زمرہ جات کے محفوظات: شکیب جلالی

عظمتِ آدم

آغوش میں ماہ پارے پالے ہم نے

گھر گھر میں نئے دِیپ اُجالے ہم نے

تاریک خرابوں کو نیا نُور دیا

ظُلمات سے آفتاب ڈھالے ہم نے

—–

جب جوش میں خوابیدہ اُمنگ آتی ہے

تیزابیِ خورشید کو شرماتی ہے

بپھری ہوئی نظروں کی تمازت کی قسم

پتّھر کی چٹان موم ہوجاتی ہے

—–

فانُوس کی لَو میں جھلملاتے ہیں کبھی

تاروں کی جبیں کو جگمگاتے ہیں کبھی

آنکھوں میں نُور بن کے رہتے ہیں ہم

سُورج کی کِرن میں مُسکراتے ہیں کبھی

—–

ہر رنج کو ہنس کے ٹال جاتے ہیں ہم

ناکامیوں پر بھی مُسکراتے ہیں ہم

اللہ کی قدرت کے تو قائل ہیں مگر

اپنی تقدیر خود بناتے ہیں ہم

—–

نظروں میں نیا زمانہ ڈَھلتا ہے حُضور

آغوش میں انقلاب پَلتا ہے حُضور

حالات کے سانچے مجھے کیا بدلیں گے

ماحول مِرے جَلو میں چلتا ہے حضور

شکیب جلالی

خانہ بدوش

یہ جنگل کے آہو، یہ صحرا کے راہی

تصنّع کے باغی، دلوں کے سپاہی

فقیری لبادے تو انداز شاہی

یہ اکھڑ ‘ یہ انمول‘ بانکے سجیلے

یہ خانہ بدوشوں کے چنچل قبیلے

مصائب سے کھیلے حوادث کے پالے

ہیں روشن جبیں ‘ گو ہیں پاؤں میں چھالے

یہ پیتے ہیں ہنس ہنس کے تلخی کے پیالے

کہ جیسے کوئی مَدھ بھرا جام پی لے

یہ خانہ بدوشوں کے چنچل قبیلے

طلب آشیاں کی نہ فِکرِ قفس ہے

نہ دولت کی پروا‘ نہ زر کی ہوس ہے

زباں میں گھلاوٹ نگاہوں میں رس ہے

ہیں جینے کے انداز میٹھے رسیلے

یہ خانہ بدوشوں کے چنچل قبیلے

زمانے کو چھوڑا صداقت نہ کھوئی

محبّت ہی کاٹی، محبّت ہی بوئی

نہ حاکم ہے کوئی، نہ محکوم کوئی

اُصولوں کے بندھن مگر ڈھیلے ڈھیلے

یہ خانہ بدوشوں کے چنچل قبیلے

ہے پھولوں کا بستر کبھی بَن میں ڈیرا

نہ تفریق کوئی‘ نہ تیرا نہ میرا

جہاں سب نے چاہا وہیں پر بسیرا

وہ صحرا کے گُل بن‘ وہ وادی کے ٹیلے

یہ خانہ بدوشوں کے چنچل قبیلے

ہر اک اپنی اپنی جگہ پر مگن ہے

نہ دیوارِ زنداں نہ حدِّ چمن ہے

یہاں بھی وطن ہے وہاں بھی وطن ہے

کوئی اِن سے تعلیمِ آوارگی لے

یہ خانہ بدوشوں کے چنچل قبیلے

شکیب جلالی

آفتاب ہو تم

سَحر کدے کا تقدّس قمر کی آب ہو تم

ہجومِ نُور ہو‘ شعلہ ہو‘ آفتاب ہو تم

یہ روشنی کا تمّوج‘ یہ شوخیوں کے شرار

نگارِ برق ہے رقصاں کہ بے نقاب ہو تم

ہے گوشہ گوشہ منوّر تو کُنج کُنج نکھار

دیارِ حسن ہو تم وادي شباب ہو تم

صبا کا لَوچ گُلوں کی پَھبن خمیر میں ہے

چمن کی رُوح بہاروں کا انتخاب ہو تم

نظر کہ جامِ صبوحی‘ چلن کہ مستیِ رقص

حریمِ بادہ ہو تم‘ پیکرِ شراب ہو تم

نَفَس نَفَس میں ترنّم کی جَوت جاری ہے

غزل کا شعر ہو تم نغمہ و رُباب ہو تم

یہ نغمگی‘ یہ بہاریں ‘ یہ رنگ و نُور‘ یہ رُوپ

خدائے حسن کی تصویرِ کامیاب ہو تم

یہ شورشیں ‘ یہ تکلّف‘ یہ لغزشیں ‘ یہ خرام

بہر ادا یہ حقیقت ہے لاجواب ہو تم

نہیں نہیں کہ حقیقت گراں بھی ہوتی ہے

سَحر شکار اُمنگوں کا کوئی خواب ہو تم

شکیب جلالی

کھنڈر

بادِ خزاں سے گلشنِ ہستی ہے ہم کنار

ویرانیوں کا رقص ہے اب ڈھل چکی بہار

کلیاں جُھلس چکی ہیں ‘ خزاں کا نُزول ہے

پُر ہَول خامشی ہے‘ بگولے ہیں ‘ دُھول ہے

وہ کج رَوی ہے اور نہ اب وہ غرور و ناز

گُنبد زمیں پہ بیٹھ گئے ہیں بصد نیاز

ابرو میں وہ تناؤ نہ آنکھوں میں کوئی رَس

محراب ہے نہ طاق نہ سینے پہ وہ کَلَس

نقش و نگار مسخ تو چہرے پر جھرّیاں

ہل کی اَنی سے پڑ گئیں کھیتوں میں دھاریاں

ہے یہ بدن پہ کھال کا سمٹا ہوا غلاف

ڈالے ہیں زلزلے نے عمارت میں کیا شگاف

نیلی رَگوں کے جسم پہ بکھرے ہیں جال سے

جیسے کہ رینگتے ہوئے کیڑوں کے سلسلے

ہر دم کمالِ ضُعف سے یوں کانپتا ہے سر

جیسے لرز رہا ہو سفینہ بہاؤ پر

خشکی جمی ہوئی لبِ سادہ پہ اس طرح

روغن اتر رہا ہو دریچے کا جس طرح

آنکھوں کی پُتلیوں پہ پپوٹوں کے سائباں

جیسے کسی مکان کی دربستہ کھڑکیاں

بینائی پر ہے دُھند کا پردہ پڑا ہوا

جیسے کہ رَوزنوں پہ ہو جالا تنا ہوا

بکھرے ہوئے یہ بال‘ یہ اُلجھی ہوئی لَٹیں

جیسے کسی درخت کی سُوکھی ہوئی جڑیں

ماتھا ہے ملگجی سا کہ پگھلا ہوا ہے رانگ

ٹوٹی ہوئی کڑی ہے کوئی یا شکستہ مانگ

سبزہ ہے رُخ پہ یا کہ ہے کانٹوں کی کوئی باڑ

بازو ہیں نیم وَا کہ ہیں اترے ہوئے کواڑ

اعصابِ مُردہ‘ جسم کا ہر حصّہ بے سَکت

آغوش جس طرح کوئی بیٹھی ہوئی سی چھت

یوں ضُعف سے درازیِ قامت ہے سَرنِگوں

بارہ دری کا جیسے خمیدہ سا اک ستوں

پُشت آبلہ نما تو کمر نصف دائرہ

مینار گویا اپنے ہی قدموں پہ آگرا

سینے پہ زندگی کے شکستہ سے بام و در

ڈھانچا ہے ہڈّیوں کا کہ اُجڑا ہوا نگر

کیا کیا نہ ظلم و جَور حَسیں جسم پر ہوئے

اُف وہ محل‘ جو وقت سے پہلے کھنڈر ہوئے

شکیب جلالی

زنجیریں

دم بخود سارے شگوفے تھے مہک سے محروم

نکہتِ گُل کی پھواروں پہ کڑے پہرے تھے

چمپئی بیل کی سیّال نمُو پر قدغن

سرو و سوسن کی قطاروں پہ کڑے پہرے تھے

غم کے تاریک لبادوں میں سمن زار اسیر

تیرگی پوش چناروں پہ کڑے پہرے تھے

گیت محبوس عنادل کے لبوں پر تالے

اس گھڑی زمزمہ کاروں پہ کڑے پہرے تھے

پھر ہوا شور کہ وہ طوق و سِلاسل ٹوٹے

تیرہ و تار دریچوں سے اُجالے پھوٹے

اک مسرّت کی کرن تیر گئی گلشن میں

اب شعاعِ گُل و انجم پہ کوئی قید نہیں

لالہِ وقت کے ہونٹوں پہ ستارے ابھرے

پھول سمجھے کہ تبسّم پہ کوئی قید نہیں

بند کلیوں کے چٹکنے کی کھنک لہرائی

جس طرح اذنِ تکلّم پہ کوئی قید نہیں

گھنگھرو باندھ کے پاؤں میں صبا اٹھلائی

جس طرح رقص و ترنّم پہ کوئی قید نہیں

لیکن افسوس کہ زنجیر صدا دیتی ہے

ہر اُبھرتی ہوئی آواز دبا دیتی ہے

شکیب جلالی

ہلالِ عید

یہ ہلالِ عید ہے قوسِ افق پر ضَو فگن

نیلگوں خیمے میں یا بیٹھی ہے کوئی سیم تَن

پُر تکلّف موڑ ہو جس طرح، جُوے شیر میں

یا ذرا خم آگیا ہو شاہدِ تنویر میں

مانگ ہو افشاں کی جیسے سنگِ مرمر کی کماں

جیسے انگشتِ سلیماں پر انگوٹھی کا نشاں

جس طرح برقاب خنجر، جیسے چاندی کی کٹار

یا کسی معصوم دوشیزہ کے سینے کا اُبھار

اس قدر نازک ادا جیسے کلائی حُور کی

اس قدر شفاف جیسے قاش ہو بِلُّور کی

نُورِ پیغامِ مسرّت ہر کرن سے ضَوفشاں

مطلعِ انوارِ عشرت ہیں زمین و آسماں

جس کو دیکھو آج اسی کو اشتیاقِ دید ہے

کوئی البیلی دُلھن ہے یا ہلالِ عید ہے

شکیب جلالی

نیا سویرا

جہانِ نو کے خداؤ نئی کرن پھوٹی

پرانے دیپ بجھاؤ نئی کرن پھوٹی

ہوا میں رُک نہ سکیں گی روایتی شمعیں

اب آفتاب جلاؤ نئی کرن پھوٹی

وہ پَو پھٹی وہ اُجالے کے نرم تیر چلے

وہ شب میں پڑگئے گھاؤ نئی کرن پھوٹی

سیاہیوں کا کفن چاک ہو گیا دیکھو

طلوعِ صبح مناؤ نئی کرن پھوٹی

شفق کے کھیت میں وہ روشنی کے پھول کِھلے

خزاں کو آگ لگاؤ نئی کرن پھوٹی

افق پہ چھا گئے زرکار و سیم گوں ڈورے

دلوں کے چاک ملاؤ نئی کرن پھوٹی

شفق بدوش رو پہلی سحر کی خوش رنگی

نظر نظر میں رچاؤ نئی کرن پھوٹی

پگھل رہا ہے دھواں دھار سطوتوں کا غرور

دہک اٹھا ہے الاؤ نئی کرن پھوٹی

شکار ہو نہ سکے گی جنوں کی زرتابی

خرد کے جال بچھاؤ نئی کرن پھوٹی

وہی جو تیرگیِ شب میں ظلم ڈھاتے تھے

اب ان کو پیار سکھاؤ نئی کرن پھوٹی

مرا پسینا جبینِ سَحر کا جُھومر ہے

مرا لہو نہ بہاؤ نئی کرن پھوٹی

جہاں سے حرص و ہَوس کا غُبار چَھٹ جائے

وفا کی دھوم مچاؤ نئی کرن پھوٹی

عیُوب پوش سیاہی کے سُودخوروں میں

متاعِ علم لُٹاؤ نئی کرن پھوٹی

ہر ایک فرد ہر انساں کا احترام کرے

اک ایسی رِیت بناؤ نئی کرن پھوٹی

نئی حیات جنم دن منا رہی ہے آج

نئے اصول بناؤ نئی کرن پھوٹی

شکیب جلالی

اس نے کہا

بھرے جہاں میں کہیں پیار مجھ کو مل نہ سکا

وفا سی شَے کا طلب گار مجھ کو مل نہ سکا

قدم قدم پہ بِکی ہے مری متاعِ شباب

قدم قدم پہ متاعِ شباب بیچوں گی

گراں ہیں دوش پہ زُلفوں کے عنبریں سایے!

یہ ریشمیں سے مُعطّر سحاب بیچوں گی

لطافتِ لَب و رُخسار ہے مری دشمن

بہارِ غنچہ و فصلِ گُلاب بیچوں گی

نہ راس آئی مجھے چاندنی وفاؤں کی

بطورِ خاص شبِ ماہتاب بیچوں گی

مرے جنوں نے بڑی تلخیاں خریدی ہیں

نظر کے جام‘ لبوں کی شراب بیچوں گی

مرا غُرور ہے آج انتقام آمادہ!

بدن کا لَوچ‘ نگاہوں کی آب بیچوں گی

قسم ہے مجھ کو تقدّس مآب مَریمؑ کی!

بڑے خُلوص سے شرم و حجاب بیچوں گی!

حیا نصیب شگوفوں کو لُوٹنے والو!!

بہارِ زیست کا میں انتخاب بیچوں گی!

کھنکتے سِکّوں نے جب تک تمھارا ساتھ دیا

میں اپنا حُسن‘ جوانی‘ شباب بیچوں گی

حیا فروش ہوں ‘ جاؤ میں نیک نام نہیں !

مری نظر میں تمھارا بھی کچھ مقام نہیں !

