زمرہ جات کے محفوظات: آفتاب اقبال شمیم
جہل کو دانش کہیں ، بینا کو نابینا کہیں
دنیا غیر ضروری تو ہو جاتی ہے
یا دل ملتا ہے یا منصب ملتے ہیں
ہے مفت کی شراب اسے پینا چاہئے
سارے نشیب جن کی اُٹھانوں پہ دنگ ہیں
رستے ہمارے پاؤں تلے سے سرک گئے
کوچۂ بند باہر تو نکل کر دیکھیں
شاید اسی لئے ہمیں محبوب ہے یہی
وُہ دہشتیں ہیں کہ ہم شب کو شب بھی کہہ نہ سکیں
ہُوں قید ان کے درمیاں میعادِ ماہ و سال تک
آنکھیں پڑھ لیں اگلے دن کی دھوپ کا مضمون آنکھوں میں
اس شہر میں ہمارے خدا وند ہیں بہت
روز گلگشت کرے خواہشوں کے گلشن میں
بول رہا ہو کہیں ، جیسے خدائے خیال
تال سے باہر کبھی ہے اور کبھی ہے تال میں
ریت سے جھُلسے ہوئے روئے زمیں کو دھو دیا
بے ملاقات ملاقاتیں ہوں
ہے اُسکی ساری خدائی سے اختلاف مجھے
کہ اُس کی فہم سے باہر ہے کل کی ابجد تک
کوئی جواب مِثل آب سادہ و جاں فزا ملے
یہ زمیں کوئی نہ ہو وہ آسماں کوئی نہ ہو
یعنی شب کو جاگئے صبح کو دفتر جائیے
پی کر بقدرِ حوصلہ مے خوار مست ہو
کہ فلک سے جوڑ کر بھی نہ ہوئی زمیں زیادہ
سبطِ علی صبا ہو یا احمد شمیم ہو؟
رقص کرتے ہوئے بوئے گل نے کہا، ہر کوئی ناچتا ہے
سب اصل کی نقلیں ہیں ، ذہنوں کے ورق دیکھو
مجھے اتنا تو نہ اُداس کرو، کبھی آؤ نا!
طاقِ اُمید میں یہ دیپ جلائے رکھو
تم آدمی ہو، تو آدمی کی، ہتک نہ کرنا
موجِ دریا کا سخن، غور سے سُن
دکھائے حیرانیوں کا منظر، بہے سمندر
آپ اپنا سا منا اے آفتاب اقبال کر
کسی آس پر، کسی یاس میں کبھی جی اُٹھا کبھی مر گیا
کھلا لگتا ہے، لیکن بند ہے میرا مکاں مجھ پر
وہ معجزہ جو وہاں ہوا ہے یہاں بھی ہو گا
باقی رہے نہ قرضِ خموشی زبان پر
رند کو تاجِ عرب، تختِ عجم مل جائے
صنوبر سا کھڑا ہوں شانِ تنہائی کے پربت پر
اِس زمیں کی زردیوں میں لالیاں شامل ہوئیں
کبھی بس چلا بھی ہے انکارِ خاموش پر
ہے کفِ باد میں جو، موسمِ افسوس کی گرد
آپ کو یار پسند اور مجھے دار پسند
ضمیر بوئیے، افلاس کاٹتے رہئے
اُس سمت امیرِ مقتل بھی، ہے خصلت میں سفّاک بہت
یہ دنیا جابروں کے قہر سے آزاد ہو جائے
یہی لگا کہ جیسے میرے سر سے آسماں گیا
کوئی بِن برسے بادل کو روک رکھے
اپنے لئے فریب سا ایجاد کر لیا
نکلا نہیں دیوار کے اندر کا اندھیرا
خود میں مثال نقشۂ دنیا بٹا رہا
مجھے اِن آٹھ پہروں سے کبھی باہر بلاؤ نا
کوئی نہ شفق کا پھول ایسا، کوئی نہ ستارا ایسا تھا
قطرہ ٹوٹے تو روانی کا تماشا دیکھیں
پھر اپنے جھوٹ کو تکرار سے سچ کر دکھائے گا
نشانِ سجدہ پڑا تھا اُس کا، جبیں سے آگے
شہرِ مشرق میں بپا روزِ قیامت ہو چکا
بے نیازیاں اُسکی، ہو کے آبدیدہ لکھ
صحیح ہوا ہے نہ ہو گا بگاڑ عمروں کا
منسوب ہے مجھی سے مقدر زمین کا
