مساوات

خونی و خائن و راشی و شقی ایک ہوئے

اُس کے دربار میں پہنچے تو سبھی نیک ہوئے

خاص لوگوں کے لیے اگلی صفیں ہیں یارب

تیری سرکار میں بھی لوگ کہاں ایک ہوئے

باصر کاظمی

ایک ڈیم فول کو نصیحت

اک پیرِ خرد مندہوا مجھ سے مخاطب:

خوش ہو کہ طبیعت بڑی حساس ہے تیری

سب درد زمانے کے ترے درد بنے ہیں

قسمت سے ملی ہے تجھے یہ نعمتِ گریہ

ہر درد مگر لائقِ گریہ نہیں ہوتا

کر سکتے ہیں روشن بھی ترے کُلبے کو یہ اشک

اور غرق بھی ہو سکتا ہے سب کچھ ترا اِن میں

2010

باصر کاظمی

انکم ٹیکس

انہوں نے پوچھا کہ جو کمایا کدھر سے آیا کدھر گیا وہ

کہا بتائیں گے کیسے آیا مگر نہ پوچھو جدھر گیا وہ

کمائی محنت کی راس آئی کبھی غریبی نہ پاس آئی

بغیر محنت کے جو بھی پایا جدھر سے آیا اُدھر گیا وہ

بہت سمجھتا تھا خود کو شاطِر تمہارا نادان دوست باصِرؔ

ذرا سے اک فائدے کی خاطر بڑا سا نقصان کر گیا وہ

باصر کاظمی

این۔ آر۔ او

ایسا ہی نام تھا کچھ

ہم نے کبھی پڑھا تھا

ہاں یاد آ گیا اب

اور کیسا یاد آیا

وہ بادشاہِ روما

نیرو تھا نام جس کا

تم بھی تو جانتے ہو

نیروجو کر رہا تھا

جب روم جل رہا تھا

دیکھو تو کیسے کیسے قانون ہیں ہمارے

جن کے بنانے والے قارون ہیں ہمارے

(این۔ آر۔ او(National Reconciliation Ordinance): اِس حکم نامے کے تحت حکومتِ پاکستان نے ’ملک اور قوم کے اعلی مفاد‘ میں متعدد خاص لوگوں کے خلاف قائم کردہ مقدمات واپس لے لیے۔یہ مقدمات مختلف سنگین نوعیت کے الزامات،بالخصوص مالی بدعنوانیوں کے الزامات ،کے تحت قائم کیے گئے تھے۔)

باصر کاظمی

اہلِ سیاست

ڈھونڈتے ہیں خلوص ہم کِن میں

ہے غرض اپنی ہی بھری جِن میں

آ گیا کھُل کے سامنے آخر

تھا جو پوشیدہ ان کے باطِن میں

کچھ تو تھے غیر کچھ ہمارے نہیں

فرق اتنا ہے اُن میں اور اِن میں

باصر کاظمی

حفظِ ماتقدم

کہا اک بھیڑ نے کچھ میمنوں سے

مرے پیارو، ہمیشہ ساتھ ریوڑ کے رہو۔

تمہارے دائیں بائیں آگے پیچھے کوئی ہو

جو ڈھال کی صورت محافظ ہو۔

چراگاہوں سے باہر

جگمگاتے راستے تم کو بلائیں گے،

چمکتی لہلہاتی خستہ ہریالی لُبھائے گی،

تمہارے دل کو کھینچے گی۔

تم اپنے پاؤں اپنے ہاتھ میں رکھنا۔

نہ ہونے کو نہ ہو کچھ بھی

مگر ہونے کو ہو سکتا ہے کچھ بھی۔

سنو، ایسے کسی انجان رستے پر،

کسی بے دھیان لمحے میں ،

اچانک بھیڑئے کر دیں اگرحملہ،

دلِ دہشت زدہ میں ایک دہلاتی ہوئی خواہش

بصد حسرت امڈتی ہے،

رگوں میں سنسناتی ہے،

یہ کہتی ہے کہ ہائے!

کاش اُن کتوں کی سُن لیتے

جو دن بھر بھونکتے تھے۔

باصر کاظمی

نجات

یہ صاف دکھائی دے رہا تھا

باندھا تھا کبھی جو عہد، اُس سے

دونوں ہی رہائی چاہتے تھے

بے وجہ لڑائی چاہتے تھے۔

اُس کو بھی بہانہ چاہیے تھا

موقعے کی تلاش میں تھے ہم بھی

دونوں ہی جدائی چاہتے تھے۔

باصر کاظمی

ایک دوست کی حق تلفی پر

گویا کہ جدا سب سے ترا ساز ہے پیارے

اعزاز نہ ملنا بھی تو اعزاز ہے پیارے

ہوتی ہے تری بات نمایاں سرِ محفل

ہر چند کہ دھیمی تری آواز ہے پیارے

ہم جانتے ہیں تیرے ارادوں کو بخوبی

پہچانتے ہیں جو ترا انداز ہے پیارے

تو دوست ہے چپکے سے بتا دیتے ہیں تجھ کو

جو حرف زمانے کے لیے راز ہے پیارے

ہوتے نظر آتے ہیں جہاں راستے مسدود

تیرے لیے اک باب نیا باز ہے پیارے

کچھ آج ہی اونچا نہیں سر فخر سے اپنا

تجھ پر تو ہمیشہ سے ہمیں ناز ہے پیارے

باصر کاظمی

ایک مکالمہ

شاعر: ان کی تنقید سدِ راہِ شوق

ان کی تعریف ایک زریں طوق

بیشتر میرے عہد کے نقاد

بددیانت، بخیل یا بدذوق

نقاد: طبعِ موزوں تو اک عنایت ہے

یہ بتا تیری کیا ریاضت ہے

صِرف تعریف چاہتا ہے تُو

تیرا مقصد حصولِ شہرت ہے

2011

باصر کاظمی

شجر ہونے تک

صبر کرنے کی جو تلقین کیا کرتے تھے

اب یہ لگتا ہے کہ وہ ٹھیک کہا کرتے تھے

رات کو کاٹنا ہوتا ہے سحر ہونے تک

بیج کو چاہیے کچھ وقت شجر ہونے تک

1-3فروری 2009

باصر کاظمی

ہوائے طرب ۔ متفرق اشعار

دیکھتے رہنے پر ہوئے مامور

ہم کبھی اس قدر نہ تھے مجبور

اپنی شہرت بڑھانے کی خاطر

اُس نے ہم کو بھی کر دیا مشہور

دسمبر 2009


ہم دوا سے ٹھیک ہوں گے تیرے دیکھے سے نہیں

کام کرنے سے ہوا کرتے ہیں چاہے سے نہیں

دوستی میں دیکھتے ہیں وہ بس اپنا فائدہ

پھول پھل سے اُن کو دلچسپی ہے پودے سے نہیں

16 دسمبر2010


آج بھی ہم ہی سُرخرو ہوں گے

تیری تلوار ہے ہمارا سر

تجھ سے کرنی ہے اک ضروری بات

عام سی بات ہے، خدا سے ڈر

جنوری2011


جو کان میں رہ گیا سو پتھر

جو ہاتھ میں آگیا وہ ہیرا

26جولائی2011


ہے دوستی کی طرح دشمنی کا اپنا لطف

حریف بن کے ملے ہو تو یار یوں بھی سہی

29جولائی2011


جن مناظر نے خوش کیا تھا کبھی

خواب میں آکے تنگ کرتے ہیں

9اگست 2011


اگر آنسو رُکے تو ابر برسا

یہ بارش میرے پیچھے پڑ گئی ہے

22اگست 2011


آسائشِ دنیا کا سامان کچھ ایسا ہے

چھوڑا بھی نہیں جاتا ڈھویا بھی نہیں جاتا

مانندِ سراب آگے اک شے ہے عجب جس کو

پانا تو ہے ناممکن کھویا بھی نہیں جاتا

17جنوری2012


بِنا علاج بھی جیتے تھے اچھے خاصے ہم

مرض تو کچھ بھی نہ تھا مر گئے دوا سے ہم

6مئی 2012


فائدہ یہ ہے بچھڑنے کا کہ دل میں وہ مرے

ہے حسیں اتنا ہی جتنا کہ بچھڑتے ہوئے تھا

12مئی 2012


دھوپ ہنستی تھی ابھی آنگن میں

آگئے رونے رُلانے والے

31جولائی2012


پھول ہر ڈھنگ کا بہار میں تھا

برگ ہر رنگ کا خزاں میں ہے

12نومبر2012


یہ الگ بات کہ اصنام بھی لے آئے ساتھ

’’پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے‘‘

15فروری2013


یہ بے حسی نہیں اے دوست ضبطِ گریہ نے

ہماری آنکھوں میں اک رہگزار اتار دیا

سفر کیا ہے اک ایسی سواری پر جس نے

سوار ہونے دیا پر اتار اتار دیا 

27فروری2013


رات دن ساغرِ جم دیکھتے ہیں

کس نے دیکھا ہے جو ہم دیکھتے ہیں

کیوں ہے چہرہ ترا اُترا اُترا

آنکھ بھی تھوڑی سی نم دیکھتے ہیں

27جون2013


دوست وہ جو دوستوں کے ہوں فقط سب کے نہیں

وہ جو خوش کرتے ہوں سب کو میرے مطلب کے نہیں

31دسمبر2013 


باصِرؔ خلوصِ دل سے کیا تو ہے ایک عہد

اب یہ دعا کرو کہ نبھانا نصیب ہو


دوستوں کی مہربانی پوچھ لیتے ہیں ہمیں

ورنہ اِس شہرِ غرض میں کون کس کا آشنا


لڑتے کسی اور بات پر ہیں

غصہ کسی اور بات کا ہے


باصِرؔ دعائیں مانگیں تھیں عمرِ دراز کی

افسوس مت کرو کہ جوانی گزر گئی


مختلف ہیں اگرچہ ان کے نام

ملتے جلتے سے ہیں یہ سارے مقام


اُکھڑے اُکھڑے سے ہیں وہ کچھ دن سے

پھر کوئی بات ہو گئی ہو گی

اب انہیں فون کل کریں گے ہم

اب وہاں رات ہو گئی ہو گی

اور مجھے تجھ سے ایک کام بھی ہے

جی بھی کرتا ہے تجھ سے ملنے کو
اور مجھے تجھ سے ایک کام بھی ہے
لطفِ مے سے ہم آشنا ہیں مگر
یہ مضر ہی نہیں حرام بھی ہے
سر بلندی کی آرزو کے ساتھ
دل میں کچھ خوفِ انہدام بھی ہے
باصر کاظمی

