خونی و خائن و راشی و شقی ایک ہوئے
اُس کے دربار میں پہنچے تو سبھی نیک ہوئے
خاص لوگوں کے لیے اگلی صفیں ہیں یارب
تیری سرکار میں بھی لوگ کہاں ایک ہوئے
خونی و خائن و راشی و شقی ایک ہوئے
اُس کے دربار میں پہنچے تو سبھی نیک ہوئے
خاص لوگوں کے لیے اگلی صفیں ہیں یارب
تیری سرکار میں بھی لوگ کہاں ایک ہوئے
اک پیرِ خرد مندہوا مجھ سے مخاطب:
خوش ہو کہ طبیعت بڑی حساس ہے تیری
سب درد زمانے کے ترے درد بنے ہیں
قسمت سے ملی ہے تجھے یہ نعمتِ گریہ
ہر درد مگر لائقِ گریہ نہیں ہوتا
کر سکتے ہیں روشن بھی ترے کُلبے کو یہ اشک
اور غرق بھی ہو سکتا ہے سب کچھ ترا اِن میں
2010
انہوں نے پوچھا کہ جو کمایا کدھر سے آیا کدھر گیا وہ
کہا بتائیں گے کیسے آیا مگر نہ پوچھو جدھر گیا وہ
کمائی محنت کی راس آئی کبھی غریبی نہ پاس آئی
بغیر محنت کے جو بھی پایا جدھر سے آیا اُدھر گیا وہ
بہت سمجھتا تھا خود کو شاطِر تمہارا نادان دوست باصِرؔ
ذرا سے اک فائدے کی خاطر بڑا سا نقصان کر گیا وہ
ایسا ہی نام تھا کچھ
ہم نے کبھی پڑھا تھا
ہاں یاد آ گیا اب
اور کیسا یاد آیا
وہ بادشاہِ روما
نیرو تھا نام جس کا
تم بھی تو جانتے ہو
نیروجو کر رہا تھا
جب روم جل رہا تھا
دیکھو تو کیسے کیسے قانون ہیں ہمارے
جن کے بنانے والے قارون ہیں ہمارے
(این۔ آر۔ او(National Reconciliation Ordinance): اِس حکم نامے کے تحت حکومتِ پاکستان نے ’ملک اور قوم کے اعلی مفاد‘ میں متعدد خاص لوگوں کے خلاف قائم کردہ مقدمات واپس لے لیے۔یہ مقدمات مختلف سنگین نوعیت کے الزامات،بالخصوص مالی بدعنوانیوں کے الزامات ،کے تحت قائم کیے گئے تھے۔)
ڈھونڈتے ہیں خلوص ہم کِن میں
ہے غرض اپنی ہی بھری جِن میں
آ گیا کھُل کے سامنے آخر
تھا جو پوشیدہ ان کے باطِن میں
کچھ تو تھے غیر کچھ ہمارے نہیں
فرق اتنا ہے اُن میں اور اِن میں
کہا اک بھیڑ نے کچھ میمنوں سے
مرے پیارو، ہمیشہ ساتھ ریوڑ کے رہو۔
تمہارے دائیں بائیں آگے پیچھے کوئی ہو
جو ڈھال کی صورت محافظ ہو۔
چراگاہوں سے باہر
جگمگاتے راستے تم کو بلائیں گے،
چمکتی لہلہاتی خستہ ہریالی لُبھائے گی،
تمہارے دل کو کھینچے گی۔
تم اپنے پاؤں اپنے ہاتھ میں رکھنا۔
نہ ہونے کو نہ ہو کچھ بھی
مگر ہونے کو ہو سکتا ہے کچھ بھی۔
سنو، ایسے کسی انجان رستے پر،
کسی بے دھیان لمحے میں ،
اچانک بھیڑئے کر دیں اگرحملہ،
دلِ دہشت زدہ میں ایک دہلاتی ہوئی خواہش
بصد حسرت امڈتی ہے،
رگوں میں سنسناتی ہے،
یہ کہتی ہے کہ ہائے!
