جس کو دیکھا اُسی کو چوم لیا
دیکھ دنیائے جسم و جاں سے دور
دیکھیے شامِ غم کہاں لے جائے
پھر زور سے قہقہہ لگاؤ
کم سخن محفلِ سخن میں آ
وہ شعلے شفق تا شفق اب کہاں
دل یونہی انتظار کرتا ہے
ایک عالم رہا ہے آنکھوں میں
میں نے دیکھا ہی نہیں رات کا چاند
پھر صبا لائی ہے پیمانۂ گل
آنکھ رکھتا ہے تو پہچان مجھے
منظور ہمیں تباہ رہنا
کیوں ہے یہ شور بپا غور سے سن
گزر گئی جرسِ گل اُداس کر کے مجھے
جیسے سپنا کوئی اُداس اُداس
خوفِ بے مہریٔ خزاں بھی ہے
وہ آئیں نہ آئیں مگر اُمید نہ ہارو
اُداسیوں کا مُداوا نہ کر سکے تو بھی
آنکھ کہتی ہے ترے دل میں طلب ہے کوئی
یہیں ملے گا مجھے میرا انجمن آرا
وہ تری یاد تھی اب یاد آیا
بلا رہی ہے ابھی تک وہ دلنشیں آواز
بہار ایک خلش سی دلوں میں چھوڑ گئی
شبِ فراق ہے یا تیری جلوہ آرائی
کبھی ہماری بات بھی سن
منزلوں چھا گئی خامشی سو رہو سو رہو
زخم دل کے ہوے ہرے کچھ تو
کہ تجھ سے مل کے بھی ترا خیال آ کے رہ گیا
یاد آئی تری انگشتِ حنائی مجھ کو
بھرپور رہی بہار کچھ دیر
ہوتا اگر اختیار کچھ دیر
اک نئی آس کا پہلو نکلا
ہم سے روٹھا ہے بے سبب کوئی
لوگ رخصت ہوے کب یاد نہیں
کنج قفس میں سن لیتے ہیں بھولی بسری باتوں کو
بہت دنوں سے ترا انتظار بھی تو نہیں
گزری جو ترے ساتھ وہ شب یاد رہے گی
تری آواز اب تک آ رہی ہے
دلّی اب کے ایسی اُجڑی گھر گھر پھیلا سوگ
نگاہِ شوق کس منزل سے گزری
وہ دیکھا ہے جہاں دیکھا نہ جائے
حسن کی سادگی میں کیا کچھ تھا
لب پہ مشکل سے تری بات آئی
تم اپنی سی کر گزرے
بوئے گل ہے سراغ میں گل کے
کیا پھول کھلے ہیں منہ اندھیرے
مرا علاج مرے چارہ گر کے پاس نہیں
یوں بھی جشنِ طرب منائے گئے
بس غمِ دوراں ہارے ہم
بہاروں میں اب کی نئے گل کھلے
تو مجھ سے میں تجھ سے دُور
آج کی رات نہ چھیڑ یہ بات
خدا کرے کوئی تیرے سوا نہ پہچانے
قصہ تھا دراز کھو گئے ہم
مگر یہ لوگ پاگل ہو گئے ہیں
میری حسرت تری صورت سے نمایاں ہی سہی
اپنی دنیا دیکھ ذرا
جاگ مسافر اب تو جاگ
لوگ تھے رفتگاں میں کیا کیا کچھ
پھر آئے گا دورِ صبحگاہی
اِک بار جو آئے پھر نہ آئے
تیرا یہ رنگ اے شبِ ہجراں نہ تھا کبھی
برہم ہوئی ہے یوں بھی طبیعت کبھی کبھی
اعتبارِ نغمہ ۔ دیباچہ
یہ ان دنوں کی بات ہے جب شاعری فنکار کے لئے باعث ننگ نہیں تھی۔ گیت گانے والا گاؤں گاؤں، نگری نگری گھومتا پھرتا تھا اور باٹ باٹ پہ عشق و محبت، دلیری، شجاعت، سیر و تفریح اور انجانے دیسوں کے نغمے گاتا تھا۔ اس کے ہاتھ میں کوئی بہت ہی سیدھا سادہ اور رس بھرا ساز ہوتا تھا جس کی دھن پر اس کے سارے گیت ڈھلتے تھے اور گلے سے باہر نکلتے ہی دلوں میں اتر جاتے تھے۔ وہ جن لوگوں میں بیٹھ جاتا ان کے دلوں کا تار ملا لیتا۔ جانی پہچانی دھرتی کا ہر گوشہ اور دھڑکنوں کے سارے مسکن اس کی جاگیر تھے۔ پاس پڑوس کے سارے باسی اس کی آواز پر فریفتہ تھے۔ کہنے والا ایک تھا اور سننے والے ہزاروں۔ اور ان ہزاروں کے دل اس کی مٹھی میں تھے۔ جدھر اس کی آواز پھرتی تھی ادھر اس کا سامعہ کھنچ کر چلا جاتا تھا۔ شاعر اور اس کے سامعین میں اگر کوئی حد فاصل تھی تو یہی کہ وہ کہہ سکتا تھا اور یہ سن سکتے تھے۔ یہ دیوارِ چین بھی جذب و کیف کے مراحل میں ٹوٹتی پھوٹتی رہتی تھی۔ سننے والوں کی دھڑکنیں اس کی آواز میں شامل تھیں، ان کے ذہن کی ساری لرزشیں اس کے ساز میں جاگ اٹھتی تھیں۔ اس ‘من تو شدم تو من شدی’ کے مراحل میں کوئی فاصلے نہ تھے جو مٹ نہیں سکتے تھے اور کوئی روک نہیں تھی جو ان کو جدا کر سکتی تھی۔ اسے پہچاننے والے اسے بھاٹ کہتے تھے، موجد اور خالق کا نام دیتے تھے اور اس کے ذریعے دھرتی کا رابطہ آسمانوں سے جا ملتا تھا۔
مگر دھرتی پر حکومت کرنے والوں کو اس کی فرماں روائی پہ، اس کی گرفت اور اثر و نفوز پہ حسد ہوا۔ وہ بھی دلوں پر حکومت کرنا چاہتے تھے۔ دونوں کا ملاپ ہوا مگر منافقت اور جلاپے کی بنیادوں پر۔ اس مقصدی مصالحت سے حکمرانوں نے اسے کہا کہ ہماری دلیری، ہمارے عشق، ہماری سیر و سیاحت اور تفریح کے ترانے گاؤ۔ بھاٹ اب بھٹئی کرنے پر اتر آیا۔ شاید اسے یہ غرور ہو گیا تھا کہ میں جب بھی اور جیسے بھی چاہوں سننے والوں کو رجھا سکتا ہوں، ان کا رخ پھیر سکتا ہوں۔ درباری سخن ساز نے فنِ سخن رانی ایجاد کیا، دلوں میں گھر کرنے کے اصول وضع کئے اور جو چیز کبھی اپنے آپ ہو جایا کرتی تھی اُسے اپنی مرضی سے پیدا کرنے کے لیے طریقے سلیقے ترتیب دئے۔ مگر آہستہ آہستہ وہ ان ہتھ پھیریوں کا شکار ہو کے رہ گیا۔ شطرنج کی چالوں نے اسے ایسا الجھایا کہ وہ انہی میں پھنس کر رہ گیا اور سننے والے اس کی آواز سے دور ہوتے گئے۔ حتٰی کہ ایک دن اس کا نغمہ اپنی ہی گونج میں کھو کے رہ گیا۔ اس نے آس پاس دیکھا، سوا اس کے مربی اور ممدوح کے کوئی بھی نہ تھا جو اس کی فنی مہارت اور چابک دستی کی داد دے سکتا، کوئی بھی نہ تھا جو اس کی پروازِ خیال کے ساتھ ذرا بھی اڑان دکھا سکتا۔ اس نے دیکھا کہ اس کی تعریفیں کتنی کھوکھلی، اس کے نغمہ کتنے بے روح اور اس کی آواز کتنی بے سوز ہو کے رہ گئی۔ آخر اس کی مدح سرائی کا طلسم بھی ٹوٹنے لگا اور وہ دربار سے بھاگ نکلا۔
اس نے پھر سننے والے تلاش کرنے شروع کئے۔ لوگ جمع کئے اور محفلیں جمائیں مگر اب کوئی اسے پہچانتا نہیں تھا۔ اور اس کے منبع و ماخذ سے آشنائی نہیں رکھتا تھا۔ لوگ واہ واہ کرتے تھے، سبحان اللہ کے ڈونگرے برساتے تھے مگر وہ لرزشیں اور وہ دھڑکنیں کہاں تھیں؟ آواز و سامعہ کے وہ پرانے عہد و پیماں کہاں تھے؟ چشم و گوش کی وہ آشتی کہاں تھی؟ اب تو لوگ اس کا وطن پوچھتے تھے، اس کا مذاق اڑاتے تھے۔ آخر تحسینِ نا شناس نے اسے خود پسند و خود نگر بنا دیا۔ اب وہ لوگوں سے بھاگتا تھا، ان کی داد و تحسین پہ جھلّاتا تھا۔ لعل و گہر اگلنے کے بعد کچھ بلبلے بطور انعام ملیں تو ان کی کیا بساط ہے؟ اب تو ممدوح کی مربیانہ شفقت بھی اسے میسر نہیں تھی۔ وہ پرانی مصلحت کسی مقصد سے ہی سہی مگر خود اس کے لیے ایک حد تک آرام و سکون کا باعث تو بنتی تھی، روحانی کوفت کے باوجود پہلے جسمانی آسائش کے تو سارے سامان مہیا تھے۔ زمانے کی قدر نا شناسی، سننے والوں کی بے اعتنائی کو دیکھ کے اس نے بھی روپ بدلا اور چیخنا چلانا شروع کر دیا تاکہ لوگ راغب ہوں۔ اس کی فریادوں میں بدلتی دنیا کا الم بھی شامل تھا اور اس کا اپنا المیہ بھی جا بہ جا نمایاں ہو رہا تھا۔
بدلتی ہوئی دنیا کا عکس اور شاعری میں شاعر کا فرار ایک بہانا تھا جو روحِ عصر اپنے اظہار کے لئے ڈھونڈ رہی تھی۔ "نالہ گویا گردش سیارہ کی آواز ہے!” وہ آسمان و زمین کے بگڑتے ہوئے رنگ روپ اپنی آواز میں سمو کے کہہ رہا تھا : دیکھو! اور سننے والے اپنی اپنی حدوں میں محبوس اس کی آواز کو سن سن ڈرے جا رہے تھے۔ شاعر نے اس باولے کا بھیس بنا رکھا تھا جو ہر گاؤں کے گردا گرد چکر کاٹتا ہے اور آنے والے حادثوں کی خبر دیتا ہے۔ سب جانتے ہیں کہ یہ پگلا گاؤں سے کتنا پیار کرتا ہے اور گاؤں والوں کے دُکھ میں کس محبت سے اشک فشانی کرتا ہے۔ مگر اس کے با وجود اس پگلے کی پیغمبری ایک بڑا نا گوار اور دل دوز فریضہ ہے جس کو ادا کرنا کسی محفل پرست، دنیا دار اور مصلحت آشنا سخن ساز کے بس کی بات نہیں:
یونہی گر روتا رہا غالبؔ تو اے اہلِ جہاں
دیکھنا ان بستیوں کو تم کہ ویراں ہو گئیں
شعر کی ماہیت پر سوچنے والے عموماً شاعر کو بھول جاتے ہیں۔ اس شاعر کو جو بھیس بدل بدل کر ہر زمانے میں اپنے جلوے اپنے ساتھ لے کر آتا رہا ہے۔ ہمارے زمانے کا شاعر کئی اعتبار سے اکیلا ہے۔ شعر پڑھنے والے ہیں تو شاعری کے بارے میں سوچنے والے اس کے ساتھ نہ چل سکتے ہیں نہ چلنا چاہتے ہیں۔ کہنے والے کی آزمائش اس سے بڑی کیا ہوگی کہ با وجود ان حد بندیوں اور فاصلوں کے اس کی فریادیں دیواریں چیر کے کانوں تک پہنچتی ہیں یا نہیں۔ اس دورِ ابتلا میں نالہ آفرینی محض ایک دیوانے کی پکار ہی نہیں، کئی دلوں کی دھڑکنیں اس کی ہم ساز و ہم نوا ہو سکتی ہیں اگر مصلحت آشنا ذہن ان دھڑکنوں کو ملفوف نہ کر دے۔ آج کا شاعر نگری نگری گھومنے والے شاعر اور درباری سخن ساز دونوں کے مختلف مزاجوں کو ملا کے ایک نئی آواز پیدا کرنا چاہتا ہے، جو اس کے اپنے گرد و پیش اور اس کے اپنے آسمان و زمین سے بھی علاقہ رکھتی ہو۔ طباعت کی مدد سے چشم و گوش تک پہنچنے والا پرانے نغمہ پیرا کی بے ساختگی کو سخن ساز کی مہارتِ فن سے اس طرح باہم پیوستہ کرنا چاہتا ہے کہ دونوں یک جان ہو جائیں ۔ اسی طرح اس کی آواز میں ایک ٹھہراؤ، گرفت اور قوت و تیزی کا اجتماع ہوگا۔ اگر وہ اس شک و شبہ میں ڈوب جائے کہ اس کی آواز کہیں خلاؤں میں کھو کے رہ جائے گی تو شاید اسے بلند کرنے کا ہی کوئی جواز نہ رہ جائے۔