کچھ ربط ہے ضرور خوشی سے ملال کا
کرتا ہوں زندگی ولے نا چاریوں کے ساتھ
دل کہیں پر اور کہیں پر ذہن تھا بھٹکا ہوا
پیو، کہ اور زیادہ ہو روشنی روشن
بستی کے گوشے گوشے سے شور بلند ہوا
بس توجہ زیاد مانگتا ہوں
کہا جو اُس نے وہی شہر کا اصول ہوا
اسی طریق سے اس رات کی سویر کرو
چاہا تو گھٹا لینا چاہا تو بڑھا لینا
آسماں جتنا بڑا پینے کو دریا چاہئے
میرا اداسیوں کا بنا گھر نہ دیکھنا
کیا کیا جائے غزل پہ بھی ادھوری رہ گئی
قصرِ بلقیس اِسے سمجھے سلیماں اپنا
اور جینا ہے تو مرنے کا ارادہ کر لو
دیا ہم نے نہ دنیا کو، کچھ ایسا تھا دماغ اپنا
آؤ کہ منتظر ہے کوئی ہمکلامِ غم
اختیار ظلمت میں کچھ نہ کچھ کمی کرنا
ناخن سے اک خراش لگا آسمان پر
عمر بھر سہتے رہو گے ہاتھ ملنے کی سزا
ایک زمیں اور سرحد سرحد بٹی ہوئی
اُنہی کے دم سے منوّر ہوا شعور مرا
وا ذرا سا روزنِ تشکیک رکھنا چاہئے
تو اُس کے نام نقدِ جاں روانہ کیوں نہیں کرتا
جب بھی کھینچوں اُسے، تصویر سے باہر ہی رہے
فرد فرد
لگائے جائیں ہزار پہرے، ہوا نہ ٹھہرے
دن میں سپنے دیکھنا، آنکھوں کا معمول
غلام گردشِ ایام سے نکال مجھے
دُھوپ اور دُھند
جیسے میں کوئی ساز ہوں جس کے تاروں کو
آتے لمحے اپنی اپنی
آسودہ یا ناآسودہ کیفیت میں
چھیڑیں اور گزر جائیں
یوں لگتا ہے
جیسے میں اپنے اِس گھور اکیلے پن میں
پیاس ہی پیاس کی بے آواز صدا سے لے کر
شوخ سُروں کے ہولی کھیلتے رنگوں تک
ایک رواں میلے کی اُڑتی دھول میں چلتا رہتا ہوں
(٢)
پی اور پی کر
یادجگا اُن نانوشیدہ گھونٹوں کی
جن کی چھوڑی ریت پہ تو محرومی کی فرماوش پر
آنسو اور لہو کے نم سے
شعر اُگاتا رہتا ہے
(٣)
کیا خواری اور کیا خودداری
دانے کی پستی سے لے کر اوجِ پرِ شہبازاں تک
طائر کو اڑتے رہنا ہے حدِ سفر کے امکاں تک
میں بی کیا ہوں،
جینا چاہوں تو جینے کے بدلے میں
سوچوں، رسموں اور وسیلوں پر فائز
مختاروں کی
سب شرطیں تسلیم کروں
(٤)
دیکھو جاناں!
دُور بگولا اڑتا ہے پیلی سہ پہر کے آنگن میں
گُم کردہ رونق کا ہلکا سایہ سا
جاتا لمحہ ڈالے آتے لمحے پرآؤ نا گلگشت پہ جائیں اِس مہلت کے رستے پر
جس میں سپنا پڑتا ہے
نیم فراموشی کی میچی آنکھوں سے
دیکھیں اور نہ دیکھیں دھوپ کے گالوں پر
چھینٹے سے مسکانوں کے
دیکھیں اور نہ دیکھیں، گہرے سبزے سے
چُنے ہیں جو طائر نے سوکھے خاروحس کاشانوں کے
(٥)
غیب کا کوئی چشمہ جیسے
جسم کے اندر بہتا ہے
جس کے گھٹنے بڑھنے میں من کی دھرتی کا
رنگ بدلتا رہتا ہے
جوہڑ سے ساگر تک کتنے روپوں میں
جو گن دھوپ تماشے کی
اِس بستی میں گیتوں کی مالائیں پہنے
زُلفیں کھولے، بڑی بڑی سی آنکھوں سے
ذرّے کے گھمبیر خلا میں جانے کیا کیا تکتی ہے
چشمے سے سیراب زمیں کو شاید پیاسا تکتی ہے
(٦)