شکیب جلالی

جشن بہاراں

بساطِ رنگ بچھاؤ بہار آئی ہے

حریمِ وقت سجاؤ بہار آئی ہے

نظر کے ساتھ شفق رنگ مے کا دور چلے

فضا کو مست بناؤ بہار آئی ہے

فضا کی تشنہ لَبی پر مٹھاس بِکھرا دو

رسیلے گیت سناؤ بہار آئی ہے

کوئی خوشی کا فسانہ کوئی ہنسی کی بات

لَبوں سے پھول گراؤ بہار آئی ہے

صبا کے ساتھ ملا ہے پیامِ بیداری

کَلی کَلی کو جگاؤ بہار آئی ہے

نگارِ باغ کی دوشیزگی نکھر جائے

کَلی کو پھول بناؤ بہار آئی ہے

سَحر کا رنگ، ستاروں کا نور پگھلا کر

رخِ چمن پہ پھیلاؤ بہار آئی ہے

نئی دُھنیں ہوں ، نئے ساز ہوں ، نئی تانیں

پرانے گیت نہ گاؤ بہار آئی ہے

غمِ خزاں کا چمن میں کوئی نشاں نہ ملے

اِک ایسا جشن مناؤ بہار آئی ہے

یہیں پہ جنتِ قلب و نظر کی ہو تشکیل

یہیں پہ خلد بساؤ بہار آئی ہے

شکیب جلالی

مُجرم

یہی رستہ مری منزل کی طرف جاتا ہے

جس کے فُٹ پاتھ فقیروں سے اَٹے رہتے ہیں

خَستہ کپڑوں میں یہ لپٹے ہوئے مریل ڈھانچے

یہ بھکاری کہ جنھیں دیکھ کےِگھن آتی ہے

ہڈّیاں جسم کی نکلی ہوئی، پچکے ہوئے گال

میلے سر میں جوئیں ‘ اعضا سے ٹپکتا ہوا کوڑھ

رُوح بیمار‘ بَدن سُست‘ نگاہیں پَامال

ہاتھ پھیلائے پڑے رہتے ہیں روگی انسان

چند بیواؤں کے مدقوق سے پیلے چہرے

کچھ ہَوس کار نگاہوں میں اُترجاتے ہیں

جن کے افلاس زدہ جسم‘ ڈھلکتے سینے

چند سکّوں کے عوض شب کو بِکا کرتے ہیں

شدّتِ فاقہ سے روتے ہوئے ننّھے بچّے

ایک روٹی کے نوالے سے بہل جاتے ہیں

یا سرِ شام ہی سوجاتے ہیں بُھوکے پیاسے

ماں کی سُوکھی ہوئی چھاتی کو دبا کر منہ میں

چند بد زیب سے، شہرت زدہ انسان اکثر

اپنی دولت و سخاوت کی نمایش کے لیے

یا کبھی رحم کے جذبے سے حرارت پا کر

چار چھ پیسے انھیں بخش دیا کرتے ہیں

کیا فقط رحم کی حق دار ہیں ننگی روحیں ؟

کیوں یہ انسانوں پہ انسان ترس کھاتے ہیں ؟

کیوں انھیں دیکھ کے احساسِ تہی دستی سے

اکثر اوقات میں کترا کے نکل جاتا ہوں ؟

یہی رستہ مری منزل کی طرف جاتا ہے؟

شکیب جلالی

دلاسے

یہ لرزتے ہوئے حسیں آنسو

میرے عزمِ سفر میں حائل ہیں

مجھ میں اب ضبطِ غم کی تاب نہیں

میرے قلب و جگر بھی گھایل ہیں

ہجر کو ہجر کیوں سمجھتی ہو

صرف احساس پر ہے غم کا مدار

میں نے دیکھا ہے حوصلوں کے طفیل

ہو گئے ہیں اَلَم نشاط آثار

جب کوئی شے ہی پائدار نہیں

دُکھ کے لمحے بھی بیت جائیں گے

غم کا انجام مُسکراہٹ ہے

پھر خوشی کے زمانے آئیں گے

لذّتِ درد بڑھتی رہتی ہے

زخم ہر بار کُھل کے سِلنے میں

مستقل قُرب میں وہ بات کہاں

جو مزا ہے بچھڑ کے ملنے میں

یوں نہ ضائع کرو خدا کے لیے

اپنے اشکوں کے سیم پاروں کو

ان کو صرفِ خوشی بھی ہونا ہے

پونچھ لو قیمتی ستاروں کو

تم سے ملنے کے واسطے ہر دم

اپنے دل میں خلش سی پاؤں گا

جانِ من اس قدر اُداس نہ ہو

میں بہت جلد لوٹ آؤں گا

شکیب جلالی

پیامِ اقبال

……… 1 ………

بانسری پر کوئی دُھن چھیڑ کے کھوجا اس میں

مدھ بھری تان میں ہر گیت سناتا ہوا چل

راہ کی خُشک فضاؤں میں ترنّم گونجے

خواب آلود نظاروں کو جگاتا ہوا چل

بَربَطِ زیست پہ ہر گیت سُناتا ہوا چل

تجھ کو جانا ہے بہت دور‘ بہت دور ابھی

……… 2 ………

قافلے سے جو بچھڑ جائے مسافر کوئی

تیرے گیت اس کے لیے بانگِ درا بن جائیں

جب کوئی راہ بھٹکنے لگے منزل کے قریب

تیرے قدموں کے نشاں راہ نما بن جائیں

نقشِ پا سے رہِ منزل کو سجاتا ہوا چل

تجھ کو جانا ہے بہت دور‘ بہت دور ابھی

……… 3 ………

آبشاروں کے ترنّم ہی میں کھو جائے نہ تُو

راہ کی مست بہاروں کی تمنّا مت کر

جو کہ منزل کو بھلانے کی تجھے دعوت دیں

ایسے پُرکار نظاروں کی تمنّا مت کر

تشنگی صرف نگاہوں کی بُجھاتا ہوا چل

تجھ کو جانا ہے بہت دور‘ بہت دور ابھی

……… 4 ………

اس قدر تیز نہ چل جلد ہی تھک جائے گا

تھک کے رُک جانا تری شان کے شایاں بھی نہیں

پھر تُو کچھ دیر کہیں بیٹھ کے سستائے گا

اور سُستانا تری شان کے شایاں بھی نہیں

ایک رفتار سے قدموں کو بڑھاتا ہوا چل

تجھ کو جانا ہے بہت دور‘ بہت دور ابھی

……… 5 ………

منزلیں خود ترے قدموں کی تمنّائی ہیں

جُستجو میں ہیں تری خود ہی نشانِ منزل

پست ہمّت نہ بن اُمیّد سے مایوس نہ ہو

مل ہی جائیں گے کبھی خود ہی نشانِ منزل

ناامیدی کی چٹانوں کو ہٹاتا ہوا چل

تجھ کو جانا ہے بہت دور‘ بہت دور ابھی

……… 6 ………

دُور تک کوئی مسافر ہے نہ کوئی راہی

کس جگہ تیرے عزائم تجھے لے آئے ہیں

ہیں قدم تیرے ابھی زیرِ افق ہی شاید

کیسے بے رنگ دُھندلکے سے یہاں چھائے ہیں

عزمِ راسخ کے چراغوں کو جلاتا ہوا چل

تجھ کو جانا ہے بہت دور‘ بہت دور ابھی

……… 7 ………

تجھ کو آغوش میں لینے کو ہے بے تاب قمر

منتظر تیرے ابھی تک ہیں افق کے جادے

کون کہتا ہے کہ وہ تیری گزرگاہ نہیں

تیری منزل ہے ستاروں کے جہاں سے آگے

پرتوِ نور ہے تو عرش پہ چھاتا ہوا چل

تجھ کو جانا ہے بہت دور‘ بہت دور ابھی

شکیب جلالی

منقبت

ہو کہکشاں سے سوا کیوں نہ خاکِ کو ئے علیؑ

جما لِ آ یہء حق ہے جمالِ رو ئے علیؑ

علی ؑکے دستِ تصرّف میں کبریا کی رضا

وہ کبر یا کا عدو ہے جو عدوئے علیؑ

رسول نے جو سنی ہفت آسماں سے پرے

وہ گفتگو ئے خدا تھی کہ گفتگو علیؑ

نثار با غِ جنا ں تجھ پہ اے دیا رِ نجف

کہ تیری خا ک سے آتی ہے مجھ کو بو ئے علیؑ

امیرِ وقت کو کیا آ پڑی کو مشکل

کہ ہو رہی ہے مدینے میں جستجو ئے علی ؑ

قضا نے وار کیا بھی تو پشتِ سر پہ کیا

کسے مجال تھی آتا جو رُو بہ رُو ئے علیؑ

نہ شاہِ کشورِ نغمہ نہ تاج وارِ سخن

مگر شکیبؔ کو کہیے گدا ئے کو ئے علیؑ

شکیب جلالی

شہادتِ حق

واہمہ ہے کہ خدا؟

ذہن اُلجھے تو الجھتا ہی چلا جاتا ہے

چاند خاموش ستارے چپ ہیں

دل جو دھڑکے تو دھڑکتا ہی چلا جاتا ہے

ہاں مگر

واقعہِ کرب و بلا

تیرے مظلوم سجیلے کردار

دجلہِ خوں میں نہائے ہوئے بے باک سوار

درِ احساس پہ دیتے ہیں صدا

ہم نے ڈھونڈا ہے اُسے

پردہِ سنگِ نظر کے اُس پار

ہم نے پایا ہے اُسے

صفتِ رنگ کے پیراہن میں

اِک حقیقت کی طرح جلوہ نما

برق اد ا قَفسِ رنگ کے زندانی تجھے کیا معلوم

واہمے پر بھی کوئی جان دیا کرتا ہے؟

شکیب جلالی

چونکتے سایوں کی آواز

حسرتو! غم سے بے خبر گزرو

اس سمندر کی بے کرانی میں

موج در موج سیکڑوں گرداب

بنتے رہتے ہیں مٹتے رہتے ہیں

ایسے گرداب دیکھ کر جن کو

تیرگی اک نہنگ کی صورت

چار سُو ناچتی نظر آئے

اور ساحل کا راستہ نہ ملے!

