زمرہ جات کے محفوظات: آفتاب اقبال شمیم

کبھی تقدیر کا خواہش سے سمجھوتا نہیں ہوتا

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 45
جو ہونا چاہئے اس کے علاوہ کیا نہیں ہوتا
کبھی تقدیر کا خواہش سے سمجھوتا نہیں ہوتا
بچھڑنا حادثہ بن جائے خود جاں سے بچھڑنے کا
کس کے ساتھ ایسا ربط بھی اچھا نہیں ہوتا
حقیقت پر گماں ، پھر اس گماں پر بھی گماں کرنا
یہ صورت ہو تو عکس افروز آئینہ نہیں ہوتا
ہمیں نظّارہ کرواتا ہے بے ساحل سمندر کا
وُہ آنسو جو ہماری آنکھ پر افشا نہیں ہوتا
ہم اپنے آپ کو اس شہر کا حاکم سمجھتے ہیں
ہمیشہ کی طرح جب جیب میں پیسہ نہیں ہوتا
لگا ہے قفل پر چہرے پر نامانوس چہرے کا
کہیں پہچان کا دروازہ ہم پر وا نہیں ہوتا
آفتاب اقبال شمیم

جہل کو دانش کہیں ، بینا کو نابینا کہیں

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 44
دَور ہی ایسا ہے، جو دیکھیں اُسے اُلٹا کہیں
جہل کو دانش کہیں ، بینا کو نابینا کہیں
شہرِ نو آباد کی یہ قُربتیں ، یہ دُوریاں
یعنی ہم برسوں کے ناواقف کو ہمسایا کہیں
اُن کا کہنا ہے کہ ہر ظاہر کا باطن اور ہے
جاگتی آنکھیں جو دِکھلائیں اُسے سپنا کہیں
وُہ جو کر دے زندگی کا سارا منظر خواب گُوں
کوئی آئے بھی نظر ایسا جسے تجھ سا کہیں
روز فرمائش کرے صورت گر دُنیا کہ ہم
مصلحت کے چہرۂ یک چشم گو زیبا کہیں
اُن میں کرتا ہے جو نا مُعتبر کو مُعتبر
وُہ مدارِ قسمتِ انساں ، جسے پیسا کہیں
کوئی کیوں جانے کہ ہم کب آئے کب رخصت ہوئے
زندگی کر لی، اِسے اب زحمتِ بے جا کہیں
آفتاب اقبال شمیم

دنیا غیر ضروری تو ہو جاتی ہے

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 44
عشق میں یہ مجبوری تو ہو جاتی ہے
دنیا غیر ضروری تو ہو جاتی ہے
چہرے کو بےچہرہ کر کے، بدلے میں
چلئے کچھ مشہوری تو ہو جاتی ہے
سچ کہتے ہو، روز کی دنیا داری میں
اپنے آپ سے دوری تو ہو جاتی ہے
جزیہ ہے جو روز کے زندہ رہنے کا
ہم سے وُہ مزدوری تو ہو جاتی ہے
سچ وہ مرشد، جس کی ایک سفارش سے
عرضی کی منظوری تو ہو جاتی ہے
اہلِ جنوں آسودہ ہوں جس مٹی میں
وہ مٹی کستوری تو ہو جاتی ہے
الف انا کے پوری قد میں چلتا ہوں
شرطِ فقیری پوری تو ہو جاتی ہے
آفتاب اقبال شمیم

یا دل ملتا ہے یا منصب ملتے ہیں

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 43
دونوں ہی اک ساتھ بھلا ملتے ہیں
یا دل ملتا ہے یا منصب ملتے ہیں
کون ہیں وُہ؟ وُہ خلق خدا کے بنجر ہیں
وُہ جو اُس ہوٹل میں ہر شب ملتے ہیں
آنکھیں کھول کہ دیکھو معنی دنیا کے
اِس لغّت میں سارے مطلب ملتے ہیں
کون کسے یاں جانے ہے پہچانے ہے
ملنے کو تو آپس میں سب ملتے ہیں
غم بھی اک تہذیب ہے جسکی کشور میں
تشنہ آنکھیں اور پیاسے لب ملتے ہیں
جان گنوا کر نام ملے گم ناموں کو
یہ گوہر جب کھو جائیں تب ملتے ہیں
آفتاب اقبال شمیم

ہے مفت کی شراب اسے پینا چاہئے

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 43
مرنا اگر ضرور ہے تو جینا چاہئے
ہے مفت کی شراب اسے پینا چاہئے
چاہے کہ دیکھ کر بھی نہ دیکھا کرے کوئی
اِس حکمراں کو خلقتِ نابینا چاہئے
دیکھیں کہ عکس کوئی بدلتا ہے کس طرح
اک اور آئینہ پسِ آئینہ چاہئے
بیٹھے رہیں مرقعِٔ ایام کھول کر
قربت میں کوئی ہمدمِ دیرینہ چاہئے
طے کر سکو گے راہِ محبت کی منزلیں !
دل میں بہت غرور بڑا کینہ چاہئے
آ اِس طرح سے حسن کو نا مطمئن کریں
اس زخمِ شاعری کو کبھی سینا چاہئے
آفتاب اقبال شمیم

سارے نشیب جن کی اُٹھانوں پہ دنگ ہیں

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 42
یہ پیڑ، یہ پہاڑ زمیں کی اُمنگ ہیں
سارے نشیب جن کی اُٹھانوں پہ دنگ ہیں
باہر ہو جس، پھر بھی دریچہ کھلا رکھوں
یہ خود تسلیاں میرے جینے کا ڈھنگ ہیں
ڈھونڈوں کہ انتہا کی مجھے انتہا ملے
یہ شش جہات میری تمنا پہ تنگ ہیں
اک عمر اک مکان کی تعمیر میں لگے
ایام سے زیادہ گراں خشت و سنگ ہیں
چہکے ہزار صوت میں یہ طائر نظر
کرنوں کے پاس یوں تو یہی سات رنگ ہیں
ویسے ہمیں ندامت بے چہرگی نہیں
ہرچند تیرے شہر میں بے نام و ننگ ہیں
آفتاب اقبال شمیم

رستے ہمارے پاؤں تلے سے سرک گئے

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 42
منزل قریب آئی تو ایسے بہک گئے
رستے ہمارے پاؤں تلے سے سرک گئے
نکلے کبھی نہ اپنے مضافات سے پرے
اپنی تلاش میں جو بہت دور تک گئے
اک نسل کے لہو سے چراغاں تھے راستے
یہ کیا ہوا کہ قافلے پھر بھی بھٹک گئے
خبروں کے شعبدے وُہ دکھا کر دم سحر
شہ سرخیوں سے چشمِ بصارت کو ڈھک گئے
آئے نظر چراغ سے چہرے فضاؤں میں
یادیں جو ٹمٹمائیں ، اندھیرے مہک گئے
دیکھو نا اب بھی ہال کی خالی ہیں کرسیاں
ہم تو دکھا دکھا کے کرامات تھک گئے
آفتاب اقبال شمیم

کوچۂ بند باہر تو نکل کر دیکھیں

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 41
کثرتِ جلوۂ امکان کو چل کر دیکھیں
کوچۂ بند باہر تو نکل کر دیکھیں
اپنی پس ماندگیاں ، راحتیں لگتی ہیں جنہیں
تکیۂ عادت تکرار بدل کر دیکھیں
جنبشِ لطف سے دستار نہ گر جائے کہیں
بام سے منظر دنیا کو سنبھل کر دیکھیں
پا فتادہ سرِ دریا ہوں کھڑا برسوں سے
اور لہریں مجھے دریا سے اُچھل کر دیکھیں
گرمیِٔ مے سے ہوں شفاف یہ سیسہ آنکھیں
آؤ اِس شعلۂ شب تاب میں جل کر دیکھیں
زندگی کوئی کلیشے تو نہیں جینے کا
اسکی صد زاویہ راہوں میں نکل کر دیکھیں
عمرِ کوتاہ گزرنے کو ہے آؤ! آؤ!
اسکے ہر نور میں ہر نار میں ڈھل کر دیکھیں
آفتاب اقبال شمیم

شاید اسی لئے ہمیں محبوب ہے یہی

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 41
کچھ ہم مزاج خطۂ مرعوب ہے یہی
شاید اسی لئے ہمیں محبوب ہے یہی
اتنا نہ غور کر کہ ترا دل ہی ٹوٹ جائے
اس نازنینِ دہر کا اسلوب ہے یہی
اُس خواب کے صلے میں یہ ساری اذیّتیں
سہ لے، کہ آدمی کے لئے خوب ہے یہی
ہستی ہے ایک سلسلہ رد و قبول کا
یعنی صلیب و صالب و مصلوب ہے یہی
ٹھہرے گناہ گار جو سب سے ہو بے گناہ
کارندگانِ عدل کو مطلوب ہے یہی
دیکھو! ہم اس کی زد میں خس و خاک ہو چلے
دستِ قضا میں وقت کا جاروب ہے یہی
چلئے اُسے یہ کاغذِ خالی ہی بھیج دیں
لکھا گیا نہ ہم سے، وہ مکتوب ہے یہی
ایمان مستقیم رہا کفر کے طفیل
اُس بے وفا سے واقعہ منسوب ہے یہی
آفتاب اقبال شمیم

وُہ دہشتیں ہیں کہ ہم شب کو شب بھی کہہ نہ سکیں

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 40
سلامتی کی ضمانت ہو، تب بھی کہہ نہ سکیں
وُہ دہشتیں ہیں کہ ہم شب کو شب بھی کہہ نہ سکیں
نمو پذیر ہے تہذیبِ جبر صدیوں سے
خدا معاف کرے اُس کو رب بھی کہہ نہ سکیں
گئی تو عمر گئی وضع داریاں نہ گئیں
جو بات کہہ نہ سکے تھے وُہ اب بھی کہہ نہ سکیں
تمام شہر کو وہ چٹکلے پسند آئے
جنہیں عمیق نظر میں ادب بھی کہہ نہ سکیں
ثبوتِ حُب وطن اس لئے وُہ مانگتے ہیں
کہ اپنی چاہ کو ہم منتخب بھی کہہ نہ سکیں
آفتاب اقبال شمیم

ہُوں قید ان کے درمیاں میعادِ ماہ و سال تک

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 40
یہ وسعتیں تا آسماں ، گہرائیاں پاتال تک
ہُوں قید ان کے درمیاں میعادِ ماہ و سال تک
کیسے، کہاں ڈھونڈوں اُسے وہ جو ورائے چشم ہے
آئینہ دکھلاتا نہیں ، اپنے ہی خدوخال تک
میری کتاب ہست میں ، محفوظ ہے لکھا ہوا
ہر واقعہ، ہر حادثہ، روزِ ازل سے حال تک
اُس پیرِ دانشمند کی عمر طویل اُلٹے اگر
دیکھے، ہے کتنا فاصلہ اقوال سے افعال تک
شاید کہ تم ہو جانتے، چہرہ شناسی کا ہنر
آیا ہوں کتنی دیر سے، پوچھے نہیں احوال تک
آفتاب اقبال شمیم

آنکھیں پڑھ لیں اگلے دن کی دھوپ کا مضمون آنکھوں میں

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 39
شیشوں سے ٹکرائیں شیشے، بھید کھلیں یوں آنکھوں میں
آنکھیں پڑھ لیں اگلے دن کی دھوپ کا مضمون آنکھوں میں
کیا درشن تھے، ہم تو رہتی عمر کی نیندیں ہار آئے
جاگ رہا ہے اُس گوری کے حُسن کا افسوس آنکھوں میں
اے خود داری آئینے میں عکس مکرر کس کا ہے
کوئی بالکل اُس جیسا ہی رہتا ہے کیوں آنکھوں میں
جاناں ! پہلے رسمِ وفا کی تیاری ہو لینے دو
پھر جذبوں کا سورج بن کر چمکے گا خوں آنکھوں میں
بینائی کی پیاس بڑھے اور ظلمت کا احساس بڑھے
اندر کے در کھولتی جائیں کرنیں جوں جوں آنکھوں میں
شغل کیا جائے بے موسم چاک گریباں کرنے کا
لفظوں کے جادو سے کر لو منظر گلگلوں آنکھوں میں
آفتاب اقبال شمیم

اس شہر میں ہمارے خدا وند ہیں بہت

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 39
لات و مناتِ جہل کے فرزند ہیں بہت
اس شہر میں ہمارے خدا وند ہیں بہت
کُھلتے نہیں یہ زورِ مسلسل کے باوجود
آلودگیِٔ کہنہ سے در بند ہیں بہت
دے وقفۂ سکون پر اُٹھا ہُوا قدم
راہِ سفر میں سختیاں ہرچند ہیں بہت
کھوئیں گے کیا یہ معرکہ دوبارہ ہار کر
فکرِ زیاں کریں جو خرد مند ہیں بہت
پوشیدگی ہے ایک طرح کی برہنگی
دلقِ گدا پہ مکر کے پیوند ہیں بہت
اِن کو شعورِ رفتہ و آئندہ دیجئے
یہ لوگ رسمِ وقت کے پابند ہیں بہت
آفتاب اقبال شمیم

روز گلگشت کرے خواہشوں کے گلشن میں

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 38
صبحِ اُمید، شب یاس کے پیراہن میں
روز گلگشت کرے خواہشوں کے گلشن میں
میں درِ شام پہ بیٹھا ہوں سوالی بن کر
اک ستارا ہی اُتر آئے مرے آنگن میں
نارسائی میں رہو اور کرشمہ دیکھو
ہے عبادت کا مزہ گوریوں کے درشن میں
ابر تو برسا بہت، پیاس نہ مِٹ پائی مگر
کاش میں مر ہی گیا ہوتا کسی ساون میں
بے صدا ہوتی گئیں روشنیاں وقت کے ساتھ
وہ جو پیغام سا دیتی تھیں ہمیں بچپن میں
زندگی! کھل کے مرے سامنے آ یا چھپ جا
تو نے رکھا ہے ہمیشہ سے مجھے اُلجھن میں
قید میں دیوے بشارت مجھے آزادی کی
آسماں رہتا ہے دن رات مرے روزن میں
آفتاب اقبال شمیم

بول رہا ہو کہیں ، جیسے خدائے خیال

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 38
ایک بلندی سے یوں ، آئی صدائے خیال
بول رہا ہو کہیں ، جیسے خدائے خیال
اسمِ بہار آفریں یاد نہیں ، دیکھئے
کب وہ مسیحا ہمیں دے گا شفائے خیال
سیر فلک ہو گئی، جو نہ ملا مل گیا
کیسے عجب معجزے کر کے دکھائے خیال
کیسے اُسے دیکھتی آنکھ نظر کے سوا
وہ جو کفِ گل پہ ہے رنگِ جنائے خیال
دُور زر و زور کے منطقۂ گرم سے
راس مجھے آگئی آب و ہوائے خیال
جوئے ستارہ بہے باغِ شب ہجر میں
تختِ صبا پر اُسے دُور سے لائے خیال
دشتِ تضادات میں کھو نہ گیا ہو کہیں
آئی نہیں دیر سے کوئی صدائے خیال
آفتاب اقبال شمیم