نالہ آفرینی جبر و اختیار کا ایک انوکھا کرشمہ ہے۔ قاری کے دل میں جگہ پانا بھی محض اس کے بس کی بات نہیں۔ آواز قوی ہو تو دور دور پہنچ جاتی ہے، نحیف ہو تو حلق سے باہر ہی نہیں نکلنے پاتی، صرف پہنچنے کی بات نہیں، دیکھنا یہ ہے کہ ایک آواز ہزاروں کی آواز بھی بن سکتی ہے یا نہیں۔ محض ہزاروں کا ذکر کرنے یا ہزاروں کو مخاطب کرنے سے ان کی دھڑکنیں اور لرزشیں ساز کی ہم نوائی نہیں کر سکتیں۔
نالہ محفلیں برہم نہیں کرتا۔ نالہ آفریں پہ جو کچھ بھی گزری ہو، اس کی فریاد فن کے سانچے میں ڈھل کر نغمہ نہیں بن سکتی تو محض چیخ پکار ہے۔
(ناصر کاظمی)
لاہور
پہلا دن،
پھول کو کھِلنے سے مطلب ہے چمن کوئی بھی ہو ۔ انتظار حسین
‘پھول کو کھِلنے سے مطلب ہے چمن کوئی بھی ہو’
رفتہ رفتہ اس شاعری کی قبولیت اِس درجہ پر ہوئی کہ ملکہ برطانیہ کی جانب سے ایم بی ای کا اعزاز برائے ادبی خدمات بحیثیت شاعر سے نوازا گیا۔ اور یہ کہ اردو شاعر کی حیثیت سے یہ تو پہلی ہی مرتبہ ہوا ورنہ لندن سے رجوع کرنے والے جنوبی ایشیاسے جو ادیب ہوئے ہیںانہوں نے انگریزی میں لکھااور بکر پرائز ایسے انعامات سے نوازے گئے ۔ مگر باصِر نے اردو میں لکھ کر ایم بی ای کا اعزاز حاصل کیا۔ اِس طرح انہیں دوسرے اعزاز پانے والوں سے ایک امتیازی حیثیت حاصل ہو گئی۔ مگر اتنا ہی نہیں، تخصیص کے ساتھ باصِرکی بعض غزلوں کوعجب رنگ سے قبولیت حاصل ہوئی۔ ان کی ایک غزل جس کا مطلع اِس طرح سے ہے:
زخم تمہارے بھر جائیں گے تھوڑی دیر لگے گی
بے صبری سے کام لیا تو اور بھی دیر لگے گی
اس کا انگریزی میں ترجمہ کر کے اور ساتھ میں اردو متن کو بھی ہسپتالوں میں نصب کیاگیا۔ ایک اور شعر یوں ہے:
دل لگا لیتے ہیں اہلِ دل وطن کوئی بھی ہو
پھول کو کھِلنے سے مطلب ہے چمن کوئی بھی ہو
یہ شعر انگریزی میں ترجمہ کے ساتھ سلائو کے میکنزی سکوائر میں نصب کیاگیا۔اصل میں باصِر کے یہاں بیچ بیچ میں ایسے اشعار ملتے ہیں جو ضرب المثل بننے کی صلاحیت کی غمازی کرتے ہیں۔ اول الذکر شعر ایسا ہی شعر ہے۔ ایسے اور شعر بھی باصِر کے ہاں نظر آئیں گے۔ مثلاً یہ شعر دیکھئے:
رات کو کاٹنا ہوتا ہے سحر ہونے تک
بیج کو چاہیے کچھ وقت شجر ہونے تک
دوسرا مصرع ضرب المثل والی شان رکھتا ہے۔ کیا مضائقہ ہے کہ چند ایک شعر اِدھر اُدھر سے نقل کر دیں۔ پتہ تو چلے کہ اِس شاعر نے اپنے رنگ میں کیا کیا گل کھلائے ہیں۔
غم برگد کا گھنا درخت
خوشیاں ننھے ننھے پھول
اہلِ دل آگئے کہاں سے کہاں
دیکھیے جائیں گے یہاں سے کہاں
باصرؔ کی شخصیت بھی عجب ہے کہ اس میں ہیں
کچھ خوبیاں خراب کچھ اچھی خرابیاں
مشکل ہوا پتنگ کو اپنی سنبھالنا
اُلجھی ہوئی ہے ڈور سے کوئی دگاڑ سی
(اقتباس از ’بندگی نامہ‘، روزنامہ ایکسپریس، 24 اپریل، 2015)
پہلے پدر خراب ہوا پھر پسر خراب ۔ انتظار حسین
باصِر کاظمی کے طور سے کچھ اندازہ ہوتا ہے کہ اسے پتہ چل گیا تھا کہ نامور باپ کا بیٹا ہونا کچھ ایسا سہل نہیں ہے۔ اس میں بے شک کچھ سہولتیں بھی ہیں مگر بیٹا اگر سمجھدار ہے تو اسے مشکلات کا بھی ادراک ہونا چاہیے:
اِس کاروبارِ عشق میں ایسی ہے کیا کشش
پہلے پدر خراب ہوا پھر پسر خراب
فخر اِس حد تک تو بجا ہے مگر فخر کے ساتھ یہ بھی پتا ہونا چاہیے:
بنانی پڑتی ہے ہر شخص کو جگہ اپنی
ملے اگرچہ بظاہر بنی بنائی جگہ
دُور اندیش بیٹے تویہ کرتے ہیں کہ باپ والے رستے ہی سے کنی کاٹ جاتے ہیں، اپنا راستہ اس سے ہٹ کر نکالتے ہیں۔ باصِر نے یہ دُور اندیشی نہیں دکھائی۔ شاعری میں قدم رکھا اور بیچ کھیت غزل کہنی شروع کردی۔ ہاں ایک عقلمندی کی، باپ کے شہر کو چھوڑ دیا۔ اِس شہر کے بارے میں تو شاعر نے پہلے ہی خبردار کر دیا تھا کہ
ع گلی گلی مِری یاد بچھی ہے پیارے رستہ دیکھ کے چل
دوسرے شاعروں کے ہاں بے شک شہر کی کوئی معنویت نہ ہو، ناصِر کی شاعری میں تو ہے اور بہت ہے۔ اِس شہر کو چھوڑنے کا مطلب تھا، ناصِر کے ہاں شعری تجربے کا جو رنگ تھا اُس سے ایک آبرومندانہ فاصلہ قائم کرنا۔اِس نئے مجموعے کو دیکھ کراحساس ہوا کہ باصِر کی نقل مکانی کا تجربہ ضائع نہیں گیا۔اِس سے اُس کے شعری تجربے کا رنگ کچھ بدل گیا ہے۔ویسے یہ کوئی لازم تو نہیں ہے کہ ایسی تبدیلی شاعری میں اعلانیہ نظر آئے۔وہ تو شاعری کے اندرسرایت کرجاتی ہے۔پھر احتیاط سے پڑھنے کے بعد ہی پتہ چلتا ہے۔سو باصِر کی یہ شکایت برحق ہے:
میری غزل میں کیسے تغزل ملے اُنہیں
پڑھتے ہیں اب وہ شاعری اخبار کی طرح
… جس تبدیلی کامیںذکرکر رہاتھااس کے کچھ بدیہی اشارے اِس شاعری میں نظرآجائیںگے۔کتنے ایسے شعرہیںجوچغلی کھاتے ہیںکہ شاعر اپنے دیارسے دوردیارِغیرمیںبیٹھاایک مختلف آب وہوا میں سانس لے رہا ہے۔نئی نعمتوں کے میسر آنے پر خوش ہے اورگمشدہ نعمتوں کے لیے ترس رہا ہے۔ان گمشدہ نعمتوںمیں سب سے بڑھ کر دھوپ کی نعمت ہے:
ہوتے ہیں عموماََ یہ مری دھوپ کے دشمن
بادل مجھے خوش آتے ہیں برسات کی حد تک
ہم کہ جو ہر ابر کو ابرِ کرم سمجھا کیے
آگئے اِس دیس میں اور دھوپ کو ترسا کیے
اور اب اِس تقابل میںچھوڑے ہوئے اپنے شہر کی قدر سمجھ میں آرہی ہے:
یہ شہر تمہارا مری بستی کے مقابل
اچھا ہے مگر صرف عمارات کی حد تک
یا یہ کہ:
لاکھ آسائشیں پردیس مہیا کر دے
ہے غریب الوطنی پھر بھی غریب الوطنی
اور یہ جو باصِر نے کہا ہے کہ
حالت جگہ بدلنے سے بدلی نہیں مِری
ہوتی ہیں ہر جگہ کی کچھ اپنی خرابیاں
اِس سے مجھے خیال آرہا ہے کہ یہاں سے جو خلقت نقل مکانی کر کے اللہ میاں کے پچھواڑے جاکر آباد ہوئی ہے اس کی حالت بدلی بھی ہے تو کس رنگ سے۔ ارے اپنی شاعری ہی کو لے لو۔ مشاعروں کی روایت دیارِ غیر میں جاکر اور زور پکڑ گئی مگر عجب ہوا کہ یہاں سے جو روایتی غزل دامن میں لے کر گئے تھے وہ وہاں جا کر مزید روایتی بن گئی اور جو یہاں سے دامن میں تھوڑی سی ملائیت گرہ میں باندھ کر لے گئے تھے وہ وہاں جا کر تہذیبی شناخت کے نام پر اور زور پکڑ گئی بلکہ بگڑ کر قیامت بن گئی۔ سو بات صرف اتنی نہیں ہے کہ ع ہوتی ہیں ہر جگہ کی کچھ اپنی خرابیاں،بلکہ یوں ہے کہ
اہلِ دنیا یہاں جو آتے ہیں
اپنے انگارے ساتھ لاتے ہیں
اور کتنے ہمارے یہاں کے انگارے وہاں کی خرابیوں سے شہ پا کر آگ بن گئے۔ اور ہاں ایک بات اور۔اُس دیار میں بیٹھ کر اپنے دیار کی طرف دیکھیں تو دیکھنے کا زاویہ بدل جاتا ہے۔ ہماری دھوپ چھائوں اور دل بادل تو خیر ہوئے مگر ہم نے ان کے ساتھ کیا سلوک کیا ہے اور اِس زمیں کو کیا سے کیا بنا دیا ہے تو یہ زاویہء نگاہ بھی اِس بدلے ہوئے شعری تجربے میں جھلکتا نظر آئے گا۔
(اقتباس از ’پہلے پدر خراب ہوا پھر پسر خراب‘۔ ’اپنی دانست میں‘، انتظار حسین، سنگِ میل، لاہور، 2014 )
چونسٹھ خانے چونسٹھ نظمیں ۔ ڈاکٹر مختارالدین احمد
چونسٹھ خانے چونسٹھ نظمیں کے بارے میں باصِر نے اپنے قلم سے تمام توجیہات بیان کر دی ہیں ، اِس حد تک کہ مجھ جیسا متشکک بھی نثری نظم کا قائل ہوتا جا رہا ہے۔ اردو ادب میں پچھلی صدی کی ابتدا ہی سے نثری نظم کا آغاز ہو چکا تھاجس کو اُس وقت ادبِ لطیف کے نام سے موسوم کیا گیا تھا لیکن یہ دعوی نہیں کیا گیا تھاکہ اس کو نظم کہا جائے۔ جب ٹیگور کی گیتانجلی کا ترجمہ اردو میں ہوا تو وہ نثری نظم کی صورت میں ہمارے سامنے آیا۔ خلیل جبران کی کتاب اُس نے کہا کا ترجمہ بھی نظم اور نثر کے درمیان کی کوئی چیز معلوم ہوتا تھا بلکہ نثری نظم ہی تھا۔
جب باصِر نے بساط لکھنے کا ارادہ کیا ہو گا یہ باتیں اتنی پرانی نہیں تھیں جتنی کہ آج معلوم ہوتی ہیں ۔لیکن ایک بات جو یاد رکھنا ضروری ہے یہ ہے کہ ڈرامہ کلاسیکی زمانے سے منظوم ہی لکھا جاتا تھا، چاہے یونانی ڈرامہ ہو یا سنسکرت کا۔ اب بھی نثری ڈراموں کی زبان نظم کی زبان کے قریب ہوتی ہے، بلکہ ڈرامے اور sitcom میں یہی ایک فرق باقی رہ گیا ہے۔ چنانچہ جب باصِر نے ڈ رامے کی بساط بچھائی تو غیر شعوری طور پر نظمیت ان کی تحریر میں داخل ہو گئی اور کیوں نہ ہوتی کہ باصِر بنیادی طور پر شاعر ہی ہیں ۔
چونسٹھ نظموں میں کئی جگہ بھگوت گیتا اور ارتھ شاستر کی یاد آتی ہے۔ بھگوت گیتا کا اردو ترجمہ بھی نثری نظم معلوم ہوتا ہے۔ گیتا سے یہ دور دراز کی مماثلت اِس لیے ہے کہ شطرنج کی بساط میدانِ جنگ ہی ہوتی ہے جہاں دو کھلاڑی مہروں سے اپنے بادشاہ کی حفاظت اور دشمن کے بادشاہ کی موت کے لیے جنگ لڑتے ہیں ۔کم و بیش یہی موضوع گیتا کا بھی ہے۔ مثلاً یہ نظم ارجن کے تذبذب کی نمائندگی کرتی نظر آتی ہے ورنہ تاج، ہمااور بادشاہت آج کے موضوع نہیں ہیں ، سوائے شطرنج کی بساط پر:
کیا رکھا ہے تاج میں
سر درد کے سوا۔
میں جب بھی کھُلے آسمان تلے ہوتا ہوں ،
ڈرتا رہتا ہوں ،
کہیں مجھ پر سے ہما نہ گزر جائے۔
۔۔ ’باصِر کے شعری مجموعے‘، مشمولہ ’شجر ہونے تک‘، سنگِ میل، لاہور، 2015 ۔۔
چونسٹھ خانے چونسٹھ نظمیں
۔۔ 1 ۔۔
ہم جسے ’حاصل کرنا‘ کہتے ہیں
