زمرہ جات کے محفوظات: شکیب جلالی
سر بہ سجدہ ہے آگہی توبہ
ان کی توقیر بن گیا ہوں میں
غم بہ اندازِ شادکامی ہے
تیرے جگ کی ریت نرالی
آمدِ صبحِ شب اندام پہ رونا آیا
زخمی نظر سے چُوم لیا خار خار کو
دنیا کو ہم بہ حُسنِ نظر دیکھتے رہے
میرا دل لُطفِ مسرّت کا سزاوار نہ ہو
اک بار قیدیوں پہ قیامت گزر گئی
ہم غمِ بے کنار کھو بیٹھے
آشناؤں نے مل کے لوٹ لیا
صحرا میں گلاب پل رہے ہیں
میں ہوں کہیں، غبار کہیں، ہم سفر کہیں
وہ چار پھول کہ جو حاصلِ بہار رہے
میرا ہر فقرہ مکمل داستاں ہو جائے گا
حیات صَرفِ خرابات ہو گئی ہو گی
ہم نے ایسے راگ سُنے
شمع بن جاؤ رات اندھیری ہے
جس سے ملے ہم دل سے مِلے
ہر گُلِ تر کی آنکھ بھر آئی
نگاہوں سے بیاں دل کی کہانی اب بھی ہوتی ہے
لذتِ غم وہی تو پائیں گے
آپ سے ہاں ! مگر نہیں ہوتے
راز داں اب قریب آ جائیں
ہم نے گرا دیا جسے اپنی نگاہ سے
کیجیے خم کار زلفوں کو پریشان کیجیے
مُرجھا رہے ہیں پھول بہاروں کے سائے میں
عنوان دو ہیں اور مکمل فسانہ ہے
خدا گواہ بہاروں میں آگ لگ جائے
چشمِ مے گوں تری یاد آئی ہے
حُسن کی زندگی محبت ہے
اب جمالات سے بغاوت ہے
حسن کے راز دار ہیں ہم لوگ
کب آزاد ہے زندگی کا سَفینہ
نوازیں گے بڑھ کر اسے خود کنارے
اک نیا دور ہو ساقی، نئے پیمانے کا
عشق کا احترام کرتے ہیں
جنوں نواز بہاروں کی کوئی بات کرو
بہر صورت نمایاں گلستاں در گلستاں ہم ہیں
مری توبہ کی خیر برسات آئی
وگرنہ عُذر نہ تھا آپ کو سُنانے میں
کسی کے جلووں کی زَد پہ نظروں کا امتحاں یاد آرہا ہے
بُجھ رہی تھی شمعِ محفل، رقص میں پروانہ تھا
آرزو میں بھی سادگی نہ رہی
جلوے کسی کے، میری نظر نے سنوار کے
میں خوش ہوں اس لیے کہ کوئی مہرباں نہیں
اک چراغِ رہ گزر ہے جو مری منزل میں ہے
نظر ہی سے ساقی شراب اٹھتے اٹھتے
رشک کرتی ہیں فضائیں بھی شبستانوں کی
خود کو اتنا سمجھ کے بھول گئے
کچھ اور بخش ڈالے انداز دل کشی کے
دیوانوں کی تکراروں سے، خاموشیِ بیاباں ٹوٹ گئی
دنیاے تخیّل مری آباد نہیں ہے
مٹے ہیں لاکھوں ستارے ہی کہکشاں کے لیے
بہکے بہکے جو یہ مے خوار نظر آتے ہیں
کیوں ہنس رہے ہو چاند ستارو، جواب دو
گو کہ مُشتِ غُبار ہے انساں
نہ جانے مٹ چکی ہیں کیسی کیسی ہستیاں اب تک
رنج و غم کی شکار ہے دنیا
ہم جس پہ مرمٹے وہ ہمارا نہ ہو سکا
اک موج وحشیوں پہ سِتَم کی گزر گئی
جرأتِ جذبِ ذوقِ دید مانے تو آزما کے ہم
بس اک نگاہِ کرم کا اُمیدوار ہوں میں