کاش اُن کتوں کی سُن لیتے
جو دن بھر بھونکتے تھے۔
یہ صاف دکھائی دے رہا تھا
باندھا تھا کبھی جو عہد، اُس سے
دونوں ہی رہائی چاہتے تھے
بے وجہ لڑائی چاہتے تھے۔
اُس کو بھی بہانہ چاہیے تھا
موقعے کی تلاش میں تھے ہم بھی
دونوں ہی جدائی چاہتے تھے۔
گویا کہ جدا سب سے ترا ساز ہے پیارے
اعزاز نہ ملنا بھی تو اعزاز ہے پیارے
ہوتی ہے تری بات نمایاں سرِ محفل
ہر چند کہ دھیمی تری آواز ہے پیارے
ہم جانتے ہیں تیرے ارادوں کو بخوبی
پہچانتے ہیں جو ترا انداز ہے پیارے
تو دوست ہے چپکے سے بتا دیتے ہیں تجھ کو
جو حرف زمانے کے لیے راز ہے پیارے
ہوتے نظر آتے ہیں جہاں راستے مسدود
تیرے لیے اک باب نیا باز ہے پیارے
کچھ آج ہی اونچا نہیں سر فخر سے اپنا
تجھ پر تو ہمیشہ سے ہمیں ناز ہے پیارے
شاعر: ان کی تنقید سدِ راہِ شوق
ان کی تعریف ایک زریں طوق
بیشتر میرے عہد کے نقاد
بددیانت، بخیل یا بدذوق
نقاد: طبعِ موزوں تو اک عنایت ہے
یہ بتا تیری کیا ریاضت ہے
صِرف تعریف چاہتا ہے تُو
تیرا مقصد حصولِ شہرت ہے
2011
صبر کرنے کی جو تلقین کیا کرتے تھے
اب یہ لگتا ہے کہ وہ ٹھیک کہا کرتے تھے
رات کو کاٹنا ہوتا ہے سحر ہونے تک
بیج کو چاہیے کچھ وقت شجر ہونے تک
1-3فروری 2009
دیکھتے رہنے پر ہوئے مامور
ہم کبھی اس قدر نہ تھے مجبور
اپنی شہرت بڑھانے کی خاطر
اُس نے ہم کو بھی کر دیا مشہور
دسمبر 2009
ہم دوا سے ٹھیک ہوں گے تیرے دیکھے سے نہیں
کام کرنے سے ہوا کرتے ہیں چاہے سے نہیں
دوستی میں دیکھتے ہیں وہ بس اپنا فائدہ
پھول پھل سے اُن کو دلچسپی ہے پودے سے نہیں
16 دسمبر2010
آج بھی ہم ہی سُرخرو ہوں گے
تیری تلوار ہے ہمارا سر
تجھ سے کرنی ہے اک ضروری بات
عام سی بات ہے، خدا سے ڈر
جنوری2011
جو کان میں رہ گیا سو پتھر
جو ہاتھ میں آگیا وہ ہیرا
26جولائی2011
ہے دوستی کی طرح دشمنی کا اپنا لطف
حریف بن کے ملے ہو تو یار یوں بھی سہی
29جولائی2011
جن مناظر نے خوش کیا تھا کبھی
خواب میں آکے تنگ کرتے ہیں
9اگست 2011
اگر آنسو رُکے تو ابر برسا
یہ بارش میرے پیچھے پڑ گئی ہے
22اگست 2011
آسائشِ دنیا کا سامان کچھ ایسا ہے
چھوڑا بھی نہیں جاتا ڈھویا بھی نہیں جاتا
مانندِ سراب آگے اک شے ہے عجب جس کو
پانا تو ہے ناممکن کھویا بھی نہیں جاتا
17جنوری2012
بِنا علاج بھی جیتے تھے اچھے خاصے ہم
مرض تو کچھ بھی نہ تھا مر گئے دوا سے ہم
6مئی 2012
فائدہ یہ ہے بچھڑنے کا کہ دل میں وہ مرے
ہے حسیں اتنا ہی جتنا کہ بچھڑتے ہوئے تھا
12مئی 2012
دھوپ ہنستی تھی ابھی آنگن میں
آگئے رونے رُلانے والے
31جولائی2012
پھول ہر ڈھنگ کا بہار میں تھا
برگ ہر رنگ کا خزاں میں ہے
12نومبر2012
یہ الگ بات کہ اصنام بھی لے آئے ساتھ
’’پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے‘‘
15فروری2013
یہ بے حسی نہیں اے دوست ضبطِ گریہ نے
ہماری آنکھوں میں اک رہگزار اتار دیا
سفر کیا ہے اک ایسی سواری پر جس نے
سوار ہونے دیا پر اتار اتار دیا
27فروری2013
رات دن ساغرِ جم دیکھتے ہیں
کس نے دیکھا ہے جو ہم دیکھتے ہیں
کیوں ہے چہرہ ترا اُترا اُترا
آنکھ بھی تھوڑی سی نم دیکھتے ہیں
27جون2013
دوست وہ جو دوستوں کے ہوں فقط سب کے نہیں
وہ جو خوش کرتے ہوں سب کو میرے مطلب کے نہیں
31دسمبر2013
باصِرؔ خلوصِ دل سے کیا تو ہے ایک عہد
اب یہ دعا کرو کہ نبھانا نصیب ہو
دوستوں کی مہربانی پوچھ لیتے ہیں ہمیں
ورنہ اِس شہرِ غرض میں کون کس کا آشنا
لڑتے کسی اور بات پر ہیں
غصہ کسی اور بات کا ہے