ناسنجیدہ
بے احساس زمانے کے
جور سے بچنے کی خآطر
ااک فرار ضروری تھا
سو اُس نے آنکھیں پلٹا کر
اندر کے گلشن کی لمبی سیریں کیں
باہر کے نیلے رقبے میں چوبِ دشتِ تصّور سے
بے در، بے دیوار مکاں تعمیر کئے
اُس آوارہ گرد نے یوں تو
چاہا تھا تریاق ملے
جسم کے اندر پھیلے زہرِ اذّیت کا
قسمت دیکھیں، اس کو غم کے بدلے میں آفاق ملے
(٧)
سرما کے ننگے نگے پہناوے میں
جھُنڈ کھرے ہیں پیڑوں کے
جن کے پیچھے امبر کا بن نیلے پن میں پھیلا ہے
جانے یہ آہٹ سی کیا ہے
وقت میں وقت سے باہر کی
گہری چپ کے ٹھہراؤ میں
گونج کے اندر گونج کا محشر اٹھتا ہے
جیسے کوئی ناقہ سوارِ دشتِ سُوس بپا کر دے
امڈی دھوپ کے صحرا میں
شور اکیلے سائے کا
جیسے کوئی سانس بچائے بیٹھا ہو
بوڑھ کے نیچے ساکت سا
اندھیارے کی دھوھل اڑاتی
روشنیوں کی آندھی میں
(٨)
کیسے کھوئے کھوئے سے تم رہتے ہو
ناموجود کی دنیا میں
دیکھو! اِن آتی جاتی باراتوں کو
جن کے آگے آگے ست رنگے سہرے میں
آج کا دولہا چلتا ہے
جس پر وقت نچھاور کرتا جاتا ہے
چھن چھن گرتی نذریں رنج و راحت کی
اور جنہیں بچے موجود کی نگری کے
لُوٹ رہے ہیں روز کی افراتفری میں
(٩)
ہم تو مست ملنگ ہیں اپنے ساویں کے
جو کوئی بھی ہرا تکونا جھنڈالے کر
اِسے رستے سے گزرے گا
پیچھے پیچھے ہو لیں گے
اور اُڑا کر سر میں دھول دھمالوں کی
اپنی راہ ٹٹولیں گے
دل دربار کی چوکھٹ تک
(١٠)
ناں سائیں!
یہ مجھ سے نہ دیکھا جائے
منظر
خاک پہ گتے اور تڑپتے دست بریدہ کا
منظر
سنگ زنی سے پارہ پارہ ہوتے ننگے جسموں کا
میں کہ ارادے کو بے رشتہ کر نہ سکوں
اپنے عصر کے جذبوں سے
میرے حق میں دعا کرنا
میری لوحِ مقدر پر تو لکھی ہے
بخشش آدھے سجدے کی
اور بدلہ آدھی دوزخ کا
(١١)
میں اپنے اندر کے سچ کو
کند بنا کر اس کی دھار پہ دھیمی انگلی رکھتا ہوں
میں اپنی سچائی کو
قند بنا کر چکھتا ہوں
اُس کے سچے چہرے کو جھٹلا دیتا ہوں
پردے کی تہہ داری سے
میری جان کی روشنیوں میں زور ہی شاید اتنا ہے
دھندلی یا دھندلائی آنکھیں
میری یہ آبائی آنکھیں
نسلوں سے مامور ہیں مجھ کو پیہم زندہ رکھنے پر
(١٢)
جب سہ پہریں۔۔۔۔ پل پل اُڑتی کچی دھوپ کے پیراہن میں
رونق سے خالی جگہوں پر
جُھک کر اپنے میلے ہاتھوں سے
ردی کاغذ کے ٹکڑے اور سوکھے پتے چن چن کر
شانوں سے لٹکے جھولوں میں بھرتی ہیں
جب سڑکوں پر دھوپ کے چھوٹے چھوٹے گرم بگولوں میں
آنکھیں تنکا تنکا سی ہو جاتی ہے
اور منڈیروں سے آہستہ آہستہ
ایک اداسی شام کے کاسنی رنگوں میں
آہٹ آہٹ نیچے آنے لگتی ہے
جانے کیوں اس وقت گنواوے دن کے اوجھل ہونے کگا
جان کی گہری تہہ میں شور سا اٹھتا ہے
جیسے کوئی دھم سے گر کر پانی میں
ریزہ ریزہ کر دے اپنے سائے کو
(١٣)
میں نے اپنے گردوپیش میں۔۔۔۔