جس قیمت پر چاہیے ہم کو اُس قیمت پہ نہیں ملتی

جس کو دوائے دل کہتے ہیں یہ تو نہیں کہ نہیں ملتی
جس قیمت پر چاہیے ہم کو اُس قیمت پہ نہیں ملتی
باور کر لو سچ کہتا ہوں تم سے ملتی ہے اک شکل
آئینہ دیکھو اور بتاؤ ملتی ہے کہ نہیں ملتی
کالے بادل حائل ہو جاتے ہیں ورنہ دھوپ مری
سورج سے تو آ جاتی ہے لیکن چھت پہ نہیں ملتی
عزت چاہتے ہو باصِرؔ تو یاد رکھو میری یہ بات
نیت جب تک ٹھیک نہ ہو جاں دے کر بھی یہ نہیں ملتی
باصر کاظمی

بس یہی ایک سبب ہے کہ جو کم لکھتے ہیں

شعر لکھواتے ہیں جب خود کو تو ہم لکھتے ہیں
بس یہی ایک سبب ہے کہ جو کم لکھتے ہیں
شور کرتا ہے رگ وپے میں سخن اک مدت
تب کہیں جا کے اٹھاتے ہیں قلم لکھتے ہیں
بولتے ہیں کہ عنایت ہے یہ تیری یارب
اور جب تک ہے ترا ہم پہ کرم لکھتے ہیں
باصر کاظمی

باصِر سنوار سکتے نہیں اپنے کام لوگ

جب تک نہ اپنے ہاتھ میں لیں انتظام لوگ
باصِر سنوار سکتے نہیں اپنے کام لوگ
کیا خاص لوگ ہوتے ہیں اور کیسے عام لوگ
اُن کی طرف سے بھاڑ میں جائیں تمام لوگ
یا تو گھٹا دیا اُسے یا پھر بڑھا دیا
کب دے سکے کسی کو بھی اُس کا مقام لوگ
باصر کاظمی

قفس میں ہوتے ہیں آزاد گلستاں میں اسیر

مزاج اپنا غلامی سے یہ بنا ہے کہ ہم
قفس میں ہوتے ہیں آزاد گلستاں میں اسیر
ہدف ہے گرچہ نشانے پہ ایک مدت سے
میں کیا کروں کہ مرا تیر ہے کماں میں اسیر
نہ کر سکا جو فراہم قفس مجھے صیاد
تو کر دیا مجھے میرے ہی آشیاں میں اسیر
رہا تو کر انہیں پھر دیکھ معجزے باصِرؔ
جو قوتیں ہیں تری خاکِ ناتواں میں اسیر
باصر کاظمی

اب شہر میں کم بناتے ہیں

سامان جو ہم بناتے ہیں
اب شہر میں کم بناتے ہیں
ہوتے ہیں لغت میں پتھر لفظ
ہیرا انہیں ہم بناتے ہیں
جو ہاتھ قلم اُٹھاتے تھے
ہیہات وہ بم بناتے ہیں
رکھ دیتے ہیں توڑ کے جو باصِرؔ
ہم کو وہی غم بناتے ہیں
باصر کاظمی

بلندیوں کے امین زینے کو ڈھونڈتا ہوں

عمارتوں میں نہاں دفینے کو ڈھونڈتا ہوں
بلندیوں کے امین زینے کو ڈھونڈتا ہوں
وہ جس کی خاطر ہمارے آبا نے کی تھی ہجرت
میں اپنے شہروں میں اُس مدینے کو ڈھونڈتا ہوں
جو لائے گھر میں مرے گہر ہائے رزقِ طیب
ہمیشہ محنت کے اُس پسینے کو ڈھونڈتا ہوں
دُکھے نہ دشمن کا دل بھی میرے سخن سے باصِرؔ
میں بات کرنے کے اُس قرینے کو ڈھونڈتا ہوں
باصر کاظمی

نقصان ہے نقصان ہے نقصان ہے نقصان

جس راہ پر بھی ہم چلے اُس سے یہی آئی صدا
نقصان ہے نقصان ہے نقصان ہے نقصان
جتنی بلندی دیکھنی تھی دیکھ لی آگے تو بس
ڈھلوان ہے ڈھلوان ہے ڈھلوان ہے ڈھلوان
تقدیر مجبوری نہیں یہ تو کسی بھی چیز کا
امکان ہے امکان ہے امکان ہے امکان
ذوقِ سخن اتنا بڑھا اپنا کہ اب تو ہر طرف
دیوان ہے دیوان ہے دیوان ہے دیوان
گو بادشاہت کا مخالف ہوں مگر ٹیپو مرا
سلطان ہے سلطان ہے سلطان ہے سلطان
باصِرؔ سے ہوتی ہے خطا یہ سوچ کے کر درگذر
نادان ہے نادان ہے نادان ہے نادان
باصر کاظمی

اب تھوڑی سی پِلا کافی

دورِ جام رہا کافی
اب تھوڑی سی پِلا کافی
کچھ خاموشی ہے درکار
دن بھر شور رہا کافی
دل کے دکھ کا مداوا مے
دردِ سر کی دوا کافی
میرا بائی کا بھجن سنا
بلہے شاہ کی گا کافی
مِل گئی دنیا ہی میں ہمیں
باصِر سزا جزا کافی
باصر کاظمی

نہ مل سکیں جو کہیں سے تو خود بنا خبریں

مقابلہ ہے کہ ہیں کس کے پاس کیا خبریں
نہ مل سکیں جو کہیں سے تو خود بنا خبریں
ہے میرے پاس خدا کا دیا ہوا سب کچھ
اگر مرے لیے لانا ہے کچھ تو لا خبریں
سنی سنائی پہ کرتا نہیں یقین کوئی
سنانی چھوڑ مرے دوست اب دکھا خبریں
دیا نہ دھیان کسی نے کھلا نہ در کوئی
نگر نگر لیے پھرتی رہی ہوا خبریں
ہوئی کسی کی توجہ نہ جس عمارت پر
اُسی کے ملبے میں بکھری ہیں جا بجا خبریں
باصر کاظمی

سہل اُس نے ہی کی مری مشکل

آزمانے کو جس نے دی مشکل
سہل اُس نے ہی کی مری مشکل
زندگی تو اِسی طرح سے ہے
کبھی آسان اور کبھی مشکل
میرے معمول کے ملاقاتی
کوئی چھوٹی کوئی بڑی مشکل
جو تمہارے لیے سہولت ہے
وہ ہمارے لیے بنی مشکل
چھوڑ آیا تھا میں جسے پیچھے
سامنے ہے مرے وہی مشکل
یوں تو آرام ہر طرح کا ہے
رات سونے میں کچھ ہوئی مشکل
باصر کاظمی

سن کر نہ رہ سکے ہم للکار قافیے کی

ہر چند رہگزر تھی دشوار قافیے کی
سن کر نہ رہ سکے ہم للکار قافیے کی
دن کا سکون غارت راتوں کی نیند غائب
سر پر لٹک رہی ہے تلوار قافیے کی
ہم اس کو باندھتے کیا جکڑا ہے اس نے ہم کو
اب دیکھتے ہیں صورت ناچار قافیے کی
اِس آس پر کہ شاید ہو جائے تنگ ہم پر
کرتے رہے خوشامد اغیار قافیے کی
تازہ ہوا چلی اور اک لہر دل میں اٹھی
روکے نہ رک سکی پھر یلغار قافیے کی
پایا سراغِ مضموں گاہے ردیف میں بھی
لازم نہ تھی سماجت ہر بار قافیے کی
دشتِ خیال میں پھر کیا کیا کھُلے مناظر
کچھ دیر کو ہٹی تھی دیوار قافیے کی
جب شعر کا سفینہ بحرِ غزل میں ڈولا
اُس وقت کام آئی پتوار قافیے کی
مغرب کی ہو کہانی یا مشرقی روایت
اونچی رہی ہمیشہ دستار قافیے کی
کچھ شعر کام کے بھی اِس میں نکالے ہم نے
وہ کہتے تھے زمیں ہے بیکار قافیے کی
پھر اور کوئی نغمہ بھائے نہ اُس کو باصِرؔ
جو ایک بار سن لے جھنکار قافیے کی
باصر کاظمی

جبکہ ہر بات میں پوشیدہ ہو امکانِ غزل

کیا بیاں کیجیے اب وسعتِ دامانِ غزل
جبکہ ہر بات میں پوشیدہ ہو امکانِ غزل
آپ ہم لاکھ بگاڑا کریں اس کی صورت
کوئی قوت ہے پُراسرار نگہبانِ غزل
قطب تھا اُن میں کوئی اور ولی تھا کوئی
دیکھنے میں تو وہ تھے محض ثنا خوانِ غزل
چاہیے شعر کو اب بھی وہی سودا وہی درد
توسنِ طبع وہی اور وہی میدانِ غزل
میرِ محفل تھا وہ ملتی نہیں کچھ اُس کی نظیر
اُس کے دم سے ہوا بھرپور گلستانِ غزل
آتشِ عشق نے دی جرأتِ اظہار مجھے
شجرِ غم کا ثمر ہے مرا دیوانِ غزل
کام گو بند نہیں کوئی بھی غالب کے بغیر
نام سے اُس کے ہی روشن ہے خیابانِ غزل
ناسخ و ذوق و ظفر، مومن و حالی و امیر
ان کے پھولوں سے مہکتا ہے گلستانِ غزل
راہ شاعر کو دکھاتا ہے وہی داغِ فراق
آج بھی ہجر کا سامان ہے سامانِ غزل
سفرِ فکر میں اقبال رہا میرا انیس
اُس نے سیراب کیا میرا بیابانِ غزل
لخت ہائے جگرِ وحشی کو معمولی نہ جان
کوئی یاقوتِ غزل ہے کوئی مرجانِ غزل
عمر بھر ہم کو وفا پیشہ اُسی نے رکھا
ہم نے باندھا تھا لڑکپن میں جو پیمانِ غزل
فیض پایا ہے کئی چشموں سے یوں تو باصِرؔ
مدرسہ میرا ہے ناصِر کا دبستانِ غزل
باصر کاظمی

گولیاں چل رہی ہیں تڑ تڑ تڑ

جل رہے ہیں مکان دھڑ دھڑ دھڑ
گولیاں چل رہی ہیں تڑ تڑ تڑ
شاخِ زیتون جس کے ہاتھ میں ہے
اصل میں ہے وہی فساد کی جڑ
چند چھینٹے پڑے تھے بارش کے
شہر میں ہر طرف ہوا کیچڑ
دیکھتے ہی اُسے، ہوا محسوس
مجھ سے پھر ہو گئی کہیں گڑبڑ
آزمائش میں آ گئے باصِرؔ
پھر کسی بات کی ہوئی ہے پکڑ
باصر کاظمی