باصِرؔ دعائیں مانگیں تھیں عمرِ دراز کی
افسوس مت کرو کہ جوانی گزر گئی
مختلف ہیں اگرچہ ان کے نام
ملتے جلتے سے ہیں یہ سارے مقام
اُکھڑے اُکھڑے سے ہیں وہ کچھ دن سے
پھر کوئی بات ہو گئی ہو گی
اب انہیں فون کل کریں گے ہم
اب وہاں رات ہو گئی ہو گی
لفظِ حمد لکھا۔
خیال آیا کہ اس سے پہلے
حرفِ میم یا حرفِ الف لکھ دوں
تو اُس کا نام بن جائے
وہ جس کا نام لینا اک عبادت ہے۔
محمدؐ لکھ دیا ہم نے تو گویا حمد بھی کہہ دی،
پڑھیں تو چشم ودل شاداں
لکھیں تو انگلیاں نازاں
محمدؐ سے زیادہ خوبصورت نام کس کا ہے؟
اپنے سسر سید توفیق حسین واسطی کے نام جن سے مجھے وہی محبت ملی جو والدین سے ملتی ہے۔
1997
سُورج کا یہ رنگ نہ تھا جو وقتِ شام ہُوا ہے
دیکھو کیسا سَرکش گھوڑا کیسا رام ہُوا ہے
…
اِنصاف اگر کہیں ہے کچھ
جنّت کا نشاں وہیں ہے کچھ
آ جائیں گے دیکھنے تمہیں ہم
کہنا تو ہمیں نہیں ہے کچھ
ستمبر
…
حاضری کے واسطے سرکار کا دفتر کھُلا
کتنے چکّر کاٹنے کے بعد یہ چکّر کھُلا
دسمبر
…
2000
سب حسینوں کا حُسن تجھ میں ہے
اور تِرا حُسن سب حسینوں میں
12 ۱کتوبر
…
2001
جو منافع نہ مِل سکا باصِرؔ
اُس کو نقصان کیوں سمجھتے ہو
3دسمبر
…
2003
کھُلتے ہی نہیں کسی صورت
وہ ہونٹ بھی سُرخ فیتے ہیں
ہیں سارے کے سارے آدم خور
شہروں میں جو شیر چیتے ہیں
جنوری
…
یوں بھی کم تھی اُس کے آنے کی اُمید
اب تو ویسے بھی اندھیرا ہو گیا
28جنوری
…
نقصان پر جو میرے افسوس کر رہے ہیں
میں جانتا ہوں کتنا اندر سے خوش ہوئے ہیں
9مارچ
…
نیند میں بھی بھٹک نہیں سکتا
روز کا راستہ ہے یہ میرا
3اپریل
…
جس نے ماں باپ کو دیا ہو دُکھ
اُس نے اولاد سے نہ پایا سُکھ
4دسمبر
…
2004
گئے خط بے اثر سارے
اُسے بھیجوں گا اب سی وی
4اپریل
…
نکل گیا ہے مِری زندگی سے وہ شاید
کئی دنوں سے مِرے خواب میں نہیں آیا
10جون
…
وہاں جانے سے کیا ڈرنا
جہاں سب جائیں گے اک دن
غلط سمجھے ہیں جو ہم کو
بہت پچھتائیں گے اک دن
13جولائی
…
جن دنوں روتا تھا تیری یاد میں
رو رہا ہوں اُن دنوں کی یاد میں
3ستمبر
…
2005
کیا مشورہ کوئی دے اب ایسے آدمی کو
جانے دیا ہو جس نے گھر آئی لکشمی کو
10جولائی
…
اب آ کے دیکھتے ہیں شجر ہیں وہ سایہ دار
جاتے ہوئے جو بیج یہاں بو گئے تھے ہم
19ستمبر
…
شفا ہوتی دوا سے معجزہ ایسا تو کیا ہوتا
مگر بیمار کچھ دِن اور جی لیتا تو کیا ہوتا
ابھی اُس کے نہ مِلنے پر عداوت ہے زمانے کو
کسی تدبیر سے وہ ہم کو مِل جاتا تو کیا ہوتا
دسمبر
…
ہے اِتنا کچھ جہاں دل میں ہمارے ناخداؤں کے
خیالِ خلق بھی ہوتا اگر خوفِ خدا ہوتا
دسمبر
…
اب آ کے دیکھتے ہیں شجر ہیں وہ سایہ دار
جاتے ہوئے جو بیج یہاں بو گئے تھے ہم
19دسمبر
2006
کسی سبب سے جو وہ دے سکیں نہ میرا ساتھ
نہیں ہے اِس میں بُرا ماننے کی کوئی بات
سلوک اُس کا ترے ساتھ ٹھیک ہے باصِرؔ
کوئی تو ہو جو بتائے تجھے تِری اوقات
16فروری
…
گزر گئی ہے اِسی کاہلی میں عُمر تمام
یہ سوچتے رہے بس اب کریں گے کل سے کام
یہ سوچ کر کہ مِلے گا ضرور اب کے جواب
نجانے لِکھّے ہیں خط کتنی بار اپنے نام
نومبر
…
گو شاعری پڑھنے کا اُسے شوق بہت ہے
کیا کیجیے اِس کا کہ وہ بدذوق بہت ہے
دسمبر
…
ایک دشمن کی کمی تھی باصِرؔ
وہ بھی اِک دوست نے پوری کر دی
8دسمبر
…
2007
جب چاہیے ہو ملتی ہے تازہ ہَوا مجھے
شاید کبھی لگی تھی کسی کی دعا مجھے
5جولائی
Carpet-Weaver
M۔ Athar Tahir
اُن عمارتوں کے درمیان جو بھکاری عورتوں کی طرح
روشنی کے لیے ایک دوسرے کی حریف تھیں