اس کا مطلب بہت کچھ کھو دینا بھی ہے۔
ایک طرف دیکھنے کے معنی ہیں ،
باقی ہر طرف سے منہ موڑ لینا۔
ایک جگہ پاؤں رکھنے کا مطلب
سینکڑوں جگہ پاؤں نہ رکھنا ہے۔
لیکن ہمارے لیے اہم جگہیں وہی ہیں
جہاں ہمارے قدم پڑے۔
ہر جگہ ہونے کی خواہش
آدمی کو کہیں کا نہیں چھوڑتی۔
۔۔ 2 ۔۔
خوشی ایک زندہ چیز ہے
جو مزید خوشی کو جنم دے سکتی ہے۔
اِسی طرح
نا خوشی سے نا خوشی پیدا ہوتی ہے۔
۔۔ 3 ۔۔
اپنی مرضی کی زندگی گزارنے کے لیے
دنیا بھی اپنی مرضی کی چاہیے۔
کچھ نہ کرنا بھی کچھ کرنا ہوتا ہے۔
بے عملی بھی ایک عمل ہے جس کے نتائج بھگتنے پڑتے ہیں ۔
اگر آپ دنیا کو بدلنے کی کوشش نہیں کریں گے
تووہ آپ کو بدل دے گی،
آپ کے راستے بند کر دے گی،
آپ کا دم گھونٹ دے گی
اور آپ اپنی شخصیت کے چلتے پھرتے مدفن بن کے رہ جائیں گے۔
۔۔ 4 ۔۔
جہاز کے پیندے میں سوراخ ہو
تو عرشے پر اطمینان سے نہیں بیٹھا جا سکتا۔
خوشی ہمارے اندراُسی وقت پروان چڑھتی ہے
جب ہم اسے باہر فروغ پاتا دیکھیں ۔
آزاد رہنے کے لیے
دوسروں کو آزادی دینا ضروری ہے۔
اُداس لوگوں کے سمندر میں کوئی کیسے خوش رہ سکتا ہے۔
۔۔ 5 ۔۔
جوانی میں آدمی ہرحال میں خوش رہ سکتا ہے،
امید اُس کے ساتھ ہوتی ہے۔
وہ سوچ سکتا ہے کہ آنے والا وقت
اُس کے لیے جانے کیا لے آئے؛
مستقبل اپنے پردوں میں اُس کے لیے
جانے کیسی کیسی کامیابیاں
اور نعمتیں چھپائے ہوئے ہے؛
مگربڑھاپے میں
صرف حصول کا احساس ہی تسکین دے سکتا ہے،
بلکہ وہ بھی نہیں ۔
۔۔ 6 ۔۔
اگر آنے والے دن سے کوئی توقع وابستہ نہ ہو
تو وہ نہ بھی آئے تو کیا فرق پڑتا ہے؟
انتظار کس بات کا؟
جس زندگی میں انتظار نہ ہو
وہ موت سے بدتر ہے۔
۔۔ 7 ۔۔
زندہ رہنے کے لیے سراب ضروری ہیں ۔۔۔
لیکن۔۔۔ پتہ نہ چلے کہ وہ سراب ہیں ۔
سراب کے پیچھے بھاگتے رہنے کا لطف تجسس کی دین ہے۔
چیزوں کی اجنبیت ہمیں اپنی طرف کھینچتی ہے۔
میرا المیہ یہ ہے کہ مجھے بہت سی باتوں کا
وقت سے بہت پہلے علم ہو گیا۔
جوانی بہت تھوڑی دیر رہی۔
وہ دن مجھے اچھی طرح یاد ہیں
جب ہر چیز مجھے اپنی طرف آتی ہوئی محسوس ہوتی تھی؛
لگتا تھا جیسے بہت جلد سب کچھ میرا ہو جائے گا۔
غالباَ اسی کیفیت کو جوانی کہتے ہیں ۔
پھر آناَ فاناَ وہ وقت آ گیا
جب چیزیں خود سے دور ہوتی ہوئی محسوس ہونے لگیں ؛
جو کچھ پاس تھا وہ بھی اپنا نہیں لگتا تھا۔
مجھ پر انکشاف ہونا شروع ہوا
کہ میرا تو کچھ بھی نہیں ہے۔
یہاں تک کہ میں خود بھی اپنا نہیں ہوں ۔
۔۔ 8 ۔۔
آدمی کو ہر لمحے کسی نہ کسی ایسی بات کی حاجت رہتی ہے
جس پر وہ فخر کر سکے۔
لکڑی کے گھوڑے پر بیٹھ کر
زور زور سے اچھلتا ہوا بچہ
کتنے سرور کے عالم میں ،کتنے غرور سے
اپنے ارد گرد دیکھتا ہے۔
دیکھا جائے تو بڑے سے بڑا شہ سوار بھی
لکڑی کے گھوڑے پر بیٹھا نظر آئے گا۔
۔۔ 9 ۔۔
انسان کے مسائل، اُس کے غم
اُسے کچھ کا کچھ بنا سکتے ہیں ۔
یہ اُسے للکارتے ہیں ،
اُس کی چھپی ہوئی صلاحیتوں کو آشکار اور بیدار کرتے ہیں ،
اُسے ان دیکھے آسمانوں کی سیر کراتے ہیں ،
نت نئی زمینوں کے نقشے دکھاتے ہیں ،
اُس کے دل میں کچھ کرنے، کچھ بننے کی
آرزو اور جرأت پیدا کرتے ہیں ۔
وہ اپنے روزمرہ کی زنجیریں توڑ دالتا ہے،
جبر کا جوا اُتار پھینکتا ہے
اور محصور کرنے والی دیواریں مسمار کر دیتا ہے۔
اب پہاڑ، دریا،صحرا،
اُس کا راستہ نہیں روک سکتے۔
زندگی اُس کی مددگار بن جاتی ہے
اور موت اُس کے منصوبوں میں حائل نہیں ہوتی۔
۔۔ 10 ۔۔
اپنی مٹی کی کشش،دوستوں اور عزیزوں کی محبت،
اِن کا تو آدمی کچھ نہ کچھ کر لیتا ہے،
خاص طور پر اگر اُسے بدیس میں
مادی فوائد اور آسائشیں حاصل ہوں ،
اوراپنے دیس میں
وہ تنگ دستی اور عزیزوں کے طعنوں کا شکار رہا ہو۔
مجھے تو یہ احساس تنگ کر رہا تھا کہ جو کچھ میرے ارد گرد ہورہا ہے،
میرا نہیں ہے،اِس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں ہے،
میں اپنی جگہ پر نہیں ہوں ،
وقت کہیں اور گزر رہا ہے۔
۔۔ 11 ۔۔
مجھے بدیس میں عزت ملی ،مگر وہ عزت
جو اجنبیوں ، بدیسیوں یا مہمانوں کو دی جاتی ہے۔
میں کسی چیز کی تعریف کرتا
تو اسے میری خوش اخلاقی قرار دیا جاتا،
میرا شکریہ ادا کیا جاتا؛
کسی بات سے اختلاف کرتا،اُس پر تنقید کرتا
تو مجھے ناشکرگزار سمجھا جاتا۔
میرے میزبانوں کی آنکھیں
یہ کہتی ہوئی نظر آتیں :
’’ ہم تمہیں بلا کر تو نہیں لائے تھے۔
اگر تمہیں ہمارا ماحول پسند نہیں تو جاؤ،
واپس چلے جاؤ۔‘‘
۔۔ 12 ۔۔
دل نرم ہی ہوتے ہیں ،دل ہوں سہی۔
ترسے ہوئے لوگوں کے غول دیکھ کر،
اُن کے بچوں کے کمر سے لگے ہوئے پیٹ
اور ننگے بدن دیکھ کر،
دل ڈوبنے لگتا ہے۔
اِس خیال سے کہ ہزاروں لوگ
سخت گرمی اور سخت سردی میں
سرکنڈوں کی بنی جھونپڑیوں میں رہتے ہیں
جنہیں آندھی اُڑا کر لے جاتی ہے
یا بارش بہا کے
تو دل ندامت اور احساسِ جرم سے پھٹنے لگتا ہے۔
اگر اِس دل میں یہ امید نہ ہوتی
کہ یہ کبھی اُن کے لیے کچھ کرسکے گا
تو یہ کب کا دھڑکنا بند کر چکا ہوتا۔
۔۔ 13 ۔۔
ہمارے چاروں طرف بے اندازہ ہوا ہے،
ہمیں کتنی چاہیے؟
دنیا میں کتنا پانی ہے،
ہماری پیاس کتنے سے بجھ جاتی ہے؟
اگر ہر چیز میں سے ضرورت کے مطابق
تھوڑا تھوڑا ملتا رہے، تو بہت ہے۔
شدید بھوک لگی ہو تو ایسا لگتا ہے
جیسے ابد تک کھاتے چلے جائیں گے۔
لیکن۔۔۔ پھر۔۔۔؟
تھوڑی دیر بعد
ہم اُس دسترخوان سے ہاتھ کھینچ لیتے ہیں
جو ہمارا دل کھینچ رہا تھا۔
۔۔ 14 ۔۔
جب کوئی امیرکسی غریب پر مہربان ہوتا ہے
تو اُسے اُس کی غربت دور کرنے سے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی۔
وہ کسی بیرونی دباؤ
یا اندرونی خوف کی وجہ سے
اُس کی مدد کرتا ہے،
یا اپنی فیاضی کو مشہور کرکے
دوسروں کے سامنے سُرخرو ہونا چاہتا ہے،
یا اِسے پوشیدہ رکھ کے
خود کو اپنے عظیم ہونے کا احساس دلاتا ہے۔
لوگ اُس کے پاس اپنی حاجتیں لے کے آئیں
اور وہ انہیں پورا کرے۔۔۔ یا نہ کرے۔
دوسروں کا سراُس کے سامنے جھکا رہے،
اُس کی طاقت کے خوف سے،
یا اُس کے احسانوں کے بوجھ سے۔
۔۔ 15 ۔۔
ہر چیز کا اپنا جادو ہوتا ہے،
لیکن دولت کے رسوخ کا دائرہ سب سے وسیع ہے۔
ہر چیز ہر آدمی کو نہیں چاہیے،
دولت سب کو چاہیے۔
۔۔ 16 ۔۔
قناعت؟
جو کچھ اور جتنا کچھ انسان کو ملنا چاہیے،
مل جائے تو مزید کی ہوس نہ کرنا۔
محروم ہونا اور بات ہے، محرومی کا احساس ہونا اور بات۔
یہی احساس اطمینان کا سب سے بڑا دشمن ہے۔
اور اکثر یہ احساس دوسرے پیدا کرتے ہیں ۔
کسی کو خواہ سب کچھ میسر ہو،
لوگ اُسے یقین دلانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں
کہ اُس کے پاس کچھ نہیں ۔
اتنی بڑی دنیا کے اِتنے بے انتہا خزانوں میں سے
اُس کے حصے میں کیا آیا؟
لوگ کھجور کے درخت سے سایا مانگتے ہیں
اور برگد کے درخت سے پھل؛
جو کچھ موجود نہیں ہوتا وہی دیکھتے ہیں ،
جو موجود ہوتا ہے، دیکھتے نہیں ۔
۔۔ 17 ۔۔
ہماری عزت اور ہم سے محبت
اُن توقعات کی وجہ سے کی جاتی ہے
جو ہم سے وابستہ ہوتی ہیں ۔
کوئی رشتہ بے غرض نہیں ہوتا۔
۔۔ 18 ۔۔
صاحبِ اولاد ہونے پر
انسان ایسے خوش ہوتا ہے
جیسے اِس دنیا میں اُس کے رہنے کی مدت میں
اضافہ ہو گیا ہو۔
۔۔ 19 ۔۔
مرد اِس لیے بیٹا چاہتے ہیں تاکہ اپنا ماضی بدل سکیں ،
اُس سے وہ کچھ کرائیں جو وہ خود نہ کرسکے؛
عورتیں اِس لیے ،کہ وہ اپنا مستقبل بدلنا چاہتی ہیں ،
کوئی مرد تو ہو جو ان کے قابو میں ہو،
ان کا ماتحت، بلکہ بنایا ہوا۔
یہ اور بات ہے کہ جب وہی بیٹے
جوان ہوتے ہیں
تو وہ انہی کی محکوم ہو جاتی ہیں
کئی طرح سے۔
۔۔ 20 ۔۔
ہر آدمی کے اندر ایک اونٹ ہوتا ہے۔
میں کسی سے بظاہر کسی چھوٹی سی بات پرلڑ پڑتا ہوں ،
اُس کانقصان کر دیتا ہوں ،
مگر حقیقت یہ ہوتی ہے
کہ میں کب سے ادھار کھائے بیٹھا ہوں ،
کسی بہانے کی تلاش میں ہوں کہ انتقام لوں ،
اور ممکن ہے کسی ایسی بات کا
جو مجھے یاد بھی نہیں ،مگر بُری لگی تھی۔
ہماری ہر حرکت کسی کھاتے میں ضرور جاتی ہے،
ہمارے حق میں یا ہمارے خلاف۔
۔۔ 21 ۔۔
دوستی کا رشتہ جتنا مضبوط ہوتا ہے
اُتنا ہی نازک بھی ہوتا ہے۔
زندگی کی طرح اِس کی بھی ہر لمحہ قدر کرنی پڑتی ہے،
حفاظت کرنی پڑتی ہے۔
یہ برگد کا درخت بھی ہے
اور چھوئی موئی کا پھول بھی۔
۔۔ 22 ۔۔
عالی ظرفی کے لیے کامیابی ضروری ہوا کرتی ہے۔
شکست یا شکست کا امکان
آدمی کو خوامخواہ کوتاہ نظر اور تنگ دل بنا دیتا ہے۔
ہم فتح یاب ہونے پر
اپنے جانی دشمن کو بھی بخش دیتے ہیں
لیکن ہار جانے کے بعد
مخالف کے بے جان گھوڑے کو بھی معاف نہیں کرتے۔
۔۔ 23 ۔۔
اگر آپ کسی سے متاثر ہو جائیں
تو وہ آپ کا گرویدہ ہوجائے گا۔
کسی کو اپنے قریب کرنا ہو
تو اُس پر ظاہر کریں کہ آپ
اُس سے بے حد متاثر ہیں ۔
اور اِس میں آپ کے حسنِ ظن کا کمال نہیں
بلکہ وہ ہے ہی ایسا اعلی وارفع
کہ کوئی بھی اُس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔
۔۔ 24 ۔۔
خوشامد پسندی، حسد، بُغض،نفرت،
ہر آدمی میں ہوتے ہیں ۔
زیادہ کامیاب وہ ہے
جو انہیں کم سے کم نقصان پہنچانے دے۔
۔۔ 25 ۔۔
تعلقات ایک دم ختم نہیں ہوئے۔
جس طرح بھری مشک میں
چھوٹا سا سوراخ ہو جانے پر
پانی سارے کا سارا ایک دم نہیں نکل جاتا،
جیسے شمع آہستہ آہستہ گھٹتی ہے،
جیسے سورج دھیرے دھیرے ڈوبتا ہے۔
کسی چیز پر لپٹا ہوا دھاگا،
کھُلنے میں بھی کچھ وقت لیتاہے۔
۔۔ 26 ۔۔
کچھ محبتیں ایسے زخموں کی طرح ہوتی ہیں
جو بھر جانے پر بھی نشان چھوڑ جاتے ہیں
اور ہردیکھنے والا پوچھتا ہے:
’’یہ کیا ہوا تھا؟‘‘
۔۔ 27 ۔۔
اُسے دیکھ کر یہ احساس ہی نہیں ہوتا
کہ اُس سے کبھی کوئی واسطہ رہا ہے۔
اجنبی بھی نہیں لگتا۔
عجیب بے نام سی کیفیت ہوتی ہے،
نہ خوشی نہ رنج۔
چہروں پر مسکراہٹ ہوتی ہے
مگر تصویروں والی،
جیسے کسی سے پہلی بار مل رہے ہوں ۔۔۔
بلکہ یہ بھی نہیں ،
جیسے وہ گوشت پوست کا انسان ہی نہ ہو،
کوئی سایہ یا ہیولا بھی نہیں ۔
باتیں ہوتی ہیں تو واضح طور پر مصنوعی،
محض اُس خاموشی کو توڑنے کے لیے
جس میں لفظوں کے بغیر باتیں ہونے لگتی ہیں ۔۔۔
وہ خاموشی، جس کی تاب نہ لاتے ہوئے
انسان ایک دوسرے سے اجازت لے کر
رخصت ہو جاتے ہیں
یا پھر آپس میں جھگڑ پڑتے ہیں ۔
۔۔ 28 ۔۔
جب آدمی کسی سچے دوست سے بدظن ہو جائے،
اِس کی وجہ خواہ کچھ بھی ہو،
تو رفتہ رفتہ اس میں دوستی کی صلاحیت ہی ختم ہو جاتی ہے،
بلکہ محبت کی بھی۔
ہمارے احباب وہ کھڑکیاں ہوتے ہیں
جن کے ذریعے ہم انسانوں اور زندگی کو دیکھتے ہیں ۔
تقریباَ ہر انسان کے ہاں
ایک آدھ شخص اتنا قریب اور اہم ہو جاتا ہے
کہ سب کچھ اُس کے حوالے سے دکھائی دینے لگتاہے،
اور جب اُسی کے خلاف بدگمانی پیدا ہو جائے
تو سب کچھ اُلٹا نظر آنے لگتا ہے۔
صحیح لوگ غلط اور غلط، صحیح نظر آتے ہیں ۔
کھرے کھوٹے کی پہچان ہی ختم ہوجاتی ہے۔
جنہیں دوست بننا چاہیے
وہ بنتے بنتے رہ جاتے ہیں ،
پاس آ آ کے دور چلے جاتے ہیں ۔
جو دوست بننے کے قابل نہیں ہوتے،
وقتی طور پر ،کسی مقصد کے لیے،
دوست بن جاتے ہیں
اور بالآخر چھوڑ جاتے ہیں ۔
آدمی کے گرد لوگوں کا میلہ سا تو لگا رہتا ہے
لیکن اُسے ہر وقت
شدید اکیلے پن کا احساس ستاتا رہتا ہے۔
انسانی تعلقات کے ضمن میں
مار کھانے کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔
اگرحساب کا کوئی کلیہ
غلط سمجھ لیا جائے
یا غلط یاد رہ جائے
تو اس کی مدد سے جو سوال بھی حل کیاجائے گا
غلط ہو جائے گا۔
۔۔ 29 ۔۔
غیر معمولی اور تاریخ ساز انسان
عام لوگوں میں سے اُبھرتا ہے۔
بہت کم لوگ اس کے بارے میں جانتے ہیں ،
اور بہت کم۔
دوسروں کو اُس سے حسد کرنے،
لہذا اُس کی ٹانگ کھینچنے کی
کوئی وجہ نظر نہیں آتی۔
اور جب وہ پہلی بار اُس سے خطرہ محسوس کرتے ہیں ،
بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔
وہ اپنا کام کر چکا ہوتا ہے۔
۔۔ 30 ۔۔
سوچ کا سفرانتہائی خطرناک مہم ہوتا ہے۔
یہ ہمیں کہیں بھی لے جاسکتا ہے،
کسی ایسے دشت میں بھی
جہاں سے نکلنے کا کوئی راستہ نہ ہو۔
۔۔ 31 ۔۔
کسی سے اپنے فیصلے کے مطابق
عمل کرانے کا بہترین طریقہ یہی ہے کہ اپنا فیصلہ
اُس کے اندر اِس طرح اتار دیا جائے
اور ایسے حالات پیدا کر دیئے جائیں
کہ وہ کام تو ہماری مرضی کے مطابق کرے
لیکن رہے اِس خوش فہمی میں
کہ وہ ایسا اپنی مرضی سے کر رہاہے۔
۔۔ 32 ۔۔
درد اتنا ہوتا نہیں جتنا محسوس ہوتا ہے۔
ہمارے بہت سے درد ہماری سوچ کی پیداوار ہوتے ہیں ۔
بہت سے مسائل کا حل،
اور تو اور بہت سی بیماریوں کا علاج
صرف سوچنے کا انداز بدل جانے سے ہو جاتاہے۔
۔۔ 33 ۔۔
کچھ باتیں
چبھتی ہوئی ہونے کے باوجوداچھی لگتی ہیں ۔
تیز ناخن سے سر کھجانے میں بھی ایک لطف ہے۔
۔۔ 34 ۔۔
آدمی کو کڑوی باتوں کے کچوکے لگتے رہنے چاہئیں ،
جھٹکے پہنچتے رہنے چاہئیں ،
تبھی اندر کا سچ باہر آتا ہے۔
سمندر میں طوفان آتا ہے
تبھی موتی باہر آتے ہیں ۔
۔۔ 35 ۔۔
ہر آدمی کوئی نہ کوئی ایسا کارنامہ سرانجام دینا چاہتا ہے
جو بہت کم لوگوں کے لیے ممکن ہو،
لیکن جب وہ ایسا نہیں کر سکتا
تو جو کچھ وہ کر سکا ہوتا ہے
یا کر رہا ہوتا ہے
اُسی کو اعلی و ارفع قرار دیتا ہے،
اُسی کے گُن گاتا ہے،
کیونکہ اسی صورت وہ اپنے آپ کو صحیح اور بڑا ثابت کر سکتا ہے۔
۔۔ 36 ۔۔
ہمارا مسئلہ دراصل یہ ہے
کہ جو کام ہمیں کرنا ہے
وہ ہمارے بزرگوں نے کیوں نہ کر دیا۔
ہمیں باغ لگانے سے زیادہ
پھل کھانے میں دلچسپی ہے۔
۔۔ 37 ۔۔
پانچوں انگلیاں برابر نہیں ہوتیں
لیکن ایک ہاتھ کی بڑی انگلی
دوسرے ہاتھ کی بڑی انگلی جتنی ہی ہوتی ہے۔
۔۔ 38 ۔۔
اتنے بلند نہ ہو جاؤکہ نظر آنا بند ہو جاؤ۔
حد سے زیادہ اونچے پہاڑ
ہمیشہ برف اورخاموشی میں چھُپے رہتے ہیں ۔
وہا ں کوئی نہیں جاتا۔۔۔اکیلے، بنجر۔
بس کبھی کبھار کوئی منچلا
دنیا کو نیچا دکھانے کے لیے
انہیں سر کرتا ہے
اور واپس آجاتا ہے۔
۔۔ 39 ۔۔
آدمی اپنے سے کمتر لوگوں میں رہنا پسند کرتا ہے
یا ایسی جگہ
جہاں اُس سے برتر بھی کمتر بنے رہیں ۔
اندھوں میں راجہ بننے کی خاطر
لوگ اپنی ایک آنکھ پھوڑنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔
۔۔ 40 ۔۔
میرا اکثر جی چاہا کرتا ہے،
کوئی میری تعریف کرے
چاہے وہ میری ماں ہی کیوں نہ ہو۔
۔۔ 41 ۔۔
زندگی ہر لحظہ دست بردار ہوتے رہنے کا نام ہے،
اپنی آرزوؤں ، صلاحیتوں اور قوتوں سے،
اپنے خوابوں ، پیاروں اور ساتھیوں سے،
اور بالآخر خود زندگی سے۔
۔۔ 42 ۔۔
کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں
جو پہاڑ کی چوٹی پر جائے بغیر
اُس منظر کو دیکھ سکتے ہیں
جو وہاں جائے بغیرنظر نہیں آسکتا۔
۔۔ 43 ۔۔
آزادی اول تو کسی کو نصیب نہیں ہوتی
اور اگر اتفاقاَ ہو بھی جائے
تو وہ اسے ہتھیلی پہ رکھ کر اس کا گاہک ڈھونڈتا پھرتاہے،
اور بعض اوقات اسے اتنے سستے داموں فروخت کر دیتا ہے
کہ اُسے احساس بھی نہیں ہوتا
کہ اُس نے کچھ بیچا ہے۔
۔۔ 44 ۔۔
لوگ صرف جیتنے کے لیے کھیلتے ہیں ۔
ان کا مقصد دوسروں کو اپنے سے کمتر ثابت کرنا،
اُن کو ہرا دینا ہوتا ہے۔۔۔
کسی بھی طرح۔
۔۔ 45 ۔۔
سوال لوگوں کے کسی نظام کو قبول کر لینے کا نہیں
بلکہ اُن کے قبول کردہ کسی نظام کے نتائج کا ہے۔
لوگوں کو اکثر پتہ ہی نہیں ہوتا
کہ اُن کی زندگیاں
اُن کے اپنے عقائد اور نظریات کہ وجہ سے
اجیرن ہو گئی ہیں ۔
۔۔ 46 ۔۔
کیا رکھا ہے تاج میں
سر درد کے سوا۔
میں جب بھی کھُلے آسمان تلے ہوتا ہوں ،
ڈرتا رہتا ہوں ،
کہیں مجھ پر سے ہما نہ گزر جائے۔
۔۔ 47 ۔۔
اگر بادشاہ بھی ایک عام آدمی کی طرح
خاموشی اور سکون سے گزرجائے
تو اِس میں اُس کی توہین کا پہلو نکلتا ہے۔
لاؤ لشکر، شان و شوکت اور دھوم دھام سے
وہ یہ ظاہر کرنا چاہتا ہے
گویا وہ ایک سے زیادہ ہے۔
۔۔ 48 ۔۔
بادشاہ اور پیادے ایک ہی لکڑی کے بنے ہوتے ہیں ۔
اکثر اوقات پیادہ اتنا طاقتورہو جاتا ہے
کہ بادشاہ اپنی بقا کے لیے
اس کا مرہونِ منت ہو جاتا ہے۔
اوریوں بھی ہوتا ہے
کہ بادشاہ اتنا کمزور اور بے بس ہو جائے
کہ دشمن کا پیادہ اُسے بِساط سے اٹھا دے۔
۔۔ 49 ۔۔
کچھ کام ،عام آدمی کریں تو داد پاتے ہیں ،
بادشاہ کریں تو بُرے لگتے ہیں ۔
بعض باتیں جو عام آدمیوں کے لیے معیوب خیال کی جاتی ہیں
بادشاہوں کے لیے نہایت شاندار سمجھی جاتی ہیں ۔
۔۔ 50 ۔۔
محکومی سو کی ہو یا ایک کی،محکومی ہے۔
غلام غلام ہی ہوتا ہے خواہ کتنے ہی اعلی درجے کا ہو۔
ایک لمحے کی غلامی سارے دن کی حکومت پر پانی پھیر دیتی ہے۔
تمام دن آقا بنے رہنے والے کی شخصیت بدل کے رکھ دیتی ہے۔
اُس کے سوچنے کا انداز مختلف ہو جاتا ہے،
چیزیں اور طرح دکھائی دینے لگتی ہیں ۔
آدمی قدرت پہ اتنا خوش نہیں ہوتاجتنا مجبوری پہ کُڑھتا ہے۔
زہر کی ایک چٹکی دودھ کے تالاب کو غارت کر دیتی ہے۔
۔۔ 51 ۔۔
نظام کو بدلنے کے لیے
لوگوں کو بدلنا پڑتا ہے۔
لوگ نظام کو چلاتے ہیں ،
نظام لوگوں کو نہیں چلاتا۔
جس بات کو لوگوں کی اکثریت نے ناپسند کیا
وہ زیادہ دیر تک نہ چل سکی،
رسم و رواج ہوں ، اقدار ہوں یا قوانین۔
لوگوں کو بدلنے کا عمل
چراغ سے چراغ جلانے کے مترادف ہے۔
وہ آپ کی باتوں اور تقریروں سے قائل نہیں ہوتے۔
وہ آپ کے کردار، آپ کی شخصیت کو پرکھتے ہیں ،
تب کہیں جا کے آپ کی بات
ان کے دل میں اترتی ہے۔
۔۔ 52 ۔۔
ہم کنیزیں ہیں ۔
ہمارے نام نہیں ہوتے۔
ہمیں بلانے کے لیے پکارنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔
ہم سامنے ہوں تو ہمیں خود پتہ چل جاتا ہے
کہ ہماری ضرورت ہے
ورنہ محض تالی بجانایا ’کوئی ہے‘ کہنا کافی ہوتا ہے۔
۔۔ 53 ۔۔
جب آپ کسی کواُس کے اپنے میدان میں ،
جس میں اُس کو برتری اور یکتائی کا دعوی ہو،
ہرادیتے ہیں ،
تو پھر چاہے اُس کے پاس
ساری دنیا کی حکومت اور دولت کیوں نہ ہو،
اُسے اپنے سے برتر نہیں سمجھتے۔
۔۔ 54 ۔۔
کوئی مشغلہ یا کھیل
