زمرہ جات کے محفوظات: شکیب جلالی

بدگمانی ہے تو ہر بات گراں گزرے گی

اب انھیں پُرسشِ حالات گراں گزرے گی
بدگمانی ہے تو ہر بات گراں گزرے گی
خواہشِ لطفِ پرستش کو مٹا دو دل سے
میری خودداریِ جذبات گراں گزرے گی
مجھ سے پہلے رُخِ سادہ کی حقیقت کیا تھی
منہ نہ کُھلواؤ، مری بات گراں گزرے گی
تم اچانک جسے ہمراہ بنا بیٹھے ہو
ایک دن تم کو وہی ذات گراں گزرے گی
پاس ہو کر بھی اگر دُور رہا مجھ سے کوئی
اور بھی تاروں بھری رات گراں گزرے گی
دل میں اظہارِ محبت پہ کوئی خوش ہو گا
ظاہراً پُھول سی یہ بات گراں گزرے گی
شکیب جلالی

سر بہ سجدہ ہے آگہی توبہ

بے خودی سی ہے بے خودی! توبہ
سر بہ سجدہ ہے آگہی توبہ
ذہن و دل پر ہے بارشِ انوار
پی ہے مے یا کہ چاندنی توبہ
دُکھ کا احساس ہے نہ فِکر نشاط
پینے والوں کی آگہی! توبہ
ان کا غم ہے بہت عزیز مجھے
چھوڑ دی میں نے مے کشی توبہ
اک جہاں بن گیا مرا دشمن
آپ کا لُطفِ ظاہری توبہ
ہے تمھی سے شکستِ دل کا گِلہ
میری اُلفت کی سادگی توبہ
ایک ہے شمع، لاکھ پروانے
تیرگی سی ہے تیرگی! توبہ
کتنے دل خون ہو گئے ہوں گے
ان کی آنکھوں میں ہے نمی توبہ
رازِ غم پا گئے ہیں لوگ، شکیبؔ
ہنسنے والوں کی بے کسی توبہ
شکیب جلالی

ان کی توقیر بن گیا ہوں میں

غم کی تصویر بن گیا ہوں میں
ان کی توقیر بن گیا ہوں میں
خوابِ پنہاں تھے آپ کے جلوے
جن کی تعبیر بن گیا ہوں میں
آج ہستی ہے کیوں تبسم ریز
کس کی تقدیر بن گیا ہوں میں
آپ چُھپ چُھپ کے مسکراتے ہیں
وجہِ تشہیر بن گیا ہوں میں
جو بھی ہے، ہم خیال ہے میرا
حُسنِ تحریر بن گیا ہوں میں
اب دعاؤں کو ہے مری حاجت
لَبِ تاثیر بن گیا ہوں میں
دم بخود ہیں ، شکیبؔ، لوح و قلم
حُسنِ تدبیر بن گیا ہوں میں
شکیب جلالی

غم بہ اندازِ شادکامی ہے

قہقہہ آنسوؤں کا حامی ہے
غم بہ اندازِ شادکامی ہے
راہ دشوار ہے نہ منزل دور
جذبہِ رَہ روی میں خامی ہے
وقت کی قید، خواہشوں کے جال
زیست کچھ بھی سہی، غلامی ہے
حُسنِ احساس حُسن کا ہے طِلسم
عشق نظروں کی شادکامی ہے
آپ میں گر وفا نہیں تو کیا
چاند میں بھی تو ایک خامی ہے
ہر گھڑی کچھ نزاکتوں کا خیال
یہ محبت بھی اک غلامی ہے
اب شکیبؔ! آنسوؤں کو پی جاؤ
غم کی معراج شادکامی ہے
شکیب جلالی

تیرے جگ کی ریت نرالی

کوئی ہے داتا کوئی سوالی
تیرے جگ کی ریت نرالی
موتی رولے ساحل ساحل
پھر بھی ہے دامن خالی خالی
ان کی قسمت دُودھ کے ساگر
میرا حصہ زہر کی پیالی
بادِ صبا ہے زخم سراپا
خار اُگے ہیں ڈالی ڈالی
دَھن کے رُوپہلی تہہ خانوں پر
پھن لہرائے ناگن کالی
میں نے جس کے عیب چھپائے
اسی نے میری بات اُچھالی
اس کے علاوہ ہم کیا بولیں
تم نے دل کی بات چُرا لی
شکیب جلالی

آمدِ صبحِ شب اندام پہ رونا آیا

خوابِ گُل رنگ کے انجام پہ رونا آیا
آمدِ صبحِ شب اندام پہ رونا آیا
دل کا مفہوم اشاروں سے اُجاگر نہ ہوا
بے کسیِ گلہِ خام پہ رونا آیا
کبھی اُلفت سی جھلکتی ہے، کبھی نفرت سی
اے تعلق! ترے ابہام پہ رونا آیا
میری خوشیاں کبھی جس نام سے وابستہ تھیں
جانے کیوں آج اسی نام پہ رونا آیا
لے کے ابھرے گی سحَر پھر وہی پژمُردہ کرن
کیا کہوں ! تیرگیِ شام پہ رونا آیا
بے سبب اپنی نگاہوں سے گرا جاتا ہوں
اس فسوں کاریِ الزام پہ رونا آیا
اتنے ارزاں تو نہیں تھے مرے اشکوں کے گُہر
آج کیوں تلخیِ آلام پہ رونا آیا؟
لائقِ حسنِ نظر تھے نہ کبھی ان کے خطوط
آج محرومیِ پیغام پہ رونا آیا
اب بھی منزل مرے قدموں کی تمنائی ہے
کیا کہوں حسرتِ یک گام پہ رونا آیا
رونے والا تو کرے گا نہ کسی کا شکوہ
لاکھ کہیے غمِ ایّام پہ رونا آیا
ان کے شبہات میں کچھ اور اضافہ تھا شکیبؔ
اشکِ سادہ کے اس انعام پہ رونا آیا
شکیب جلالی

زخمی نظر سے چُوم لیا خار خار کو

یوں بھی دیا خراجِ عقیدت بہار کو
زخمی نظر سے چُوم لیا خار خار کو
دنیا اسی کو تنگ نظر کہہ رہی ہے آج
جس نے پناہ دی ہے ترے اعتبار کو
کیسے کہیں کہ ہم سے ہے توقیرِ رنگ و بُو
اب تک چھپا رہے ہیں وہ رازِ بہار کو
منزل پہ آ کے خواہشِ منزل بدل گئی
پھر کوئی جستجو ہے مرے جذبِ کار کو
بروقت آگیا ہے کوئی وعدہ کوش آج
اک دن چُھپا لیا تھا غمِ انتظار کو
تسلیم وہ حَسیں ہیں مگر میرے ذوق نے
تشکیل دی ہے ایک نئے شاہکار کو
کرنے لگا ہے چھیڑ، غمِ عشق سے، شکیبؔ
یہ حوصلہ ہوا ہے غمِ روزگار کو
شکیب جلالی

دنیا کو ہم بہ حُسنِ نظر دیکھتے رہے

ذرّوں میں آفتاب و قمر دیکھتے رہے
دنیا کو ہم بہ حُسنِ نظر دیکھتے رہے
لوگ ان سے مانگتے رہے لُطف و کرم کی بھیک
ہم خامشیِ غم کا اثر دیکھتے رہے
ظلمت میں اعتمادِ نظر ضَوفشاں رہا
ہر رنگ میں جمالِ سَحر دیکھتے رہے
یہ زندگی ہے تازہ اُمنگوں کا اک الاؤ
ہر ہر نَفَس میں رقصِ شرر دیکھتے رہے
دنیا سے بے خبر کئی عالم گزر گئے
ہم محویت میں جانے کدھر دیکھتے رہے
چُھپتے رہے وہ طالبِ دیدار جان کر
ہم تھے کہ ان کا حُسنِ نظر دیکھتے رہے
آدابِ رَہ روی سے جو واقف نہیں ، شکیبؔ
ان کو بھی ہم شریکِ سفر دیکھتے رہے
شکیب جلالی

میرا دل لُطفِ مسرّت کا سزاوار نہ ہو

جب تَلک سارا زمانہ ہی طرب زار نہ ہو
میرا دل لُطفِ مسرّت کا سزاوار نہ ہو
اک نیا دل سا دھڑکتا ہے مرے سینے میں
ان کی نظروں کے تصادم کی یہ جھنکار نہ ہو
قوتِ دید و نظر ان پہ نچھاور ہو جائے
اس طرح دیکھ کہ پھر زحمتِ دیدار نہ ہو
بے سبب تو نہیں ہونٹوں پہ خموشی کا نُزول
سوچتا ہوں کہ کسی پر میرا غم بار نہ ہو
ہائے، وہ آگ کہ جو دل میں سُلگتی ہی رہے
ہائے، وہ بات کہ جس کا کبھی اظہار نہ ہو
یہ تبسّم مرا حق ہے تو عنایت ہو جائے
وہ عنایت کہ جو مِنّت کشِ ایثار نہ ہو
مسکراہٹ کو ترستی ہیں ابھی کچھ کلیاں
میرے ہونٹوں پہ تبسّم ابھی بیدار نہ ہو
بدگمانی تو محبت کی علامت ہے، شکیبؔ
یہ بھی ممکن ہے گلستاں میں کوئی خار نہ ہو
شکیب جلالی

اک بار قیدیوں پہ قیامت گزر گئی

جس دم قفس میں موسمِ گُل کی خبر گئی
اک بار قیدیوں پہ قیامت گزر گئی
دھند لا گئے نقوش تو سایہ سا بن گیا
دیکھا کیا میں ان کو، جہاں تک نظر گئی
بہتر تھا، مَیں جو دُور سے پُھولوں کو دیکھتا
چھونے سے پتّی پتّی ہَوا میں بکھر گئی
کتنے ہی لوگ صاحبِ احساس ہو گئے
اک بے نوا کی چیخ بڑا کام کر گئی
تنہائیوں کے شہر میں کون آئے گا، شکیبؔ
سو جاؤ، اب تو رات بھی آدھی گزر گئی
شکیب جلالی

ہم غمِ بے کنار کھو بیٹھے

آپ کی یادگار کھو بیٹھے
ہم غمِ بے کنار کھو بیٹھے
اب بہاریں ہوں لاکھ جلوہ کناں
جوہرِ اعتبار کھو بیٹھے
ان کے جلووں کو زندگی کہہ کر
ہم نظر کا وقار کھو بیٹھے
آپ سے مل کے ہم نے کیا پایا
اپنے دل کا قرار کھو بیٹھے
خارزاروں سے اس طرح اُلجھے
ہم خلوصِ بہار کھو بیٹھے
غم کی تشنہ لَبی تو قائم ہے
آپ سا غم گُسار کھو بیٹھے
ان سے ہم اس قدر قریب ہوئے
زندگی کا وقار کھو بیٹھے
ہر حقیقت فریب لگتی ہے
جب کوئی اعتبار کھو بیٹھے
جس پہ نازاں ہیں قُربتیں بھی، شکیبؔ
وہ شبِ انتظار کھو بیٹھے
شکیب جلالی

آشناؤں نے مل کے لوٹ لیا

ہم نواؤں نے مل کے لوٹ لیا
آشناؤں نے مل کے لوٹ لیا
ہم اصولاً تو بچ ہی نکلے تھے
التجاؤں نے مل کے لوٹ لیا
رہزنوں کا نصیب کیا کہیے
رہ نماؤں نے مل کے لوٹ لیا
اک بہانہ تھی شورشِ طوفاں
ناخداؤں نے مل کے لوٹ لیا
کج کُلاہوں سے ہوشیار تھے ہم
خوش اداؤں نے مل کے لوٹ لیا
ہم زَباں دیکھتے رہے چپ چاپ
بے نواؤں نے مل کے لوٹ لیا
راہ زنِ ہوش کچھ تو غم زدہ تھے
کچھ جفاؤں نے مل کے لوٹ لیا
جو امینِ جمالِ یزداں ہیں
ان خداؤں نے مل کے لوٹ لیا
جو کبھی وجہِ عشرتِ دل تھیں
ان فضاؤں نے مل کے لوٹ لیا
شکیب جلالی