میرا خیال ہے کہ میں راہ بھول کر
جب ایک کُنجِ عزلت میں پہنچا تو اُس سے دوچار ہوا۔
وہ گٹھری بنا ہوا تھا، عمارت کے اندر، اندھیرے کی روشنی میں
اُس کی انگلیاں ، اُون کے کام کے باعث بے حِس،
پرانی کام چلاؤ مشین پر مشقّت کرتی ہیں
چوہے کی سی مختصر تیز رفتار سے
جبکہ یہ اپنی روزی کماتا ہے
فی مربع انچ گِرہوں کے حساب سے
محض مؤذن کی اذان کے فاصلے پر
عظیم بزرگ کے مزار پر
پیشہ ور مانگنے والے
اپنے دھات کے کشکول کھانا لینے کے لیے بڑھاتے ہیں
بے شمار خدا کے پیارے
چاولوں کی دیگیں اور پھولوں کے ہار لے کر
اس سبز گنبد والے ولی کا شکریہ ادا کرنے آتے ہیں ۔
سفارشیں یہاں بھی چلتی ہیں ۔
A Prayer for the well-being of Nasir Kazmi’s House
Simon Fletcher
’’پیڑ لگانے والا شخص
بیشتر اوقات اس کا پھل کھانے کے لیے زندہ نہیں رہتا‘‘
سفید کبوتر اسی طرح جمع رہیں
چھت پر ناصر کاظمی کے گھر
پتنگ، زعفرانی، چمک دار نیلے،
اُڑتے رہیں اوپر ناصر کاظمی کے گھر
ارغوانی گلاب، پودے، درخت
پھلیں پھولیں ناصر کاظمی کے گھر
سورج چمکے،بارشیں اپنے موسم میں
برستی رہیں ناصر کاظمی کے گھر
۱ہلِ خانہ، حلیم، عالِم
لمبی عمر پائیں ناصر کاظمی کے گھر
‘A Little Bridge of Sympathy’
Simon Fletcher
(For Basir Sultan Kazmi)
ہم باہمی معاملات پر بات کرتے ہیں ،
جبکہ گفتگو چوکڑیاں بھرتی ہے
مثلِ غزال کمرے میں اور
فرازہ کھانا پکاتی ہے اور وجیہہ
’ریڈرز آف دی لوسٹ آرک( خزانوں کے متلاشی)‘ دیکھتی ہے،
ہماری بات چیت سے اُدھر، دوسرے کمرے میں ۔
تمہارے مرحوم والد، عظیم گفتگو کرنے والے،
لاہور کی گلیوں میں گھومتے ہیں
تمہارے ذہن میں ، اپنے صاف گو دوستوں کے ہمراہ
رات کے پچھلے پہر؛
تمہارے دادا، کلف لگے ہوئے فوجی لباس میں
سُرخی مائل بھوری تصویر میں نظر آتے ہیں ۔
میں تمہیں بتاتا ہوں کھیتوں میں کام کرنا
اپنے والد کے ساتھ، فصل کاٹنا،
پھل توڑنا، ہل چلانے کی مشقّت، جبکہ
میرے دادا چائے پیتے ہیں
ایک خاص سیاست دان کے ساتھ؛ یہ سب کچھ
حافظے کے محدّب عدسے میں سے گزر کر آتا ہے۔
اپنے ’گمشدہ خزانوں ‘ کے متلاشی، ہم
کئی برسوں اور زبانوں کو عبور کر کے پہنچتے ہیں
ہمدردی کے پل بنانے۔
ماضی ایک دوسرا مُلک ہے،
بے شک، اور جو کچھ ہم نے وہاں کیا؛
لیکن اصل بات وہ ہے جو ہم دونوں اب کرتے ہیں ۔
Unmixed Message
Simon Fletcher
(For Basir and Debjani)
سو ہم کیا کہنے کی کوشش کر رہے ہیں ؟
زمین گھومتی ہے اور کچھ لوگ فائدہ اُٹھاتے ہیں ،
دوسروں کی ترجیح ہے پھُوٹ ڈالنا اور حکمرانی کرنا،
ایک مؤثر منصوبہ جو ہم نے سکول میں سیکھا۔
اِس کا نتیجہ، ہمیں پتا ہے، بے حالی
قحط، خشک سالی اور جنگ اور موت۔
سو ہم مسترد کرتے ہیں اِن جنگجو احمقوں کو
اِن کے دوستوں اورساتھیوں ،پٹھوؤں ،آلۂ کاروں کو،
اور حمایت کرتے ہیں پکنکوں ، پارٹیوں ، کھیلوں کی،
جہاں ہر کوئی حصّہ لے سکتا ہے
اورمحسوس نہیں کرتا خود کو گُونگا اور نظرانداز کیا گیا،
پیغام واضح ہے، پیچیدہ نہیں ۔
سو یہ کیسے ہوا، ہم کیسے مِلے؟
سرائے میں نہیں ، نہ ہی گلی میں ،
مگر ہمارے اندر کی کسی چیز نے ہمیں اکٹھا کیا
تاکہ ہم اپنی محبتوں کے نغمے گائیں ہر موسم میں ۔
مذہب، زبان،مشغلے اور تذکیر تانیث
شاعری نے آمیخت کیے،جیسے کسی بلینڈر میں ۔
لاہورکی نایاب بوٹیاں ؛ خوش ذائقہ، تُرش؛
دہلی کے لذیذ مسالے،جن سے کوئی زبان نہ جلے۔
اور پکوان کو چٹ پٹا بنانے کے لیے،کھانے کا دَور مکمل کرنے کے لیے،
ایک پرانا انگریزی چٹخارہ، وُرسٹرشائرکی چٹنی!