جب ایک خاص معیار سے بلند تر ہو جاتا ہے،
فن بن جاتا ہے۔
اور جب فن اپنی بلندیوں کو چھونے لگتا ہے،
فن کار کاکام ٹھہرتا ہے۔
باقی سب کچھ کی حیثیت
اُس کے لیے ثانوی ہوجاتی ہے۔
۔۔ 55 ۔۔
ہر انسان غلطیاں کرتا ہے
اور ظاہر ہے کہ اُن کا خمیازہ بھگتتا ہے،
لیکن بیشتر غلطیاں مخفی یاباریک ہوتی ہیں ،
لہذابیشترانسان اپنی بیشتر غلطیوں سے بے خبر رہتے ہیں ،
مگر خمیازہ بہرحال بھگتتے ہیں ۔
چونکہ اِن غلطیوں کا منبع
اُن کی اپنی ذات ہوتی ہے،
یہ اُن سے بار بار سرزد ہوتی ہیں ۔
وہ خمیازہ بھگتتے رہتے ہیں ،
پریشان اوررنجیدہ رہتے ہیں
او رحیران ہوتے ہیں
کہ اُن کے ساتھ ایسا کیوں ہوتا ہے۔
وہ اپنا یا صورتِ حال کا تجزیہ کرنے کی بجائے
تقدیر یا حالات کو موردِ الزام ٹھہراتے ہیں ۔
ایک کھلاڑی، خاص طور پر شطرنج کا ،
جانتا ہے کہ ایک چال کے کئی نتائج نکل سکتے ہیں ۔
ایک بظاہر عام، بے ضرر سی چال بساط کا نقشہ بدل سکتی ہے۔
وہ کسی مہرے کو چھُونے سے پہلے کئی بار اور کئی طرح سے سوچتا ہے۔
رفتہ رفتہ زندگی میں بھی اُس کی یہی عادت بن جاتی ہے۔
اُسے اپنے مختلف اعمال میں ایک رشتہ،
ایک ربط نظر آنے لگتا ہے۔
اُ س میں اپنی غلطیوں سے سیکھنے کی صلاحیت،
دوسروں کی کامیابیوں کی داد دینے کاظرف
اور اپنی شکست برداشت کرنے کا حوصلہ پیدا ہوتا ہے۔
وہ اصولوں کی حکمرانی کو تسلیم کرتا ہے
اور اپنی حدود سے نہ صرف واقف ہو جاتا ہے
بلکہ اُن سے تجاوز بھی نہیں کرتا۔
۔۔ 56 ۔۔
مصوروں کے رنگ،موسیقاروں کے ساز ،
اُن کی زبان ہوتے ہیں ۔
شطرنج بھی ایک زبان ہے۔
ہر چال کچھ کہتی ہے،
اور ہر اچھی چال
اپنے مقابل کی چال کانہ صرف توڑ ہوتی ہے
بلکہ اُس کی حقیقت کا دوسرا رُخ بھی۔
جس طرح ایک بات
مخالف کی بات کو نہ صرف رد کرتی ہے
بلکہ اُس میں اضافہ بھی کرتی ہے۔
۔۔ 57 ۔۔
سرسری طور پر دیکھیں
تو زندگی بھی ایک کھیل ہی لگتی ہے،
غور کریں تو کھیل بھی کھیل نہیں رہتا۔
مداری کا تماشا اور مسخرے کے کرتب بھی بہت کچھ کہتے ہیں ۔
۔۔ 58 ۔۔
انفرادی چالیں سوجھنا
بڑا کھلاڑی بننے کے لیے کافی نہیں ۔
اصل بات اُن کی باہمی اہمیت کو سمجھنا
اور اُنہیں ایسی ترتیب دینا ہے
کہ ہر چال اپنے سے پہلی چال کا ناگزیر نتیجہ ہو۔
ابتدائی کھیل اچھے اختتام کی داغ بیل ڈالے،
اختتامی کھیل ابتدائی کھیل کی خوبصورتی
اور محنت پہ پانی نہ پھیر دے۔
۔۔ 59 ۔۔
جیتنے کے لیے
اچھا کھلاڑی ہونا کافی نہیں ،
اچھا کھیلنا بھی پڑتا ہے۔
۔۔ 60 ۔۔
میں جیت رہا تھا
مگرصرف شطرنج کی بساط پر۔
میں بھول گیا تھاکہ
یہ بساط ایک اور بڑی بساط پر رکھی ہوئی ہے
اور اصل کھیل اُس بڑی بساط پر ہوتا ہے۔
۔۔ 61 ۔۔
غلطی غلطی ہوتی ہے،
خواہ کسی بھی کیفیت میں سرزد ہو
اور اس کا خمیازہ
ہرحال میں بھُگتنا پڑتا ہے۔
۔۔ 62 ۔۔
میری جنگ اپنی خامیوں ، کوتاہیوں اور لاپرواہیوں کے خلاف ہوتی ہے۔
میرا مخالف تو کھیل کے لوازمات میں سے ایک ہوتا ہے،
اُس کی غلطی کے باعث جیت کرمجھے ذرا خوشی نہیں ہوتی
بلکہ مایوسی ہوتی ہے۔
مخالف کی غلطی کے نتیجے میں حاصل ہونے والی جیت سے
میری تسکین نہیں ہوتی۔
اپنی کسی بچگانہ غلطی کی بنا پر ہار کر
بے انتہا افسوس اور پچھتاوامجھے گھیر لیتے ہیں ۔
ایسی ہار پر جو مجھے قائل کر لے
کہ میں ہارنے کے قابل تھا،
مجھے ہارنا ہی چاہیے تھا،
مجھے ذرا ملال نہیں ،
بلکہ ایک طرح کی فرحت محسوس ہوتی ہے۔
ایک نیا عزم میرے اندر جاگتا ہے،
اپنے آپ کو بہتر کرنے کا۔۔۔
مزید کچھ سیکھنے کا۔
۔۔ 63 ۔۔
اگر فریقین کوئی غلطی نہ کریں
تو بازی ہمیشہ برابر رہے۔
اور یہی بازی کا اصل نتیجہ، منطقی انجام ہو گا۔
ہر چال کا کم از کم ایک صحیح جواب یا توڑ ہوتا ہے،
اسی کی تلاش اور دریافت ہی اصل کھیل ہے۔
جیت جانا تو کھیل کوگویا درمیان میں ختم کر دینا ،
ادھورا چھوڑ دینا ہوا۔
جب تک دونوں فریق
غلطی کیے بغیرکھیلتے چلے جاتے ہیں ،
بازی کے اسرار عیاں ہوتے جاتے ہیں ،
یہاں تک کہ بازی اپنی امکانی حدود کو چھُو لے،
جیسے کسی رس دار پھل کو نچوڑتے چلے جانے سے
اُس میں سے رس کا ایک ایک قطرہ نکال لیا جائے؛
جیسے کوئی انسان حادثے یا بیماری کا شکار ہوئے بغیر،
طبعی موت پائے۔
غلطی سرزد ہو نے کے بعد
سارا کھیل اس غلطی کے گرد گھومنے لگتا ہے۔
ایک اِس فکر میں ہوتا ہے کہ اُس کاازالہ کیسے ہو،
دوسرا اِس کوشش میں
کہ اس سے زیادہ سے زیادہ فائدہ کیسے اُٹھایا جائے۔
انجام بازی کا نہیں اس غلطی کا ہوتا ہے۔
ایک کھلاڑی کی دوسرے پر برتری تو ثابت ہو جاتی ہے،
کھیل کہیں پیچھے، ایک طرف رہ جاتا ہے۔
۔۔ 64 ۔۔
’’مجھے اِس کھیل کا کچھ پتہ نہیں ۔
مجھے نہیں معلوم اِس میں ہار جیت کیسے ہوتی ہے۔‘‘
’’یہ کھیل جس بڑے کھیل کا حصہ ہے،
تم اُس سے تو واقف ہو؟‘‘
’’صرف اتنا کہ اُس میں میری حیثیت
ایک پیادے کی ہے
جو صرف ایک خانہ آگے چل سکتا ہے
اور پھر کبھی پیچھے نہیں ہٹ سکتا؛
جو کسی موہوم سی امید پر
یا کسی انجانے خدشے کے تحت،
یا محض دوسرے مہروں کا راستہ بنانے کے لیے
بساط پر سے اُٹھا دیا جاتا ہے۔‘‘
چونسٹھ خانے چونسٹھ نظمیں
مانوس اجنبی کی دوسری آمد
میرے نثری ڈرامے بساط ۔۔ 1987 ۔۔کے بارے میں میرے دوست جاوید فیض ۔۔ مرحوم ۔۔ کی رائے تھی کہ یہ شاعری ہے۔ حنیف رامے صاحب نے کہا کہ’’یہ کتاب شاعری کی کتاب بھی ہے، کہانی بھی ہے، لیکن شاعری کرنے اور کہانی کہنے کا اسلوب ڈرامے کے قالب کو بنایاگیا ہے۔‘‘ ایک مذاکرے میں پروفیسر مسز شمیم خیال نے کہا کہ ’’یہ کتاب اس طرح پڑھی جائے گی جیسے آپ شاعری کی کسی کتاب کو پڑھتے ہیں ۔ جملے مصرعوں کی طرح سے مصنف پر وارد ہوئے ہیں ۔‘‘ تقریباَ دس برس پہلے ،میں نے ایک جگہ لکھا تھا کہ نثری نظم کو نظم کہنا کافی ہے۔ پڑھنے والاخود دیکھ لے گا کہ یہ وزن اور بحر سے آزاد ہے۔ اگر اس میں خیال اچھوتا اور الفاظ کی تنظیم متاثرکرنے والی ہے تو یہ اچھی بھی لگے گی اور یاد بھی رہے گی۔ اس کے مقابلے میں ایک گھِسے پٹے مضمون والا یا عیب دار شعر نظرانداز کر دیا جائے گا۔ نظم کو منظم ضرور ہونا چاہیے، اس کا منظوم ہونا ضروری نہیں ۔ ’نثری غزل‘ بھی ’نثری نظم‘ ہی ہوتی ہے، اوزان اور بحور سے آزاد اگرچہ قافیہ ردیف لیے ہوئے۔ میرے دوسرے شعری مجموعے ، چمن کوئی بھی ہو ۔۔ 2008 ۔۔ میں دو نثری نظمیں بھی تھیں ۔ کوئی دو برس ہوئے ،جدید نثری نظم کے نمایاں شاعر جمیل الرحمن کو بساط اتنا اچھا لگا کہ انہوں نے اس پر ایک خوبصورت نظم ’شطرنج‘ لکھی اور بساط کونئے قارئین تک پہنچانے کی باقاعدہ مہم چلائی۔ میرا بھی جی چاہا کہ اسے دوبارہ دیکھوں ، جیسے یہ کسی اور نے لکھا ہو۔مجھے احساس ہوا کہ مکالموں میں جابجا نثری نظمیں پوشیدہ ہیں ۔ اس کے بعد یہ نظمیں ابھر ابھر کر میرے سامنے آنے لگیں اور تقاضا کرنے لگیں کہ میں انہیں اپنے اگلے مجموعے میں جگہ دوں ۔ ان کا خیال تھا کہ اس طرح انہیں زیادہ قارئین مل سکتے تھے۔ مجھے بساط بہت عزیز ہے۔ میں اسے دائم آباد دیکھنا چاہتا ہوں ۔ اسے پسند کرنے والوں کی بھی یہی خواہش ہے۔ سو میں اس کے مکالموں میں نہاں نظموں کی فرمائش کو ٹالتا رہا۔ آخر ایک دن انہوں نے ایک وفد کی صورت میں مجھے گھیر لیا اور اپنا مطالبہ دہرا یا۔
’’تم بساط ‘ میں خوش نہیں ہو کیا؟‘‘ میں نے گھبرا کے پوچھا۔
’’نہیں ، ہمارااصلی گھر تو وہی ہے۔‘‘ ان کے ایک نمائندے نے جواب دیا۔
’’پھر؟‘‘ میں نے کہا۔
’’جیسے مانوس اجنبی بیک وقت شطرنج کی کتاب اور بساط میں رہتا ہے اسی طرح ہم بھی بیک وقت بساط اورشاعری کی کتاب میں رہنا چاہتی ہیں ۔‘‘
’’اوہ۔ یہ تو پوری تیاری کے ساتھ آئی تھیں ۔‘‘ میں نے سوچا۔ اورکچھ دیر بعد میرے دلائل واقعی کمزور پڑنے لگے۔ بالآخر میں یہ سوچ کر انہیں ایک موقع دینے پر راضی ہو گیاکہ ڈرامہ اور شاعری ایسے پڑوسی ہیں جن کے بیچ سرحد نہیں کھینچی جا سکتی ۔’نظمیں ‘ خوش خوش ’اپنے گھر‘ چلی گئیں ۔
میں نے ان نظموں میں سے چند کا انتخاب کیا اور اپنے زیرِ ترتیب شعری مجموعے کے مسودے میں شامل کر لیا۔ یہ بات کسی طرح پوری بساط میں پھیل گئی۔ اب تو آئے دن کوئی نہ کوئی ’نظم‘ کسی مکالمے سے نکل آتی اور ’’سیر کے واسطے تھوڑی سی جگہ اور‘‘ مانگتی۔ میں کہ مساوی حقوق کا پرانا علمبردار تھا، اس کی بات مان لیتا۔ جب پچیس نظمیں ’بن‘ گئیں تو میرے اندر شطرنج کا کھلاڑی پھر سے جاگ اُٹھا۔مجھے پہلی بار تشویش کی بجائے خوشی ہوئی، یہ سوچ کر کہ اگران کی تعداد شطرنج کی بساط کے بتیس مہروں کے برابر ہو جائے تو خوب ہو۔ اب مجھے نئی نظموں کا انتظار رہنے لگا۔ لیکن گلشنِ ناآفریدہ کی نظموں کو جیسے میری خواہش کا علم ہو گیا، سو انہوں نے نخرے دکھانا شروع کر دیئے۔ اب بے تاب و بے صبر ہونے کی باری میری تھی۔ میں نے کچھ مکالموں سے کچھ نظموں کونکالنا چاہا تو انہوں نے صاف انکار کر دیااور کہا کہ وہ جہاں تھیں بس وہیں ٹھیک تھیں ۔ کمال ہو گیایہ تو۔ پھر میں نے بھی کہا کہ نہیں تو نا سہی، مجھے کیا فرق پڑتا ہے۔ میں تو پچیس کے بھی حق میں نہیں تھا۔ لیجیے جناب، ادھر میں بے نیاز ہوا ادھر نظمیں پھر سے متحرک ہو گئیں ۔ کچھ عرصے بعد ایک ریلہ ٓایااور ان کی تعداد پچاس سے تجاوز کر گئی۔ اب مجھے باقاعدہ پریشانی لاحق ہوئی۔ میرے مسودے میں تو غزلیں اور نظمیں اتنی نہیں تھیں ۔ سارا توازن بگڑتا نظر آیا۔
