زمرہ جات کے محفوظات: ناصر کاظمی
ناکام ہوں کہ کام نہیں آپ سے مجھے
یہ ہمسفر مرے کتنے گریز پا نکلے
کتنے گھروں کا حق چھینا ہے
رات بھر پھرتا ہے اس شہر میں سایا کوئی
دل تجھے بھی بھلائے جاتا ہے
ہمارا کیا ہے بھلا ہم کہاں کے کامل تھے
اب سجے گی انجمن بسنت آ گئی
آگ جلتی رہے رات ڈھلتی رہے
وہ روشنی تھی کہ صورت نظر نہ آتی تھی
اب تو آ جا کہ رات بھیگ چلی
تو اجنبی ہے مگر شکل آشنا سی ہے
دم بدم کوئی صدا ہے دل میں
یہ رنگِ خوں ہے گلوں پر نکھار اگر ہے بھی
تیری گلی گلی کی خیر اے مرے دل رُبا وطن
عمرِ رفتہ کی رہگزر ہے یہ
چھتوں پہ گھاس ہوا میں نمی پلٹ آئی
آج دیکھا انہیں اُداس بہت
پچھلے پہر یوں چلے اندھیری جیسے گرجیں شیر
چل ساتھی کہیں اور چلیں
ملا نہیں تو کیا ہوا وہ شکل تو دِکھا گیا
جو مل گیا ہے میں اُس سے زیادہ کیا کرتا
رات کا جادُو بکھر کر رہ گیا
ہوتے ہیں غمِ دل کے بیاں اور طرح کے
میرے حق میں بھی کچھ سنا ہی دے
وہ شخص تو شہر ہی چھوڑ گیا میں باہر جاؤں کس کے لیے
ساتھ مرے اک دُنیا جاگے
غم کی میعاد بڑھا جاؤ کہ کچھ رات کٹے
جی میں ہیں کیسے کیسے پھول
دیکھو اور آنکھ کھول کر دیکھو
دل کی افسردگی کچھ کم تو ہوئی ہم نفسو شکر کرو
تیرا درد چھپا رکھا ہے
رات بھر چاند کے ہمراہ پھرا کرتے تھے
ناؤ چل رہی ہے
یہ وہی دیار ہے دوستو جہاں لوگ پھرتے تھے رات بھر
رات نیند آ گئی درختوں میں
خالی رستہ بول رہا ہے
سونے نہیں دیتیں مجھے شب بھر تری یادیں
کیسے گزرے گا یہ سفر خاموش
درد کی خامشی کا سخن پھول ہے
کہو اے مکینو کہاں ہو یہ کیسا مکاں ہے
تو ایک بار تو مل، سب گلے مٹا دُوں گا
جانے کیا اضطراب میں دیکھا
زِندگی تو ہی بتا کیسے جیا چاہیے
بھیس جدائی نے بدلا ہے
کہنے کو سب کچھ اپنا ہے
اِک دبستانِ ہنر کھولیں گے
سونے پر ہے بھاری مٹی
نقشے کبھی اس اُجڑے ہوئے گھر کے تو دیکھو
نہ سنو تم تو کیا کہے کوئی
جو زخم دل کو ملے تھے وہ بھرتے جاتے ہیں
کچھ تو بتا کیا بات ہوئی ہے
اس چمن کی ہے آبرو ہم سے
ہوا کہیں کی ہو سینہ فگار اپنا ہے
دیا سا رات بھر جلتا رہا ہے
جیسے بلقیس سلیماں کے محل میں آئے
کچھ کہو یارو یہ بستی ہے کہ ویرانہ کوئی
تو نے وعدہ کیا تھا یاد تو کر
بچا لیے تھے جو آنسو برائے شامِ فراق
بیِتے لمحوں کی جھانجھن
اب اُس پیڑ کے پتے جھڑتے جاتے ہیں
کہو تو کیوں نہ ابھی سے کچھ اہتمام کریں
تونے جو دیکھا سنا کیا میں نے دیکھا ہے نہ پوچھ
کیا چیز زندہ بند ہے دل کے رباب میں
سچ ہے یارو خطا ہمیں سے ہوئی
ابر گرجا گلِ باراں چمکے
اے دل قفسِ جاں میں ذرا اور پھڑک لے
عشق ہوتا تو کوئی بات بھی تھی
ترا دل گداز ہو کس طرح یہ ترے مزاج کی لے نہیں
چاند کے سب رنگ پھیکے ہو گئے
دل کی آواز سنا دی ہم نے
اس خرابے میں یہ دِیوار کہاں سے آئی
یارو یہ کیسی ہوا ہے اب کے
میں اپنے ہاتھ کاٹ لوں تو اپنے ہونٹ سی
