ ہیں جو روشنی نہیں دیتے
ذرا سی دھوپ کھلے کشتِ اس پر میں جیسے
یہ قہقہے بھی کچھ آسودگی نہیں دیتے
وہ مانگتے ہیں وہ اہلیتیں جو ہم میں نہیں
اسی لئے تو ہمیں نوکری نہیں دیتے
ہمیشہ رکھتے ہیں روشن ستارہ ایک نہ ایک
وہ میری شب کو بہت تیرگی نہیں دیتے
بنا تو سکتے ہیں ہم بھی زمیں پہ خلد مگر
یہ اختیار ہمیں آدمی نہیں دیتے
اسی لئے ہمیں مرنا پڑا، کہ اہلِ جفا
محبتوں میں رعایت کبھی نہیں دیتے
آفتاب اقبال شمیم

جیسے پشتِ دست پہ حرف کھدے ہوں نام کے

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 59
ثبت ہیں دن کی راہ میں، نیلے سائے شام کے
جیسے پشتِ دست پہ حرف کھدے ہوں نام کے
انہونی سی آرزع، لپکے اٹھے ہاتھ سے
جاؤں اپنے دیس کو اڑتے بادل تھام کے
ڈیوڑھیوں کے بیچ سے، جاتا ہے یہ راستہ
بند کئے جا کھول کے، دروازے ایام کے
عمروں کے ملبوس پہ کل کے سکھ کی آس میں
کاڑھیں دکھ کی دیویاں سپنے عام عوام کے
کس تربیت کار نے پیدا کیں یہ سختیاں
کند ہوئے احساس پہ دندانے دشنام کے
جب سمتوں کی رات میں، میں بے حالت ہو گیا
چھلکے اک اک چیز سے لشکارے پیغام کے
آفتاب اقبال شمیم

بیٹھا ہوا ہوں دیر سے آنکھوں میں جاں لئے ہوئے

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 58
کوئی ضرور آئے گا، اُسکو یہاں لئے ہوئے
بیٹھا ہوا ہوں دیر سے آنکھوں میں جاں لئے ہوئے
رہتا ہے دور سے پرے، حدِّشعور سے پرے
حلقۂ بے محیط میں کون و مکاں لئے ہوئے
اتنے قریب و دور سے اُس کے لبوں کو دیکھنا
لذتیں نارسائی کی زیرِ زباں لئے ہوئے
ہاں میں نہیں ، نہیں میں ہاں ، اُسکی ادائے دلبری
لب پہ غزل کی طرز کا رنگِ بیاں لئے ہوئے
زانوئے شاخ پر کوئی سویا ہوا گلاب سا
گود میں اپنے لال کو بیٹھی ہے ماں لئے ہوئے
دے کے صدا گزر گیا، کوئی گدا گزر گیا
کاسہء گردباد میں رزقِ خزاں لئے ہوئے
آفتاب اقبال شمیم

پاگل سا شخص تھا جو سدھایا نہ جا سکا

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 58
دنیا کے راستے پہ لگایا نہ جا سکا
پاگل سا شخص تھا جو سدھایا نہ جا سکا
وُہ پیاس تھی کہ بات گلے میں اٹک گئی
خوابِشبِ گناہ سنایا نہ جا سکا
ظلمت تو آشکار ہوئی کشفِ نور سے
پر روشنی کا پردہ اٹھایا نہ جا سکا
سورج سفر میں ساتھ تھا نصف النہار پر
میری جلو میں خود مرا سایہ نہ جا سکا
یہ جبر کا نظام، یہ خود رو مجسمہ
ڈھایا گیا مگر کبھی ڈھایا نہ جا سکا
اک چوبِ نم گرفتہ سلگتی رہی مدام
سینے میں جشنِ شعلہ جگایا نہ جا سکا
بے نام سا گزر گیا خود اپنی اوٹ میں
وُہ کون تھا، اُسے کبھی پایا نہ جا سکا
آفتاب اقبال شمیم

بیٹھا ہوں پیشِ آئینہ ڈرے ہوئے

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 57
آنکھوں کو آنکھوں کے آگے دھرے ہوئے
بیٹھا ہوں پیشِ آئینہ ڈرے ہوئے
ایک ذرا معیار کے بدلے جانے سے
دیکھا، کیسے کھوٹے سکے کھرے ہوئے
جسم سے اٹھی باس پرانے جنگل کی
آہٹ آہٹ سارے رستے ہرے ہوئے
اے حیرانی! وُہ تو آج بھی زندہ ہے
اتنے سال ہوئے ہیں جس کو مرے ہوئے
آفتاب اقبال شمیم