شکیب جلالی

رات کے پچھلے پہر

شام ہی سے تھی فضا میں کسی جلتے ہوئے کپڑے کی بساند

اور ہوا چلتی تھی جیسے

اس کے زخمی ہوں قدم

دیدہِ مہر نے انجانے خطر سے مڑ کر

جاتے جاتے بڑی حسرت سے کئی بار زمیں کودیکھا

لیکن اس سبز لکیر

اس درختوں کی ہری باڑ کے پار

کچھ نہ پایا۔ کوئی شعلہ نہ شرار

اورپھر رات کے تنور سے ابلا پانی

تیرگیوں کا سیہ فواراہ

دیکھتے دیکھتے تصویر ہر اک چیز کی دھندلانے لگی

دور تک کالے سمندر کی ہمکتی لہریں

ہانپتے سینوں کے مانند کراں تابہ کراں پھیل گئیں

اور جب رات پڑی

سسکیاں بن گئیں جھونکوں کی صدا

دم بخود ہو گئے اس وقت درو بام

جیسے آہٹ کسی طوفاں کی سُنا چاہتے ہوں

آنکھیں مل مل کے چراغوں کی لوؤں نے دیکھا

لیکن اس سبز لکیر

اس درختوں کی ہری باڑ کے پار

کچھ نہ پایا۔ کوئی شعلہ نہ شرار

رات کے پچھلے پہر

ناگہاں نیند سے چونکی جو زمین

اس کی ہونٹوں پہ تھی غم ناک کراہ‘

کرب انگیز کراہ

اس کے سینے پہ رواں

بوٹ لوہے کے گمکتے ہوئے بوٹ

جس طرح کانچ کی چادر پہ لڑھکتی ہوئی پتھر کی سلیں

ہر قدم ایک نئی چیخ جنم لیتی تھی

خاک سے دادِ ستم لیتی تھی

شکیب جلالی

مبارک وہ ساعت

میں بھٹکا ہوا اِک مسافر

رہ و رسمِ منزل سے نا آشنائی پہ نازاں

تعاقب میں اپنی ہی پرچھائیوں کے رواں تھا

مرے جسم کا بوجھ دھرتی سنبھالے ہوئے تھی

مگر اس کی رعنائیوں سے مجھے کوئی دل بستگی ہی نہیں تھی

کبھی راہ چلتے ہوئے خاک کی رُوح پرور کشش

میں نے محسوس کی ہی نہیں تھی

میں آنکھوں سے بینا تھا لیکن

مرے چار سُو چادریں آئنوں کی طرح تھیں

کہ جن کے لیے میرا پر تو ہی تھا ایک زندہ حقیقت

کسی دوسرے کو گوارانہ تھی اس میں شرکت

میں کانوں سے بہرہ نہیں تھا

مگر جس طرح کہنہ گنبد میں چمگادڑوں کے بھٹکنے کی آواز گونجتی نہیں ہے

کھلے آسماں کے پرندوں کی چہکار اندر پہنچتی نہیں ہے

اسی طرح میرا بھی ذوقِ سماعت رسا تھا فقط اپنی ہی دھڑکنوں تک

بس اپنے لہو کی سُبک آہٹوں تک

میں بھٹکا ہوا اک مسافر

مری راہ پرمٹ چکے تھے سفر کے اشارات سارے

فراموشیوں کی گھنی دھند میں کھو چکے تھے جہت کے نشانات سارے

رہ و رسمِ منزل سے میں آشنا ہی نہیں تھا

کروڑوں مرے ہم سفر تھے

مگرمیں اکیلا

کروڑوں کی اس بھیڑمیں بھی اداس اور اکیلا

تعاقب میں اپنی ہی پرچھائیوں کے رواں تھا

میں شاید ہمیشہ یونہی اپنی پرچھائیوں کے تعاقب میں حیران پھرتا

اگر روشنی مجھ پہ چمکی نہ ہوتی

مبارک وہ ساعت کہ جب موت اور تیرگی کے گھنے سائباں کے تلے

روشنی مجھ پہ چمکی

مرے دل پہ دھرتی نے اور اس کے ارفع مظاہر نے اپنی محبت رقم کی

مبارک وہ ساعت کہ جب برق کے کوڑے لہراتی

لوہے کی چیلوں سے اور

آتشیں تیر برساتے فولاد کے پَر درندوں سے مُڈھ بھیڑ میں

میں نے دیکھے

مرے ساتھیوں کے جگر میں ترازو ہیں جوتیر

ہُوا ہوں میں خود ان کا نخچیر

جو قطرہ لہو کا گرا ان کے تن سے

بہا ہے وہ میرے بدن سے

مبارک وہ ساعت کہ جب میں نے جانا

مری دھڑکنوں میں کروڑوں دلوں کی صدا ہے

مری روح میں مشترک’’گرچہ قالب جداہے‘ ‘

شکیب جلالی

آنکھیں پُرنم

آنکھیں پُرنم

آنچ ہے مدّھم

زخمی تارے

آنکھ کا مرہم

غم کے بادل

چھم چھم‘ چھم چھم

ننھا سا دل

دنیا کا غم

ہار

کوئی پکارے

ہم ہیں تمھارے

ناؤ شکستہ

دُور کنارے

گرتے آنسو

ٹوٹے تارے

باغ الاؤ

پھول شرارے

چاند کی کشتی

نیل کے دھارے

دل کی دھڑکن

شعر ہمارے

کوئی جیتا ؟

ہم جب ہارے

شکیب جلالی

نذرِ وطن

……… 1 ………

ارضِ پاک‘ اے وطن

مہرو ماہ سے حسیں ترے گلاب و یاسمن

تیرے پھول پھول پر فدا شفق کا بانکپن

ایک برگ کے عوض نہ لوں بہارِ صد چمن

تجھ میں خُلد کی پَھبَن

ارضِ پاک‘ اے وطن

……… 2 ………

ارضِ پاک‘ اے وطن

تیری خاک کیمیا تری گھٹائیں زرفشاں …

تیرے سنگ وخِشت بھی جواہرات سے گراں

زندگی ہیں قوم کی تری سنہری کھیتیاں

تو متاعِ جان و تن

ارضِ پاک‘ اے وطن

……… 3 ………

ارضِ پاک‘ اے وطن

علم و فن کا بوستاں ‘ لطافتوں کی سرزمیں

دینِ حق کا پاسباں ‘ صداقتوں کا تُوامیں

بے کسوں کے واسطے تو اک منارہِ یقیں

حُرّیت تراچلن

ارضِ پاک‘ اے وطن

……… 4 ………

ارضِ پاک‘ اے وطن

حفظِ امن کے لیے جوان سر بکف

غیر کی مجال کیا جو بڑھ سکے تری طرف

آندھیوں کی راہ میں ہیں کوہسار صف بہ صف

تو شکستِ اَہر مَن

ارضِ پاک‘ اے وطن

شکیب جلالی

کالا پتّھر

میرا چہرہ آئینہ ہے

آئینے پر داغ جو ہوتے

لُہو کی برکھا سے میں دھوتا

اپنے اندر جھانک کے دیکھو

دل کے پتّھر میں کالک کی کتنی پَرتیں جمی ہوئی ہیں

جن سے ہرنتھرا ستھرا منظرکجلا سا گیا

دریا سُوکھ گئے ہیں شرم کے مارے

کوئلے پر سے کالک کون اتارے!!

شکیب جلالی

چرواہے کا گیت

یہ مری اُجلی بھیڑوں کا ریوڑ نہیں ہے

ہوا دُودھیا بادلوں کو اڑائے لیے جا رہی ہے

شکیب جلالی

پاکیزگی

گدلے تالاب میں مہِ شب تاب

رات بھر تیرتا رہا لیکن

اس کے چہرے کی آب دُھل نہ سکی

شکیب جلالی

ساتھی

میں اس کو پانا بھی چاہوں

تو یہ میرے لیے ناممکن ہے

وہ آگے آگے تیز خرام

میں اس کے پیچھے پیچھے

اُفتاں خیزاں

آوازیں دیتا

شور مچاتا

کب سے رواں ہوں

برگِ خزاں ہوں !

جب میں اُکتا کر رک جاؤں گا

وہ بھی پل بھر کو ٹھہر کر

مجھ سے آنکھیں چار کرے گا

پھر اپنی چاہت کا اقرار کرے گا

پھر میں

منہ موڑ کے

تیزی سے گھر کی جانب لوٹوں گا

اپنے نقشِ قدم روندوں گا

اب وہ دل تھام کے

میرے پیچھے لپکتا آئے گا

ندی نالے

پتھر پَربَت پھاند تا آجائے گا

میں آگے آگے

وہ پیچھے پیچھے

دونوں کی رفتار ہے اک جیسی

پھر یہ کیسے ہو سکتا ہے

وہ مجھ کو

یا میں اس کو پالوں

شکیب جلالی

روشنیوں کے دشمن

روشنیوں کے دشمن ادھر آرہے ہیں

ڈھانپ دو قمقمے

لالٹینوں پہ مل دو سیاہی کا زہر

روشنیوں پہ مَنڈھ دو اندھیرے کے بوجھل غلاف

کھڑکیوں سے نہ نکلے اُجالے کی مدّھم سی لہر

رَوزنوں سے بھی جھانکے نہ کوئی سجیلی کرن

آرہے ہیں ادھر روشنیوں کے دشمن

روشنیوں کے دشمن

اُجالوں کے قاتل‘

شکیب جلالی

تنہا ستارہ

وہ میری شمعِ رخ مہ جبیں

خوشبوؤں کی مکیں

آج مجھ سے بہت دُور ہے

اتنی ہی دُور جتنا یہ تنہا ستارا

نیلگوں شام کے دشت میں

مگر اس کے چہرے کی کرنیں مری چشمِ حیراں سے اوجھل نہیں ہیں

شکیب جلالی

آس

اک صحرا‘

جس کے ذرّے چُنتے چُنتے

میری اُنگلیاں شل ہوجائیں گی

ایک سمندر‘

جس کے جُرعے پیتے پیتے

میری سانس اُکھڑ جائے گی

شکیب جلالی

گُل رنگ یہ زر تار سی بھوری کرنیں

گُل رنگ یہ زر تار سی بھوری کرنیں
سیماب سے دھوئی ہوئی نوری کرنیں
بِلّور سی بانہوں پہ دمکتے ہوئے بال
مہتاب کی قاشوں پہ اُدھوری کرنیں
شکیب جلالی

کہ اس نگر میں بجھی مشعلوں کی باس تو ہے

میں خندہ لَب نہ سہی، میرا دل اداس تو ہے
کہ اس نگر میں بجھی مشعلوں کی باس تو ہے
میں اپنے چَاک گریباں پہ مضمحل کیوں ہوں !
اس آئنے میں مری روح بے لباس تو ہے
میں کیوں بُجھاؤں کسی گل کے عارضوں کے چراغ
یہ زدر رنگ میری زندگی کو راس تو ہے
شکیب جلالی

شامل ہے انجمن میں ، مگر بولتا نہیں

سونے کا بُت ہے کیا؟ جو وہ لَب کھولتا نہیں
شامل ہے انجمن میں ، مگر بولتا نہیں
ڈسوا دیا ہے ناگ سے، اس جُرم پر مجھے
جیون میں دوسروں کے میں بِس گھولتا نہیں
جب سے سفر کو مان لیا میں نے زندگی
خنجر کی دھار پر بھی کبھی ڈولتا نہیں
دامن میں میرے جمع ہیں ہر بے نوا کے اشک
کیا کیا گُہر ہیں ، جن کو کوئی رولتا نہیں
شعلے پہنچ گئے ہیں سرِ شاخِ آشیاں
اب کیوں شکیبؔ! اُڑنے کو پر تولتا نہیں
شکیب جلالی

ذرا زحمت تو ہو گی رازدارو! تم ہی آجاؤ

سرِ رہ اب نہ یوں مجھ کو پکارو، تم ہی آجاؤ
ذرا زحمت تو ہو گی رازدارو! تم ہی آجاؤ
کہیں ایسا نہ ہو دم توڑ دیں ، حسرت سے دیوانے
قفس تک ان سے ملنے کو بہارو! تم ہی آجاؤ
بھروسا کیا سفینے کا، کئی طوفان حائل ہیں
ہماری ناخدائی کو کنارو! تم ہی آجاؤ
ابھی تک وہ نہیں آئے یقینا رات باقی ہے
ہماری غم گساری کو ستارو! تم ہی آجاؤ
شکیبؔ غم زدہ کو درد سے ہے اب کہاں فرصت
اگر کچھ وقت مل جائے تو پیارو! تم ہی آجاؤ
شکیب جلالی

چلے تو آئے ہو تجدیدِ دوستی کے لیے

یہ لُطف زہر نہ بن جائے زندگی کے لیے
چلے تو آئے ہو تجدیدِ دوستی کے لیے
نحیف ضَو کو عَجب طرح تقویت دی ہے
اندھیرے ڈھونڈ کے لائے ہو روشنی کے لیے
نہ جانے ہو گیا کیوں مطمئن تمھیں پآ کر
بھٹک رہا تھا مرا دل، خود آگہی کے لیے
جنھیں خود اپنی حقیقت پہ اعتماد نہ تھا
تمھارے دَر پہ چلے آئے بندگی کے لیے
چلے تو ایسے چلے جیسے بے نیازِ مقام
رُکے تو ایسے رُکے جیسے آپ ہی کے لیے
تمھاری سہل پسندی نے ہر قدم پہ ، شکیبؔ!
نئے اصُول تراشے ہیں رَہ رَوی کے لیے
شکیب جلالی

زخمِ جگر و داغِ جبیں میرے لیے ہے

یہ پھول نہ وہ ماہِ مبیں میرے لیے ہے
زخمِ جگر و داغِ جبیں میرے لیے ہے
پلکوں پہ سجاؤں کہ اسے دل میں چُھپاؤں
شبنم کا گُہرتاب نگیں میرے لیے ہے
اپنے کسی دُکھ پر مری آنکھیں نہیں چھلکیں
روتا ہوں کہ وہ آج غمیں میرے لیے ہے
دیوار جُدائی کی اٹھاتی رہے دنیا
اب وہ رگِ جاں سے بھی قریں میرے لیے ہے
آتی ہے ترے پائے حنائی کی مہک سی
مخمل سے سوا فرشِ زمیں میرے لیے ہے
رقصاں ہیں بہر گام تری یاد کے جگنو
اب دشت بھی فردوسِ بریں میرے لیے ہے
چاہے گا اسے کون، شکیبؔ اتنی لگن سے
وہ شمعِ فروزاں ہو کہیں، میرے لیے ہے
شکیب جلالی

اِستعارے ہیں ماہ و انجم کے

یہ کرن، پُھول، بالیاں، جُھمکے
اِستعارے ہیں ماہ و انجم کے
لالہ و گُل ستارہ و مہتاب
رازجُو ہیں ترے تبسّم کے
بات پہنچی قیودِ محفل تک
تذکرے تھے ترے تکلّم کے
تیری آنکھوں کے رُوبرو آئیں
حوصلے کیا ہیں ساغر و خُم کے
ہم فقط آنسوؤں کے سوداگر
تم خریدار ماہ و انجم کے
شکیب جلالی

کہ میں تو اپنے ہی صحرا کے پار جا نہ سکا

وہ کون ہے جو تمھارا سُراغ پا نہ سکا
کہ میں تو اپنے ہی صحرا کے پار جا نہ سکا
وہ اپنا معنوی چہرہ مجھے دِکھا نہ سکا
اس آئنے سے کوئی بھی نظر مِلا نہ سکا
یہ ٹھنڈی آگ جُدا ہے بدن کے شعلے سے
بدن کا شعلہ مری روح کو جلا نہ سکا
کسی کی بات تھی جو اُس نے ڈال دی مجھ پر
وہ آج خود تو ہنسا، پر مجھے ہنسا نہ سکا
اسی لیے تو اُجالا ہے میرے سینے میں
میں بھول کر بھی کسی کا دیا بُجھا نہ سکا
کچھ اتنے ہاتھ بڑھے تھے مجھے گرانے کو
کہ ڈگمگانا بھی چاہا تو ڈگمگا نہ سکا
وہ پیرہن ہوں میں اپنے برہنہ جوئی کا
جو کوئی زخم تری آنکھ سے چھپا نہ سکا
جو لوحِ دل ہوئی ٹکڑے تو یہ خیال آیا
کہ میں بھی سَنگ اٹھاؤں ، مگر اٹھا نہ سکا
شکیبؔ! روح میں طوفاں کا شور باقی ہے
میں اپنا درد، کسی ساز پر سنا نہ سکا
شکیب جلالی

پھر پُھوٹتی ہے سرخ کلی شاخِ زرد سے

میں وہ نہیں جو ہار گیا موجِ درد سے
پھر پُھوٹتی ہے سرخ کلی شاخِ زرد سے
لوگوں کو تھا گمان کہ جاتا ہے قافلہ
رہ رَو تو نکلا ایک ہی دیوارِ گرد سے
جھپٹے نہ میرے بعد کسی بھی چراغ پر
یہ سوچ کر میں لڑتا رہا بادِ سرد سے
دھاگے میں کیا پروئیے ذرّوں کو ریت کے
یوں بھی جُدا رہے گا یہاں فرد فرد سے
واقف کسی سے کون، جہاں ہم طرح ہوں سب
بستی کا حال پوچھیے صحرا نورد سے
پتھر کے بند باندھ کے بیٹھے ہیں کب جری
کرتا ہے چھیڑ موجہِ طوفاں بھی مرد سے
دل میں کُھلا ہے روشنی کا بادباں شکیبؔ
آگے ملوں گا اب میں ستاروں کی گرد سے
شکیب جلالی