جو کچھ ہوتے دیکھا وہ مصنوعی تھا
اس سے سمجھوتہ کر لینا ایسے تھا جیسے کوئی
دنیا کے بازار میں جا کر
صدیوں کے دکھ کی میراث کو بیچ آئے
سودا کافی مہنگاتھا
سو میں نے جلوت میں رہنا چھوڑ دیا
اب میری اس خلوت میں
مجھ کو یاروں کے بھیجے گلدستے ملتے رہتے ہیں
جن سے اک متناسب خوشبو
سچ اور دنیاداری کی
اُڑ کر مجھ کو
گاہے اِترانے پر، گاہے خود سے رحم جتانے پر
اُکساتی ہے
(١٤)
دن کے زینے سے میں شب کی چھت پر روز اُترتا ہوں
جس کے لیپ میں تنکا تنکا
بکھراؤ سا چھوڑ گئی ہے چاندنی گزے برسوں کی
جس پر سیل جدائی کا
انت منڈیروں پر سے لے کر محرابِ افق تک
ٹھاٹھیں مارتا رہتا ہے
میں بے غفلت غافل سا رہنے والا
اپنی بینائی سے آگے کچھ بھی دیکھ نہیں سکتا
کیسے اِن میرے اوسان پہ ظاہر ہو
کیا ہوتا ہے
روز و شب کے آٹھ پہر سے باہر کے
سناٹے میں
گُمان کا رومان
نہیں! تم اپنے آنسو کو چھپا رکھو
اِسی سے چھِن کے سارے فاصلے،
سب روشنی، پوری ہوا شفاف ہوتی ہے
تناظر ہے ابد آباد کا جس میں
اُجالے کے مصور نے صلیب و دار و نہرِ خشک کا منظر بنایا ہے
زپاتا، چی گویرا اور ماؤ
ہار کر ہارے نہیں ہیں،
یہ پون چکتی پےہ دھاوا بولنے والے
سدا آتے رہیں گے
کیا کیا جائے یہ مشکیزہ پرانا جب سیا جائے
تو بخیوں سے ٹپکتا ہے
خرابی کارِ سوزن کی ہے
یا پھر چرخ پر کاتی ہوئی کرنوں کے دھاگے کی!
کہا جاتا ہے نابینا مغنی کو بشارت ہے
کلا کی روشنی مل جائے گی لیکن
زدِ مضراب سے اُس کو
ہزاروں تار سارنگی کے پہلے توڑنے ہوں گے
الوداع، اے داشتہ!
نکسیر، نیل، چاک گریبان و آستین
کچھ اور (کٹ)
بھنور سابنے رخ پہ کرب کا
لب بستہ چیخ اور ذرا (کٹ) بلند ہو
دہشت سے جیسے آئینہ (کٹ) ٹوٹ کر گرے
اندر کے فرش پر
رشتوں کے مسخ عکس (بہت خوب اس طرح)
تعمیلِ حکم جبر ہو اور ٹھیکرا سی آنکھ
اس سے کہے کہ کون ہو تم، میں تمہیں پہچانتا نہیں
انکار تین بار
بازارِ دشمنان کی شئۓ زر خرید سے
کیا واسطہ مرا
(اقرار پھڑ پھڑائے، پھٹے حرف و لب کے ساتھ)
اور یہ زنِ غلیظ!
عورت مری! نہیں نہیں، تھی داشتہ مری
فوکس۔۔۔۔ کچھ اور، اور صداقت کا ا یک رُخ
کیسا مہیب ہے
دے اے خدا پناہ خدایانِ خاک سے
زندگی جیسی ایک لڑکی
نظر کے بدلتے ہوئے پینترے سے
فنا کر کے
دیتی ہے خیرات بھی پھر سے جینے کی
آدھی شکن کے تبسم سے اک جرعہءِوہم پینے کی
میں اک ستارہ اشارے کے رُخ
اور محراب وعدے کی قبلہ نمائی میں
اس کی طرف منہ کئے
بے نیازی کے معبود کے روبرو ہوں
تمنا کے سو بار ٹوٹے ہوئے تار میں
حرف حرف آیتوں کو پروتے ہوئے
سجدہ جُو ہوں
کہانی ایک پیڑ کی
دیکھ یہ البم ذرا
بیس برس پیشتر، باغ کے اُس پیڑ پر
آئے تھے تجھ کو کبھی اتنے پرندے نظر!
رامشِ صد رنگ کے چھینٹے اُڑاتے ہوئے
اور تجھے یاد ہے!