کوئی تازہ ہوا چلی ہے ابھی
خاک ہو کر کہیں بکھر جائیں
کیسی سنسان فضا ہوتی ہے
مجھ سے اِتنی وحشت ہے تو میری حدوں سے دُور نکل
میں بھی تیرے جیسا ہوں
کبھی تم بھی سنو یہ دھرتی کیا کچھ کہتی ہے
کوئی بھی یادگارِ رفتہ نہیں
یاد نے کنکر پھینکا ہو گا
کارواں پھر ملیں گے بہم صبر کر صبر کر
مہکتے میٹھے دریاؤں کا پانی
دِیوانہ ہے دِیوانے کے منہ نہ لگو تو بہتر ہے
مگر جینے کی صورت تو رہی ہے
پھر پتوں کی پازیب بجی تم یاد آئے
گو باغباں یہ کنجِ چمن مجھ سے چھِین لے
تو بھی دل سے اتر نہ جائے کہیں
وہ درد اب کہاں جسے جی چاہتا بھی ہو
اشعار
ہم نے تجھ کو لاکھ پکارا تو لیکن خاموش رہا
آخر ساری دُنیا سے ہم تیرے بہانے روٹھ گئے
—
بیٹھے بیٹھے گھبرائے ہم
جانے کس کو یاد آئے ہم
—
اسیرو کچھ نہ ہو گا شور و شر سے
لپٹ کر سو رہو زنجیرِ در سے
—
کیا کمی آ گئی وفاؤں میں
وہ اثر ہی نہیں دعاؤں میں
—
بھٹک رہا ہے جہاں قافلہ بگولوں کا
کبھی ہجوم تھا ان راستوں میں پھولوں کا
—
کیا بلا آسمان سے اُتری
اُس کی صورت بھی دھیان سے اُتری
گھر میں اس شعلہ رُو کے آتے ہی
روشنی شمعدان سے اُتری
—
رین اندھیری ہے اور کنارا دُور
چاند نکلے تو پار اُتر جائیں
یوں پریشاں ہوئیں تری یادیں
جیسے اوراقِ گل بکھر جائیں
—
پر سوختہ پتنگے شمعیں بجھی بجھی سی
دل سوز ہیں مناظر بزمِ سحر گہی کے
—
گھر لٹا کر وطن میں جی نہ لگا
پھر کسی انجمن میں جی نہ لگا
—
تم ہی کہو اے انجمِ شب
کتنی دُور ہے شہرِ طرب
—
کوئی جھونکا جو سرِ شام آیا
میں یہ سمجھا ترا پیغام آیا
زندگی اُس کے تصوّر میں کٹی
دُور رہ کر بھی وہی کام آیا
—
دن کا چراغ نکلا گل ہو گئے ستارے
دنیا کے شور و غل میں دل اب کسے پکارے
—
اے دل نہ تڑپ کہ قہر ہو گا
رسوا کوئی شہر شہر ہو گا
—
عالمِ خواب میں دکھائے گئے
کب کے ساتھی کہاں ملائے گئے
کیسی گردش میں اب کے سال پڑا
جنگ سر سے ٹلی تو کال پڑا
تجھ سے مل کر بھی دل کو چین نہیں
درمیاں پھر وہی سوال پڑا
—
نہ پھول جھڑتے ہیں ہم پر نہ برق گرتی ہے
پڑے ہُوئے ہیں بعنوانِ سبزۂ بے کار
—
اب دل میں کیا رہا ہے تری یاد ہو تو ہو
یہ گھر اسی چراغ سے آباد ہو تو ہو
—
اوّلیں شبِ گلشن کس قدر سہانی تھی
اجنبی مہک پا کر ہم نکل پڑے گھر سے
—
ایک تم ہی نہ مل سکے ورنہ
ملنے والے بچھڑ بچھڑ کے ملے
روئے ہم موسمِ بہار کے بعد
اب کی پت جھڑ میں کتنے پھول کھلے
—
سینۂ نے میں صدا میری ہے
اس میں کچھ طرزِ ادا میری ہے
باغ تیرا ہی سہی اے گلچیں
پھول میرے ہیں صبا میری ہے
—
نہ پوچھو کس خرابے میں پڑے ہیں
تہِ ابرِ رواں پیاسے کھڑے ہیں
ذرا گھر سے نکل کر دیکھ ناصر
چمن میں کس قدر پتے جھڑے ہیں
—
ویراں پڑا ہے میکدہ حسنِ خیال کا
یہ دَور ہے بہائے ہنر کے زوال کا
—
ڈھونڈیں گے لوگ مجھ کو ہر محفلِ سخن میں
ہر دَور کی غزل میں میرا نشاں ملے گا