لوگ مر جائیں بلا سے تیری
اسے خبر ہی نہ تھی، خاک کیمیا تھی مری
بِکنے کو ایک بھِیڑ ہے باہر لگی ہوئی
کیا ماتمِ گل تھا کہ صبا تک نہیں آئی
پھر بھی اپنے عہد پر قائم ہیں ہم اپنی جگہ
سو دوسروں کے لئے تجربے مثال کے رکھ
ہر ایک سنگِ سرِ راہ کو خدا نہ سمجھ
اب تو ہم بات بھی کرتے ہیں غم خوار کے ساتھ
دل بھی مانا نہیں کہ تجھ سے کہیں
مگر قرار سے دن کٹ رہے ہوں یوں بھی نہیں
کی عبادت بھی تو وہ، جس کی جزا کوئی نہیں
دوستی تو اداس کرتی نہیں
جانے کیا دور ہے، کیا لوگ ہیں، کیا کہتے ہیں
کسے کسے ہے یہ آزار چل کے دیکھتے ہیں
فراز اب ذرا لہجہ بدل کے دیکھتے ہیں
تو اس کے شہر میں کچھ دن ٹھہر کے دیکھتے ہیں
کوئی بھی خواب ہو تعبیر گھر کی دیکھتے ہیں
عجب سفر ہے کہ بس ہمسفر کو دیکھتے ہیں
حوصلے انتہا کے رکھتے ہیں
کہ دوستوں میں، کبھی دشمنوں میں ہوتے ہیں
مختلف ہو کے بھی سب زندگیاں ایک سی ہیں
کیا بات ہے سرکار بڑی دیر سے چپ ہیں
جس طرح آئینے چہروں کو ترس جاتے ہیں
وہ زخمۂ رگِ جاں توڑ کر نکلتے ہیں
ہم کہ تصویر بنے بس تجھے تکتے جاویں
میں سوچ ہی رہا تھا کہ دل نے کہا کہ میں
تو تو اس بستی سے خوش خوش چلا گیا، اور میں؟
تمام شہر لئے چھتریاں تھا رستے میں
اب کہ ڈوبا ہوں تو سوکھے ہوئے دریاؤں میں
جس طرح سوکھے ہوئے پھول کتابوں میں ملیں
کیوں نہ اے دوست ہم جدا ہو جائیں
مر جائیے جو ایسے میں تنہائیاں بھی ہوں
وہ کسی خوابِ گریزاں میں مِلا ہے سو کہاں
یاد کیا تجھ کو دلائیں ترا پیماں جاناں
سر بہ زانو ہے کوئی سر بہ گریباں جاناں
اب بھی میں چپ ہوں تو مجھ پر مرے اشعار پہ خاک
وہ چارہ گر تو ہے اس کو خیال جو بھی ہو
کسے بزم شوق میں لائیں ہم دل بے قرار کوئی تو ہو
اے جانِ جہاں یہ کوئی تم سا ہے کہ تم ہو
جسموں کو برف، خون کو پانی کوئی لکھو
جان اگر پیاری ہے پیارے مت لکھو
شہر میں آوازوں کا کال پڑا لوگو
بہت بڑا ہے سفر، تھوڑی دور ساتھ چلو
"جالب ہن گل مک گئی اے "، ہن جان نوں ہی خیرات کرو
میں کب کا جا چکا ہوں صدائیں مجھے نہ دو
اب ہو چلا یقیں کہ برے ہم ہیں دوستو
کہاں گیا ہے مرے شہر کے مسافر تو
زخم پھولوں کی طرح مہکیں گے پر دیکھے گا کون
چارہ گر روئینگے اور غمخوار بن جائیں گے ہم
یہ بھی بہت ہے، تجھ کو اگر بھول جائیں ہم
جیسا بھی حال ہو نگہِ یار پر نہ کھول
نہ تھے اتنے بھی دل آزار قاتل
پھِر بھی لادے تو کوئی دوست ہمارے کی مثال
گرچہ کہتے رہے مجھ سے میرے غم خوار کہ بس
جانے کس دیس گئے خواب ہمارے لے کر
دریدہ دامن و آشفتہ مو ہماری طرح
وگرنہ ترک تعلق کی صورتیں تھیں بہت
تو مری پہلی محبت تھی مرے آخری دوست
جبکہ خود پتھر کو بت، بت کو خدا میں نے کیا
کسی کے دھیان میں تم کھو گئے کیا
مسافر گھر کو واپس آ گئے کیا ؟
کہ تیری بات کی اور تیرا نام بھی نہ لیا
ہجر کی رات بام پر ماہِ تمام رکھ دیا
میں میزبان تھا مجھے مہمان کر دیا
کہیںزخم بیچ میں آ گئے کہیںشعر کوئی سنا دیا
آج کیا جانیے کیا یاد آیا
اک شعر بھی غزل میں اضافی نہیں کہا
جیسے اک فتنہ بیدار، رواں خواب میں تھا
مگر کچھ اور ہی انداز آج اس کا تھا
وہ میرے جھوٹ سے خوش تھا نہ سچ پہ راضی تھا
مدتوں کے بعد کوئی ہمسفر اچھا لگا
وقت کا کیا ہے، گزرتا ہے گزر جائے گا
جب اپنے طور یہی تھے تو کیا گلہ اس کا
بات کر تجھ پر گماں ہونے لگا تصویر کا
کوئی نامہ نہ ترے در بدروں تک پہنچا
اب کیا کہیں یہ قصہ پرانا بہت ہوا
یہ کیا کہ دل کو ہمیشہ اداس کر لانا