وہ پاس آ تو رہا تھا مگر ٹھہر بھی گیا

مرے خلوص کی شدّت سے کوئی ڈر بھی گیا
وہ پاس آ تو رہا تھا مگر ٹھہر بھی گیا
یہ دیکھنا تھا: بچانے بھی کوئی آتا ہے!
اگر میں ڈوب رہا تھا تو خود اُبھر بھی گیا
اے راستے کے درختو! سمیٹ لو سایہ
تمھارے جال سے بچ کر کوئی گزر بھی گیا
کسی طرح سے تمھاری جبیں چمک تو گئی
یہ اور بات سیاہی میں ہاتھ بھر بھی گیا
اِسی پہاڑ نے پُھونکے تھے کیا کئی جنگل
جو خاک ہوکے مرے ہاتھ پر بکھر بھی گیا
یہیں کہیں مرے ہونٹوں کے پاس پھرتا ہے
وہ ایک لفظ کہ جو ذہن سے اتر بھی گیا
وہ شاخ جُھول گئی جس پہ پاؤں قائم تھے
شکیبؔ ورنہ مرا ہاتھ تا ثمر بھی گیا
شکیب جلالی

کیا لکھیے سرِ دامنِ شب، سوچ رہے ہیں

لَودے اٹھے وہ حرفِ طلب سوچ رہے ہیں
کیا لکھیے سرِ دامنِ شب، سوچ رہے ہیں
کیا جانیے منزل ہے کہاں، جاتے ہیں کس سمت
بھٹکی ہوئی اس بھیڑ میں سب سوچ رہے ہیں
بھیگی ہوئی اک شام کی دہلیز پہ بیٹھے
ہم دل کے سُلگنے کا سبب سوچ رہے ہیں
ٹوٹے ہوئے پتّوں سے د رختوں کو تعلق؟
ہم دور کھڑے کنجِ طرب سوچ رہے ہیں
بُجھتی ہوئی شمعوں کا دھواں ہے سرِ محفل
کیا رنگ جَمے آخرِ شب سوچ رہے ہیں
اس لہر کے پیچھے بھی رَواں ہیں نئی لہریں
پہلے نہیں سوچا تھا، جو اب سوچ رہے ہیں
ٹو ٹے ہو ئے پتّوں کو درختوں سے تعلق؟
ہم دُور کھڑے شہرِ طرب سوچ رہے ہیں
ہم اُبھر ے بھی ،ڈو بے بھی سیا ہی کے بھنو ر میں
ہم سو ئے نہیں شب ، ہمہ شب سوچ رہے ہیں
ایما ن کی شہ رگ ہُوں ، میں انِسا ن کا دل ہوں
کیا آپ مرا نا م و نَسَب سوچ رہے ہیں
شکیب جلالی

یہ جانیے کہ ہے وہی پتّھر کا آدمی

گھائل نہیں جو حُسنِ گُلِ تر کا آدمی
یہ جانیے کہ ہے وہی پتّھر کا آدمی
گہرائیوں میں جا کے بھی کیا بات ہے کہ اب
سُنتا ہے شور سطحِ سمندر کا، آدمی
کیسی چلی یہ تیغ کہ ثابت رہا بدن
تقسیم ہو گیا مگر اندر کا آدمی
ہر راہ سے نکلتے ہیں سو اور راستے
اب ڈھونڈتا پھرے گا پتا گھر کا آدمی
شب خوں کے ڈر سے تھا مجھے ہر پیڑ پر گماں
یہ بھی نہ ہو غنیم کے لشکر کا آدمی
تنہائیوں کی بھیڑ ہے گھیرے ہوئے مجھے
اب میں ہوں اپنے شہر میں باہر کا آدمی
دشتِ طلب بھی کیا کوئی شہرِ طلسم ہے
دیکھا جو مڑ کے، ہو گیا پتھر کا آدمی
آنکھیں وہ خود ہی پھوڑ لیں جن کی شعاع سے
لیتا تھا لطف شام کے منظر کا آدمی
پھر آن کر گرے نہ اسی فرشِ خاک پر
اُڑتا ہے کیا ہواؤں میں بے پَر کا آدمی
ٹانگوں میں بانس باندھ کے چلتے ہیں سب یہاں
کیوں کر ملے، شکیبؔ! برابر کا آدمی
شکیب جلالی

ٹُوٹ جاتے ہیں سہانے خواب آدھی رات کو

گُونجتا ہے نالہِ مہتاب آدھی رات کو
ٹُوٹ جاتے ہیں سہانے خواب آدھی رات کو
بھاگتے سایوں کی چیخیں، ٹُوٹتے تاروں کا شور
میں ہوں اور اک محشرِ بے خواب آدھی رات کو
شام ہی سے بزمِ انجم نشہِ غفلت میں تھی
چاند نے بھی پی لیا زہراب آدھی رات کو
اک شکستہ خواب کی کڑیاں ملانے آئے ہیں
دیر سے بچھڑے ہوئے احباب آدھی رات کو
دولتِ احساسِ غم کی اتنی اَرزانی ہوئی
نیند سی شے ہو گئی نایاب آدھی رات کو
شکیب جلالی

خدا گواہ کہ برسات ہو گئی ہو گی

کبھی جو پُرسشِ حالات ہو گئی ہو گی
خدا گواہ کہ برسات ہو گئی ہو گی
جو راہِ شوق میں حائل تھے فاصلے تو کیا!
نظر نظر میں ملاقات ہو گئی ہو گی
ہوا سے آپ کی زلفیں بکھر گئی ہوں گی
فضا میں بارشِ ظلمات ہو گئی ہو گی
کسی نے شرم سے چہرہ چھپا لیا ہو گا
نگاہ محوِ جمالات ہو گئی ہو گی
وہ اجنبی کی طرح پیش آئے ہوں گے، شکیبؔ
جو راستے میں ملاقات ہو گئی ہو گی!
شکیب جلالی

بن گئے پربت روئی کے گالے، بھرگئے خون سے تال

کچھ مت پُوچھو وقت نے اب کے چلی ہے کیسی چال
بن گئے پربت روئی کے گالے، بھرگئے خون سے تال
کیسی بلندی، کیسی پستی، ایک ہے سب کا حال
سمجھے تھے آکاش جسے، نکلا وہ بھی پاتال
اب میں ہوں اور حدِّ نظر تک ویرانی کی دُھول
اُڑ گئی خوشبو، جَھڑگئے پتّے، رہ گئی خالی ڈال
قریہ قریہ مانگتے پھرنا شبنم کی اک بُوند
سورج کی پونجی ہی کیا ہے پیتل کا اک تھال
آنکھ سے آنسو ٹپکا، یا کوئی تارا ٹوٹا تھا
بستی بستی پھیل گیا کیوں آوازوں کا جال
اپنے ہی سایے کے پیچھے بھاگ رہا ہے کوئی
دشتِ وفا میں پڑ گیا شاید انسانوں کا کال
رات کی شہزادی پر جانے کیا اُفتاد پڑی
کانسی کا ہے طَوق گلے میں سر پر میلی شال
خوشبو کی لپٹیں دیتے ہیں دیکھو میرے ہاتھ
میں نے چھُو کر دیکھ لیے ہیں غم کے خدّو خال
سیپیاں چُنتے ساحل ساحل گھومیں لوگ، شکیبؔ
اشکوں کے موتی چُن کر ہم تو ہو گئے مالا مال
شکیب جلالی

یہ شیشے کی عمارت پتھروں کے نام ہو جائے

قیامت ہے، مرا دل مرکزِ آلام ہو جائے
یہ شیشے کی عمارت پتھروں کے نام ہو جائے
خموشی بول اُٹّھے، ہر نظر پیغام ہو جائے
یہ سنّاٹا اگر حد سے بڑھے، کُہرام ہو جائے
اُدھر مہتاب اونچا ہو ذرا چھت کی منڈیروں سے
اِدھر قربان اس پر آفتابِ شام ہو جائے
ہمیں تو ہر قدم پر کارواں کا ساتھ دینا ہے
جہاں سب ہم سفر چاہیں ، وہیں بِسرام ہو جائے
ستارے مشعلیں لے کر مجھے بھی ڈھونڈنے نکلیں
میں رستہ بھول جاؤں ، جنگلوں میں شام ہو جائے
میں وہ آدم گزیدہ ہوں جو تنہائی کے صحرا میں
خود اپنی چاپ سن کر لرزہ بر اندام ہو جائے
مثال ایسی ہے اس عہدِ خرد کے ہوش مندوں کی
نہ ہو دامن میں ذرّہ، اور صحرا نام ہو جائے
شکیبؔ! اپنے تعارف کے لیے یہ بات کافی ہے
ہم اس سے بچ کے چلتے ہیں ، جو رستہ عام ہو جائے
شکیب جلالی

لے اُڑی جانے کہاں صر صرِ حالات ہمیں

قریہِ دل تھا کبھی شہرِ طلسمات ہمیں
لے اُڑی جانے کہاں صر صرِ حالات ہمیں
آج وہ یوں نگہِ شوق سے بچ کر گزرے
جیسے یاد آئے کوئی بھولی ہوئی بات ہمیں
کیسے اُڑتے ہوئے لمحوں کا تعاقب کیجیے
دوستو! اب تو یہی فکر ہے دن رات ہمیں
نہ سہی کوئی ہجومِ گل و لالہ نہ سہی
دشت سے کم بھی نہیں کُنجِ خیالات ہمیں
دھوپ کی لہر ہے تُو، سایہِ دیوار ہیں ہم
آج بھی ایک تعلق ہے ترے ساتھ ہمیں
وہ اگر غیر نہ سمجھے تو کوئی بات کریں
دلِ ناداں سے بہت سی ہیں شکایات ہمیں
رنگ و مستی کے جزیروں میں لیے پھرتے ہیں
اس کی پایل سے چرائے ہوئے نغمات ہمیں
شکیب جلالی

تیرگی کے دَشت میں روشنی کی جھیل ہے

شہرِ دِل کے گرد و پیش، رات کی فصیل ہے
تیرگی کے دَشت میں روشنی کی جھیل ہے
کٹ چکی ہے راہِ شب، ہم نہ رُک سکیں گے اب
نغمہِ سَحر ہمیں نالہِ رحیل ہے
زندگی سے بھاگ کر جائے بھی کہاں بشر
خود ہی منزلِ مراد، خود ہی سنگِ میل ہے
ساحلِ نشاط کے بُجھ چکے ہیں سب دیے
دردِ دل کی ایک لہر، ہم کو رودِ نیل ہے
گمرہی ہمیں ، شکیبؔ! دے رہی یہ فریب
رہ نما غلط نہیں، راستہ طویل ہے
شکیب جلالی

مجھ کو ملا جَہاں سے یہ انعامِ آگہی

سینہ ہے زَخم زخم تو ہونٹوں پہ خامشی
مجھ کو ملا جَہاں سے یہ انعامِ آگہی
بے نغمہ و صدا ہے وہ بُت خانہِ خیال
کرتے تھے گفتگو جہاں پتھر کے ہونٹ بھی
اِک تارہ ٹوٹ کر، یمِ گردوں میں کھو گیا
اک چیخ، کائنات کے دل میں اتر گئی
کتنے ہی چاند تھے اُفقِ دل پہ جلوہ گر
یادوں سے جن کی آج بھی چھنتی ہے روشنی
کیا کیا نہ یاد آئے ہیں احساں بہار کے
جب دیکھتا ہوں کشتِ غمِ دل ہری بھری
تنہائیوں کے ساز پہ بجتا ہے دیپ راگ
جس دم ہواے شب سے سُلگتی ہے چاندنی
شا خو ! بھری بہار میں رقصِ برہنگی!
مہکی ہوئی وہ چادرِ گُل بار کیا ہوئی!
وہ پھر رہے ہیں زخم بپا آج دشت دشت
قدموں میں جن کے شاخِ گلِ تر جُھکی رہی
یوں بھی بڑھی ہے وسعتِ ایوانِ رنگ و بُو
دیوارِ گلستاں درِ زنداں سے جا ملی
رعنائیاں چمن کی تو پہلے بھی کم نہ تھیں
اب کے مگر، سجائی گئی شاخِ دار بھی
(۱ سے ۵ اشعار’روشنی اے روشنی، میں
شامل ہیں یہاں مکمل غزل قارئین کی نذر ہے)
شکیب جلالی

رہِ حرم نہ سہی یہ تری گلی بھی نہیں

سُکوں نہیں ہے، مگر اب وہ بے کلی بھی نہیں
رہِ حرم نہ سہی یہ تری گلی بھی نہیں
ہَواے شہر سے کیوں آئے بُوے رُسوائی
کہ موجِ راز کبھی ناز سے چلی بھی نہیں
ابھی کہاں شبِ وعدہ کے سرمئی آثار
ابھی تو دھوپ درِ یار سے ڈھلی بھی نہیں
ہم اپنی روشنیِ دل پہ کیوں نہ نازاں ہوں
کہ شمعِ درد، دلِ غیر میں جَلی بھی نہیں
نگاہِ رنگ کے جادو پہ مرمٹے لیکن
گُلِ حیات فقط رنگ کی ڈلی بھی نہیں
شکیب جلالی

اُبھریں گے کیا کہ ڈُوبے ہیں سنگِ گراں کے ساتھ

زعمِ وفا بھی ہے ہمیں ، عشقِ بُتاں کے ساتھ
اُبھریں گے کیا کہ ڈُوبے ہیں سنگِ گراں کے ساتھ
تنہائیوں کے کیف سے نا آشنا نہیں
وابستگی ضرور ہے بزمِ جہاں کے ساتھ
اے چشم تر! سفینہِ دل کی تھی کیا بساط
ساحل نشیں بھی بہ گئے سیلِ رواں کے ساتھ
اُن ساعتوں کی یاد سے مہکا ہوا ہے دل
گزری تھیں جو کسی نگہِ گُل فشاں کے ساتھ
کہتی ہے جلتی دھوپ کہ منزل سے ذرا دور
جانا پڑے گا سایہِ ابرِ رواں کے ساتھ
تُہمت سُبک رَوی کی بجا ہے مگر، شکیبؔ
اک رَہ روِ علیل بھی ہے کارواں کے ساتھ
شکیب جلالی

