ٹیگ کے محفوظات: ہات

اُس کی جوانی کے مُنہ لگتا وقت کی کیا اوقات

اُس کے روپ کے آگے پانی بھرتے ہیں دن رات
اُس کی جوانی کے مُنہ لگتا وقت کی کیا اوقات
ہوش ٹھکانے عشق کے آئیں جب وہ لے انگڑائی
چشمِ حیرت بڑھتا دیکھے حسن کو دو دو ہات
پچھلے پہر وہ رات کو اُس کے ہنسنے کا انداز
روح کو بھائے جیسے سوکھی مٹّی کو برسات
چشم زدن میں ساری دنیا محوِ رقص لگی
اُس نے آہستہ سے کہی جب ایک قیامت بات
ہنستی آنکھیں کھِلتا چہرہ اور کھَنَک آواز
عشق نے اُس کے پاؤں میں رکھ دی خوشیوں کی سوغات
حسن دیالُو ہے دے جس کو جتنا چاہے دان
ضامنؔ! تُم نے کہہ دی یہ سوَ باتوں کی اِک بات
ضامن جعفری

حَلف اُٹھایا مگر سچ نہ کہی کوئی بات

پڑھتا ہوں بے شک نماز بھول گیا میں صلات
حَلف اُٹھایا مگر سچ نہ کہی کوئی بات
خواہشِ زر کی سدا مجھ پہ حکومت رہی
جسم حرَم ہے مرا ذہن مگر سومنات
کتنا ہی ناپاک ہو مال سمیٹا ہُوا
پاک سمجھتا ہوں میں دے کے ذرا سی زکات
باندھوں کہ کھولوں اِنہیں رہتی ہے یہ کشمکش
اِس لیے گویا مجھے تُو نے دئیے تھے یہ ہات
مجھ سے ہیں بہتر شجر اور چرند و پرند
پاس تِرے حُکم کا کرتے ہیں دِن ہو کہ رات
اپنا کرَم کر کہ کُچھ اِن میں نَم و دَم پڑے
سوکھ چلا ہے قلم خشک ہوئی ہے دوات
باصر کاظمی

یہی بہتر کہ اُٹھا رکھوں ملاقات پہ بات

خط میں کیا کیا لکھوں یاد آتی ہے ہر بات پہ بات
یہی بہتر کہ اُٹھا رکھوں ملاقات پہ بات
رات کو کہتے ہیں کل بات کریں گے دن میں
دن گزر جائے تو سمجھو کہ گئی رات پہ بات
اپنی باتوں کے زمانے تو ہوا بُرد ہوئے
اب کیا کرتے ہیں ہم صورتِ حالات پہ بات
لوگ جب ملتے ہیں کہتے ہیں کوئی بات کرو
جیسے رکھی ہوئی ہوتی ہو مِرے ہات پہ بات
مِل نہ سکنے کے بہانے اُنہیں آتے ہیں بہت
ڈھونڈ لیتے ہیں کوئی ہم بھی ملاقات پہ بات
دوسروں کو بھی مزا سننے میں آئے باصرِؔ
اپنے آنسو کی نہیں کیجیے برسات پہ بات
باصر کاظمی

کیا جبر جتانے یہ سیہ رات رُکی ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 75
تھی غنچۂ دل میں جو وُہی بات رُکی ہے
کیا جبر جتانے یہ سیہ رات رُکی ہے
کب ریت کی دیوار سے سیلاب ہے ٹھٹکا
فریاد سے کب یورشِ آفات رُکی ہے
ژالہ سا ہر اِک برگ لپکتا ہے زمیں کو
کیسی یہ بھلا باغ میں برسات رُکی ہے
کچھ اور بھی مچلے گی ابھی بُعدِ سحر سے
پلکوں پہ ستاروں کی جو بارات رُکی ہے
عجلت میں رواں، مالِ غنیمت کو سنبھالے
کب موجِ ہوا پاس لئے پات، رُکی ہے
بوندوں نے قفس میں بھی یہی دی ہے تسلی
صیّاد سے کب بارشِ نغمات رُکی ہے
ماجدؔ یہ کرم ہم پہ کہاں موسمِ گل کا
کب ہاتھ میں لینے کو صبا ہات رُکی ہے
ماجد صدیقی

خیر سگالی کے اب وُہ جذبات کہاں

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 80
پت جھڑ کی رُت میں پیڑوں پر پات کہاں
خیر سگالی کے اب وُہ جذبات کہاں
لفظوں میں جھنکار کہاں اَب جذبوں کی
ہونٹوں پر جھرنوں جیسے نغمات کہاں
جھُول رہے ہیں جسکے تُند بہاؤ پر
دیکھیں لے کر جاتی ہے یہ رات کہاں
اپنی دُھن میں اُڑنے والا کیا جانے
کون کھڑا ہے اُس کی لگائے گھات کہاں
گُم سُم ہو جائیں مہمان کی دستک پر
گھر والوں کو لے آئے حالات کہاں
اُٹھے ہیں جو فرعونی دستاروں پر
کٹنے سے بچ سکتے ہیں وُہ ہات کہاں
ماجدؔ بنیاؤں سا حصّہ، جیون سے
لینے سے باز آتے ہیں صدمات کہاں
ماجد صدیقی

کوئی صورت ہو کہ برسات کٹے

پروین شاکر ۔ غزل نمبر 106
دن ٹھہر جائے ، مگر رات کٹے
کوئی صورت ہو کہ برسات کٹے
خوشبوئیں مجھ کو قلم کرتی گئیں
شاخ در شاخ مرے ہات کٹے
موجہ ءِ گُل ہے کہ تلوار کوئی
درمیاں سے ہی مناجات کٹے
حرف کیوں اپنے گنوائیں جا کر
بات سے پہلے جہاں بات کٹے
چاند! آ مِل کے منائیں یہ شب
آج کی رات ترے سات کٹے
پُورے انسانوں میں گُھس آئے ہیں
سر کٹے ، جسم کٹے ، ذات کٹے
پروین شاکر