مجھے گماں بھی نہ ہو اور تم بدل جانا
قرعۂ فال مرے نام کا اکثر نکلا
وہی انداز ہے ظالم کا زمانے والا
تھی طلب کس کو مگر ابر کہاں جا برسا
اب ذہن میں نہیں ہے پرنام تھا بھلا سا
اتنا بھی کہا نہ مان میرا
وہ تو کوئی دریا لے آیا دریا بھی سیلاب بھرا
اگر چلا ہے تو جو کچھ مجھے دیا لے جا
فراز اور اسے حال دل سنانے جا
کاش منزل سے بھی آگے کوئی رستا جاتا
بڑا اداس سماں ہے قریب آ جاؤ
آ پھر سے مجھے چھوڑ کے جانے کے لئے آ
وہ قحطِ عشق کہ دشوار ہو گیا جینا
یقیں سرشت شاعری از خواجہ رضیؔ حیدر
میں گزشتہ دو ماہ سے عرفان ستار کی شاعری پر گفتگو کے لیے ذہن کو راغب کرنے کی کوشش کر رہا ہوں مگر ذہن ہے کہ وہ ہنوز یکسوئی سے محروم ہے۔ عرفان ستار کا مصرعہ لکھنے کا ڈھب، خیال کی بندش، موضوعات کا تنوع، اشاراتی معنویت، محسوساتی نظام، الفاظ کا انتخاب اور پھر ان الفاظ سے ایک آہنگ کی نموداری جیسے متعدد خیالات میرے ذہن میں تشکیلی مراحل طے کرتے رہے اور میں خوش ہوتا رہا کہ جس وقت بھی قلم کاغذ لے کر بیٹھوں گا مضمون لکھ دوں گا۔ مگر اب قلم کاغذ ہاتھ میں آیا تو معلوم ہوا کہ اظہار کے حوالے سے انگلیوں میں سناٹا منجمد اور ذہن میں خیالات کم آواز ہیں۔ یہ صورتحال میرے ساتھ پہلی مرتبہ پیش آئی ہے ورنہ میری ذود نویسی تو بطور طعنہ میرے احباب میں معروف رہی ہے۔ میں سوچتا ہوں کہ ایسا کیوں ہے؟ کیا عرفان ستار سے میری قریبی رفاقت کی بنا پر ایسا ہے اور کیا اس رفاقت نے اظہار کے لمحے میں عرفانؔ ستار کی شاعرانہ صلاحیتوں کی کہکشاں کو میری نگاہ میں دھندلا دیا ہے؟ کیا ان کی شاعری کے بانکپن تک رسائی کے لیے دوری کی شرط قابلِ اعتنا ہے؟ میں سوالات کے ایک ہجوم میں سر نہوڑائے بیٹھا ہوا سوچ رہا ہوں کہ میں کیا لکھوں اور لکھوں بھی تو کہاں سے آغاز کروں۔
گزشہ آٹھ سال کے دوران میں نے عرفان ستار کی جو شاعری پڑھی اور سنی ہے اور جس شاعری کو میں کسی نوجوان شاعر کی موثر و تہہ دار شاعری قرار دیتا رہا ہوں کیا وہ میرے اندر اپنی کوئی توضیح نہیں رکھتی، یا پھر کیا میری اظہاری صلاحیت محجوب ہو گئی ہے اور میں اپنی مبادیات میں معطل ہو گیا ہوں۔ مگر پھر مجھے خیال آتا ہے کہ ایسا نہیں ہے کیونکہ ادھر گزشتہ پندرہ دن کے اندر میں نے مذہبی، تاریخی اور ادبی موضوعات پر کئی مضامین لکھے ہیں اور ان مضامین کے اندازِ تحریر و مندرجات کے حوالے سے تحسین آمیز جملے بھی مجھ تک پہنچے ہیں۔ بس عرفانؔ ستار کے باب میں میرا قلم بھی خاموش ہے اور ذہن بھی۔۔۔۔۔۔میں خود سے بارہا سوال کرتا ہوں کہ کہیں میں نے عجلت میں عرفانؔ ستار کی شاعری کے بارے میں اپنی پسندیدگی کا اظہار تو نہیں کیا تھا، یا عرفانؔ ستار سے رفاقت کی بنا پر کسی مصلحت آثار لمحے نے میری صداقت کو میرے اظہار سے بے دخل تو نہیں کر دیا تھا۔۔۔۔۔۔ان سوالات کے جواب میں ہر مرتبہ غزل کے کئی ثقہ اور صاحبِ طرز شعراء کے چہرے میری آنکھوں میں لَو دینے لگتے ہیں۔
جونؔ ایلیا، محبؔ عارفی، احمد ہمدانیؔ، قمرؔ جمیل، رساؔ چغتائی، انور شعورؔ، عرفانؔ صدیقی، خالدؔ احمد، احمد جاویدؔ، اور اجملؔ سراج کے تحسین آمیز جملے میری سماعت میں گونجنے لگتے ہیں۔