صحرا میں گلاب پل رہے ہیں

آدابِ چمن بدل رہے ہیں
صحرا میں گلاب پل رہے ہیں
دنیا کی حقیقتیں وہی ہیں
اندازِ نظر بدل رہے ہیں
آمد ہے کس اسیرِ نو کی
زنداں میں چراغ جل رہے ہیں
ہمّت نے جواب دے دیا ہے
دیوانے پھر بھی چل رہے ہیں
ہونٹوں پہ ہنسی اور آنکھ پْرنم
پانی سے چراغ جل رہے ہیں
آشائیں غُروب ہو رہی ہیں
امید کے سایے ڈھل رہے ہیں
وہ راہ، شکیبؔ، کب ہے اپنی
جس راہ پہ لوگ چل رہے ہیں
شکیب جلالی

میں ہوں کہیں، غبار کہیں، ہم سفر کہیں

گم ہی نہ ہو گئی ہو مری رہ گزر کہیں
میں ہوں کہیں، غبار کہیں، ہم سفر کہیں
جذبِ نظر کا، کر تو رہے ہیں وہ امتحاں
رُک ہی نہ جائے گردشِ شام و سَحر کہیں
سمجھا ہر اک یہی کہ تخاطب مجھی سے ہے
مرکوز یوں ہوئی نگہِ معتبر کہیں
تھی کچھ تو مصلحت جو نگاہیں نہ مل سکیں
مجھ کو غلط سمجھ لے نہ وہ کم نظر کہیں
غم دے کے چھین لیں ، یہ نہیں اُن کے بس کی بات
مٹتا ہے دل سے داغِ غمِ مُعتبر کہیں !
ہم تو منا ہی لیں گے انھیں یہ یقین ہے
اور ایک بار روٹھ گئے ہم اگر کہیں
شکیب جلالی

وہ چار پھول کہ جو حاصلِ بہار رہے

کلی کلی کی نگاہوں میں مثلِ خار رہے
وہ چار پھول کہ جو حاصلِ بہار رہے
وہ جھرمٹوں میں ستاروں کے جلوہ گر ہیں آج
بَلا سے ان کی اگر کوئی اشک بار رہے
طِلسم اثر ہے فضا، چاندنی فسوں انداز
حضورِ دوست یہ ممکن نہیں قرار رہے
سیاہیوں کے بگولے چراغِ رَہ بن جائیں
جو حوصلہ شبِ غربت میں پختہ کار رہے
اب انتہاے اَلَم بھی گراں نہیں دل پر
مگر وہ غم جو ترے رُخ پہ جلوہ بار رہے
وہ بات کیا تھی ہمیں خود بھی اب تو یاد نہیں
نہ پوچھ ہم ترے کس درجہ راز دار رہے
خلوصِ عشق کے جذبات عام کرنا ہیں
کچھ اور دن یہ فضا مجھ کو سازگار رہے
یہ کشمکش، یہ بھلاوے حیات پرور ہیں
کسی کے دل میں اگر عشق کا وقار رہے
کسی کا قُرب اگر قُربِ عارضی ہے، شکیبؔ
فراقِ دوست کی لذّت ہی پائدار رہے
شکیب جلالی

میرا ہر فقرہ مکمل داستاں ہو جائے گا

رازِ دل پابندیوں میں بھی بیاں ہو جائے گا
میرا ہر فقرہ مکمل داستاں ہو جائے گا
دھیرے دھیرے اجنبیت ختم ہو ہی جائے گی
رہتے رہتے یہ قفس بھی آشیاں ہو جائے گا
ہم نے حاصل کرنا چاہا تھا خلوصِ جاوداں
کیا خبر تھی کوئی ہم سے بدگماں ہو جائے گا
فطرتِ انساں میں ہونا چاہیے ذوقِ عمل
خاک کے ہر ذرّے سے پیدا جہاں ہو جائے گا
کر دیا تبدیل ہم نے اپنا اندازِ سفر
اب تو رہزن بھی شریکِ کارواں ہو جائے گا
شکیب جلالی

حیات صَرفِ خرابات ہو گئی ہو گی

شکست خوردہِ حالات ہو گئی ہو گی
حیات صَرفِ خرابات ہو گئی ہو گی
کبھی جو پُرسشِ حالات ہو گئی ہو گی
خدا گواہ کہ برسات ہو گئی ہو گی
جو راہِ شوق میں حائل تھا اک جہان تو کیا
نظر نظر میں ملاقات ہو گئی ہو گی
جہانِ تازہ کی شمعیں بھی بجھ گئی ہوں گی
مرے جہاں میں اگر رات ہو گئی ہو گی
ہَوا سے آپ کی زلفیں بکھر گئی ہوں گی
فضا میں بارشِ ظلمات ہو گئی ہو گی
کسی نے شرم سے چہرہ چھپا لیا ہو گا
نگاہ محوِ جمالات ہو گئی ہو گی
وہ اجنبی کی طرح پیش آئے ہوں گے، شکیبؔ
جو راستے میں ملاقات ہو گئی ہو گی
شکیب جلالی

ہم نے ایسے راگ سُنے

دنیا جن پر سر کو دُھنے
ہم نے ایسے راگ سُنے
بھولے پنچھی آن پھنسے
وقت نے دَھن کے جال بُنے
ہم نے بہاروں کی خاطر
صحرا صحرا خار چُنے
مست ہیں وہ بھی نغموں میں
زخمی چیخیں کون سُنے
کاش یہ باہمّت راہی
دنیا کی باتیں نہ سُنے
زخموں کا دل رکھنے کو
ہم نے چمن سے خار چُنے
کس کو پڑی ہے، دل سے، شکیبؔ
جو اوروں کی بات سُنے
شکیب جلالی

شمع بن جاؤ رات اندھیری ہے

راہ دکھلاؤ رات اندھیری ہے
شمع بن جاؤ رات اندھیری ہے
جا رہے ہیں وہ روٹھ کر اِس وقت
ان کو سمجھاؤ رات اندھیری ہے
اب تو کچھ بھی نظر نہیں آتا
شمعِ مے لاؤ رات اندھیری ہے
پھنس ہی جائیں گے بے اماں پنچھی
جال پھیلاؤ رات اندھیری ہے
تیرگی کا ہے آنکھ پر پہرہ
اب تو آجاؤ رات اندھیری ہے
میری آنکھوں میں جل رہے ہیں دیے
یوں نہ گھبراؤ رات اندھیری ہے
چاندنی ہو شکیبؔ کی تم ہی
بُھول بھی جاؤ رات اندھیری ہے
شکیب جلالی

جس سے ملے ہم دل سے مِلے

منھ پہ کیے سب شِکوے گِلے
جس سے ملے ہم دل سے مِلے
دُکھ میں دامن چھوڑ دیا
سُکھ میں ساتھی آن مِلے
چارہ گروں کی بات نہ کر
زخم، نہ سِلنے تھے نہ سِلے
حُسنِ تکلّم، لُطفِ بیاں
کلیاں چٹکیں، پھول کِھلے
وہ سمجھیں یا ہم جانیں
بات کہی اور لَب نہ ہلے
غم کی شدّت میں بھی، شکیبؔ
لوگوں سے ہم ہنس کے ملے
شکیب جلالی

ہر گُلِ تر کی آنکھ بھر آئی

میرے دل کی کَلی جو مُرجھائی
ہر گُلِ تر کی آنکھ بھر آئی
پھر ہوئی روشنی خلاؤں میں
پھر کسی بے وفا کی یاد آئی
جُھک گئیں مل کے شرم سے نظریں
اک نئے موڑ پر حیات آئی
ان کی قُربت بھی بار ہے دلبر
کس قدر ہے لطیف تنہائی
اُٹھ گیا اعتبار منزل کا
دیکھ لی رہبروں کی دَانائی
ان کی چاہت بھی اب نہیں منظور
تھے کبھی ہم بھی ان کے سودائی
بے خطر حادثوں سے ٹکرایا
یوں مرے عزم نے جِلا پائی
عزم نے زندگی کو جیت لیا
اپنی پستی پہ موت شرمائی
ڈر کے پیچھے کھسک گیا ساحل
یوں جزیرے سے ناو ٹکرائی
مجھ کو احساسِ غم، شکیبؔ، نہ تھا
ان کو دیکھا تو آنکھ بھر آئی
شکیب جلالی

نگاہوں سے بیاں دل کی کہانی اب بھی ہوتی ہے

محبت میں زباں کی بے زبانی اب بھی ہوتی ہے
نگاہوں سے بیاں دل کی کہانی اب بھی ہوتی ہے
سرِ محفل وہ کوئی بات بھی مجھ سے نہیں کرتے
مگر تنہائیوں میں گُل فِشانی اب بھی ہوتی ہے
چُھپاؤ لاکھ بے چینی کو خاموشی کے پردے میں
تمھارے رُخ سے دل کی ترجمانی اب بھی ہوتی ہے
ہمارا حال چُھپ کر پوچھتا تھا کوئی پہلے بھی
ہمارے حال پر یہ مہربانی اب بھی ہوتی ہے
تمھاری ہی کمی محسوس ہوتی ہے مجھے ورنہ
وہ موسم، وہ فضا، وہ رُت سُہانی اب بھی ہوتی ہے
زمانہ دل کی باتوں کو کبھی کُھل کر نہیں کہتا
بہ اندازِ شکایت قدردانی اب بھی ہوتی ہے
نکل آیا زمان و آشیاں کی قید سے لیکن
بقا کی رَہ میں حائل زندگانی اب بھی ہوتی ہے
شکیب جلالی

لذتِ غم وہی تو پائیں گے

ہر مصیبت پہ مسکرائیں گے
لذتِ غم وہی تو پائیں گے
جرأتِ برق آزمائیں گے
ہم بھی ایک آشیاں بنائیں گے
جس قدر ان سے مُلتفت ہو گے
تم سے وہ دور ہوتے جائیں گے
حوضِ کوثر سے آرہے ہیں ہم
تیری آنکھوں سے پی کے جائیں گے
آنے والوں کا احترام، شکیبؔ
جانے والے کبھی نہ آئیں گے
شکیب جلالی

آپ سے ہاں ! مگر نہیں ہوتے

دوست کیا معتبر نہیں ہوتے
آپ سے ہاں ! مگر نہیں ہوتے
ہم ہی خطرات مول لیتے ہیں
راستے پر خطر نہیں ہوتے
محوِ پرواز ہے خلاؤں میں
عقل کے بال و پر نہیں ہوتے
منزلیں میرے ساتھ چلتی ہیں
راستے مختصر نہیں ہوتے
رہنماؤں کے ساتھ رہنے سے
حوصلے معتبر نہیں ہوتے
زندگانی سے کھیلنے والے
موت سے بے خبر نہیں ہوتے
چار دن کی، شکیبؔ، قربت سے
فاصلے مختصر نہیں ہوتے
شکیب جلالی

راز داں اب قریب آ جائیں

یہ خلائیں ہیں گوش بر آواز
راز داں اب قریب آ جائیں
ہم سفر رہ گئے بہت پیچھے
آؤ کچھ دیر کو ٹھہر جائیں
دوستی کا فریب ہی کھائیں
آؤ کاغذ کی ناو تیرائیں
ہم اگر رَہ رَوی کا عزم کریں
منزلیں کِھنچ کے خود چلی آئیں
ان بہاروں کی آبرو رکھ لو
مسکرا دو کہ پھول کِھل جائیں
مجھ کو آمادہِ سفر نہ کرو
راستے پُر خطر نہ ہو جائیں
ان پناہوں میں کچھ نہیں ہے اب
بادہ کش مے کدے سے لوٹ آئیں
راستے سے ہٹا لو تاروں کو
میرے پیروں تلے نہ آ جائیں
مُطربہ ایسا گیت چھیڑ کہ ہم
زندگی کے قریب ہو جائیں
گیسوئے زیست کے یہ اُلجھاؤ
آؤ مل کر شکیبؔ، سلجھائیں
شکیب جلالی