تال سے باہر کبھی ہے اور کبھی ہے تال میں

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 37
بس یہی دشواریاں ہیں آدمی کی چال میں
تال سے باہر کبھی ہے اور کبھی ہے تال میں
اپنے فردا کو بدل سکتا ہوں ماضی کو نہیں
یعنی آدھا دخل ہے میرا مرے احوال میں
بُن رہا ہے حرف و ہندسہ سے جو تارِ عنکبوت
تُو کہیں پکڑا نہ جائے آپ اپنے جال میں
خود کلامی اور تنہائی میں کمرے کا سفر
کیا بتاؤں اک صدی کاٹی ہے میں نے سال میں
ہے تماشا بند آنکھوں میں اُبھرنا عکس کا
روشنی آئی کہاں سے خواب کی تمثال میں
آفتاب اقبال شمیم

ریت سے جھُلسے ہوئے روئے زمیں کو دھو دیا

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 37
اُس نے اک اقرار میں ہاں سے نہیں کو دھو دیا
ریت سے جھُلسے ہوئے روئے زمیں کو دھو دیا
آخرش وہ اور اس کی بوریا ہی رہ گئے
دل کی طغیانی نے شاہ و شہ نشیں کو دھو دیا
دل میں اُسکی شکل کے سو عکس اب بنتے نہیں
ایک ہی آنسو نے چشمِ بے یقیں کو دھو دیا
دھوپ کو ابرِ مقدس ارغوانی کر گیا
بوسۂ باراں نے ہر شے کی جبیں کو دھو دیا
ظلم برپا تو ہوا لیکن کہاں برپا ہوا
میری غفلت نے کسی کی آستیں کو دھو دیا
جسم پر چھائی ہوئی شہوت کے ابرِ نار کا
قہر وُہ برسا کہ ہر نقشِ حسیں کو دھو دیا
آفتاب اقبال شمیم

بے ملاقات ملاقاتیں ہوں

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 36
تجھ سے تنہائیوں میں باتیں ہوں
بے ملاقات ملاقاتیں ہوں
دل میں چاہت ہو بہت جینے کی
لب پہ مرنے کی منا جاتیں ہوں
رُخ تو بدلا ہے، مگر کیا معلوم!
راہِ دیگر میں نئی گھاتیں ہوں
ہے یہ ایسی ہی لڑائی جس میں
کبھی جیتیں ہوں کبھی باتیں ہوں
ہو فقیروں کو تونگر کر دیں
حسن کے نام پہ خیراتیں ہوں
دن کھلیں تازہ گلابوں جیسے
مے سے مہکائی ہوئی راتیں ہوں
جن سے صحرا بھی ہرے ہو جائیں
اس قدر ٹوٹ کے برسائیں ہوں
آفتاب اقبال شمیم

ہے اُسکی ساری خدائی سے اختلاف مجھے

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 36
جو دل میں ہے اُسے کہنا ہے صاف صاف مجھے
ہے اُسکی ساری خدائی سے اختلاف مجھے
مرے سخن اُسے اچھے لگیں ، لگیں نہ لگیں
جو کر سکے تو کرے زندگی معاف مجھے
کسی گدا کی طرح کوئے رزق و جنس میں کیوں
تمام عمر ہی کرنا پڑا طواف مجھے
یہ جور و جبر میں کس کے حساب میں ڈالوں
بجا کہ اپنی کمی کا ہے اعتراف مجھے
یہ نصرتیں ، یہ شکستیں ۔ تمام بے معنی
نہال کر گیا آخر یہ انکشاف مجھے
ہر ایک شکل پسِ شکل مسخروں جیسی
یہ کارِ فکر و متانت لگے ہے لاف مجھے
آفتاب اقبال شمیم

کہ اُس کی فہم سے باہر ہے کل کی ابجد تک

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 35
وُہ اپنے جزو میں کھویا گیا ہے اس حد تک
کہ اُس کی فہم سے باہر ہے کل کی ابجد تک
کھڑی ہیں روشنیاں دست بستہ صدیوں سے
حرا کے غار سے لے کر گیا کے برگد تک
اُٹھے تو اُس کے فسوں سے لہک لہک جائے
نظر پہنچ نہ سکے اُس کی قامت و قد تک
پتہ چلا کہ حرارت نہیں رہی دل میں
گزر کے آگ سے آئے تھے اپنے مقصد تک
وہی اساس بنا عمر کے حسابوں کی
پہاڑا یاد کیا تھا جو ایک سے صد تک
وہی جو دوش پر اپنے اُٹھا سکا خود کو
نیشبِ فرش سے پہنچا فرازِ مسند تک
آفتاب اقبال شمیم

کوئی جواب مِثل آب سادہ و جاں فزا ملے

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 35
تشنہ لبِ سوال کو دیکھئے کب شفا ملے
کوئی جواب مِثل آب سادہ و جاں فزا ملے
اپنی پرانی اصل پر آتا ہوں لوٹ لوٹ کر
سمجھوں میں انتہا جسے وہ مجھے ابتدا ملے
سرد حقیقتوں سے دور جبرِ یقین سے پرے
پائیں نمو، یہ ذہن و دل ایسی کوئی جگہ ملے
اپنے ہی آپ میں رہے گنجِ لئیم کی طرح
اُس بتِ خود پسند سے دل کی نیاز کیا ملے
ہار گیا ہوں بار بار، اتنا مگر ضرور ہے
ہاتھ قمار باز کا بدلا ہوا ذرا ملے
اُس جا تمہاری آس کیا اور ہماری یاس کیا
دھوپ جہاں سفر میں ہو سایہ گریز پا ملے
آفتاب اقبال شمیم

یہ زمیں کوئی نہ ہو وہ آسماں کوئی نہ ہو

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 34
سوچئے گر آدمی ہی درمیاں کوئی نہ ہو
یہ زمیں کوئی نہ ہو وہ آسماں کوئی نہ ہو
خود کلامی نے غموں کا بوجھ ہلکا کر دیا
اب مرا، میری بلا سے راز داں کوئی نہ ہو
آج بھی مجھ کو مری گمنامیاں اچھی لگیں
کل بھی چاہوں گا مرا نام و نشاں کوئی نہ ہو
سختی ء حالات نے اندر سے پتھر کر دیا
شہر بھر میں ، ورنہ کیوں شوروفغاں کوئی نہ ہو
تنگ ہیں مجھ پر زمین و آسماں کی وُسعتیں
مجھ سا آوارہ بھی اے اہلِ جہاں کوئی نہ ہو
آفتاب اقبال شمیم

یعنی شب کو جاگئے صبح کو دفتر جائیے

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 34
روز کی یکساں مسافت پر مکرر جائیے
یعنی شب کو جاگئے صبح کو دفتر جائیے
یہ زمانے بھر کی باتیں ختم ہوتی ہیں کہاں
رات کافی ہو چکی اب جائیے گھر جائیے
بیٹھئے سر تان کر گاہے صلیبوں کے تلے
اور گاہے آپ اپنی چاپ سے ڈر جائیے
تب ہو آغاز سفر جب آنکھ لو دینے لگے
اس شبِ تاریک میں ہو کر منور جائیے
آنکھ کو حسرت کہ بہرِ دید سو عمریں ملیں
اور دل چاہے کہ اُس بے مہر پر مر جائیے
ایک ان سلجھی پہیلی ہے جسے دنیا کہیں
آئیے اوسان لے کر اور ششدر جائیے
نا امیدی میں بھی وابستہ رہیں اُمید سے
ہو سکے تو اُسکی خاطر کچھ نہ کچھ کر جائیے
آفتاب اقبال شمیم

پی کر بقدرِ حوصلہ مے خوار مست ہو

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 33
وُہ جامِ فتح ہو کہ وُہ جامِ شکست ہو
پی کر بقدرِ حوصلہ مے خوار مست ہو
پھر کیوں نہ آدمی ہو ثمر ایسے باغ کا
اسبابِ خیر و شر کا جہاں بندوبست ہو
خبروں میں بل پڑے ہوئے شیشے کا وصف ہے
شاید کہ تم بلند ہو شاید کہ پست ہو
ہر ہاں نہیں میں اور نہیں ہاں میں رونما
جیسے یہ ہست بود ہو اور بود ہست ہو
مشکل نہیں ہے وارنا احساں پہ عدل کا
فطرت میں آدمی نہ اگر تنگ دست ہو
اتنا ہوا کہ سنگ کو تجرید مل گئی
تم مان لو کہ اصل میں تم بت پرست ہو
آفتاب اقبال شمیم

کہ فلک سے جوڑ کر بھی نہ ہوئی زمیں زیادہ

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 33
میری سیر کی تمنا، تھی مگر کہیں زیادہ
کہ فلک سے جوڑ کر بھی نہ ہوئی زمیں زیادہ
ترا دستِ شعبدہ گر، کُھلا بعدِ وقت مجھ پر
ترے بازوؤں سے نکلی تری آستیں زیادہ
کبھی جیت کر نہ جیتے، کبھی ہار کر نہ ہارے
کہ دکھایا ظرف ہم نے کہیں کم کہیں زیادہ
ہے فراق میں بھی یوں تو، وُہ مہِ منیر جیسا
ہو اگر قریں زیادہ تو لگے حسیں زیادہ
بڑا سخت واقعہ تھا، جسے سہہ لیا ہے میں تو
میرے حوصلے سے شاید مرا غم نہیں زیادہ
ہے وہی حریفِ امکاں جو گماں سے منحرف ہو
وہ منکروں میں ٹھہرے جو کرے یقیں زیادہ
آفتاب اقبال شمیم

سبطِ علی صبا ہو یا احمد شمیم ہو؟

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 32
کیا تم بھی چل دئیے، کہو کیسے ندیم ہو
سبطِ علی صبا ہو یا احمد شمیم ہو؟
دیتا ہے کھل کے دید مگر دور دور سے
جیسے سخی کے بھیس میں کوئی لئیم ہو
بستی میں سب مکان و مکیں ایک سے ملیں
تم کون ہو بتاؤ کہاں پر مقیم ہو
ساری حقیقتوں میں حقیقت نہیں کوئی
اُس پر کھلے یہ بھید جو اپنا غتیم ہو
پاپوشِ خاک پہنئے، چلئے ہمارے ساتھ
ہاں یہ بھی شرط ہے کہ بدن بے گلیم ہو
لا کر نیا نظام چلاؤ گے کس طرح
تم تو درونِ ذات ابھی تک قدیم ہو
آفتاب اقبال شمیم

رقص کرتے ہوئے بوئے گل نے کہا، ہر کوئی ناچتا ہے

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 32
صحن گلشن میں گونجی صدائے صبا، ہر کوئی ناچتا ہے
رقص کرتے ہوئے بوئے گل نے کہا، ہر کوئی ناچتا ہے
کچھ گھڑی پیشتر حبس ہی حبس تھا، پھر اچانک ہوا کا
نعرۂ مست بستی میں اونچا ہوا، ہر کوئی ناچتا ہے
پھر بپا ہو گیا ایک جشن کہن قریۂ پُر فضا میں
پھر قبیلۂ نخلاں ہے نغمہ سرا، ہر کوئی ناچتا ہے
آبجوئے سرِ شہر نے لہر میں آ کے سرگوشیاں کیں
خود میں ٹھہرے ہوئے جوہڑوں کے سوا ہر کوئی ناچتا ہے
ایک پردے کا ہے فاصلہ زاہد و زہد کے درمیاں بھی
کوئی مانے نہ مانے درونِ قبا، ہر کوئی ناچتا ہے
پھر بدن کا لہو وجد میں آ گیا، دیکھ کر اُس حسیں کو
دھڑکنوں نے کہا دھڑکنوں نے سنا، ہر کوئی ناچتا ہے
عرش و ابر و ستارہ و مہتاب سب، ڈگمگانے لگے جب
سمفنی چھیڑ دے نغمہ گر بحر کا، ہر کوئی ناچتا ہے
ژن ژن تھیاؤ کی خالق محترمہ تائے آوے لیان کی نذر
آفتاب اقبال شمیم

سب اصل کی نقلیں ہیں ، ذہنوں کے ورق دیکھو

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 31
کیا معجزہ کرتے ہیں ، آلاتِ صدا اُن کے
سب اصل کی نقلیں ہیں ، ذہنوں کے ورق دیکھو
سچائی کا لفظ آئے لب پر کبھی بھُولے سے
پھر چہرۂ دنیا کو ہوتے ہوئے فق دیکھو
زنجیر اُتروا دیں دروازوں کی مستک سے
کب شہر مکینوں کو ملتا ہے یہ حق دیکھو
کیا جانئے کیا ہووے معیار نئے دن کا
تا شام بُھلا ڈالو صبح جو سبق دیکھو
سینہ شبِ ظلمت کا، انوار سے شق دیکھو
ہاں مطلع خواہش پر خوابوں کی شفق دیکھو
وعدے کی کرن چمکی امکان کی دوری سے
روشن تو ہوئے کچھ کچھ تاریک طبق دیکھو
آفتاب اقبال شمیم

مجھے اتنا تو نہ اُداس کرو، کبھی آؤ نا!