کتنے مہ و سال تک
جو نہ فروزاں ہوئے ایسے بُجھے چہچہے
روز کفِ شاخ سے
آ کے اُڑاتی رہی بادِ گماں دُور کی
وہ تھے یہاں حکم کی فرمانروائی کے دن
گنتی رہیں تتلیاں گُل سے جدائی کے دن
نغمہِ بے ساختہ گاتی رہیں ہجرتیں
دینا گواہی ذرا
کتنے برس پیڑ نے دیکھے پرندوں کے خواب
دینا گواہی ذرا
قوس نما آنکھ میں کیسے معلق رہی
ایک جھپٹ خوف کی
اور لبِ برگ سے اُڑتی رہی چار سو
لفظِ مکرّر کی بُو
ہوتی رہی شاخ پر تیرے میرے رُوبرو
ایک ہی سرتال میں جھینگروں کی گفتگو
مرگِ یک خواب
وہ بڑا شہر، اتنا بڑا شہر کیوں دیکھتے دیکھتے
منہدم ہو گیا ہے
اور ٹکڑوں میں بے ضرب ہی منقسم ہو گیا
ایک اتنا بڑا خواب آدرش کے عرش سے
گر گیا، اب چنو کرچیاں فرش سے
سائیکی! غالباً ترکِ معمول کے تجربے
ناپ، پیمائشیں، ضابطے اور پابندیاں
تجھ کو بھاتی نہیں
دیکھ! تیرے سخی نام پر
نائیکہ خوش ہے خواجہ سراشاہ کا
قاف کی اس پری کو بٹھا کر لموزین میں لے گیا
اور وہ کس قدر شاد ہے چڑمڑائی ہوئی سی
شکن در شکن
شب کے باسی گلابوں کے بستر سے اٹھتے ہوئے
حسن زرخیز ایسا ہوا
گونگ لی کے تبسم کی لاکھوں میں بولی لگی
سائیکی! تو یہ چاہے ہمیشہ سے جو ہو رہاہے
اسی طور ہوتا رہے
نفس کے آستانوں پہ بیٹھی ہوئی عادتیں، غفلتیں
اور خوش فہمیاں
دھوپ کی اونگھ سے اُون بنتی رہیں
سائیکی! اِس طلب اور رسد، اِس اناؤں کی
نیلام گاہوں کے بازار میں
تو سدا سے رواں، نیم عریاں خراماں خراماں رواں
تجھ سے راجا بھی خوش اور پرجا بھی خوش
اپنی اپنی دکانوں مکانوں میں آنند سے
صبر کی تنکا تنکا چٹائی پہ بیٹھی ہوئی مفلسی
مطمئن ہے کہ شاید کسی شب
ستاروں کی لپٹی ہوئی پرچیوں سے نکل آئے
نادار کے اِسم بے اِسم کی لاٹری
تجھ کو اچھا لگے دیکھنا
اِن ذرا سی اناؤں کی امواج سے
جھاگ اڑتی ہوئی (بیوقوفانہ سی روز کی نرگسےت کی آویزشیں)
اور ہر موج غصے میں ساحل سے مُڑتی ہوئی
تجھ کو اچھا لگے
اپنی آوارگی کے پرانے سبو سے
ذرا ہوش میں آنے والوں میں، بے راہ کرتی ہوئی
مستیاں باٹنا
سرحدیں کھینچنا، بستیاں بانٹنا
سائکی! عام گلیوں کے کچے اندھیرے سے اٹھتے ہوئے
اور پھٹتے ہوئے بلبلے، تو نے دیکھے تو ہیں
کوئی ہم جنس کسبی میاماریا
گندگی کے بڑے ڈھیر سے کوئی ردی اُٹھاتا ہوا اور گاتا ہوا واسکو
کوئی پنجر سے چپکے ہوئے چلبلے ہاتھ سے
پرس، جیبیں، دکانوں کی اشیا اُڑاتا ہوا ویریا
کوئی خود سے خفا راڈ ریگے لہو کی دبی چیخ پر شاد ہوتا ہوا
اور ہر شب بگوٹا کے جاروب کش
پھینک آتے ہیں اِن فالتو اور فاضل تہی ماچسوں کو
غلاظت میں بدلی ہوئی شرم کے ڈھیر پر