گل کفِ شاخ کو حنائی کرے

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 57
جب وہ اقرارِ آشنائی کرے
گل کفِ شاخ کو حنائی کرے
جس کو کم کم نیازِ جاں ہو نصیب
کوئی اقدام انتہائی کرے
پھر سے تالیفِ دل ہو، پھر کوئی
اِس صحیفے کی رُو نمائی کرے
ہائے یہ نازنینِ مرد افگن
کون دنیا سے آشنائی کرے
آفتاب اقبال شمیم

گھروں کو جوڑ دیا جائے تو نگر بن جائے

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 56
جو چوب و خِشت بہم ہوں تو ایک گھر بن جائے
گھروں کو جوڑ دیا جائے تو نگر بن جائے
ہر ابتلائے زمیں دُور ہو بھی سکتی ہے
یہ اژدہام اگر ایک ہی بشر بن جائے
خدا نصیب کرے بادِ سازگار اِسے
یہ چوب خشک کا پیکر کبھی شجر بن جائے
سفر بھی ختم نہ ہو، منزلیں بھی ساتھ چلیں
اگر یہ راہگزر تیری رہگزر بن جائے
مجھے بھی مژدہ ملے میری تاج پوشی کا
محبتوں کی قلم رو کہیں اگر بن جائے
آفتاب اقبال شمیم

کہ اپنا اسم مجھے ہر کسی کا اسم لگے

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 56
نئے شعور، نئے وقت کا طلسم لگے
کہ اپنا اسم مجھے ہر کسی کا اسم لگے
ہمیشہ اپنی فنا میں بقا تلاش کرے
بڑی عجیب مجھے جستجوئے جسم لگے
گرا جو نارِ زمانہ میں ، سرفراز ہوا
یہ آگ آتش نمرود کی ہی قسمِ لگے
یہ واہمہ ہے کہ افسوں ،کہ وصفِ خاص اُس کا
کبھی وہ سایہ لگے اور کبھی وہ جسم لگے
جو دُور ہو تو جگائے ہوس فسوں کیا کیا
قریب آئے تو ہر چیز بے طلسم لگے
آفتاب اقبال شمیم

آدم زاد خدا بن جائے

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 55
پل میں کیا سے کیا بن جائے
آدم زاد خدا بن جائے
ظرفِ نظر کم کر کے دیکھو
قطرہ بھی دریا بن جائے
مات زمانے بھر کی کھا کر
شاید وہ ہم سا بن جائے
تُو جانے اے طائر تنہا!
نغمہ کیوں نوحہ بن جائے
اثنا بھی بے آس نہ ہونا
جینا ایک سزا بن جائے
وقت کا بھید ملا ہو جس کو
عہد بہ عہد نیا بن جائے
بس اک پہل ضروری ہے
پھر خود ہی رستا بن جائے
آفتاب اقبال شمیم

یعنی منصوبہ زمانے کا مکمل ہو گیا

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 55
اک فنا کے گھاٹ اُترا، ایک پاگل ہو گیا
یعنی منصوبہ زمانے کا مکمل ہو گیا
جسم کے برفاب میں آنکھیں چمکتی ہیں ابھی
کون کہتا ہے اُس کا حوصلہ شل ہو گیا
ذہن پر بے سمتیوں کی بارشیں اتنی ہوئیں
یہ علاقہ تو گھنے راستوں کا جنگل ہو گیا
اس کلید اسم نا معلوم سے کیسے کُھلے
دل کا دروازہ کہ اندر سے مقفل ہو گیا
شعلہ زار گُل سے گزرے تو سرِ آغاز ہی
اک شرر آنکھوں سے اُترا، خون میں حل ہو گیا
شہر آئندہ کا دریا ہے گرفت ریگ میں
بس کہ جو ہونا ہے، اُسکا فیصلہ کل ہو گیا
موسمِ خیراتِگُل آتا ہے کس کے نام پر
کون ہے جس کا لہو اِس خاک میں حل ہو گیا
اس قدر خوابوں کو مسلا پائے آہن پوش نے
شوق کا آئین بالآخر معطل ہو گیا
آفتاب اقبال شمیم