ہم نے گرا دیا جسے اپنی نگاہ سے

کم تر نہ جانیں لوگ اسے مہر و ماہ سے
ہم نے گرا دیا جسے اپنی نگاہ سے
جن کے لیے زبان بھی احسان مند ہے
میں نے کچھ ایسے کام لیے ہیں نگاہ سے
ہمراہ اپنے رونقِ محفل لیے ہوئے
وہ کون جا رہا ہے تری جشن گاہ سے!
تعظیم، یہ مقامِ ادب ہے، خرد نواز!
تم بات کر رہے ہو محبت پناہ سے
حُسنِ حیاپسند کو دیکھا ہے بے نقاب
شرما رہے ہیں آج ہم اپنی نگاہ سے
مستی سی چھا رہی ہے فضائے حیات پر
کوئی شراب گھول رہا ہے نگاہ سے
اک شعلہِ جمال سے نظریں پگھل گئیں
ہم تشنہ کام آئے تری جلوہ گاہ سے
ویسی ہی کچھ حَسین سزا دیجیے حضور
جیسا حَسین جُرم ہوا ہے نگاہ سے
کہنے کو اب بھی خاک نشیں ہے یہ دل مگر
تاروں کو چھو لیا ہے محبت کی راہ سے
اب تو شکیبؔ! رکھ لو بھرم زعمِ حُسن کا
جلوے اُلجھ رہے ہیں تمھاری نگاہ سے
شکیب جلالی

کیجیے خم کار زلفوں کو پریشان کیجیے

اپنی ذہنی کشمکش کو اب نمایاں کیجیے
کیجیے خم کار زلفوں کو پریشان کیجیے
اس طرح شاید نکھر جائے یہ پھیکی چاندنی
اپنی زُلفوں کے گھنے سایے پریشان کیجیے
روکیے بڑھتی ہوئی تاریکیوں کو روکیے
کیجیے اپنے رخِ تاباں کو عریاں کیجیے
جو کہ ہمت ہار جائیں ، آ کے ساحل کے قریب
ایسی نازک کشتیوں کو نذرِ طوفاں کیجیے
رنج کا احساس دل سے مٹ نہیں سکتا کبھی
آپ کتنا بھی تبسم کو نمایاں کیجیے
کچھ نہ کچھ تو آپ کو مجھ سے تعلق ہے ضرور
مجھ کو رسوا کر کے یوں خود کو نہ عریاں کیجیے
پھر بھی ان کی یاد آتی ہی رہے گی، اے شکیبؔ
جس قدر بھی ہو خیالوں کو پریشاں کیجیے
شکیب جلالی

مُرجھا رہے ہیں پھول بہاروں کے سائے میں

سرو و سمن کی شوخ قطاروں کے سائے میں
مُرجھا رہے ہیں پھول بہاروں کے سائے میں
چھوٹی سی اک خلوص کی دنیا بسائیں گے
آبادیوں سے دور چناروں کے سائے میں
تاریکیوں میں اور سیاہی نہ گھولیے
زلفیں بکھیریے نہ ستاروں کے سائے میں
جانے بھنور سے کھیلنے والے کہاں گئے
کشتی تو آ گئی ہے کناروں کے سائے میں
مانوس ہو گئی ہے خزاں سے مری بہار
اب لُطف کیا ملے گا بہاروں کے سائے میں
بلبل کی زندگی تو بہر حال کٹ گئی
پھولوں کی گود میں ، کبھی خاروں کے سائے میں
انگڑائی لی جنوں نے، خرد سو گئی، شکیبؔ
نغمات کی لطیف پھواروں کے سائے میں
شکیب جلالی

عنوان دو ہیں اور مکمل فسانہ ہے

رازِ حیات و موت بڑا عاشقانہ ہے
عنوان دو ہیں اور مکمل فسانہ ہے
ہمدردیوں کا ذکر کروں اِن سے یا نہیں
ظاہرپرست دوست ہیں، دشمن زمانہ ہے
مرعوب کرسکے گا نہ مجھ کو جمالِ دوست
میرا مزاج میری نظر باغیانہ ہے
بیٹھا ہوں بجلیوں کا تصوّر کیے ہوئے
گہوارہِ جمال مرا آشیانہ ہے
ترسا رہے ہو کیوں خس و خاشاک کے لیے
میرا چمن ہے اور مرا آشیانہ ہے
شاید مری حیات کا مرکز بدل گیا
میرے لبوں پہ آج خوشی کا ترانہ ہے
تسلیم، اُڑ کے جا نہیں سکتا مگر، شکیبؔ
نظروں کے سامنے تو مرا آشیانہ ہے
شکیب جلالی

خدا گواہ بہاروں میں آگ لگ جائے

وہ دیکھ لیں تو نظاروں میں آگ لگ جائے
خدا گواہ بہاروں میں آگ لگ جائے
جو لُطفِ شورشِ طوفاں تمھیں اٹھانا ہے
دعا کرو کہ کناروں میں آگ لگ جائے
نگاہِ لطف و کرم دل پہ اس طرح ڈالو
بجھے بجھے سے شراروں میں آگ لگ جائے
نظر اٹھا کے جنوں دیکھ لے اگر اک بار
تجلیات کے دھاروں میں آگ لگ جائے
بہارساز ہے میری نظر کی ہر جُنبش
مری بلا سے بہاروں میں آگ لگ جائے
کسی کے عزمِ مکمل کی آبرو رہ جائے
اگر تمام سہاروں میں آگ لگ جائے
گلُوں کے رُخ سے شرارے ٹپک رہے ہیں ، شکیبؔ
عجب نہیں جو بہاروں میں آگ لگ جائے
شکیب جلالی

چشمِ مے گوں تری یاد آئی ہے

جب بھی گُلشن پہ گھٹا چھائی ہے
چشمِ مے گوں تری یاد آئی ہے
کس کے جلووں کو نظر میں لاؤں
حسن خود میرا تماشائی ہے
آپ کا ذکر نہیں تھا لیکن
بات پر بات نکل آئی ہے
زندگی بخش عزائم کی قسم
ناؤ ساحل کو بہا لائی ہے
مرگ و ہستی کا مٹا کر احساس
زندگی موت سے ٹکرائی ہے
مجھ کو دنیا کی محبت پہ، شکیبؔ
اکثر اوقات ہنسی آئی ہے
شکیب جلالی

حُسن کی زندگی محبت ہے

حُسن کو عشق کی ضرورت ہے
حُسن کی زندگی محبت ہے
کیوں اُٹھے جا رہے ہو محفل سے
کیا قیامت ہے، کیا قیامت ہے
آپ برہم نہ ہوں تو میں کہہ دوں
آپ سے کچھ مجھے شکایت ہے
پوچھ لو مجھ سے کائنات کا حال
دل کے ہاتھوں میں نبضِ فطرت ہے
جاگ اُٹّھیں مری تمنائیں
مسکرانا ترا قیامت ہے
ظلم کو جو کہ زندگی بخشے
ایسی فریاد سے بغاوت ہے
میں جو چاہوں جہاں پہ چھا جاؤں
جذبہِ دل مرا سلامت ہے
سن کے بولے وہ میرا حال، شکیبؔ
کچھ فسانہ ہے، کچھ حقیقت ہے
شکیب جلالی

اب جمالات سے بغاوت ہے

رقص و نغمات سے بغاوت ہے
اب جمالات سے بغاوت ہے
غم کا ماحول جو بدل نہ سکیں
ایسے نغمات سے بغاوت ہے
میرے احساس کے اجالوں کو
چاندنی رات سے بغاوت ہے
حسن سے انتقام لینا ہے
دل کی ہر بات سے بغاوت ہے
جن سے اعصاب مُضمحل ہو جائیں
ان غزلیات سے بغاوت ہے
قلب کی واردات جن میں نہ ہو
ان حکایات سے بغاوت ہے
جو کہ فکر و عمل سے عاری ہوں
ان روایات سے بغاوت ہے
وقت کے ساتھ جو بدل نہ سکیں
ایسے حالات سے بغاوت ہے
جو نہ سمجھیں نئے تقاضوں کو
ان خیالات سے بغاوت ہے
غم کی خودداریاں، شکیبؔ، نہ پوچھ
اب شکایات سے بغاوت ہے
شکیب جلالی

حسن کے راز دار ہیں ہم لوگ

عشق کے غم گُسا ر ہیں ہم لوگ
حسن کے راز دار ہیں ہم لوگ
دستِ قدرت کو ناز ہے ہم پر
وقت کے شاہ کار ہیں ہم لوگ
ہم سے قائم ہے گُلستاں کا بھرَم
آبروئے بہار ہیں ہم لوگ
منزلیں ہیں ہمارے قدموں میں
حاصلِ رہ گزار ہیں ہم لوگ
ہم سے تنظیم ہے زمانے کی
محورِ روزگار ہیں ہم لوگ
ہم جو چاہیں گے اب وہی ہو گا
صاحبِ اختیار ہیں ہم لوگ
ہم سے روشن ہے کائنات، شکیبؔ
اصلِ لیل و نہار ہیں ہم لوگ
شکیب جلالی

کب آزاد ہے زندگی کا سَفینہ

نہ ساحل پہ مرنا، نہ طُوفاں میں جینا
کب آزاد ہے زندگی کا سَفینہ
لُٹایا جو آنکھوں نے غم کا خَزینہ
عیاں ہو گیا رازِ دل کا دَفینہ
محبت کے آنسو بڑے قیمتی ہیں
چمکتا ہے ان سے وفا کا نَگینہ
نگاہوں کے آغوش میں خود کو پا کر
حیا ہو رہی ہے پسینہ پسینہ
یہ پَت جھڑ کا موسم، یہ سنسان گُلشن
ہو جیسے پریشان حال اک حَسینہ
عزائم کو بیدار کرنے کی خاطر
چٹانوں سے ٹکرا رہا ہوں سَفینہ
اٹھاؤ نہ پردے رخِ آتشیں سے
نگاہوں کو آنے لگا ہے پسینہ
گوارا نہیں ان کی رُسوائی دل کو
نہ دیکھو یہ ٹوٹا ہوا آبگینہ
شکیبؔ! اہلِ دنیا کے اطوار دیکھے
لبوں پر تبسّم، دلوں میں ہے کِینہ
شکیب جلالی

نوازیں گے بڑھ کر اسے خود کنارے

بڑھے گا جو طوفان میں بے سہارے
نوازیں گے بڑھ کر اسے خود کنارے
جوانی سے ٹکرا رہی ہے جوانی
تمنا میں حل ہو رہے ہیں شرارے
نگاہیں اٹھا کر کسی نے جو دیکھا
وہیں دم بخود ہو گئے ماہ پارے
سنا جب کسی نے مرا قصہِ غم
گرے آنکھ سے ٹوٹ کر دو ستارے
حوادث میں ملتی ہے مجھ کو مسّرت
میں طوفاں میں پیدآ کروں گا کنارے
وہ دن حاصلِ عشق و اُلفت ہیں ہمدم
کہ جو میں نے فُرقت میں ان کی گزارے
ہوا جن پہ نفرت کا دھوکا جہاں کو
محبت نے ایسے بھی کچھ روپ دھارے
ذرا کوئی سازِ محبت تو چھیڑے
عجب کیا جو گانے لگیں یہ نظارے
کہیں محورِ غم، کہیں روحِ نغمہ
شکیبؔ! ان کی نظروں کے رنگیں اشارے
شکیب جلالی

اک نیا دور ہو ساقی، نئے پیمانے کا

خواب آلودہ ہے ماحول، طرب خانے کا
اک نیا دور ہو ساقی، نئے پیمانے کا
وہ اگر اپنی نگاہوں سے اشارہ کردیں
لُطف آجائے چھلکتے ہوئے پیمانے کا
جام دیتے ہوئے نظریں نہ ملا اے ساقی
پھر چھلک جائے گا ساغر کسی دیوانے کا
دو نگاہوں کا تصادم، دو دلوں کی فریاد
وہ ہے آغاز، یہ انجام ہے افسانے کا
یہ بدلتا ہوا موسم، یہ اداسی، یہ سُکوت
اک تصوّر ہے گُلستاں میں بھی ویرانے کا
ایسی باتوں کا نہ کہنا ہی مناسب ہے، شکیبؔ
دل کہیں ٹوٹ نہ جائے کسی دیوانے کا
شکیب جلالی

عشق کا احترام کرتے ہیں

وہ نظر سے سلام کرتے ہیں
عشق کا احترام کرتے ہیں
اس قدر وہ قریب ہیں مجھ سے
بے رُخی سے کلام کرتے ہیں
جن سے پردہ پڑے تعلّق پر
ایسے جلووں کو عام کرتے ہیں
منزلیں تو نشانِ منزل ہیں
راہ رَو کب قیام کرتے ہیں
غمِ دوراں سے بھاگنے والے
مے کدے میں قیام کرتے ہیں
اہلِ طوفاں جُمودِ ساحل کو
دور ہی سے سلام کرتے ہیں
کِھنچ کے منزل، شکیبؔ، آتی ہے
خود کو جب تیز گام کرتے ہیں
شکیب جلالی