بڑا ہی کرم آپ فرما رہے ہیں
اللہ کو اگر منظور نہ ہو، ہر مقصد باطل ہوتا ہے
محبت بقدرِ محبت نہیں ہے
کھائے جاتی ہے مگر کیوں دوریِ منزل مجھے
اے حُکمِ شہریار، کہاں آگیا ہُوں میَں
داغِ جگر کو رشکِ گُلستاں بنا دیا
کیوں میرے دردِ دل کا مُداوا کرے کوئی
اُداس چاند ستارو! کوئی تو بات کرو
ان کا آنا موت کا گویا بہانہ ہو گیا
کہ تیری یاد میں تیرا وصال ہے تُو ہے
غم کا خُوگر بنا دیا تم نے
گھٹا میں چاند آیا جا رہا ہے
تمھیں بھی رُلانے کو جی چاہتا ہے
جام چھلکاؤ اندھیری رات ہے
بنامِ اہلِ چمن
چمن میں ‘ اہلِ چمن! فکرِ رنگ و بُو تو کرو
بجھے بجھے سے شگوفوں کو شعلہ رُو تو کرو
ابھی سے جشنِ بہاراں ! ابھی سے شغلِ جُنوں
کلی کلی کو گلستاں میں سُرخ رُو تو کرو
یہیں پہ لالہ و گُل کا ہجوم دیکھو گے
خلوصِ دل سے بہاروں کی آرزو توکرو
یہ کیا کہ گوشہِ صحرا میں تھک کے بیٹھ گئے
اگر قیام کرو‘ نزدِ آبِ جُو تو کرو
گھنیری چھاؤں کی وادی یہیں کہیں ہو گی
کڑکتی دھوپ میں سایے کی جستجو تو کرو
بلندیوں کے مکینو‘ بہت اُداس ہیں ہم
زمیں پہ آ کے کبھی ہم سے گفتگو تو کرو
تمھیں بھی علم ہو‘ اہلِ وفا پہ کیا گزری
تم اپنے خونِ جگر سے کبھی وضو تو کرو
نہیں ہے ریشم و کمخواب کی قبا‘ نہ سہی
ہمارے دامنِ صَد چاک کو رُفو تو کرو
نگارِ صبحِ گریزاں کی تابشوں کو کبھی
ہمارے خانہِ ظلمت کے رُو برو تو کرو
طلوعِ مہرِ درخشاں ابھی کہاں یارو
سیاہیوں کے افق کو لہو لہو تو کرو
عید کی بھیک
حضور! آپ مرے مائی باپ‘ اَن داتا
حضور! عید کا دن روز تو نہیں آتا
حضور! آج تو نذرِ علیؑ‘ نیازِ رسولؐ
حضور! آپ کے گھر میں ہو رحمتوں کا نزول
حضور! آج ملے جان و مال کی خیرات
حضور! آپ کے اہل و عیال کی خیرات
حضور! احمدِؐ مُرسل کی آلؑ کا صدقہ
حضور! فاطمہؑ زہرا کے لال کا صدقہ
حضور! آپ کی اولاد و آبرو کی خیر
حضور! آپ کے بیٹے کی اور بہو کی خیر
حضور! آپ کے بچے جییں ‘ پھلیں پُھولیں
حضور! آپ عزیزوں کی ہر خوشی دیکھیں
حضور! آپ کو مَولا سدا سُکھی رکھے
حضور! آپ کی جھولی خدا بھری رکھے
حضور! نامِ خدا کارِ خیر فرمائیں
حضور! آپ کے دل کی مُرادیں برآئیں
حضور! آج گداگر کو بھیک مل جائے
حضور! کب سے کھڑا ہوں میں ہاتھ پھیلائے
حضور! آنے‘ دو آنے کی بات ہی کیا ہے
حضور! آنکھیں چُرانے کی بات ہی کیا ہے
حضور! میری صداؤں پہ غور تو کیجیے
فقیر یہ نہیں کہتا‘ گلے لگا لیجے
لہو ترنگ
جشنِ عید
نئی کرن
خداوندانِ جمہُور سے!
