ٹیگ کے محفوظات: انتشار

وہ اِک نگاہ جو بیگانہ وار گُزری ہے

حجابِ رنگِ نظارہ پہ بار گُزری ہے
وہ اِک نگاہ جو بیگانہ وار گُزری ہے
بزعمِ عِشق اُبھر کے جو لَب پہ آ نہ سکی
وہ چیخ حُسنِ سماعت پہ بار گُزری ہے
شگُفتہ رنگ اُجالوں کے کارواں تو نہیں
مِری نگاہ فقط سیم بار گُزری ہے
تمھارے غم کا مجھے درد بے سبب تو نہیں
مری حیات بہت سوگوار گزری ہے
وہ ایک رات کہ جَب رَوشنی علیل رہی
وہ ایک رات بصد اِنتشار گُزری ہے
مِری نگاہ بُہت حق پسند ہے شاید
کبھی کبھی مُجھے خود ناگوار گزری ہے
مزاج حُسن بہ تمثیلِ برق کیوں ہے، شکیبؔ
صداے درد تھی سیماب وار گُزری ہے
شکیب جلالی

خلافِ حُسنِ توقع بہار گزری ہے

کسی کے پاے شکستہ پہ بار گزری ہے
خلافِ حُسنِ توقع بہار گزری ہے
وقارِ حسن بہ تمثیلِ برق کیوں ہے آج
صداے درد تھی سیماب وار گزری ہے
خزاں کا عکس ہی دیکھا ہے صبحِ گلشن میں
بشکلِ آینہ موجِ بہار گزری ہے
یہ جَاں بلب سے شگوفے یہ مُردہ رنگ کنول
یہاں سے رحمتِ ابرِ بہار گزری ہے!
رِداے حسن کے ٹکڑے فضا میں پھیلے ہیں
مری نگاہ بصد انتشار گزری ہے
شکیبؔ! فرطِ عقیدت میں کہہ گئے ہیں وہ بات
جو آگہی پہ بہت ناگوار گزری ہے
شکیب جلالی

رنج و غم کی شکار ہے دنیا

مُفلسوں کی پُکار ہے دنیا
رنج و غم کی شکار ہے دنیا
کیا بتاؤں کہ اپنی حالت کی
خود ہی آئینہ دار ہے دنیا
حالِ باطن کسی کو کیا معلوم
ظاہراً دوست دار ہے دنیا
کہہ رہی ہے خزاں کی مایوسی
اک فریبِ بہار ہے دنیا
اُنس و الفت، خلوص و غیرت کا
دامنِ تار تار ہے دنیا
اک زمانہ ہے صد اَلَم بر دوش
جانے کس کی بہار ہے دنیا
ذرہ ذرہ، شکیبؔ، ہے بے چین
قلب کا انتشار ہے دنیا
شکیب جلالی

کہ جیسے چاندنی چھاجوں برستی نار کے بعد

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 23
ملا وُہ خطّۂ جاں دشتِ انتظار کے بعد
کہ جیسے چاندنی چھاجوں برستی نار کے بعد
بہم وُہ لُطف ہُوا قربِ یار سے اَب کے
درونِ ملک سکوں، جیسے انتشار کے بعد
سروں نے کھنچ کے بدن سے کہا، بنامِ وطن
کوئی فراز نہیں ہے فرازِ دار کے بعد
نِکل کے کوچۂ جاناں سے ہم بھی دیکھ آئے
سبک سری جو ملے دورِ اقتدار کے بعد
پچھڑ کے موسمِ گُل سے یہی ہُوا ماجدؔ
کھِلا ہے غنچۂ دل ہر گئی بہار کے بعد
ماجد صدیقی

اک عبث یہ شمار ہے اماں ہاں

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 86
ایک ہی بار بار ہے اماں ہاں
اک عبث یہ شمار ہے اماں ہاں
ذرّہ ذرّہ ہے خود گریزانی
نظم ایک انتشار ہے اماں ہاں
ہو وہ یزداں کہ آدم و ابلیس
جو بھے خود شکار ہے اماں ہاں
وہ جو ہے جو کہیں نہیں اس کا
سب کے سینوں پہ بار ہے اماں ہاں
اپنی بے روزگارئ جاوید
اک عجب روزگار ہے اماں ہاں
شب خرابات میں تھا حشر بپا
کہ سخن ہرزہ کار ہے اماں ہاں
کیا کہوں فاصلے کے بارے میں
رہگزر ، رہگزر ہے اماں ہاں
بُھولے بُھولے سے ہیں وہ عارض و لب
یاد اب یادگار ہے اماں ہاں
جون ایلیا

جو اس چمن میں یہ اک طرفہ انتشار ہے آج

دیوان پنجم غزل 1592
کہوں سو کیا کہوں نے صبر نے قرار ہے آج
جو اس چمن میں یہ اک طرفہ انتشار ہے آج
سر اپنا عشق میں ہم نے بھی یوں تو پھوڑا تھا
پر اس کو کیا کریں اوروں کا اعتبار ہے آج
گیا ہے جانب وادی سوار ہوکر یار
غبار گرد پھرے ہے بہت شکار ہے آج
جہاں کے لوگوں میں جس کی تھی کل تئیں عزت
اسی عزیز کو دیکھا ذلیل و خوار ہے آج
سحر سواد میں چل زور پھولی ہے سرسوں
ہوا ہے عشق سے کل زرد کیا بہار ہے آج
سواری اس کی ہے سرگرم گشت دشت مگر
کہ خیرہ تیرہ نمودار یک غبار ہے آج
سپہر چھڑیوں میں کل تک پھرے تھا ساتھ اپنے
عجب ہے سب کا اسی سفلے پر مدار ہے آج
بخار دل کا نکالا تھا درد دل کہہ کر
سو درد سر ہے بدن گرم ہے بخار ہے آج
کسو کے آنے سے کیا اب کہ غش ہے کل دن سے
ہمیں تو اپنا ہی اے میر انتظار ہے آج
میر تقی میر

جیتوں نہ جیت سے کبھی ہاروں نہ ہار سے

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 101
اِس درجہ ہو گیا ہوں سبک غم کے بار سے
جیتوں نہ جیت سے کبھی ہاروں نہ ہار سے
جب چاہے جس کو پھینک دے، منہ زور ہے بہت
وہ دیکھو! زین ہو گئی خالی سوار سے
خوش ہوں کہ تجھ سے ایک تعلق بنا رہا
ٹوٹا کبھی نہ ربط مرا انتظار سے
بیکار ہی سہی ولے شعروں کے شغل نے
مجھ کو بچا لیا ہے مرے انتشار سے
قربت کے ساتھ خواہشِ دیگر بھی چاہئے
باہر ہے لطفِ لمس مرے اختیار سے
خوشبوئیں لڑکیوں کی طرح گھومتی پھریں
کیا مشورہ ہے، آؤ نا پوچھیں بہار سے
آفتاب اقبال شمیم