جنوں نواز بہاروں کی کوئی بات کرو

خردفریبِ نظاروں کی کوئی بات کرو
جنوں نواز بہاروں کی کوئی بات کرو
کسی کی وعدہ خلافی کا ذکر خوب نہیں
مرے رفیق ستاروں کی کوئی بات کرو
زمانہ ساز زمانے کی بات رہنے دو
خلوصِ دوست کے ماروں کی کوئی بات کرو
گھٹا کی اوٹ سے چھپ کر جو دیکھتے تھے ہمیں
انھی شریر ستاروں کی کوئی بات کرو
زمانہ ذکرِ حوادث سے کانپ اٹھتا ہے
سُکوں بدوش کناروں کی کوئی بات کرو
نہیں ہے حدِّ نظر تک، وجود ساحل کا
فضا مُہیب ہے، دھاروں کی کوئی بات کرو
سلامِ شوق لیے تھے کسی نے، جن سے، شکیبؔ
انھی لطیف اشاروں کی کوئی بات کرو
شکیب جلالی

بہر صورت نمایاں گلستاں در گلستاں ہم ہیں

کبھی حُسنِ گُل و لالہ، کبھی رنگِ خزاں ہم ہیں
بہر صورت نمایاں گلستاں در گلستاں ہم ہیں
نرالا ہے زمانے ہی سے ذوقِ رہ روی اپنا
امیرِ کارواں ہم ہیں، نہ گردِ کارواں ہم ہیں
حوادث کی کشاکش ہے، وہ ساحل ہے، یہ طوفاں ہے
زمانہ جن سے بچتا ہے انھیں کے درمیاں ہم ہیں
ہمارا ذوقِ خودبینی یہاں پر جلوہ ساماں ہے
اگر سچ پوچھیے تو رونقِ بزمِ جہاں ہم ہیں
جنوں میں ایک سجدہ وُسعتِ عالم پہ حاوی ہے
شکیبؔ، اس درجہ گویا بے نیازِ آستاں ہم ہیں
شکیب جلالی

مری توبہ کی خیر برسات آئی

نظر پھر حضورِ خرابات آئی
مری توبہ کی خیر برسات آئی
اُدھر ان کے لب پر مری بات آئی
اِدھر رقص میں روحِ نغمات آئی
وہ جب سے گئے ہیں خدا جانتا ہے
نہ وہ چاند نکلا، نہ وہ رات آئی
کبھی صبحِ خنداں نے آنسو بہائے
کبھی مُسکراتی ہوئی رات آئی
ہر اک گام پر جُرأتیں کہہ رہی ہیں
یہ منزل بطورِ نشانات آئی
صراحی اٹھائی نہ ساغر سنبھالے
عجب شان سے اپنی برسات آئی
وہ خود راز داں بن کے آئے تھے لیکن
زباں تک نہ دل کی کوئی بات آئی
مجھے ان کے وعدے پہ بالکل یقیں تھا
مگر جب ستاروں بھری رات آئی
نہ کہتا، شکیبؔ، ان سے حالِ غمِ دل
مگر کیا کروں بات پَر بات آئی
شکیب جلالی

وگرنہ عُذر نہ تھا آپ کو سُنانے میں

خوشی کی بات نہیں ہے کوئی فسانے میں
وگرنہ عُذر نہ تھا آپ کو سُنانے میں
یہ منتشر سے اُجالے، یہ زندگی، یہ سُکوت
تمھیں پکار کے آئے ہیں اک زمانے میں
چمن سے دور تھے لیکن بہارساماں تھے
کچھ ایسے پھول بھی پیدا ہوئے زمانے میں
ضرور دھوکے میں منزل سے دور آپہنچے
جھجک رہا ہے بہت راہبر بتانے میں
شکیبؔ، میری خوشی سے کبھی جو خوش نہ ہوئے
مجھے سُرور ملا ان کے مسکرانے میں
شکیب جلالی

کسی کے جلووں کی زَد پہ نظروں کا امتحاں یاد آرہا ہے

نقاب اٹھنے پہ ہر ارادہ، تھا رایگاں، یاد آرہا ہے
کسی کے جلووں کی زَد پہ نظروں کا امتحاں یاد آرہا ہے
زہے مسرّت، مری خوشی سے کبھی چمن مسکرادیا تھا
زہے تصوّر، وہ مسکراتا ہوا سماں یاد آرہا ہے
بہار آئی ہے پھر چمن میں ، گھٹائیں گھِر گھِر کے آرہی ہیں
سجود ریزی پہ بجلیوں کی، پھر آشیاں یاد آرہا ہے
کلی کلی گیت گارہی ہے، بہار کی دل فریبیوں کے
ستم ظریفی تو دیکھیے مجھ کو آسماں یاد آرہا ہے
کسی مسافر کی آرزو میں نشانِ منزل بھٹک رہے ہیں
کسی مسافر کو شامِ غُربت میں کارواں یاد آرہا ہے
چمن کی رنگینیاں سمٹ کر، مرے تخیّل پہ چھاگئی ہیں
مجھے برنگِ بہار، پھر کوئی مہرباں یاد آرہا ہے
جہاں کہ اذنِ سجود پا کر جبیں کو میں نے اٹھا لیا تھا
قدم قدم، پر شکیبؔ، مجھ کو وہ آستاں یاد آرہا ہے
شکیب جلالی

بُجھ رہی تھی شمعِ محفل، رقص میں پروانہ تھا

میری ناکامی کا افسانہ بھی کیا افسانہ تھا
بُجھ رہی تھی شمعِ محفل، رقص میں پروانہ تھا
ملتی جلتی داستاں وجہِ غلط فہمی ہوئی
آپ شرمندہ نہ ہوں یہ میرا ہی افسانہ تھا
کشمکش کی زَد میں تھا انساں کا ذوقِ بندگی
ایک جانب تیرا کعبہ، اک طرف بُت خانہ تھا
میرے غم انگیز نغمے جانِ محفل بن گئے
ورنہ تیرا سازِ مطرب سوز سے بیگانہ تھا
ان کی آنکھوں نے کبھی بخشا تھا کیفِ بے خودی
زندگی مسرور تھی اور وَجد میں مے خانہ تھا
آبدیدہ ہو گئے اہلِ ستم بھی، اے شکیبؔ
ہائے کتنا سوز میں ڈوبا ہوا افسانہ تھا
شکیب جلالی

آرزو میں بھی سادگی نہ رہی

حُسن میں جب سے بے رُخی نہ رہی
آرزو میں بھی سادگی نہ رہی
ان کا غم جب سے راس آیا ہے
دل کی کوئی خوشی، خوشی نہ رہی
جب کبھی موت کا خیال آیا
زیست میں کوئی دلکشی نہ رہی
آپ سے ایک بات کہنی ہے
لیجیے مجھ کو یاد بھی نہ رہی
کہہ رہی ہے بہ چشمِ تر شبنم
مُسکرا کر کَلی، کَلی نہ رہی
جب کبھی وہ، شکیبؔ، یاد آئے
چاند تاروں میں روشنی نہ رہی
شکیب جلالی

جلوے کسی کے، میری نظر نے سنوار کے

آئینہِ جمال دکھایا نکھار کے
جلوے کسی کے، میری نظر نے سنوار کے
میں اوجِ کہکشاں سے بھی آگے نکل گیا
کچھ حوصلے بڑھے تھے مرے اعتبار کے
دیتا ہے ذرّہ ذرّہ چمن کا سبق ہمیں
شبنم مِٹی مگر گُل و ریحاں نکھار کے
گُل کو، چمن کو، سبزے کو، کہہ کر جُدا جُدا
انساں نے کردیے کئی ٹکڑے بہار کے
رنگینیِ حیات کا کیا تذکرہ، شکیبؔ
دُھندلے سے ہیں نقوش فریبِ بہار کے
شکیب جلالی

میں خوش ہوں اس لیے کہ کوئی مہرباں نہیں

بے جا نوازشات کا بارِ گراں نہیں
میں خوش ہوں اس لیے کہ کوئی مہرباں نہیں
آغوشِ حادثات میں پائی ہے پرورش
جو برق پُھونک دے، وہ مرا آشیاں نہیں
کیوں ہنس رہے ہیں راہ کی دشواریوں پہ لوگ؟
ہوں بے وطن ضرور مگر بے نشاں نہیں
گھبرائیے نہ گردشِ ایّام سے ہنوز
ترتیبِ فصلِ گُل ہے یہ دورِ خزاں نہیں
کچھ برق سوز تنکے مجھے چاہئیں، شکیبؔ
جھک جائیں گُل کے بار سے وہ ڈالیاں نہیں
شکیب جلالی

اک چراغِ رہ گزر ہے جو مری منزل میں ہے

ایک ادنیٰ سی توجہ جو کسی کے دل میں ہے
اک چراغِ رہ گزر ہے جو مری منزل میں ہے
راستے کی کُلفتوں پر ہنس رہے ہیں آبلے
کون جانے لُطف کتنا دوریِ منزل میں ہے
ان کی تصویروں میں پاتا ہوں ابھی تک دل کشی
کچھ نہ کچھ احساس اپنا بھی کسی کے دل میں ہے
تلخیِ اَیّام سے گھبرا کے بُھولا تھا تمھیں
اب نہیں معلوم کیوں دل کا سکوں مشکل میں ہے
ہم کو جانے کیا سمجھ کر وہ بھلا بیٹھے، شکیبؔ
پھر بھی ان کی یاد جانے کیوں ہمارے دل میں ہے
شکیب جلالی

نظر ہی سے ساقی شراب اٹھتے اٹھتے

یہ کہتا ہے خانہ خراب اٹھتے اٹھتے
نظر ہی سے ساقی شراب اٹھتے اٹھتے
گھٹا جیسے گِھر آئے ماہِ جبیں پر
گری اس طرح سے نقاب اٹھتے اٹھتے
ذرا فلسفہ زندگی کا سمجھتے
کدھر چل دیے یہ حُباب اٹھتے اٹھتے
ابھی سے اٹھائیں تو شاید اُٹھیں گے
قیامت میں مستِ شراب اٹھتے اٹھتے
شبِ وصل بیٹھے ہیں محجوب سے وہ
اٹھے گا مگر یہ حجاب اٹھتے اٹھتے
شکیبؔ! آزمانے کو کشتی کی جرأت
بھنور بن گئی موجِ آب اٹھتے اٹھتے
شکیب جلالی

رشک کرتی ہیں فضائیں بھی شبستانوں کی

تم نے تقدیر جگا دی مرے ارمانوں کی
رشک کرتی ہیں فضائیں بھی شبستانوں کی
لاکھ تم بُھولو، مگر رنج کی زَد پر آ کر
یاد آجاتی ہے بھولے ہوئے انسانوں کی
ہوں گے منظر یہی، خآ کے یہی، کردار یہی
سُرخیاں صرف بدل جائیں گی افسانوں کی
ڈگمگاجاتے ہیں اب تک مری توبہ کے قدم
یاد جب آتی ہے ٹوٹے ہوئے پیمانوں کی
آپ کو میری قسم، آپ نہ ہوں آزردہ
کیا ہُوا، لُٹ گئی دُنیا مرے ارمانوں کی
پھر، شکیبؔ، آج مری زیست پہ غم حاوی ہے
پھر بدلنے لگی سُرخی مرے افسانوں کی
شکیب جلالی

خود کو اتنا سمجھ کے بھول گئے

اک معمّا سمجھ کے بھول گئے
خود کو اتنا سمجھ کے بھول گئے
مرنے والے جہانِ رنگیں کو
اک تماشا سمجھ کے بھول گئے
میری آنکھوں کی التجاؤں کو
آپ شکوہ سمجھ کے بھول گئے
یاد، میری بلا کرے ان کو
وہ مجھے کیا سمجھ کے بھول گئے!
یوں تو غیروں پہ بھی عنایت ہے
مجھ کو اپنا سمجھ کے بھول گئے
بے سہارا سمجھ کے یاد کیا
رسمِ دنیا سمجھ کے بھول گئے
ان کا بخشا ہوا الم بھی، شکیبؔ
لطفِ بے جا سمجھ کے بھول گئے
شکیب جلالی