اپنا سایہ ہی جا بہ جا دیکھا

روپ نگری میں ہم نے کیا دیکھا؟
اپنا سایہ ہی جا بہ جا دیکھا
ہم نے گھبرا کے مُوند لیں آنکھیں
جب کوئی تارا ٹوٹتا دیکھا
لالہِ و گُل کی رُونمائی پر
بجلیوں کو چراغ پا دیکھا
اپنی پلکوں سے چُن لیا ہم نے
کوئی کانٹا اگر پڑا دیکھا
سچ کہو! میری یاد بھی آئی!
جب کبھی تم نے آئنہ دیکھا
شاخ پر، دل گرفتہ پھول ملے
آشیانہ قَفَس نما دیکھا
کہکشاں کے دیے بجھے پائے
چاندنی کو ملول سا دیکھا
اپنا حق بھی نہ ان سے مانگ سکے
کوئی ہم سا بھی کم نوا دیکھا!
رہ گزاروں نے آنکھ جب کھولی
زندگی کو بگولہ پا دیکھا
ماہ پاروں کے جھرمٹوں میں ، شکیبؔ
آج تم کو غزل سرا دیکھا
شکیب جلالی

آؤ کاغذ کی ناؤ تیرائیں

دوستی کا فریب ہی کھائیں
آؤ کاغذ کی ناؤ تیرائیں
ہم اگر رَہ رَوی کا عزم کریں
منزلیں کِھنچ کے خود چلی آئیں
ہم کو آمادہِ سفر نہ کرو
راستے پُرخطر نہ ہو جائیں
ہم سفر رہ گئے بہت پیچھے
آؤ کچھ دیر کو ٹھہر جائیں
مُطربہ! ایسا گیت چھیڑ کہ ہم
زندگی کے قریب ہو جائیں
ان بہاروں کی آبرو رکھ لو
مسکراؤ کہ پھول کھِل جائیں
گیسوئے زیست کے یہ اُلجھاؤ
آؤ مِل کر شکیبؔ، سلجھائیں
شکیب جلالی

نغموں کی خیرات نہ بانٹو، جنم جنم کے بہروں میں

خاموشی کے دُکھ جھیلو گے! ہنستے بولتے شہروں میں
نغموں کی خیرات نہ بانٹو، جنم جنم کے بہروں میں
میں تو بھٹکا ہُوا راہی ہوں ، اِن پر جانے کیا بیتی
پارے جیسی بے چینی ہے، آبِ رواں کی لہروں میں
کارِ جنوں پر ہنسنے والے! تیرے بس کا روگ نہیں
صحرا صحرا پیاسے پھرنا، تپتی ہوئی دوپہروں میں
عالمِ یاس میں جینا ممکن اور نہ مرنا آساں ہے
اس سے کڑوا زہر نہیں ہے، دنیا بھر کے زہروں میں
دَرد کے، حد سے بڑھنے تک ہے آنکھوں کی یہ شادابی
دیکھنا اِک دن خاک اُڑے گی اشکِ رواں کی نہروں میں
شکیب جلالی

جو کچھ تھا دل میں ، آگیا باہر، کہے بغیر

خوشبو اڑی ہے بات کی، اکثر کہے بغیر
جو کچھ تھا دل میں ، آگیا باہر، کہے بغیر
مجھ کو کنویں میں ڈال گئے جو، فریب سے
میں رہ سکا نہ ان کو برادر کہے بغیر
پارَکھ تو میں بڑا ہوں، مگر کیا چلے گا کام
اِک ایک سنگ و خِشت کو گوہر کہے بغیر
دُھل بھی گئی جبیں سے اگر خون کی لکیر
یہ داستاں ، رہے گا نہ، پتھر کہے بغیر
ہر چند، مانگتا ہوں ، بس اک بُوند زہر کی
ملتی نہیں ، کسی کو سمندر کہے بغیر
اُبھری ہوا میں لہر تو پھیلے گی دور تک
بہتر یہی ہے بات ادا کر، کہے بغیر
یہ اور بات ہے کوئی دستک نہ سن سکے
آتی نہیں ہے موت بھی، اندر، کہے بغیر
کتنی بلندیاں ہیں ، شکیبؔ، انکسار میں
اونچا میں ہو گیا اسے کم تر کہے بغیر
شکیب جلالی

صبا بھی پُوچھنے آئی مزاج کانٹوں کا

ہُوا جو صحنِ گلستاں میں راج کانٹوں کا
صبا بھی پُوچھنے آئی مزاج کانٹوں کا
کہو تو زخمِ رگِ گُل کا تذکرہ چھیڑیں
کہ زیرِ بحث ہے کردار آج کانٹوں کا
ہم اپنے چاکِ قبا کو رفُو تو کر لیتے
مگر وہی ہے ابھی تک مزاج، کانٹوں کا
چمن سے اُٹھ گئی رسمِ بہار ہی شاید
کہ دل پہ بار نہیں ہے، رواج کانٹوں کا
درِ قفس پہ، اُسی کے گلے کا ہار تھے پُھول
جسے مِلا ہے گلستاں سے تاج کانٹوں کا
لگی ہے مُہر خراشوں کی دیدہ و دل پر
شکیبؔ! کوئی کرے کیا عِلاج کانٹوں کا
شکیب جلالی

نکہتِ گل کی شان سے نکلا

حرف جو اس زبان سے نکلا
نکہتِ گل کی شان سے نکلا
اس کے سایے سے کیوں گُریزاں ہو
کام جس مہربان سے نکلا
آینوں کی تراش کر چادر
پتھروں کے جہان سے نکلا
دھیرے دھیرے، شکیبؔ، یاد کا شہر
دُھند کے سایہ بان سے نکلا
شکیب جلالی

لہُو میں رنگ دیا آج اسے بَبُولوں نے

چُھوا نہ تھا کبھی جس پیرہن کو پھولوں نے
لہُو میں رنگ دیا آج اسے بَبُولوں نے
سنا تھا دشتِ اَلَم سے گزرنا مشکل ہے
ہمیں نہ روک لیا ناچتے بگولوں نے!
قفس نشینوں کو جا کر صبا بتا دینا
تمھیں سلام کہا ہے مہکتے پھولوں نے
برنگِ طائرِ بے دام، اڑتے پھرتے تھے
ہمیں اسیر کیا اپنے ہی اُصولوں نے
شکیبؔ! زہرِ ہلاہل بھی پی لیا ہنس کر
ہمیں سبق وہ دیا عشق کے رسولوں نے
شکیب جلالی

دیوانے شہرِ سرو و سَمن چھوڑ آئے ہیں

جنگل میں پھر رہے ہیں ، چمن چھوڑ آئے ہیں
دیوانے شہرِ سرو و سَمن چھوڑ آئے ہیں
اس کا علاج کر نہ سکے گی کبھی بہار
پھولوں میں چٹکیوں کی دُکھن چھوڑ آئے ہیں
چبھتی ہیں ان کی رُوح میں پھانسیں بہار کی
جو لوگ فصلِ گل میں چمن چھوڑ آئے ہیں
زنداں سے ساتھ لائے ہیں زنجیرِ خامشی
دیوانے رسمِ دار و رسن چھوڑ آئے ہیں
اے اجنبی دیار! محبت کی اک نگاہ!
ہم خانماں خراب وطن چھوڑ آئے ہیں
کچھ تم نے چُن لیے ہیں ہمارے طریقِ زیست
کچھ ہم خصوصیاتِ کُہن چھوڑ آئے ہیں
کاش ان کی جستجو کو اُٹھیں کاروانِ نو
کچھ نقشِ پا شہیدِ وطن چھوڑ آئے ہیں
خوابوں کی دیویوں نے بلایا ہے جب، شکیبؔ
ہم دو جہاں بچشمِ زَدَن چھوڑ آئے ہیں
شکیب جلالی

چراغ بن کے تری رہ گزر میں جلتے ہیں

جو اشکِ خوں مری پلکوں سے بہ نکلتے ہیں
چراغ بن کے تری رہ گزر میں جلتے ہیں
شبِ بہار میں مہتاب کے حَسیں سایے
اداس پآ کے مجھے، اور بھی مچلتے ہیں
اسیرِ دامِ جنوں ہوں، مجھے رہائی کہاں
یہ رنگ و بُو کے قفس میرے ساتھ چلتے ہیں
وہ شمعِ رُو کا شبستاں، یہ بزمِ ہجراں ہے
’’وہاں چراغ، یہاں دل کے داغ جلتے ہیں،،
پرائی آگ سے شاید گداز ہو جائیں
خود اپنی آگ سے کب سنگ دل پگھلتے ہیں
یہ دل، وہ کارگہِ مرگ و زیست ہے کہ جہاں
ستارے ڈوبتے ہیں، آفتاب ڈھلتے ہیں
شکیبؔ! حُسنِ سماعت ہے آپ کا ورنہ
دلِ شکستہ سے نغمے کہاں اُبلتے ہیں
شکیب جلالی

ہر سُو کھڑی تھی پانی کی دیوار، یاد ہے

جب چُھٹ گئے تھے ہاتھ سے پتوار، یاد ہے
ہر سُو کھڑی تھی پانی کی دیوار، یاد ہے
پھر پھول توڑنے کو بڑھاتے ہو اپنا ہاتھ
وہ ڈالیوں میں سانپ کی پُھنکار یاد ہے!
وہ بے وفا کہ جس کو بھلانے کے واسطے
خود سے رہا ہوں برسرِپیکار، یاد ہے
اب کون ہے جو وقت کو زنجیر کر سکے
سایوں سے، ڈھلتی دھوپ کی تکرار یاد ہے
چاہا نہیں کسی کو، اسے چاہنے کے بعد
اپنی نگاہ کا مجھے معیار یاد ہے
باقی نہیں بیاض میں ہونٹوں کی سُرخ چھاپ
لیکن مجھے یہ تحفہِ دل دار یاد ہے
شکیب جلالی

زخموں کو اب گِنوں گا میں بستر پہ لیٹ کے

جاتی ہے دھوپ اُجلے پروں کو سمیٹ کے
زخموں کو اب گِنوں گا میں بستر پہ لیٹ کے
میں ہاتھ کی لکیریں مٹانے پہ ہوں بضد
گو جانتا ہوں ، نقش نہیں یہ سلیٹ کے
دنیا کو کچھ خبر نہیں ، کیا حادثہ ہوا
پھینکا تھا اس نے سنگ، گُلوں میں لپیٹ کے
فوّارے کی طرح نہ اُگل دے ہر ایک بات
کم کم وہ بولتے ہیں جو گہرے ہیں پیٹ کے
اک نُقرئی کھنک کے سِوا کیا ملا، شکیبؔ
ٹکڑے یہ مجھ سے کہتے ہیں ٹوٹی پلیٹ کے
شکیب جلالی

وہ لوگ جن کے سینے میں اک گھاؤ بھی نہیں

تم ان کی محفلوں میں کبھی جاؤ بھی نہیں
وہ لوگ جن کے سینے میں اک گھاؤ بھی نہیں
بارانِ برگِ گُل کہاں اپنے نصیب میں
اب رَہ روانِ شوق پہ پتھراؤ بھی نہیں
یہ کالی رات، گہرا سمندر، ہوا کا زور
اور میرے پاس ٹوٹی ہوئی ناؤ بھی نہیں
تم آدمی ہو، کوئی فرشتہ نہیں ، شکیبؔ!
اس درجہ جرمِ عشق پہ شرماؤ بھی نہیں
شکیب جلالی

جس آدمی کے دوش پہ اپنی صلیب ہے

تائید زندگی کی اُسی کو نصیب ہے
جس آدمی کے دوش پہ اپنی صلیب ہے
مڑ مڑ کے دیکھتے ہو چراغانِ نقشِ پا
یہ بھی خبر ہے! آمدِ طوفاں قریب ہے
ہر تازہ انکشاف لیے ہے ہزار بھید
یا رب ترے جہاں کی پہیلی عجیب ہے
مُڈبھیڑ ہو گئی ترے کوچے میں آج بھی
پونم کا چاند میرا پرانا رقیب ہے
پھر کیا ہے، میں جو ڈر گیا پتّوں کے شور سے
سُنسان جنگلوں کا سفر ہی مُہیب ہے
رکھنا چھپا کے درہم و دینارِ داغِ دل
یاں پر کسی کسی کو یہ دولت نصیب ہے
اس کو حُدودِ باغ سے باہر نہ پھینکیے
یہ برگِ زرد موسمِ گل کا نقیب ہے
اک سر پھرے کی رائے خریدی نہ جا سکی
دولت سرائے دہر بھی کتنی غریب ہے
آنکھوں کے آئنوں میں چمک آ گئی، شکیبؔ
شاید طلوعِ شعر کی ساعت قریب ہے
شکیب جلالی

یہ بھی سُن لو حق کی آخر جیت ہی ہو گی، ہار نہیں

پتّھر مارو، دَار پہ کھینچو، مَرنے سے انکار نہیں
یہ بھی سُن لو حق کی آخر جیت ہی ہو گی، ہار نہیں
اپنے خونِ جگر سے ہَم نے کُچھ ایسی گُل کاری کی
سب نے کہا یہ تختہِ گُل ہے، زِنداں کی دیوار نہیں
سُوکھی بیلیں، داغی کلیاں، زخمی تارے، روگی چاند
ایک ہی سب کا حال ہے یارو، کون یہاں بیمار نہیں
اَب بھی اثر ہے فصلِ خزاں کا، باغ کے بُوٹے بُوٹے پر
دیکھو تو بے رنگ ہیں کلیاں ، سونگھو تو مہکار نہیں
باغ کا نقشہ بدلو یا پھر چھین لو ہم سے تابِ نظر!
سب کچھ دیکھیں ، کچھ نہ کہیں ہم !اس کے لیے تیار نہیں
طوفاں طوفاں گھوم چکے ہم ساحل ساحل دیکھ آئے
مرنا جینا کھیل ہے یارو، کھیل کوئی دشوار نہیں
زلزلو جاگو، آندھیو آؤ، آج اپنی سی کر دیکھو
کوہِ گراں ہیں اپنی جگہ پر، ریت کی ہم دیوار نہیں
شکیب جلالی