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 31
کبھی خود کو درد شناس کرو، کبھی آؤ نا!
مجھے اتنا تو نہ اُداس کرو، کبھی آؤ نا!
مری عمر سرائے مہکے ہے، گُل ہجراں سے
کبھی آؤ آ کر باس کرو، کبھی آؤ نا!
مجھے چاند میں شکل دکھائی دے، جو دہائی دے
کوئی چارۂ ہوش و حواس کرو، کبھی آؤ نا!
اُسی گوشۂ یاد میں بیٹھا ہوں ، کئی برسوں سے
کسی رفت گزشت کا پاس کرو، کبھی آؤ نا!
کہیں آب و ہوائے تشنہ لبی، مجھے مار نہ دے
اسے برکھا بن کر راس کرو کبھی آؤ نا!
سدا آتے جاتے موسم کی، یہ گلاب رتیں
کوئی دیر ہیں ، یہ احساس کرو، کبھی آؤ نا!
آفتاب اقبال شمیم

طاقِ اُمید میں یہ دیپ جلائے رکھو

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 30
تندیِٔ باد سے آنکھوں کو بچائے رکھو
طاقِ اُمید میں یہ دیپ جلائے رکھو
میری خوش فہمیاں بھی میری وفا کا ہیں ثبوت
اُس کا فرمان جو ہے، آس لگائے رکھو
تم کہ شائستۂِ غم ہو، یہ تمہیں لازم ہے
ایک مسکان سی ہونٹوں پہ سجائے رکھو
قدرِ یک جام تمہیں بعد میں ہو گی معلوم
ربط دنیا سے کوئی دیر گنوائے رکھو
غم خود افروز بھی ہے تجربہ آموز بھی ہے
روز بڑھتا ہے اسے روز گھٹائے رکھو
جس کا سُن سکنا جفا کار کی فطرت میں نہیں
عادتاً تم بھی وہی شور مچائے رکھو
آفتاب اقبال شمیم

تم آدمی ہو، تو آدمی کی، ہتک نہ کرنا

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 30
تمیزِ فرزندِ ارض و ابنِ فلک نہ کرنا
تم آدمی ہو، تو آدمی کی، ہتک نہ کرنا
یہ جمع و تفریق، ضرب و تقسیم کی صدی ہے
عقیدہ ٹھہرا عدد کی منطق پہ شک نہ کرنا
پسِ خراباتِ بند جاری ہے مے گساری
سکھایا جام و سبو کو ہم نے کھنک نہ کرنا
چھلاوے بن جائیں آگے جا کر یہی غزالاں
تعاقب ان مہ وشوں کا تم دور تک نہ کرنا
یہ غم کہ معنی تجھے لگے ہے سراب معنی
اکیلے سہنا، اسے غمِ مشترک نہ کرنا
آفتاب اقبال شمیم

موجِ دریا کا سخن، غور سے سُن

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 29
حرف ہم رازِ کہن، غور سے سُن
موجِ دریا کا سخن، غور سے سُن
خامشی، ضرب اذیت کا جواب
سازِ خود داریِٔ تن، غور سے سُن
پھر کوئی آئینہ ٹوٹا ہے کہیں
پھڑپھڑاتی ہے کرن، غور سے سُن
دے گا صدیوں کی عبارت کا سراغ
میں ہوں خود اپنا متن، غور سے سُن
قامتِ حسن سے نسبت ہے اِسے
قصّۂ دارو سُن، غور سے سُن
لہجہ گُل میں بہ اندازِ عُرول
گُنگناتا ہے چمن، غور سے سُن
آفتاب اقبال شمیم

دکھائے حیرانیوں کا منظر، بہے سمندر

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 29
حدوں میں رہ کر، حدوں سے باہر، بہے سمندر
دکھائے حیرانیوں کا منظر، بہے سمندر
زمیں کی آغوشِ پُرسکوں میں سکوں نہ پائے
ہوا کی راہوں میں ابر بن کر، بہے سمندر
یہ جان و جُنبش ثمر ہیں پانی کی ٹہنیوں کے
بدل کے شکلِ نوید گھر گھر، بہے سمندر
یہ سب کے سب ہیں پڑاؤ اسکی روانیوں کے
پہاڑ یا برف یا صنوبر، بہے سمندر
ہری کویتا کے شبد مٹی پہ لکھتا جائے
زبانِ اسرار کا سخن ور، بہے سمندر
یہ وجہ فعلِ وجود اصل وجود بھی ہے
یہی ہے دریا یہی شناور، بہے سمندر
اسی حوالے سے آنکھ پر منکشف ہوئے ہیں
زمین، افلاک اور خاور، بہے سمندر
رُکے تو ایسے بسیط و ساکت، ہو موت جیسے
بنامِ ہستی بہے برابر، بہے سمندر
فنا کرے تو بقا کی گنجائشیں بھی رکھے
ہو جیسے انسان کا مقدر، بہے سمندر
آفتاب اقبال شمیم

آپ اپنا سا منا اے آفتاب اقبال کر

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 28
ایک دن سر سے بلائے مصلحت کو ٹال کر
آپ اپنا سا منا اے آفتاب اقبال کر
بستیاں نقدِ روا داری سے خالی ہو گئیں
اے خدا سیم و زرِ غم سے انہیں خوشحال کر
تیری آنکھوں کی تپش میں جی کے مرنا ہے مجھے
دھوپ سبزے کو جلا دیتی ہے جیسے پال کر
زرد سناٹے میں آویزاں ہے برگِ گہنگی
اے زمستاں کی ہوا آ کر اِسے پامال کر
دھونڈنے نکلے تو پا کر بھی نہ تجھ کو پا سکے
گُم شدہ رہ کر اُسے اپنا پتا ارسال کر
آفتاب اقبال شمیم

کسی آس پر، کسی یاس میں کبھی جی اُٹھا کبھی مر گیا

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 28
میں بھی کتنا سادہ مزاج تھا کہ یقیں گمان پہ کر گیا
کسی آس پر، کسی یاس میں کبھی جی اُٹھا کبھی مر گیا
چلو یارِ وعدہ نواز سے کسی روز جا کے پتہ کریں
وہ جو اُس کے در کا اسیر تھا، اُسے کیا ہوا، وہ کدھر گیا
وہ شبِ عجیب گزر گئی، سو گزر گئی مگر اِس طرح
کہ سحر کا آئینہ دیکھ کر میں تو اپنے آپ سے ڈر گیا
تری آس کیا، کہ ہے ابر کا تو ہوا کے رُخ سے معاملہ
جو سنور گیا تو سنور گیا، جو بکھر گیا تو بکھر گیا
میری رہگزار میں رہ گئی یہی باز گشت صداؤں کی
کوئی بے نمود سا شخص تھا وُہ گزر گیا، وُہ گزر گیا
ہوئے منکشف مری آنکھ پر کئی اور زاویے دید کے
کوئی اشکِ ضبط اگر کبھی پسِ چشم آ کے ٹھہر گیا
آفتاب اقبال شمیم

کھلا لگتا ہے، لیکن بند ہے میرا مکاں مجھ پر

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 27
لگا دیں خوف نے ایسی بھی کچھ پابندیاں مجھ پر
کھلا لگتا ہے، لیکن بند ہے میرا مکاں مجھ پر
میں خاک افتادہ رکھتا ہوں اُفق سے ربط آنکھوں کا
بہت جھک کر اُترتا ہے شکوہِ آسماں مجھ پر
ملا دیتا ہوں اپنے خواب کو اُس کی حقیقت سحر
تبھی تو مشکلیں بنتی نہیں آسانیاں مجھ پر
مرا یوں جاگتے رہنا انہیں اچھا نہیں لگتا
ہیں دُز دان شبِ غفلت بہت نا مہرباں مجھ پر
کچھ ایسے زندگی بے پرسش احوال گزری ہے
کسی کا پوچھنا بھی اب گزرتا ہے گراں مجھ پر
کشید شعر جب چھلکے غزل کے آبگینے میں
تو برسانے لگے سیمِ ستارہ کہکشاں مجھ پر
آفتاب اقبال شمیم

وہ معجزہ جو وہاں ہوا ہے یہاں بھی ہو گا

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 27
یہ وقت آساں ، کبھی عدو پر گراں بھی ہو گا
وہ معجزہ جو وہاں ہوا ہے یہاں بھی ہو گا
یہی سجھائے ہمیں یہ ٹھہرا ہوا ستارہ
کہ جو بظاہر رُکا ہوا ہے رواں بھی ہو گا
اگر سفر میں رہا نہ آگے سے اور آگے
تو پھر وہ شہرِ مثال ہم پر عیاں بھی ہو گا
اُداس مت ہو خدا اگر واقعی خدا ہے
ضرور اِن بستیوں پہ وہ مہرباں بھی ہو گا
چلو تو یاروں کی چاہتیں ساتھ لیتے جاؤ
کہ راستے میں قبیلۂ دشمناں بھی ہو گا
بگاڑ بیٹھے ہو دل سے ان دنیا داریوں میں
کہا نہ تھا ایسے فائدے میں زیاں بھی ہو گا
آفتاب اقبال شمیم

باقی رہے نہ قرضِ خموشی زبان پر

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 26
ایسے طلوع قطرہ خون کنج لب سے ہو
باقی رہے نہ قرضِ خموشی زبان پر
کیوں خود پہ رحم کھا کے کہیں اُنگلیوں سے تم
آسودگی کی گرہیں لگاتے ہو جان پر
اے شاہِ صوت! مژدۂ فردا نما سنا
خوش فہمیوں کی آیتیں نازل ہوں کان پر
ہر دم زمینِ عمر سے بے دخلیوں کا خوف
جیسے یہ کشتِ جبر ملی ہو لگان پر
کیا جانئے کہ علم کے کس مرحلے میں ہوں
کیوں جھوٹ کو فروغ دوں سچ کے گمان پر
آفتاب اقبال شمیم

رند کو تاجِ عرب، تختِ عجم مل جائے

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 26
نشۂ مے ہے اگر نشۂ غم مل جائے
رند کو تاجِ عرب، تختِ عجم مل جائے
وقت کے چارہ گرو کوئی کرامات کرو
ارضِ بیمار کو ٹوٹا ہوا دم مل جائے
ہم کہ بگڑی ہوئی تقدیر کے پیارے ٹھہرے
ڈھونڈنے جائیں خوشی اور الم مل جائے
مصلحت نامۂ ہر روز پڑھا کر، اس میں
کیا خبر تجھ کو ترا نام رقم مل جائے
اک سرایت سی ترے لمس کی محسوس کروں
جیسے پتے کو دمِ باد کا نم مل جائے
میں کہ ذرّہ ہوں مرا ظرفِ تمنا دیکھو
چاہتا ہوں کہ مجھے لوح و قلم مل جائے
آفتاب اقبال شمیم

صنوبر سا کھڑا ہوں شانِ تنہائی کے پربت پر

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 25
ہمیشہ سے کیا ہے رشک میں نے اپنی قسمت پر
صنوبر سا کھڑا ہوں شانِ تنہائی کے پربت پر
میں اپنی ذات میں آوارہ گردِ دو جہاں ٹھہرا
یہ نثر روز مرّہ بار ہے میری طبیعت پر
مجھے اپنا زیاں کرنے میں اک تسکین ملتی ہے
سمجھتا ہوں کہ اس سے قرض گھٹتا ہے محبت پر
ہر اک بازار اس کی کُنڈلی کا پیچ لگتا ہے
یہ مارِ زرد جو بیٹھا ہوا ہے دل کی دولت پر
آفتاب اقبال شمیم

اِس زمیں کی زردیوں میں لالیاں شامل ہوئیں

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 25
ہاں اسی دن دھوپ میں ہریالیاں شامل ہوئیں
اِس زمیں کی زردیوں میں لالیاں شامل ہوئیں
بادِ آزادی میں ہم سب ناچنے والوں کے ساتھ
پھول پہنے، رقص کرتی ڈالیاں شامل ہوئیں
بوئے گُل سے جانئے کیوں بوئے خوں آنے لگی
باغ میں جب سے تری رکھوالیاں شامل ہوئیں
قہر تو اُس وقت ٹوٹا تھا، صفِ اعدا میں جب
چشم و لب سے قتل کرنے والیاں شامل ہوئیں
خیر کو شر اور شر کو خیر کرنے میں یہاں
جانئے کن کن کی بداعمالیاں شامل ہوئیں
اتنا پیارا ہو گیا ہوں دوستوں کو، کیا کہوں
جب بھی میرا ذکر آیا گالیاں شامل ہوئیں
آفتاب اقبال شمیم

کبھی بس چلا بھی ہے انکارِ خاموش پر

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 24
عبث ہے یہ پہرے بٹھانا لب و گوش پر
کبھی بس چلا بھی ہے انکارِ خاموش پر
سفر بھی شعورِ سفر بھی ہے، چلنا تو ہے
وبالِ شب و روز رکھے ہوئے دوش پر
مجھے آن کی آن میں کچھ سے کچھ کر دیا
کسی نے وہ شب خون مارا مرے ہوش پر
یہ خواہش تو تھی ہاں مگر اتنی ہمت نہ تھی
کہ لکھتا زمانے کو میں نوکِ پاپوش پر
مزا چھپ کے پینے میں پہلے سے دُونا ملے
لگا اور پابندیاں مجھ سے مے نوش پر
کبھی تو ہوا تازیانہ لگائے اِسے
کہ دیکھیں سمندر کو آئے ہوئے جوش پر
آفتاب اقبال شمیم

ہے کفِ باد میں جو، موسمِ افسوس کی گرد

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 24
آخرِکار سمیٹیں گے اسے اہلِ نبرد
ہے کفِ باد میں جو، موسمِ افسوس کی گرد
ایک ہی جور پہ انداز دگر برپا ہے
مژدہ کیا لائے کہیں سے بھی ترا شہر نورد
موسموں کا یہ بدلنا بھی مقدر ٹھہرا
زرد سے سبز کبھی اور کبھی سبز سے زرد
جان دینے سے بھی آگے کا کوئی معرکہ ہو
طے کرے جو میرے اس مثبت و منفی کی نبرد
آفتاب اقبال شمیم

آپ کو یار پسند اور مجھے دار پسند

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 23
بس کہ فطرت نے بنایا ہمیں آزاد پسند
آپ کو یار پسند اور مجھے دار پسند
جیت کر جانئے کیوں ، میں بھی ذرا خوش نہ ہوا
اور دنیا نے بھی میرے لئے کی ہار پسند
ڈال دے وہ بھی جو آنکھوں میں چھپا رکھی ہو
ایسی کنجوسیاں کرتے نہیں مے خوار پسند
ساتھ ہی لے گیا پرسش کی تمنا شاید
ہائے وہ سب سے جدا شاعرِ دشوار پسند
اُن کے آلاتِ صدا جو بھی کہیں خوب کہیں
وُہ بڑے لوگ ہیں کرتے نہیں انکار پسند
موت آسان تھی جینے سے مگر کیا کیجئے
آ گئی در کے بجائے مجھے دیوار پسند
آفتاب اقبال شمیم

ضمیر بوئیے، افلاس کاٹتے رہئے

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 23
سزائے جذبہ و احساس کاٹتے رہئے
ضمیر بوئیے، افلاس کاٹتے رہئے
اِس اژدہامِ حریصاں کو ہے یہی مطلوب
کہ ایک دوسرے کا ماس کاٹتے رہئے
ہر ایک شکل ملے مثلِ نخل بے چہرہ
یہی کہ شہر میں بن باس کاٹتے رہئے
یہ کارِ زندگی ہے کارِ کوہکن سے کٹھن
بصارتوں سے یہ الماس کاٹتے رہئے
بہ فیضِ نکتہ وری موسم بہار میں بھی
خزاں کی چھوڑی ہوئی گھاس کاٹتے رہئے
اِس انتظار کی لا حاصلی پہ زور ہی کیا
پرائے وقت کو بے آس کاٹتے رہئے
آفتاب اقبال شمیم