کچھ اور بخش ڈالے انداز دل کشی کے

رُخسار آج دھو کر شبنم نے پنکھڑی کے
کچھ اور بخش ڈالے انداز دل کشی کے
ایثار، خودشناسی، توحید اور صداقت
اے دل ستون ہیں یہ ایوانِ بندگی کے
رنج و اَلَم میں کچھ کچھ آمیزشِ مسرّت
ہیں نقش کیسے دلکش تصویرِ زندگی کے
فرضی خدا بنائے، سجدے کیے بُتوں کو
اللہ رے کرشمے احساسِ کمتری کے
قلب و جگر کے ٹکڑے یہ آنسوؤں کے قطرے
اللہ راس لائے، حاصل ہیں زندگی کے
صحرائیوں سے سیکھے کوئی، رُموزِ ہستی
آبادیوں میں اکثر دشمن ہیں آگہی کے
جانِ خلوص بن کر ہم، اے شکیبؔ، اب تک
تعلیم کر رہے ہیں آدابِ زندگی کے
شکیب جلالی

دیوانوں کی تکراروں سے، خاموشیِ بیاباں ٹوٹ گئی

وحشت کے ان معماروں سے، بنیادِ ایواں ٹوٹ گئی
دیوانوں کی تکراروں سے، خاموشیِ بیاباں ٹوٹ گئی
اے عزمِ جواں شورش کیسی، اب تک تو یہ سنتے آئے ہیں
دو نازک سی پتواروں سے، ہر جرأتِ طوفاں ٹوٹ گئی
تخیئل کی دَرپردہ ضربیں، وحشی کا سہارا بن ہی گئیں
زنجیروں کی جھنکاروں سے، پابندیِ زنداں ٹوٹ گئی
زنداں کی اندھیری راتوں میں، جینے کا سہارا ختم ہُوا
افسوس کہ ان بے چاروں سے، تصویرِ گلستاں ٹوٹ گئی
دیوانوں نے آخر گلشن، رو رو کے بیاباں کر ڈالا
آنکھوں کے لرزتے پاروں سے، دیوارِ گلستاں ٹوٹ گئی
قسمت کی کرشمہ سازی تھی یا لُطف و کرم ملّاحوں کا
ٹکرا کر خشک کناروں سے پروردہِ طوفاں ٹوٹ گئی
دکھ درد کے ماروں کا ہر غم، ساغر کی کھنک میں ڈوب گیا
پیمانوں کی جھنکاروں سے فکرِ غمِ دوراں ٹوٹ گئی
بارِ غمِ اُلفت اُٹھ نہ سکا، کم ظرفوں کی نبضیں چھوٹ گئیں
افسوس ہے ان بیماروں سے، توقیرِ غمِ جاں ٹوٹ گئی
ہستیِ شکیبؔ زار کو، رنج و غم کے ہی چرکے کافی تھے
ان نازک سی دیواروں سے تعمیرِ دل و جاں ٹوٹ گئی
شکیب جلالی

دنیاے تخیّل مری آباد نہیں ہے

پہلو ہی میں جب سے دلِ ناشاد نہیں ہے
دنیاے تخیّل مری آباد نہیں ہے
نکلے جو انالحق کی صدا حرکتِ دل سے
ایمان کی تکمیل ہے، اِلحاد نہیں ہے
اچھا ہے کہ تم بھول گئے میری وفائیں
مجھ کو بھی کوئی جَور و ستم یاد نہیں ہے
اے لفظِ مسرّت! تجھے غم ہی سے بدل دوں
خودداریِ دل طالبِ امداد نہیں ہے
ہے مظہرِ انوارِ ازل ذوقِ شکیبؔ، اور
بدذوق یہ کہتا ہے: خداداد نہیں ہے
شکیب جلالی

مٹے ہیں لاکھوں ستارے ہی کہکشاں کے لیے

ہر ایک موت ہے تعمیرِ نکتہ داں کے لیے
مٹے ہیں لاکھوں ستارے ہی کہکشاں کے لیے
یہ بہکی بہکی سی باتیں یہ مضمحل نظریں
سُکوں نواز نہ بن جائیں نیم جاں کے لیے
غَرَض کے واسطے جیتی ہے فطرتاً دنیا
بہار پھول کھلاتی نہیں خزاں کے لیے
خوشی زمانے کو مرغوب ہی سہی، لیکن
الم حَسین ہے عنوانِ داستاں کے لیے
خرامِ ناز، نظرمست، منتشر زلفیں
یہ اہتمام ہے کیوں، کس لیے، کہاں کے لیے!
حقائقِ غمِ اُلفت کبھی چُھپے ہیں شکیبؔ!
بیان کیسے بدلتا میں راز داں کے لیے
شکیب جلالی

بہکے بہکے جو یہ مے خوار نظر آتے ہیں

ساغرِ چشم سے سرشار نظر آتے ہیں
بہکے بہکے جو یہ مے خوار نظر آتے ہیں
کُلفتیں آج بھی قائم ہیں قَفَس کی شاید
گُلستاں حاملِ افکار نظر آتے ہیں
جن پہ بے لوث محبت بھی بجا ناز کرے
ایسے نایاب ہی کردار نظر آتے ہیں
خود ہی آتی ہے مسرّت انھیں مژدہ دینے
جو ہر اک غم کے سزاوار نظر آتے ہیں
بے سہارا جو گزر جاتے ہیں طوفانوں سے
کچھ یہاں ایسے بھی خوددار نظر آتے ہیں
جن مراحل کو سمجھنے سے خرد قاصر ہے
وہ جنوں کے لیے شہ کار نظر آتے ہیں
کسبِ ثروت ہی، شکیبؔ، آج کا فن ہے شاید
طالبِ زر مجھے فن کار نظر آتے ہیں
شکیب جلالی

کیوں ہنس رہے ہو چاند ستارو، جواب دو

رنگینیِ حیات کے مارو جواب دو
کیوں ہنس رہے ہو چاند ستارو، جواب دو
کیا مل گیا غریب کی دنیا اُجاڑ کے!
بولو تو اے لرزتے شرارو، جواب دو
کشتی ڈُبو ہی سکتا ہوں، طوفاں نہیں تو کیا
ہو کس لیے اُداس کنارو، جواب دو
بربادیاں سُکون بہ داماں ہیں یا نہیں
کچھ تو خزاں رسیدہ بہارو، جواب دو
کیا تلخیِ حیات سے دل کش ہے تلخ مے؟
اے تلخیِ شراب کے مارو، جواب دو
کیا میری آہ تم سے اُلجھتی ہے راہ میں ؟
سہمے ہوئے سے چاند ستارو، جواب دو
تھیں کس کے دم قدم سے یہاں کی وہ رونقیں
میری اُداس راہ گزارو جواب دو
کیا عزمِ سُوے صحنِ گلستاں ہے آج یا؟
آئی ہو میرے پاس بہارو، جواب دو
عزمِ شکیبؔ زار سے ضد تو نہیں تمھیں
یہ اہتمام کس لیے دھارو، جواب دو
شکیب جلالی

گو کہ مُشتِ غُبار ہے انساں

دوشِ ہستی پہ بار ہے انساں
گو کہ مُشتِ غُبار ہے انساں
گر اصولِ حیات ہو مفقود
چلتا پھرتا مزار ہے انساں
سیم و زر کا بھلا ہو، جس کے طفیل
آج کل باوقار ہے انساں
جس کو سجدہ کیا فرشتوں نے
وہ ہی خاک و غُبار ہے انساں !
درد، غم اور کُلفتیں توبہ
تلخیِ صد خمار ہے انساں
صرف آدم کی ایک لغزش پر
آج تک اشک بار ہے انساں
غم کے ماروں سے پوچھیے تو شکیبؔ
صاحبِ اختیار ہے انساں ؟
شکیب جلالی

نہ جانے مٹ چکی ہیں کیسی کیسی ہستیاں اب تک

زمانے میں نہیں باقی کوئی نام و نشاں اب تک
نہ جانے مٹ چکی ہیں کیسی کیسی ہستیاں اب تک
متاع و مال کیا، عزت بچا لینا بھی مشکل ہے
مسلمانوں کا قدرت لے رہی ہے امتحاں اب تک
ستم کوشی پہ نازاں ہیں یہ کُفر و شِرک کے بندے
الٰہی کیسے قائم ہیں زمین و آسماں اب تک
جُھلس دینے پہ بھی مُسلم کو، دل ٹھنڈا نہیں ہوتا
جلائی جا چکی ہیں بستیوں کی بستیاں اب تک
دلا کر یادِ رفعت عہدِ ماضی کی، مسلماں کو
تعجب کیا جو طعنہ دے رہی ہیں پستیاں اب تک
شکیبؔ زار کچھ ایسی اُلجھ کر رہ گئی ہستی
نہ سُلجھیں سعیِ پیہم سے بھی اپنی گُتّھیاں اب تک
شکیب جلالی

رنج و غم کی شکار ہے دنیا

مُفلسوں کی پُکار ہے دنیا
رنج و غم کی شکار ہے دنیا
کیا بتاؤں کہ اپنی حالت کی
خود ہی آئینہ دار ہے دنیا
حالِ باطن کسی کو کیا معلوم
ظاہراً دوست دار ہے دنیا
کہہ رہی ہے خزاں کی مایوسی
اک فریبِ بہار ہے دنیا
اُنس و الفت، خلوص و غیرت کا
دامنِ تار تار ہے دنیا
اک زمانہ ہے صد اَلَم بر دوش
جانے کس کی بہار ہے دنیا
ذرہ ذرہ، شکیبؔ، ہے بے چین
قلب کا انتشار ہے دنیا
شکیب جلالی

ہم جس پہ مرمٹے وہ ہمارا نہ ہو سکا

بد قسمتی کو یہ بھی گوارا نہ ہوسکا
ہم جس پہ مرمٹے وہ ہمارا نہ ہو سکا
رہ تو گئی فریبِ مسیحا کی آبرو
ہر چند غم کے ماروں کا چارہ نہ ہو سکا
خوش ہوں کہ بات شورشِ طوفاں کی رہ گئی
اچھا ہوا نصیب کنارا نہ ہو سکا
بے چارگی پہ چارہ گری کی ہیں تہمتیں
اچھا کسی سے عشق کا مارا نہ ہو سکا
کچھ عشق ایسی بخش گیا بے نیازیاں
دل کو کسی کا لُطف گوارا نہ ہو سکا
فرطِ خوشی میں آنکھ سے آنسو نکل پڑے
جب ان کا التفات گوارا نہ ہو سکا
الٹی تو تھی نقاب کسی نے مگر، شکیبؔ
دعووں کے باوجود نظارہ نہ ہو سکا
شکیب جلالی

اک موج وحشیوں پہ سِتَم کی گزر گئی

جس وقت فصلِ گُل کی قَفَس میں خبر گئی
اک موج وحشیوں پہ سِتَم کی گزر گئی
تنکے کی طرح بہ گیا ہر ساحلِ مراد
طوفانِ غم! اُمید کی کشتی کدھر گئی؟
وہ سُن کے میرا قصّہِ غم، ایسے رو دیے
جیسے گُلوں پہ شبنمِ گریاں بکھر گئی
کیا جانیے کہ مجھ کو نہیں اعتماد کیوں
تارے تو کہہ رہے ہیں شبِ غم گُزر گئی
قسمت میں ڈوب جانا ہی تھا ایک دن، شکیبؔ
ہاں ! آبروے شورشِ طوفاں مگر گئی
شکیب جلالی

جرأتِ جذبِ ذوقِ دید مانے تو آزما کے ہم

ان کی نقاب ہی رہے حُسنِ طلب اٹھا کے ہم
جرأتِ جذبِ ذوقِ دید مانے تو آزما کے ہم
جن کو یقین ہی نہ ہو، ان سے اَلم کا ذکر کیا
پُرسشِ حالِ زار پر رہ گئے مسکرا کے ہم
فرطِ خوشی ہے یا فقط وہم و خیال کا سراب
منزلِ زیست کے نشاں کھو سے گئے ہیں پآ کے ہم
خطرہِ برق و باد ہے اور نہ فکرِ آشیاں
بیٹھ گئے ہیں آشیاں اپنا ہی خود جلا کے ہم
زیست کی غم سے نسبتیں کام ہی آج آگئیں
’’ہر غمِ بے پناہ پر رہ گئے مسکرا کے ہم،،
ایسے بھی داغ عشق نے بخشے ہیں قلبِ زار کو
چاہیں بھی گر شکیبؔ تو، رکھ نہ سکیں چھپا کے ہم
شکیب جلالی