’’چونسٹھ تک ٹھیک ہے ،شطرنج کی بساط کے چونسٹھ خانوں کے برابر ۔ ہر نظم کے لیے ایک گھر۔ تم جانتے ہوبساط کے خانوں کو گھر بھی کہتے ہیں ، گھوڑے کی چال ڈھائی گھر ہوتی ہے۔‘‘ شطرنج کا کھلاڑی بولے چلا جا رہا تھا۔
’’تمہیں تو شطرنج کی بات کرنے کا موقع چاہیے۔ میرا مسودہ خراب ہو رہا ہے۔‘‘ میں نے کہا۔
’’کونسا مسودہ؟‘‘ اس نے معصومیت سے پوچھا۔
’’کونسا مسودہ۔ بھولے مت بنو۔ بتیس چونسٹھ کے چکر سے نکل بھی آیا کرو کبھی۔‘‘ میں نے احتجاج کیا۔
’’میرا مطلب ہے تمہارا کونسا مسود ہ خراب ہو رہا ہے۔ اگر تمہاری مراد اپنی غزلوں اور نظموں سے ہے تو اُن کا اِن نظموں سے کیا لینا دینا؟‘‘
’’کمال ہے،انہیں کے ساتھ شامل ہونے کی تو بات کی تھی ان نظموں نے۔‘‘ میں نے وضاحت کی۔
’’وہ تو بہت شروع کی بات تھی۔اُس وقت انہیں نہ تو اپنی نوعیت کاپتہ تھا نہ تعداد کا۔‘‘ اُس نے کہا۔
’’یعنی؟‘‘
’’یعنی یہ کہ انہیں ایک کتاب چاہیے ،وہ انہیں دے دو۔ باقی اپنی غزلوں نظموں کا جو چاہو کرو۔‘‘
’’اچھا چلو، میری غزلیں نظمیں تو محفوظ رہیں لیکن میری بساط توخالی ہو جائے گی۔ ‘‘ میں نے تشویش کا اظہار کیا۔
’’تمہیں یہ وہم کیوں ہورہا ہے کہ یہ تمہاری بساط کے مکالمے ہیں ۔یہ اُن کے ہمزاد ہیں ۔ ذرا انہیں اُن کے ساتھ رکھ کے دیکھو، فرق نظر آجائے گا۔ اور ان میں استعمال کیے گئے الفاظ کی تعداد بساط کے الفاظ کے دس بارہ فیصد سے زیادہ نہیں ہو گی۔ ڈرامہ کچھ ایسے مکالموں ،جملوں اور الفاظ کا متقاضی ہوتا ہے جو نظم کے لیے زائد ہوتے ہیں ۔ اسی طرح کچھ الفاظ جو نظم کے لیے ناگزیر ہوتے ہیں ڈرامے میں بے محل لگیں گے۔ اب یہ بات تمہیں میں سمجھاؤں گا؟ شاعر تم ہو کہ میں ؟ بساط زندگی کی بساط ہے۔ اس میں مصوروں کو اپنی تصویریں ، مجسمہ سازوں کومجسمے، موسیقاروں کو نغمے، فلسفیوں کو فلسفے اور شاعروں کو نظمیں ملیں گی۔ زندگی چلتی رہے گی، بساط بچھی رہے گی۔ڈرامہ بساط کے مکالمے اپنی جگہ جم چکے ہیں ۔ انہیں کچھ نہیں ہونے والا۔ ستائیس سال ہو گئے انہیں وجود میں آئے۔ ویسے کے ویسے ہیں اب بھی۔‘‘ اُس نے کہا۔
’’ ستائیس سال۔۔۔‘‘ مجھے کچھ یاد سا آنے لگا۔ میں نے کھلاڑی کو غور سے دیکھا۔’’ارے۔۔۔ تم۔۔۔ ! ؟‘‘
’’ہاں ، میں ۔ میں بھی سوچ رہا تھا کہ آخر تم کب تک مجھے نہیں پہچانتے۔‘‘ مانوس اجنبی نے قہقہہ لگایا۔
’’تم کتنا بدل گئے ہو۔‘‘
’’میں نے تمہیں بتایاتھا کہ میں نے بہت طویل عمر پائی تھی۔ کوئی میری عمر کے جس حصے کے بارے میں سوچے گا، میں اُسے ویسا ہی نظر آؤں گا جیسے میں اُس وقت تھا۔‘‘
’’تم چلے کہاں گئے تھے؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’یہ سوال تم نے تب بھی کیا تھا اور میرا جواب تھا کہ میرا وجود زمان و مکان کی قید سے ماوراء ہے۔ کہاں جانا تھامیں نے۔میں یہیں تھا، تمہارے آس پاس۔‘‘ اُس نے کہا۔
’’ کم از کم یہ تو بتا دیتے کبھی کہ تمہیں شطرنج کی کتاب سے آزاد کرانے کے بعد میں نے تمہارے لیے جو گھر ،بساط،بنایا تھا تم نے اُسے ویسا ہی پایا جیسا تم چاہتے تھے؟ تم اُس میں خوش ہو؟ آرام سے ہو؟اپنی مرضی سے آجا سکتے ہو؟ دوسرے تم سے ملنے آسکتے ہیں ؟‘‘
’’میں چاہتا تھا کہ تمہیں خود سے پتہ چلنا چاہیے۔ اِس گھر میں آنے جانے والے تمہیں بتائیں ۔ ‘‘
’’لیکن اس سے میری تسلی تو نہیں ہو سکتی تھی۔‘‘
’’یہ تسلی نہ ہونے ہی میں تو لطف ہے۔‘‘
’’پھر آج یہ مہربانی کیسی؟‘‘
’’مجبوری۔ اُس وقت تمہیں اپنی کہانی کا یقین دلانا تھا، آج ان نظموں کے بارے میں تمہاری بدگمانی دور کرنا ہے۔‘‘مانوس اجنبی نے کہا۔ اُس کی باتیں آج بھی میری سمجھ میں آدھی آرہی تھیں آدھی نہیں ۔
جسٹس کارنیلیس نے کہا تھا کہ جیسے قاری کتاب کو ڈھونڈتا ہے اسی طرح کتاب بھی قاری کو ڈھونڈتی ہے۔ اِ س خیال سے کہ میں ان نظموں کی راہ میں رکاوٹ نہ بنوں میں انہیں شاعری کے قارئین کے سامنے پیش کر رہا ہوں ۔ اگر آپ کو ان میں سے چند نظمیں بھی پسند آگئیں تو میں سمجھوں گا کہ ان کی جدوجہد رائگاں نہیں گئی۔میں نے ان کی ترتیب ویسے ہی رہنے دی تھی جس ترتیب سے ان کے ہمزاد بساط میں ہیں اور سب کو ایک مشترکہ عنوان دے دیا : چونسٹھ خانے چونسٹھ نظمیں ۔ بعد ازاں ، جب ساجد علی نے موضوعات کی مناسبت سے ان کی ترتیب بدلی تو مجھے دل سے پسند آئی۔ شکریہ ساجد۔
باصِر سلطان کاظمی،نومبر2013ئ
انتساب
اپنے چچا، استاد اور کھیل کے ساتھی، عنصر رضا کاظمی کے نام جن کے زیرِ سایہ، میں نے کھیل میں زندگی کو دیکھنا شروع کیا۔
باصِر کاظمی ۔ از انور شعور
باصِر کاظمی سے میری پہلی نظر کی محبت ہے، وہ بھی اُسے دیکھے بغیر۔ شاعری پسند کرنے کے لئے شاعر کودیکھنا ضروری بھی نہیں ہوتا۔ میر کو ہم نے کہاں دیکھا ہے، غالب کو کہاں دیکھا ہے۔ اور کبھی کبھی تو ممدوح کو نہ دیکھنا ہی مداح کے حق میں بہتر ثابت ہوتا ہے۔
پچیس تیس برس قبل کا ذکر ہے، کسی رسالے میں باصِر کی غزل پڑھنے کا موقع ملا۔ حیرت بھی ہوئی، مسرت بھی۔ یہ تعارفی غزل ہی تیر بہ ہدف نکلی اور میں بے اختیار واہ کہہ اُٹھا۔ اُس وقت مجھے معلوم نہیں تھا کہ یہ مانوس اجنبی، باصِر سلطان کاظمی کون ہے مگر کچھ ایسا لگا کہ ہوائے دشت سے بوئے رفاقت آتی ہے۔ پھر مختلف اوقات میں اُس کی کچھ اور غزلیں دیکھیں ، نقش گہرا ہوتا گیا۔ آجکل اکثر نئے شعرا کو پڑھ کر با لعموم ضیاعِ وقت پر افسوس ہوتا ہے اور خیال آتا ہے کہ ایں دفتربے معنی غرقِ مئے ناب اولی۔ اِس کے بر عکس باصِر کو پڑھ کر بہت فرحت حاصل ہوتی ہے اور سوچتا ہوں کہ یہ کلام نظر سے نہ گذرا ہوتاتو میرے مطالعے میں کوئی کمی، کوئی تشنگی رہ جاتی۔
بدقسمتی سے ہمارا دور شعر گوئی کے حوالے سے بہ وجوہ دورِ غلط گویاں ہو کے رہ گیا ہے۔ دیگر فنون کی طرح شاعری بھی ایک باقاعدہ فن ہے لیکن افسوس، اب یہ فن سیکھنے کا رواج نہیں رہا۔ ہر مبتدی، ہر نو آموز کو مطالعے، مشق اور اصلاح وغیرہ کے جھنجٹ میں پڑے بغیر براہِ راست پیدائشی شاعر کہلانے کا خبط ہو گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مجموعے بے حساب شائع ہو رہے ہیں لیکن بیشتر کی حالت نا قابلِ تبصرہ ہوتی ہے یعنی ناقص الاول، ناقص الاوسط، ناقص الآخر۔ خود رو پودوں کی تراش خراش نہ ہو تو جنگل باغ میں تبدیل نہیں ہو سکتا۔ کوئی بھی تحریر اچھی بری تو بعد میں ہو گی پہلے صحیح تو ہو۔ مانا کہ فطرت کے خزانے میں بھی عموماًپھول کم ہوتے ہیں ، گھاس پھوس کی بہتات ہوتی ہے اور اکثر یہی عالم شاعری میں بھی رہا ہے لیکن عمدہ تخلیقات کی اتنی قلت پہلے نہیں تھی، گویا جیسی اب ہے تری محفل کبھی ایسی تو نہ تھی۔
شکر ہے کہ باصِر اپنے ارد گرد پھیلی ہوئی بھیڑ کی طرح بر خود غلط اور ’بے اُستادا‘ نہیں ہے۔ اُس نے فن کی طرف بھی خاطر خواہ توجہ دی ہے۔ لہذا مکمل اور بے عیب شعر کہنا اُس کی ایک نمایاں خصوصیت ہے۔ اِس اعتبار سے آسانی کے ساتھ یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ اپنے بیشتر ہمعصروں سے قطعی منفرد ہے لیکن میں یہاں یہ لفظ استعمال نہیں کروں گا کیونکہ شاید اردو شاعری میں ہر لحاظ سے منفرد کہلانے کا حق صرف علامہ اقبال کو ہے۔
فن سے بے بہرہ لوگوں کا ذکر آیا ہے تو یہاں ایک بات کی وضاحت ضروری معلوم ہوتی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ موجودہ زمانے میں ایک سِرے سے دوسرے سِرے تک سبھی غلط سلط، انٹ شنٹ بَک رہے ہوں ، بہت سے لوگ درست شعر بھی کہہ رہے ہیں مگر ان مشاق حضرات میں زیادہ تر ایسے ہیں جن کے شعروں میں مزہ نہیں ہوتا، رَس نہیں ہوتا۔ یہاں یاد آیا، غالب نے اپنے ایک شاگرد کو ایک خط میں کچھ اِس قسم کی رائے بھیجی تھی کہ میاں ، تمہاری غزل میں کوئی عیب نہیں ہے، مگر جس طرح کوئی عیب نہیں ہے، اِس طرح کوئی خوبی بھی نہیں ہے۔ پس نتیجہ یہ نکلاکہ تخلیقی ادب کی ایک شرط، اور غالباً اولین شرط یہ بھی ہے کہ اس میں لُطف ہونا، رَس ہونا ضروری ہے، وہ خشک اور سپاٹ ہرگز نہیں ہونا چاہئے۔ ایک بار باتوں باتوں میں باصِر کے ذکر پر ڈاکٹر فاطمہ حسن کہہ رہی تھیں کہ آپ کو دراصل باصِر کاظمی کے پرفیکشن نے متاثر کیا ہے۔ بے شک انہوں نے ٹھیک کہا، واقعی مجھے باصِر کے پرفیکشن نے متاثر کیا ہے کیونکہ فی زمانہ یہ ایک نادر صفت ہو گئی ہے۔ نیز جو کلام پرفیکٹ نہ ہو، وہ دریا بُرد ہو جاتا ہے، ادب کی’ آبِ حیات‘ میں شامل نہیں ہوتا، یا شامل نہیں ہونا چاہئے۔
