اُس کے روپ کے آگے پانی بھرتے ہیں دن رات
اُس کی جوانی کے مُنہ لگتا وقت کی کیا اوقات
ہوش ٹھکانے عشق کے آئیں جب وہ لے انگڑائی
چشمِ حیرت بڑھتا دیکھے حسن کو دو دو ہات
پچھلے پہر وہ رات کو اُس کے ہنسنے کا انداز
روح کو بھائے جیسے سوکھی مٹّی کو برسات
چشم زدن میں ساری دنیا محوِ رقص لگی
اُس نے آہستہ سے کہی جب ایک قیامت بات
ہنستی آنکھیں کھِلتا چہرہ اور کھَنَک آواز
عشق نے اُس کے پاؤں میں رکھ دی خوشیوں کی سوغات
حسن دیالُو ہے دے جس کو جتنا چاہے دان
ضامنؔ! تُم نے کہہ دی یہ سوَ باتوں کی اِک بات
ضامن جعفری