لگے ہیں اِس میں کئی سال اعتراف کروں
نیا بنا دیا تُو نے مِرا دلِ شاعر
مِرا خیال تھا لکھتا ہوں میں ہنر سے مگر
میں جانتا نہ تھا ہوتا ہے کیا دلِ شاعر
جگا کے مجھ کو مِرے خوابِ سبز سے تُو نے
گَلے سے اپنے لگایا مِرا دلِ شاعر
مجھے دکھائی نہ دیتی تھی رہ جو لے جاتی
مقامِ اوج پہ مجھ کو جو تھا دلِ شاعر
میں چل رہا تھا بہت مطمئن، مگر نادان
اِسی گماں میں کہ پہلو میں تھا دلِ شاعر
تجھے خبر تھی کہ رستہ کٹھن تھا، ناہموار
تھکائے دیتا تھا مجھ کو ترا دلِ شاعر
ہوا خنک ہوئی سیکھا نیا ہنر باصِر
سو یہ ہے ایک تشکّر بھرا دلِ شاعر
دو یار زِیرک و از بادہء کہن دو منے
فراغتے و کتابے و گوشہء چمنے
شمس الدین محمد حافظ
حافِظ، تجھے تھی بادہء عمدہ کی آرزو
فرصت کی اور کتاب کی۔۔۔ یہ تیری دولتیں !
اِک گوشہء چمن بھی تِری خواہشوں میں تھا،
دو دوستوں کی بزم مگر شرطِ اوّلیں ۔
سو دیکھ رشک سے مجھے دو دوستوں کے ساتھ
اِک شرقِ نرم دوسرا سرگرم غرب سے
معمور اِن کے دم سے مِرا ساغرِ سرُور
یہ ہیں مِری کتاب مِرا گلشنِ سکون۔
میں ایک زخمی ہرن تھا، جسے ڈار چھوڑے ہُوئے
ایک عرصہ ہُوا تھا؛ کئی تِیر گہرے لیے
میرا بیتاب پہلو شِکستہ تھا، جب میں ہٹا
دُور اُفتادہ سایوں میں اِک پُرسکوں موت کو ڈھونڈنے
وہاں مجھ کو پایا اِک ایسے نے جو خود بھی تھا
تِیر انداز ہاتھوں کا گھائل شدہ۔اُس کے پہلو میں تھے،
اور ہاتھوں میں اور پاؤں میں ، کتنے ظالم نشاں ۔
نرم قوّت سے اُس نے مِرے تِیر،
باہر نِکالے، مِرے زخم اچھے کیے، اور کہا جاؤ زندہ رہو۔
تبھی سے میں ، ہمراہ کچھ ساتھیوں کے، الگ
اور خاموش جنگل میں آوارہ پھِرتا ہوں ، اُن
اپنے گُنجان منظر کے سابق شناساؤں سے دُور؛
ہمراہ کچھ ساتھیوں کے، کسی اور کی آرزو کے بغیر۔
سیّدِ ہجویرؒ مخدومِ اُمم
جس کا مرقد پیرِ سنجر کو حرم
چھوڑ کر کہسار آیا ہند میں
بیج بویا بندگی کا ہند میں
اُس سے تازہ ہو گیا عہدِ عمرؓ
حرف سے اُس کے ہُوا حق معتبر
پاسبانِ عزّتِ اُمّ الکتاب
خانہء باطِل کیا جس نے خراب
خاکِ پنجاب اُس کے دم سے جی اُٹھی
صبح اُس کے مہر سے روشن ہوئی
تھا وہ عاشق قاصِدِ طیّارِ عشق
جس کے ماتھے سے عیاں اسرارِ عشق
اُس کی عظمت کی ہے یہ اِک داستاں
باغ کو غنچے میں کرتا ہوں نہاں
اِک جواں جس کی تھی قامت مثلِ سرو
وارِدِ لاہور شد از شہرِ مرو
سیّدِ والا کی خدمت میں گیا
تاکہ تاریکی ہو سورج سے فنا
اور ہُوا گویا کہ ہوں در دشمناں
جیسے مِینا پتھروں کے درمیاں
تُو سِکھا مجھ کو شہِ گردوں مکاں
زندہ رہنا دشمنوں کے درمیاں
پِیرِدانا ذات میں جس کی جمال
کر گیا عہدِ محبت با جلال
بولے اے ناواقفِ رازِ حیات
غافِل از انجام و آغازِ حیات
اور مت اندیشہء اٖغیار کر
قوّتِ خوابیدہ کو بیدار کر
سنگ نے خود کو جونہی شیشہ کہا
بن گیا شیشہ ہی اور ٹکڑے ہُوا
راہرو گر خود کو سمجھا ناتواں
راہزن کو اُس نے دے دی اپنی جاں
آب و گِل سمجھے گا خود کو تا کُجا
شعلۂ طُور اپنی مٹی سے اُٹھا
تُو عزیزوں سے خفا رہتا ہے کیوں
دشمنوں کا تُو گِلہ کرتا ہے کیوں
سچ کہوں دشمن بھی تیرا دوست ہے
