اک طبیعت ہے کہ آزارِ ہنر کھینچتی ہے

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 96
ایک دنیا کی کشش ہے جو اُدھر کھینچتی ہے
اک طبیعت ہے کہ آزارِ ہنر کھینچتی ہے
ایک جانب لیے جاتی ہے قناعت مجھ کو
ایک جانب ہوسِ لقمۂ تر کھینچتی ہے
اک بصیرت ہے کہ معلوم سے آگے ہے کہیں
اک بصارت ہے کہ جو حدِ نظر کھینچتی ہے
ہجر کا عیش کہاں ہے مری قسمت میں کہ اب
زندگی رنج بہ اندازِ دگر کھینچتی ہے
ایک منزل ہے جو امکان سے باہر ہے کہیں
کیا مسافت ہے کہ بس گردِ سفر کھینچتی ہے
ایک خواہش ہے جسے سمت کا ادراک نہیں
اک خلش ہے جو نہ معلوم کدھر کھینچتی ہے
اک طرف دل کا یہ اصرار کہ خلوت خلوت
اک طرف حسرتِ تسکینِ نظر کھینچتی ہے
عرفان ستار

یہ تنہائی ہے بس، خلوت نشینی اور ہوتی ہے

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 95
تخیل اور ہے، نا دیدہ بینی اور ہوتی ہے
یہ تنہائی ہے بس، خلوت نشینی اور ہوتی ہے
عجب دھڑکا لگا رہتا ہے دل کو اُس کی فرقت میں
مگر وہ پاس ہو تو بے یقینی اور ہوتی ہے
سیہ چشمی حسینوں کی تو ویسے بھی قیامت ہے
مگر پاسِ حیا کی سرمگینی اور ہوتی ہے
گریز اُس کا بجائے خود ادائے خاص ہے لیکن
خمارِ وصل کی ناز آفرینی اور ہوتی ہے
نہیں مشروط کارِ عاشقاں ترکِ سکونت سے
میاں، اہلِ جنوں کی نا مکینی اور ہوتی ہے
ہمیں اہلِ جہاں ویسے تو کب کیا کچھ نہیں کہتے
مگر احبابِ دل کی نکتہ چینی اور ہوتی ہے
عرفان ستار

تری خواہش ابھی ہے تو سہی، کم ہو گئی ہے

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 94
اِدھر کچھ دن سے دل کی بے کلی کم ہو گئی ہے
تری خواہش ابھی ہے تو سہی، کم ہو گئی ہے
نظر دھندلا رہی ہے یا مناظر بجھ رہے ہیں
اندھیرا بڑھ گیا یا روشنی کم ہو گئی ہے
ترا ہونا تو ہے بس ایک صورت کا اضافہ
تیرے ہونے سے کیا تیری کمی کم ہو گئی ہے
خموشی کو جنوں سے دست برداری نہ سمجھو
تجسس بڑھ گیا ہے سر کشی کم ہو گئی ہے
ترا ربط اپنے گرد و پیش سے اتنا زیادہ
تو کیا خوابوں سے اب وابستگی کم ہو گئی ہے
سرِ طاقِ تمنا بجھ گئی ہے شمعِ امّید
اُداسی بڑھ گئی ہے بے دلی کم ہو گئی ہے
سبھی زندہ ہیں اور سب کی طرح میں بھی ہوں زندہ
مگر جیسے کہیں سے زندگی کم ہو گئی ہے
عرفان ستار

سو دل نے بے طلبی اختیار کی ہوئی ہے

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 93
کوئی ملا، تو کسی اور کی کمی ہوئی ہے
سو دل نے بے طلبی اختیار کی ہوئی ہے
جہاں سے دل کی طرف زندگی اُترتی تھی
نگاہ اب بھی اُسی بام پر جمی ہوئی ہے
ہے انتظار اِسے بھی تمہاری خوشبو کا؟
ہوا گلی میں بہت دیر سے رُکی ہوئی ہے
تم آگئے ہو، تو اب آئینہ بھی دیکھیں گے
ابھی ابھی تو نگاہوں میں روشنی ہوئی ہے
ہمارا علم تو مرہُونِ لوحِ دل ہے میاں
کتابِ عقل تو بس طاق پر دھری ہوئی ہے
بناؤ سائے، حرارت بدن میں جذب کرو
کہ دھوپ صحن میں کب سے یونہی پڑی ہوئی ہے
نہیں نہیں، میں بہت خوش رہا ہوں تیرے بغیر
یقین کر کہ یہ حالت ابھی ابھی ہوئی ہے
وہ گفتگو جو مری صرف اپنے آپ سے تھی
تری نگاہ کو پہنچی، تو شاعری ہوئی ہے
عرفان ستار