جس دم پانی سر سے گزرا آپ کہیں کھو جاؤ گے

پیار ہے بھید کا گہرا ساگر، اس کی تھاہ نہ پاؤ گے
جس دم پانی سر سے گزرا آپ کہیں کھو جاؤ گے
دھوپ بُری ہے او ر نہ چھاؤں، سمے سمے کی ساری بات
رَنگوں کے اس کھیل سے کب تک اپنی جان چُراؤ گے
جیتی جاگتی تصویریں ہیں دنیا بھر کی آنکھوں میں
اپنا آپ جہاں بھی دیکھا، سِمٹو گے شرماؤ گے
اتنا ہی بوجھل خاک کا بندھن، جتنی سُندر دھیان کی ڈور
پاؤں زمیں سے لگے رہیں گے، اونچا اڑتے جاؤ گے
بچھڑے لمحے راہ نہ بھولیں رات کے سُونے آنگن کی
خود ہی کریدو گے زخموں کو، خود ہی انھیں سہلاؤ گے
پاگل پن میں مَن کا موتی سستے داموں بیچ دیا
اب کنکر پتھر چُن چُن کر اپنا جی بہلاؤ گے
اس کے چَرَن کی خاک ہی چُھو لو، ہوش نہ ہو گا اتنا بھی
آنکھوں سے حسرت ٹپکے گی، دور کھڑے للچاؤ گے
شانت نگر کا کھوج لگا کر یہ دُکھ بھی سہنا ہو گا
جانے پہچانے لوگوں میں پردیسی کہلاؤ گے
شکیب جلالی

خامشی میں پیام ہوتے ہیں

بے زباں ہم کلام ہوتے ہیں
خامشی میں پیام ہوتے ہیں
راز داں مل کے لوٹ لیتے ہیں
اجنبیوں کے نام ہوتے ہیں
خار مے نوش ہیں کسے معلوم
آبلے مثلِ جام ہوتے ہیں
دل کی آواز کوئی سُن لیتا
صاحبِ گوش، عام ہوتے ہیں
اٹھ رہے ہیں غلاف پلکوں کے
حادثے بے نیام ہوتے ہیں
زیست میں زہر گھولنے والے
کس قدر خوش کلام ہوتے ہیں
مُسکرا کر نگاہ ڈوب گئی
اس طرح بھی سلام ہوتے ہیں
کس قدر خود نظر ہیں دیوانے
اجنبی بن کے عام ہوتے ہیں
شکیب جلالی

سوادِ شب میں ستارے مجھے قبول نہیں

بجھے بجھے سے شرارے مجھے قبول نہیں
سوادِ شب میں ستارے مجھے قبول نہیں
یہ کوہ و دشت بھی آئینہِ بہار بنے
فقط چمن کے نظارے مجھے قبول نہیں
تمھارے ذوقِ کرم پر بہت ہوں شرمندہ
مراد یہ ہے سہارے مجھے قبول نہیں
مثالِ موج سمندر کی سمت لوٹ چلو
سُکوں بدوش کنارے مجھے قبول نہیں
میں اپنے خوں سے جلاؤں گا رَہ گزر کے چراغ
یہ کہکشاں، یہ ستارے مجھے قبول نہیں
شکیبؔ! جس کو شکایت ہے کُھل کے بات کرے
ڈھکے چُھپے سے اشارے مجھے قبول نہیں
شکیب جلالی

وہ پاس آ رہا تھا کہ میں دُور ہٹ گیا

بس اک شعاعِ نُور سے سایہ سمٹ گیا
وہ پاس آ رہا تھا کہ میں دُور ہٹ گیا
پھر درمیانِ عقل و جنوں جنگ چھڑ گئی
پھر مجمعِ حواس گروہوں میں بٹ گیا
کیا اب بھی تیری خاطرِ نازک پہ بار ہُوں
پتھر نہیں کہ میں ترے رستے سے ہٹ گیا
یا اتنا سخت جان کہ تلوار بے اثر
یا اتنا نرم دل کہ رگِ گل سے کٹ گیا
وہ لمحہِ شعور جسے جاں کَنی کہیں
چہرے سے زندگی کے، نقابیں اُلٹ گیا
اب کون جائے، کُوئے ملامت سے لوٹ کر
قدموں سے آ کے اپنا ہی سایہ لپٹ گیا
آخر، شکیبؔ! خُوے سِتم اس نے چھوڑ دی
ذوقِ سفر کو دیکھ کے صحرا سمٹ گیا
شکیب جلالی

اوپگلے کیا سوچ کے تو نے جیون کی بازی ہاری ہے

اُس مَدھ ماتی سُندر چھب کی متوالی دُنیا ساری ہے
اوپگلے کیا سوچ کے تو نے جیون کی بازی ہاری ہے
جھیل نہیں اِندر کی سبھا ہے، پُھول نہیں چنچل پریاں ہیں
جنگل میں ایسی رُت کب تھی، یہ سب دھیان کی گُل کاری ہے
رُوپ محل کی چور گلی سے، دیکھوکس کو بُلاوا آئے
اک ہیروں کا سوداگر ہے اَور اِک من کا بیوپاری ہے
گھر سے اکیلا جو بھی نِکلا اس نے اپنی کھوج نہ پائی
چندرما کا ہاتھ پکڑلو، یہ رات بڑی اندھیاری ہے
کِس سے روئیں پیار کا دُکھڑا، کِس سے پائیں داد وفا کی
کچھ گونگے بہرے لوگوں کی، اس بستی میں سرداری ہے
شکیب جلالی

کچھ شرارے بھی رگِ جاں کو جُھلسنے والے

اَبر بن کر مری آنکھوں سے برسنے والے
کچھ شرارے بھی رگِ جاں کو جُھلسنے والے
مُلتفت پا کے تجھے ، ہوش گنوا بیٹھیں گے
یہ تری نیم نِگاہی کو ترسنے والے
کوئی پیکر ہو جھلکتے ہیں انہی کے خدو خال
بن گئے جزوِ نظر ، دھیان میں بسنے والے
دوست داری کا تقاضا ہے کہ میں کچھ نہ کہوں
آستینوں کے مکیں ہیں ، مجھے ڈسنے والے
مُفتیِ شہر کی تقریر سے ڈرنا کیا ہے
کہیں ایسے بھی گرجتے ہیں برسنے والے
طاق مژگان پہ لرزتے رہے اشکوں کے چراغ
کس تکلیف سے بہیے ٗ آج یہ بہنے والے
شکیب جلالی

اب شمع بکف پھرتا ہے دیوانہِ مہتاب

اوجھل ہوا نظروں سے ضیا خانہِ مہتاب
اب شمع بکف پھرتا ہے دیوانہِ مہتاب
بخشی ہیں تحیّر کی نگاہوں کو پناہیں
دائم رہے آباد صنم خانہِ مہتاب
ڈھونڈے نہ ملی جاے سکُوں قریہِ شب میں
کاندھے پہ اٹھائے پھرے کاشانہِ مہتاب
پھِر اُڑنے لگے گیسوے غم دوشِ فضا پر
پھر کوئی چھلکتا ہوا پیمانہِ مہتاب
شمعیں نہ بھڑک اٹھیں شبستانِ جنوں کی
ہم کہتے ہوئے ڈرتے ہیں افسانہِ مہتاب
تم سے تو کوئی فیض نہیں عرش نشینو
ہم خاک بسر، لائے ہیں نذرانہِ مہتاب
شکیب جلالی

صندل کے جنگلوں کی ہوا یاد آ گئی

اس گُل بدن کی بُوئے قبا یاد آ گئی
صندل کے جنگلوں کی ہوا یاد آ گئی
یہ کون زندگی میں نشہ گھولنے لگا
کس کی اداے ہوش رُبا یاد آ گئی
یاد آگئے کسی کے تبسّم تراش لب
کِھلتے ہوئے کنول کی ادا یاد آ گئی
پھر دل کی دَھڑکنوں نے بِچھائی بِساطِ رقص
پھر وہ نگاہِ نغمہ سرا یاد آ گئی
گھبرا کے چاند چھپ گیا بادل کی اوٹ میں
بے ساختہ وہ جانِ حیا یاد آ گئی
تنہائیوں کی گونج نے جب بھی دیا فریب
مجھ کو شکستِ دل کی صدا یاد آ گئی
شکیب جلالی

کوئی موسم ہو مرا، زخم ہرا رہتا ہے

دل کے ویرانے میں اک پھول کھلا رہتا ہے
کوئی موسم ہو مرا، زخم ہرا رہتا ہے
شب کو ہو گا اُفقِ جاں سے ترا حُسن طلوع
یہ وہ خورشید ہے جو دن کو چھپا رہتا ہے
یہی دیوارِ جدائی ہے زمانے والو
ہر گھڑی کوئی مقابل میں کھڑا رہتا ہے
کتنا چپ چاپ ہی گزرے کوئی میرے دل سے
مدّتوں ثبت نشانِ کفِ پا رہتا ہے
سارے در بند ہوئے شہر میں دیوانے پر
ایک خوابوں کا دریچہ ہی کُھلا رہتا ہے
شکیب جلالی

رُوپ کی مایا جن کو کر کر لمبے ہات مِلے

کاسہِ سر کو ان سے کچھ پتھر خیرات مِلے
رُوپ کی مایا جن کو کر کر لمبے ہات مِلے
یُوں سِمٹا بیٹھا ہُوں اندھیارے کی بانہوں میں
بھولے بھٹکے شاید تیری زُلف کی رات مِلے
کاش اک ایسی صُبح بھی آئے ہجر کی رات کے بعد
جب میں سو کر اُٹھوں ہات میں تیرا ہات مِلے
شہرِسمن کو چھوڑا جن کی یاد سے گھبرا کر
بَن میں وُہ قاتل لمحے گرد کی صورت سات ملیِ
تم سے جیالے انساں ہم نے کم دیکھے ہیں ، شکیبؔ
اس کوچے میں یوں تو اور بہت حضرات ملے
شکیب جلالی

زخموں کی طرح سِینہِ سوزاں میں رہے پُھول

شاخوں پہ رہے اور نہ داماں میں رہے پُھول
زخموں کی طرح سِینہِ سوزاں میں رہے پُھول
دوشیزگیِ رنگ کے لُٹ جانے کا ڈر تھا
سہمے ہوئے آغوشِ بہاراں میں رہے پھول
کیا کم ہے یہ احسان ترا یادِ بہاراں !
ہمراہ مِرے گوشہِ زنداں میں رہے پُھول
شُعلہ صفت و بَرق شعار و شفق انداز
کیا کیا نہ مِرے دیدہِ حیراں میں رہے پھول
اک موجِ بلاخیز بہا لے گئی آخر
کچھ دیر تو کنجِ خسِ مِژگاں میں رہے پُھول
اک طرفہ تماشا تھی بدلتی ہوئی رُت بھی
غیروں کی طرح اپنے گلستاں میں رہے پُھول
شکیب جلالی

ہر روش پر گُل کتر جائے گی دھوپ

پَو پھٹے جب مَوج میں آئے گی دھوپ
ہر روش پر گُل کتر جائے گی دھوپ
صُبح ہونے کی اَسیرو دیر ہے!
روزنِ زنداں میں در آئے گی دھوپ
سر بہ خم ہو جائیں گے اصنامِ شب،
چڑھتے سُورج کی خبر لائے گی دھوپ
کُہر میں لپٹے ہوئے اجسام پر
ایک زرّیں شال بُن جائے گی دھوپ
اُونگھتی تَنہائیوں کے کان میں
نغمگی کا شہد ٹپکائے گی دھوپ
تا بہ کَے اختر شماری، اے شکیبؔ
بُجھتے تاروں کو نگل جائے گی دھوپ
شکیب جلالی

ہم گردشِ ایّام سے گھبرائے ہوئے ہیں

دورِ سحر و شام سے گھبرائے ہوئے ہیں
ہم گردشِ ایّام سے گھبرائے ہوئے ہیں
پابستہِ زنجیر تو رُک رُک کے چلیں گے
دشواریِ ہرگام سے گھبرائے ہوئے ہیں
اُمّیدِ چراغاں ہے نہ اُمّیدِ سَحر ہے
زندانی سرِ شام سے گھبرائے ہوئے ہیں
نآ کردہ خطاؤں کا بھی اقرار نہ کرلیں
بے باکیِ الزام سے گھبرائے ہوئے ہیں
ساقی کوئی ہنگامہِ نوخیز بپا کر
ہم شغلِ مے و جام سے گھبرائے ہوئے ہیں
کانٹوں کا بیاں اور ہے، کلیوں کی صدا اور
اُلجھے ہوئے پیغام سے گھبرائے ہوئے ہیں
کُچھ لوگ ہیں مرعوب، شکیبؔ آپ کے فن سے
کچھ لوگ فقط نام سے گھبرائے ہوئے ہیں
شکیب جلالی

مدہوش نہیں تشنہ بہ لَب سوچ رہے ہیں

محجوب ہے کیوں بنتِ عَنَب سوچ رہے ہیں
مدہوش نہیں تشنہ بہ لَب سوچ رہے ہیں
بُجھتی ہوئی شمعوں کا دھواں ہے سرِ محفل
کیا رنگ جمے آخرِ شب سوچ رہے ہیں
ٹوٹے ہوئے پتّوں کو درختوں سے تعلّق؟
ہم دُور کھڑے شہرِ طرب سوچ رہے ہیں
تبدیلیِ حالات نے بَدلے ہیں خیالات
پہلے نہیں سوچا تھا جو اب سوچ رہے ہیں
ہم ابھرے بھی، ڈوبے بھی سیاہی کے بھنور میں
ہم سوئے نہیں شب، ہمہ شب سوچ رہے ہیں
ایمان کی شہ رگ ہُوں میں اِنسان کا دل ہوں
کیا آپ مرا نام و نَسَب سوچ رہے ہیں
شکیب جلالی