نگارؔ صہبائی، ڈاکٹر اسلمؔ فرخّی، نسیم درانی، عبداللہ جاویدؔ، قیصرؔ عالم، آصف فرخی، اور عتیقؔ جیلانی کی عرفانؔ ستار کے اشعار کی پذیرائی میں داد و تحسین مجھے اپنی طرف متوجہ کرتی ہے اور میں مطمئن ہو جاتا ہوں کہ میں نے عرفانؔ ستار کے شاعر ہونے کی پہلے مرحلے میں جو تصدیق کی تھی وہ گماں زاد نہیں بلکہ یقیں سرشت تھی۔ پھر ہوا یہ کہ عرفان ستار نے بھی اپنی تخلیقی ذہانت کو شعر کے حوالے سے اس قدر فروح دیا کہ بعض بے تربیت اساتذہ کی مفخّر و مکلّف گردنیں اپنے ہی شانوں پر جھول گئیں۔ مجھے یاد آیا کہ جونؔ ایلیا نے پہلی ملاقات میں جب عرفانؔ ستار سے اپنی مخصوص ترنگ میں کہا تھا کہ ’’ میاں وہ شخص شاعر ہو ہی نہیں سکتا جسے جونؔ ایلیا کے اشعار یاد نہ ہوں‘‘ تو عرفانؔ ستار نے ایک سانس میں ان کے تیس پینتیس شعر سنا دیے تھے اور انہوں نے جواباً کہا تھا کہ ’’ میاں عرفان۔ اب اگر تم اپنے شعر نہ بھی سنائو تو ہم کہہ رہے ہیں کہ تم شاعر ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیونکہ تم نے بہترین تلفّظ کے ساتھ ہمیں ہمارے وہ اشعار سنائے ہیں جو ہمیں خود بہت پسند ہیں۔‘‘
میرؔ و غالبؔ اور فیضؔ و فراقؔ تو اپنی جگہ عرفانؔ ستار نے ہر اُس شاعر کا مطالعہ کیاہے جو رحجان ساز ہے یا جس میں انفرادی لب و لہجے کا کوئی امکان موجود ہے۔یہی نہیں، عرفانؔ نے اردو کے قدیم و جدید نثری ادب کے علاوہ مذہبیات اور مغربی ادب و فلسفے کے مطالعے سے بھی اپنی فکری توسیع کی ہے جس کی بنا پر عرفانؔ ستار کی غزل اپنے موضوعات اور اظہار میں ایک امتزاجی مزاج لیے ہوئے ہے۔ صنفی تقاضوں اور فنی لوازم کا پاس و لحاظ رکھتے ہوئے عرفانؔ نے نہ صرف موضوعات کی مخفی ندرت کو تلاش کیا بلکہ ایک پُر تاثیر محسوساتی اور اسلوبی وضع بھی اختراع کی ہے۔ اُن کا مصرعہ لکھنے کا طور عامیانہ نہیں خلّاقانہ ہے یہی وجہ ہے کہ اُن کے ہاں لفظ مقصود بالذّات نہیں بلکہ معنویت اور متخیلہ کی ایک بلیغ ترسیل کا وسیلہ ہیں۔ یہ ایک کُھلی ہوئی حقیقت ہے کہ جدیدیت کی پیروی میں بیسوی صدی کے نصف آخر کے دوران غزل میں جو تجربات ہوئے اُن میں خیال سے زیادہ لفظ پر انحصار کیا گیا جس کی بنا پر بوجھل اور مہمل شاعری کو رواج ملا اور غزل کسی حد تک نہ صرف ذود فہمی کی صلاحیت سے محروم ہوئی بلکہ قاری سے اُس کا ابلاغی رابطہ بھی مجروح ہوا۔
عرفانؔ ستار نے بیسوی صدی کے آخری عشرہ کے نصف آخر میں جب باقاعدہ شعر گوئی کا آغاز کیا تو اُن سے ایک سیڑھی اوپر جو غزل لکھی جا رہی تھی وہ کسی حد تک اپنی لفظیات میں بھی اور موضوعات میں بھی نہ صرف غیر شخصی تھی بلکہ الفاظ کا برتائو بھی غیر تخلیقی اور اتباعی تھا۔ چنانچہ عرفانؔ ستار نے اپنا قبلہ درست رکھنے کے لیے سوچتی ہوئی استفہامیہ زمینوں کے اہتمام کے ساتھ مترنم بحروں میں اپنی ہمہ جہت تخلیقی ذہانت کو بھی اس قدر صیقل کیا کہ اُن کی شاعری ایک خلّاقابہ حُسن سے ہمکنار ہو گئی۔ اسی خلّاقانہ حُسن کے سہارے وہ اپنے قاری کو انسانی احساسات کی ایک ایسی فضا میں لے جاتے ہیں جہاں شاعر کا ہر تجربہ قاری کے تجربے کا غماز ہو جاتا ہے۔ عرفانؔ ستار کے محسوساتی نظام کی اساس محبت کی لا حاصلی پر ہے ۔ لا حاصلی اپنی تاثیر میں چونکہ الم انگیز ہوتی ہے اس لیے اکثر شعراء اس الم انگیزی کو ہی اپنے تجربے کی اساس بنا لیتے ہیں۔ لیکن جن شعراء کے یہاں تخلیقی ذہانت متخیلہ سے جڑی ہوئی ہوتی ہے وہ اس الم انگیزی میں نشاط کا ایک ایسا پیوند لگا دیتے ہیں کہ یہ الم انگیزی جہاں ایک عمومی تجربہ بن کر ظاہر ہوتی ہے وہاں رسائی میں نا رسائی کا احساس شاعر کی اپنی ذات میں دو آتشہ ہو جاتا ہے۔