بس اک نگاہِ کرم کا اُمیدوار ہوں میں

تمھارے عشق میں مجبور و بے قرار ہوں میں
بس اک نگاہِ کرم کا اُمیدوار ہوں میں
مسرّتیں ہیں زمانے کو، اور الَم مجھ کو
کسی نرالے مصوّر کا شاہکار ہوں میں
کسی کی شانِ کریمی کی لاج رہ تو گئی
گُنَہ نہ کرنے کا بے شک گناہ گار ہوں میں
ستم ظریفیِ دوراں، ارے معاذ اللہ
گُلوں کی طرح سے اک قلبِ داغ دار ہوں میں
تری نگاہِ کرم نے شگفتگی دے دی
وگرنہ دیر کی اُجڑی ہوئی بہار ہوں میں
چلے بھی آئیں خدارا کہ وقتِ آخر ہے
ازل سے آپ کی تصویرِ انتظار ہوں میں
نہ جانے لوگ مجھے کیوں شکیبؔ کہتے ہیں
کسی کی یاد میں ہر وقت بے قرار ہوں میں
شکیب جلالی

بڑا ہی کرم آپ فرما رہے ہیں

وفا کا صلہ ہم جفا پا رہے ہیں
بڑا ہی کرم آپ فرما رہے ہیں
یہ بحرِ حوادث کے پُرشور دھارے
ڈُبو کر مجھے خود بھی پچھتا رہے ہیں
بہار آئی ہے اور آتی رہے گی
مگر وہ گُلِ تر جو مُرجھا رہے ہیں
ابھی عزمِ صحرا نَوردی کہاں ہے
پیاماتِ منزل چلے آرہے ہیں
نہ دنیا، نہ عُقبٰی، نہ خُلد ان کا مسکن
شہیدِ محبت کہاں جا رہے ہیں
غمِ جاوداں ہے محبت کا حاصل
محبت میں ہم زندگی پا رہے ہیں
شکیبؔ! ان کی ہر بات عینِ یقیں ہے
خدا جانے کیوں وہ قسم کھا رہے ہیں
شکیب جلالی

اللہ کو اگر منظور نہ ہو، ہر مقصد باطل ہوتا ہے

کیا چیز ہے یہ سعیِ پیہم، کیا جذبہِ کامل ہوتا ہے!
اللہ کو اگر منظور نہ ہو، ہر مقصد باطل ہوتا ہے
اک ٹیس سی پَیہم پاتا ہوں، کیا اس کو محبت کہتے ہیں !
محسوس مجھے میٹھا میٹھا کچھ درد سا اے دل ہوتا ہے
تسکین کو دھوکا دیتے ہیں، ناکامِ تمنا یہ کہہ کر:
ہر گام پہ منزل ہوتی ہے، ہر موج میں ساحل ہوتا ہے
یہ رنج و الم ہی میرے لیے اب زیست کا عنواں ہیں ہمدم
اس دنیا میں پہلے پہلے ہر کام ہی مشکل ہوتا ہے
تسکین سی کیوں مل جاتی ہے، مضرابِ دستِ شوق مجھے
ہر تارِ گریباں، کیا وحشت کے ساز کا حامل ہوتا ہے
دھیرے دھیرے چلنے والے، یہ راہ روی کو کیا جانیں
جو تھک کر راہ میں بیٹھ گیا ہو، صاحبِ منزل ہوتا ہے؟
کیا کم ہے شکیبؔ زار جو حُسنِ دوست سے نسبت رکھتا ہو
جس دل میں نہ ہو اُلفت کی تڑپ، کس کام کا وہ دل ہوتا ہے
شکیب جلالی

محبت بقدرِ محبت نہیں ہے

زمانے کی پہلی سی فطرت نہیں ہے
محبت بقدرِ محبت نہیں ہے
نقاب اپنے رُخ سے اٹھاتے تو ہیں وہ
مگر میری نظروں کو فرصت نہیں ہے
تلاطم میں پاتا ہوں میں امنِ ساحل
مجھے امنِ ساحل سے نسبت نہیں ہے
یہ ہیں اہلِ دنیا کے دلچسپ دھوکے
کسی کو کسی سے محبت نہیں ہے
نہ ہو جس میں بے لوث کوئی بھی سجدہ
خدا جانے کیا ہے، عبادت نہیں ہے
زمانے میں انساں ہے انساں کا دشمن
یہاں اب خلوص و محبت نہیں ہے
نگاہوں سے ان کی نگاہیں ملائیں
شکیبؔ حزیں ! اتنی فرصت نہیں ہے
شکیب جلالی

کھائے جاتی ہے مگر کیوں دوریِ منزل مجھے

لے کے پہنچے گا کبھی تو جذبہِ کامل مجھے
کھائے جاتی ہے مگر کیوں دوریِ منزل مجھے
یوں تو کہنے کو چلا چلتا ہوں سُوے بزمِ دوست
راس کیوں آنے لگی پابندیِ محفل مجھے
کر رہے تھے کیا، ذرا کھاؤ تو آنکھوں کی قسم
کھیل دل کا کھیلتے تھے دیکھ کر غافل مجھے!
اس طرح اس نے کیا ہے شیشہِ دل چُور چُور
ذرّے ذرّے میں نظر آتا ہے اکثر دل مجھے
تھک کے آخر رہ گئی یہ سوچ کر سعیِ عمل
لے نہ ڈوبے نزدِ ساحل شورشِ ساحل مجھے
اک تلاطم سا بپا ہے ماہ پاروں کے قریب
دیکھ کر شاید بلندی کی طرف مائل مجھے
کیسی کیسی اُلجھنیں ہیں باریابی میں، شکیبؔ
بارگاہِ عشق میں دل کر گیا گھایل مجھے
شکیب جلالی

اے حُکمِ شہریار، کہاں آگیا ہُوں میَں

یہ جھاڑیاں ، یہ خار، کہاں آگیا ہُوں مَیں
اے حُکمِ شہریار، کہاں آگیا ہُوں میَں
ہر عندلیب مرگِ تبسّم پہ نوحہ خواں
ہر پھول سوگوار، کہاں آگیا ہُوں میَں
کیا واقعی نہیں ہے یہ موسیقیوں کا شہر
کیوں چُپ ہیں نغمہ کار، کہاں آگیا ہُوں مَیں
پُھولوں کی سرزمیں ہے نہ خوشبو کی رَہ گزر
اے حسرتِ بہار، کہاں آگیا ہُوں مَیں
جا تو رہا تھا چشمہِ آبِ حیات پر
یہ دُھول، یہ غبار، کہاں آگیا ہُوں مَیں
رَہ زَن مُجھی سے پوچھ رہے ہیں مرا پتا
اے حُسنِ اعتبار! کہاں آگیا ہُوں مَیں
شکیب جلالی

داغِ جگر کو رشکِ گُلستاں بنا دیا

گلہائے صبر و ضبط کا خواہاں بنا دیا
داغِ جگر کو رشکِ گُلستاں بنا دیا
پابندیوں نے موت کا ساماں بنا دیا
قلبِ حزیں کو تلخیِ زنداں بنا دیا
جلووں نے ان کی دید کا ساماں بنا دیا
میرے تصوّرات کو عُریاں بنا دیا
منظور تھی جو شانِ کریمی کو بندگی
خالق نے مُشتِ خاک کو انساں بنا دیا
مایوسیوں نے دل کا سَفینہ ڈبو کے آج
افسوس ایک موج کو طوفاں بنا دیا
اللہ رے فریبِ تصوّر کی خوبیاں
دشواریِ فراق کو آساں بنا دیا
دیکھا شکیبؔ! نقطے جما کر بنائے حَرف
حَرفوں سے شعر، شعر سے دیواں بنا دیا
شکیب جلالی

کیوں میرے دردِ دل کا مُداوا کرے کوئی

وعدوں کو اپنے کس لیے ایفا کرے کوئی
کیوں میرے دردِ دل کا مُداوا کرے کوئی
کس طرح ان کے جَور کا شِکوہ کرے کوئی
توہینِ عشق کیسے گوارا کرے کوئی
پہلو ہزار عیش کے نکلیں گے رنج میں
یہ شرط ہے کہ رنج گوارا کرے کوئی
اے چشمِ شوق یاد بھی ہے داستانِ طُور
جلووں کا ان سے کیسے تقاضا کرے کوئی
اپنی حدوں سے آج گزرتا ہے ذوقِ دید
اب ہو سکے، شکیبؔ، تو پروا کرے کوئی
شکیب جلالی

اُداس چاند ستارو! کوئی تو بات کرو

مریضِ غم کے سہارو! کوئی تو بات کرو
اُداس چاند ستارو! کوئی تو بات کرو
کہاں ہے، ڈوب چکا اب تو ڈوبنے والا
شکستہ دل سے کنارو! کوئی تو بات کرو
مرے نصیب کو بربادیوں سے نسبت ہے
لُٹی ہوئی سی بہارو! کوئی تو بات کرو
کہاں گیا وہ تمھارا بلندیوں کا جنون
بجھے بجھے سے شرارو! کوئی تو بات کرو
اسی طرح سے عجب کیا جو کچھ سُکون ملے
’’غمِ فراق کے مارو! کوئی تو بات کرو،،
تمھارا غم بھی مٹاتی ہیں مستیاں کہ نہیں
شرابِ ناب کے مارو! کوئی تو بات کرو
تمھاری خاک اُڑاتا نہیں شکیبؔ تو کیا
اُداس راہ گزارو! کوئی تو بات کرو
شکیب جلالی

ان کا آنا موت کا گویا بہانہ ہو گیا

آج بیمارِ محبت بھی فسانہ ہو گیا
ان کا آنا موت کا گویا بہانہ ہو گیا
ہر نَفَس پیشِ نظر رہتا ہے حُسنِ رُوے دوست
کیسے کہہ دوں ان کی فُرقت میں زمانہ ہو گیا
کہتے کہتے رُک گئے وہ جانے کیا، میر ے لیے
کچھ دلِ مضطر تعارف غائبانہ ہو گیا
اللہ اللہ جذبہِ بُلبلُ کی رنگ آمیزیاں
حُسنِ الفت سے گُلستاں آشیانہ ہو گیا
وجہِ تسکیں تھا، زمانے میں شکیبؔ زار کو
ایک دل جو تیری نظروں کا نشانہ ہو گیا
شکیب جلالی

کہ تیری یاد میں تیرا وصال ہے تُو ہے

ادھر ہے ضبط، ادھر اک خیال ہے تُو ہے
کہ تیری یاد میں تیرا وصال ہے تُو ہے
مُحال فطرتِ انسان کو ہے پابندی
کہ قیدِ جسمِ شکستہ سا جال ہے تُو ہے
ضیاے ماہ و کواکب ہے جس سے شرمندہ
مرا ہلال بہ اوجِ کمال ہے تُو ہے
ترا جواب کہاں فتنہِ قیامت میں
ستم ستم ہے، کرم اک مثال ہے تُو ہے
شکیبؔ، رات کے تاروں کی مسکراہٹ میں
ترا جلال ہے، تیرا جمال ہے، تُو ہے
شکیب جلالی

غم کا خُوگر بنا دیا تم نے

یہ وفا کا صلہ دیا تم نے
غم کا خُوگر بنا دیا تم نے
جام و مِینا ہے ہر گھڑی درکار
رِند گویا بنا دیا تم نے
ہوشِ دیدار بھی نہیں باقی
کیا نظر سے پلا دیا تم نے
غمِ ہستی اُٹھائے پھرتا ہے
خاک کو کیا بنا دیا تم نے
درد کی لذّتیں، ارے توبہ
مر کے جینا سکھا دیا تم نے
بجلیو! کچھ کمی ہے شاخوں کی
اک نشیمن جلا دیا تم نے
تم سے لطف و کرم کی کیا اُمّید
ہنستے ہنستے رُلا دیا تم نے
درد میں اب خلش نہیں باقی
عینِ درماں بنا دیا تم نے
جس میں پنہاں، شکیبؔ، تھا غمِ دل
وہ فسانہ سُنا دیا تم نے
شکیب جلالی