ہے تِرے بازار کی رونق یہ شے
جانتا ہو جو مقاماتِ خودی
فضلِ حق جانے جو ہو دشمن قوی
کِشتِ انساں کے لیے بادل عدو
اُس کے اِمکانات کو بخشے نمو
سنگِ رَہ پانی ہے گر ہے حوصلہ
سیل کو پست و بلندِ جادہ کیا
مِثلِ حیواں کھانا پینا کس لیے
گر نہ ہو محکم تو جینا کس لیے
گر خودی سے خود کو تُو محکم کرے
چاہے تو دنیا کو پھر برہم کرے
خود سے ہو آزاد گر چاہے فنا
خود میں ہو آباد گر چاہے بقا
موت غفلت ہے خودی سے مہرباں
تُو سمجھتا ہے فراقِ جسم و جاں
صورتِ یوسف خودی میں کر قیام
قید سے تختِ شہی تک کر خرام
گُم خودی میں ہو کے مردِ کار بن
مردِ حق بن حامِلِ اسرار بن
داستانیں کہہ کے راز افشا کروں
غنچے کو زورِ نفس سے وا کروں
’’ہے یہی بہتر کہ رازِ دِلبراں
دوسروں کے قصّے میں کیجیے بیاں ‘‘
پِیرِسنجر: خواجہ معین الدّین چشتیؒ جو حضرت ہجویریؒ کے مزار پر تشریف لائے تھے۔
دوست کے سہرے پہ کہتے ہیں سخنور سہرا
ہے ترے سہرے کا اے دوست مِرے سر سہرا
ہم کو ہر دولہا یہ کہتا ہُوا آیا ہے نظر
تاج کیا چیز ہے دیکھو مِرے سَر پر سہرا
کامیابی نہیں ہوتی کوئی اِس سے بڑھ کر
ہے سکندر وہی جس کا ہے مقدّر سہرا
تاکہ تاریکیِ شب مانعِ دیدار نہ ہو
لائے ہیں دھُوپ کے تاروں سے بنا کر سہرا
اِس میں بس جاتی ہے خوشبو جو حسیں یادوں کی
سُوکھ جانے پہ بھی رہتا ہے معطّر سہرا
چشمِ بد راہ نہ پائے گی کسی طور وحید
ہے دعاؤں کا تِرے سہرے کے اُوپر سہرا
اہلِ ذوق آئیں تو ہم اُن کو بتائیں باصِرؔ
دل سے کہتے ہیں تو پھر کہتے ہیں کیونکر سہرا
کوئی ہے۔۔۔۔۔؟
ہے کوئی؟
جو ایک ڈوبتے ہوئے شخص کی بات سُنے۔
دیکھو، مجھے مدد نہیں چاہیے۔
مجھے کسی سے کُچھ لینا نہیں
بلکہ کُچھ دینا ہے۔
میرے بہن بھائی مجھ سے دُور ہیں ،
میرے دوست اپنی اپنی جگہ خوش ہیں ،
میرا اپنے کسی رشتے دار سے کوئی رابطہ نہیں ۔
میرے پاس ایک خزانہ ہے
جو میں کسی کو دینا چاہتا ہوں ۔
اِسے حاصِل کرنا بہت آسان ہے۔
یہ خزانہ اُس کا ہو جائے گا
جو میری بات سُنے گا۔
کوئی ہے۔۔۔۔۔؟
ہے کوئی۔۔۔۔؟
کیوں نہیں ؟
آخر اِس میں مسئلہ کیا ہے؟
شاعری اور نثر
متضاد چیزیں نہیں
کہ اکٹھی نہ ہو سکیں ،
ضِدّین نہیں زوجین ہیں
جو ایک دوسرے کا رُتبہ بڑھاتی ہیں ،
ایک دوسرے کی آبیاری کرتی ہیں ۔
شاعری کیوں ؟
تاکہ بات اچھی لگے
اور یاد رہ جائے۔
اچھی نثر کے جملے بھی
موزوں اور رواں ہوتے ہیں ؛
یاد رہتے ہیں ۔
اچھی شاعری کی طرح یہ بھی
’’الفاظ کی بہترین ترتیب‘‘ کا نام ہے۔
نظم منظّم ضرور ہو
منظوم ہو نہ ہو۔
رہی نام کی بات،
کیا خوب کہا تھا کسی نے
اور سب جانتے ہیں کہ کس نے کہا تھا۔
نام میں کیا ہے؟ ہم جسے گُلاب کہتے ہیں
وہ کسی اور نام سے بھی ایسی ہی سہانی خوشبو دے گا۔
نثر اور نظم کا ملاپ
زوجین کا نکاح ہے،
بشرطیکہ نکاح خواں
دونوں سے بخوبی واقف ہو۔
ایک دن اِک مور سے کہنے لگی یہ مورنی:
خوش صَدا ہے ، خوش اَدا ہے، خوش قدم خوش رَنگ ہے،
اِس بیاباں تک مگر افسوس تُو محدود ہے۔
جب کبھی میں دیکھتی ہوں محو تجھ کو رقص میں ،
ایک خواہش بے طرح کرتی ہے مجھ کو بے قرار۔
کاش تجھ کو دیکھ سکتی آنکھ ہر ذی روح کی!