یقین مانو، کسی سے کوئی گلہ نہیں ہے

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 92
اُداس بس عادتاً ہوں، کچھ بھی ہُوا نہیں ہے
یقین مانو، کسی سے کوئی گلہ نہیں ہے
ادھیڑ کر سی رہا ہوں برسوں سے اپنی پرتیں
نتیجتاً ڈھونڈنے کو اب کچھ بچا نہیں ہے
ذرا یہ دل کی امید دیکھو، یقین دیکھو
میں ایسے معصوم سے یہ کہہ دوں خدا نہیں ہے؟
میں اپنی مٹی سے اپنے لوگوں سے کٹ گیا ہوں
یقیناً اس سے بڑا کوئی سانحہ نہیں ہے
تو کیا کبھی مل سکیں گے یا بات ہو سکے گی؟
نہیں نہیں جاوٗ تم کوئی مسئلہ نہیں ہے
وہ راز سینے میں رکھ کے بھیجا گیا تھا مجھ کو
وہی جو اک راز مجھ پہ اب تک کھُلا نہیں ہے
میں بغض، نفرت، حسد، محبت کے ساتھ رکھوں؟
نہیں میاں میرے دل میں اتنی جگہ نہیں ہے
چہار جانب یہ بے یقینی کا گھپ اندھیرا
یہ میری وحشت کا انخلا ہے، خلا نہیں ہے
اسی کی خوشبو سے آج تک میں مہک رہا ہوں
وہ مجھ سے بچھڑا ہُوا ہے لیکن جدا نہیں ہے
لکھا ہوا ہے تمہارے چہرہ پہ غم تمہارا
ہماری حالت بھی ایسی بے ماجرا نہیں ہے
یہ تازہ کاری ہے طرزِ احساس کا کرشمہ
مرے لغت میں تو لفظ کوئی نیا نہیں ہے
نیا ہنر سیکھ، فی زمانہ ہو جس کی وقعت
سخن کی نسبت سے اب کوئی پوچھتا نہیں ہے
جسے ہو عرفانِ ذات وہ کیا تری سنے گا؟
او ناصحا، چھوڑدے، کوئی فائدہ نہیں ہے
عرفان ستار

یہ یادگارِ یارِ کم آمیز مجھ میں ہے

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 91
جو بے رخی کا رنگ بہُت تیز مجھ میں ہے
یہ یادگارِ یارِ کم آمیز مجھ میں ہے
سیراب ‘ کُنجِ ذات کو رکھتی ہے مستقِل
بہتی ہوئی جو رنج کی کاریز مجھ میں ہے
کاسہ ہے ایک فکر سے مجھ میں بھرا ہُوا
اور اک پیالہ درد سے لب ریز مجھ میں ہے
یہ کربِ رائگانیء اِمکاں بھی ہے’ مگر
تیرا بھی اک خیالِ دل آویز مجھ میں ہے
تازہ کِھلے ہوئے ہیں یہ گل ہاے زخم رنگ
ہر آن ایک موسِمِ خوں ریز مجھ میں ہے
رکھتی ہے میری طبع رَواں ‘ بابِ حرف میں
یہ مستقِل جو درد کی مہمیز مجھ میں ہے
اب تک ہرا بھرا ہے کسی یاد کا شجر
عرفان ! ایک خطّہء زرخیز مجھ میں ہے
عرفان ستار

