ٹیگ کے محفوظات: ادھارے

جانے کس دیس گئے خواب ہمارے لے کر

احمد فراز ۔ غزل نمبر 36
وہ جو آ جاتے تھے آنکھوں میں‌ستارے لے کر
جانے کس دیس گئے خواب ہمارے لے کر
چھاؤں میں بیٹھنے والے ہی تو سب سے پہلے
پیڑ گرتا ہے تو آ جاتے ہیں آرے لے کر
وہ جو آسودۂ ساحل ہیں انہیں کیا معلوم
اب کے موج آئی تو پلٹے گی کنارے لے کر
ایسا لگتا ہے کہ ہر موسم ہجراں میں بہار
ہونٹ رکھ دیتی ہے شاخوں پہ تمہارے لے کر
شہر والوں کو کہاں یاد ہے وہ خواب فروش
پھرتا رہتا تھا جو گلیوں میں غبارے لے کر
نقدِ جاں صرف ہوا کلفتِ ہستی میں‌ فراز
اب جو زندہ ہیں‌تو کچھ سانس ادھارے لے کر
احمد فراز