کاش مخلوقِ خدا ہو تیرے فن سے فیض یاب!
مور بولا: اے مِری ہم رقص میری ہم نوا،
تُو نہیں واقف کہ میں گھوما پھرا ہوں کس قدر،
کتنے جنگل میں نے جھانکے کتنی دیکھیں بستیاں ۔
اَن گنت آنکھوں نے دیکھا میرا فن میرا ہنر۔
داد لینا دیکھنے والوں سے تھا مقصد مِرا۔
اِس طرح گویا اُنہیں تسخیر کر لیتا تھا میں ۔
دیکھتا جب اُن کی آنکھوں میں ستائش کی چمک،
بس اُسی لمحے پَروں کو میرے لگ جاتے تھے پَر۔
پھر ہوا یوں ایک دن دورانِ رقص،
غالباَ شیشے کا ٹکڑا یا کوئی کنکر چُبھا۔
رقص تو کیا چلنے پھرنے سے ہُوا معذور میں
رفتہ رفتہ ہو گیا اہلِ جہاں سے دُور میں ۔
بعد مُدّت ایک دن پہنچا جو میں پنڈال میں ،
دیکھتا کیا ہوں کہ اک طاؤسِ خوش قد خوش جمال،
مجھ سے بہتر اور کتنا مختلف،
کر رہا تھا اپنے فن سے اہلِ مجلس کو نہال۔
دیر تک دیکھا کیا میں اُس کو اوروں کی طرح
یوں لگا جیسے وہ تھا میری جگہ میری طرح۔
کاروانِ زندگی رکتا نہیں
وقت کا دریا کبھی رکتا نہیں
آج میں ، کل کوئی ،پرسوں کوئی اور،
اپنا اپنا وقت اپنا اپنا دور۔
رقص کرتا ہوں اگر میں اب تو بس اپنے لیے
یا فقط تیرے لیے، تیرے لیے، تیرے لیے
اُس کے آنے پہ غزل کہتے ہیں
اُس کے جانے پہ غزل کہتے ہیں
دھُوپ نکلے تو غزل ہوتی ہے
اَبر چھانے پہ غزل کہتے ہیں
ناشتے پر ہے غزل کا سامان
رات کھانے پہ غزل کہتے ہیں
مُہر ہم اپنے تخلّص کی لیے
دانے دانے پہ غزل کہتے ہیں
دل اُجڑنے پہ بہت شعر ہوئے
گھر بَسانے پہ غزل کہتے ہیں
منہ دکھائی میں غزل کا تحفہ
رُخ چھُپانے پہ غزل کہتے ہیں
نہیں لازم کہ کوئی زخم لگے
سَر کھُجانے پہ غزل کہتے ہیں
ہے کچہری کبھی موضوعِ سخن
کبھی تھانے پہ غزل کہتے ہیں
انقلابی ہوئے جب سے شاعر
کارخانے پہ غزل کہتے ہیں
اِس قدر سہل غزل کہنا ہے
سانس آنے پہ غزل کہتے ہیں
بیٹھ کر کُنجِ قفس میں باصرؔ
آشیانے پہ غزل کہتے ہیں
وہ زمانے گئے جب تھی یہ غریبوں کی غذا
قدر و قیمت میں تو اب لحم سے بڑھ کر ہے دال
اِس میں ہے یارو سَراسَر مری عزّت افزائی
گھر کی مُرغی کو جو تم دال برابر سمجھو
اُس کو ہم سے گِلہ رہے گا ایسے ہی
کچھ کر لیں وہ خفا رہے گا ایسے ہی
اُسے ہنسانے کی ہر کوشش ہے بے سود
اُس کا منہ تو بنا رہے گا ایسے ہی
بابا، تم نے
اپنی آنے والی نسلوں کی خاطر
اپنے آبا کی قبروں کو چھوڑا تھا۔
ہم نے بھی ہجرت کی ہے
اپنی اولاد کے ’روشن‘ مستقبل کے لیے۔
پھُول کسی گلشن میں کھِلے
یا کسی کے آنگن کی کیاری میں ،
سڑک کے بیچ میں ، یا
فٹ پاتھ پہ لگے ہوئے پودے میں ،
اس کے رنگ وہی ہیں
اس کی مہک وہی۔
سُورج سُورج ہے
چاہے مشرق سے نکلے
چاہے مغرب سے۔
گو صُلح اور امن سے بڑھ کر نہیں ہے کچھ
موزوں نہیں پیام یہ ہر ایک کے لیے
دشمن کو ڈھیل دی تو ہُوا سَر پہ وہ سوار
کلہاڑی اپنے پاؤں پہ ہرگز نہ ماریے
بادل کی طرح سایہ بھی دیں غیر کو ضرور
لیکن کبھی گرجنا برسنا بھی چاہیے
جتنی بھیک مجھے درکار تھی
اس کے لیے میرا کشکول
بہت چھوٹا تھا۔
آخر میں نے توڑ دیا اپنا کشکول
اور دونوں ہاتھوں سے دامن پھیلایا۔