یا پھر مرا وجود ہی بے زار مجھ میں ہے

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 90
میرے سوا بھی کوئی گرفتار مجھ میں ہے
یا پھر مرا وجود ہی بے زار مجھ میں ہے
میری غزل میں ہے کسی لہجے کی بازگشت
اک یارِ خوش کلام و طرح دار مجھ میں ہے
حد ہے، کہ تُو نہ میری اذیت سمجھ سکا
شاید کوئی بلا کا اداکار مجھ میں ہے
جس کا وجود وقت سے پہلے کی بات ہے
وہ بھی عدم سے برسرِ پیکار مجھ میں ہے
تُو ہے کہ تیری ذات کا اقرار ہر نفس
میں ہوں کہ میری ذات کا انکار مجھ میں ہے
تجھ سے نہ کچھ کہا تو کسی سے نہ کچھ کہا
کتنی شدید خواہشِ اظہار مجھ میں ہے
میں کیا ہوں کائنات میں کچھ بھی نہیں ہوں میں
پھر کیوں اسی سوال کی تکرار مجھ میں ہے
جس دن سے میں وصال کی آسودگی میں ہوں
اُس دن سے وہ فراق سے دوچار مجھ میں ہے
میں ہوں کہ ایک پل کی بھی فرصت نہیں مجھے
وہ ہے کہ ایک عمر سے بے کار مجھ میں ہے
عرفان ستار

جو قید کر کے مجھے خود مری پناہ میں ہے

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 89
کوئی بتائے کہ وہ کیسے اشتباہ میں ہے
جو قید کر کے مجھے خود مری پناہ میں ہے
مقابلہ ہے مرا دوپہر کی حدت سے
بس ایک شام کا منظر مری سپاہ میں ہے
تری تمام ریا کاریوں سے واقف ہوں
یقین کر کہ بڑا لطف اس نباہ میں ہے
مرے سلوک میں شامل نہیں ہے بے خبری
ہر ایک شخص کا منصب مری نگاہ میں ہے
وہ سادہ دل ہے اُسے کیا خبر زمانے کی
خبر جو ہو بھی تو کیا حرج انتباہ میں ہے
ضمیر سے تو ابھی تک ہے خاکداں روشن
یہی چراغ مرے خیمۂ سیاہ میں ہے
میں معترف ہوں روایت کی پاسداری کا
کجی تو حسبِ ضرورت مری کلاہ میں ہے
سپردگی مری فطرت کے ہے خلاف مگر
یہ انکسار ترے غم کی بارگاہ میں ہے
ترے لیے بھی کوئی فیصلہ میں کر لوں گا
ابھی تو شوق تمنا کی سیرگاہ میں ہے
عرفان ستار

رویّوں کی اذیّت ناک یکسانی کہاں تک ہے

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 88
مراسم کی ضرورت خندہ پیشانی کہاں تک ہے
رویّوں کی اذیّت ناک یکسانی کہاں تک ہے
ذرا آنسو رکیں تو میں بھی دیکھوں اس کی آنکھوں میں
اُداسی کس قدر ہے اور پشیمانی کہاں تک ہے
نہ جانے انکشافِ ذات سے خود مجھ پہ کیا گزرے
کسے معلوم تابِ چشمِ حیرانی کہاں تک ہے
کہیں تو جا کے سمٹے گا ترا کارِ جہاں بانی
کبھی تُو بھی تو دیکھے گا کہ ویرانی کہاں تک ہے
کبھی تو چند لمحے خود سے باہر بھی بسر کر لوں
ذرا دیکھوں تو وحشت کی فراوانی کہاں تک ہے
کسے معلوم بعد از باریابی کیا تماشا ہو
خبر کیا نا رسائی کی یہ آسانی کہاں تک ہے
کبھی وہ بے حجابانہ ملے تو پھر کھلے مجھ پر
کہ میرے بس میں آخر دل کی جولانی کہاں تک ہے
تلاطم خیزیٔ خواہش نہ تھی اُس کے تخاطب میں
مگر آنکھیں بتاتی تھیں کہ طغیانی کہاں تک ہے
کہاں تک دل کو میں اس یاد پر معمور رکھوں گا
مرے ذمّے ترے غم کی نگہبانی کہاں تک ہے
رفو گر! میں تو شہرِ عشق سے باہر نہیں جاتا
میں کیا جانوں کہ رسمِ چاک دامانی کہاں تک ہے
عرفان ستار