اُس سمت امیرِ مقتل بھی، ہے خصلت میں سفّاک بہت

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 22
اس سمت محلے گلیوں کے یہ لڑکے ہیں بیباک بہت
اُس سمت امیرِ مقتل بھی، ہے خصلت میں سفّاک بہت
ان سڑکوں پر جب خون بہا اور جب شاخیں بے برگ ہوئیں
دیکھا کہ پرانے قصّہ گو، کی آنکھیں تھیں نمناک بہت
آزاد ہے اُس کے قبضے سے تا حال علاقہ جذبوں کا
ویسے تو جہاں پر بیٹھی ہے اُس زور آور کی دھاک بہت
وُہ اوّل اوّل دیوانہ، تھا آخر آخر فرزانہ
اے دنیا! تیرا کیا کہنا، تو نکلی ہے چالاک بہت
کوتاہ نظر کا رشتہ ہے اور نوک ہنر بھی تیز نہیں
کچھ وقفۂ ہستی تھوڑا ہے اور سینے کو ہیں چاک بہت
دائم ناداری پیسوں کی اور یاری اپنے جیبوں کی
آئے ہیں ہمارے حصے میں اسباب بہت، اِملاک بہت
اکثر یہ شکایت کی ہم سے، اس شہر کے خوش پوشاکوں نے
وُہ جنم جنم کا آوارہ رستے میں اُڑانے خاک بہت
آفتاب اقبال شمیم

یہ دنیا جابروں کے قہر سے آزاد ہو جائے

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 22
اگر ہر شہر اپنی ذات میں بغداد ہو جائے
یہ دنیا جابروں کے قہر سے آزاد ہو جائے
وہ ریگستاں جسے مورخ بھی قاصر تھے جلانے سے
کہاں ممکن ہے تیری آگ سے برباد ہو جائے
کرشمہ دیکھئے اُس کی خبر سازی کی صنعت کا
ستم احسان بن جائے، کرم بے داد ہو جائے
کہاں تک تجربہ پر تجربہ کرتے چلے جائیں
سبق وُہ دو، ہمیشہ کے لئے جو یاد ہو جائے
اگر تقدیر سے اک خواب بھی سچا نکل آئے
تو اِس دورانِ غم کی مختصر میعاد ہو جائے
ابھی اِس شہر میں سچ بولنے کی رُت نہیں آئی
تو اِس پت جھڑ میں کوئی شعر ہی ارشاد ہو جائے
آفتاب اقبال شمیم

یہی لگا کہ جیسے میرے سر سے آسماں گیا

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 21
نظر کے شہ نشیں سے اُٹھ کے جب وُہ مہرباں گیا
یہی لگا کہ جیسے میرے سر سے آسماں گیا
بس ایک عکس دور ہی ملا سڑک کے موڑ پر
جو موتیے کے ہار بیچتا تھا وہ کہاں گیا
ہوا کا خوش نورد اپنے ساتھ گرد لے اُڑا
چلا تو تھا سبک سبک مگر گراں گراں گیا
ملا نہ اسمِ آخریں ، درِ شفا نہ وا ہوا
اگرچہ دور دور تک یقیں گیا، گماں گیا
وہی نظر کے فاصلے وہی دلوں کی دُوریاں
ملا نہ کوئی آشنا وہ اجنبی جہاں گیا
مگر یہ کیا ضرور ہے کہ پھر سے تجربہ کریں
وُہ ایک کارِ رائیگاں تھا اور رائیگاں گیا
یہ نغمۂ مراد ہے، رُکے تو پھر سے چھیڑ دے
رہے گا اپنے پاس کیا جو ذکرِ دوستاں گیا
آفتاب اقبال شمیم

کوئی بِن برسے بادل کو روک رکھے

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 21
بیٹھا ہوں ہونٹوں کے نیچے اوک رکھے
کوئی بِن برسے بادل کو روک رکھے
ایک ابد تک یونہی چلتے رہنا ہے
پاؤں کے اندر کانٹے کی نوک رکھے
کھو دینے اور پا لینے کے دھندے میں
یہ دنیا تو بندے کو ڈرپوک رکھے
دیکھا دیکھی فیصلہ کرنے والے کو
نا آسودہ رستے کا ہر چوک رکھے
ایک شعورِ غم دینے کے بدلے میں
کوئی ہم پر ظلم روا بے ٹوک رکھے
سطح ہوا پر سانس کی چند لکیروں سے
نقش بنانے کا کوئی کیا شوق رکھے
آفتاب اقبال شمیم

اپنے لئے فریب سا ایجاد کر لیا

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 20
جب چاہا خود کو شاد یا ناشاد کر لیا
اپنے لئے فریب سا ایجاد کر لیا
کیا سوچنا کہ شوق کا انجام کیا ہوا
جب اختیار پیشۂ فرہاد کر لیا
خود سے چھپا کے خود کو زمانے کے خوف سے
ہم نے تو اپنے آپ کو برباد کر لیا
تھا عشق کا حوالہ نیا، ہم نے اس لئے
مضمونِ دل کو پھر سے طبع زاد کر لیا
یوں بھی پناہ سایہ کڑی دھوپ میں ملی
آنکھیں جھکائیں اور تجھے یاد کر لیا
آیا نیا شعور نئی اُلجھنوں کے ساتھ
سمجھے تھے ہم کہ ذہن کو آزاد کر لیا
بس کہ امامِ عصر کا فرمان تھا یہی
منہ ہم نے سوئے قبلۂ اضداد کر لیا
آفتاب اقبال شمیم

نکلا نہیں دیوار کے اندر کا اندھیرا

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 20
ویسے تو بہت دھویا گیا گھر کا اندھیرا
نکلا نہیں دیوار کے اندر کا اندھیرا
کچھ روشنیِٔ طبع ضروری ہے وگرنہ
ہاتھوں میں اُتر آتا ہے یہ سر کا اندھیرا
وُہ حکم کہ ہے عقل و عقیدہ پہ مقدّم
چھٹنے ہی نہیں دیتا مقدر کا اندھیرا
کیا کیا نہ ابوالہول تراشے گئے اس سے
جیسے یہ اندھیرا بھی ہو پتھر کا اندھیرا
دیتی ہے یہی وقت کی توریت گواہی
زر کا جو اجالا ہے وُہ ہے زر کا اندھیرا
ہر آنکھ لگی ہے اُفق دار کی جانب
سورج سے کرن مانگتا ہے ڈر کا اندھیرا
آفتاب اقبال شمیم

خود میں مثال نقشۂ دنیا بٹا رہا

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 19
میں کیا ہوں کیا نہیں ، یہی جھگڑا پڑا رہا
خود میں مثال نقشۂ دنیا بٹا رہا
کرتا بھی کیا کہ آتشِ دل تیز تھی بہت
تا عمر اپنی جان میں پگھلا ہوا رہا
ہر بار خود سے ڈر گیا آئینہ دیکھ کر
میں اپنے آپ میں بھی کوئی دوسرا رہا
اِس گھر سے لمحہ وار نکالا گیا مجھے
یک طرفہ مجھ پہ ہست کا دروازہ وا رہا
شاید کہ زندگی کوئی تمثیل گاہ تھی
ورنہ میں کیوں خود اپنا تماشا بنا رہا
جس کی زباں تھی جس کے اشاروں سے مختلف
میں اُس کے در پہ اپنا پتا پوچھتا رہا
آفتاب اقبال شمیم

مجھے اِن آٹھ پہروں سے کبھی باہر بلاؤ نا

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 19
کہیں سوتا نہ رہ جاؤں صدا دے کر جگاؤنا
مجھے اِن آٹھ پہروں سے کبھی باہر بلاؤ نا
کھُلی آنکھوں سے کب تک جستجو کا خواب دیکھوں گا
حجابِ ہفت پردہ اپنے چہرے سے اٹھاؤ نا
ستارے پر ستارہ اوک میں بہتا چلا آئے
کسی شب کہکشاں انڈیل کر مجھ کو پلاؤ نا
جو چاہو تو زمانے کا زمانہ واژگوں کر دو
مگر پہلے حدودِ جاں میں ہنگامہ اٹھاؤ نا
سبک دوشِ زیاں کر دیں زیاں اندیشاں دل کی
ذرا اسبابِ دنیا راہِ دنیا میں لٹاؤ نا
لئے جاتے ہیں لمحے ریزہ ریزہ کر کے آنکھوں کو
نہایت دیر سے میں منتظر بیٹھا ہوں ، آؤ نا
آفتاب اقبال شمیم

کوئی نہ شفق کا پھول ایسا، کوئی نہ ستارا ایسا تھا

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 18
اُس حسن نے آنکھ کے امبر پر، جو نقش ابھارا ایسا تھا
کوئی نہ شفق کا پھول ایسا، کوئی نہ ستارا ایسا تھا
پھر تیز ہوا نے پاؤں میں ، ڈالی زنجیر بگولے کی
سو ہم نے گریباں چاک کیا، موسم کا اشارہ ایسا تھا
تھی تو افراط شرابوں کی، لیکن ہم پیاسے کیا کرتے
جو جام چکھا سو توڑ دیا، معیار ہمارا ایسا تھا
ناداری دائز ناداری مارث ہماری نسلوں کی
مر کے بھی نہ جو بے باق ہوا، جینے کا خسارا ایسا تھا
قاتل کو بھی کچھ دقّت نہ ہوئی، مرنا بھی ہمیں آسان لگا
سر فخر سے اونچا رکھنے کا انداز گوارا ایسا تھا
آفتاب اقبال شمیم

قطرہ ٹوٹے تو روانی کا تماشا دیکھیں

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 18
زخم کھائے ہوئے پانی کا تماشا دیکھیں
قطرہ ٹوٹے تو روانی کا تماشا دیکھیں
گاہے پستی کا مکیں ، گاہے بلندی پہ رواں
وقت کی نقل مکانی کا تماشا دیکھیں
جانتے ہیں کہ بنے واقعہ، قصّہ کیسے
ہم کہانی میں کہانی کا تماشا دیکھیں
اتنی خلقت میں مگر آدمی ناپید ملے
جنسِ ارزاں کی گرانی کا تماشا دیکھیں
دن میں سورج کبھی دو بار نکل آئے تو
ہم بھی دوبارہ جوانی کا تماشا دیکھیں
دیمکیں چاٹ چکی ہوں گی صلیبیں کتنی
ہم کہاں کس کی نشانی کا تماشا دیکھیں
پیرہن لمس میں ہوں جیسے بھرے بدنوں کے
لفظ اندر سے معانی کا تماشا دیکھیں
آفتاب اقبال شمیم

پھر اپنے جھوٹ کو تکرار سے سچ کر دکھائے گا

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 17
کوئی تہمت لگا کر وہ تمہیں مجرم بنائے گا
پھر اپنے جھوٹ کو تکرار سے سچ کر دکھائے گا
میاں ، اس اشتہاروں کی دکاں میں جو نہیں وہ ہے
یہ آنکھیں ہار جائیں گی، تماشا جیت جائے گا
برابر ہی چھڑا دے گی بالآخر مصلحت ہم کو
میں تجھ کو آزماؤں گا تو مجھ کو آزمائے گا
مگر رکھنی ہے اپنے حوصلے کی آبرو تو نے
مجھے معلوم ہے تو زخم کھا کر مسکرائے گا
زرِ گم نام کو پھر ڈھونڈھ کر آثارِ فردا میں
زمانہ دیر تک میرے لئے آنسو بہائے گا
آفتاب اقبال شمیم

نشانِ سجدہ پڑا تھا اُس کا، جبیں سے آگے

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 17
سپردگی میں نکل گیا وہ زمیں سے آگے
نشانِ سجدہ پڑا تھا اُس کا، جبیں سے آگے
رواں سمندر کا چلتا ساحل ہے آدمی بھی
اُسی کی زد میں کہیں سے پیچھے کہیں سے آگے
ضرور ہم بھی مسائل دل پہ غور کرتے
نکلنے پاتے کبھی جو نانِ جویں سے آگے
ابھی تو نو مشقِ جستجو ہوں ، ابھی سفر میں
ہے اور کچھ بھی حدودِ عقل و یقیں سے آگے
سفر کا خاکہ لگے کہ پَرکار سے بنا ہے
وہی ذرا سی نمود ہاں کی، نہیں سے آگے
پلٹ گیا خوش مشام طائر، سراغ پا کر
کہ بوئے سازش اڑی تھی جائے کمیں سے آگے
آفتاب اقبال شمیم

شہرِ مشرق میں بپا روزِ قیامت ہو چکا

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 16
میں جسے ملنے یہاں آیا وہ رخصت ہو چکا
شہرِ مشرق میں بپا روزِ قیامت ہو چکا
اب درِ آئندگاں پہ جا کے دستک دیجئے
یارِ خواب افروز اب کا بے مروّت ہو چکا
اُن سے کہنا خامۂ امکاں سے پھر لکھیں اُسے
وُہ سنہرا لفظ جو حرفِ عبارت ہو چکا
کل وہ پھر جائیں گے جاں دینے فرازِ دار پر
اور ایسا دیکھنا برسوں کی عادت ہو چکا
اب بیاض شوق کا اگلا ورق اُلٹائیے
آج کا منظر تو خونِ دل سے لت پت ہو چکا
میں کھنڈر سا رہ گیا اے رفتگاں ! اے رفتگاں !
اپنے ہی لشکر کے ہاتھوں شہر غارت ہو چکا
آفتاب اقبال شمیم

بے نیازیاں اُسکی، ہو کے آبدیدہ لکھ

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 16
بات ایک جیسی ہے، ہجو یا قصیدہ لکھ
بے نیازیاں اُسکی، ہو کے آبدیدہ لکھ
جمع کر یہ آوازیں میری خود کلامی کی
اور ان کی املا سے درد کا جریدہ لکھ
ذہن کی ہدایت ہے، کاتب زمانہ کو
عقل کی دلیلوں سے آج کا عقیدہ لکھ
رنگ و روشنائی کی حدِّ اوج سے اوپر
ہو سکے تو اندازاً قامتِ کشیدہ لکھ
دیکھ اِن خلاؤں میں نقطہ ہائے نور اُس کے
تو بھی ایک خالق ہے شعر چیدہ چیدہ لکھ
آفتاب اقبال شمیم