کچھ تو جہاں میں اہلِ سخاوت کی تعداد بڑھی
کچھ میں نے بھی سیکھے نئے نئے انداز،
دستِ سوال بڑھانے کے،
عرضِ تمنّا کرنے کے۔
میرا کام تو چل نِکلا۔
سوچ رہا ہوں لے آؤں
اِک عمدہ سا کشکول۔
صاحبِ عالی مقام
جس کا نہیں کوئی نام
اپنوں پہ حاکم ہے یہ
غیر کا ادنی غلام
وہ کہتے ہیں کہ جنت کی غلامی سے
کہیں بہتر ہے دوزخ کی شہنشاہی۔
میں کہتا ہوں وہ جنت ہی نہیں
جس میں غلامی ہو،
اگرچہ بادشاہت اک نشانی ہے جہنّم کی
جہانِ تازہ مِرے دم قدم سے پیدا ہو
بہشت ارض پہ اُس کے کرم سے پیدا ہو
خوشی کی صُبح شبِ تارِ غم سے پیدا ہو
سکون وسوسہء بیش و کم سے پیدا ہو
زبانِ تیشہ سے ایسے ہو کچھ بیانِ حُسن
اَذانِ عشق دہانِ صنم سے پیدا ہو
نظامِ کہنہ اگر چاہیے حیاتِ نَو
یہ وقت ہے کہ تُو میرے قلم سے پیدا ہو
شجر سے کٹ کے جو بے جان ہو گئی تھی شاخ
قلم بنی تو وہ دوبارہ ہو گئی زندہ
شبِ سیہ سے زیادہ سیہ سیاہی سے
تمام عالمِ تاریک ہو گیا روشن
پہلی آواز:
آؤ لکھو پڑھو
تاکہ بہتر طریقے سے خدمت کرو
مُلک اور قوم کی۔
خواندگی خواندگی ورنہ پسماندگی!
دوسری آواز:
اِتنا پڑھ لِکھ کے بھی
میری حالت وہی،
آج اِس کی تو کل اُس کی دہلیز پر
منتظر، ملتجی،
خواندگی!
اِس پڑھائی لِکھائی سے کیا فائدہ
جو سکھائے فقط ایسی تحریر
آغاز جس کا جناب و حضور
انتہا تابعداری کا اک غیر مشروط پیمان
اور پیشگی شکریہ
جانے کس بات کا
کل کی بات ہے
کتنے شوق سے میں یہ نظم پڑھا کرتا تھا!
میں نوعُمر تھا،
پیِری خود سے صدیوں دُور نظر آتی تھی۔
اب میں پیِری کی دہلیز پہ آ پہنچا ہوں ،
بچپن اور جوانی مجھ کو بالکل یاد نہیں ہیں
جیسے ان اَدوار سے میں گزرا ہی نہیں ۔
مِری اچھی وجیہہ،
میں تجھ سے خوش ہوں اِتنا
کہ اکثر سوچتا ہوں ،
اگر تجھ کو زمیں پر بھیجنے سے پہلے،
خالق مجھ سے کہتا
کہ چن لے اِن ہزاروں لاکھوں بچوں میں سے
اِک اپنے لیے،
تو میں تجھے ہی منتخب کرتا۔
میں خوش قسمت ہوں کتنا!
دعا گو ہوں
سدا جیتی رہے
اور ایسی ہی اچھی رہے تُو!
جب تک
میری ماں زندہ تھی ،
میں بچّہ تھا۔
مہرباں آج ہوئے مجھ پہ امامِ شبیرؑ
صبرِایّوبؑ میں ہے ضربِ علیؑ کا سا وصف
تیغ کی طرح چمکتی ہے نیامِ شبیرؑ
جائے سجدہ میں ملیں جادۂ جنّت کے سراغ
دل میں تیرے جو اُتر جائے پیامِ شبیرؑ
اہلِ ایمان کی ہر صبح ہے صبحِ عاشور
ان کی ہر شام کا عنوان ہے شامِ شبیرؑ
وقت پڑنے پہ کہیں شمر کے ہمراہ نہ ہوں
ویسے کہتے تو ہیں ہم خود کو غلامِ شبیرؑ
میرے حصّے میں بھی ہوتی یہ حیاتِ جاوید
نامۂ رشک ہے یہ خِضرؑ بنامِ شبیرؑ
آبِ زمزم کی طرح سہل نہیں اِس کا حصول
جامِ کوثر کے لیے شرط ہے جامِ شبیرؑ
شرط ہے راہبری تا بہ شہادت باصرؔ
محض ورثے میں ملا کس کو مقامِ شبیرؑ
تجھ سے ہی مرے مالک اِس نے حوصلہ پایا
ٹھوکروں سے رستے کی خود کو جو بچا پایا
زندگی میں جنت کا اُس نے در کھُلا پایا
حرف حرف کا تیرے ذرّہ ذرّہ ہے شاہد
جو بھی کچھ کہا ہم نے نقش بَر ہوا پایا
اُس کی راہ پر باصرؔ آ گئے جو ہم آخِر
جس قدر گنوایا تھا اُس سے دس گُنا پایا