جانِ من حُسن کی بات اپنی جگہ، مسئلہ کوئی اس کے سوا بھی تو ہے

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 87
تجھ کو چشمِ تحیّر سے تکتا ہوا، صرف میں ہی نہیں آئنہ بھی تو ہے
جانِ من حُسن کی بات اپنی جگہ، مسئلہ کوئی اس کے سوا بھی تو ہے
دشتِ فرقت کی اس تشنگی تک نہیں، آزمائش فقط ہجر ہی تک نہیں
اس سے آگے تمنا کے اظہار کا، ایک دشوار تر مرحلہ بھی تو ہے
میرا لہجہ تعلق سے بھرپور تھا، اور چہرہ تاثر سے معمور تھا
خال و خد سے اُدھر لفظ سے ماورا، ایک احوالِ بے ماجرا بھی تو ہے
حُسن تیرا بہت جاں فزا ہی سہی، روح پرور سہی خوش ادا ہی سہی
سن مگر دل رُبا تیرا نغمہ سرا، دیکھتا ہی نہیں سوچتا بھی تو ہے
حرف کی جستجو میں پگھلتا رہا، شاعرِ خوش نوا روز جلتا رہا
تُو سنے تو سنے ورنہ ہر بات کا، سننے والا کہیں اک خدا بھی تو ہے
کس قدر خوش نفس، کس قدر خوش ادا، یاد کے پھول کھلتے ہوئے جا بہ جا
عشق کی راہ میں غم اگر ہیں تو کیا، عشق کے دم سے ایسی فضا بھی تو ہے
وہ توقع پہ پورا اترتا نہیں، میں اگر چپ رہوں تو سمجھتا نہیں
یوں تو کہنے کو ہے وہ مرا ہم نوا، اک سخن کا مگر فاصلہ بھی تو ہے
وہ نہیں تو سخن کی ضرورت نہیں، مجھ کو سب سے تکلّم کی عادت نہیں
ہجر سے کچھ سوا ہے مرا واقعہ، حرف کی موت کا سانحہ بھی تو ہے
عرفان ستار

جو تھا، نہیں ہے، اور نہ تھا، ہے، یہ عشق ہے

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 86
اپنی خبر، نہ اُس کا پتہ ہے، یہ عشق ہے
جو تھا، نہیں ہے، اور نہ تھا، ہے، یہ عشق ہے
پہلے جو تھا، وہ صرف تمہاری تلاش تھی
لیکن جو تم سے مل کے ہُوا ہے، یہ عشق ہے
تشکیک ہے، نہ جنگ ہے مابینِ عقل و دل
بس یہ یقین ہے کہ خدا ہے، یہ عشق ہے
بے حد خوشی ہے، اور ہے بے انتہا سکون
اب درد ہے، نہ غم، نہ گلہ ہے، یہ عشق ہے
کیا رمز جاننی ہے تجھے اصلِ عشق کی؟
جو تجھ میں اس بدن کے سوا ہے، یہ عشق ہے
شہرت سے تیری خوش جو بہت ہے، یہ ہے خرد
اور یہ جو تجھ میں تجھ سے خفا ہے، یہ عشق ہے
زیرِ قبا جو حسن ہے، وہ حسن ہے خدا
بندِ قبا جو کھول رہا ہے، یہ عشق ہے
ادراک کی کمی ہے سمجھنا اسے مرض
اس کی دعا، نہ اس کی دوا ہے، یہ عشق ہے
شفّاف و صاف، اور لطافت میں بے مثال
سارا وجود آئینہ سا ہے، یہ عشق ہے
یعنی کہ کچھ بھی اُس کے سِوا سوجھتا نہیں؟
ہاں تو جناب، مسئلہ کیا ہے؟ یہ عشق ہے
جو عقل سے بدن کو ملی تھی، وہ تھی ہوس
جو روح کو جنوں سے ملا ہے، یہ عشق ہے
اس میں نہیں ہے دخل کوئی خوف و حرص کا
اس کی جزا، نہ اس کی سزا ہے، یہ عشق ہے
سجدے میں ہے جو محوِ دعا، وہ ہے بے دلی
یہ جو دھمال ڈال رہا ہے، یہ عشق ہے
ہوتااگر کچھ اور تو ہوتا انا پرست
اِس کی رضا شکستِ انا ہے، یہ عشق ہے
عرفان ماننے میں تاٗمل تجھے ہی تھا
میں نے تو یہ ہمیشہ کہا ہے، یہ عشق ہے
عرفان ستار