گھٹا میں چاند آیا جا رہا ہے

نقابِ رُخ اٹھایا جا رہا ہے
گھٹا میں چاند آیا جا رہا ہے
زمانے کی نگاہوں میں سمو کر
مجھے دل سے بُھلایا جا رہا ہے
کہاں کا جام، جب یاں ذوقِ مستی
نگاہوں سے پلایا جا رہا ہے
ابھی اَرمان کچھ باقی ہیں دل میں
مجھے پھر آزمایا جا رہا ہے
پلا کر پھر شرابِ حسن و جلوہ
مجھے بے خود بنایا جا رہا ہے
سلامت آپ کا جورِ مسلسل
مرے دل کو دُکھایا جا رہا ہے
شکیبؔ، اب وہ تصوّر میں نہ آئیں
کلیجا منھ کو آیا جا رہا ہے
شکیب جلالی

تمھیں بھی رُلانے کو جی چاہتا ہے

غمِ دل سنانے کو جی چاہتا ہے
تمھیں بھی رُلانے کو جی چاہتا ہے
یہ میں کس کا نقشِ قدم دیکھتا ہوں
یہ کیوں سر جُھکانے کو جی چاہتا ہے
سُلوکِ زمانہ سے تنگ آگیا ہوں
بیاباں بسانے کو جی چاہتا ہے
غمِ زندگانی سے اُکتا گیا ہوں
مگر غم اٹھانے کو جی چاہتا ہے
کسی فتنہ خُو کی تمنّا تو دیکھو
مجھے بھول جانے کو جی چاہتا ہے
جبیں ہی رہے یا ترا سنگِ در ہی
جنوں آزمانے کو جی چاہتا ہے
شکیبؔ، اس طرح کچھ قفس راس آیا
کہ گلشن جلانے کو جی چاہتا ہے
شکیب جلالی

جام چھلکاؤ اندھیری رات ہے

موسمِ گُل ہے، بھری برسات ہے
جام چھلکاؤ اندھیری رات ہے
رنج و غم میں زندگی پاتا ہوں میں
لطف اُن کا موجبِ صَدمات ہے
اُٹھتے جاتے ہیں نگاہوں سے حجاب
جرأتوں پر عالمِ جذبات ہے
کون سی منزل پہ لے آیا جنوں
اب مجسّم حُسن، میری ذات ہے
گِردِ رُخ زُلفیں ہیں اُن کی یا، شکیبؔ
صبح کو گھیرے اندھیری رات ہے
شکیب جلالی

بنامِ اہلِ چمن

چمن میں ‘ اہلِ چمن! فکرِ رنگ و بُو تو کرو

بجھے بجھے سے شگوفوں کو شعلہ رُو تو کرو

ابھی سے جشنِ بہاراں ! ابھی سے شغلِ جُنوں

کلی کلی کو گلستاں میں سُرخ رُو تو کرو

یہیں پہ لالہ و گُل کا ہجوم دیکھو گے

خلوصِ دل سے بہاروں کی آرزو توکرو

یہ کیا کہ گوشہِ صحرا میں تھک کے بیٹھ گئے

اگر قیام کرو‘ نزدِ آبِ جُو تو کرو

گھنیری چھاؤں کی وادی یہیں کہیں ہو گی

کڑکتی دھوپ میں سایے کی جستجو تو کرو

بلندیوں کے مکینو‘ بہت اُداس ہیں ہم

زمیں پہ آ کے کبھی ہم سے گفتگو تو کرو

تمھیں بھی علم ہو‘ اہلِ وفا پہ کیا گزری

تم اپنے خونِ جگر سے کبھی وضو تو کرو

نہیں ہے ریشم و کمخواب کی قبا‘ نہ سہی

ہمارے دامنِ صَد چاک کو رُفو تو کرو

نگارِ صبحِ گریزاں کی تابشوں کو کبھی

ہمارے خانہِ ظلمت کے رُو برو تو کرو

طلوعِ مہرِ درخشاں ابھی کہاں یارو

سیاہیوں کے افق کو لہو لہو تو کرو

شکیب جلالی

عید کی بھیک

حضور! آپ مرے مائی باپ‘ اَن داتا

حضور! عید کا دن روز تو نہیں آتا

حضور! آج تو نذرِ علیؑ‘ نیازِ رسولؐ

حضور! آپ کے گھر میں ہو رحمتوں کا نزول

حضور! آج ملے جان و مال کی خیرات

حضور! آپ کے اہل و عیال کی خیرات

حضور! احمدِؐ مُرسل کی آلؑ کا صدقہ

حضور! فاطمہؑ زہرا کے لال کا صدقہ

حضور! آپ کی اولاد و آبرو کی خیر

حضور! آپ کے بیٹے کی اور بہو کی خیر

حضور! آپ کے بچے جییں ‘ پھلیں پُھولیں

حضور! آپ عزیزوں کی ہر خوشی دیکھیں

حضور! آپ کو مَولا سدا سُکھی رکھے

حضور! آپ کی جھولی خدا بھری رکھے

حضور! نامِ خدا کارِ خیر فرمائیں

حضور! آپ کے دل کی مُرادیں برآئیں

حضور! آج گداگر کو بھیک مل جائے

حضور! کب سے کھڑا ہوں میں ہاتھ پھیلائے

حضور! آنے‘ دو آنے کی بات ہی کیا ہے

حضور! آنکھیں چُرانے کی بات ہی کیا ہے

حضور! میری صداؤں پہ غور تو کیجیے

فقیر یہ نہیں کہتا‘ گلے لگا لیجے

شکیب جلالی

لہو ترنگ

پہلی آواز
ہمیں قبول نہیں زندگی اسیری کی
ہم آج طوق و سلال کو توڑ ڈالیں گے
ہمارے دیس پہ اغیار حکمراں کیوں ہوں
ہم اپنے ہاتھ میں لوح و فلم سنبھالیں گے
فضا مہیب سہی، مرحلے کٹھن ہی سہی
سفینہ حلقۂ طوفاں سے ہم نکالیں گے
نقوشِ راہ اگر تیرگی میں ڈوب گئے
ہم اپنے خوں سے ہزاروں دیے جلالیں گے
دوسری آواز
جو لوگ لے کے اٹھے ہیں علم بغاوت کا
انھیں خود اپنی ہلاکت پہ نوحہ خواں کر دو
بجھاؤ گرم سلاخوں کو ان کی آنکھوں میں
زبانیں کھینچ لو گُدّی سے، بے زباں کر دو
ہدف بناؤ دلوں کو سلگتے تیروں کا
سِناں سے خیموں کو چھیدو، شکستہ جاں کر دو
محل سرا کی حدوں تک کوئی پہونچ نہ سکے
ہر ایک گام پی ایستادہ سولیاں کر دو
پہلی آواز
یہ غم نہیں کہ سرِ دار آۓ جاتے ہیں
ہمیں خوشی ہے وطن کو جگاۓ جاتے ہیں
ہمارے بعد سہی، رات ڈھل تو جاۓ گی
دلوں میں شمعِ جنوں تو جلاۓ جاتے ہیں
ہمارے نقشِ قدم دیں گے منزلوں کا سُراغ
ہمیں شکست نہ ہو گی بتاۓ جاتے ہیں
جواں رہیں گی ہمارے لہو کی تحریریں
سدا بہار شگوفے کھِلاۓ جاتے ہیں
شکیب جلالی

جشنِ عید

سبھی نے عید منائی مرے گلستاں میں
کسی نے پھول پروۓ، کسی نے خار چُنے
بنامِ اذنِ تکلّم، بنامِ جبرِ سکوت
کسی نے ہونٹ چباۓ، کسی نے گیت بُنے
بڑے غضب کا گلستاں میں جشنِ عید ہوا
کہیں تو بجلیاں کوندیں، کہیں چِنار جلے
کہیں کہیں کوئی فانوس بھی نظر آیا
بطورِ خاص مگر قلبِ داغدار جلے
عجب تھی عیدِ خمستاں، عجب تھا رنگِ نشاط
کسی نے بادہ و ساغر، کسی نے اشک پئے
کسی نے اطلس و کمخواب کی قبا پہنی
کسی نے چاکِ گریباں، کسی نے زخم سئے
ہمارے ذوقِ نظارہ کو عید کے دن بھی
کہیں پہ سایۂ ظلمت کہیں پہ نور ملا
کسی نے دیدہ و دل کے کنول کھِلے پاۓ
کسی کو ساغرِ احساس چکناچور ملا
بہ فیضِ عید بھی پیدا ہوئی نہ یک رنگی
کوئی ملول، کوئی غم سے بے نیاز رہا
بڑا غضب ہے خداوندِ کوثر و تسنیم
کہ روزِ عید بھی طبقوں کا امتیاز رہا
شکیب جلالی

نئی کرن

جہاں پناہ سسکنے لگی چراغ کی لو
شعاعِ تازہ سے چھلنی ہے سینۂ ظلمات
بلند بام ہراسان ہیں رہ نشینوں سے
اک ایسے موڑ پہ آئی ہے گردشِ حالات
جسے بھی دیکھیے لب پر سجائے پھرتا ہے
نرالے دور کا قصہ، اچھوتے دور کی بات
جنہیں تھا حکمِ خموشی وہی پکار اٹھے
ہمیں بھی اذنِ تبسم ہمیں بھی اذنِ حیات
طلب ہوئی ہے جنہیں بے کراں اجالوں کی
سرابِ نجم و قمر سے بہل نہیں سکتے
نئی کرن سے اندھیروں میں برہمی ہی سہی
نئی کرن کو اندھیرے نگل نہیں سکتے
جہاں پناہ جمال سحر کی جوئے رواں
افق افق کو درخشاں بنا کے دم لے گی
پلک پلک سے مٹائے گی داغ اشکوں کے
نظر نظر کو تبسم سکھا کے دم لے گی
خزاں رسیدہ چمن ہوں کہ ریت کے ٹیلے
قدم قدم پہ شگوفے کھِلا کے دم لے گی
ازل سے سینۂ ویراں ہے منتظر جس کا
نفس نفس وہی خوسشبو رچا کے دم لے گی
شکیب جلالی

خداوندانِ جمہُور سے!

عُروسِ صبح سے آفاق ہم کنار سہی

شکستِ سلسلہِ قیدِ انتظار سہی

نگاہِ مہرِ جہاں تاب کیوں ہے شرمندہ

شفق کا رنگ شہیدوں کی یادگار سہی

بکھرتے خواب کی کڑیوں کو آپ چُن دیجے

کیا تھا عہد جو ہم نے وہ پائدار سہی

ہجومِ لالہ و ریحاں سے داد چاہتے ہیں

یہ چاک چاک گریباں گلے کا ہار سہی

گِنے جوزخمِ رگِ جاں ‘ شریکِ جشنِ حیات

پیے جو ساغرِ زہراب بادہ خوار سہی

چمن میں رنگِ طرب کی کوئی کمی نہ رہے

ہمارا خونِ جگر غازہِ بہار سہی

تھکن سے چُور ہیں پاؤں ‘ کہاں کہاں بھٹکیں

ہر ایک گام نیا حُسنِ رہ گزار سہی

سُکوں بدوش کنارا بھی اب اُبھر آئے

سفینہ ہاے دل و جاں بھنور کے پار سہی

شکیب جلالی

شہرِ گُل

کچھ نہ تھا شوخیِ رفتارِ صبا کا حاصل
نکہتِ گل کی پھواروں پہ کڑے پہرے تھے
چپمپئ بیل کے سیال نمو پر قدغن
سرو و سوسن کی قطاروں پہ کڑے پہرے تھے
حلقۂ برق میں ارباب گلستاں محبوس
دم بخود راہ گزاروں پہ کڑے پہرے تھے
دفعتاً شور ہوا ٹوٹ گئیں زنجیریں
زمزمہ ریز ہوئیں مہر بلب تصویریں
دو گھڑی کیلئے گھر گھر میں چراغاں سا ہوا
جیسے ضو کاریِ انجم پہ کوئی قید نہیں
بند کلیوں نے تراشیدہ لبوں کو کھولا
پھول سمجھے کہ تبسّم پہ کوئی قید نہیں
گھنگریاں باندھ کے پیروں میں صبا اٹھلائی
جیسے اندازِ ترنّم پہ کوئی قید نہیں
یہ فقط خواب تھا اس خواب کی تعبیر بھی ہے
شہرِ گل میں کوئی ہنستی ہوئی تصویر بھی ہے
شکیب جلالی