سنا رہے ہو ہمیں کس نگاہِ ناز کے غم
ہم اُس کے سامنے ہوتے تو پوچھتی بھی نہیں
تعلق کی یہی صورت رہے گی کیا ہمیشہ
میں اب اُکتا چکا ہوں تیری اس وارفتگی سے
عجیب ہے یہ مری لا تعلقی جیسے
جو کر رہا ہوں بسر میری زندگی ہی نہ ہو
مسلسل قرب نے کیسا بدل ڈالا ہے تجھ کو
وہی لہجہ، وہی ناز و ادا ہوتے ہوئے بھی
حُسن تیرا بہت جاں فزا ہی سہی، خوش نظر ہی سہی خوش ادا ہی سہی
سُن مگر دل رُبا تیرا نغمہ سرا، دیکھتا ہی نہیں سوچتا بھی تو ہے
کبھی تو چند لمحے خود سے بھی باہر بسر کر لوں
ذرا دیکھوں تو وحشت کی فراوانی کہاں تک ہے
جانے ہے کس کی اداسی مری وحشت کی شریک
مجھ کو معلوم نہیں کون یہاں تھا پہلے
بے خوابی کے سائے میں جب دو آنکھیں بے عکس ہوئیں
خاموشی نے وحشت کی تصویر اٹھا کر رقص کیا
یا مجھ سے گزاری نہ گئی عمرِ گریزاں
یا عمرِ گریزاں سے گزارا نہ گیا میں
ہجر کا عیش کہاں ہے مری قسمت میں کہ اب
زندگی رنج بہ اندازِ دگر کھینچتی ہے
تعلقات کے برزخ میں عین ممکن ہے
ذرا سا دُکھ وہ مجھے دے تو میں ترا ہو جاؤں
خرد کی سادگی دیکھو کہ ظاہر حالتوں سے
مری وحشت کا اندازہ لگایا جا رہا ہے
جدید انسان چونکہ حال اور مستقبل سے جڑ کر چلتا ہے، اس لیے وہ ماضی کے کسی تجربے کو اپنا مطمعِ نظر نہیں بناتا۔ وہ کسی انتہائی تجربے اور کسی دیرپا کیفیت کی تلاش و جستجو میں رہتا ہے۔ وجود اور وجدان کی یکجائی اُس کا مسئلہ ہے۔ ایک لازوال تلاش و جستجو کی دائمی تشنگی اس کی فکر کو سیراب کرتی اور اسے حاصل سے انحراف پر آمادہ کرتی رہتی ہے۔ عرفانؔ ستار کی شاعری میں یہ انحراف ایک نامیاتی وحدت کے طور پر ہی موجود نہیں بلکہ ان کی تخلیقی ذہانت کا سر چشمہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اُن کی ایسی لفظیات، تلازمے اور استعارے جوکسی بالذّات کیفیت کی نمائندگی کرتے ہیں ان کی اپنی معنویت میں قلبِ ماہیت ہو گئی ہے اور یہ اسی قلبِ ماہیت کا نتیجہ ہے کہ عرفانؔ ستار کے ہاں یکسانیت سے بے زاری کا اعلان اپنی کلیت میں ’’ تکرارِ ساعت‘‘ کے طور پر ظاہر ہوا ہے۔ عرفانؔ ستار تغیر اور تبدل کے محاصل سے آشنا رہتے ہوئے تغیر و تبدل کے بطون میں موجود ایک تسلسل ، اور اس تسلسل میں موجود مطلق یکسانیت کے محرکات و مدرکات پر غور کرتے ہیں اور پھر ایک بے زاری سے دوچار ہو جاتے ہیں۔ یہ بے زاری زندگی کے مختلف شعبوں میں مروج اور نافذ عوامل اور اصولوں سے بیک وقت ہے ورنہ ’’ تکرارِ ساعت‘‘ کا اعلان بے معنی نظر آنے لگے گا۔ یہاں ایک وضاحت ضروری ہے کہ عرفانؔ ستار کی یہ بے زاری کسی نفسیاتی پیچیدگی
یا خالصتاً شکستِ شیشۂ دل کی پیداوار نہیں ہے۔ بلکہ جدید ترین صورتحال میں شخصی پھیلائو اور معدوم احساس کی بازیافت کا انعام ہے۔
ترا ہونا تو ہے بس ایک صورت کا اضافہ
ترے ہونے سے کیا تیری کمی کم ہو گئی ہے
اظہار میں جدید ہونا اور احساس میں جدید ہونا دو مختلف حالتیں ہیں، لیکن عرفانؔ ستار اپنی تخلیقی ذہانت کی بنا پر اظہار میں بھی جدید ہیں اور احساس میں بھی۔ یہی وجہ ہے کہ وہ رسائی سے نا رسائی اور نا رسائی سے رسائی کشید کرتے رہتے ہیں۔ ’’تکرارِ ساعت‘‘ کی ترکیب اگرچہ بظاہر اپنی ہیت میں طبیعات کی کوئی اصطلاح معلوم دیتی ہے مگر عرفانؔ ستار کے محسوسات میں یہ ترکیب نہ صرف مابعدالطبیعات کی نمائندہ ہو گئی ہے بلکہ عرفانؔ ستار کے سماجی اور روحانی شعور کا ایک شعری اظہار ہے۔
میرے سوا بھی کوئی گرفتار مجھ میں ہے
