ٹیگ کے محفوظات: بستیاں

نہ جانے مٹ چکی ہیں کیسی کیسی ہستیاں اب تک

زمانے میں نہیں باقی کوئی نام و نشاں اب تک
نہ جانے مٹ چکی ہیں کیسی کیسی ہستیاں اب تک
متاع و مال کیا، عزت بچا لینا بھی مشکل ہے
مسلمانوں کا قدرت لے رہی ہے امتحاں اب تک
ستم کوشی پہ نازاں ہیں یہ کُفر و شِرک کے بندے
الٰہی کیسے قائم ہیں زمین و آسماں اب تک
جُھلس دینے پہ بھی مُسلم کو، دل ٹھنڈا نہیں ہوتا
جلائی جا چکی ہیں بستیوں کی بستیاں اب تک
دلا کر یادِ رفعت عہدِ ماضی کی، مسلماں کو
تعجب کیا جو طعنہ دے رہی ہیں پستیاں اب تک
شکیبؔ زار کچھ ایسی اُلجھ کر رہ گئی ہستی
نہ سُلجھیں سعیِ پیہم سے بھی اپنی گُتّھیاں اب تک
شکیب جلالی

پاؤں سے ہواؤں کے، بیڑیاں نہیں کھلتیں

پروین شاکر ۔ غزل نمبر 58
شوقِ رقص سے جب تک انگلیاں نہیں کھلتیں
پاؤں سے ہواؤں کے، بیڑیاں نہیں کھلتیں
پیڑ کو دعا دے کر، کٹ گئی بہاروں سے
پھول اتنے بڑھ آئے کھڑکیاں نہیں کھلتیں
پھول بن کر سیروں میں اور کون شامل تھا
شوخیِ صبا سے تو بالیاں نہیں کھلتیں
حسن کے سمجھنے کو عمر چاہیے جاناں
دو گھڑی کی چاہت میں لڑکیاں نہیں کھلتیں
کوئی موجہ ءِ شیریں چوم کر جگائے گی
سورجوں کے نیزوں سے سیپیاں نہیں کھلتیں
ماں سے کیا کہیں گی دکھ ہجر کا کہ خود پر بھی
اتنی چھوٹی عمروں کی بچیاں نہیں کھلتیں
شاخ شاخ سرگرداں کس کی جستجو میں ہیں
کون سے سفر میں ہیں تتلیاں نہیں کھلتیں
آدھی رات کی چپ میں کس کی چاپ ابھرتی ہے
چھت پہ کون آتا ہے، سیڑھیاں نہیں کھلتیں
پانیوں کے چڑھنے تک حال کہہ سکیں اور پھر
کیا قیامتیں گزریں، بستیاں نہیں کھلتیں
پروین شاکر

نیند چنتے ہُوئے ہاتھ ہی تھک گئے وہ بھی جب آنکھ کی سوئیاں رہ گئیں

پروین شاکر ۔ غزل نمبر 57
عُمر بھر کے لیے اب تو سوئی کی سوئی ہی معصوم شہزادیاں رہ گئیں
نیند چنتے ہُوئے ہاتھ ہی تھک گئے وہ بھی جب آنکھ کی سوئیاں رہ گئیں
لوگ گلیوں سے ہوکر گُزرتے رہے ، کوئی ٹھٹکا ، نہ ٹھہرا ، نہ واپس ہوا
اَدھ کُھلی کھڑکیوں سے لگی ، شام سے راہ تکتی ہُوئی لڑکیاں رہ گئیں
پاؤں چُھوکر پُجاری الگ ہو گئے ، نیم تاریک مندر کی تنہائی میں
آگ بنتی ہُوئی تن کی نو خیز خوشبو سمیٹے ہُوئے دیویاں رہ گئیں
وہ ہَوا تھی کہ کچّے مکانوں کی چھت اُڑ گئی ، اور مکیں لاپتہ ہو گئے
اب تو موسم کے ہاتھوں خزاں میں اُجڑنے کو بس خواب کی بستیاں رہ گئیں
آخرِ کار لو وہ بھی رخصت ہُوا، ساری سکھیاں بھی اب اپنے گھرکی ہوئیں
زندگی بھر کو فن کار سے گفتگو کے لیے صرف تنہائیاں رہ گئیں
شہرِ گُل ہَواؤں نے چاروں طرف ، اس قدر ریشمیں جال پھیلا دیے
تھر تھراتے پروں میں شکستہ اُڑانیں سمیٹے ہُوئے تتلیاں رہ گئیں
اجنبی شہر کی اوّلیں شام ڈھلنے لگی ، پُرسہ دینے جو آئے گئے
جلتے خیموں کی بجھتی ہُوئی راکھ پر بال کھولے ہُوئے بیبیاں رہ گئیں
پروین شاکر

یہی خیال تھا آئندگاں ہمارا بھی

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 228
زمیں پہ ہو گا کہیں آسماں ہمارا بھی
یہی خیال تھا آئندگاں ہمارا بھی
خبر نہیں کہ ہمیں بھی ہوا کہاں لے جائے
کھلا ہوا ہے ابھی بادباں ہمارا بھی
بہت ہے یہ بھی کہ موجوں کے روبرو کچھ دیر
رہا ہے ریگِ رواں پر نشاں ہمارا بھی
یہ تیر اگر کبھی دونوں کے بیچ سے ہٹ جائے
تو کم ہو فاصلۂ درمیاں ہمارا بھی
اُسی سفر پہ نکلتے ہیں رفتگاں کی طرح
اب انتظار کریں بستیاں ہمارا بھی
سواد قریۂ نامہرباں میں یاد آیا
کہ لکھنؤ میں ہے اک مہرباں ہمارا بھی
عرفان صدیقی