بحر سے جا ملنے کا جادہ مل جائے

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 54
کاش کبھی وہ دریا زادہ مل جائے
بحر سے جا ملنے کا جادہ مل جائے
کیا کہنا گنجینۂ دل کی دولت کا
خرچ کروں تو اور زیادہ مل جائے
جیون کا یہ مایا روپ بدل ڈالوں
مجھ کو وہ شہ زور ارادہ مل جائے
آنکھ بہت رو لے تو لمحہ درز بنے
اور وہ درشن پر آمادہ مل جائے
لیکھ یہی ہے دن بھر کی مزدوری میں
نانِ خشک اور آبِ سادہ مل جائے
آفتاب اقبال شمیم

آنکھ سے منظر، خبر سے واقعہ ٹوٹا ہوا

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 54
ہر کسی کا ہر کسی سے رابطہ ٹوٹا ہوا
آنکھ سے منظر، خبر سے واقعہ ٹوٹا ہوا
کیوں یہ ہم صورت رواں ہیں مختلف اطراف میں
ہے کہیں سے قافلے کا سلسلہ ٹوٹا ہوا!
وائے مجبوری کہ اپنا مسخ چہرہ دیکھئے
سامنے رکھا گیا ہے آئنہ ٹوٹا ہوا
خود بخود بدلے تو بدلے یہ زمیں ، اس کے سوا
کیا بشارت دے ہمارا حوصلہ ٹوٹا ہوا
خواب سے آگے شکستِ خواب کا تھا سامنا
یہ سفر تھا مرحلہ در مرحلہ ٹوٹا ہوا
کچھ تغافل بھی خبر داری میں شامل کیجئے
ورنہ کر ڈالے گا پاگل، واہمہ ٹوٹا ہوا
آفتاب اقبال شمیم

کوئی ہم جیسا یہاں ہے تو سہی

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 53
شب کے پردے میں نہاں ہے تو سہی
کوئی ہم جیسا یہاں ہے تو سہی
ہم اگرچہ پا رہ لپتی ہیں مگر
سر پہ اپنے آسماں ہے تو سہی
ان گنت بدصورتوں کے شہر میں
ایک تو اے جانِ جاں ہے تو سہی
اس نشاطِ صحبت نایاب میں
کچھ طبیعت سرگراں ہے تو سہی
اب دفاعِ نظریہ کیا کیجئے
کل کا حاصل رائیگاں ہے تو سہی
راس امکان و گماں ہے یاس کو
اس سے آگے لامکاں ہے تو سہی
خواب ٹوٹا ہے تو لے آئیں گے اور
ہمتِ یاراں جواں ہے تو سہی
آفتاب اقبال شمیم

جینے کا جب شوق نہیں تھا، مر جاتے

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 53
ہم خود دار کبھی یہ جرأت کر جاتے
جینے کا جب شوق نہیں تھا، مر جاتے
دجلۂ خاک میں خواہش کی طغیانی تھی
جسم سفینے کیسے پار اُتر جاتے
آنکھوں کی تربیت ہم پر لازم تھی
اپنے آپ سے ورنہ خود ہی ڈر جاتے
آفتاب اقبال شمیم

اور پورا دیکھنے سے آنکھ بھی معذور تھی

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 52
کچھ تو سائے کے دھوئیں میں روشنی مستور تھی
اور پورا دیکھنے سے آنکھ بھی معذور تھی
رفتہ و آئندہ اس میں متصّل آئے نظر
ہر گھڑی جیسے میری تاریخ کا منشور تھی
شام کی ڈھلوان سے اُسکو اترتے دیکھئے
وُہ جو دن میں روشنی کے نام سے مشہور تھی
خیر ہو خوابوں سرابوں کی کہ اُس کو پا لیا
بعد میں جانا کہ منزل تو ابھی کچھ دور تھی
روز و شب کی گردشوں کے ساتھ پیہم گھومنا
زندگی ایسی مسافت کی تھکن سے چور تھی
لو فرازِ دار پر اپنی گواہی دے چلے
ہم بجا لائے اُسے جو سنّت منصور تھی
آفتاب اقبال شمیم

