اس کو تِرا اِک حَلقَہِ فِتراک بہت ہے

نخچیرِ خِرَد کو یہی اِدراک بہت ہے
اس کو تِرا اِک حَلقَہِ فِتراک بہت ہے
قرطاس و قَلَم حلقۂ زنجیرِ رَہ و رَسم
اُور ذہنِ رَسا مائلِ افلاک بہت ہے
اِک حُسن کہ ہے سارے حجابوں میں بھی محتاط
اِک جوشِ تمنّا ہے کہ بیباک بہت ہے
اِک حُسن کہ چاہے ہے سَدا زندگیٔ خضر
اِک وقت کی رَو ہے کہ جو سفّاک بہت ہے
کچھ شَوقِ رَفُو سے وہ سِتَمگَر بھی ہے عاری
کُچھ دامَنِ حَسرَت بھی مِرا چاک بہت ہے
آنکھوں میں نہاں یادِ نشیمَن کے ہیں سَیلاب
میرے لیے ذکرِ خَس و خاشاک بہت ہے
کیا کیا نہ دِلِ بُلبُلِ بیتاب پہ گُذری
یُوں دیکھئے تَو دامنِ گُل پاک بہت ہے
وہ سَیر کو مَقتَل کی ذَرا جا کے تَو دیکھیَں
واں دُھول اُڑانے کو مِری خاک بہت ہے
ضامنؔ بھی ہے اِک اہلِ ضمیر اِس کے لیے بھی
کیا خلعتِ زَر! خون کی پوشاک بہت ہے
ضامن جعفری

جواب دیں

Fill in your details below or click an icon to log in:

WordPress.com Logo

آپ اپنے WordPress.com اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Facebook photo

آپ اپنے Facebook اکاؤنٹ کے ذریعے تبصرہ کر رہے ہیں۔ لاگ آؤٹ /  تبدیل کریں )

Connecting to %s