کہا انہوں نے کہ ہو تم تو کام سے فارغ

ہوا میں جونہی دعا و سلام سے فارغ
کہا انہوں نے کہ ہو تم تو کام سے فارغ
قضا کو سونپ کے بستی کے انتظامی امور
جو منتظم تھے ہوئے انتظام سے فارغ
تھے منتظر مرے دو اور بھی ضروری کام
ہوا نہ تھا میں ابھی ایک کام سے فارغ
وہ جن کو ہونا تھا رخصت بڑی خموشی سے
کیے گئے ہیں بڑی دھوم دھام سے فارغ
کہانی قیس کی سننے سے پہلے وہ بولے
مجھے تو لگتا ہے یہ شخص نام سے فارغ
مرے لیے کوئی مصروفیت نہیں باقی
کیا گیا ہوں کچھ اِس اہتمام سے فارغ
باصر کاظمی

کیا نہ اُس نے مرا انتطار ایک منٹ

ہزار کہتا رہا میں کہ یار ایک منٹ
کیا نہ اُس نے مرا انتطار ایک منٹ
میں جانتا ہوں کہ ہے یہ خمار ایک منٹ
اِدھر بھی آئی تھی موجِ بہار ایک منٹ
پتا چلے کہ ہمیں کون کون چھوڑ گیا
ذرا چھٹے تو یہ گرد و غبار ایک منٹ
ابد تلک ہوئے ہم اُس کے وسوسوں کے اسیر
کیا تھا جس پہ کبھی اعتبار ایک منٹ
اگرچہ کچھ نہیں اوقات ایک ہفتے کی
جو سوچئے تو ہیں یہ دس ہزار ایک منٹ
پھر آج کام سے تاخیر ہو گئی باصِرؔ
کسی نے ہم سے کہا بار بار ایک منٹ
باصر کاظمی

اب چلے دورِ جام آٹھ سے پانچ

کر لیا دن میں کام آٹھ سے پانچ
اب چلے دورِ جام آٹھ سے پانچ
چاند ہے اور آسمان ہے صاف
رہیے بالائے بام آٹھ سے پانچ
اب تو ہم بن گئے ہیں ایک مشین
اب ہمارا ہے نام آٹھ سے پانچ
شعر کیا شاعری کے بارے میں
سوچنا بھی حرام آٹھ سے پانچ
کچھ خریدیں تو بھاو پانچ کے آٹھ
اور بیچیں تو دام آٹھ سے پانچ
وہ ملے بھی تو بس یہ پوچھیں گے
کچھ ملا کام وام آٹھ سے پانچ
صحبتِ اہلِ ذوق ہے باصِرؔ
اب سناؤ کلام آٹھ سے پانچ
باصر کاظمی

ہے دستورِ زمانہ بادشاہت

رواج و رسمِ دنیا بادشاہت
ہے دستورِ زمانہ بادشاہت
کہو کیا چاہیے؟ پوچھا گیا جب
کہا سب نے کہ آقا بادشاہت
چھپانے کے لیے کچھ، گاہے گاہے
دکھاتی ہے تماشا بادشاہت
اگر محکوم ہی رہنا تھا ہم کو
تو کیا جمہوریت کیا بادشاہت
بہت بھاگے تھے باصِرؔ آمروں سے
ملی دنیا میں ہر جا بادشاہت
باصر کاظمی

بختِ خوابیدہ غنیمت ہے کہ بیدار ہوں میں

گو بیاباں میں ہوں اور بے بس و بے یار ہوں میں
بختِ خوابیدہ غنیمت ہے کہ بیدار ہوں میں
شانِ مصروفیت آوارگی میں بھی تھی کچھ
گھر میں ہر چند کہ مصروف ہوں بیکار ہوں میں
اُسی طوفان کی اک لہر مری ناؤ بنی
تم اُدھر ڈھونڈ رہے ہو مجھے اِس پار ہوں میں
مٹ گئے سینکڑوں اقرار حمایت کے تری
آج بھی گونج رہا ہے جو وہ انکار ہوں میں
میرے بارے میں کبھی فرض نہ کر لینا کچھ
سرِ تسلیم کبھی ہوں کبھی تلوار ہوں میں
باصر کاظمی

اپنی بات کرو گے

جب بھی بات کرو گے
اپنی بات کرو گے
آج تو میں سمجھا تھا
میری بات کرو گے
مجھ کو پتا ہے اب تم
کس کی بات کرو گے
جیسی صحبت ہو گی
ویسی بات کرو گے
جب بولو گے باصِرؔ
الٹی بات کرو گے
باصر کاظمی

خون جتنا بھی رگوں میں ہو وہ ایندھن بن جائے

آتشِ شوق سے جب دل کوئی گلخن بن جائے
خون جتنا بھی رگوں میں ہو وہ ایندھن بن جائے
مل گیا ہے تمہیں قسمت سے جو سونا سا خیال
دل میں رکھو اسے جب تک نہ یہ کندن بن جائے
درگزر کرنا جفاؤں کو تری میرے لیے
سہل ہو جائے جو تو دوست سے دشمن بن جائے
ہو عنایت مجھے وہ تیز تخیل یارب
جس سے زندان کی دیوار میں روزن بن جائے
خوب ہیں پھول جو دو چار کھِلے ہیں باصِرؔ
چار چھ اور بھی ایسے ہوں تو گلشن بن جائے
باصر کاظمی

کسی گنتی کسی شمار میں تھے

گو کہ پیچھے بہت قطار میں تھے
کسی گنتی کسی شمار میں تھے
سو بلاؤں سے ہم رہے محفوظ
اک پُراسرار سے حصار میں تھے
خوش ہوا ہوں غموں سے مل کے یوں
جیسے یہ میرے انتظار میں تھے
تین میں ہیں نہ اب وہ تیرہ میں
جو کبھی پہلے تین چار میں تھے
اب وہ سارے خزاں میں ہیں باصِرؔ
رنگ جتنے کبھی بہار میں تھے
باصر کاظمی

ٹھیک رکھتے ہیں جو حساب کتاب

اُن پہ لاتی نہیں عذاب کتاب
ٹھیک رکھتے ہیں جو حساب کتاب
کبھی سورج کی آب و تاب کتاب
ہے کبھی سایہء سحاب کتاب
لکھ رہا ہوں میں آجکل واعظ
تیری تقریر کا جواب کتاب
آپ ہی نے تو کی تھی فرمائش
لیجیے پیش ہے جناب کتاب
ہم سے باصِرؔ کبھی پڑھی نہ گئی
جو ہوئی شاملِ نصاب کتاب
باصر کاظمی

دیوارِ تعصب میں کہاں ہونی تھی جنبش

کرتے رہے کر سکتے تھے ہم جتنی بھی کوشش
دیوارِ تعصب میں کہاں ہونی تھی جنبش
زنداں کی سلاخوں سی ہیں پانی کی یہ تاریں
صیاد سے کچھ کم نہیں ہر وقت کی بارش
لازم نہیں پیدل چلوں یا دوڑ لگاؤں
ہیں گھر کے مرے کام ہی اچھی بھلی ورزش
مانا کہ علاج اس کے سوا کچھ نہیں لیکن
کیا دل کے بدلنے سے بدل جائے گی خواہش
کوتاہیاں اپنی تو دکھائی نہیں دیتیں
ہر بات میں آتی ہے نظر غیر کی سازش
کچھ سنگِ گراں مایہ ہمیں بھی ملے باصِرؔ
سچ ہے کہ اکارت نہیں جاتی کوئی کاوش
باصر کاظمی

روزی ہے تیرے رزق میں اس کے نصیب کی

منعم نہ ہاتھ کھینچ مدد سے غریب کی
روزی ہے تیرے رزق میں اس کے نصیب کی
حیران کن تھی چُپ بھی تمہاری مرے لیے
بولے ہو اب تو بات بھی تم نے عجیب کی
سامانِ عیش دیکھ کے بزمِ نشاط میں
رہتی ہے یاد کس کو نصیحت طبیب کی
کب تک کرو گے اہلِ سیاست پہ اعتبار
یارو کبھی سنو کسی شاعر ادیب کی
ہو جن کی سب توجہ سمندر کے اُس طرف
اُن کو صدا سنائی نہ دے گی قریب کی
سینہ بہ سینہ کرتی ہے یہ ہر طرف سفر
حق بات کو نہیں ہے ضرورت نقیب کی
باصِرؔ بلا مقابلہ وہ منتخب ہوا
میری شکستہ پائی ہے محسن رقیب کی
باصر کاظمی

دوستو آگے چڑھائی ہے بہت

تم نے گو ہمت دلائی ہے بہت
دوستو آگے چڑھائی ہے بہت
کہہ رہی ہے آج بھی نہرِ فرات
ساتھ ہو تو ایک بھائی ہے بہت
روز اک تازہ امید اک تازہ رنج
ہم کو غربت راس آئی ہے بہت
اے خرد اب کچھ مرے دل کی بھی سوچ
اِس نے بھی آفت مچائی ہے بہت
بیٹھتا ہے شیخ کب رندوں کے پاس
اُس کو زعمِ پارسائی ہے بہت
دیس کی کایا پلٹنے کے لیے
ذوق ہو تو اک دہائی ہے بہت
باصر کاظمی

کیا عجب نکلے جو پانی کی جگہ خاک سے خون

گر برستا ہی رہا اِس طرح افلاک سے خون
کیا عجب نکلے جو پانی کی جگہ خاک سے خون
میرے زخموں کو میسر نہیں مرہم پٹی
پونچھتا رہتا ہوں بس اپنی ہی پوشاک سے خون
جیسے دریا سے نکلتی ہوں بہت سی نہریں
ایسے بہتا ہے مرے دامنِ صد چاک سے خون
کیا ہوا ہے مرے اندر کہ ہوا ہے جاری
میری آنکھوں سے مرے منہ سے مری ناک سے خون
اتنا تڑپی ہے یہ مے خواروں کی محرومی پر
مے نہیں آج ٹپکتا ہے رگِ تاک سے خون
پھر شبِ ہجر مرے شہر پہ ہے سایہ فگن
آج پھر چاہیے اِس کو کسی بے باک سے خون
باصر کاظمی

پیچھا نہ اس کے بعد بھی چھوڑیں گے دور تک

اعمالِ کج کریں گے تعاقب قبور تک
پیچھا نہ اس کے بعد بھی چھوڑیں گے دور تک
کچھ اور جاگ لینے دے اے شامِ زندگی
سونا ہے اس کے بعد تو صبحِ نشور تک
اپنا وہی سوال تھا اُس کا وہی جواب
کیا کیا نہ کوہ دیکھے ہمالہ سے طور تک
گذرے گا کیسے کیسے مدارج سے کیا خبر
لمبا سفر ہے خاک کے ذرے کا نور تک
غافل ہیں اِس قدر کہ گذرتا ہے یہ گمان
ہم کو جگا نہ پائے گی آوازِ صور تک
باصِرؔ کہاں ہیں روز کے وہ ہمسفر مرے
خالی پڑی ہوئی ہے سڑک دور دور تک
باصر کاظمی