کرگس و زاغ کے ڈائننگ ہال میں
اور وہاں پر
سراےےگو، صومالیہ اور فلسطین اپنے لہو میں نہائے ہوئے
مذہب و نسل و تاریخ و جغرافیہ کی کرامات پر دنگ ہیں
بے زمیں اور بے آسماں
صیدِ سوداگراں
یہ رعایا جسے نسل در نسل شاہوں کی تحویل میں
چابکوں، منتروں اور دانائیوں کے خریدہ وسےلے سے
ہانکا گیا
وقت انصاف کرتا تو دیتا اِسے مہلتیں
قصر و اہرام وہیکل اٹھا کر سدا چلتے رہنے کی
بے جرم پاداش سے
وقت انصاف کرتا تو اپنے سخی ہاتھ سے
رسّیوں کی طرح اِن بٹے بازوؤں کی گرہیں کھول کر
اِن سے کہتا کہ لے جاؤ ساری زمیں
ہے تمہاری زمیں
اور اگلے زوالوں کے پنڈال میں
کر رہا ہے مداری تماشا گری
سائیکی! تیرے البم میں آئیں نظربستیاں
ناف تک زرد لاوے میں ڈوبی ہوئی
جنس و زر کی وبا۔۔۔۔
ماس کے دُور اندر جنینوں میں اُتری ہوئی موت کی سونڈیاں
سائیکی! پر تجھے کیا
کہ یہ رقصِ بسمل بھری بستیوں میں ہمیشہ سے تُو
دیکھتی ہی چلی آرہی ہے
پابند شہر کی تین آوارہ لڑکیاں
چلو ہو جائیں کچھ باتیں
اسائیڈ’ تخلیے یا خود کلامی میں
زلیخا’ نائے لویاؤ’ میا میرا
تمہارے ہونٹ کیسے ارغوانی ہیں
مگر سانسوں سے کیسی باس آئے بے خیالی کی
بہت نامطمئن ہو کیا؟
کمانوں پر انا کی تانت ڈھیلی پڑ گئی ہے
انگلیوں میں انگلیاں باندھے
میں اپنے جسم کی گٹھڑی کے میلے پاپ کو گرنے نہیں دیتی
مجھے یہ فاختائی رنگ کا انڈرو یر اچھا نہیں لگتا
مجھے تو نیم عرےانی کی باتیں
گالیاں اور چُست پہناوے
مساموں میں ذرا سی گدگدی کرتے ہوئے’ کولون کی خوشبو
لبوں کی قرمزی رنگت
بدن کے صرف ہو جانے کی راتوں کا تصور اچھا لگتا ہے
مگر یہ حکم کے دربار والے بھی قیامت ہیں
ہوا سے کیا خبر کس روز استعفیٰ طلب کر لیں
گلوں میں رنگ بھرنے کا
زلیخا! تو نے جیسے میرے دل کی بات کہ دی ہے
یہ خبریں’ روز کی خبریں مجھے تو زہر لگتی ہیں
مجھے کےا ان غباروں سے
جو شام ہوتے ہی
گھٹتی پھونک ، بڑھتے ضعف سے لمبوترے ہو جائےں
نامردی کی حالت میں
یہ سارے رہس دھاری ہیں ڈرامے کی مثلث کے
ہماری مائیں کہتی ہیں
وہاں پورب کے امبر سے کوئی اوتار اُترا تھا
چٹانیں بن گئیں تھیں
دودھ دیتی گائیں جس کے لمس کرنے سے
اسی کے شبد کی تاثیر نے
مجھ کو بنا ڈالا ہے گائے بھی گوالن بھی
یہ کیسا روگ ہے ہنسنے میں رونے کا
میں دھرتی ہوں
میں سب بھوکیں بھگت لیتی ہوں
لیکن سانولے ساون کی باہوں میں سمٹ کر پھیلنے کی پیاس
کیسے فرش کے نیچے
مرے آئے ہوئے اعضا مٹائیں گے
کروں کیا حکم کی سرکار
میرے جسم کی مٹی سے ترکاری اُگاتی ہے
میں کیسے چُڑ مڑا کر بھربھری سی ہو گئی ہوں
گرم خانوں میں
اری او نائے لو یاؤ!