یا پھر مرا وجود ہی بیزار مجھ میں ہے
یہاں تکرارِ ساعت کے سوا کیا رہ گیا ہے
مسلسل ایک حالت کے سوا کیا رہ گیا ہے
بہت ممکن ہے کچھ دن میں اسے ہم ترک کر دیں
تمہارا قرب عادت کے سوا کیا رہ گیا ہے
سرِ صحرائے یقیں شہرِ گماں چاہتے ہیں
ہم کسی شے کو بھی موجود کہاں چاہتے ہیں
گماں میں بھی گماں لگتی ہے اب تو زندگی میری
نظر آتا ہے اب وہ خواب میں بھی خواب سا مجھ کو
اپنا دل برباد کیا تو پھر یہ گھر آباد ہوا
پہلے میں اک عرش نشیں تھا اب پاتال میں زندہ ہوں
ڈرا رہا ہے مسلسل یہی سوال مجھے
گزار دیں گے یونہی کیا یہ ماہ و سال مجھے
زندگی کی نئی وسعتوں کا ادراک اور اپنے تخلیقی احساس میں اُن کا تجربہ جہاں کسی تخلیق کار کی محویت میں اضافہ کرتا ہے، وہاں اُس کے اندر ایسا استفہامی اضطراب پیدا کرتا ہے جو اُس کی باطنی کیفیات کو ہی زیر و زبر نہیں کرتا بلکہ اُسے ایک ایسی نوعی یکسانیت سے دوچار کردیتا ہے کہ وہ ظاہری و باطنی تمام اشیاء اور معاملات کی طرف سے ابتدائی مرحلے پر تشکیک کا شکار ہوتا ہے اور ثانوی طور پر ان سے بے زاری کا اعلان کرنے لگتا ہے۔ ایسی صورت میں خود مرکزیت بھی پیدا ہوتی ہے اور خود پسندی بھی۔ جن افراد کی تخلیقی ذہانت کُند ہوتی ہے وہ اس صورتحال سے خود رحمی میں بھی مبتلا ہو جاتے ہیں جو بلا شبہ ایک مرض ہے۔ جیسا میں نے پہلے عرض کیا کہ عرفانؔ ستار نے اپنی تخلیقی ذہانت کو مطالعے اور تفکر سے صیقل کیا ہے لہذا اُن کے ہاں شاعرانہ بے ساختگی و پُر کاری آگئی ہے اور انہوں نے استفہامی اضطراب کو اپنی تخلیقی ذہانت سے اس طرح جوڑ دیا ہے کہ اُن کی شاعری میں زندگی کی آگہی اور اُس کا تصرف ایک مزاج کے طور پر نمایاں ہو گیا ہے۔
میں کہیں ہوں کہ نہیں ہوں وہ کبھی تھا کہ نہ تھا
تو ہی کہہ دے یہ سخن بے سروپا ہے کہ نہیں
میں تو وارفتگی ٔ شوق میں جاتا ہوں ادھر
نہیں معلوم وہ آغوش بھی وا ہے کہ نہیں
سبھی زندہ ہیں اور سب کی طرح میں بھی ہوں زندہ
مگر جیسے کہیں سے زندگی کم ہو گئی ہے
یہ بے سبب نہیں سودا خلا نوردی کا
مسافرانِ عدم رہ گزر کو دیکھتے ہیں
سُن جاناں ہم ترکِ تعلق اور کسی دن کر لیں گے
آج تجھے بھی عجلت سی ہے ہم بھی کچھ رنجیدہ ہیں
تیری ہر دلیل بہت بجا، مگر انتظار بھی تا کجا
ذرا سوچ تو مرے رازداں، میری آدھی عمر گزر گئی
میں تجھ سے ساتھ بھی تو عمر بھر کا چاہتا تھا
سو اب تجھ سے گلہ بھی عمر بھر کا ہو گیا ہے
ہمارے ساتھ جب تک درد کی دھڑکن رہے گی
ترے پہلو میں ہونے کا گماں باقی رہے گا
کھینچ رہی تھی کوئی شے، ہم کو ہر ایک سمت سے
گردشِ بے مدار میں، عمر گزار دی گئی
ہمیں بھی روز جگاتی تھی آ کے ایک مہک
چمن میں کوئی ہمارا بھی تھا صبا کر کے
اس وقت رات کا ایک بج رہا ہے اور میں شام سے عرفانؔ ستار کی غزلوں پر مشتمل مجموعے کے مسودّے کو نہ صرف کئی بار پڑھ چکا ہوں بلکہ اب تو عرفانؔ ستار کے بہت سے شعر مجھے ازبر ہو چکے ہیں۔ یہی نہیں عرفان ستار کے بعض ایسے اشعار جو پہلی سماعت کے دوران اپنی معنویت مجھ پر واضح نہیں کر سکے تھے اب میری تفہیمی صلاحیت پر زیرِ الفاظ مسکرارہے ہیں اور میں کاغذ قلم سامنے رکھے ہوئے سوچ رہا ہوں کہ کیا میں کوئی مضمون لکھ کر عرفانؔ ستار کی شاعری پر کسی تشریحی گفتگو کا حق ادا کرسکوں گا ؟
عرفانؔ کے شعر کی اندرونی اور بیرونی ساخت از احمد جاویدؔ