صحیح ہوا ہے نہ ہو گا بگاڑ عمروں کا

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 15
یہی کہ سہم اٹھاؤ اجاڑ عمروں کا
صحیح ہوا ہے نہ ہو گا بگاڑ عمروں کا
تجھے پتہ تو چلے اصل واقعہ کیا ہے
غبار چہرۂ ہستی سے جھاڑ عمروں کا
پڑی ہیں بیڑیاں پاؤں میں اپنے ہونے کی
رواں ہوں پشت پہ لا دے پہاڑ عمروں کا
سفر بھی ہونے نہ ہونے کا اک تسلسل ہے
یہاں لگا، وہاں خیمہ اکھاڑ عمروں کا
یہاں سے دیکھ تماشا ہجوم رفتہ کا
بدن سے جامۂ نازیب پھاڑ عمروں کا
نہ ہو یہ وقت پیامِ بقا کے آنے کا!
لہذا کھول کے رکھو کواڑ عمروں کا
آفتاب اقبال شمیم

منسوب ہے مجھی سے مقدر زمین کا

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 15
ہوں دیکھنے میں عام سا مظہر زمین کا
منسوب ہے مجھی سے مقدر زمین کا
زنجیر سی پڑی ہے دلو ں کے کواڑ پر
یہ سرحدیں ہٹا کر کھلے در زمین کا
بدلے لہو کے رنگ سے، وہ بھی ذرا سی دیر
رہتا ہے ورنہ ایک سا منظر زمین کا
مجھ کو مرے شعور کی برکت سے مل گیا
اس شہرَ کائنات میں یہ گھر زمین کا
سو جائیں فکرِ شعر میں بے فکریوں کے ساتھ
چادر ہو آسمان کی بستر زمین کا
جیتا ہوں خود کو بیچ کے بازارِ نثر میں
میں رہنے والا شاعری کی سرزمین کا
آفتاب اقبال شمیم

کچھ ربط ہے ضرور خوشی سے ملال کا

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 14
پھر کیوں اُداس کر گیا مثردہ وصال کا
کچھ ربط ہے ضرور خوشی سے ملال کا
تھم ہی نہ جائے کثرت اشیا کے بوجھ سے
کیا وقت آ پڑا ہے زمیں پر زوال کا
مٹ جائے دل سے حسرتِ اظہار کی خلش
اک روز ایک شعر کہو اس کمال کا
رہتا ہوں ملکِ غم کی عروس البلاد میں
افسوس ہی ثمر ہے جہاں کی سفال کا
کچھ لت ہی پڑ گئی ہے پرانی شراب کی
جیتا ہوں کل میں گرچہ زمانہ ہے حال کا
شاید کہ حسن وقت سے باہر کی چیز ہے
دیکھا اُسے تو فرق مٹا ماہ و سال کا
ہے میرے دم سے غیب کا حاضر سے رابطہ
ڈھونڈو نا! کوئی آدمی میری مثال کا
آفتاب اقبال شمیم

کرتا ہوں زندگی ولے نا چاریوں کے ساتھ

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 14
کچھ مصلحت بھی جوڑ کے خود داریوں کے ساتھ
کرتا ہوں زندگی ولے نا چاریوں کے ساتھ
خوشحال ہو گئے ہیں مگر خود کو بیچ کر
آسانیاں بھی جھیلئے دشواریوں کے ساتھ
لگتی نہیں تھیں ایڑیاں جس کی زمین پر
بیٹھا ہوا ہے فرش کی ہمواریوں کے ساتھ
سونے دیا نہ جاگنے والے کے خبط نے
یہ رات بھی کٹی بڑی بیزاریوں کے ساتھ
تنہائیوں کا کنج معطر ہے اس لئے
چلتی ہے میری سانس مری یاریوں کے ساتھ
دورِ بعید شاہ پرستی کا فرد ہوں
پھر کیا ہو واسطہ مرا درباریوں کے ساتھ
آفتاب اقبال شمیم

دل کہیں پر اور کہیں پر ذہن تھا بھٹکا ہوا

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 13
راہ کی بے سمتیوں کا ہر گھڑی کھٹکا ہوا
دل کہیں پر اور کہیں پر ذہن تھا بھٹکا ہوا
چاندنی جیسی کوئی شے پی کے نکلیں سیر کو
جب ستاروں سے ہو باغِ آسماں چٹکا ہوا
چشم و لب پر مُسکراتی رغبتیں تسخیر کی
اور گردن میں سنہرا سا فسوں لٹکا ہوا
رہ گیا آنکھوں میں وُہ نقشِ تمام و ناتمام
طرۂ کا کُل رُخِ دیوار پر جھٹکا ہوا
ٹوٹ کر جینے کی حسرت میں جیا ہوں اس طرح
جیسے بچّے کی زباں پر لفظ ہو اٹکا ہوا
آنکھ میں سپنا ترا اُترا تو اس سے پیشتر
کچھ گماں سا کاسنی رنگوں کی آہٹ کا ہوا
آفتاب اقبال شمیم

پیو، کہ اور زیادہ ہو روشنی روشن

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 13
کرے ہے آنکھ کے گوشوں کی تیرگی روشن
پیو، کہ اور زیادہ ہو روشنی روشن
تمام صحن شبِ یاد جگمگا اُٹھا
ہوئی جو آنکھ میں اشکوں کی پھلجھڑی روشن
تو کیا چراغ ہوں میں طاقِ روزمرہ کا
کبھی بجھا ہوا ہوتا ہوں اور کبھی روشن
سرور دینے لگا ہے مجھے اندھیرا بھی
لگے کہ اُس کے بدن میں ہے چاندنی روشن
مٹے نہ فرقِ سفید و سیاہ سورج سے
مٹے لہو سے، کرے جس کو آدمی روشن
جما ہے تن کے رہِ برف و باد میں کیسے
رکھو، مثالِ شجر جان کی نمی روشن
آفتاب اقبال شمیم

بستی کے گوشے گوشے سے شور بلند ہوا

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 12
رزق کا جب ناداروں پر دروازہ بند ہوا
بستی کے گوشے گوشے سے شور بلند ہوا
مطلعِٔ بے انوار سے پھوٹا شوخ تبسم کرنوں کا
رات کے گھر میں سورج جیسا جیسا جب فرزند ہوا
سادہ، بے آمیزش جذبۂ پیر فقیر کرامت کا
جس کے اسم سے مایوسی کا زہر بھی قند ہوا
اول اول شور اُٹھا سینے میں عام تمنا کا
بند فصیلوں کے انبد میں جو دو چند ہوا
دکھ کو سمت شناسائی دی غم کے قربت داروں نے
دل دھارا، دریا مل کر بہرہ مند ہوا
چلئے! اپنے آپ سے چمٹے رہنا تو موقوف کیا
جب سے روز کے سمجھوتوں کا وہ پابند ہوا
آفتاب اقبال شمیم

بس توجہ زیاد مانگتا ہوں

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 12
نے ستائش نہ داد مانگتا ہوں
بس توجہ زیاد مانگتا ہوں
کتنا سادہ ہوں پیرِ دنیا سے
طفل کا اعتماد مانتا ہوں
حرف ڈھونڈوں الف سے پہلے کا
فکر و فن طبع زاد مانگتا ہوں
پیکرِ خاک ہوں نمو کے لئے
آتش و آب و باد مانگتا ہوں
اتنی آگیں کہ رات، دن سی لگے
دل میں ایسا فساد مانگتا ہوں
سنگ کر دے نہ دیدِ گم شدگاں !
اپنے نسیاں سے یاد مانگتا ہوں
آفتاب اقبال شمیم

کہا جو اُس نے وہی شہر کا اصول ہوا

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 11
دلوں پہ شوق اطاعت کا وہ نزول ہوا
کہا جو اُس نے وہی شہر کا اصول ہوا
فنا کے بعد پیامِ بقا بھی لایا ہے
یہ پھول کل جو اسی راستے کی دھول ہوا
گرفتِ فیصلہ میں آ کے کیا سے کیا ہو جائے
ابھی وہ مثلِ شرر تھا، ابھی وہ پھول ہوا
میں اس کی راکھ کے صدقے، اُڑا دیا جس نے
وجود،جس کے لئے جبر نا قبول ہوا
میں عمر کے نہیں کونین کے سفر میں ہوں
کسی زیاں سے کبھی میں نہیں ملول ہوا
آفتاب اقبال شمیم

اسی طریق سے اس رات کی سویر کرو

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 11
پلا کے مست کرو، مست کر کے ڈھیر کرو
اسی طریق سے اس رات کی سویر کرو
کمال کار سیاست اسی کو کہتے ہیں
خبر وہی رہے لفظوں کا ہیر پھیر کرو
جریدۂ فنِ شہزادگی میں لکھا ہے
کہ اسپِچوب سے تیغ و سناں کو زیر کرو
جنم جنم سے میں آ آ کے ہار ہار گیا
پتہ نہیں کہ تم آنے میں کتنی دیر کرو
تمہارا جبر وہی اور اپنا صبر وہی
سہار لیں گے، بڑے شوق سے اندھیر کرو
یہ خلق یورشِ زر سے نہ ہار جائے کہیں
اسے بصیرتیں بخشو، اسے دلیر کرو
آفتاب اقبال شمیم

چاہا تو گھٹا لینا چاہا تو بڑھا لینا

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 10
سادہ سی حقیقت کو افسانہ بنا لینا
چاہا تو گھٹا لینا چاہا تو بڑھا لینا
ہو اوجِ مکاں جس جا معیار بلندی کا
ہم خاک نشینوں کو اُس شہر سے کیا لینا
کیوں تاکتے رہتے ہو رستے میں حسینوں کو
اس شغل میں تم اپنی آنکھیں نہ گنوا لینا
کچھ سہل نہیں ایسا، اِس دار کے موسم میں
سر تان کے چلنے کا اقرار نبھا لینا
یہ یاریاں ، یہ رشتے مضبوط بس اتنے ہیں
پرسوں کی عمارت کو اک آن میں ڈھا لینا
موجود ہیں کھونے میں گنجائشیں پانے کی
یعنی ہو زیاں جتنا اُتنا ہی مزا لینا
آفتاب اقبال شمیم

آسماں جتنا بڑا پینے کو دریا چاہئے

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 10
ہوں انا الصحرا کبھی پوچھو مجھے کیا چاہئے
آسماں جتنا بڑا پینے کو دریا چاہئے
اتنا سنجیدہ نہ ہو، سب مسخرے لگنے لگیں
زندگی کو نیم عریانی میں دیکھا چاہئے
جانتا ہوں کیوں یہ آسانی مجھے مشکل لگے
طے نہ کر پاؤں کہ کس قیمت پہ دنیا چاہئے
یہ رہا سامانِ دنیا، یہ رہے اسباب جاں
کوئی بتلاؤ مجھے ان کے عوض کیا چاہئے
کچھ نہیں تو اُس کے تسکینِ تغافل کے لئے
ایک دن اُس یارِ بے پروا سے ملنا چاہئے
یا زیاں کو سود سمجھو یا کہو سر پیٹ کر
سوچ کو حدِ مروج ہی میں رہنا چاہئے
آفتاب اقبال شمیم

میرا اداسیوں کا بنا گھر نہ دیکھنا

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 9
تم دن کے وقت شام کا منظر نہ دیکھنا
میرا اداسیوں کا بنا گھر نہ دیکھنا
پھر روشنی ہی بعد میں پھیکی دکھائی دے
چہرہ کسی کا ایسا منور نہ دیکھنا
میدانِ تشنگی کی یہ آنکھیں امام ہیں
ہے دیکھنے سے واقعی بہتر نہ دیکھنا
ڈر جاؤ گے خلائے بے معنی کے خوف سے
باہر سے جھانک کر کبھی اندر نہ دیکھنا
اپنی ہی دُھن میں ٹھوکریں کھاتے چلے گئے
تھا وصفِ خاص راہ کا پتھر نہ دیکھنا
آیا کوئی سفیرِ محبت چلا گیا
اب مدتوں ہم ایسا سخن ور نہ دیکھنا
آفتاب اقبال شمیم

کیا کیا جائے غزل پہ بھی ادھوری رہ گئی

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 9
بات جو کہنے کو تھی سب سے ضروری رہ گئی
کیا کیا جائے غزل پہ بھی ادھوری رہ گئی
رزق سے بڑھ کر اُسے کچھ اور بھی درکار تھا
کل وُہ طائر اُڑ گیا پنجرے میں چُوری رہ گئی
تھی بہت شفاف لیکن دن کی اُڑتی گرد میں
شام تک یہ زندگی رنگت میں بھُوری رہ گئی
کیوں چلے آئے کھلی آنکھوں کی وحشت کاٹنے
اُس گلی میں نیند کیا پوری کی پوری رہ گئی؟
بس یہی حاصل ہوا ترمیم کی ترمیم سے
حاصل و مقصود میں پہلی سی دوری رہ گئی
کس قرینے سے چھپا یا بھید لیکن کُھل گیا
غالباً کوئی اشارت لاشعوری رہ گئی
آفتاب اقبال شمیم

قصرِ بلقیس اِسے سمجھے سلیماں اپنا

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 8
گھر کے آتا ہے نظر بے سرو ساماں اپنا
قصرِ بلقیس اِسے سمجھے سلیماں اپنا
نقش پا چھوڑ کے جانے کا کریں وہم، مگر
کہیں لگتا ہی نہیں پائے گریزاں اپنا
کاہے کے ڈھیر سے ہو سکتی ہے شعلے کی نمود
یعنی پستی میں بلندی کا ہے امکاں اپنا
رسمِ دیوانگی اس بار بدل دی جائے
موسمِ حبس میں کر چاک گریباں اپنا
قریۂ شور میں تنہائیاں تاحدِّ اُفق
شہر میں ساتھ رکھا ہم نے بیاباں اپنا
تابِ یک شعر سے ہے بزمِ تمنا کو فروغ
ہم نے بجھنے نہ دیا اشکِ فروزاں اپنا
آفتاب اقبال شمیم

اور جینا ہے تو مرنے کا ارادہ کر لو

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 8
مے گساری سے ذرا ربط زیادہ کر لو
اور جینا ہے تو مرنے کا ارادہ کر لو
وُہ کہ ناخواندۂ جذبہ ہے نہیں پڑھ سکتا
اپنی تحریر کو تم جتنا بھی سادہ کر لو
ایسا سجدہ کہ زمیں تنگ نظر آنے لگے
یہ جبیں اور، ذرا اور کشادہ کر لو
امتحاں کمرۂ دنیا میں اگر دنیا ہے
روز گردان کے فعلوں کا اعادہ کر لو
پھر بتائیں گے تمہیں چشمۂ حیواں ہے کہاں
گھر سے دفتر کا ذرا ختم یہ جادہ کر لو
ٹالنے کی تمہیں ٹل جانے کی عادت ہے ہمیں
پھر سہی، اگلی ملاقات کا وعدہ کر لو
آفتاب اقبال شمیم