ذرا یہ دیکھ! کیسے چوڑیوں جیسے یہ حلقے
نقرئی وِینس کے حلقے ثبت ہیں میری کلائی پر
میں نمفومینیک ہوں
اور لعنت، باہ ہم بگ بھیجتی ہوں
جسم کے کنجوس لوگوں پر
میں گٹھڑی سی بنی ڈرتی ہی رہتی ہوں
یہاں کی سنگساری سے
کسی دن آئے گا اسپِ ہوا پر
شاہزادہ اور بھگا کر ساتھ لے جائے گا مجھ کو
عشرتوں کی راج دھانی میں
ختن کی مشک اور لعلِ یمن کی آبداری سے
تمنا کے شبستان میں
دمشق و قاہرہ، یونان و روما کے پری زادوں کی
سب راتیں
میری غارت گری کی ایک شب میں منعکس ہوں گی
مجھے تم دیکھنا میری ہی آنکھوں سے
میں جب فانوس آویزوں میں، اونچی ہیل پہنے
اپنے ابریشم کے سارے چاک کھولے، کاسنی ساعت میں
نکلوں گی
تو آنکھیں شوق سے باہر نکل آئیں گی آنکھوں سے
کسی دن آب پر چلتے ہوئے تم دیکھنا مجھ کو
ہوائی کے جزیرے میں
میں بے پروائیوں کے سیل میں بہتی ہوئی
صندل کی لعبت ہوں
کبھی گدلاہٹیں پانی کی چکھتی ہوں
کبھی خطِ افق پر شیڈ کی مانند رکھے آسماں کے
لیمپ میں ایام کی تحریر پڑھتی ہوں
کہ اِس وسعت سے میرا واسطہ کیا ہے
زنِ بے حد ہوں
اُمراؤ، بواری اور ہیلن کے قبیلے کی
والیریا کے ساتھ آدھی شام
سینٹ پیٹرز برگ کی اے سرو قد لڑکی!
تیرے انگور ہونٹوں پر
کئی جاگی ہوئی گیلی شبوں کے ڈھیر سے اُٹھتے دھوئیں کی
دُھول ہے
قاف سے اُترے ہوئے پہلے اُجالے کی سنہری کاکلوں کی
چھاؤں میں نیلاب آنکھیں
اور اِن آنکھوں میں سپنے کی خزاں کا آسماں
اُترا ہوا
تیرے ہاتھوں میں ہے می شی ما کی نظموں کی کتاب
تیرے بازو میں کلامی بند’ تیرے پرس میں ویزا’
زرِ وافرکی خواہش جیب میں
کتنے سستے دام میں بیچا گیا ہے
اجنبی ہاتھوں میں اپنی نسلِ رفتہ کے سنہرے خواب کو
ہاں مگر ٹوٹی ہوئی اِن سرحدوں کی دھار سے گرتا لہو
تیرے تعاقب میں رہے گا دیر تک
یوں نہیں’ ایسے نہیں
جانتے ہو! خوف ایسا نجِس ہے’ لگ جائے تو
تبدیل ہو جاتا ہے باطن کھاد میں
اور پھر پورا زمستاں کاٹنا پڑتا ہے تب جا کر کہیں
ادنِیس دوبارہ جنم لیتا ہے اپنی راکھ سے
سب سے پہلے ہم نے پگھلی دھوپ سے
دھو کر نکالا سایہءِابلیس جو بستی پہ تھا
اور بدلا نام اپنے شہر کا
ماں مری اوّل معلم تھی کسی اسکول میں
اپنی راسخ عادتیں ہم کو سکھاتی تھی’
سزا ملتی تھی بائیں ہاتھ سے لکھنے پہ’ ایسی ہی سزاؤں کی فضا میں
مجھ کو اپنی ماں سے نفرت ہو گئی
کس طرح تم دوسری مرضی کے جوئے میں انائیں جوت کر سر سبز رکھ سکتے ہو کشتِ حکم کو
اور کب تک کوئی سن سکتا ہے مریل خواہشوں کی سسکیاں
کیا ہوا گر خاکۂِ تعمیر ہے بدلا ہوا
یہ مگس نر آدمی
شہد کو امرت بنانے میں زیاں کرتا چلا آیا ہے
قصرِ عالیہ کے سود کا
اور بے شک ایک سا، دو مشت کا چھّتہ نہیں ہے زندگی
تا افق پھیلی ہوئی شب میں یہ آتش بازیاں
اور صبحوں کی ہتھیلی پر ذرا سی راکھ کے دھبّے۔۔۔۔
یہی ہے زندگی
اور اسکیٹنگ میں اک پل کے اُچٹتے دھیان میں
پھسلی ہوئی مایر’ گُل صد خواب جیسے برف کی چادر پہ
بکھرا ہو’ یہی ہے زندگی
میں کہ فرحت میں الم بھی ڈھونڈتی ہوں
میں کلیسائی ہوں’ کیا جانوں پرانے قرض کی میعاد
گھٹ سکتی ہے پیسے سے کہ پچھتاوے سے
لیکن اے خدا! لاریب پیسے میں بڑی تسکین ہے
میں کلیسائی ہوں’ آزادی کا حق رکھتی ہوں
باطن اشتمالِ ارض سے باہر کی شے ہے
ارض تو دہلیز ہے
جی کیا تو پاؤں سے جوتے اُتارے اور سیرِ آسماں کو چل دئیے
اور وہ کوئے معیشت بند تھا
بلڈنگیں بے روح تھیں
فیکٹری کے آہنی پھاٹک سے گھر کے آہنی پھاٹک پہ جا کر
ختم ہو جاتی تھیں سڑکیں شہر کی
جن پہ راشن’ وردیاں
انسان شکلوں میں چھپی آنکھوں’ ہدایت کے نوشتوں’
حاجتِ اصلاح کے کتبوں کے بیچوں بیچ
رہتے تھے رواں
مصلحت کے شعبدے کرتے ہوئے
گورکی!
