ٹیگ کے محفوظات: سازی

وہ میرے جھوٹ سے خوش تھا نہ سچ پہ راضی تھا

احمد فراز ۔ غزل نمبر 21
شعار اپنا ہی جس کا بہانہ سازی تھا
وہ میرے جھوٹ سے خوش تھا نہ سچ پہ راضی تھا
تمام عمر اسی کے رہے یہ کیا کم ہے
بلا سے عشق حقیقی نہ تھا مجازی تھا
یہ دو دلوں کی قرابت بڑی گواہی ہے
سو کیا ہوا کوئی شاہد نہ تھا نہ قاضی تھا
نہ طنز کر کے کئی بار کہہ چکا تجھ سے
وہ میری پہلی محبت تو میرا ماضی تھا
نہ دوست یار، نہ ناصح، نہ نامہ بر، نہ رقیب
بلا کشانِ محبت سے کون راضی تھا
یہ گل شدہ سی جو شمعیں دکھائی دیتی ہیں
ہنر ان آنکھوں کا آگے ستارہ سازی تھا
عدو کے سامنے ہتھیار ڈالنے والا
کوئی فراز سا کافر نہیں تھا غازی تھا
احمد فراز

آہ اس دشمن نے یہ عاشق نوازی خوب کی

دیوان ششم غزل 1904
دوستی نے تو ہماری جاں گدازی خوب کی
آہ اس دشمن نے یہ عاشق نوازی خوب کی
گور پر آیا سمند ناز کو جولاں کیے
اس سپاہی زادے نے کیا ترک تازی خوب کی
عاشقوں کی خستگی بدحالی کی پروا نہیں
اے سراپا ناز تونے بے نیازی خوب کی
تنگ چولی نے تو مارا تنگ درزی سے ہمیں
خاک بھی برباد کی دامن درازی خوب کی
سان مارا اور کشتوں میں مرے کشتے کو بھی
اس کشندے لڑکے نے بے امتیازی خوب کی
چھوڑ کر معمورئہ دنیا کو جنگل جا بسے
ہم جہان آب و گل میں خانہ سازی خوب کی
کھیل لڑکوں کا سمجھ کر چاہ کو آخر گئے
میر پیری میں تو تم نے عشق بازی خوب کی
میر تقی میر

جگر پہ زخم ہے اس کی زباں درازی کا

دیوان اول غزل 139
گلہ نہیں ہے ہمیں اپنی جاں گدازی کا
جگر پہ زخم ہے اس کی زباں درازی کا
سمند ناز نے اس کے جہاں کیا پامال
وہی ہے اب بھی اسے شوق ترک تازی کا
ستم ہیں قہر ہیں لونڈے شراب خانے کے
اتار لیتے ہیں عمامہ ہر نمازی کا
الٹ پلٹ مری آہ سحر کی کیا ہے کم
اگر خیال تمھیں ہووے نیزہ بازی کا
بتائو ہم سے کوئی آن تم سے کیا بگڑی
نہیں ہے تم کو سلیقہ زمانہ سازی کا
خدا کو کام تو سونپے ہیں میں نے سب لیکن
رہے ہے خوف مجھے واں کی بے نیازی کا
چلو ہو راہ موافق کہے مخالف کے
طریق چھوڑ دیا تم نے دل نوازی کا
کسو کی بات نے آگے مرے نہ پایا رنگ
دلوں میں نقش ہے میری سخن طرازی کا
بسان خاک ہو پامال راہ خلق اے میر
رکھے ہے دل میں اگر قصد سرفرازی کا
میر تقی میر