باصِر کاظمی اپنے گھر کا روشن چراغ ہے۔ اُس نے ناصِر کاظمی کا فرزند ہونے ہی پر اکتفا نہیں کیابلکہ اُس کا حقیقی وارث بن کے دکھایا ہے۔ وہ چاہتا تو اپنے نامور باپ کے ادبی ترکے پر بھی اچھی خاصی آسودہ زندگی گزار سکتا تھا لیکن یہ بات اُس کی خطر پسند طبیعت کو کہاں سازگار آ سکتی تھی۔ اس کے بجائے اُس نے دشوار سمت چُنی اور بسم اللہ کہہ کے قدم اُٹھادیا۔ اور پھر اِس راہ میں جو سب پہ گزرتی ہے، وہ گزری یعنی پہلے پدر خراب ہوا پھر پسر خراب۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ پسر نسبتاً زیادہ ’خراب ‘ ہوا یعنی غزل کے ساتھ ساتھ اُس نے نظم اور نثر میں بھی طبع آزمائی کی اور تینوں اصناف میں معرکے کی تحریریں پیش کیں ۔ مثال کے طور پر اُس کا لاجواب ڈرامہ ’بساط‘ ملاحظہ کر لیجئے۔ غزل میں بھی اُس نے ناصِر کاظمی کے رنگ سے ہٹ کر اپنا ڈھنگ نکالا ہے۔ اُسے غزل میں نئے اور غیر روایتی الفاظ کھپانے کا سلیقہ آتا ہے، اس لئے اُس کے اسلوب میں ایک ندرت پیدا ہو گئی ہے۔ اِس ندرت کی شہادت میں اِن دو غزلوں کا حوالہ دینا چاہوں گا:
کر لیا دن میں کام آٹھ سے پانچ
اب چلے دورِ جام آٹھ سے پانچ
اگرچہ کچھ نہیں اوقات ایک ہفتے کی
جو سوچئے تو ہیں یہ دس ہزار ایک منٹ
اب ناصِر کاظمی اپنے گھرانے میں اکیلے نہیں رہے۔ آج وہ ہوتے تو دیکھتے کہ زندگی اور وقت نے اُن کی یہ دعا پوری کر دی ہے:
عمر بھر کی نوا گری کا صلہ
اے خدا کوئی ہم نوا ہی دے
یہ چند سطریں میں نے صرف ثواب کی خاطر لکھی ہیں ع گر قبول افتد زہے ۔ ۔ ۔ اردو ادب کے مشاہیر باصِر کی تحریروں کا تحریری اعتراف کر چکے ہیں ۔ میری کیا مجال کہ اُن کے سامنے لب کشائی کرنے کی جرات کروں ۔ ویسے بھی مشک کی خوشبو اپنے اظہار کے لئے عطار کے لفظوں کی محتاج کہاں ہوتی ہے۔ اجازت دیجئے، اور باصِر کے چند اشعار دیکھئے:
اِس کاروبارِ عشق میں ایسی ہے کیا کشش
پہلے پدر خراب ہوا پھرپسر خراب
اِسقدر ہجر میں کی نجم شماری ہم نے
جان لیتے ہیں کہاں کوئی ستارا کم ہے
اب تجھے کھو کے خیال آتا ہے
تجھ کو پایا تھا بہت کچھ کھو کر
کتنی ہی بے ضرر سہی تیری خرابیاں
باصِر خرابیاں تو ہیں پھر بھی خرابیاں
چل دیے یوں صنم کدے سے ہم
جیسے مل جائے گا خدا باہر
آشنا درد سے ہونا تھا کسی طور ہمیں
تو نہ ملتا تو کسی اور سے بچھڑے ہوتے
عادتیں اور حاجتیں باصِربدلتی ہیں کہاں
رقص بِن رہتا نہیں طاؤس بَن کوئی بھی ہو
(دنیا زاد، کتابی سلسلہ54، دسمبر2017، مرتبہ آصف فرخی، کراچی)
ویلینٹائن ۔ کیرل این ڈفی
ایک سرخ گلاب یا ساٹن کا بنا ہوا دل نہیں ۔
میں تمہیں ایک پیاز دیتی ہوں ۔
یہ خاکی کاغذ میں لپٹا ہوا چاند ہے۔
یہ روشنی دے گا
جیسے محبت کو احتیاط سے بے لباس کیا جائے۔
یہ لو۔
یہ تمہیں آنسوئوں سے اندھا کر دے گا
ایک عاشق جیسا۔
یہ تمہارے عکس کو
غم کی لرزتی ہوئی تصویر بنا دے گا۔
میں راست گو ہونے کی کوشش کر رہی ہوں ۔
ایک خوبصورت کارڈ یا کِسوگرام
سگریٹ (نظم سے اقتباس) ۔ جون ایش
سگریٹ ایک جذبے کی طرح ہے کہ یہ اندر تک اتارا جاتا ہے
اور جسم کی تمام خالی جگہوں کو معمور کرتا محسوس ہوتا ہے،
تاآنکہ،بے شک، یہ جل کے ختم ہو جائے، اور بجھا دیا جائے
پستے کے چھلکوں میں ، یا جو بھی کچرا
قریب ہو، اور ہو سکتاہے جذبہ آثار چھوڑ جائے
جو وقت کے ساتھ بڑھ کے شدیدہو جائیں : وہ جس نے لطف اٹھایاہے
ممکن ہے کئی برس بعد مر جائے، ایک گمنام
ہوٹل یا ہسپتال کے کمرے میں ، ایک سٹینڈ،
بُری تصویر یا خالی مرتبان کی خالی نظروں کے نیچے،
اُس لمحے کو یکسر بھولتے ہوئے، جس نے اعلان کیا تھا
اُس کی موت کے آغاز کا۔
ایک دفعہ کا ذکر ہے ۔ گبریل اوکارا
ایک دفعہ کا ذکر ہے، اے پسر،
وہ دل سے ہنستے تھے
اور اپنی آنکھوں سے ہنستے تھے:
لیکن اب وہ صرف اپنے دانتوں سے ہنستے ہیں ،
جبکہ ان کی برف سی سرد آنکھیں
میرے سائے کے پیچھے کچھ ڈھونڈتی ہیں ۔
بے شک ایک وقت تھا
جب وہ دل سے ہاتھ ملاتے تھے:
مگر وہ وقت جا چکا، اے پسر،
اب وہ بے دلی سے ہاتھ ملاتے ہیں
جس اثنامیں ان کے بائیں ہاتھ تلاشی لیتے ہیں
میری خالی جیبوں کی ۔
’اپنا گھر سمجھو‘! ’پھر آنا‘:
وہ کہتے ہیں ، اور جب میں آتا ہوں
دوبارہ اور محسوس کرتا ہوں
اپنے گھر جیسا، ایک بار، دوبار،
تیسری بار نہیں آئے گی ۔۔
کیونکہ اس کے بعد میں دروازوں کو خود پر بند پاتا ہوں ۔
چنانچہ میں نے بہت کچھ سیکھا ہے ، اے پسر،
میں نے بہت سے چہرے پہننا سیکھ لیے ہیں
ملبوسات کی طرح۔۔ گھر کا چہرہ،
دفتر کا چہرہ، گلی کا چہرہ، میزبانی کا چہرہ،
پارٹی کا چہرہ، اپنی تمام مناسبت رکھتی ہوئی مسکراہٹوں کے ساتھ
ایک آویزاں تصویر کی مسکراہٹ کی طرح۔
اور میں نے بھی سیکھ لیا ہے
صرف اپنے دانتوں سے ہنسنا
اور بے دلی سے ہاتھ ملانا۔
میں نے ’الوداع‘ کہنا بھی سیکھ لیا ہے،
جب میرا مطلب ہوتا ہے ’جان چھوٹی‘:
یہ کہنا کہ’ آپ سے مل کے خوشی ہوئی‘،
خوش ہوئے بغیر؛ اور کہنا کہ
’آپ سے بات کرنا اچھا لگا‘، بیزار ہونے کے بعد۔
لیکن میرا یقین کر، فرزند۔
میں ہونا چاہتا ہوں جو میں کبھی تھا
جب میں تجھ ایسا تھا۔ میں چاہتا ہوں
ان تمام بے صدا کرنے والی باتوں کو بھلا دینا۔
سب سے بڑھ کے، میں دوبارہ سیکھنا چاہتا ہوں
کیسے ہنستے ہیں ، کیونکہ آئینے میں میرا قہقہہ
صرف میرے دانت دکھاتا ہے جیسے ایک سانپ کے عیاں زہری دانت!
پس مجھے دکھا، اے پسر،
کیسے ہنستے ہیں ؛ مجھے دکھا کیسے
میں ہنسا کرتا تھا اور مسکراتا تھا
کبھی جب میں تیرے جیسا تھا۔
مہاجر کا اداس نغمہ۔ ڈبلیو ایچ اوڈن
فرض کرو اِس شہر میں ایک کروڑ لوگ ہیں ،
کچھ حویلیوں میں رہتے ہیں ، کچھ جھونپڑیوں میں :
تاہم، ہمارے لیے کوئی جگہ نہیں ہے، پیارے، ہمارے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔
کبھی ہمارا ایک ملک تھا اور ہمارا خیال تھا کہ وہ اچھا ہے،
نقشے میں دیکھواور وہ تمہیں وہاں مل جائے گا:
اب ہم وہاں نہیں جا سکتے، پیارے، اب ہم وہاں نہیں جا سکتے۔
گاؤں کے قبرستان میں ایک پرانا سدا بہار درخت لگا ہوا ہے،
ہر بہار میں اس پر نئے پھول آتے ہیں :
پرانے پاسپورٹ ایسا نہیں کر سکتے، پیارے، پرانے پاسپورٹ ایسا نہیں کر سکتے۔
قونصل نے میز پر ہاتھ مارا اور کہا،
’’اگر تمہارے پاس کوئی پاسپورٹ نہیں ہے تم سرکاری طور پر مردہ ہو‘‘:
لیکن ہم ابھی تک زندہ ہیں ، پیارے، لیکن ہم ابھی تک زندہ ہیں ۔
میں کمیٹی کے پاس گیا؛ انہوں نے مجھے کرسی پیش کی؛
مجھے نرمی سے کہا کہ اگلے سال واپس چلے جاؤ:
لیکن ہم آج کہاں جائیں گے، پیارے، لیکن ہم آج کہاں جائیں گے؟
میں ایک عام جلسے میں گیا؛ مقرر کھڑا ہوا اور بولا:
’’اگر ہم انہیں آنے دیں ، وہ ہماری روزی روٹی چرا لیں گے‘‘:
وہ تمہاری اور میری بات کر رہا تھا، پیارے، وہ تمہاری اور میری بات کر رہا تھا۔
مجھے لگا کہ میں نے آسمان میں رعد کو گرجتے سنا؛
وہ ہٹلر تھا یورپ پر، کہہ رہا تھا، ’’انہیں مرنا ہے‘‘:
اُس کے ذہن میں ہم تھے، پیارے، اُس کے ذہن میں ہم تھے۔
ایک پوڈل کتے کو جیکٹ میں دیکھاجو پِن سے بند کی گئی تھی،
ایک دروازہ کھُلتے دیکھااور ایک بلی کو اندرآنے دیتے ہوئے:
لیکن وہ جرمن یہودی نہیں تھے، پیارے، لیکن وہ جرمن یہودی نہیں تھے۔
میں ایک بندرگاہ پہ گیا اور پشتے پہ کھڑا ہوا،
مچھلیوں کو تیرتے دیکھا گویا کہ وہ آزاد تھیں :
صرف دس فٹ دور، پیارے، صرف دس فٹ دور۔
ایک جنگل سے گزرا، درختوں پہ پرندوں کو دیکھا؛
اُن میں کوئی سیاستدان نہیں تھا اور وہ چین سے گا رہے تھے:
وہ انسانی نسل نہیں تھے، پیارے، وہ انسانی نسل نہیں تھے۔
میں نے خواب میں ایک ہزار منزلہ عمارت دیکھی،
ایک ہزار کھڑکیاں اور ایک ہزار دروازے:
ان میں ہمارا ایک بھی نہیں تھا، پیارے، ان میں ہمارا ایک بھی نہیں تھا۔
میں برف باری میں ایک بڑے میدان میں کھڑا تھا؛
دس ہزار سپاہی اِدھر اُدھر مارچ کر رہے تھے:
تمہیں اور مجھے ڈھونڈتے ہوئے، پیارے، تمہیں اور مجھے ڈھونڈتے ہوئے۔
I Shall Return – Claude McKay
میں دوبارہ واپس آؤں گا۔ میں واپس آؤں گا
ہنسنے اور محبت دینے اور حیران آنکھوں سے دیکھنے
سنہری دوپہر میں جنگل کی بھٹیوں کوجلتے،
اپنا نیلا-سیاہ دھواں نیلمی آسمان کو بھیجتے۔
میں واپس آؤں گا ندیوں کے کنارے مٹرگشت کرنے
جو خمیدہ گھاس کی بھوری پتیوں کو بھگوتی ہیں ،
اور ایک بار پھر اپنے ہزاروں خوابوں کو پورا کرنے
جو میں نے پہاڑی دروں سے بہہ کر آنے والے پانیوں کے دیکھے تھے۔
میں واپس آؤں گا وائلن اور بانسری کو سننے
جن پر گاؤں میں رقص ہوتا ہے، محبوب شیریں دھنوں کو سننے
جو دیسی زندگی میں نہاں گہرائیوں کو متحرک کرتی ہیں ،
اور دھندلائی ہوئی دھنوں کے بھٹکے ہوئے نغمے سننے۔
میں واپس آؤں گا۔ میں دوبارہ واپس آؤں گا
اپنے ذہن کے سالہاسال کے دردکو مٹانے ۔
ٹونی او ۔ گمنام
ویران اور بنجر برف میں
ایک آواز پکاری؛
’تم کہاں جا رہے ہو، ٹونی او!