اِس میں لگ جائے گا جگر پورا

چاہتے ہو اگر ہنر پورا
اِس میں لگ جائے گا جگر پورا
یا تو ہو جائیں اِس میں پورے غرق
یا کریں عشق سے حذر پورا
جانتا ہوں کہ خیر خواہ ترے
تجھ کو رکھتے ہیں باخبر پورا
مشورہ اُس مشیر سے مت کر
ہو جو آدھا اِدھر اُدھر پورا
پھول خوشبو سے بھر گئے باصِرؔ
چاند چمکا ہے رات بھر پورا
باصر کاظمی

ہم بھی کب اپنا بھلا سوچتے ہیں

کیا جو اغیار برا سوچتے ہیں
ہم بھی کب اپنا بھلا سوچتے ہیں
سوچتے ہیں کہ نہ سوچیں گے کچھ
سوچتے بھی ہیں تو کیا سوچتے ہیں
سوچتا ہوں کہ مرے بارے میں
وہ نہیں سوچتے یا سوچتے ہیں
زندگی گزری بنا کچھ سوچے
ہے یہ اب اس کی سزا سوچتے ہیں
میں دعا دیتا ہوں اُن کو باصِرؔ
جو مرے دکھ کی دوا سوچتے ہیں
باصر کاظمی

دیکھو جو ہوئے لوگوں کے نقصان مری جان

اک دل کے زیاں پر ہو پریشان مری جان
دیکھو جو ہوئے لوگوں کے نقصان مری جان
جانا کہ یہی ہوں گے مری جان کے درپے
کہتے نہیں تھکتے جو مری جان مری جان
جنت پہ اگر حق ہے تو بس تیرا ہے واعظ
اپنا تو کوئی دین نہ ایمان مری جان
اک عمر گزاری اسے آنکھوں سے لگاتے
اب کھول کے بھی دیکھ لو قرآن مری جان
اوروں کی شکایت جو کیا کرتے ہو باصِرؔ
کچھ آپ ہی بن جاؤ جو انسان مری جان
باصر کاظمی

گر مے پہ ہے پابندی کچھ اُس کا بدل آئے

معمول میں رندوں کے ساقی نہ خلل آئے
گر مے پہ ہے پابندی کچھ اُس کا بدل آئے
مایوس نہیں کرتا میں تجھ کو مگر اے دل
جو آج نہیں آیا مشکل ہے وہ کل آئے
چاہا بھی کہ ہو جائیں کچھ اہلِ ہوس جیسے
پر جو اُنہیں آتے ہیں ہم کو نہ وہ چھل آئے
شاید یہی بہتر ہے ہو جائیں ہمیں سیدھے
قبل اِس کے کہ ماتھے پر اُس شوخ کے بَل آئے
تم دیکھ تو لو آ کر بیمار کو اپنے، پھر
چاہے یہ شفا پائے یا اِس کی اجل آئے
باصر کاظمی

شاطِر ہے تو اگر تو اب چل کوئی چال مختلف

کرنا ہے گر مجھے شکار لا کوئی جال مختلف
شاطِر ہے تو اگر تو اب چل کوئی چال مختلف
تیرے یہ سارے شعبدے میرے لیے نہیں نئے
کر کے دکھا کبھی مجھے کوئی کمال مختلف
لگتے ہیں یہ جو کامیاب ہیں جیسے آب پر حباب
پیشِ نگہ انہیں نہ رکھ ڈھونڈ مثال مختلف
جن کو ملیں بلندیاں دیکھیں اُنہوں نے پستیاں
ہوتی ہے ہر دفعہ مگر وجہِ زوال مختلف
تو نے کہی سُنی سُنائی مجھ سے سُنی سُنائی سُن
چاہے اگر نئے جواب پوچھ سوال مختلف
میری بہار اور خزاں میرے لہو میں ہے نہاں
مریخ و ارض سے مرے ہیں ماہ و سال مختلف
ایسی چلی دمِ سحر شام تلک کیا نہال
بادِ صبا سے تھی بہت موجِ خیال مختلف
باصر کاظمی

اظہار کچھ ہوا بھی تو ابہام رہ گئے

ہم کامیاب ہو کے بھی ناکام رہ گئے
اظہار کچھ ہوا بھی تو ابہام رہ گئے
آزاد ہو کے جونہی کھُلے میرے بال و پر
مجھ پر کھُلا کہ پاؤں تہِ دام رہ گئے
میں دے سکا نہ ان کو کسی تجربے کی آنچ
افسوس کچھ خیال مرے خام رہ گئے
کرتی رہی زباں مری بے دست و پا مجھے
باتوں میں عمر بیت گئی کام رہ گئے
میں راہ دیکھتا رہا یاروں کی صبح تک
باصِرؔ بھرے بھرائے مرے جام رہ گئے
باصر کاظمی

ہم ہی کریں گے اُن سے کسی روز جا کے بات

بیٹھے رہیں گے وہ تو ہمیشہ دبا کے بات
ہم ہی کریں گے اُن سے کسی روز جا کے بات
کچھ بھی نکال سکتے ہیں مطلب وہ بات کا
کرتا ہوں اِس لیے میں بہت بچ بچا کے بات
پیچیدہ ہو گئے ہیں ہمارے تعلقات
کرنی پڑی ہے مجھ کو گھما کے پھرا کے بات
اک ہم کہ لے کے بیٹھ گئے ایک لفظ کو
اک وہ کہ چل دیے جو ہنسی میں اُڑا کے بات
کہتا ہوں دل کی بات گھٹا کر رقیب سے
کرتا ہے وہ جو آگے بڑھا کے چڑھا کے بات
وہ جو بنی ہوئی ہے رکاوٹ سی درمیاں
ملنا ہو اب ہمیں تو ملیں وہ ہٹا کے بات
مطلوب واعظوں کو ہیں شاید ہمارے اشک
ہنسنے کی بھی وہ کرتے ہیں اکثر رُلا کے بات
باصِرؔ بیانِ سادہ کو پایا ہے بے اثر
کیجے ذرا سنوار کے قدرے بنا کے بات
باصر کاظمی

گھر کا ہر فرد چل دیا باہر

ایک دروازہ کیا کھُلا باہر
گھر کا ہر فرد چل دیا باہر
دیکھ یخ بستہ ہے ہوا باہر
اِس طرح ایک دم نہ جا باہر
چل دیے یوں صنم کدے سے ہم
جیسے مل جائے گا خدا باہر
ایک تجھ سے رہے ہمیشہ دور
ورنہ کیا کچھ نہیں ملا باہر
گھر میں آ کر سکوں ملا باصِرؔ
کس قدر تیز تھی ہوا باہر
باصر کاظمی