دیا ہم نے نہ دنیا کو، کچھ ایسا تھا دماغ اپنا

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 7
کیا خود کو خجل گمنامیوں میں اور سراغ اپنا
دیا ہم نے نہ دنیا کو، کچھ ایسا تھا دماغ اپنا
کوئی آتا نہیں مے خانۂ منظر میں ، تنہا ہی
یہ چشمِ منتظرِ جھلکائے رکھتی ہے ایاغ اپنا
شجر ان کی منڈیریں اور گل ہیں طاقچے ان کے
رُتیں رکھتی ہیں روشن آندھیوں میں بھی چراغ اپنا
ملی وہ بے نیازی فکرِ پیش و بعد سے ہم کو
محاطِ وقت سے باہر پڑے پائے فراغ اپنا
زمیں دریاؤں کی ہو اور بہار افزا نہ ہو کیسے
سدا شاداب رہتا ہے گُل وعدہ سے باغ اپنا
آفتاب اقبال شمیم

آؤ کہ منتظر ہے کوئی ہمکلامِ غم

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 7
بھیجا ہے مے کدے سے کسی نے پیامِ غم
آؤ کہ منتظر ہے کوئی ہمکلامِ غم
لے جائے اب جہاں کہیں شبدیزِ زندگی
تھامی ہوئی ہے ہاتھ میں ہم نے زمامِ غم
یوں اپنے ظرف کا نہ تمسخر اُڑائیے
سر پر اُنڈیلئے، یہ بچا ہے جو جامِ غم
آئے گا ایک رقعۂ خالی جواب میں
اُس کے بجائے بھیجئے نامہ بہ نامِ غم
مفرورِ معتبر ہیں ، ملیں گے یہیں کہیں
اپنے زیاں کے کھوج میں والا کرامِ غم
سب کو بلائے عشرت ارزاں نے کھا لیا
اب تو ہی رہ گیا ہے برائے طعامِ غم
آفتاب اقبال شمیم

اختیار ظلمت میں کچھ نہ کچھ کمی کرنا

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 6
جگنوؤں سے سیکھیں گے، ہم بھی روشنی کرنا
اختیار ظلمت میں کچھ نہ کچھ کمی کرنا
دل صداقتیں مانگے خیر و شر کی دنیا میں
وہم ہے محبت کا سب سے دوستی کرنا
کیوں پسند آیا ہے لا مکاں کی وسعت کو
میرا، چند گلیوں میں سیرِ زندگی کرنا
آ دماغ روشن کر، یہ چراغ روشن کر
ظلمتوں میں اچھا ہے شغلِ مے کشی کرنا
اے امامِ صحرا تُو آج کی گواہی دے
شرطِ آدمیت ہے جبر کی نفی کرنا
موتیے کی خوشبوئیں مل رہی ہیں یادوں میں
اس سمے تو آنکھوں کو چاہئے نمی کرنا
عشق میں مقلد ہیں ہم طریق ”غالب” کے
مہ رُخوں سے سیکھنا ہے ہم نے شاعری کرنا
آفتاب اقبال شمیم

ناخن سے اک خراش لگا آسمان پر

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 6
پنجوں کے بل کھڑے ہوئے شب کی چٹان پر
ناخن سے اک خراش لگا آسمان پر
برسوں درونِ سینہ سلگنا ہے پھر ہمیں
لگتا ہے قفلِ حبس ہوا کے مکان پر
اک دھاڑ ہے کہ چاروں طرف سے سنائی دے
گردابِ چشم بن گئیں آنکھیں مچان پر
موجود بھی کہیں نہ کہیں التوا میں ہے
جو ہے نشان پر وہ نہیں ہے نشان پر
اس میں کمال اس کی خبر سازیوں کا ہے
کھاتا ہوں میں فریب جو سچ کے گمان پر
سرکش کو نصف عمر کا ہو لینے دیجئے
بک جائے کا کسی نہ کسی کی دکان پر
آفتاب اقبال شمیم

عمر بھر سہتے رہو گے ہاتھ ملنے کی سزا

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 5
وقت کے موجود سے باہر نکلنے کی سزا
عمر بھر سہتے رہو گے ہاتھ ملنے کی سزا
جزیۂ انکار دینا تو پڑے گا دہر کو
رات دن اب کاٹیے کمرے میں چلنے کی سزا
تم اسے چاہو نہ چاہو، واقعہ ایسا ہی ہے
جو ابھرتا ہے اُسے ملتی ہے ڈھلنے کی سزا
غم زیادہ پی لیا، اب مستقل پیتے رہو
سخت تر ہے اس کے نشے میں سنبھلنے کی سزا
میں نے بھی پائی ہے اپنی ضد میں سورج کی طرح
ایک عالم گیر تنہائی میں جلنے کی سزا
تم زیاں اندیش تو ہو لو، ملے گی پھر تمہیں
شہرِ اشیا کے کھلونوں سے بہلنے کی سزا
آفتاب اقبال شمیم

ایک زمیں اور سرحد سرحد بٹی ہوئی

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 5
الف اکائی کے رشتے سے کٹی ہوئی
ایک زمیں اور سرحد سرحد بٹی ہوئی
پاؤں میں گھمسان برستے پانی کا
سر پر چھتری جگہ جگہ سے پھٹی ہوئی
ایک تماشا عالم گیر خسارے کا
ہر پل دیکھوں جیون پونجی گھٹی ہوئی
کل کی کالک دھو کر آج کی تختی پر
لکھتے رہئے ایک ہی املا رٹی ہوئی
نشّے میں ہے اور طرح کی یکسانی
روز کی یکسانی سے قدرے ہٹی ہوئی
آفتاب اقبال شمیم

اُنہی کے دم سے منوّر ہوا شعور مرا

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 4
ہزیمتیں جو فنا کر گئیں غرور مرا
اُنہی کے دم سے منوّر ہوا شعور مرا
میں حیرتی کسی منصور کی تلاش میں ہوں
کرے جو آ کے یہ آئینہ چُور چُور مرا
رواجِ ذہن سے میں اختلاف رکھتا تھا
سرِ صلیب مجھے لے گیا فتور مرا
وہ اجنبی ہے مگر اجنبی نہیں لگتا
یہی کہ اُس سے کوئی ربط ہے ضرور مرا
میں ڈوب کر بھی کسی دَور میں نہیں ڈوبا
رہا ہے مطلعِٔ اِمکان میں ظہور مرا
اِسے اب عہدِ الم کی عنایتیں کہئے
کہ ظلمتوں میں اُجاگر ہوا ہے نور مرا
میں اِس لحاظ سے بے نام، نام آور ہوں
کہ میرے بعد ہوا ذکر دُور دُور مرا
آفتاب اقبال شمیم

وا ذرا سا روزنِ تشکیک رکھنا چاہئے

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 4
گھر کو اتنا بھی نہیں تاریک رکھنا چاہئے
وا ذرا سا روزنِ تشکیک رکھنا چاہئے
ہے اُسی کے بھید سے حاضر میں غائب کی نمود
دُور کو ہر حال میں نزدیک رکھنا چاہئے
در پئے آزار ہے سنجیدگی کا پیشہ ور
پاس اپنے دشنۂ تضحیک رکھنا چاہئے
پردۂ حیرت میں رہنا اُس کا منشا ہی سہی
پر اُسے پردہ ذرا باریک رکھنا چاہئے
خود بخود آ جائے گا کعبہ جبیں کی سیدھ میں
بس ذرا اندر کا قبلہ ٹھیک رکھنا چاہئے
آفتاب اقبال شمیم

تو اُس کے نام نقدِ جاں روانہ کیوں نہیں کرتا

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 3
تہی اپنا یہ بے بخشش خزانہ کیوں نہیں کرتا
تو اُس کے نام نقدِ جاں روانہ کیوں نہیں کرتا
تجھے اے گوشہ گیرِ ذات! جو تجھ سے رہائی دے
کوئی اقدام ایسا باغیانہ کیوں نہیں کرتا
ہمیں کیا ہوتا، ہم آئے یہاں تیرے بُلانے پر
تو پھر ہم سے سلوکِ دوستانہ کیوں نہیں کرتا
سلگتے جسم سے شاید پرِ شعلہ نکل آئے
ہوا کے راستے میں تو ٹھکانہ کیوں نہیں کرتا
رہیں گے کب تلک ہونے نہ ہونے کے تذبذب میں
ہمارا فیصلہ وُہ منصفانہ کیوں نہیں کرتا
نظر آتا ہے لیکن دیکھنے میں ہے زیاں اپنا
تو ایسے میں تغافل کا بہانہ کیوں نہیں کرتا
آفتاب اقبال شمیم

جب بھی کھینچوں اُسے، تصویر سے باہر ہی رہے

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 3
وُہ ہدف ہے کہ زدِ تیر سے باہر ہی رہے
جب بھی کھینچوں اُسے، تصویر سے باہر ہی رہے
رشتۂ موجد و ایجاد کی منطق سمجھو
یہ جہاں دستِ جہاں گیر سے باہر ہی رہے
جبر مجبور ہے، چھپ کر بھی نہیں چھپ سکتا
شور زنجیر کا زنجیر سے باہر ہی رہے
یوں کہ کچھ عکس نمائی کا ہمیں شوق نہ تھا
چشمِ آئینہ ِٔ تشہیر سے باہر ہی رہے
وُہ ارادہ مجھے دے، اے مری ترکیبِ وجود!
جو عمل داریِٔ تقدیر سے باہر ہی رہے
المیے میرے زمانے کے مجھے سہنے پڑے
چشمِ غالب سے، دلِ میر سے باہر ہی رہے
آفتاب اقبال شمیم

فرد فرد

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 2
آ یہیں ، عمر پسِ عمر گزاری جائے
جان سو بار اسی خاک پہ واری جائے
یہ جاہِ دنیا کروں گا کیا میں
تمہی سنبھالو اسے، چلا میں
انا کے اندر بھی اک انا ہے
وگرنہ کیوں خود سے ہوں خفا میں
تنہائی میں اک لمحے کو ٹھہرا کے امر کر لیتا ہوں
اور اپنے لہو کے رستے پر صدیوں کا سفر کر لیتا ہوں
احساس کی دو دنیاؤں میں جو دوری ہے، مجبوری ہے
تو جس پہ تبسم کرتا ہے میں آنکھیں تر کر لیتا ہوں
تو کیا ضرور ہے دل پر اثر لیا جائے
یہی طریقۂ دنیا ہے، کیا کیا جائے
پھر کیوں نہ دوسروں سے ہمیں اجتناب ہو
جب اپنے آپ سے ہی تعلق خراب ہو
ضبط کے گونگے سناٹے میں کوئی رہائی کب دے گا
وہ آنسو جو روک رکھا ہے اُس کو دہائی کب دے گا
کون تھا جو دور بھی رہ کر تمہارے اس تھا
وصل زار خواب میں شب بھر تمہارے پاس تھا
تم سے اے دنیا! یہ رشتہ تو ہمیشہ یہی رہا
سر ہمارے پاس تھا پتھر تمہارے پاس تھا
خدا تھا، کیا تھا مجھے بے شعور کر دیتا
تھکاوٹیں مرے جینے کی دور کر دیتا
کوئی مفاہمت بھی اُصولی نہ کر سکا
میں اپنے دل کی حکم عدولی نہ کر سکا
اک فاصلہ رہا مرا غم ناشناس سے
میں دادِ ناروا کی وصولی نہ کر سکا
آفتاب اقبال شمیم

لگائے جائیں ہزار پہرے، ہوا نہ ٹھہرے

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 2
مثالِ سیلِ بلا نہ ٹھہرے، ہوا نہ ٹھہرے
لگائے جائیں ہزار پہرے، ہوا نہ ٹھہرے
کہیں کہیں دھوپ چھپ چھپا کر اُتر ہی آئی
دبیز بادل ہوئے اکہرے، ہوا نہ ٹھہرے
ورق جب اُلٹے، کتابِ موسم دکھائے کیا کیا
گلاب عارض، بدن سنہرے، ہوا نہ ٹھہرے
وہ سانس اُمدی کہ وہ حسوں نے غضب میں آ کر
گرا دئیے جس کے کٹہرے، ہوا نہ ٹھہرے
کبھی بدن کے روئیں روئیں میں حواس ابھریں
کبھی کرے گوشِ ہوش بہرے، ہوا نہ ٹھہرے
اسی کی رفتارِ پا سے ابھریں نقوش رنگیں
کہیں پہ ہلکے، کہیں پہ گہرے، ہوا نہ ٹھہرے
صدائے ہر سُو کے گنبد ہیں گونجتی ہے
ہوا نہ ٹھہرے، ہوا نہ ٹھہرے، ہوا نہ ٹھہرے
آفتاب اقبال شمیم

دن میں سپنے دیکھنا، آنکھوں کا معمول

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 1
اک کیفیت پیاس کی، دائم ہمیں قبول
دن میں سپنے دیکھنا، آنکھوں کا معمول
ایک پیالہ دھوپ کا، پی کر ہوئے نہال
سائیں ترے بام سے، اُترا کون ملول
منظر میری آنکھ کا، تیری شام کا رنگ
سرخ شفق کی جھیل میں ، زرد کنول کا پھول
دیکھا تیرے بھیس میں اپنا پہلا رُوپ
آئی دل کے بھید میں ، صدیاں گہری بھول
دستک ہے پیغام کی، کھولو ہند کواڑ
اُڑتے دیکھو دور تک، روشنیوں کی دھول
دیکھو تو اُس شخص کے، ہونے کے انداز
جیسے دکھ کی دھوپ میں ، پیلا سبز ببول
آفتاب اقبال شمیم

غلام گردشِ ایام سے نکال مجھے

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 1
زمیں کی کشت میں بو، آندھیوں میں پال مجھے
غلام گردشِ ایام سے نکال مجھے
میں اپنے ظرف میں ٹھہرا ہوا سمندر تھا
چھلک رہا ہوں ، ذرا دے میرے مثال مجھے
جلا چراغ تو شب سائیں سائیں کرنے لگی
ذرا سی موجِ طرب کر گئی نڈھال مجھے
میں اپنی اصل کو دیکھوں تری نگاہوں سے
مرے وجود سے باہر ذرا نکال مجھے
میں پیش وقت ہوں مجرم ہوں اِس زمانے کا
نئی سیاستیں شاید کریں بحال مجھے
کسی کے ہارے ہوئے عزم کی ضمانت ہوں
بنا رکھا ہے زمانے نے یرغمال مجھے
میں اپنی ذات میں ہوں سرحدوں کا باشندہ
منافقت نے سکھایا ہے اعتدال مجھے
آفتاب اقبال شمیم

دُھوپ اور دُھند

جیسے میں کوئی ساز ہوں جس کے تاروں کو

آتے لمحے اپنی اپنی

آسودہ یا ناآسودہ کیفیت میں

چھیڑیں اور گزر جائیں

یوں لگتا ہے

جیسے میں اپنے اِس گھور اکیلے پن میں

پیاس ہی پیاس کی بے آواز صدا سے لے کر

شوخ سُروں کے ہولی کھیلتے رنگوں تک

ایک رواں میلے کی اُڑتی دھول میں چلتا رہتا ہوں

(٢)

پی اور پی کر

یادجگا اُن نانوشیدہ گھونٹوں کی

جن کی چھوڑی ریت پہ تو محرومی کی فرماوش پر

آنسو اور لہو کے نم سے

شعر اُگاتا رہتا ہے

(٣)

کیا خواری اور کیا خودداری

دانے کی پستی سے لے کر اوجِ پرِ شہبازاں تک

طائر کو اڑتے رہنا ہے حدِ سفر کے امکاں تک

میں بی کیا ہوں،

جینا چاہوں تو جینے کے بدلے میں

سوچوں، رسموں اور وسیلوں پر فائز

مختاروں کی

سب شرطیں تسلیم کروں

(٤)

دیکھو جاناں!