شوقِ بزم آرائی بھی تیری کمی کا جبر ہے

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 85
خوش مزاجی مجھ پہ میری بے دلی کا جبر ہے
شوقِ بزم آرائی بھی تیری کمی کا جبر ہے
کون بنتا ہے کسی کی خود ستائی کا سبب
عکس تو بس آئینے پر روشنی کا جبر ہے
خواب خواہش کا، عدم اثبات کا، غم وصل کا
زندگی میں جو بھی کچھ ہے سب کسی کا جبر ہے
اپنے رد ہونے کا ہر دم خوف رہتا ہے مجھے
یہ مری خود اعتمادی خوف ہی کا جبر ہے
کارِ دنیا کے سوا کچھ بھی مرے بس میں نہیں
میری ساری کامیابی بے بسی کا جبر ہے
میں کہاں اور بے ثباتی کا یہ ہنگامہ کہاں
یہ مرا ہونا تو مجھ پر زندگی کا جبر ہے
یہ سخن یہ خوش کلامی در حقیقت ہے فریب
یہ تکلم روح کی بے رونقی کا جبر ہے
شہرِ دل کی راہ میں حائل ہیں یہ آسائشیں
یہ مری آسودگی کم ہمتی کا جبر ہے
جس کا سارا حُسن تیرے ہجر ہی کے دم سے تھا
وہ تعلق اب تری موجودگی کا جبر ہے
جبر کی طابع ہے ہر کیفیتِ عمرِ رواں
آج کا غم جس طرح کل کی خوشی کا جبر ہے
کچھ نہیں کھلتا مرے شوقِ تصرف کا سبب
شوقِ سیرابی تو میری تشنگی کا جبر ہے
جو سخن امکان میں ہے وہ سخن ہے بے سخن
یہ غزل تو کچھ دنوں کی خامشی کا جبر ہے
عرفان ستار

اب تو بس معلوم کرنا ہے کہ کیا موجود ہے

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 84
یہ خبر ہے، مجھ میں کچھ میرے سِوا موجود ہے
اب تو بس معلوم کرنا ہے کہ کیا موجود ہے
ایک میں ہوں، جس کا ہونا ہو کے بھی ثابت نہیں
ایک وہ ہے جو نہ ہو کر جابجا موجود ہے
ہاں خدا ہے، اس میں کوئی شک کی گنجائش نہیں
اس سے تم یہ مت سمجھ لینا خدا موجود ہے
حل کبھی ہوتا نہیں یہ جسم سے چھوٹے بغیر
میں ابھی زندہ ہوں سو یہ مسئلہ موجود ہے
تاب آنکھیں لا سکیں اُس حسن کی، ممکن نہیں
میں تو حیراں ہوں کہ اب تک آئینہ موجود ہے
رات کٹتی ہے مزے میں چین سے ہوتی ہے صبح
چاندنی موجود ہے بادِ صبا موجود ہے
روشنی سی آرہی ہے اِس طرف چھنتی ہوئی
اور وہ حدۤت بھی جو زیرِ قبا موجود ہے
ایک پل فرصت کہاں دیتے ہیں مجھ کو میرے غم
ایک کو بہلا دیا تو دوسرا موجود ہے
درد کی شدۤت میں بھی چلتی ہے میرے دل کے ساتھ
اک دھڑکتی روشنی جو ہر جگہ موجود ہے
معتبر تو قیس کا قصہ بھی ہے اس ضمن میں
اس حوالے سے مرا بھی واقعہ موجود ہے
خواب میں اک زخم دیکھا تھا بدن پر جس جگہ
صبح دیکھا تو وہاں اک داغ سا موجود ہے
ایک ہی شعلہ سے جلتے آرہے ہیں یہ چراغ
میر سے مجھ تک وہی اک سلسلہ موجود ہے
یوں تو ہے عرفان ہر احساس ہی محدود سا
اک کسک سی ہے کہ جو بے انتہا موجود ہے
عرفان ستار