ہمارا دَور

گُلوں میں حُسن‘ شگوفوں میں بانکپن ہو گا

وہ وقت دُور نہیں جب چمن چمن ہو گا

جہاں پہ آج بگولوں کا رقص جاری ہے

وہیں پہ سایہِ شمشاد و نسترن ہو گا

فضائیں زرد لَبادے اُتار پھینکیں گی

عروسِ وقت کا زَرکار پیرہن ہو گا

نسیمِ صبح کے جھونکے جواب دہ ہو ں گے

کسی کلی کا بھی ماتھا جو پُر شکن ہو گا

نئے اصول نئی منزلیں تراشیں گے

یہ قافلہ مہ و انجم میں خیمہ زَن ہو گا

بڑے سُکون سے تعمیرِ زندگی ہو گی

کہیں یزید‘ نہ آزر‘ نہ اہرمن ہو گا

بُتانِ عصر کے خالق کو باخبر کردو

نئے زمانے کا ہر فرد بُت شکن ہو گا

دُکھے دلوں کی خراشیں جو کرسکے محسوس

اک ایسا صاحبِ دل صدرِ انجمن ہو گا

ہمارا دَور مساوات لے کے آئے گا

ہمارے دَور میں ہر آدمی مگن ہو گا

شکیب جلالی

زاویے

رات تھی میں تھا اور اک میری سوچ کا جال
پاس سے گزرے تین مسافر دھیمی چال
پہلا بولا مت پوچھو اس کا احوال
دیکھ لو تن پر خون کی فرغل، خون کی شال
دوسرا بولا۔۔ ۔ ۔ اور ہی کچھ ہے میرا خیال
یہ تو خزاں کا چاند ہے گھائل غم سے نڈھال
تیسرا بولا۔۔ ۔ بس یوں سمجھو اس کی مثال
اندھیارے کے بن میں جیسے شب کا غزال
ان کی روح تھی خود کالی پیلی اور لال
میرا وجود ہے ورنہ اب تک ایک سوال
شکیب جلالی

دعوتِ فکر

کس طرح ریت کے سمندر میں
کشتیِ زیست ہے رواں، سوچو
سن کے بادِ صبا کی سرگوشی
کیوں لرزتی ہیں پتیاں۔۔ ، سوچو
پتھروں کی پناہ میں کیوں ہے
آئینہ ساز کی دوکاں، سوچو
اصل سر چشمۂ وفا کیا ہے
وجہِ بے مہریِ بتاؓ سوچو
ذوقِ رعمیر کیوں نہیں مٹتا
کیوں اُجڑتی ہیں بستیاں سوچو
فکر سقراط ہے کہ زہر کا گھونٹ
باعثِ عمرِ جاوداں سوچو
لوگ معنی تلاش ہی لیں گے
کوئی بت ربط داستاں سوچو
شکیب جلالی

عکس اور میں

آب جُو میں اک طلسمی عکس ابھرا تھا ابھی

دہکے عارض۔۔ ۔ آئینے میں تیز شعلوں کی ضیا

احمریں لب۔ ۔ ۔ ۔ زخمِ تازہ موجِ خوں سے آشنا

تیکھے ابرو۔۔ ۔ کالی راتوں کا ملائم ڈھیر سا

بہتی افشاں۔ ۔ ۔ ۔ جگمگاتی مشعلوں کا قافلہ

گہری آنکھیں۔ ۔ ۔ ۔ دور تک منظر سہانے خواب کا

آب حو میں اک طلسمی عکس ابھرا تھا ابھی

نقرئی پانی کے جو آنچل میں جھلمل کر رہی تھی، کون تھی

حور تھی تخئیل کے رمنوں کی یا وہ جل پری تھی، کون تھی۔۔ ۔ ؟

اس پہیلی کی گرہ کھلنے سے پہلے ہی نگاہوں پر مری

ریشمیں قدموں کی آہٹ سے خلا کی سبز چلمن آگری

آب جو میں اک طلسمی عکس ابھرا تھا ابھی

یا کفِ ساحل پہ میرے نقش پا تھے اور بس

شکیب جلالی

اِنفرادیت پرست

ایک انساں کی حقیقت کیا ہے

زندگی سے اسے نسبت کیا ہے

آندھی اُٹھے تو اُڑا لے جائے

موج بپھرے تو بہا لے جائے

ایک انساں کی حقیقت کیا ہے

ڈگمگائے تو سہارا نہ ملے

سامنے ہو پہ کنا را نہ ملے

ایک انساں کی حقیقت کیا ہے

کُند تلوار قلم کر ڈالے

سرد شعلہ ہی بھسم کر ڈالے

زندگی سے اسے نسبت کیا ہے

ایک انساں کی حقیقت کیا ہے

شکیب جلالی

سفیر

میں روشنی کا مُغنّی کرن کرن کا سفیر
وہ سیلِ مہ سے کہ رودِ شرار سے آئے
وہ جامِ مے سے کہ چشمِ نگار سے آئے
وہ موجِ باد سے یا آبشار سے آئے
وہ دستِ گل سے کہ پائے فگار سے آئے
وہ لوحِ جاں سے کہ طاقِ مزار سے آئے
وہ قصرِ خواب سے یا خاک زار سے آئے
وہ برگِ سبز سے یا چوبِ دار سے آئے
جہاں کہیں ہو دلِ داغ دار کی تنویر
وہیں کھلیں مری بانہیں، وہیں کٹے زنجیر
شکیب جلالی

لرزتا دیپ

دودِ شب کا سرد ہاتھ

آسماں کے خیمۂ زنگار کی

آخری قندیل گُل کرنے بڑھا

اور کومل چاندنی

ایک دربستہ گھروندے سے پرے

مضمحل پیڑوں پہ گر کر بجھ گئی

بے نشاں سائے کی دھیمی چاپ پر

اونگھتے رستے کے ہر ذرے نے پل بھر کیلئے

اپنی پلکوں کی بجھی درزوں سے جھانکا

اور آنکھیں موندلیں

اس سمے طاق شکستہ پر لرزتے دیپ سے

میں نے پوچھا

ہم نفس

اب ترے بجھنے میں کتنی دیر ہے؟

شکیب جلالی

گریزپا

دھیرے دھیرے گررہی تھیں نخلِ شب سے چاندنی کی پتّیاں

بہتے بہتے اَبر کا ٹکڑا کہیں سے آگیا تھا درمیاں

مِلتے مِلتے رہ گئی تھیں مخملیں سبزے پہ دو پرچھائیاں

جس طرح سپنے کے جُھولے سے کوئی اندھے کنویں میں جاگرے

ناگہاں کَجلا گئے تھے شرمگیں آنکھوں کے نُورانی دِیے

جس طرح شورِ جَرَس سے کوئی واماندہ مسافر چونک اُٹھے

یک بیک گھبرا کے وہ نکلی تھی میرے بازوؤں کی قید سے

لب سُلگتے رہ گئے تھے ‘ چِھن گیا تھا جام بھی

اور میری بے بسی پر ہنس پڑی تھی چاندنی

آج تک احساس کی چلمن سے الجھا ہے یہ مبہم سا سوال

اُس نے آخر کیوں بُنا تھا بہکی نظروں سے حَسیں چاہت کا جال؟

شکیب جلالی

جاگتی آنکھیں

کس کو گماں تگھا‏ اک نقطے کی آغوش اتنی کشادہ ہو گی

جس میں انت سرے تک رنگ بھری پہنائی

گھل مل کر رہ جاۓ گی

کس کو خبر تھی، انجانے پن کی گرد لبادہ ہو گی

جس کے صدیوں کی سر بستہ دانائی

اپنی چھب دکھلاۓ گی

کس کو یقیں تھا، دور کے لمس کی تاثیر اتنی زیادہ ہو گی

جس سے سنگیں پیکر میں جامِد رعنائی

روح کی ندرت پاۓ گی

ایسی انھونی باتوں میں سچ کی کرنیں ٹانک چکا ہوں

میں ان جاگتی آنکھوں کے گمبھیر طلسم میں جھانک چکا ہوں

شکیب جلالی

یاد

رات اک لڑکھڑاتے جھونکے سے
ناگہاں سنگ سرخ کی سل پر
آئینہ گر کے پاش پاش ہوا
اور ننھی نکیلی کرچوں کی
ایک بوجھاڑ دل کو چیر گئی
شکیب جلالی

دلاسہ

ہم ملے کب تھے

جدائی پر جو ہوں ویراں نگاہ و غم بجاں

ہات میں ہو نرم ہات

لب ہوں لب پر مہرباں

اس پہ کیا موگوف ہے ربطِ بہم کی داستاں

رہگزارِ خاک پر

دور سے دو رویہ پیڑوں کی قطاریں

لاکھ آتی ہوں نظر

اپنے سر جوڑے ہوۓ

درمیاں ان کے مگر

کب نہ حائل تھا غبارِ رہگزر

ہم ملے کب تھے

جدائی پر جو ہوں ویراں نگاہ و چشمِ تر

شکیب جلالی

جہت کی تلاش

یہاں درخت کے اُوپر اُگا ہوا ہے درخت

زمین تنگ ہے (جیسے کبھی فراخ نہ تھی)

ہَوا کا کال پڑا ہے‘ نمی بھی عام نہیں

سمندروں کو بِلو کر‘ فضاؤں کو مَتھ کر

جنم دیے ہیں اگر چند ابر کے ٹکڑے

جھپٹ لیا ہے اُنھیں یوں دراز شاخوں نے

کہ نیم جان تنے کو ذرا خبر نہ ہوئی

جڑیں بھی خاک تلے ایک ہی لگن میں رواں

نہ تیرگی سے مَفَر ہے‘ نہ روشنی کا سوال

زمیں میں پاؤں دھنسے ہیں ‘ فضا میں ہات بلند

نئی جہت کا لگے اب درخت میں پیوند

شکیب جلالی

اِندمال

شام کی سیڑھیاں کتنی کرنوں کا مقتل بنیں

بادِمسموم نے توڑ کر کتنے پتّے سپردِ خزاں کر دیے

بہہ کے مشکیزہِ اَبر سے کتنی بوندیں زمیں کی غذا بن گئیں

غیر ممکن تھا ان کا شمار

تھک گئیں گننے والے ہر اک ہاتھ کی اُنگلیاں

’’ان گنت‘ ‘ کہہ کے آگے بڑھا وقت کاکارواں

ان گنت تھے مرے زخمِ دل

ٹوٹی کرنوں ‘ بکھرتے ہوئے زرد پتّوں ‘ برستی ہوئی بوندیوں کی طرح

اور مرہم بھی ناپَید تھا

لیکن اس روز دیکھا جو اک طفلِ نوزائیدہ کا خندہِ زیرِلَب

زخمِ دل مُندمل ہو گئے سب کے سب!

شکیب جلالی

پاداش

کبھی اس سبک رو ندی کے کنارے گئے ہی نہیں ہو

تمہیں کیا خبر ہے

وہاں ان گنت کھردرے پتھروں کو

سجل پانیوں نے

ملائم رسلیے مدھر گیت گا کر

امٹ چکنی گولائیوں کو ادا سونپ دی ہے

وہ پتھر نہیں تھا

جسے تم نے بے ڈول ان گھڑ سمجھ کر

پرانی چٹانوں سے ٹکرا کے توڑا

اب اس کے سلگتے تراشے

اگر پاؤں میں چبھ گئے ہیں

تو کیوں چیختے ہو؟

شکیب جلالی

اپنے حالات سے مجبور ہیں دوست

پاس رہ کر بھی بہت دور ہیں دوست
اپنے حالات سے مجبور ہیں دوست
ترکِ الفت بھی نہیں کر سکتے
ساتھ دینے سے بھی معذور ہیں دوست
گفتگو کے لئے عنواں بھی نہیں
بات کرنے پہ بھی مجبور ہیں دوست
یہ چراغ اپنے لیے رہنے دو
تیری راتیں بھی تو بے نور ہیں دوست
سبھی پژمردہ ہیں محفل میں شکیبؔ
میں پریشان ہوں رنجور ہیں دوست
شکیب جلالی