بے خزاں رکھتے ہیں ہم لوگ چمن آنکھوں کا

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 52
عشرت خواب سے دہکا کے بدن آنکھوں کا
بے خزاں رکھتے ہیں ہم لوگ چمن آنکھوں کا
رہ گئی شام سی ٹھہری ہوئی سر کنڈوں میں
کھا گیا سارے مناظر کو گہن آنکھوں کا
کیا خبر انگلیوں کو ذائقے چھونے کے ملیں
اور نغموں سے مہکنے لگے بن آنکھوں کا
آ کہ اِس دھوپ کے پردیس میں آباد کریں
چشم و گیسو کے تصوّر سے وطن آنکھوں کا
رنج کیسا کہ زمانے کا طریقہ ہے یہی
وقت کے ساتھ بدلتا ہے چلن آنکھوں کا
تُو کہ پس ماندۂ خواہش ہے، طلب کر خود سے
وُہ زرِ خون جسے کہتے ہیں ، دھن آنکھوں کا
آفتاب اقبال شمیم

اُس پہ وُہ رات بہت بھاری تھی

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 51
شہر کے شہر میں بیداری تھی
اُس پہ وُہ رات بہت بھاری تھی
دستِ قاتل کو ملے دادِ کمال
ضرب ہلکی تھی مگر کاری تھی
میں جو سمجھا وُہ نہیں تھا شاید
لفظ میں حکمتِ تہ داری تھی
میں پگھلتا ہی، پگھلتا ہی گیا
عشق کی اوّلین سرشاری تھی
نصف افلاک سے میں لوٹ آیا
اپنی مٹی سے مری یاری تھی
یاس کیسی کہ یہ بازی ہم نے
کبھی جیتی تھی کبھی ہاری تھی
مر گئے ہوتے اگر مر سکتے
ایک اقرار کی دشواری تھی
آفتاب اقبال شمیم

سرِ صلیب ایستادہ ہو گا خدائے انجیل، چل کے دیکھیں

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 51
دکھائی جائے گی شہرِ شب میں سحر کی تمثیل، چل کے دیکھیں
سرِ صلیب ایستادہ ہو گا خدائے انجیل، چل کے دیکھیں
گلوں نے بندِ قبا ہے کھولا، ہوا سے بوئے جنوں بھی آئے
کریں گے اِس موسمِ وفا میں ، ہم اپنی تکمیل، چل کے دیکھیں
خلافِ اصحاب فیل اب کے، زیاں ہوئی غیب کی بشارت
پڑا ہوا خاک پر شکستہ، پرِ ابابیل، چل کے دیکھیں
چُنے ہیں وُہ ریزہ ریزہ منظر، لہو لہو ہو گئی ہیں آنکھیں
چلو نا! اِس دکھ کے راستے پر سفر کی تفصیل چل کے دیکھیں
فضا میں اُڑتا ہوا کہیں سے، عجب نہیں عکس برگ آئے
خزاں کے بے رنگ آسماں سے اٹی ہوئی جھیل، چل کے دیکھیں
لڑھک گیا شب کا کوہ پیما، زمیں کی ہمواریوں کی جانب
کہیں ، ہوا گُل نہ کر چکی ہو انا کی قندیل، چل کے دیکھیں
آفتاب اقبال شمیم

ہے ایک اور ہوا، اس ہوا سے آگے بھی

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 50
ہوا سلائے جسے خاک میں وہ جاگے بھی
ہے ایک اور ہوا، اس ہوا سے آگے بھی
نئی زمینیں ، نئے عفش منتظر ہیں ترے
جو طے شدہ ہے اُسے تو کبھی تیاگے بھی
بعید فہم ہے منطق ہمارے رشتوں کی
کہ پختہ نکلیں کبھی رسیوں سے دھاگے بھی
سما سکی ہے کہاں شر کی فربہی اس میں
کبھی یہ خیر کا کپڑا بدن پہ لاگے بھی
رُکے تو خود کو وہی اپنے رُوبرو پایا
ہم اپنے آپ سے وحشت میں اتنا بھاگے بھی
آفتاب اقبال شمیم

کہ جیسے پیرہن سرکے، کسی کے سانولے تن سے

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 50
نظر یوں شام آئی، ڈوبتی کرنوں کی چلمن سے
کہ جیسے پیرہن سرکے، کسی کے سانولے تن سے
میں اپنی پستیوں میں رہ ہی لیتا مطمئن ہو کر
مگر یہ آسماں ہٹتا نہیں ہے میرے روزن سے
توقع اُس سے رکھیں معتدل ہی دوست داری کی
وہ جس نے ٹوٹ کر نفرت نہ کی ہو اپنے دشمن سے
مکاں کی تنگیوں میں وسعتوں کی روشنی آئے
ہٹاؤ بھی ذرا یہ پردۂ دیوار، آنگن سے
سفر کا تجربہ، اتلاف مال جاں کے بدلے میں
بطورِ رختِ فردا، ہم بچا لائے ہیں رہزن سے
سفر در پیش ہے شاید خزاں کی خیمہ بستی کا
ہوا ہجرت کی باتیں کر رہی ہے اہل گلشن سے
یہی بےمعنویت، غالباً حاصل ہے جذبوں کا
ہمیشہ راکھ سی اڑتی رہے شعلے کے دامن سے
خلل شاید کبھی ربِ نمُو کی نیند میں آئے
گرائے جا شرر بیداریوں کے چشمِ روشن سے
آفتاب اقبال شمیم