ارادہ حمد کہنے کا تھا

لفظِ حمد لکھا۔

خیال آیا کہ اس سے پہلے

حرفِ میم یا حرفِ الف لکھ دوں

تو اُس کا نام بن جائے

وہ جس کا نام لینا اک عبادت ہے۔

محمدؐ لکھ دیا ہم نے تو گویا حمد بھی کہہ دی،

پڑھیں تو چشم ودل شاداں

لکھیں تو انگلیاں نازاں

محمدؐ سے زیادہ خوبصورت نام کس کا ہے؟

باصر کاظمی

متفرق اشعار

1997

سُورج کا یہ رنگ نہ تھا جو وقتِ شام ہُوا ہے

دیکھو کیسا سَرکش گھوڑا کیسا رام ہُوا ہے

اِنصاف اگر کہیں ہے کچھ

جنّت کا نشاں وہیں ہے کچھ

آ جائیں گے دیکھنے تمہیں ہم

کہنا تو ہمیں نہیں ہے کچھ

ستمبر

حاضری کے واسطے سرکار کا دفتر کھُلا

کتنے چکّر کاٹنے کے بعد یہ چکّر کھُلا

دسمبر

2000

سب حسینوں کا حُسن تجھ میں ہے

اور تِرا حُسن سب حسینوں میں

12 ۱کتوبر

2001

جو منافع نہ مِل سکا باصِرؔ

اُس کو نقصان کیوں سمجھتے ہو

3دسمبر

2003

کھُلتے ہی نہیں کسی صورت

وہ ہونٹ بھی سُرخ فیتے ہیں

ہیں سارے کے سارے آدم خور

شہروں میں جو شیر چیتے ہیں

جنوری

یوں بھی کم تھی اُس کے آنے کی اُمید

اب تو ویسے بھی اندھیرا ہو گیا

28جنوری

نقصان پر جو میرے افسوس کر رہے ہیں

میں جانتا ہوں کتنا اندر سے خوش ہوئے ہیں

9مارچ

نیند میں بھی بھٹک نہیں سکتا

روز کا راستہ ہے یہ میرا

3اپریل

جس نے ماں باپ کو دیا ہو دُکھ

اُس نے اولاد سے نہ پایا سُکھ

4دسمبر

2004

گئے خط بے اثر سارے

اُسے بھیجوں گا اب سی وی

4اپریل

نکل گیا ہے مِری زندگی سے وہ شاید

کئی دنوں سے مِرے خواب میں نہیں آیا

10جون

وہاں جانے سے کیا ڈرنا

جہاں سب جائیں گے اک دن

غلط سمجھے ہیں جو ہم کو

بہت پچھتائیں گے اک دن

13جولائی

جن دنوں روتا تھا تیری یاد میں

رو رہا ہوں اُن دنوں کی یاد میں

3ستمبر

2005

کیا مشورہ کوئی دے اب ایسے آدمی کو

جانے دیا ہو جس نے گھر آئی لکشمی کو

10جولائی

اب آ کے دیکھتے ہیں شجر ہیں وہ سایہ دار

جاتے ہوئے جو بیج یہاں بو گئے تھے ہم

19ستمبر

شفا ہوتی دوا سے معجزہ ایسا تو کیا ہوتا

مگر بیمار کچھ دِن اور جی لیتا تو کیا ہوتا

ابھی اُس کے نہ مِلنے پر عداوت ہے زمانے کو

کسی تدبیر سے وہ ہم کو مِل جاتا تو کیا ہوتا

دسمبر

ہے اِتنا کچھ جہاں دل میں ہمارے ناخداؤں کے

خیالِ خلق بھی ہوتا اگر خوفِ خدا ہوتا

دسمبر

اب آ کے دیکھتے ہیں شجر ہیں وہ سایہ دار

جاتے ہوئے جو بیج یہاں بو گئے تھے ہم

19دسمبر

2006

کسی سبب سے جو وہ دے سکیں نہ میرا ساتھ

نہیں ہے اِس میں بُرا ماننے کی کوئی بات

سلوک اُس کا ترے ساتھ ٹھیک ہے باصِرؔ

کوئی تو ہو جو بتائے تجھے تِری اوقات

16فروری

گزر گئی ہے اِسی کاہلی میں عُمر تمام

یہ سوچتے رہے بس اب کریں گے کل سے کام

یہ سوچ کر کہ مِلے گا ضرور اب کے جواب

نجانے لِکھّے ہیں خط کتنی بار اپنے نام

نومبر

گو شاعری پڑھنے کا اُسے شوق بہت ہے

کیا کیجیے اِس کا کہ وہ بدذوق بہت ہے

دسمبر

ایک دشمن کی کمی تھی باصِرؔ

وہ بھی اِک دوست نے پوری کر دی

8دسمبر

2007

جب چاہیے ہو ملتی ہے تازہ ہَوا مجھے

شاید کبھی لگی تھی کسی کی دعا مجھے

5جولائی

باصر کاظمی

قالین باف ۔ محمد اطہر طاہر

Carpet-Weaver

M۔ Athar Tahir

اُن عمارتوں کے درمیان جو بھکاری عورتوں کی طرح

روشنی کے لیے ایک دوسرے کی حریف تھیں

میرا خیال ہے کہ میں راہ بھول کر

جب ایک کُنجِ عزلت میں پہنچا تو اُس سے دوچار ہوا۔

وہ گٹھری بنا ہوا تھا، عمارت کے اندر، اندھیرے کی روشنی میں

اُس کی انگلیاں ، اُون کے کام کے باعث بے حِس،

پرانی کام چلاؤ مشین پر مشقّت کرتی ہیں

چوہے کی سی مختصر تیز رفتار سے

جبکہ یہ اپنی روزی کماتا ہے

فی مربع انچ گِرہوں کے حساب سے

محض مؤذن کی اذان کے فاصلے پر

عظیم بزرگ کے مزار پر

پیشہ ور مانگنے والے

اپنے دھات کے کشکول کھانا لینے کے لیے بڑھاتے ہیں

بے شمار خدا کے پیارے

چاولوں کی دیگیں اور پھولوں کے ہار لے کر

اس سبز گنبد والے ولی کا شکریہ ادا کرنے آتے ہیں ۔

سفارشیں یہاں بھی چلتی ہیں ۔

باصر کاظمی

ناصر کاظمی کے گھر کے لیے ایک دعائے خیر ۔ سائمن فلیچر

A Prayer for the well-being of Nasir Kazmi’s House

Simon Fletcher

’’پیڑ لگانے والا شخص

بیشتر اوقات اس کا پھل کھانے کے لیے زندہ نہیں رہتا‘‘

سفید کبوتر اسی طرح جمع رہیں

چھت پر ناصر کاظمی کے گھر

پتنگ، زعفرانی، چمک دار نیلے،

اُڑتے رہیں اوپر ناصر کاظمی کے گھر

ارغوانی گلاب، پودے، درخت

پھلیں پھولیں ناصر کاظمی کے گھر

سورج چمکے،بارشیں اپنے موسم میں

برستی رہیں ناصر کاظمی کے گھر

۱ہلِ خانہ، حلیم، عالِم

لمبی عمر پائیں ناصر کاظمی کے گھر

باصر کاظمی

ہمدردی کا ایک ننھا سا پُل ۔ سائمن فلیچر

‘A Little Bridge of Sympathy’

Simon Fletcher

(For Basir Sultan Kazmi)

ہم باہمی معاملات پر بات کرتے ہیں ،

جبکہ گفتگو چوکڑیاں بھرتی ہے

مثلِ غزال کمرے میں اور

فرازہ کھانا پکاتی ہے اور وجیہہ

’ریڈرز آف دی لوسٹ آرک( خزانوں کے متلاشی)‘ دیکھتی ہے،

ہماری بات چیت سے اُدھر، دوسرے کمرے میں ۔

تمہارے مرحوم والد، عظیم گفتگو کرنے والے،

لاہور کی گلیوں میں گھومتے ہیں

تمہارے ذہن میں ، اپنے صاف گو دوستوں کے ہمراہ

رات کے پچھلے پہر؛

تمہارے دادا، کلف لگے ہوئے فوجی لباس میں

سُرخی مائل بھوری تصویر میں نظر آتے ہیں ۔

میں تمہیں بتاتا ہوں کھیتوں میں کام کرنا

اپنے والد کے ساتھ، فصل کاٹنا،

پھل توڑنا، ہل چلانے کی مشقّت، جبکہ

میرے دادا چائے پیتے ہیں

ایک خاص سیاست دان کے ساتھ؛ یہ سب کچھ

حافظے کے محدّب عدسے میں سے گزر کر آتا ہے۔

اپنے ’گمشدہ خزانوں ‘ کے متلاشی، ہم

کئی برسوں اور زبانوں کو عبور کر کے پہنچتے ہیں

ہمدردی کے پل بنانے۔

ماضی ایک دوسرا مُلک ہے،

بے شک، اور جو کچھ ہم نے وہاں کیا؛

لیکن اصل بات وہ ہے جو ہم دونوں اب کرتے ہیں ۔

باصر کاظمی

بے ملاوٹ پیغام ۔ سائمن فلیچر

Unmixed Message

Simon Fletcher

(For Basir and Debjani)

سو ہم کیا کہنے کی کوشش کر رہے ہیں ؟

زمین گھومتی ہے اور کچھ لوگ فائدہ اُٹھاتے ہیں ،

دوسروں کی ترجیح ہے پھُوٹ ڈالنا اور حکمرانی کرنا،

ایک مؤثر منصوبہ جو ہم نے سکول میں سیکھا۔

اِس کا نتیجہ، ہمیں پتا ہے، بے حالی

قحط، خشک سالی اور جنگ اور موت۔

سو ہم مسترد کرتے ہیں اِن جنگجو احمقوں کو

اِن کے دوستوں اورساتھیوں ،پٹھوؤں ،آلۂ کاروں کو،

اور حمایت کرتے ہیں پکنکوں ، پارٹیوں ، کھیلوں کی،

جہاں ہر کوئی حصّہ لے سکتا ہے

اورمحسوس نہیں کرتا خود کو گُونگا اور نظرانداز کیا گیا،

پیغام واضح ہے، پیچیدہ نہیں ۔

باصر کاظمی

ثقافتی مسالا ۔ سائمن فلیچر

سو یہ کیسے ہوا، ہم کیسے مِلے؟

سرائے میں نہیں ، نہ ہی گلی میں ،

مگر ہمارے اندر کی کسی چیز نے ہمیں اکٹھا کیا

تاکہ ہم اپنی محبتوں کے نغمے گائیں ہر موسم میں ۔

مذہب، زبان،مشغلے اور تذکیر تانیث

شاعری نے آمیخت کیے،جیسے کسی بلینڈر میں ۔

لاہورکی نایاب بوٹیاں ؛ خوش ذائقہ، تُرش؛

دہلی کے لذیذ مسالے،جن سے کوئی زبان نہ جلے۔

اور پکوان کو چٹ پٹا بنانے کے لیے،کھانے کا دَور مکمل کرنے کے لیے،

ایک پرانا انگریزی چٹخارہ، وُرسٹرشائرکی چٹنی!

باصر کاظمی

جراحتِ دل ۔ سائمن فلیچر

لگے ہیں اِس میں کئی سال اعتراف کروں

نیا بنا دیا تُو نے مِرا دلِ شاعر

مِرا خیال تھا لکھتا ہوں میں ہنر سے مگر

میں جانتا نہ تھا ہوتا ہے کیا دلِ شاعر

جگا کے مجھ کو مِرے خوابِ سبز سے تُو نے

گَلے سے اپنے لگایا مِرا دلِ شاعر

مجھے دکھائی نہ دیتی تھی رہ جو لے جاتی

مقامِ اوج پہ مجھ کو جو تھا دلِ شاعر

میں چل رہا تھا بہت مطمئن، مگر نادان

اِسی گماں میں کہ پہلو میں تھا دلِ شاعر

تجھے خبر تھی کہ رستہ کٹھن تھا، ناہموار

تھکائے دیتا تھا مجھ کو ترا دلِ شاعر

ہوا خنک ہوئی سیکھا نیا ہنر باصِر

سو یہ ہے ایک تشکّر بھرا دلِ شاعر

باصر کاظمی

میرے دوست: باصِر اور سائمن دیبجانی چیٹرجی

دو یار زِیرک و از بادہء کہن دو منے

فراغتے و کتابے و گوشہء چمنے

شمس الدین محمد حافظ

حافِظ، تجھے تھی بادہء عمدہ کی آرزو

فرصت کی اور کتاب کی۔۔۔ یہ تیری دولتیں !

اِک گوشہء چمن بھی تِری خواہشوں میں تھا،

دو دوستوں کی بزم مگر شرطِ اوّلیں ۔

سو دیکھ رشک سے مجھے دو دوستوں کے ساتھ

اِک شرقِ نرم دوسرا سرگرم غرب سے

معمور اِن کے دم سے مِرا ساغرِ سرُور

یہ ہیں مِری کتاب مِرا گلشنِ سکون۔

باصر کاظمی

زخمی ہرن ۔ ولیم کوپر (The Stricken Deer ۔ William Cowper)

میں ایک زخمی ہرن تھا، جسے ڈار چھوڑے ہُوئے

ایک عرصہ ہُوا تھا؛ کئی تِیر گہرے لیے

میرا بیتاب پہلو شِکستہ تھا، جب میں ہٹا

دُور اُفتادہ سایوں میں اِک پُرسکوں موت کو ڈھونڈنے

وہاں مجھ کو پایا اِک ایسے نے جو خود بھی تھا

تِیر انداز ہاتھوں کا گھائل شدہ۔اُس کے پہلو میں تھے،

اور ہاتھوں میں اور پاؤں میں ، کتنے ظالم نشاں ۔

نرم قوّت سے اُس نے مِرے تِیر،

باہر نِکالے، مِرے زخم اچھے کیے، اور کہا جاؤ زندہ رہو۔

تبھی سے میں ، ہمراہ کچھ ساتھیوں کے، الگ

اور خاموش جنگل میں آوارہ پھِرتا ہوں ، اُن

اپنے گُنجان منظر کے سابق شناساؤں سے دُور؛

ہمراہ کچھ ساتھیوں کے، کسی اور کی آرزو کے بغیر۔

باصر کاظمی

مرو کے ایک نوجوان کی حکایت جس نے حضرت سیّد مخدوم علی ہجویری ؒ کے حضور آ کر دشمنوں کے ستم کی فریاد کی ۔ (از ’اسرار و رموز‘، علّامہ محمد اقبال)