زنداں میں بھی جینے کا عجب ڈھنگ نکالا

زنجیر کی جھنکار کو سنگیت میں ڈھالا
زنداں میں بھی جینے کا عجب ڈھنگ نکالا
وہ خاک نکھاریں گے خدوخال سَحر کے
جو چہرہِ مہتاب پہ بُنتے رہے جالا
تپتے ہوئے صحرا کے کسی کام نہ آیا
گلگشت میں پھوٹا ہے مرے پاؤں کا چھالا
ہم نے جسے آزاد کیا حلقہِ شب سے
حاصل نہیں ہم کو اسی سورج کا اُجالا
انسان کی عظمت کی گواہی کے لیے ہو
کعبہ ہو کہ بُت خانہ ، کلیسا کہ شوالا
شکیب جلالی

چاندنی گہنا گئی، کجلا گئی

ڈُوبتے سورج کی جب یاد آ گئی
چاندنی گہنا گئی، کجلا گئی
شب کے دَریا میں پڑے ایسے بھنور
چاند کی کشتی بھی غوطہ کھا گئی
کتنے چمکیلے ستارے جل بجھے
پو پھٹے اِک برق سی لہرا گئی
جانے کتنے گُل کدوں کا راز تھی
وہ کلی جو بِن کھِلے مُرجھا گئی
آبلہ پائی کا ہم کو غم نہ تھا
رہ نماؤں کی ہنسی تڑپا گئی
زندگی! تجھ سے شکایت کیا کریں
آج ہم سے موت بھی شرما گئی
شکیب جلالی

خزاں نے لُوٹ لیا ہے جنوں کا گہوارہ

کہیں مہک، نہ ترنّم، نہ رقصِ گل پارہ
خزاں نے لُوٹ لیا ہے جنوں کا گہوارہ
کبھی جو شاق گزرتا ہے خندہِ انجم
سسکنے لگتا ہے نوکِ مژہ پہ اک تارہ
طلسمِ گردشِ ایّام کس طرح ٹوٹے
نظر علیل، جنوں خام، فکر آوارہ
شبِ الم میں ہمیں روشنی سے مطلب ہے
وہ کہکشاں ہو، قمر ہو، کہ کوئی سیّارہ
حیات برف کے سانچے میں ڈھل نہیں سکتی
دہک رہا ہے ابھی دل میں ایک انگارہ
شکیب جلالی

ظلمت میں اور ڈوب گئے بستیوں کے لوگ

جب بھی چراغ لے کے اٹھے بستیوں کے لوگ
ظلمت میں اور ڈوب گئے بستیوں کے لوگ
جنگل جلے تو ان کو خبر تک نہ ہوسکی
چھائی گھٹا تو جُھوم اٹھے بستیوں کے لوگ
پُروا چلی تو اور سلگنے لگے بدن،
پل بھر بھی رات سو نہ سکے بستیوں کے لوگ
بپھرے ہوئے بھنور نے سفینہ نگل لیا
ساحل سے دیکھتے ہی رہے بستیوں کے لوگ
خوشبو کی اِک لپٹ پہ کِھنچے آرہے تھے ہم
کانٹوں کے ہار لے کر بڑھے بستیوں کے لوگ
بھٹکے ہوئے غریب مسافر پہ، اے شکیبؔ
رَہ زَن سمجھ کے ٹوٹ پڑے بستیوں کے لوگ
شکیب جلالی

مُطربہ چھیڑ دے خوشی کے گیت

لے اُڑی ہے صَبا کلی کے گیت
مُطربہ چھیڑ دے خوشی کے گیت
ہم سے پہلے کہاں تھا سوز و گداز
ساز بے سُر تھے اور پھیکے گیت
نیند میں زہر گھول دیتے ہیں
رات کو ایک اجنبی کے گیت
موج رہ رہ کے سر کو دُھنتی ہے
کتنے سندر ہیں جل پری کے گیت
تم تو سرگوشیوں میں کھوئے رہے
کب سُنے تم نے خامُشی کے گیت
موت کے سامنے بھی لہرا کر
ہم نے گائے ہیں زندگی کے گیت
جس کا دُکھ درد تم نہ بانٹ سکے
بُھول بھی جاؤ اُس کوی کے گیت
گونجتے ہیں، شکیبؔ، خوابوں میں
آنے والی کسی صدی کے گیت
شکیب جلالی

ہُوا کا رخ نہ پہچانے بگولے

چلے تھے ہم سے ٹکرانے بگولے
ہُوا کا رخ نہ پہچانے بگولے
یہی حاصل ہے ذوقِ رَہ رَوی کا
یہی دوچار ویرانے، بگولے
تمھاری جلوہ گاہیں لالہ و گُل
ہمارے آینہ خانے بگولے
اگر بیٹھا ہُوں سستانے کی خاطر
چلے آئے ہیں سمجھانے بگولے
مِرے قدموں کی مہریں رہ گزر پر
مری جُرأت کے افسانے بگولے
مزاجِ گردشِ دوراں نہ بدلا
رہے گردش میں پیمانے بگولے
مِرا مسلک، شکیبؔ، ان سے جُدا ہے
نہ جوڑیں مجھ سے یارانے بگولے
شکیب جلالی

ایک مرکز پہ آگئے ہیں حواس

جب کبھی بڑھ گیا ہے خوف و ہراس
ایک مرکز پہ آگئے ہیں حواس
رات تارے بھی میرے ساتھ رہے
مضمحل مضمحل اُداس اُداس
نرم و نازک سے آبگینے ہیں
ان کی دوشیزگی، مرا احساس
جب اُجالوں کے تیر چلتے ہیں
چاک ہوتا ہے ظُلمتوں کا لباس
چاند کی پُربہار وادی میں
ایک دوشیزہ چُن رہی ہے کپاس
خار تو شہرِ گُل کی رونق تھے!
کس نے خاروں کو دے دیا بن باس
شکیب جلالی

ماحول میں رچ گئی سیاہی

اربابِ سَحر کی خودنگاہی
ماحول میں رچ گئی سیاہی
رخشندہ نجوم دُور شب میں
دیتے رہے صبح کی گواہی
پہنچے سرِ دار ہنستے گاتے
ہم نے رسمِ جُنوں نباہی
اے راہبرو! ذرا تو سوچو
بھٹکیں گے کہاں کہاں یہ راہی
نیچی ہے نظر سِتم گروں کی
ثابت ہے ہماری بے گُناہی
شب خون پڑے گا تیرگی پر
مہتاب بدست ہے سیاہی
شکیب جلالی

جس کسی کے ساتھ مل بیٹھے اسی سے تم کو اُلفت ہو گئی

چند لمحوں کا تصرّف کیا ہوا ان سے عقیدت ہو گئی
جس کسی کے ساتھ مل بیٹھے اسی سے تم کو اُلفت ہو گئی
اس طرح اکثر ہوا ہے دشمنوں کی خواہشوں کا احترام
جو بھی شے مرغوب تھی ان کو مجھے بھی اس سے رغبت ہو گئی
کل تلک ہر خواہشِ پُرکار بھی میری گوارا تھی انھیں
آج اک معصوم سی لغزش سزاوارِ شکایت ہو گئی
میں سمجھتا ہوں کہ ان پر اپنی خامی کا ہوا ہے انکشاف
لوگ کہتے ہیں مرے حالِ زُبوں سے ان کو نفرت ہو گئی
شکیب جلالی

شگُفتِ رنگ نہیں ہے تو پھر یہ سب کیا ہے

سَحر میں حُسن ہے کیسا! بہارِ شب کیا ہے
شگُفتِ رنگ نہیں ہے تو پھر یہ سب کیا ہے
یہ اور بات ہے کوئی کسی کا دوست نہ ہو
اگر ہے کوئی تو پھر دشمنی عجب کیا ہے
’’کوئی بتائے کہ اب کیا جواب دوں ان کو،،
وہ پوچھتے ہیں مرے پیار کا سبب کیا ہے
وہ ایک بات جو سینے میں مثلِ راز نہ تھی
سمجھ گیا ہو زمانہ تو پھر عجب کیا ہے
وہ زرنگار ستارے بھی چھپ گئے آخر
خلا میں ڈھونڈ رہا ہوں متاعِ شب کیا ہے
زہے کرم کہ ہمیشہ سے تم مخالف ہو
وگرنہ جب بھی نہ تھا کچھ شکیبؔ، اب کیا ہے
شکیب جلالی

سمن کدوں کو سجاؤ بہار آئی ہے

بساطِ رنگ بچھاؤ بہار آئی ہے
سمن کدوں کو سجاؤ بہار آئی ہے
صبا کے ہاتھ ملا ہے پیامِ بیداری
کلی کلی کو جگاؤ بہار آئی ہے
سَحر کا رنگ، ستاروں کا نُور پگھلا کر
رُخِ چمن پہ بہاؤ بہار آئی ہے
نگارِ باغ کی دوشیزگی نکھر جائے
کلی کو پُھول بناؤ بہار آئی ہے
فضا کی تشنہ لَبی پر مٹھاس بکھرا دو
رسیلے گیت سناؤ بہار آئی ہے
کوئی خوشی کا فسانہ کوئی ہنسی کی بات
لَبوں سے پھول گراؤ بہار آئی ہے
نظر کے ساتھ شفق رنگ، مے کا دَور چلے
فضا کو مست بناؤ بہار آئی ہے
غمِ خزاں کا چمن میں کوئی نشاں نہ ملے
اک ایسا جشن مناؤ بہار آئی ہے
یہیں پہ جنتِ قلب و نظر کی ہو تشکیل
یہیں پہ خُلد بساؤ بہار آئی ہے
شکیب جلالی

کوئی بھی لذّت عام نہیں ہے

دھوپ کہیں ہے چھاؤں کہیں ہے
کوئی بھی لذّت عام نہیں ہے
یوں بیٹھے ہیں تھکے مسافر
جیسے منزل یہیں کہیں ہے
گردشِ دوراں توبہ توبہ
ہم کو خدا بھی یاد نہیں ہے
جس کو چاہا حُسن میں ڈھالا
تجھ سے میری آنکھ حَسیں ہے
ان کی کوئی بات سناؤ
جن کا مجھ سے میل نہیں ہے
دوست ہیں دل میں، ذہن میں دشمن
کوئی بھی مجھ سے دُور نہیں ہے
شکیب جلالی

یہ شگفتِ گل کا موسم بڑا خوش گوار ہوتا

ہمیں جیب و آستیں پر اگر اختیار ہوتا
یہ شگفتِ گل کا موسم بڑا خوش گوار ہوتا
گونجتے ہیں شکیبؔ آنکھوں میں
آنے والی کسی صدی کے گیت
ثاند کی پر بہار وادی میں
ایک دوشیزہ چن رہی ہے کپاس
بھاگتے سایوں کی چیخیں، ٹوٹے تاروں کا شور
میں ہوں اور اک محشرِ بے خواب آدھی رات کو
بات میری کہاں سمجھتے ہو
آنسوؤں کی زباں سمجھتے ہو
ہاۓ وہ آگ کہ جو دل میں سلگتی ہی رہے
ہاۓ وہ بات کہ جس کا کبھی اظہار نہ ہو
جنگل جلے تو ان کو خبر تک نہ ہو سکی
چھائی گھٹا تو جھوم اٹھے بستیوں کے لوگ
مجھ کو آمادہِ سفر نہ کرو
راستے پر خطر نہ ہو جائیں
خوشی کی بات نہیں ہے کوئی فسانے میں
وگرنہ عذر نہ تھا آپ کو سنانے میں
پائلیں بجتی رہیں کان میں سودائی کے
کوئی آیا نہ گیا رات کے سنّاٹے میں
خاموشی کے دکھ جھیلو گے ہنستے بولتے شہروں میں
نغموں کی خیرات نہ بانٹو جنم جنم کے بہروں میں
ہر شاخ سے گہنے چھین لیے ، ہر دال سے موتی بین لیے
اب کھیت سنہرے کھیت نہیں، ویرانے ہی ویرانے ہیں
طلسمِ گردشِ ایّام کس طرح ٹوٹے
نظر علیل، جنوں خام، فکر آوارہ
اس گلبدن کی بوۓ قبا یاد آ گئی
صندل کے جنگلوں کی ہوا یاد آ گئی
آبلہ پائی کا ہم کو غم نہ تھا
رہنماؤں کی ہنسی تڑپا گئی
جس دم قفس میں موسمِ گل کی خبر گئی
اک بار قیدیوں پہ قیامت گزر گئی
کتنے ہی لوگ صاحبِ احساس ہو گئے
اک بے نوا کی چیخ بڑا کام کر گئی
اب انہیں پرسشِ حالات گراں گزرے گی
بد گمانی ہے تو ہر بات گراں گزرے گی
دیکھ زخمی ہوا جاتا ہے دو عالم کا خلوص
ایک انساں کو تری ذات سے دکھ پہنچا ہے
سحر میں حسن ہے کیسا، بہارِ شب کیا ہے
جو دل شگفتہ نہیں ہے تو پھر یہ سب کیا ہے
گمرہی ہمیں شکیبؔ دے رہی ہے یہ فریب
رہنما غلط نہیں، راستہ طویل ہے
اس طرح گوش بر آواز ہیں اربابِ ستم
جیسے خاموشیِٔ مظلوم صدا رکھتی ہے
کسی کا قرب اگر قربِ عارضی ہے شکیبؔ
فراقِ یار کی لذّت ہی پائیدار رہے
ہوا جو صحنِ گلستاں میں راج کانٹوں کا
صبا بھی پوچھنے آئی مزاج کانٹوں کا
ہم نے گھبرا کے موند لیں آنکھیں
جب کوئی تارہ ٹوٹتا دیکھا
تھکن سے چور ہیں پاؤں کہاں کہاں بھٹکیں
ہر ایک گام نیا حسن رہ گزار سہی
کمتر نہ جانیں لوگ اسے مہر و ماہ سے
ہم نے گرا دیا جسے اپنی نگاہ سے
یہ لطف زہر نہ بن جاۓ زندگی کے لیے
چلے تو آۓ ہو تجدیدِ دوستی کے لیے
ہم نے جسے آزاد کیا حلقہِ شب سے
حاصل نہیں ہم کو اسی سورج کا اجالا
ہم اپنے چاکِ قبا کو رفو تو کر لیتے
مگر وہی ہے ابھی تک مزاج کانٹوں کا
سچ کہو میری یاد بھی آئی؟
جب کبھی تم نے آئینہ دیکھا
سکوں بدوش کنارا بھی اب ابھر آئے
سفینہ ہائے دل و جاں بھنور کے پار سہی
یا میں بھٹک گیا ہوں سرِ رہ گزر شکیبؔ
یا ہٹ گئی ہے منزلِ مقسود راہ سے
نہ جانے ہو گیا کیوں مطمئن تجھے پا کر
بھٹک رہا تھا مرا دل خود آگہی کے لیے
شکیب جلالی

