آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 44
عشق میں یہ مجبوری تو ہو جاتی ہے
دنیا غیر ضروری تو ہو جاتی ہے
چہرے کو بےچہرہ کر کے، بدلے میں
چلئے کچھ مشہوری تو ہو جاتی ہے
سچ کہتے ہو، روز کی دنیا داری میں
اپنے آپ سے دوری تو ہو جاتی ہے
جزیہ ہے جو روز کے زندہ رہنے کا
ہم سے وُہ مزدوری تو ہو جاتی ہے
سچ وہ مرشد، جس کی ایک سفارش سے
عرضی کی منظوری تو ہو جاتی ہے
اہلِ جنوں آسودہ ہوں جس مٹی میں
وہ مٹی کستوری تو ہو جاتی ہے
الف انا کے پوری قد میں چلتا ہوں
شرطِ فقیری پوری تو ہو جاتی ہے
آفتاب اقبال شمیم