خود میں مثال نقشۂ دنیا بٹا رہا

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 19
میں کیا ہوں کیا نہیں ، یہی جھگڑا پڑا رہا
خود میں مثال نقشۂ دنیا بٹا رہا
کرتا بھی کیا کہ آتشِ دل تیز تھی بہت
تا عمر اپنی جان میں پگھلا ہوا رہا
ہر بار خود سے ڈر گیا آئینہ دیکھ کر
میں اپنے آپ میں بھی کوئی دوسرا رہا
اِس گھر سے لمحہ وار نکالا گیا مجھے
یک طرفہ مجھ پہ ہست کا دروازہ وا رہا
شاید کہ زندگی کوئی تمثیل گاہ تھی
ورنہ میں کیوں خود اپنا تماشا بنا رہا
جس کی زباں تھی جس کے اشاروں سے مختلف
میں اُس کے در پہ اپنا پتا پوچھتا رہا
آفتاب اقبال شمیم

تبصرہ کریں