جس سمت نگاہیں اٹھتی ہیں پیمانے ہی پیمانے ہیں

پلکوں کے نشیلے سایے میں مے خانے ہی مے خانے ہیں
جس سمت نگاہیں اٹھتی ہیں پیمانے ہی پیمانے ہیں
ان سہمی سہمی آنکھوں میں سُرخی ہے مدھر آشاؤں کی
ان اُلجھی اُلجھی سانسوں میں افسانے ہی افسانے ہیں
اُلفت کے سودے کون کرے، نفرت کی جھولی کون بھرے
ہم کاروباری دنیا میں بیگانے ہی بیگانے ہیں
جب موسمِ گُل کی آمد تھی دنیا نے پسارے تھے دامن
اب موسمِ گُل کی رخصت پر دیوانے ہی دیوانے ہیں
تاریک بگولے رقصاں ہیں اک خول چڑھا ہے کرنوں پر
مایوس دلوں کو کیا کہیے، غم خانے ہی غم خانے ہیں
ہر شاخ سے گہنے چھین لیے، ہر ڈال سے موتی بِین لیے
اب کھیت سنہری کھیت نہیں، ویرانے ہی ویرانے ہیں
کوئی جو انھیں اپنا لیتا بَن باس نہ لیتے دیوانے
آباد گھروندوں میں اے دل بیگانے ہی بیگانے ہیں
شکیب جلالی

آنکھوں کی سنہری جھیلوں میں تصویریں سجدہ کرتی ہیں

آکاش کے ماتھے کی اُجلی تحریریں سجدہ کرتی ہیں
آنکھوں کی سنہری جھیلوں میں تصویریں سجدہ کرتی ہیں
وہ جال ہوں کالی زُلفوں کے یا تا ر ہوں سونے چاندی کے
دیوانے ہیں ہم دیوانوں کو زنجیریں سجدہ کرتی ہیں
ان نازک نازک پوروں سے سنگین لکیریں ڈالی ہیں
تدبیر کے زانو پر اکثر تقدیریں سجدہ کرتی ہیں
مے رنگ لہو کے دانوں کی مالا پہنائی جاتی ہے
بے باک گُلو کی عظمت کو شمشیریں سجدہ کرتی ہیں
پلکوں پہ لرزتے اشکوں کی توقیر نہ جانے کیا ہو گی
کہتے ہیں سُلگتی آہوں کو تاثیریں سجدہ کرتی ہیں
کس آس پہ اپنے شانوں پر ہم بوجھ اٹھائیں محلوں کے
یہ شوخ کَلس جھک جاتے ہیں تعمیریں سجدہ کرتی ہیں
آداب وہی ہیں الفت کے، ترتیب نے پہلو بدلے ہیں
جب رانجھے سجدہ کرتے تھے اب ہیریں سجدہ کرتی ہیں
شکیب جلالی

ہمارے بانکپن کا تذکرہ ہے

وہ زنداں یا چمن کا تذکرہ ہے
ہمارے بانکپن کا تذکرہ ہے
مرے حُسنِ سماعت پر نہ جاؤ
کسی غنچہ دہن کا تذکرہ ہے
سیاہ زلفوں کی زنجیروں میں پنہاں
نئی اُجلی کرن کا تذکرہ ہے
زبانِ خار و خس تک بات پہنچے
بہاریں پیرہن کا تذکرہ ہے
دھواں دینے لگے ہیں لالہ و گُل
کسی شعلہ بدن کا تذکرہ ہے
ابھی دریادلی کا ذکر ہو گا
ابھی تشنہ دہن کا تذکرہ ہے
دیارِ کہکشاں سے شہرِ گُل تک
ہماری انجمن کا تذکرہ ہے
شکیبؔ! اہلِ زباں کی محفلوں میں
ترے طرزِسخن کا تذکرہ ہے
شکیب جلالی

میری جرأت نگہِ پیش نما رکھتی ہے

یادِ ایّام سے شکوہ نہ گلہ رکھتی ہے
میری جرأت نگہِ پیش نما رکھتی ہے
سطحی رنگ فسانوں کا ہے بہروپ حیات
دل کی گہرائی حقائق کو چُھپا رکھتی ہے
اس طرح گوش بر آواز ہیں اربابِ ستم
جیسے خاموشیِ مظلوم صدا رکھتی ہے
اپنی ہستی پہ نہیں خود ہی یقیں دنیا کو
یہ ہر اک بات میں ابہام رَوا رکھتی ہے
میری ہستی کہ رہینِ غمِ الفت ہے، شکیبؔ
دل میں اُٹھتے ہوئے شبہات دبا رکھتی ہے
شکیب جلالی

کس درجہ سست گام ہیں پھولوں کے قافلے

بعد از خزاں بھی خشک بگولوں کے سلسلے
کس درجہ سست گام ہیں پھولوں کے قافلے
کیوں کر بڑھائیں ربط کسی اجنبی کے ساتھ
ساتھی تھے عمر بھر کے جو غیروں سے جا ملے
جو کائناتِ درد سے مانوس ہی نہیں
وہ کر رہے ہیں پیار کی دنیا کے فیصلے
اے پیکرِ غرور کہ ہم بھی ہیں بااصول
طے ہوسکیں گے کیا یہ پُراَسرار فاصلے
ایثار کے دیار سے نفرت کے شہر تک
ہیں کس قدر طویل محبت کے سلسلے
افسانہِ بہار پھر ان کی زبان سے
خوشبو اُڑی، نسیم چلی، پھول سے کھلے
گہنا گئے بوقتِ سَحر دل کے وَلولے
کیا کچھ نہ حال ہو گا اُمنگوں کا، دن ڈھلے
تیری شبیہ کا ہے خلاؤں میں رقص پھر
محرابِ زندگی میں ہزاروں دیے جلے
اُس کو یقین کیا دلِ اخلاص کِیش کا
مایوسیوں کی گود میں جو زندگی پَلے
آساں بنا رہا تھا جنھیں احتیاط سے
دشوار ہو گئے وہی نازک سے مرحلے
آئے تھے وہ وفا کی نمایش کے واسطے
میرے تعلّقات کو آلودہ کر چلے
مسمار ہو سکے نہ گھروندے وفاؤں کے
آتے رہے پیار کی بستی میں زلزلے
شعلوں کے رنگ میں، کہیں شبنم کے روپ میں
منظوم ہیں، شکیبؔ، مرے دل کے وَلولے
شکیب جلالی

یہ عجب پیار کے قانون ہوئے جاتے ہیں

دل گرفتہ ہیں ، جگر خون ہوئے جاتے ہیں
یہ عجب پیار کے قانون ہوئے جاتے ہیں
اس قرینے سے گُنہ گار ہوئے ہیں رُسوا
اہلِ تقدیس بھی مطعون ہوئے جاتے ہیں
ہم تو ہر غم کو محبت کا تقاضا سمجھے
کیا خبر تھی ترے ممنون ہوئے جاتے ہیں
قلبِ خوددار شکستہ تو محبت زخمی
میرے محسن کے کئی خون ہوئے جاتے ہیں
دولتِ اُنس و محبت ہے فقط اِن کا نصیب
میرے احباب تو قارون ہوئے جاتے ہیں
اپنا کہتے ہوئے ڈرتی ہے مری سادہ رَوی
اس قدر شوخ سے مضمون ہوئے جاتے ہیں
جس قدر تجھ پہ لٹاتے ہیں متاعِ ہستی
اتنے ہی ہم ترے مرہون ہوئے جاتے ہیں
شکیب جلالی

بغیرِ شکایت مصائب میں جی لے

زباں کاٹ دے اور ہونٹوں کو سی لے
بغیرِ شکایت مصائب میں جی لے
حوادث کی زَد میں بڑھے جا رہے ہیں
مری آرزوؤں کے نازک قبیلے
وہ ساتھی جسے غم سے نسبت نہیں ہے
اَلَم کو کُریدے نہ زخموں کو چھیلے
غرور و محبت میں تفریق دیکھو
یہ سونے کی وادی، یہ مٹی کے ٹیلے
ہمیں دل کی ہر بات سچ سچ بتا دو
بناؤ نہ باتیں، تراشو نہ حیلے
نہ چھیڑو، پرانے فسانے نہ چھیڑو
لہو ہی بہے گا اگر زخم چھیلے
شکیب جلالی

وہ اِک نگاہ جو بیگانہ وار گُزری ہے

حجابِ رنگِ نظارہ پہ بار گُزری ہے
وہ اِک نگاہ جو بیگانہ وار گُزری ہے
بزعمِ عِشق اُبھر کے جو لَب پہ آ نہ سکی
وہ چیخ حُسنِ سماعت پہ بار گُزری ہے
شگُفتہ رنگ اُجالوں کے کارواں تو نہیں
مِری نگاہ فقط سیم بار گُزری ہے
تمھارے غم کا مجھے درد بے سبب تو نہیں
مری حیات بہت سوگوار گزری ہے
وہ ایک رات کہ جَب رَوشنی علیل رہی
وہ ایک رات بصد اِنتشار گُزری ہے
مِری نگاہ بُہت حق پسند ہے شاید
کبھی کبھی مُجھے خود ناگوار گزری ہے
مزاج حُسن بہ تمثیلِ برق کیوں ہے، شکیبؔ
صداے درد تھی سیماب وار گُزری ہے
شکیب جلالی

خلافِ حُسنِ توقع بہار گزری ہے

کسی کے پاے شکستہ پہ بار گزری ہے
خلافِ حُسنِ توقع بہار گزری ہے
وقارِ حسن بہ تمثیلِ برق کیوں ہے آج
صداے درد تھی سیماب وار گزری ہے
خزاں کا عکس ہی دیکھا ہے صبحِ گلشن میں
بشکلِ آینہ موجِ بہار گزری ہے
یہ جَاں بلب سے شگوفے یہ مُردہ رنگ کنول
یہاں سے رحمتِ ابرِ بہار گزری ہے!
رِداے حسن کے ٹکڑے فضا میں پھیلے ہیں
مری نگاہ بصد انتشار گزری ہے
شکیبؔ! فرطِ عقیدت میں کہہ گئے ہیں وہ بات
جو آگہی پہ بہت ناگوار گزری ہے
شکیب جلالی

اجنبی طرز کے حالات سے دُکھ پہنچا ہے

اُن کی سنجیدہ ملاقات سے دُکھ پہنچا ہے
اجنبی طرز کے حالات سے دُکھ پہنچا ہے
اُس کا مذکور کہیں شکوہِ محسن میں نہیں
میری خوددار روایات سے دُکھ پہنچا ہے
دیکھ زخمی ہوا جاتا ہے دو عالم کا خلوص
ایک انساں کو تری ذات سے دُکھ پہنچا ہے
احتراماً مرے ہونٹوں پہ مُسلّط تھا سُکوت
اُن کے بڑھتے ہوئے شبہات سے دُکھ پہنچا ہے
یا انھیں لغزشِ معصوم، گراں گزری ہے
یا غلط فہمیِ حالات سے دُکھ پہنچا ہے
میرے اشکوں کو شکایت نہیں کوئی تم سے
مجھ کو اپنی ہی کسی بات سے دُکھ پہنچا ہے
میری جرأت پہ، شکیبؔ، آج خرد حاوی ہے
آج ناکامیِ حالات سے دُکھ پہنچا ہے
شکیب جلالی

بقدرِ فکر شکایت بدلتی رہتی ہے

غمِ حیات کی لذّت بدلتی رہتی ہے
بقدرِ فکر شکایت بدلتی رہتی ہے
حَریمِ راز، امیدِ کرم کہ ذوقِ نمود
خلوصِ دوست کی قیمت بدلتی رہتی ہے
کبھی غرور، کبھی بے رخی، کبھی نفرت
شبیہِ جوشِ محبت بدلتی رہتی ہے
نہیں کہ تیرا کرم مجھ کو ناگوار نہیں
یہ غم ہے وجہِ مسرّت بدلتی رہتی ہے
اگر فریب حَسیں ہو تو پھر فریب نہیں
خطا معاف حقیقت بدلتی رہتی ہے
کبھی جو غیر تھا وہ میری زندگی ہے آج
بَقیدِ وقت صداقت بدلتی رہتی ہے
مرے چلن کو تغیّر نہیں زمانے میں
تری نگاہِ عنایت بدلتی رہتی ہے
کبھی ملُول، کبھی شادماں ، کبھی بے حِس
ترے شکیبؔ کی حالت بدلتی رہتی ہے
شکیب جلالی

ایک خواہش، ہزار تہ خانے

کوئی اِس دل کا حال کیا جانے
ایک خواہش، ہزار تہ خانے
آپ سمجھے نہ ہم ہی پہچانے
کتنے مبہم تھے دل کے افسانے
زِیست کے شور و شر میں ڈوب گئے
وقت کو ناپنے کے پیمانے
پھر ہُوا کوئی بدگماں ہم سے
پھر جنم لے رہے ہیں افسانے
شوخیِ برق ہے نہ رقصِ نسیم
سوگئے ہیں بہار کے شانے
کتنا مشکل ہے منزلوں کا حُصول
کتنے آساں ہیں جال پھیلانے
دُور سے ایک چیخ اُبھری تھی
بن گئے بے شُمار افسَانے
موت نے آج خود کُشی کرلی
زیست پر کیا بنی خُدا جانے
راز یہ ہے کہ کوئی راز نہیں
لوگ پھر بھی مجھے نہ پہچانے
وقت نے یہ کہا ہے رُک رُک کر
آج کے دوست کل کے بیگانے
شکیب جلالی