جدید زندگی اپنی گرہ میں اگر تخلیقی اعتبار سے کوئی قابلِ قدر چیز رکھتی ہے تو وہ احساس کی complexityہے جس میں اتنی طاقت بہرحال ہے کہ ذہن کو ان حقائق سے مانوس رکھتی ہے جو اس کی حدودِ رسائی سے بالکل باہر چلے گئے ہیں۔ مجھے جدید شاعروں سے ایک مستقل شکایت یہ ہے کہ ان لوگوں کا طرزِ احساس انسانی نہیں، یعنی اس میں معنی پن غائب ہے۔ عرفانؔ ستار کے ہاں کہیں کہیں مہارت کی کمی تو نظر آتی ہے لیکن طرزِ احساس کی سطح پر وہ بعض ایسی خصوصیات رکھتے ہیں جو کسی نہایت اچھے شاعر کے لیے بھی موجبِ فخر ہو سکتی ہے۔ ان کی غزل میں محسوسات کی حسّی بناوٹ اور معنوی ساخت جس طرح یکجا ہو کر اظہار پاتی ہے، نئے غزل گو اسے تصور کرنے کی بھی صلاحیت نہیں رکھتے۔ ان کے احساس کا contentتجربی سے زیادہ ذہنی ہے اور ذہنی سے زیادہ تجربی۔ یہی ان کی غزل کا بنیادی جوہر ہے۔ مجھے بعض اوقات حیرت ہوتی ہے کہ یہ شخص قریب قریب ہر احساس یعنی خوشی غم وغیرہ کو کیفیت میں بھی نیا بنا دیتا ہے اور معنویت میں بھی۔ ان کے ہاں کوئی احساس متعین، ٹھوس اور سطحی نہیں ہے، اور نہ وہ کوئی طے شدہ اور یک رُخا مطلب رکھتا ہے جبکہ دوسری طرف ان کا اُسلوب بالکل وہی ہے جوpolicy matterپر بیان دینے والوں کا ہوتا ہے۔ صاف، دو ٹوک اور پتھریلا۔ ان دو متضاد انتہائوں کو اکٹھا کر لینا، ظاہر ہے خاصی تعجب انگیز بات ہے۔ ٹھوس اسلوب اور سیّال کیفیت اور معنویت۔ یہ ہے عرفان کے شعر کی اندرونی اور بیرونی ساخت۔
عرفان ستار بنیادی طور پر شدّتِ احساس کے شاعر ہیں۔ احساس کی شدّت اگر ذہن کی شمولیت سے عاری ہو تو شعر میں کم از کم دو چیزیں داخل نہیں ہو سکتیں۔ ایک لفظ کے بیشتر امکانات کو برتنے کا سلیقہ اور دوسرے تخیل۔ عرفان ستار کی غزل میں یہ دونوں چیزیں تمام و کمال موجود ہیں۔
میں
’’ دلِ ناداں تجھے ہوا کیا ہے ؟ میاں اس مصرعہ پر گرہ لگائو۔‘‘
یہ الفاظ تھے ڈی جے سائنس کالج کے صدر شعبۂ اردو شاہد عشقی کے۔ میں اپنی غزل کالج کے سالانہ مجلے ’’ مخزن‘‘ میں اشاعت کی غرض سے اُن کے پاس لے کر پہنچا تھا ۔ جب میں اس زمین میں ایک مطلع اور دو شعر انہیں سنا چکا تو کہنے لگے ۔ ’’ بھئی بچے اِدھر اُدھر سے چیزیں لا کر دے دیتے ہیں اس لیے مجھے یہ احتیاطی تدابیر اختیار کرنا پڑتی ہیں۔ ‘‘ انہوں نے غزل رکھ لی اور میں اُٹھ کر چلا آیا۔ آج بیس برس گزرنے کے بعد بھی یہی ایک مصرعہ ہے جس کے حصار سے باہر میں کوشش کے باوجود نہیں نکل پایا۔ دل ہے کہ کسی پل ٹھہرتا ہی نہیں۔ اضطراب ہے کہ ہر پل میرے وجود کو گھیرے رہتا ہے۔ ذمہ داریوں کے باب میں بظاہر چاق و چوبند نظر آنے والا ’میں‘ اندر سے ایک بالکل مختلف انسان ہوں، جو شاید آج پہلی بار خود سے باہر منکشف ہو رہا ہے۔ مگر یہ انکشاف بھی کتنا واضح ہو سکتا ہے جب کہ میں خود بھی نہیں جانتا کہ ’’ دلِ ناداں تجھے ہوا کیا ہے ‘‘
بچپن ہی سے تنہائی میری مجبوری نہیں ترجیح رہی ہے ۔ مطالعہ اور تفکر ، یہ دو میری محبوب ترین مصروفیات ہیں ۔ پڑھتے پڑھتے سوچنے لگنا اور سوچتے سوچتے کچھ اٹھا کر پڑھنا شروع کر دینا دو ایسی کیفیات ہیں جن سے میری شخصیت اور شاعری کا سارا تار و پود بُنا گیا ہے۔ کسی بھی بات کو بلا جواز و تحقیق مان لینا میری سرشت میں نہیں ہے۔ میں جانتا ہوں کہ میں کوئی پہلا انسان نہیں جو یہ سرشت لے کر پیدا ہوا ہو۔ جو سوالات میرے ذہن میں ہیں، وہ مجھ سے پہلے بھی اُٹھائے جاتے رہے ہیں۔ مگر مجھے اس سے کیا؟ میرے لیے تو میرے سوالات یکسر اچھوتے اور نئے ہیں اور ان کے جوابات کی تلاش میں سرگرداں رہنا سراسر میرا ذاتی مسئلہ ہے۔ ہر سوچنے والے انسان کے لیے یہ ایک ذاتی مسئلہ ہے۔ اس لیے کہ ان سوالات کے کوئی standard جوابات نہیں ہوتے۔ کائنات کے اسرار و رموز ہر انسان پر الگ طرح سے منکشف ہوتے ہیں۔ میں اس بات کا بھی قائل ہوں کہ یہ سوال اتنے بڑے ہیں کہ ان کا قائم رہنا ان کے جوابات حاصل کرنے سے زیادہ اہم ہے۔ یہ نہ رہیں، تو انسان اور کائنات کے درمیان تعلق محضphysical نوعیت کا ہو کر رہ جائے۔ خیر یہ ایک الگ بحث ہے جو اس مجموعے کے قارئین کے لیے شاید کسی دلچسپی کا سامان مہیا نہ کر سکے، اس لیے اس سے گریز کرکے میں کچھ اور باتوں کی طرف آتا ہوں۔
شاعری میرے نزدیک کوئی آفاقی حیثیت کا حامل ہنر ہے، نہ ہی نصف پیغمبری! میں اسے صرف فنونِ لطیفہ کی ایک خوبصورت ترین صنف اور اظہار کا ایک پُر تاثیر ذریعہ مانتا ہوں۔ یہ اور بات ہے کہ اس صنف میں الفاظ کی موجودگی اسے پیچیدہ اور گہرے افکار کی ترسیل کے لیے دیگر اصناف کے مقابلے میں زیادہ موثر بنا دیتی ہے۔ اس نظریے کے تحت میرے نزدیک شاعری کی بنیادی ضرورت شعریت ہے، اور شعریت عبارت ہے اظہار کے حُسن سے۔ اگر کسی شعر کو پڑھ کر یا سن کر میرے احساس میں ایک خوبصورت ہیجان برپا نہیں ہوتا تو مجھے اس شعر میں بیان کردہ بڑے خیال سے کوئی خوشی حاصل نہیں ہوتی۔ میرے نزدیک مضمون کے نیا یا پرانا ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا ۔ اُس مضمون کا بیان کتنے شاعرانہ انداز سے ہوا ہے، یہ بات اس شعر کے اچھا یا بُرا ہونے، اور اس سے بھی قبل اُس کے شعر ہونے یا نہ ہونے کا تعین کرتی ہے۔ مجھے اکثر یہ شکایت رہتی ہے کہ شاعری پر تبصرہ کرتے ہوئے عام طور پر نقاد اور قارئین فوری طور پر خیال تک جست لگا دیتے ہیں اور اس بات سے کوئی سروکار نہیں رکھتے کہ جس موزوں خیال کو وہ شعر سمجھ رہے ہیں اس میں شاعرانہ طرزِ اظہار ہے بھی یا نہیں؟ ولیؔ اور میرؔ سے آج اجملؔ سراج تک جن شعراء کے سینکڑوں اشعار مجھے ازبر ہیں، اُن میں یہ شاعرانہ طرزِ احساس ہی مجھے ایک ایسا common factorنظر آتا ہے جو کسی شعر کو میرے حافظے اور احساس کا حصہ بناتا ہے۔
میں نے شاعری کی باقاعدہ تربیت حاصل نہیں کی اور نہ ہی میں اردو زبان سے گہری واقفیت کا دعوٰع کر سکتا ہوں۔ہاں لفظ اور تکنیک کے سلسلے میں ایک واضح conciousnessکا میں دعویدار ضرور ہوں اور میرے نزدیک یہ ذہنی بیداری کسی بھی شاعر کے احساس اور اظہار کے ارتقاء میں ایک بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔ میں بہت کم شعر کہتا ہوں۔ اس لیے کہ مجھے inspirationعام طور پر کسی تجربے سے حاصل ہوتی ہے اور وہ بھی اس وقت جب وہ تجربہ میرے احساس کا حصہ بن جاتا ہے۔ اسی وجہ سے میری شعر گوئی کم گوئی کی حدود سے باہر نہیں نکل پاتی۔
میری شاعری میرے ہونے کے جواز کی تلاشِ مسلسل کے دوران میرے اظہار کا ایک ذریعہ ہے۔ میری شاعری میں موجود کوئی بھی کیفیت شاید نئی نہ ہو۔ اس لیے کہ اس کائنات میں کچھ بھی نیا نہیں۔ خود انسان کون سا نیا ہے؟ مگر اس انسان کا ذہن گزرتے ہوئے وقت کے ساتھ مسلسل ارتقاء پذیر ہے۔ صلاحیت کے اعتبار سے نہیں بلکہ چیزوں کو perceiveکرنے کے اعتبار سے۔ اس لیے طرزِ احساس و اظہار ہی کسی شاعر کے اپنے عہد سے وابستگی کا اعلان ہوتا ہے۔ جدید حسّیت کی طویل بحث کے ضمن میں مجھے صرف اتنا ہی کہنا ہے۔