سیّدِ ہجویرؒ مخدومِ اُمم

جس کا مرقد پیرِ سنجر کو حرم

چھوڑ کر کہسار آیا ہند میں

بیج بویا بندگی کا ہند میں

اُس سے تازہ ہو گیا عہدِ عمرؓ

حرف سے اُس کے ہُوا حق معتبر

پاسبانِ عزّتِ اُمّ الکتاب

خانہء باطِل کیا جس نے خراب

خاکِ پنجاب اُس کے دم سے جی اُٹھی

صبح اُس کے مہر سے روشن ہوئی

تھا وہ عاشق قاصِدِ طیّارِ عشق

جس کے ماتھے سے عیاں اسرارِ عشق

اُس کی عظمت کی ہے یہ اِک داستاں

باغ کو غنچے میں کرتا ہوں نہاں

اِک جواں جس کی تھی قامت مثلِ سرو

وارِدِ لاہور شد از شہرِ مرو

سیّدِ والا کی خدمت میں گیا

تاکہ تاریکی ہو سورج سے فنا

اور ہُوا گویا کہ ہوں در دشمناں

جیسے مِینا پتھروں کے درمیاں

تُو سِکھا مجھ کو شہِ گردوں مکاں

زندہ رہنا دشمنوں کے درمیاں

پِیرِدانا ذات میں جس کی جمال

کر گیا عہدِ محبت با جلال

بولے اے ناواقفِ رازِ حیات

غافِل از انجام و آغازِ حیات

اور مت اندیشہء اٖغیار کر

قوّتِ خوابیدہ کو بیدار کر

سنگ نے خود کو جونہی شیشہ کہا

بن گیا شیشہ ہی اور ٹکڑے ہُوا

راہرو گر خود کو سمجھا ناتواں

راہزن کو اُس نے دے دی اپنی جاں

آب و گِل سمجھے گا خود کو تا کُجا

شعلۂ طُور اپنی مٹی سے اُٹھا

تُو عزیزوں سے خفا رہتا ہے کیوں

دشمنوں کا تُو گِلہ کرتا ہے کیوں

سچ کہوں دشمن بھی تیرا دوست ہے

ہے تِرے بازار کی رونق یہ شے

جانتا ہو جو مقاماتِ خودی

فضلِ حق جانے جو ہو دشمن قوی

کِشتِ انساں کے لیے بادل عدو

اُس کے اِمکانات کو بخشے نمو

سنگِ رَہ پانی ہے گر ہے حوصلہ

سیل کو پست و بلندِ جادہ کیا

مِثلِ حیواں کھانا پینا کس لیے

گر نہ ہو محکم تو جینا کس لیے

گر خودی سے خود کو تُو محکم کرے

چاہے تو دنیا کو پھر برہم کرے

خود سے ہو آزاد گر چاہے فنا

خود میں ہو آباد گر چاہے بقا

موت غفلت ہے خودی سے مہرباں

تُو سمجھتا ہے فراقِ جسم و جاں

صورتِ یوسف خودی میں کر قیام

قید سے تختِ شہی تک کر خرام

گُم خودی میں ہو کے مردِ کار بن

مردِ حق بن حامِلِ اسرار بن

داستانیں کہہ کے راز افشا کروں

غنچے کو زورِ نفس سے وا کروں

’’ہے یہی بہتر کہ رازِ دِلبراں

دوسروں کے قصّے میں کیجیے بیاں ‘‘

پِیرِسنجر: خواجہ معین الدّین چشتیؒ جو حضرت ہجویریؒ کے مزار پر تشریف لائے تھے۔

باصر کاظمی

سہرا

دوست کے سہرے پہ کہتے ہیں سخنور سہرا

ہے ترے سہرے کا اے دوست مِرے سر سہرا

ہم کو ہر دولہا یہ کہتا ہُوا آیا ہے نظر

تاج کیا چیز ہے دیکھو مِرے سَر پر سہرا

کامیابی نہیں ہوتی کوئی اِس سے بڑھ کر

ہے سکندر وہی جس کا ہے مقدّر سہرا

تاکہ تاریکیِ شب مانعِ دیدار نہ ہو

لائے ہیں دھُوپ کے تاروں سے بنا کر سہرا

اِس میں بس جاتی ہے خوشبو جو حسیں یادوں کی

سُوکھ جانے پہ بھی رہتا ہے معطّر سہرا

چشمِ بد راہ نہ پائے گی کسی طور وحید

ہے دعاؤں کا تِرے سہرے کے اُوپر سہرا

اہلِ ذوق آئیں تو ہم اُن کو بتائیں باصِرؔ

دل سے کہتے ہیں تو پھر کہتے ہیں کیونکر سہرا

باصر کاظمی

کوئی ہے؟

کوئی ہے۔۔۔۔۔؟

ہے کوئی؟

جو ایک ڈوبتے ہوئے شخص کی بات سُنے۔

دیکھو، مجھے مدد نہیں چاہیے۔

مجھے کسی سے کُچھ لینا نہیں

بلکہ کُچھ دینا ہے۔

میرے بہن بھائی مجھ سے دُور ہیں ،

میرے دوست اپنی اپنی جگہ خوش ہیں ،

میرا اپنے کسی رشتے دار سے کوئی رابطہ نہیں ۔

میرے پاس ایک خزانہ ہے

جو میں کسی کو دینا چاہتا ہوں ۔

اِسے حاصِل کرنا بہت آسان ہے۔

یہ خزانہ اُس کا ہو جائے گا

جو میری بات سُنے گا۔

کوئی ہے۔۔۔۔۔؟

ہے کوئی۔۔۔۔؟

باصر کاظمی

نثری نظم

کیوں نہیں ؟

آخر اِس میں مسئلہ کیا ہے؟

شاعری اور نثر

متضاد چیزیں نہیں

کہ اکٹھی نہ ہو سکیں ،

ضِدّین نہیں زوجین ہیں

جو ایک دوسرے کا رُتبہ بڑھاتی ہیں ،

ایک دوسرے کی آبیاری کرتی ہیں ۔

شاعری کیوں ؟

تاکہ بات اچھی لگے

اور یاد رہ جائے۔

اچھی نثر کے جملے بھی

موزوں اور رواں ہوتے ہیں ؛

یاد رہتے ہیں ۔

اچھی شاعری کی طرح یہ بھی

’’الفاظ کی بہترین ترتیب‘‘ کا نام ہے۔

نظم منظّم ضرور ہو

منظوم ہو نہ ہو۔

رہی نام کی بات،

کیا خوب کہا تھا کسی نے

اور سب جانتے ہیں کہ کس نے کہا تھا۔

نام میں کیا ہے؟ ہم جسے گُلاب کہتے ہیں

وہ کسی اور نام سے بھی ایسی ہی سہانی خوشبو دے گا۔

نثر اور نظم کا ملاپ

زوجین کا نکاح ہے،

بشرطیکہ نکاح خواں

دونوں سے بخوبی واقف ہو۔

باصر کاظمی

جنگل میں مور

ایک دن اِک مور سے کہنے لگی یہ مورنی:

خوش صَدا ہے ، خوش اَدا ہے، خوش قدم خوش رَنگ ہے،

اِس بیاباں تک مگر افسوس تُو محدود ہے۔

جب کبھی میں دیکھتی ہوں محو تجھ کو رقص میں ،

ایک خواہش بے طرح کرتی ہے مجھ کو بے قرار۔

کاش تجھ کو دیکھ سکتی آنکھ ہر ذی روح کی!

کاش مخلوقِ خدا ہو تیرے فن سے فیض یاب!