دُور بگولا اڑتا ہے پیلی سہ پہر کے آنگن میں

گُم کردہ رونق کا ہلکا سایہ سا

جاتا لمحہ ڈالے آتے لمحے پرآؤ نا گلگشت پہ جائیں اِس مہلت کے رستے پر

جس میں سپنا پڑتا ہے

نیم فراموشی کی میچی آنکھوں سے

دیکھیں اور نہ دیکھیں دھوپ کے گالوں پر

چھینٹے سے مسکانوں کے

دیکھیں اور نہ دیکھیں، گہرے سبزے سے

چُنے ہیں جو طائر نے سوکھے خاروحس کاشانوں کے

(٥)

غیب کا کوئی چشمہ جیسے

جسم کے اندر بہتا ہے

جس کے گھٹنے بڑھنے میں من کی دھرتی کا

رنگ بدلتا رہتا ہے

جوہڑ سے ساگر تک کتنے روپوں میں

جو گن دھوپ تماشے کی

اِس بستی میں گیتوں کی مالائیں پہنے

زُلفیں کھولے، بڑی بڑی سی آنکھوں سے

ذرّے کے گھمبیر خلا میں جانے کیا کیا تکتی ہے

چشمے سے سیراب زمیں کو شاید پیاسا تکتی ہے

(٦)

ناسنجیدہ

بے احساس زمانے کے

جور سے بچنے کی خآطر

ااک فرار ضروری تھا

سو اُس نے آنکھیں پلٹا کر

اندر کے گلشن کی لمبی سیریں کیں

باہر کے نیلے رقبے میں چوبِ دشتِ تصّور سے

بے در، بے دیوار مکاں تعمیر کئے

اُس آوارہ گرد نے یوں تو

چاہا تھا تریاق ملے

جسم کے اندر پھیلے زہرِ اذّیت کا

قسمت دیکھیں، اس کو غم کے بدلے میں آفاق ملے

(٧)

سرما کے ننگے نگے پہناوے میں

جھُنڈ کھرے ہیں پیڑوں کے

جن کے پیچھے امبر کا بن نیلے پن میں پھیلا ہے

جانے یہ آہٹ سی کیا ہے

وقت میں وقت سے باہر کی

گہری چپ کے ٹھہراؤ میں

گونج کے اندر گونج کا محشر اٹھتا ہے

جیسے کوئی ناقہ سوارِ دشتِ سُوس بپا کر دے

امڈی دھوپ کے صحرا میں

شور اکیلے سائے کا

جیسے کوئی سانس بچائے بیٹھا ہو

بوڑھ کے نیچے ساکت سا

اندھیارے کی دھوھل اڑاتی

روشنیوں کی آندھی میں

(٨)

کیسے کھوئے کھوئے سے تم رہتے ہو

ناموجود کی دنیا میں

دیکھو! اِن آتی جاتی باراتوں کو

جن کے آگے آگے ست رنگے سہرے میں

آج کا دولہا چلتا ہے

جس پر وقت نچھاور کرتا جاتا ہے

چھن چھن گرتی نذریں رنج و راحت کی

اور جنہیں بچے موجود کی نگری کے

لُوٹ رہے ہیں روز کی افراتفری میں

(٩)

ہم تو مست ملنگ ہیں اپنے ساویں کے

جو کوئی بھی ہرا تکونا جھنڈالے کر

اِسے رستے سے گزرے گا

پیچھے پیچھے ہو لیں گے

اور اُڑا کر سر میں دھول دھمالوں کی

اپنی راہ ٹٹولیں گے

دل دربار کی چوکھٹ تک

(١٠)

ناں سائیں!

یہ مجھ سے نہ دیکھا جائے

منظر

خاک پہ گتے اور تڑپتے دست بریدہ کا

منظر

سنگ زنی سے پارہ پارہ ہوتے ننگے جسموں کا

میں کہ ارادے کو بے رشتہ کر نہ سکوں

اپنے عصر کے جذبوں سے

میرے حق میں دعا کرنا

میری لوحِ مقدر پر تو لکھی ہے

بخشش آدھے سجدے کی

اور بدلہ آدھی دوزخ کا

(١١)

میں اپنے اندر کے سچ کو

کند بنا کر اس کی دھار پہ دھیمی انگلی رکھتا ہوں

میں اپنی سچائی کو

قند بنا کر چکھتا ہوں

اُس کے سچے چہرے کو جھٹلا دیتا ہوں

پردے کی تہہ داری سے

میری جان کی روشنیوں میں زور ہی شاید اتنا ہے

دھندلی یا دھندلائی آنکھیں

میری یہ آبائی آنکھیں

نسلوں سے مامور ہیں مجھ کو پیہم زندہ رکھنے پر

(١٢)

جب سہ پہریں۔۔۔۔ پل پل اُڑتی کچی دھوپ کے پیراہن میں

رونق سے خالی جگہوں پر

جُھک کر اپنے میلے ہاتھوں سے

ردی کاغذ کے ٹکڑے اور سوکھے پتے چن چن کر

شانوں سے لٹکے جھولوں میں بھرتی ہیں

جب سڑکوں پر دھوپ کے چھوٹے چھوٹے گرم بگولوں میں

آنکھیں تنکا تنکا سی ہو جاتی ہے

اور منڈیروں سے آہستہ آہستہ

ایک اداسی شام کے کاسنی رنگوں میں

آہٹ آہٹ نیچے آنے لگتی ہے

جانے کیوں اس وقت گنواوے دن کے اوجھل ہونے کگا

جان کی گہری تہہ میں شور سا اٹھتا ہے

جیسے کوئی دھم سے گر کر پانی میں

ریزہ ریزہ کر دے اپنے سائے کو

(١٣)

میں نے اپنے گردوپیش میں۔۔۔۔

جو کچھ ہوتے دیکھا وہ مصنوعی تھا

اس سے سمجھوتہ کر لینا ایسے تھا جیسے کوئی

دنیا کے بازار میں جا کر

صدیوں کے دکھ کی میراث کو بیچ آئے

سودا کافی مہنگاتھا

سو میں نے جلوت میں رہنا چھوڑ دیا

اب میری اس خلوت میں

مجھ کو یاروں کے بھیجے گلدستے ملتے رہتے ہیں

جن سے اک متناسب خوشبو

سچ اور دنیاداری کی

اُڑ کر مجھ کو

گاہے اِترانے پر، گاہے خود سے رحم جتانے پر

اُکساتی ہے

(١٤)

دن کے زینے سے میں شب کی چھت پر روز اُترتا ہوں

جس کے لیپ میں تنکا تنکا

بکھراؤ سا چھوڑ گئی ہے چاندنی گزے برسوں کی

جس پر سیل جدائی کا

انت منڈیروں پر سے لے کر محرابِ افق تک

ٹھاٹھیں مارتا رہتا ہے

میں بے غفلت غافل سا رہنے والا

اپنی بینائی سے آگے کچھ بھی دیکھ نہیں سکتا

کیسے اِن میرے اوسان پہ ظاہر ہو

کیا ہوتا ہے

روز و شب کے آٹھ پہر سے باہر کے

سناٹے میں

آفتاب اقبال شمیم

گُمان کا رومان

نہیں! تم اپنے آنسو کو چھپا رکھو

اِسی سے چھِن کے سارے فاصلے،

سب روشنی، پوری ہوا شفاف ہوتی ہے

تناظر ہے ابد آباد کا جس میں

اُجالے کے مصور نے صلیب و دار و نہرِ خشک کا منظر بنایا ہے

زپاتا، چی گویرا اور ماؤ

ہار کر ہارے نہیں ہیں،

یہ پون چکتی پےہ دھاوا بولنے والے

سدا آتے رہیں گے

کیا کیا جائے یہ مشکیزہ پرانا جب سیا جائے

تو بخیوں سے ٹپکتا ہے

خرابی کارِ سوزن کی ہے

یا پھر چرخ پر کاتی ہوئی کرنوں کے دھاگے کی!

کہا جاتا ہے نابینا مغنی کو بشارت ہے

کلا کی روشنی مل جائے گی لیکن

زدِ مضراب سے اُس کو

ہزاروں تار سارنگی کے پہلے توڑنے ہوں گے

آفتاب اقبال شمیم

الوداع، اے داشتہ!

نکسیر، نیل، چاک گریبان و آستین

کچھ اور (کٹ)

بھنور سابنے رخ پہ کرب کا

لب بستہ چیخ اور ذرا (کٹ) بلند ہو

دہشت سے جیسے آئینہ (کٹ) ٹوٹ کر گرے

اندر کے فرش پر

رشتوں کے مسخ عکس (بہت خوب اس طرح)

تعمیلِ حکم جبر ہو اور ٹھیکرا سی آنکھ

اس سے کہے کہ کون ہو تم، میں تمہیں پہچانتا نہیں

انکار تین بار

بازارِ دشمنان کی شئۓ زر خرید سے

کیا واسطہ مرا

(اقرار پھڑ پھڑائے، پھٹے حرف و لب کے ساتھ)

اور یہ زنِ غلیظ!

عورت مری! نہیں نہیں، تھی داشتہ مری

فوکس۔۔۔۔ کچھ اور، اور صداقت کا ا یک رُخ

کیسا مہیب ہے

دے اے خدا پناہ خدایانِ خاک سے

آفتاب اقبال شمیم

زندگی جیسی ایک لڑکی

نظر کے بدلتے ہوئے پینترے سے

فنا کر کے

دیتی ہے خیرات بھی پھر سے جینے کی

آدھی شکن کے تبسم سے اک جرعہءِوہم پینے کی

میں اک ستارہ اشارے کے رُخ

اور محراب وعدے کی قبلہ نمائی میں

اس کی طرف منہ کئے

بے نیازی کے معبود کے روبرو ہوں

تمنا کے سو بار ٹوٹے ہوئے تار میں

حرف حرف آیتوں کو پروتے ہوئے

سجدہ جُو ہوں

آفتاب اقبال شمیم

کہانی ایک پیڑ کی

دیکھ یہ البم ذرا

بیس برس پیشتر، باغ کے اُس پیڑ پر

آئے تھے تجھ کو کبھی اتنے پرندے نظر!

رامشِ صد رنگ کے چھینٹے اُڑاتے ہوئے

اور تجھے یاد ہے!

کتنے مہ و سال تک

جو نہ فروزاں ہوئے ایسے بُجھے چہچہے

روز کفِ شاخ سے

آ کے اُڑاتی رہی بادِ گماں دُور کی

وہ تھے یہاں حکم کی فرمانروائی کے دن

گنتی رہیں تتلیاں گُل سے جدائی کے دن

نغمہِ بے ساختہ گاتی رہیں ہجرتیں

دینا گواہی ذرا

کتنے برس پیڑ نے دیکھے پرندوں کے خواب

دینا گواہی ذرا

قوس نما آنکھ میں کیسے معلق رہی

ایک جھپٹ خوف کی

اور لبِ برگ سے اُڑتی رہی چار سو

لفظِ مکرّر کی بُو

ہوتی رہی شاخ پر تیرے میرے رُوبرو

ایک ہی سرتال میں جھینگروں کی گفتگو

آفتاب اقبال شمیم

مرگِ یک خواب

وہ بڑا شہر، اتنا بڑا شہر کیوں دیکھتے دیکھتے

منہدم ہو گیا ہے

اور ٹکڑوں میں بے ضرب ہی منقسم ہو گیا

ایک اتنا بڑا خواب آدرش کے عرش سے

گر گیا، اب چنو کرچیاں فرش سے

سائیکی! غالباً ترکِ معمول کے تجربے

ناپ، پیمائشیں، ضابطے اور پابندیاں

تجھ کو بھاتی نہیں

دیکھ! تیرے سخی نام پر

نائیکہ خوش ہے خواجہ سراشاہ کا

قاف کی اس پری کو بٹھا کر لموزین میں لے گیا

اور وہ کس قدر شاد ہے چڑمڑائی ہوئی سی

شکن در شکن

شب کے باسی گلابوں کے بستر سے اٹھتے ہوئے

حسن زرخیز ایسا ہوا

گونگ لی کے تبسم کی لاکھوں میں بولی لگی

سائیکی! تو یہ چاہے ہمیشہ سے جو ہو رہاہے

اسی طور ہوتا رہے

نفس کے آستانوں پہ بیٹھی ہوئی عادتیں، غفلتیں

اور خوش فہمیاں

دھوپ کی اونگھ سے اُون بنتی رہیں

سائیکی! اِس طلب اور رسد، اِس اناؤں کی

نیلام گاہوں کے بازار میں

تو سدا سے رواں، نیم عریاں خراماں خراماں رواں

تجھ سے راجا بھی خوش اور پرجا بھی خوش

اپنی اپنی دکانوں مکانوں میں آنند سے

صبر کی تنکا تنکا چٹائی پہ بیٹھی ہوئی مفلسی

مطمئن ہے کہ شاید کسی شب

ستاروں کی لپٹی ہوئی پرچیوں سے نکل آئے

نادار کے اِسم بے اِسم کی لاٹری

تجھ کو اچھا لگے دیکھنا

اِن ذرا سی اناؤں کی امواج سے

جھاگ اڑتی ہوئی (بیوقوفانہ سی روز کی نرگسےت کی آویزشیں)