عُروسِ صبح سے آفاق ہم کنار سہی
شکستِ سلسلہِ قیدِ انتظار سہی
نگاہِ مہرِ جہاں تاب کیوں ہے شرمندہ
شفق کا رنگ شہیدوں کی یادگار سہی
بکھرتے خواب کی کڑیوں کو آپ چُن دیجے
کیا تھا عہد جو ہم نے وہ پائدار سہی
ہجومِ لالہ و ریحاں سے داد چاہتے ہیں
یہ چاک چاک گریباں گلے کا ہار سہی
گِنے جوزخمِ رگِ جاں ‘ شریکِ جشنِ حیات
پیے جو ساغرِ زہراب بادہ خوار سہی
چمن میں رنگِ طرب کی کوئی کمی نہ رہے
ہمارا خونِ جگر غازہِ بہار سہی
تھکن سے چُور ہیں پاؤں ‘ کہاں کہاں بھٹکیں
ہر ایک گام نیا حُسنِ رہ گزار سہی
سُکوں بدوش کنارا بھی اب اُبھر آئے
سفینہ ہاے دل و جاں بھنور کے پار سہی
شہرِ گُل
ہمارا دَور
گُلوں میں حُسن‘ شگوفوں میں بانکپن ہو گا
وہ وقت دُور نہیں جب چمن چمن ہو گا
جہاں پہ آج بگولوں کا رقص جاری ہے
وہیں پہ سایہِ شمشاد و نسترن ہو گا
فضائیں زرد لَبادے اُتار پھینکیں گی
عروسِ وقت کا زَرکار پیرہن ہو گا
نسیمِ صبح کے جھونکے جواب دہ ہو ں گے
کسی کلی کا بھی ماتھا جو پُر شکن ہو گا
نئے اصول نئی منزلیں تراشیں گے
یہ قافلہ مہ و انجم میں خیمہ زَن ہو گا
بڑے سُکون سے تعمیرِ زندگی ہو گی
کہیں یزید‘ نہ آزر‘ نہ اہرمن ہو گا
بُتانِ عصر کے خالق کو باخبر کردو
نئے زمانے کا ہر فرد بُت شکن ہو گا
دُکھے دلوں کی خراشیں جو کرسکے محسوس
اک ایسا صاحبِ دل صدرِ انجمن ہو گا
ہمارا دَور مساوات لے کے آئے گا
ہمارے دَور میں ہر آدمی مگن ہو گا
زاویے
دعوتِ فکر
عکس اور میں
آب جُو میں اک طلسمی عکس ابھرا تھا ابھی
دہکے عارض۔۔ ۔ آئینے میں تیز شعلوں کی ضیا
احمریں لب۔ ۔ ۔ ۔ زخمِ تازہ موجِ خوں سے آشنا
تیکھے ابرو۔۔ ۔ کالی راتوں کا ملائم ڈھیر سا
بہتی افشاں۔ ۔ ۔ ۔ جگمگاتی مشعلوں کا قافلہ
گہری آنکھیں۔ ۔ ۔ ۔ دور تک منظر سہانے خواب کا
آب حو میں اک طلسمی عکس ابھرا تھا ابھی
نقرئی پانی کے جو آنچل میں جھلمل کر رہی تھی، کون تھی
حور تھی تخئیل کے رمنوں کی یا وہ جل پری تھی، کون تھی۔۔ ۔ ؟
اس پہیلی کی گرہ کھلنے سے پہلے ہی نگاہوں پر مری
ریشمیں قدموں کی آہٹ سے خلا کی سبز چلمن آگری
آب جو میں اک طلسمی عکس ابھرا تھا ابھی
یا کفِ ساحل پہ میرے نقش پا تھے اور بس
اِنفرادیت پرست
ایک انساں کی حقیقت کیا ہے
زندگی سے اسے نسبت کیا ہے
آندھی اُٹھے تو اُڑا لے جائے
موج بپھرے تو بہا لے جائے
ایک انساں کی حقیقت کیا ہے
ڈگمگائے تو سہارا نہ ملے
سامنے ہو پہ کنا را نہ ملے
ایک انساں کی حقیقت کیا ہے
کُند تلوار قلم کر ڈالے
سرد شعلہ ہی بھسم کر ڈالے
زندگی سے اسے نسبت کیا ہے
ایک انساں کی حقیقت کیا ہے
سفیر
لرزتا دیپ
دودِ شب کا سرد ہاتھ
آسماں کے خیمۂ زنگار کی
آخری قندیل گُل کرنے بڑھا
اور کومل چاندنی
ایک دربستہ گھروندے سے پرے
مضمحل پیڑوں پہ گر کر بجھ گئی
بے نشاں سائے کی دھیمی چاپ پر
اونگھتے رستے کے ہر ذرے نے پل بھر کیلئے
اپنی پلکوں کی بجھی درزوں سے جھانکا
اور آنکھیں موندلیں
اس سمے طاق شکستہ پر لرزتے دیپ سے
میں نے پوچھا
ہم نفس
اب ترے بجھنے میں کتنی دیر ہے؟