کون تھا یہ گورکی!
ٹالسٹائی تو کتابِ غم کی صرف و نحو کا ماہر تھا’ اب متروک ہے
میرے باطن کی ثقافت میں بلیک اور بودلر
کشفِ علامت سے ملائیں نفس کو آفاق سے
لفظ و معنی اور تمثال و اشارہ بال و پر کھولے ہوئے
اور نیچے آبنائے زندگی پھیلی ہوئی
کون جانے لفظ کے ایجاد گر کا
اس سے آگے بھی کوئی آدرش ہو
اور سچ پوچھو تو سب آدرش مر جاتے ہیں
شاید ٹوٹنا پہچان ہے پہچان
سچے خواب کی
اور سچ پوچھو تو میں اُلجھی’ بہت اُلجھی ہوئی ہوں۔۔۔۔
بنچ پر بیٹھے ہوئے
نرودا اور میں بیٹھے ہوئے ہیں
پانچ دریاؤں کے سنگم پر
ہمارے سامنے اپنے بدن کو توڑ کر
باہر نکلتے رقص میں سپنے کی لڑکی ہے
مہکتی شام جس پر مُٹھیاں بھر بھر کے
شانوں سے پھسلتی چاندنی میں، جگنوؤں کا زر لُٹاتی ہے
بڑی خوشبو، نہایت لمس سے بھیگی حِسوں کی بھیڑ ہے
بستی کے میلے میں
جہاں پر
موم سی رنگت کے اُٹھتے شور کے ریشم پہ
انگشتِ شہادت کے قلم سے گیت لکھا جا رہا ہے
رنگ کے بے رنگ ہونے کا
حناؤں کی معطّر تال پر دف کی طرح بجتی ہوئی
ہر کنپٹی میں ایک ہی آواز لرزاں ہے
کہ ہم اہلِ زمیں۔۔۔۔ زنجیر کی مانند پھیلی سرحدوں کو
نسخ کرتے ہیں
معافی چاہتا ہوں
کیا کروں، عادت جو سپنے دیکھنے کی ہے
نظم باز
تو کیسا ہرجائی ہے
شب بھر نظم کی فرقت جیسی قربت میں
روشنیوں، خوشبوؤں، لفظوں
اور ادھورے پن کی چھوڑی جگہوں کو
وصل مکمل کرنے کی تیاری میں
کچھ جمع کچھ منہا کرتا رہتا ہے
جیتا مرتا رہتا ہے
اور نئے دن کی سڑکوں پر
ایک نویلی محبوبہ کے ساتھ فلرٹنگ کرتے دیکھا جاتا ہے
دیکھو نا!
اور وفا کیا ہوتی ہے
پورا کرتا رہتا ہوں
ایک مکمل مرد کا وعدہ ایک مکمل عورت سے
دل دائم امڈا رہتا ہے کہنے پر
ایک مسلسل نظم کے لکھتے رہنے پر
ایک آنسو، ایک تبسم
مت کہو اِن مہ وشوں کو فاحشہ
یہ تو وہ ہیں جن کے آگے میں ہمیشہ
نیم سجدے میں رہا
میرے سپنوں کو بنفشی شال کی مانند جو بنُتی رہیں
جس کے لمسِ گرم کو کندھوں سے لپٹائے ہوئے
کاٹ لی ہے میں نے یہ سرما کی لمبی رات جیسی زندگی
جن کی آنکھوں کی تپش اور روشنی سے عمر بھر
میرے صحراؤں میں ہریالی رہی
مت کہو اِن مہ وشوں کو فاحشہ
یہ تو وہ ہیں
جو جنم کی قیدِ بے میعاد میں جی رہی ہیں بھید اندر بھید خود اپنے لہو کی بے وفائی کی سزا
سہتے ہوئے
برتر و بالا ہو جو چاہو کہو
میں تو رو دوں فاحشہ کو فاحشہ کہتے ہوئے