کیا تجھے بھی کوئی یاد آتا ہے برسات کے ساتھ

پروین شاکر ۔ غزل نمبر 68
نم ہیں پلکیں تری اے موجِ ہَوا، رات کے ساتھ
کیا تجھے بھی کوئی یاد آتا ہے برسات کے ساتھ
روٹھنے اور منانے کی حدیں ملنے لگیں
چشم پوشی کے سلیقے تھے، شکایات کے ساتھ
تجھ کو کھو کر بھی رہوں ،خلوتِ جاں میں تیری
جیت پائی ہے محبت نے عجب،مات کے ساتھ
نیند لاتا ہُوا،پھر آنکھ کو دُکھ دیتا ہُوا
تجربے دونوں ہیں وابستہ ہات کے ساتھ
کبھی تنہائی سے محروم نہ رکھّا مُجھ کو
دوست ہمدرد ہے،کتنے ،مری ذات کے ساتھ
پروین شاکر

حسن قبول کیا ہو مناجات کے تئیں

دیوان اول غزل 330
تا پھونکیے نہ خرقۂ طامات کے تئیں
حسن قبول کیا ہو مناجات کے تئیں
کیفیتیں اٹھے ہیں یہ کب خانقاہ میں
بدنام کر رکھا ہے خرابات کے تئیں
ڈریے خرام ناز سے خوباں کے ہمنشیں
ٹھوکر سے یہ اٹھاتے ہیں آفات کے تئیں
ہم جانتے ہیں یا کہ دل آشنا زدہ
کہیے سو کس سے عشق کے حالات کے تئیں
خوبی کو اس کے ساعد سیمیں کی دیکھ کر
صورت گروں نے کھینچ رکھا ہات کے تئیں
اتنی بھی حرف ناشنوی غیر کے لیے
رکھ کان ٹک سنا بھی کرو بات کے تئیں
سید ہو یا چمار ہو اس جا وفا ہے شرط
کب عاشقی میں پوچھتے ہیں ذات کے تئیں
آخر کے یہ سلوک ہم اب تیرے دیکھ کر
کرتے ہیں یاد پہلی ملاقات کے تئیں
آنکھوں نے میر صاحب و قبلہ ورم کیا
حضرت بکا کیا نہ کرو رات کے تئیں
میر تقی میر

دن نہ پھر جائیں گے عشاق کے اک رات کے بیچ

دیوان اول غزل 192
کر نہ تاخیر تو اک شب کی ملاقات کے بیچ
دن نہ پھر جائیں گے عشاق کے اک رات کے بیچ
حرف زن مت ہو کسی سے تو کہ اے آفت شہر
جاتے رہتے ہیں ہزاروں کے سر اک بات کے بیچ
میری طاعت کو قبول آہ کہاں تک ہو گا
سبحہ اک ہاتھ میں ہے جام ہے اک ہات کے بیچ
سرمگیں چشم پہ اس شوخ کی زنہار نہ جا
ہے سیاہی مژہ میں وہ نگہ گھات کے بیچ
بیٹھیں ہم اس کے سگ کو کے برابر کیوں کر
کرتے ہیں ایسی معیشت تو مساوات کے بیچ
تاب و طاقت کو تو رخصت ہوئے مدت گذری
پندگو یوں ہی نہ کر اب خلل اوقات کے بیچ
زندگی کس کے بھروسے پہ محبت میں کروں
ایک دل غم زدہ ہے سو بھی ہے آفات کے بیچ
بے مے و مغبچہ اک دم نہ رہا تھا کہ رہا
اب تلک میر کا تکیہ ہے خرابات کے بیچ
میر تقی میر

نہ اب وہ ان کی بےرخی نہ اب وہ التفات ہے

مجید امجد ۔ غزل نمبر 22
یہ کیا عجیب راز ہے، سمجھ سکوں تو بات ہے
نہ اب وہ ان کی بےرخی نہ اب وہ التفات ہے
مری تباہیوں کا بھی فسانہ کیا فسانہ ہے
نہ بجلیوں کا تذکرہ نہ آشیاں کی بات ہے
یہ کیا سکوں ہے! اس سکوں میں کتنے اضطراب ہیں!
یہ کس کا میرے سینے پر خنک خنک سا ہات ہے
نگاہ میں بسا بسا، نگاہ سے بچا بچا
رکا رکا، کھچا کھچا، یہ کون میرے سات ہے؟
چراغ بجھ چکے، پتنگے جل چکے، سحر ہوئی
مگر ابھی مری جدائیوں کی رات رات ہے
مجید امجد

پانیوں کے جسم پر تھا یخ ہوا کا نرم ہات

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 4
سندھ کے دریا میں گم تھی سانولی مہتاب رات
پانیوں کے جسم پر تھا یخ ہوا کا نرم ہات
یہ خزاں زادے کہیں کیا گل رتوں کے مرثیے
یونہی بے مقصدکریں پرواز سارے خشک پات
کالے کاجل بادلو! روکو نہ اس کا راستہ
ایک دولہا آرہاہے لے لے تاروں کی برات
چاندنی! کیا روگ تھا اس موتیے کے پھول کو
رات بھر وہ جاگتا تھا سوچتا تھا کوئی بات
کوبرے کے روپ میں منصور بل کھاتی ہوئی
ساحلوں کو کاٹتی پھرتی ہے ندیا گھات گھات
منصور آفاق