تم آج صبح کہاں جا رہے ہو؟‘
’میں جا رہا ہوں جہاں شراب کے دریا ہیں ،
پہاڑی روٹی اور شہدہیں ؛
وہاں سب ملوک اور ملکائیں جانوروں کی نگرانی کرتے ہیں ،
اور ساری دولت غریبوں کے پاس ہے۔‘
بات چیت ۔ ڈی ایچ لارنس
میری خواہش ہے، جب آپ لوگوں کے نزدیک بیٹھیں ،
وہ یہ ضروری نہ سمجھیں کہ بات کریں
اور لفظوں کی ہلکی اور سرد ہوا بھیجیں
جو آپ کی گردن پہ اور کانوں میں اُترے
اور آپ کے اندر خنکی پہنچائے۔
متعدد حویلیاں ۔ ڈی ایچ لارنس
جب درخت پر اپنا توازن برقرار رکھنے کے لیے ایک پرندہ اپنی دُم ہلاتا ہے
وہ کہیں زیادہ خوشی محسوس کرتا ہے، ڈھیروں دولت پانے کے مقابلے میں
یا اپنے لیے ایسا گھونسلا بنانے کی نسبت جس میں غسل خانہ ہو۔۔
لوگ کیوں اِس طرح خوش نہیں ہو سکتے؟
فرصت ۔ ڈبلیو ایچ ڈیوس
یہ کیا زندگی ہے اگر، فکر میں گھرے،
ہمارے پاس وقت نہ ہو کہ رکیں اور دیکھیں ؟
وقت نہ ہو کہ درختوں کے نیچے کھڑے ہوں
اور دیکھیں دیر تک بھیڑوں اور گایوں کی طرح۔
وقت نہ ہو کہ دیکھیں ، جب ہم جنگل سے گزریں ،
جہاں گلہریاں گھاس میں اخروٹ چھپاتی ہیں ۔
وقت نہ ہو کہ دیکھیں ، دن کی کھلی روشنی میں ،
ستاروں سے بھری ندیاں ، جیسے رات کو آسمان۔
وقت نہ ہو کہ پلٹیں حُسن کی نگاہ کی طرف،
اور اُس کے پاوئں دیکھیں ، وہ کیسے ناچ سکتے ہیں ۔
وقت نہ ہو کہ انتظار کریں جب تک اُس کے ہونٹ
اُس مسکراہٹ کو نہال کرسکیں جو اُس کی آنکھوں نے شروع کی تھی۔
یہ ایک کنگال زندگی ہے اگر، فکر میں گھرے
ہمارے پاس وقت نہ ہو کہ رکیں اور دیکھیں ۔
’باغبان‘ سے چار نظمیں ۔ رابندر ناتھ ٹیگور
— 1 —
قاری، تم کون ہوجو اب سے سو سال بعد میری نظمیں پڑھ رہے ہو؟
میں تمہیں بہار کی اِس دولت سے ایک بھی پھول، اُس بادل سے ایک بھی سنہری کرن نہیں بھیج سکتا۔
اپنے دروازے کھولو اور باہر دیکھو۔
اپنے پروان چڑھتے ہوئے باغ سے سو سال قبل مٹ گئے پھولوں کی معطر یادیں جمع کرو۔
اپنے دل کی خوشی میں شاید تم اُس زندہ خوشی کو محسوس کر سکوجو ایک بہار کی صبح نغمہ سرا ہوئی، اپنی پُر مسرت آواز کو سو برس دور بھیجتے ہوئے۔
— 2 —
میرے دل کو، جو طائر بیابان ہے، تمہاری آنکھوں میں اپنا آسمان مل گیا ہے۔
یہ صبح کا پنگوڑا ہیں ، ستاروں کی سلطنت ہیں ۔
میرے گیت ان کی گہرائیوں میں کھو گئے ہیں ۔
مجھے اِس آسمان میں تیرنے دو، اِ س کی غیر آباد وسعت میں ۔
مجھے اِس کے بادلوں میں راستہ بنانے دو، اور اِس کی دھوپ میں پر پھیلانے دو۔
— 3 —
اِیسی نگاہ سے تم کیوں مجھے شرمندہ کرتے ہو؟
میں ایک بھکاری بن کے نہیں آیا۔
میں تمہارے صحن کی بیرونی حد پر، باغ کی باڑھ سے باہر، کچھ دیر کے لیے ٹھہرا تھا۔
اِیسی نگاہ سے تم کیوں مجھے شرمندہ کرتے ہو؟
میں نے تمہارے باغ سے ایک بھی گلاب نہیں لیا، ایک پھل نہیں توڑا۔
میں نے راستے میں سائبان تلے عاجزی سے پناہ لی، جہاں ہراجنبی مسافر ٹھہر سکتا ہے۔
میں نے ایک بھی گلاب نہیں توڑا۔
ہاں ، میرے پاؤں تھکے ہوئے تھے، اور بارش کی بوچھاڑ گر رہی تھی۔
ہوائیں بانس کی جھونکے کھاتی شاخوں میں چیخ اٹھیں ۔
بادل آسمان پہ دوڑ رہے تھے جیسے ہار کے بھاگ رہے ہوں ۔
میرے پاؤں تھکے ہوئے تھے۔
مجھے معلوم نہیں تم نے میرے بارے میں کیا خیال کیا تھا یا تمہیں دروازے پر کس کا انتطار تھا۔
بجلی کے کوندے تمہاری آنکھوں کو چوندھیا رہے تھے۔
مجھے کیسے پتہ چلتا کہ میں جہاں اندھیرے میں کھڑا تھا تمہیں نظر آسکتا تھا؟
مجھے معلوم نہیں تم نے میرے بارے میں کیا خیال کیا تھا۔
دن ختم ہو گیا ہے اور بارش ایک لمحے کے لئے رک چکی ہے۔
میں تمہارے باغکی بیرونی حد پر، درخت کا سایا چھوڑ رہا ہوں اور گھاس کی یہ نشست ۔
اندھیرا ہو چکا ہے؛ اپنا دروازہ بند کر لو؛ میں اپنی راہ لیتا ہوں ۔
دن ختم ہو چکاہے۔
— 4 —
چراغ کیوں بجھ گیا؟
میں نے اسے ہوا سے بچانے کے لیے اپنی چادر سے ڈھک دیا تھا، اِس لیے چراغ بجھ گیا۔
پھول کیوں مرجھا گیا؟
میں نے اسے بیقرار محبت سے اپنے سینے کے ساتھ بھینچ لیا تھا، اِس لیے پھول مرجھا گیا۔
ندی کیوں سوکھ گئی؟
میں نے اپنے استعمال کے لیے اس پر ایک ڈیم بنا دیا تھا، اِس لیے ندی سوکھ گئی۔
بربط کا تار کیوں ٹوٹ گیا؟
میں نے اس سے ایسا سُر نکالنے کی کوشش کی جو اس کے اختیار سے باہر تھا، اِس لیے بربط کا تار ٹوٹ گیا۔
خوش آدمی ۔ جون ڈرائڈن
خوش ہے وہ آدمی، اورصرف وہی خوش ہے،
جو ’آج‘ کو اپنا کہہ سکتا ہے؛
وہ جو، ’ اندر سے محفوظ‘ ، کہہ سکتا ہے،
اے ’کَل‘، برے سے برا کرگزر، کیونکہ میں ’آج‘ جی چکا ہوں ۔
شب بخیر ۔ فرانسس کوارلز
اب تم اپنی آنکھیں بند کر لو، اور چین سے آرام کرو؛
تمہاری روح خاصی محفوظ ہے؛ تمہارا جسم قائم؛
وہ جو تم سے محبت کرتا ہے، جس نے تمہیں رکھا ہے
اور تمہاری پاسبانی کرتا ہے، کبھی نہیں سوتا، کبھی نہیں سوتا۔۔۔۔
نظموں کے تراجم کے حوالے سے ایک ضروری نوٹ
میں نے درج ذیل نظموں میں سے بیشتر کے منظوم تراجم بھی کیے لیکن وہ قدرے مصنوعی اور بے تاثیر لگے۔ اِس کے علاوہ،وزن پورا کرنے کے لیے کچھ ایسے الفاظ استعمال کرنا پڑ رہے تھے جو زائد تھے اور اصل متن سے بھی دور کر رہے تھے۔ بعض اوقات نثر کی موسیقی نظم کی غنائیت سے زیادہ موثر ہوتی ہے۔ اس کی ایک انتہائی مثال یہ ہے کہ انجیل اور قرآن کے منظوم تراجم پڑھتے وقت مسلسل ایسا لگتا ہے جیسے کوئی انسان ہم سے مخاطب ہے جبکہ نثری تراجم کی خواندگی میں بہت سے مقامات پر غیبی آواز سنائی دیتی محسوس ہوتی ہے۔
اختیار نہ کیا گیا راستہ ۔ رابرٹ فراسٹ
زرد جنگل میں دو راستے ہو رہے تھے جدا،
اور افسوس دونوں پہ چلنا تو ممکن نہ تھا
مجھ کو ہونا تھا بس ایک ہی کامسافر، میں دیکھا کیا
دیر تک ایک کو حدِ امکان تک
وہاں تک جہاں ہو رہا تھا وہ خم کھا کے جنگل میں گُم؛
میں نے پھر دوسرے کو چُنا،وہ جو اُتنا ہی خوش رنگ تھا،
پُر کشش بھی زیادہ تھا شاید،
کہ تھی اُس پہ گھاس اور وہ قدموں کی طالب تھی؛
گو اُس جگہ آمدورفت سے
دونوں یکساں ہی پامال تھے،
اور اُس صبح دونوں پہ تھے
راہگیروں کے قدموں سے محفوظ پتے ۔
میں نے پہلے کو چھوڑا کسی اور دن کے لیے!
گو کہ معلوم تھاکیسے اک راہ سے دوسری رہ نکلتی ہے،
اور واپسی کتنی دشوار ہوتی ہے۔
میں بیاں کر رہا ہوں گا اک آہ بھر کے
کہیں آج سے سالہا سال بعد:
ایک جنگل میں دو راستے ہو رہے تھے جدا، اور میں ۔۔
میں نے وہ چُن لیا جس پہ کم آمدورفت رہتی رہی،
اور اِسی بات نے فرق ڈالا تمام۔
گِرو، پتو، گرو ۔ ایملی برونٹے
گِرو، پتو، گرو ۔ ایملی برونٹے
(Fall، leaves، fall – Emily Bronte )
گِرو، پتو، گرو؛ مُرجھاؤ پھولو؛
کرو دن چھوٹے راتیں لمبی؛
خوش کرتاہے مجھ کو،
خزاں کے پیڑ کاہر ایک پتہ لہلہاکے نیچے آتا۔
جہا ں کھِلتا گلاب اُس جا
کھِلیں گے برف کے جب ہار تو میں مسکراؤں گی؛
میں گاؤں گی زوالِ شب
جب اک دِل گیر تردن لے کے آئے گا۔
دو کشتیوں کے سوار
تم نے کہا:
’’تم دوہری شہریت والے
دو کشتیوں کے سوار ہو،
ایک پاؤں ایک میں
دوسرا دوسری میں
گرو گے۔‘‘
سنو، تم بھی دو کشتیوں کے سوار ہو
فرق؟
تم خود تو اپنی کشتی میں سوار ہو
لیکن تمہارے اثاثے، کاروبار، اولاد
ہماری کشتی میں ،
کیونکہ تم سمجھتے ہو
یہ زیادہ محفوظ ہے۔
اِدھر ہمارے جسم ہماری کشتی میں ہیں
لیکن ہمارا دل تمہاری کشتی میں ۔
اس کی حفاظت کرنا۔
بندۂ مزدور کے اوقات
جب جب نیند آتی ہے
جاگنا پڑتا ہے۔
کھانے کی مہلت نہیں ملتی
جب لگتی ہے بھوک۔
کھاتے ہیں تو بھوک نہیں ہوتی اُس وقت،
سونے لگتے ہیں تو نیند نہیں آتی۔
دوہری شہریت
ایک وطن وہ ہوتا ہے
جس میں ہم رہتے ہیں ۔
ایک وطن وہ ہوتا ہے
جو ہم میں رہتا ہے،
جب تک ہم رہتے ہیں ۔
دشت نوردی
رستے ’’ہیں سب دیکھے بھالے‘‘
پڑ گئے چل چل پاؤں میں چھالے
ایسی بھول بھلیاں ہیں یہ
جیسے ہوں مکڑی کے جالے
راہِ راست
نہیں لازم کہ بیابان میں وحشت کیجے
یا کسی کوہ کے دامن میں مشقت کیجے
آج اک حور شمائل نے کہا عاشق سے
مجھ کو پانا ہے تو گھر جا کے عبادت کیجے
ایک تدفین کے بعد
کل جس شخص سے بات ہوئی تھی
آج وہ اِس دنیا میں نہیں ۔
ہم بھی اک دن اِسی طرح۔
واپسی
چڑھائی کرتی چلی جا رہی ہے فوجِ عدو
نپولین کی طرح۔
وہ بے خبر ہے کہ بدلے گا جیسے ہی موسم
پڑے گی برف
چلے گی ہوا زمستانی،
نہیں ملے گا اُسے واپسی کا رستہ بھی۔
ایک تو ہی تو رہ گیا تھا ساتھ
تو بھی ہو جائے گا جدا، اچھا
گر اِسے کہہ سکیں ہم اک نقصان
تو نے اک دوست کھو دیا اچھا
’شاہی محل ‘کے ایک ملازم کی نجی گفتگو
اگرچہ شکوہ مناسب نہیں زباں کے لیے
تڑپ رہا ہے مرا نطق اِس بیاں کے لیے
جہاں سب اپنے ہوں موجود گر وہاں نہ کہوں
سنبھال رکھوں میں یہ بات پھر کہاں کے لیے
ملا ہمیں کہ رعایا بھی چاہیے تھی کچھ
’’بنا ہے ’ملک ‘تجمل حسین خاں کے لیے‘‘
وادی الملوک کے ایک کارکن کی عرض داشت
مالک اگرچہ تُو ہے
رازق بھی تُو مِرا ہے
لیکن تِرا یہ بندہ
اکثر یہ سوچتا ہے
یہ کیا کہ رزق میرا
فرعون سے جڑا ہے
یا مقبرے بنا کے
یا مقبرے دکھا کے
(۔ مصرکی وادی الملوک میں (انقلاب سے تین ہفتے قبل))
تنبیہہ
خیر کی ان سے نہ رکھنا امید
ہیں یہ ابلیس کے دیرینہ مرید
ایک مخلص کی ہے تجھ کو تاکید
دیکھ غفلت نہ ہو اب تجھ سے مزید
اب تو حربے انہیں حاصل ہیں جدید
کچھ بھی کر سکتی ہیں افواجِ یزید
ریفرنڈم
سردار کی نیت کو ٹٹولا نہیں کرتے
بس ہاتھ اٹھا دیتے ہیں بولا نہیں کرتے
’’جمہوریت اک طرزِ حکومت ہے کہ جس میں
بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے‘‘
اتحاد
لُوٹنا ہو گا غریبوں کو جبھی ایک ہوئے
ورنہ یہ رہزن و قزاق کبھی ایک ہوئے؟
کامیابی نے تو ڈالی ہے ہمیشہ تفریق
جب کبھی مار پڑی اِن کو تبھی ایک ہوئے