ملے بہ حیلۂ نو زندگی کی محرومی

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 49
جو ہو بھی جائے فرو زندگی کی محرومی
ملے بہ حیلۂ نو زندگی کی محرومی
کرے اندھیرا دل و ذہن میں پھر اس کے بعد
جگائے شعر کی لو زندگی کی محرومی
نہیں قبول شرائط پہ رزق و جنس ہمیں
بہت شدید ہے گو زندگی کی محرومی
گراں ہے ایک نہ ہو ناتمام ہونے پر
دل فقیر کی ضو زندگی کی محرومی
پھر اس کے بعد رہے گا نہ شوق پینے کا
شراب میں نہ ڈبو زندگی کی محرومی
لٹے نہ سلطنتِ غم ذرا خیال رہے
سہو ہمیشہ سہو زندگی کی محرومی
آفتاب اقبال شمیم

یا آئینے سے چھین ہنر انعکاس کا

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 49
یا پھونک سے چراغ، بجھا دے حواس کا
یا آئینے سے چھین ہنر انعکاس کا
دم گھُٹ گیا ہے لمسِ لطافت سے اے خدا
اعلان کر ہواؤں میں مٹی کی باس کا
ہر آب جُو پہ ریت کا پہرہ لگا ہوا
یہ زندگی ہے یا کوئی صحرا ہے پیاس کا
جب دے سکا نہ کوئی گواہی سرِ صلیب
جرمانہ شہر پر ہوا خوف و ہراس کا
گھر کے سکوت نے تو ڈرایا بہت مگر
وجہِ سکوں تھا شور میرے آس پاس کا
ہر دستِ پُر فسوں ، یدِ بیضا دکھائی دے
اے روشنی پرست! یہ منظر ہے یاس کا
دستک ہر اک مکان پہ دنیا پڑی مجھے
مقصود تھا سراغ مرے غم شناس کا
آفتاب اقبال شمیم

مرے حوصلے کو فزوں تر کرے ہار میری

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 48
جو ٹوٹے تو ثابت زیادہ ہو تلوار میری
مرے حوصلے کو فزوں تر کرے ہار میری
عجب کیا، نتیجہ نکل آئے سر پھوڑنے کا
کسی روز دروازہ بن جائے دیوار میری
رسوخ دروغ و زر و زور لاؤں کہاں سے
خبر ساز کی دسترس میں ہے دستار میری
عبث ہے مرا خواب، میری حقیقت کے آگے
جلاتی رہے میرے گلزار کو نار میری
وُہ مہ رُو کسی اور خورشید کا عکس نکلا
حضوری میں جس کی رہی چشمِ دیدار میری
آفتاب اقبال شمیم

تمنا کی تصور زاد دنیاؤں میں رہنا ہے

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 48
کہیں چھاؤں نہیں لیکن ہمیں چھاؤں میں رہنا ہے
تمنا کی تصور زاد دنیاؤں میں رہنا ہے
ہمیں اگلا سفر شاید کہ لا محدود کر دے گا
وہاں تک اک نہ اک زنجیر کو پاؤں میں رہنا ہے
مناسب ہے ان آنکھوں کا بہا دینا سرابون میں
کہ آخر عمرِ بےمعنی کے صحراؤں میں رہنا ہے
یہی ہم پر کُھلا، ردِّ عقیدہ بھی عقیدہ ہے
کلیساؤں سے باہر بھی کلیساؤں میں رہنا ہے
ہُوا اک بار پھر ناکام منصوبہ بغاوت کا
ابھی اُس کشتِ زارِ جبر کے گاؤں میں رہنا ہے
گرفت ریگ سے کچھ کربلائیں تم بنا لو گے!
رواں رہنے کا پھر بھی عزم دریاؤں میں رہنا ہے
آفتاب اقبال شمیم