کسی بھی شاعر کی طرح حُسن میرے احساس کا اہم ترین جزوہے۔ مگر یہ حُسن اگر انسانی ہے تو اسے میرے احساس تک رسائی حاصل کرنے سے پہلے مجھے ذہنی سطح پر متاثر کرنا لازمی ہے۔ ذہانت میرے نزدیک حسین ہونے کی بنیادی شرائط میں شامل ہے۔ کند ذہنی اور روایتی طرزِ فکر مجھ سے زیادہ دیر برداشت نہیں ہوتی اور تعلق کی سطح پر اپنے اس رویے کی وجہ سے میں اکثر مشکلات کا شکار رہتا ہوں۔ دل ہی دل میں شرمندہ بھی ہوتا ہوں کہ بعض اوقات کچھ لوگ اپنے پُرخلوص طرزِ عمل کے باوجود میرے نزدیک نہیں آپاتے۔ یہ میری ایک ایسی مجبوری ہے جس کے ہاتھوں میں اپنے آپ کو بالکل لاچار پاتا ہوں۔
میری خوش قسمتی کہ اس مشکل رویے کے باوجود میرے گرد ایسے لوگ ہمیشہ رہے جو میرے مزاج کی ہر کیفیت کو خوش دلی کے ساتھ برداشت کرتے رہے۔ ان لوگوں میں سرِ فہرست میرے عزیز دوست اور خوبصورت آرٹسٹ یوسف تنویر کا نام ہے۔ ان کا دفتر میری ذہنی پناہ گاہ ہے۔ میری بیشتر غزلیں وہیں بیٹھ کر تخلیق ہوئیں اور انہوں نے میرے اولین سامع ہونے کا فرض بھی نہایت محبت کے ساتھ انجام دیا۔ میرے احباب میں مجھے شاعر تسلیم کرنے والے پہلے شخص عبدالرزاق معرفانی ہیں۔ انہوں نے اپنے احباب کی خوش ذوق نشستوں میں مجھ سے شعر سنے اور میری حوصلہ افزائی کی۔ ادبی دُنیا میں جن لوگوں نے میری رہنمائی و پذیرائی کی ان میں جونؔ ایلیا کو میں آج بھی اپنا استاد تسلیم کرتا ہوں۔ میری شاعری کی تمام تر خامیاں میری اپنی ناکامی پر دلیل ہیں۔
مگر اس سے قطع نظر میرے شعری ذوق کی تشکیل میں اولاً جونؔ صاحب کی شاعری کے مطالعے، اور بعد ازاں ان سے شعری مسائل پر بالمشافہ گفتگو کا بہت اہم کردار رہا۔ خواجہ رضیؔ حیدر میرے دوست ہی نہیں ، میرے بڑے بھائی کی جگہ ہیں۔ شعری سفر میں وہ میرے سمت نما ہیں اور میرے نزدیک اُن کی پسندیدگی میری کسی غزل کے باقی رہنے یا تلف کر دیے جانے کا سب سے بڑا جواز ہے۔ قیصرؔ عالم کی پُر مغز گفتگو نے ہمشہ میرے ذہن میں اکثر اٹھنے والی سوچوں کو channelize کرنے میں مدد دی جس کا شاید اُنہیں خود بھی علم نہیں، مگر جس کے لیے میں اُن کا ممنون ہوں۔ محترم نسیم درّانی، احمد ندیمؔ قاسمی، شمس الرحمن فاروقی، مبین مرزا، خالدؔ احمداور آصف فرخّی کا میں تہہِ دل سے ممنون ہوں کہ انہوں نے میری غزلوں کو اپنے موقر جرائد میں شائع کر کے میرے بحیثیت شاعر تعارف میں اہم کردار ادا کیا۔ انور شعورؔ، محبؔ عارفی، نگارؔ صہبائی، رساؔ چغتائی، احمد جاویدؔ، احمد نویدؔ، ڈاکٹراسلم فرخی، ڈاکٹر آصف فرخی، صابر وسیمؔ، احسن ؔ سلیم، لیاقت علی عاصمؔ، اجملؔ سراج، عزمؔ بہزاد، جاذبؔ ضیائی، سعیدؔ آغا، انور جاوید ہاشمیؔ، قیصرؔ عالم، انیق احمد، شادابؔ احسانی، معراج صاحب، میر حامد علی کانپوری(مرحوم)، سلمان علوی، قمر اللہ دتہ، احمد جمال اور محمد علی احسان کے نام ان لوگوں میں شامل ہیں جن کی رفاقت سے گزر کر میں یہ شعری مجموعہ آپ کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں۔
نہیں معلوم کہ ابھی میری سوچ کو وقت کے اس بے کراں سمندر کے کتنے اُتارچڑھائو دیکھنا ہیں۔ کیسے کیسے تیز دھار لمحے میرے خیمۂ خواب کی طنابوں کے درپے ہیں۔ اس کٹھن سفر میں ’’ تکرارِ ساعت‘‘ میرے لیے کسی ایسے لمحے کا انتظار ہے جو مجھ پر مجھے ظاہر کر دے، اور میرے وجود کو ایک دائمی اثبات سے ہم آہنگ کر دے۔ آئیے اور اس خاص ساعت کے انتظار میں میرے ساتھ ہو جائیں۔
عرفانؔ ستار