اور ہر موج غصے میں ساحل سے مُڑتی ہوئی

تجھ کو اچھا لگے

اپنی آوارگی کے پرانے سبو سے

ذرا ہوش میں آنے والوں میں، بے راہ کرتی ہوئی

مستیاں باٹنا

سرحدیں کھینچنا، بستیاں بانٹنا

سائکی! عام گلیوں کے کچے اندھیرے سے اٹھتے ہوئے

اور پھٹتے ہوئے بلبلے، تو نے دیکھے تو ہیں

کوئی ہم جنس کسبی میاماریا

گندگی کے بڑے ڈھیر سے کوئی ردی اُٹھاتا ہوا اور گاتا ہوا واسکو

کوئی پنجر سے چپکے ہوئے چلبلے ہاتھ سے

پرس، جیبیں، دکانوں کی اشیا اُڑاتا ہوا ویریا

کوئی خود سے خفا راڈ ریگے لہو کی دبی چیخ پر شاد ہوتا ہوا

اور ہر شب بگوٹا کے جاروب کش

پھینک آتے ہیں اِن فالتو اور فاضل تہی ماچسوں کو

غلاظت میں بدلی ہوئی شرم کے ڈھیر پر

کرگس و زاغ کے ڈائننگ ہال میں

اور وہاں پر

سراےےگو، صومالیہ اور فلسطین اپنے لہو میں نہائے ہوئے

مذہب و نسل و تاریخ و جغرافیہ کی کرامات پر دنگ ہیں

بے زمیں اور بے آسماں

صیدِ سوداگراں

یہ رعایا جسے نسل در نسل شاہوں کی تحویل میں

چابکوں، منتروں اور دانائیوں کے خریدہ وسےلے سے

ہانکا گیا

وقت انصاف کرتا تو دیتا اِسے مہلتیں

قصر و اہرام وہیکل اٹھا کر سدا چلتے رہنے کی

بے جرم پاداش سے

وقت انصاف کرتا تو اپنے سخی ہاتھ سے

رسّیوں کی طرح اِن بٹے بازوؤں کی گرہیں کھول کر

اِن سے کہتا کہ لے جاؤ ساری زمیں

ہے تمہاری زمیں

اور اگلے زوالوں کے پنڈال میں

کر رہا ہے مداری تماشا گری

سائیکی! تیرے البم میں آئیں نظربستیاں

ناف تک زرد لاوے میں ڈوبی ہوئی

جنس و زر کی وبا۔۔۔۔

ماس کے دُور اندر جنینوں میں اُتری ہوئی موت کی سونڈیاں

سائیکی! پر تجھے کیا

کہ یہ رقصِ بسمل بھری بستیوں میں ہمیشہ سے تُو

دیکھتی ہی چلی آرہی ہے

آفتاب اقبال شمیم

پابند شہر کی تین آوارہ لڑکیاں

چلو ہو جائیں کچھ باتیں

اسائیڈ’ تخلیے یا خود کلامی میں

زلیخا’ نائے لویاؤ’ میا میرا

تمہارے ہونٹ کیسے ارغوانی ہیں

مگر سانسوں سے کیسی باس آئے بے خیالی کی

بہت نامطمئن ہو کیا؟

کمانوں پر انا کی تانت ڈھیلی پڑ گئی ہے

انگلیوں میں انگلیاں باندھے

میں اپنے جسم کی گٹھڑی کے میلے پاپ کو گرنے نہیں دیتی

مجھے یہ فاختائی رنگ کا انڈرو یر اچھا نہیں لگتا

مجھے تو نیم عرےانی کی باتیں

گالیاں اور چُست پہناوے

مساموں میں ذرا سی گدگدی کرتے ہوئے’ کولون کی خوشبو

لبوں کی قرمزی رنگت

بدن کے صرف ہو جانے کی راتوں کا تصور اچھا لگتا ہے

مگر یہ حکم کے دربار والے بھی قیامت ہیں

ہوا سے کیا خبر کس روز استعفیٰ طلب کر لیں

گلوں میں رنگ بھرنے کا

زلیخا! تو نے جیسے میرے دل کی بات کہ دی ہے

یہ خبریں’ روز کی خبریں مجھے تو زہر لگتی ہیں

مجھے کےا ان غباروں سے

جو شام ہوتے ہی

گھٹتی پھونک ، بڑھتے ضعف سے لمبوترے ہو جائےں

نامردی کی حالت میں

یہ سارے رہس دھاری ہیں ڈرامے کی مثلث کے

ہماری مائیں کہتی ہیں

وہاں پورب کے امبر سے کوئی اوتار اُترا تھا

چٹانیں بن گئیں تھیں

دودھ دیتی گائیں جس کے لمس کرنے سے

اسی کے شبد کی تاثیر نے

مجھ کو بنا ڈالا ہے گائے بھی گوالن بھی

یہ کیسا روگ ہے ہنسنے میں رونے کا

میں دھرتی ہوں

میں سب بھوکیں بھگت لیتی ہوں

لیکن سانولے ساون کی باہوں میں سمٹ کر پھیلنے کی پیاس

کیسے فرش کے نیچے

مرے آئے ہوئے اعضا مٹائیں گے

کروں کیا حکم کی سرکار

میرے جسم کی مٹی سے ترکاری اُگاتی ہے

میں کیسے چُڑ مڑا کر بھربھری سی ہو گئی ہوں

گرم خانوں میں

اری او نائے لو یاؤ!

ذرا یہ دیکھ! کیسے چوڑیوں جیسے یہ حلقے

نقرئی وِینس کے حلقے ثبت ہیں میری کلائی پر

میں نمفومینیک ہوں

اور لعنت، باہ ہم بگ بھیجتی ہوں

جسم کے کنجوس لوگوں پر

میں گٹھڑی سی بنی ڈرتی ہی رہتی ہوں

یہاں کی سنگساری سے

کسی دن آئے گا اسپِ ہوا پر

شاہزادہ اور بھگا کر ساتھ لے جائے گا مجھ کو

عشرتوں کی راج دھانی میں

ختن کی مشک اور لعلِ یمن کی آبداری سے

تمنا کے شبستان میں

دمشق و قاہرہ، یونان و روما کے پری زادوں کی

سب راتیں

میری غارت گری کی ایک شب میں منعکس ہوں گی

مجھے تم دیکھنا میری ہی آنکھوں سے

میں جب فانوس آویزوں میں، اونچی ہیل پہنے

اپنے ابریشم کے سارے چاک کھولے، کاسنی ساعت میں

نکلوں گی

تو آنکھیں شوق سے باہر نکل آئیں گی آنکھوں سے

کسی دن آب پر چلتے ہوئے تم دیکھنا مجھ کو

ہوائی کے جزیرے میں

میں بے پروائیوں کے سیل میں بہتی ہوئی

صندل کی لعبت ہوں

کبھی گدلاہٹیں پانی کی چکھتی ہوں

کبھی خطِ افق پر شیڈ کی مانند رکھے آسماں کے

لیمپ میں ایام کی تحریر پڑھتی ہوں

کہ اِس وسعت سے میرا واسطہ کیا ہے

زنِ بے حد ہوں

اُمراؤ، بواری اور ہیلن کے قبیلے کی

آفتاب اقبال شمیم

والیریا کے ساتھ آدھی شام

سینٹ پیٹرز برگ کی اے سرو قد لڑکی!

تیرے انگور ہونٹوں پر

کئی جاگی ہوئی گیلی شبوں کے ڈھیر سے اُٹھتے دھوئیں کی

دُھول ہے

قاف سے اُترے ہوئے پہلے اُجالے کی سنہری کاکلوں کی

چھاؤں میں نیلاب آنکھیں

اور اِن آنکھوں میں سپنے کی خزاں کا آسماں

اُترا ہوا

تیرے ہاتھوں میں ہے می شی ما کی نظموں کی کتاب

تیرے بازو میں کلامی بند’ تیرے پرس میں ویزا’

زرِ وافرکی خواہش جیب میں

کتنے سستے دام میں بیچا گیا ہے

اجنبی ہاتھوں میں اپنی نسلِ رفتہ کے سنہرے خواب کو

ہاں مگر ٹوٹی ہوئی اِن سرحدوں کی دھار سے گرتا لہو

تیرے تعاقب میں رہے گا دیر تک

یوں نہیں’ ایسے نہیں

جانتے ہو! خوف ایسا نجِس ہے’ لگ جائے تو

تبدیل ہو جاتا ہے باطن کھاد میں

اور پھر پورا زمستاں کاٹنا پڑتا ہے تب جا کر کہیں

ادنِیس دوبارہ جنم لیتا ہے اپنی راکھ سے

سب سے پہلے ہم نے پگھلی دھوپ سے

دھو کر نکالا سایہءِابلیس جو بستی پہ تھا

اور بدلا نام اپنے شہر کا

ماں مری اوّل معلم تھی کسی اسکول میں

اپنی راسخ عادتیں ہم کو سکھاتی تھی’

سزا ملتی تھی بائیں ہاتھ سے لکھنے پہ’ ایسی ہی سزاؤں کی فضا میں

مجھ کو اپنی ماں سے نفرت ہو گئی

کس طرح تم دوسری مرضی کے جوئے میں انائیں جوت کر سر سبز رکھ سکتے ہو کشتِ حکم کو

اور کب تک کوئی سن سکتا ہے مریل خواہشوں کی سسکیاں

کیا ہوا گر خاکۂِ تعمیر ہے بدلا ہوا

یہ مگس نر آدمی

شہد کو امرت بنانے میں زیاں کرتا چلا آیا ہے

قصرِ عالیہ کے سود کا

اور بے شک ایک سا، دو مشت کا چھّتہ نہیں ہے زندگی

تا افق پھیلی ہوئی شب میں یہ آتش بازیاں

اور صبحوں کی ہتھیلی پر ذرا سی راکھ کے دھبّے۔۔۔۔

یہی ہے زندگی

اور اسکیٹنگ میں اک پل کے اُچٹتے دھیان میں

پھسلی ہوئی مایر’ گُل صد خواب جیسے برف کی چادر پہ

بکھرا ہو’ یہی ہے زندگی

میں کہ فرحت میں الم بھی ڈھونڈتی ہوں

میں کلیسائی ہوں’ کیا جانوں پرانے قرض کی میعاد

گھٹ سکتی ہے پیسے سے کہ پچھتاوے سے

لیکن اے خدا! لاریب پیسے میں بڑی تسکین ہے

میں کلیسائی ہوں’ آزادی کا حق رکھتی ہوں

باطن اشتمالِ ارض سے باہر کی شے ہے

ارض تو دہلیز ہے

جی کیا تو پاؤں سے جوتے اُتارے اور سیرِ آسماں کو چل دئیے

اور وہ کوئے معیشت بند تھا

بلڈنگیں بے روح تھیں

فیکٹری کے آہنی پھاٹک سے گھر کے آہنی پھاٹک پہ جا کر

ختم ہو جاتی تھیں سڑکیں شہر کی

جن پہ راشن’ وردیاں

انسان شکلوں میں چھپی آنکھوں’ ہدایت کے نوشتوں’

حاجتِ اصلاح کے کتبوں کے بیچوں بیچ

رہتے تھے رواں

مصلحت کے شعبدے کرتے ہوئے

گورکی!

کون تھا یہ گورکی!

ٹالسٹائی تو کتابِ غم کی صرف و نحو کا ماہر تھا’ اب متروک ہے

میرے باطن کی ثقافت میں بلیک اور بودلر

کشفِ علامت سے ملائیں نفس کو آفاق سے

لفظ و معنی اور تمثال و اشارہ بال و پر کھولے ہوئے

اور نیچے آبنائے زندگی پھیلی ہوئی

کون جانے لفظ کے ایجاد گر کا

اس سے آگے بھی کوئی آدرش ہو

اور سچ پوچھو تو سب آدرش مر جاتے ہیں

شاید ٹوٹنا پہچان ہے پہچان

سچے خواب کی

اور سچ پوچھو تو میں اُلجھی’ بہت اُلجھی ہوئی ہوں۔۔۔۔

آفتاب اقبال شمیم

بنچ پر بیٹھے ہوئے

نرودا اور میں بیٹھے ہوئے ہیں

پانچ دریاؤں کے سنگم پر

ہمارے سامنے اپنے بدن کو توڑ کر

باہر نکلتے رقص میں سپنے کی لڑکی ہے

مہکتی شام جس پر مُٹھیاں بھر بھر کے

شانوں سے پھسلتی چاندنی میں، جگنوؤں کا زر لُٹاتی ہے

بڑی خوشبو، نہایت لمس سے بھیگی حِسوں کی بھیڑ ہے

بستی کے میلے میں

جہاں پر

موم سی رنگت کے اُٹھتے شور کے ریشم پہ

انگشتِ شہادت کے قلم سے گیت لکھا جا رہا ہے

رنگ کے بے رنگ ہونے کا

حناؤں کی معطّر تال پر دف کی طرح بجتی ہوئی

ہر کنپٹی میں ایک ہی آواز لرزاں ہے

کہ ہم اہلِ زمیں۔۔۔۔ زنجیر کی مانند پھیلی سرحدوں کو

نسخ کرتے ہیں

معافی چاہتا ہوں

کیا کروں، عادت جو سپنے دیکھنے کی ہے

آفتاب اقبال شمیم

نظم باز

تو کیسا ہرجائی ہے

شب بھر نظم کی فرقت جیسی قربت میں

روشنیوں، خوشبوؤں، لفظوں

اور ادھورے پن کی چھوڑی جگہوں کو

وصل مکمل کرنے کی تیاری میں

کچھ جمع کچھ منہا کرتا رہتا ہے

جیتا مرتا رہتا ہے

اور نئے دن کی سڑکوں پر

ایک نویلی محبوبہ کے ساتھ فلرٹنگ کرتے دیکھا جاتا ہے

دیکھو نا!

اور وفا کیا ہوتی ہے

پورا کرتا رہتا ہوں

ایک مکمل مرد کا وعدہ ایک مکمل عورت سے

دل دائم امڈا رہتا ہے کہنے پر

ایک مسلسل نظم کے لکھتے رہنے پر

آفتاب اقبال شمیم

ایک آنسو، ایک تبسم

مت کہو اِن مہ وشوں کو فاحشہ

یہ تو وہ ہیں جن کے آگے میں ہمیشہ

نیم سجدے میں رہا

میرے سپنوں کو بنفشی شال کی مانند جو بنُتی رہیں

جس کے لمسِ گرم کو کندھوں سے لپٹائے ہوئے

کاٹ لی ہے میں نے یہ سرما کی لمبی رات جیسی زندگی

جن کی آنکھوں کی تپش اور روشنی سے عمر بھر

میرے صحراؤں میں ہریالی رہی

مت کہو اِن مہ وشوں کو فاحشہ

یہ تو وہ ہیں

جو جنم کی قیدِ بے میعاد میں جی رہی ہیں بھید اندر بھید خود اپنے لہو کی بے وفائی کی سزا

سہتے ہوئے

برتر و بالا ہو جو چاہو کہو

میں تو رو دوں فاحشہ کو فاحشہ کہتے ہوئے

آفتاب اقبال شمیم