اس شہرِ تابناک کی پرچھائیاں بھی دیکھ

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 47
ان رونقوں کے وسط میں تنہائیاں بھی دیکھ
اس شہرِ تابناک کی پرچھائیاں بھی دیکھ
انکار ناتمام ہے اقرار کے بغیر
وہ جو برا ہے اُس کی تو اچھائیاں بھی دیکھ
تحریرِ دستِ گُل ہے بہت خوشنما مگر
اس میں نظر کی حاشیہ آرائیاں بھی دیکھ
انبوہ میں بھی ہے مگر انبوہ میں نہیں
ان جلوتوں میں فرد کی تنہائیاں بھی دیکھ
تکرارِ جاں سپردگی بے وجہ تو نہیں
اپنی نظر میں شوق کی رسوائیاں بھی دیکھ
ہرچند چشم شور ہے منظر غروب کا
اس میں طلوع دور کی رعنائیاں بھی دیکھ
آفتاب اقبال شمیم

اگر سر کو جھکا سکتے، تو ہم بھی معتبر ہوتے

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 47
یہی نا! قدّوقامت میں ذرا سے مختصر ہوتے
اگر سر کو جھکا سکتے، تو ہم بھی معتبر ہوتے
انہیں اپنے لئے گملوں کی آسائش پسند آئی
یہ پودے رنج سہہ لیتے تو جنگل کے شجر ہوتے
عجب خواہش کہ فرشِ سنگ سے ڈھانپی زمینوں میں
گلوں کو شہرتیں ملتیں ، پرندے نامور ہوتے
اگر کھلتے نہ اِس آنگن میں باغیچے تماشوں کے
تو روز و شب مکانِ وقت میں کیسے بسر ہوتے
ہوا نے ساز شاخوں پر ابھی چھیڑا نہیں ، ورنہ
سماعت کی تہی جھولی میں نغموں کے ثمر ہوتے
جہاں خطاطِ زر لفظوں کی تقدیریں بناتا تھا
وہاں مقبول کیوں سادہ نویسوں کے ہنر ہوتے
آفتاب اقبال شمیم

اس حوالے سے اپنی حقیقت سمجھ

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 46
اس کڑے وقت کی قدر و قیمت سمجھ
اس حوالے سے اپنی حقیقت سمجھ
جو نہیں ، اُس پہ اتنی توجہ نہ دے
اور جو ہے، اُسی کو غنیمت سمجھ
سب سے تنہا بھی ہوں ، سب سے گنجان بھی
تو خُدا کی طرح میری حالت سمجھ
اِس پہ پلتے ہیں سب سورما شہر کے
میرے افلاس کو میری دولت سمجھ
زندگی کھیل نابالغوں کا نہیں
اپنے نقصان کو فائدہ مت سمجھ
ہے فلک گیر زورِ ارادہ میرا
اس زمانے کو میری ولایت سمجھ
آفتاب اقبال شمیم

لطف تو آئے مگر سخت خرابی ہووے

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 46
عکسِ رخسار سے جب آنکھ گلابی ہووے
لطف تو آئے مگر سخت خرابی ہووے
ایک دُوری ہے جو کٹتی ہی نہیں قربت سے
بے حجابی بھی حقیقت میں حجابی ہووے
ہم کہ چلتی ہوئی راہوں کے مسافر ٹھہرے
دوستو! اگلی ملاقات شتابی ہووے
آنکھ بھر دیکھ تو لوں اُس کو مگر سوچتا ہوں
زندگی بھر کے لئے کون شرابی ہووے
بحر زادہ ہوں، کسی روز تو اے میرے خدا!
یہ ٹھکانا مرا صحرائی سے آبی ہووے
آفتاب اقبال شمیم

کُھلے بھی تو زنجیر در کی رعایت کے ساتھ

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 45
سخی ہے وہ لیکن ذرا سی کفایت کے ساتھ
کُھلے بھی تو زنجیر در کی رعایت کے ساتھ
چلوں سیرِ فردا پہ نکلوں کہ شاعر ہوں میں
بندھا کیوں رہوں اپنی کہنہ روایت کے ساتھ
یہی ہے کہ اثبات نفی سے مشروط ہے
نبھے دوستی بھی عُدو کی حمایت کے ساتھ
مجھے تو یہ تکرار وعدہ بھی اچھی لگے
یہ دیکھو! میں پھر آ گیا ہوں شکایت کے ساتھ
یہ تاوان انبوہ لیتا تو ہے فرد سے
کہ چلنا پڑے دوسروں کی ہدایت کے ساتھ
آفتاب اقبال شمیم