مور بولا: اے مِری ہم رقص میری ہم نوا،

تُو نہیں واقف کہ میں گھوما پھرا ہوں کس قدر،

کتنے جنگل میں نے جھانکے کتنی دیکھیں بستیاں ۔

اَن گنت آنکھوں نے دیکھا میرا فن میرا ہنر۔

داد لینا دیکھنے والوں سے تھا مقصد مِرا۔

اِس طرح گویا اُنہیں تسخیر کر لیتا تھا میں ۔

دیکھتا جب اُن کی آنکھوں میں ستائش کی چمک،

بس اُسی لمحے پَروں کو میرے لگ جاتے تھے پَر۔

پھر ہوا یوں ایک دن دورانِ رقص،

غالباَ شیشے کا ٹکڑا یا کوئی کنکر چُبھا۔

رقص تو کیا چلنے پھرنے سے ہُوا معذور میں

رفتہ رفتہ ہو گیا اہلِ جہاں سے دُور میں ۔

بعد مُدّت ایک دن پہنچا جو میں پنڈال میں ،

دیکھتا کیا ہوں کہ اک طاؤسِ خوش قد خوش جمال،

مجھ سے بہتر اور کتنا مختلف،

کر رہا تھا اپنے فن سے اہلِ مجلس کو نہال۔

دیر تک دیکھا کیا میں اُس کو اوروں کی طرح

یوں لگا جیسے وہ تھا میری جگہ میری طرح۔

کاروانِ زندگی رکتا نہیں

وقت کا دریا کبھی رکتا نہیں

آج میں ، کل کوئی ،پرسوں کوئی اور،

اپنا اپنا وقت اپنا اپنا دور۔

رقص کرتا ہوں اگر میں اب تو بس اپنے لیے

یا فقط تیرے لیے، تیرے لیے، تیرے لیے

باصر کاظمی

غزل کہتے ہیں

اُس کے آنے پہ غزل کہتے ہیں

اُس کے جانے پہ غزل کہتے ہیں

دھُوپ نکلے تو غزل ہوتی ہے

اَبر چھانے پہ غزل کہتے ہیں

ناشتے پر ہے غزل کا سامان

رات کھانے پہ غزل کہتے ہیں

مُہر ہم اپنے تخلّص کی لیے

دانے دانے پہ غزل کہتے ہیں

دل اُجڑنے پہ بہت شعر ہوئے

گھر بَسانے پہ غزل کہتے ہیں

منہ دکھائی میں غزل کا تحفہ

رُخ چھُپانے پہ غزل کہتے ہیں

نہیں لازم کہ کوئی زخم لگے

سَر کھُجانے پہ غزل کہتے ہیں

ہے کچہری کبھی موضوعِ سخن

کبھی تھانے پہ غزل کہتے ہیں

انقلابی ہوئے جب سے شاعر

کارخانے پہ غزل کہتے ہیں

اِس قدر سہل غزل کہنا ہے

سانس آنے پہ غزل کہتے ہیں

بیٹھ کر کُنجِ قفس میں باصرؔ

آشیانے پہ غزل کہتے ہیں

باصر کاظمی

گھر کی مُرغی

وہ زمانے گئے جب تھی یہ غریبوں کی غذا

قدر و قیمت میں تو اب لحم سے بڑھ کر ہے دال

اِس میں ہے یارو سَراسَر مری عزّت افزائی

گھر کی مُرغی کو جو تم دال برابر سمجھو

باصر کاظمی

رونی صورت

اُس کو ہم سے گِلہ رہے گا ایسے ہی

کچھ کر لیں وہ خفا رہے گا ایسے ہی

اُسے ہنسانے کی ہر کوشش ہے بے سود

اُس کا منہ تو بنا رہے گا ایسے ہی

باصر کاظمی

دوسری ہجرت

بابا، تم نے

اپنی آنے والی نسلوں کی خاطر

اپنے آبا کی قبروں کو چھوڑا تھا۔

ہم نے بھی ہجرت کی ہے

اپنی اولاد کے ’روشن‘ مستقبل کے لیے۔

باصر کاظمی

مشرق اور مغرب

پھُول کسی گلشن میں کھِلے

یا کسی کے آنگن کی کیاری میں ،

سڑک کے بیچ میں ، یا

فٹ پاتھ پہ لگے ہوئے پودے میں ،

اس کے رنگ وہی ہیں

اس کی مہک وہی۔

سُورج سُورج ہے

چاہے مشرق سے نکلے

چاہے مغرب سے۔

باصر کاظمی

دِفاع

گو صُلح اور امن سے بڑھ کر نہیں ہے کچھ

موزوں نہیں پیام یہ ہر ایک کے لیے

دشمن کو ڈھیل دی تو ہُوا سَر پہ وہ سوار

کلہاڑی اپنے پاؤں پہ ہرگز نہ ماریے

بادل کی طرح سایہ بھی دیں غیر کو ضرور

لیکن کبھی گرجنا برسنا بھی چاہیے

باصر کاظمی

کشکول

جتنی بھیک مجھے درکار تھی

اس کے لیے میرا کشکول

بہت چھوٹا تھا۔

آخر میں نے توڑ دیا اپنا کشکول

اور دونوں ہاتھوں سے دامن پھیلایا۔

باصر کاظمی

اِمداد

کچھ تو جہاں میں اہلِ سخاوت کی تعداد بڑھی

کچھ میں نے بھی سیکھے نئے نئے انداز،

دستِ سوال بڑھانے کے،

عرضِ تمنّا کرنے کے۔

میرا کام تو چل نِکلا۔

سوچ رہا ہوں لے آؤں

اِک عمدہ سا کشکول۔

باصر کاظمی

بادشاہت جہنم میں

وہ کہتے ہیں کہ جنت کی غلامی سے

کہیں بہتر ہے دوزخ کی شہنشاہی۔

میں کہتا ہوں وہ جنت ہی نہیں

جس میں غلامی ہو،

اگرچہ بادشاہت اک نشانی ہے جہنّم کی

باصر کاظمی

نِدائے آدم

جہانِ تازہ مِرے دم قدم سے پیدا ہو

بہشت ارض پہ اُس کے کرم سے پیدا ہو

خوشی کی صُبح شبِ تارِ غم سے پیدا ہو

سکون وسوسہء بیش و کم سے پیدا ہو

زبانِ تیشہ سے ایسے ہو کچھ بیانِ حُسن

اَذانِ عشق دہانِ صنم سے پیدا ہو

نظامِ کہنہ اگر چاہیے حیاتِ نَو

یہ وقت ہے کہ تُو میرے قلم سے پیدا ہو

باصر کاظمی

قلم دوات

شجر سے کٹ کے جو بے جان ہو گئی تھی شاخ

قلم بنی تو وہ دوبارہ ہو گئی زندہ

شبِ سیہ سے زیادہ سیہ سیاہی سے

تمام عالمِ تاریک ہو گیا روشن

باصر کاظمی

خواندگی

پہلی آواز:

آؤ لکھو پڑھو

تاکہ بہتر طریقے سے خدمت کرو

مُلک اور قوم کی۔

خواندگی خواندگی ورنہ پسماندگی!

دوسری آواز:

اِتنا پڑھ لِکھ کے بھی

میری حالت وہی،

آج اِس کی تو کل اُس کی دہلیز پر

منتظر، ملتجی،

خواندگی!

باصر کاظمی

پڑھو گے لِکھو گے

اِس پڑھائی لِکھائی سے کیا فائدہ

جو سکھائے فقط ایسی تحریر

آغاز جس کا جناب و حضور

انتہا تابعداری کا اک غیر مشروط پیمان

اور پیشگی شکریہ

جانے کس بات کا

باصر کاظمی

’نوعُمری اور پیری‘

کل کی بات ہے

کتنے شوق سے میں یہ نظم پڑھا کرتا تھا!

میں نوعُمر تھا،

پیِری خود سے صدیوں دُور نظر آتی تھی۔

اب میں پیِری کی دہلیز پہ آ پہنچا ہوں ،

بچپن اور جوانی مجھ کو بالکل یاد نہیں ہیں

جیسے ان اَدوار سے میں گزرا ہی نہیں ۔

باصر کاظمی

بیٹی کی دسویں سالگرہ پر

مِری اچھی وجیہہ،

میں تجھ سے خوش ہوں اِتنا

کہ اکثر سوچتا ہوں ،

اگر تجھ کو زمیں پر بھیجنے سے پہلے،

خالق مجھ سے کہتا

کہ چن لے اِن ہزاروں لاکھوں بچوں میں سے

اِک اپنے لیے،

تو میں تجھے ہی منتخب کرتا۔

میں خوش قسمت ہوں کتنا!

دعا گو ہوں

سدا جیتی رہے

اور ایسی ہی اچھی رہے تُو!

باصر کاظمی

کب سے خواہش تھی کہ میں لکھوں سلامِ شبیرؑ

مہرباں آج ہوئے مجھ پہ امامِ شبیرؑ

صبرِایّوبؑ میں ہے ضربِ علیؑ کا سا وصف

تیغ کی طرح چمکتی ہے نیامِ شبیرؑ

جائے سجدہ میں ملیں جادۂ جنّت کے سراغ

دل میں تیرے جو اُتر جائے پیامِ شبیرؑ

اہلِ ایمان کی ہر صبح ہے صبحِ عاشور

ان کی ہر شام کا عنوان ہے شامِ شبیرؑ

وقت پڑنے پہ کہیں شمر کے ہمراہ نہ ہوں

ویسے کہتے تو ہیں ہم خود کو غلامِ شبیرؑ

میرے حصّے میں بھی ہوتی یہ حیاتِ جاوید

نامۂ رشک ہے یہ خِضرؑ بنامِ شبیرؑ

آبِ زمزم کی طرح سہل نہیں اِس کا حصول

جامِ کوثر کے لیے شرط ہے جامِ شبیرؑ

شرط ہے راہبری تا بہ شہادت باصرؔ

محض ورثے میں ملا کس کو مقامِ شبیرؑ

باصر کاظمی

بوجھ اتنے صدموں کا دل اگر اُٹھا پایا

تجھ سے ہی مرے مالک اِس نے حوصلہ پایا

ٹھوکروں سے رستے کی خود کو جو بچا پایا

زندگی میں جنت کا اُس نے در کھُلا پایا

حرف حرف کا تیرے ذرّہ ذرّہ ہے شاہد

جو بھی کچھ کہا ہم نے نقش بَر ہوا پایا

اُس کی راہ پر باصرؔ آ گئے جو ہم آخِر

جس قدر گنوایا تھا اُس سے دس گُنا پایا

باصر کاظمی

غریبم شاعرم گوشہ نشینم

نہ کوئی ہمنوا میرا نہ ہمدم
غریبم شاعرم گوشہ نشینم
اب اِس سے بڑھ کے کیا نام و نَسَب ہو
مَن آدم ابنِ آدم ابنِ آدم
بہت چھوٹی سی اپنی سلطنت میں
مَنم سلطان ہم سلطان زادم
کٹی ہے زندگی لفظوں میں اپنی
سخن گویم سخن دانم دبیرم
مرا اعمال نامہ مختصر ہے
تہی دستم و لیکن شادمانم
مری دانِست میں نامِ محمدؐ
کلیدِ ہر دو عالم اسمِ اعظم
باصر کاظمی

مرے اعمال کا سارا نتیجہ سامنے تھا

صریحاَ روزِ محشر کا سا نقشہ اُس سمے تھا
مرے اعمال کا سارا نتیجہ سامنے تھا
جدا تھے راستے منزل اگرچہ ایک ہی تھی
کہانی وصل کی عنوان جس کا فاصلے تھا
کھلاڑی مجھ سے بہتر بیسیوں پیدا ہوئے ہیں
مگر شطرنج سے جو عِشق مجھ کو تھا کِسے تھا
دیا تھا اختیارِ انتخاب اُس نے مجھے سب
مجھے معلوم ہے پہلے سے تو کچھ بھی نہ طے تھا
بصارت اور سَماعت کے لیے کیا کچھ نہ تھا پر
الگ ہر رنگ ہر آواز سے اِک بَرگِ نَے تھا
باصر کاظمی

کہتے ہیں کہ آج کل ہے مندا

ہو کوئی بھی کاروبار دھندا
کہتے ہیں کہ آج کل ہے مندا
واعظ نے لگا دیا کہیں اور
مسجد کے لیے ملا جو چندا
راجا ترا ہار موتیوں کا
بن جائے گا کل گَلے کا پھندا
اب ہم ہی کریں گے صاف یہ شہر
ہم نے ہی اِسے کیا ہے گندا
ہیں شعر نئے سو کھُردرے ہیں
درکار ہے خواندگی کا رَندا
کاغذ پہ نہ چھپ سکا جو قول
پتھّر پہ کیا گیا ہے کندہ
باصر کاظمی

آنا تو خوب ہے ترا پر گاہ گاہ کا

ہر دم نہیں دماغ ہمیں تیری چاہ کا
آنا تو خوب ہے ترا پر گاہ گاہ کا
تو اور آئنے میں ترا عکس رُوبرُو
نظّارہ ایک وقت میں خورشید و ماہ کا
ہے خانۂ خدا بھی وہاں بت کدے کی شکل
غلبہ ہو جس زمیں پہ کسی بادشاہ کا
گو شرع و دین سب کے لیے ایک ہیں مگر
ہر شخص کا الگ ہے تصور گناہ کا
اِک گوشۂ بِساط سے پورس نے دی صدا
میں ہو گیا شکار خود اپنی سپاہ کا
باصرؔ توعہد شِکنی کا موقع نہ دے اُسے
ویسے بھی کم ہے اُس کا ارادہ نباہ کا
باصر کاظمی

