ٹیگ کے محفوظات: زیر

سفک دم میں میرے اب کیا دیر ہے

دیوان ششم غزل 1878
میں ہوں تو ہے درمیاں شمشیر ہے
سفک دم میں میرے اب کیا دیر ہے
خضر دشت عشق میں مت جا کہ واں
ہر قدم مخدوم خوف شیر ہے
راہ تک تک کر ہوئے ہیں جاں بہ لب
پر وہی اب تک بھی یاں اوسیر ہے
جو گرسنہ دل تھا اس دیدار کا
اپنے جینے ہی سے وہ اب سیر ہے
کچھ نہیں جاں ان کے پیش تار مو
گھر میں شمعی رنگوں کے اندھیر ہے
پاک ہی ہوتی رہی کشتی خلق
ہر زبردست اس جواں کا زیر ہے
طائروں نے گل فشاں کی میری گور
سامنے پھولوں کا گویا ڈھیر ہے
آشنا ڈوبے بہت اس دور میں
گرچہ جامہ یار کا کم گھیر ہے
آنچل اس دامن کا ہاتھ آتا نہیں
میر دریا کا سا اس کا پھیر ہے
میر تقی میر

چھاتی پہ بعد مرگ بھی دل جم ہے زیر خاک

دیوان اول غزل 253
بے چین مجھ کو چاہتا ہر دم ہے زیر خاک
چھاتی پہ بعد مرگ بھی دل جم ہے زیر خاک
آسودگی جو چاہے تو مرنے پہ دل کو رکھ
آشفتگی طبع بہت کم ہے زیرخاک
تنہا تو اپنی گور میں رہنے پہ بعد مرگ
مت اضطراب کریو کہ عالم ہے زیر خاک
مجنوں نہ تھا کہ جس کے تئیں سونپ کر مروں
آشفتگی کا مجھ کو نپٹ غم ہے زیر خاک
رویا تھا نزع میں میں اسے یاد کر بہت
اب تک مری ہر ایک مژہ نم ہے زیر خاک
کیا آسماں پہ کھینچے کوئی میر آپ کو
جانا جہاں سے سب کو مسلم ہے زیر خاک
میر تقی میر

اسی طریق سے اس رات کی سویر کرو

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 11
پلا کے مست کرو، مست کر کے ڈھیر کرو
اسی طریق سے اس رات کی سویر کرو
کمال کار سیاست اسی کو کہتے ہیں
خبر وہی رہے لفظوں کا ہیر پھیر کرو
جریدۂ فنِ شہزادگی میں لکھا ہے
کہ اسپِچوب سے تیغ و سناں کو زیر کرو
جنم جنم سے میں آ آ کے ہار ہار گیا
پتہ نہیں کہ تم آنے میں کتنی دیر کرو
تمہارا جبر وہی اور اپنا صبر وہی
سہار لیں گے، بڑے شوق سے اندھیر کرو
یہ خلق یورشِ زر سے نہ ہار جائے کہیں
اسے بصیرتیں بخشو، اسے دلیر کرو
آفتاب اقبال شمیم