گریزپا
دھیرے دھیرے گررہی تھیں نخلِ شب سے چاندنی کی پتّیاں
بہتے بہتے اَبر کا ٹکڑا کہیں سے آگیا تھا درمیاں
مِلتے مِلتے رہ گئی تھیں مخملیں سبزے پہ دو پرچھائیاں
جس طرح سپنے کے جُھولے سے کوئی اندھے کنویں میں جاگرے
ناگہاں کَجلا گئے تھے شرمگیں آنکھوں کے نُورانی دِیے
جس طرح شورِ جَرَس سے کوئی واماندہ مسافر چونک اُٹھے
یک بیک گھبرا کے وہ نکلی تھی میرے بازوؤں کی قید سے
لب سُلگتے رہ گئے تھے ‘ چِھن گیا تھا جام بھی
اور میری بے بسی پر ہنس پڑی تھی چاندنی
آج تک احساس کی چلمن سے الجھا ہے یہ مبہم سا سوال
اُس نے آخر کیوں بُنا تھا بہکی نظروں سے حَسیں چاہت کا جال؟
جاگتی آنکھیں
کس کو گماں تگھا اک نقطے کی آغوش اتنی کشادہ ہو گی
جس میں انت سرے تک رنگ بھری پہنائی
گھل مل کر رہ جاۓ گی
کس کو خبر تھی، انجانے پن کی گرد لبادہ ہو گی
جس کے صدیوں کی سر بستہ دانائی
اپنی چھب دکھلاۓ گی
کس کو یقیں تھا، دور کے لمس کی تاثیر اتنی زیادہ ہو گی
جس سے سنگیں پیکر میں جامِد رعنائی
روح کی ندرت پاۓ گی
ایسی انھونی باتوں میں سچ کی کرنیں ٹانک چکا ہوں
میں ان جاگتی آنکھوں کے گمبھیر طلسم میں جھانک چکا ہوں
یاد
دلاسہ
ہم ملے کب تھے
جدائی پر جو ہوں ویراں نگاہ و غم بجاں
ہات میں ہو نرم ہات
لب ہوں لب پر مہرباں
اس پہ کیا موگوف ہے ربطِ بہم کی داستاں
رہگزارِ خاک پر
دور سے دو رویہ پیڑوں کی قطاریں
لاکھ آتی ہوں نظر
اپنے سر جوڑے ہوۓ
درمیاں ان کے مگر
کب نہ حائل تھا غبارِ رہگزر
ہم ملے کب تھے
جدائی پر جو ہوں ویراں نگاہ و چشمِ تر
جہت کی تلاش
یہاں درخت کے اُوپر اُگا ہوا ہے درخت
زمین تنگ ہے (جیسے کبھی فراخ نہ تھی)
ہَوا کا کال پڑا ہے‘ نمی بھی عام نہیں
سمندروں کو بِلو کر‘ فضاؤں کو مَتھ کر
جنم دیے ہیں اگر چند ابر کے ٹکڑے
جھپٹ لیا ہے اُنھیں یوں دراز شاخوں نے
کہ نیم جان تنے کو ذرا خبر نہ ہوئی
جڑیں بھی خاک تلے ایک ہی لگن میں رواں
نہ تیرگی سے مَفَر ہے‘ نہ روشنی کا سوال
زمیں میں پاؤں دھنسے ہیں ‘ فضا میں ہات بلند
نئی جہت کا لگے اب درخت میں پیوند
اِندمال
شام کی سیڑھیاں کتنی کرنوں کا مقتل بنیں
بادِمسموم نے توڑ کر کتنے پتّے سپردِ خزاں کر دیے
بہہ کے مشکیزہِ اَبر سے کتنی بوندیں زمیں کی غذا بن گئیں
غیر ممکن تھا ان کا شمار
تھک گئیں گننے والے ہر اک ہاتھ کی اُنگلیاں
’’ان گنت‘ ‘ کہہ کے آگے بڑھا وقت کاکارواں
ان گنت تھے مرے زخمِ دل
ٹوٹی کرنوں ‘ بکھرتے ہوئے زرد پتّوں ‘ برستی ہوئی بوندیوں کی طرح
اور مرہم بھی ناپَید تھا
لیکن اس روز دیکھا جو اک طفلِ نوزائیدہ کا خندہِ زیرِلَب
زخمِ دل مُندمل ہو گئے سب کے سب!
پاداش
کبھی اس سبک رو ندی کے کنارے گئے ہی نہیں ہو
تمہیں کیا خبر ہے
وہاں ان گنت کھردرے پتھروں کو
سجل پانیوں نے
ملائم رسلیے مدھر گیت گا کر
امٹ چکنی گولائیوں کو ادا سونپ دی ہے
وہ پتھر نہیں تھا
جسے تم نے بے ڈول ان گھڑ سمجھ کر
پرانی چٹانوں سے ٹکرا کے توڑا
اب اس کے سلگتے تراشے
اگر پاؤں میں چبھ گئے ہیں
تو کیوں چیختے ہو؟