وہ اُدھر آرام سے ہیں ہم اِدھر آرام سے

جب سے ہم رکھنے لگے ہیں کام اپنے کام سے
وہ اُدھر آرام سے ہیں ہم اِدھر آرام سے
یہ بھی کٹ جائے گی جو تھوڑی بہت باقی ہے عمر
ہم یہی کرتے رہیں گے کام اپنے عام سے
اُس درِ انصاف کے درباں بھی ہیں منصف بہت
ہم جونہی فریاد سے باز آئے وہ دشنام سے
عاشقی میں لُطف تو سارا تجسس کی ہے دین
کر دیا آغاز میں کیوں آشنا انجام سے
خاک سے بنتی ہے جیسے خِشت ہم کچھ اِس طرح
دیکھ کیا سونا بناتے ہیں خیالِ خام سے
اِس طرح مل جائے شاید باریابی کا شرف
مشورہ ہے اب کے عرضی بھیج فرضی نام سے
یا تو وہ تصویر ہے پیشِ نظر یا کچھ نہیں
ہاتھ دھو دیدوں سے باصرؔ یہ گئے اب کام سے
باصر کاظمی

اے صاحبِ فن اتار تصویر

منظر ہے کہ شاہکار تصویر
اے صاحبِ فن اتار تصویر
رہ جاتی ہے یادگار تصویر
ہر چیز سے پایدار تصویر
اب دیکھ لو ایک بار ہم کو
پھر دیکھو گے بار بار تصویر
تصویر کی یار کو ضرورت
محتاجِ جمالِ یار تصویر
معمولی سے کیمرے نے باصرِؔ
کیا کھینچی ہے شاندار تصویر
باصر کاظمی

آنکھیں ہی چلی گئیں ہماری

پڑھنی تھی کتابِ زیست ساری
آنکھیں ہی چلی گئیں ہماری
تھی آج تو بات ہی کچھ اور
تصویر اُتارتے تمہاری
ہیں چار طرف کے راستے بند
گزرے گی یہاں سے اک سواری
خوش ہو گئے دو گھڑی کچھ یار
سُبکی تو بہت ہوئی ہماری
ثابت کرو اپنے دعوے باصرِؔ
شیخی تو جناب نے بگھاری
باصر کاظمی

دریا بھی سَراب ہو گئے ہیں

حالات خراب ہو گئے ہیں
دریا بھی سَراب ہو گئے ہیں
آسان سوال تھے اگرچہ
دشوار جواب ہو گئے ہیں
لیتی تھیں گھٹائیں جن سے رنگ
محتاجِ خضاب ہو گئے ہیں
راتیں ہیں پہاڑ سی اور دن
مانندِ حباب ہو گئے ہیں
جو کام کبھی گُنہ تھے باصرِؔ
اب کارِ ثواب ہو گئے ہیں
باصر کاظمی

میدان میں طِفل سے ڈریں گے

باتیں تو بڑی بڑی کریں گے
میدان میں طِفل سے ڈریں گے
سب فائدے آپ کے لیے ہیں
نقصان ہیں جتنے ہم بھریں گے
دشمن کی نہیں کوئی ضرورت
آپس ہی میں ہم لڑیں مریں گے
تصویر بنائی اُس نے لیکن
تصویر میں رنگ ہم بھریں گے
باصر کاظمی

بہت دوستوں نے بھلائی برائی دکھائی

رہِ عِشق میں کب دیا کچھ سنائی دکھائی
بہت دوستوں نے بھلائی برائی دکھائی
سمجھتے ہیں اہلِ نظر حسن کی یہ ادائیں
گھڑی دیکھنے کے بہانے کلائی دکھائی
ہماری توجہ بھی اُس دم ذرا منقسم تھی
مداری نے کچھ ہاتھ کی بھی صفائی دکھائی
دوبارہ بھروسہ کیا آزمائے ہوئے پر
بہت آپ نے بھی طبیعت رجائی دکھائی
عجب کیا جو عاشق نے سر پھوڑ کر جان دے دی
عجب کیا جو محبوب نے بے وفائی دکھائی
باصر کاظمی

اِس میں جاتا نہیں تمہارا کُچھ

فائدہ ہو اگر ہمارا کُچھ
اِس میں جاتا نہیں تمہارا کُچھ
کل ضرورت پڑے تری شاید
آج ہو جائے گا گزارا کُچھ
دھیان میں آئی شکل وہ سرِ شام
ہو گیا صُبح تک سہارا کُچھ
آسماں کا تھا شب عجب احوال
چاند کہتا تھا کُچھ سِتارا کُچھ
باصر کاظمی

ہے خزاں بھی بہار میں مصروف

سازشِ انتشار میں مصروف
ہے خزاں بھی بہار میں مصروف
ہم نے رکھا کئی طرح خود کو
فرصتِ انتظار میں مصروف
مثلِ سیاّرگاں بنی آدم
اپنے اپنے مدار میں مصروف
عشق روتا ہے آٹھ آٹھ آنسو
حُسن سولہ سِنگھار میں مصروف
آہ وہ وقت جب لہو میرا
تھا دلِ بیقرار میں مصروف
زندگی کٹ رہی ہے باصرِؔ کی
بے ثمر کاروبار میں مصروف
باصر کاظمی

اوپر سے ہو گئی ہے یہ تجھ بن اجاڑ سی

پہلے ہی زندگی تھی ہماری پہاڑ سی
اوپر سے ہو گئی ہے یہ تجھ بن اجاڑ سی
دنیا اِسے خلیج بنا دے گی ایک دن
ہم دونوں کے جو بیچ پڑی ہے دراڑ سی
مشکِل ہُوا پتنگ کو اپنی سنبھالنا
الجھی ہُوئی ہے ڈور سے کوئی دُگاڑ سی
اپنی حدود کا بھی کچھ اِدراک چاہیے
اچھا ہے درمیاں میں رہے ایک باڑ سی
تھی بے اثر غزالِ شکستہ کی آہِ نرم
اب چاہیے ہے شیرِ ببر کی دہاڑ سی
باصر کاظمی

اِک نگہ نے پھِردکھا دی میری خاکستر کو آگ

کچھ قرار آنے لگا تھا مدتوں جلنے کے بعد
اِک نگہ نے پھِردکھا دی میری خاکستر کو آگ
چل رہے تھے کب سے ننگے پاؤں جلتی ریت پر
کیا عجب چڑھنے لگی ہے اب جو اپنے سر کو آگ
دوستو محفوظ مت سمجھو تم اپنے آپ کو
ایک گھر کی آگ سے لگ جائے گی ہر گھر کو آگ
باصر کاظمی

فرصت اگر ملی تو ہوئی کاہلی کی نذر

اپنا زیادہ وقت ہوا نوکری کی نذر
فرصت اگر ملی تو ہوئی کاہلی کی نذر
اپنی خوشی تمہاری خوشی میں تھی اس لیے
کردی خوشی خوشی سے تمہاری خوشی کی نذر
یہ جسم ہے سو تیری امانت ہے اے اجل
وہ جاں تو کر چکے ہیں کبھی کے کسی کی نذر
کچھ نیکیاں جو اشکِ ندامت کا تھیں ثمر
صد حیف سب کی سب ہوئیں تر دامنی کی نذر
خود آگہی کے گرچہ مواقع ملے بہت
ہوتے رہے مگر وہ مری بے خودی کی نذر
باصر ؔہمارے کام نہ آیا ہمارا دل
کچھ اُن کی نذر ہو گیا کچھ شاعری کی نذر
باصر کاظمی

لگتا ہے کہ اُس کا تو ہے بس کام شکایت

اُس کے لیے کچھ بھی کریں انجام شکایت
لگتا ہے کہ اُس کا تو ہے بس کام شکایت
جو کچھ اُسے درکار ہے وہ سب ہے میسّر
کس بات کی کرتا ہے وہ گُلفام شکایت
گلشن کی فضا میں بھی ہم آزاد کہاں تھے
صیّاد سے کرتے جو تہِ دام شکایت
ہم نے ہی نہ خود کو کیا تیرے لیے تیار
تجھ سے نہیں کچھ گردشِ ایّام شکایت
ہر شخص کی کرتا ہے شکایت جو تو اے شیخ
ایسا نہ ہو پڑ جائے تِرا نام شکایت
موقع ہی نہ پایا کبھی تنہائی میں ورنہ
کرتے نہ کبھی تجھ سے سرِ عام شکایت
ہم فرش نشیں خوش ہیں اِسی بات پہ باصرِؔ
پہنچی تو کسی طور لبِ بام شکایت
باصر کاظمی

کیا کہوں کیا غلط ہے کیا ہے ٹھیک

اُن کو سب کچھ ہی لگ رہا ہے ٹھیک
کیا کہوں کیا غلط ہے کیا ہے ٹھیک
کبھی لب بستگی مناسب ہے
اور کبھی عرضِ مدعا ہے ٹھیک
ڈوب جائیں گے سُنتے سُنتے ہم
سب غلط ایک ناخدا ہے ٹھیک
آج ہم ٹھیک ہیں مگر یارو
مستقل کون رہ سکا ہے ٹھیک
تھی شفا چارہ گر کی باتوں میں
ہم سمجھتے رہے دوا ہے ٹھیک
چَین سے سو رہا ہے ہمسایا
چلیے کوئی تو گھر بنا ہے ٹھیک
ایک ہی دوست رہ گیا تھا مرا
وہ بھی دُشمن سے جا مِلا ہے، ٹھیک
کر دیا تھا عدو نے کام خراب
کر کے کتنے جتن کیا ہے ٹھیک
تیرا بیمار تجھ کو بھُول گیا
کچھ زیادہ ہی ہو گیا ہے ٹھیک
کچھ دوا کر کہ زخمِ دل باصرِؔ
خود بخود بھی کبھی ہُوا ہے ٹھیک
باصر کاظمی

حَلف اُٹھایا مگر سچ نہ کہی کوئی بات

پڑھتا ہوں بے شک نماز بھول گیا میں صلات
حَلف اُٹھایا مگر سچ نہ کہی کوئی بات
خواہشِ زر کی سدا مجھ پہ حکومت رہی
جسم حرَم ہے مرا ذہن مگر سومنات
کتنا ہی ناپاک ہو مال سمیٹا ہُوا
پاک سمجھتا ہوں میں دے کے ذرا سی زکات
باندھوں کہ کھولوں اِنہیں رہتی ہے یہ کشمکش
اِس لیے گویا مجھے تُو نے دئیے تھے یہ ہات
مجھ سے ہیں بہتر شجر اور چرند و پرند
پاس تِرے حُکم کا کرتے ہیں دِن ہو کہ رات
اپنا کرَم کر کہ کُچھ اِن میں نَم و دَم پڑے
سوکھ چلا ہے قلم خشک ہوئی ہے دوات
باصر کاظمی