مسلسل ایک حالت کے سوا کیا رہ گیا ہے

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 83
یہاں تکرارِ ساعت کے سوا کیا رہ گیا ہے
مسلسل ایک حالت کے سوا کیا رہ گیا ہے
تمہیں فرصت ہو دنیا سے تو ہم سے آ کے ملنا
ہمارے پاس فرصت کے سوا کیا رہ گیا ہے
ہمارا عشق بھی اب ماند ہے جیسے کہ تم ہو
تو یہ سودا رعایت کے سوا کیا رہ گیا ہے
بہت نادم کیا تھا ہم نے اک شیریں سخن کو
سو اب خود پر ندامت کے سوا کیا رہ گیا ہے
بہت ممکن ہے کچھ دن میں اسے ہم ترک کردیں
تمہارا قرب عادت کے سوا کیا رہ گیا ہے
کہاں لے جائیں اے دل ہم تری وسعت پسندی
کہ اب دنیا میں وسعت کے سوا کیا رہ گیا ہے
سلامت ہے کوئی خواہش نہ کوئی یاد زندہ
بتا اے شام وحشت کے سوا کیا رہ گیا ہے
کسی آہٹ میں آہٹ کے سوا کچھ بھی نہیں اب
کسی صورت میں صورت کے سوا کیا رہ گیا ہے
بہت لمبا سفر طے ہو چکا ہے ذہن و دل کا
تمہارا غم علامت کے سوا کیا رہ گیا ہے
اذیّت تھی مگر لذّت بھی کچھ اس سے سوا تھی
اذیّت ہے اذیّت کے سوا کیا رہ گیا ہے
ہمارے درمیاں ساری ہی باتیں ہو چکی ہیں
سو اب اُن کی وضاحت کے سوا کیا رہ گیا ہے
بجا کہتے ہو تم ہونی تو ہو کر ہی رہے گی
تو ہونے کو قیامت کے سوا کیا رہ گیا ہے
شمار و بے شماری کے تردّد سے گزر کر
مآلِ عشق وحدت کے سوا کیا رہ گیا ہے
عرفان ستار

بتادوں؟ مجھ سے خود اپنا پتہ گُم ہو گیا ہے

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 82
سبھی یہ پوچھتے رہتے ہیں کیا گُم ہو گیا ہے
بتادوں؟ مجھ سے خود اپنا پتہ گُم ہو گیا ہے
تمہارے دن میں اک رُوداد تھی جو کھو گئی ہے
ہماری رات میں اک خواب تھا، گُم ہو گیا ہے
وہ جس کے پیچ و خم میں داستاں لپٹی ہوئی تھی
کہانی میں کہیں وہ ماجرا گُم ہو گیا ہے
ذرا اہلِ جُنوں آؤ، ہمیں رستہ سُجھاؤ
یہاں ہم عقل والوں کا خدا گُم ہو گیا ہے
نظر باقی ہے لیکن تابِ نظّارہ نہیں اب
سخن باقی ہے لیکن مدّعا گُم ہو گیا ہے
مجھے دکھ ہے، کہ زخم و رنج کے اِس جمگھٹے میں
تمہارا اور میرا واقعہ گُم ہو گیا ہے
یہ شدّت درد کی اُس کے نہ ہونے سے نہ ہوتی
یقیناً اور کچھ اُس کے سِوا گُم ہو گیا ہے
وہ جس کو کھینچنے سے ذات کی پرتیں کھُلیں گی
ہماری زندگی کا وہ سِرا گُم ہو گیا ہے
وہ در وا ہو نہ ہو، آزاد و خود بیں ہم کہاں کے
پلٹ آئیں تو سمجھو راستہ گُم ہو گیا ہے
عرفان ستار

میں ایسا چاہتا کب تھا پر ایسا ہو گیا ہے

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 81
مرے خواب سے اوجھل اُس کا چہرہ ہو گیا ہے
میں ایسا چاہتا کب تھا پر ایسا ہو گیا ہے
تعلق اب یہاں کم ہے ملاقاتیں زیادہ
ہجومِ شہر میں ہر شخص تنہا ہو گیا ہے
تری تکمیل کی خواہش تو پوری ہو نہ پائی
مگر اک شخص مجھ میں بھی ادھورا ہو گیا ہے
جو باغِ آرزو تھا اب وہی ہے دشتِ وحشت
یہ دل کیا ہونے والا تھا مگر کیا ہو گیا ہے
میں سمجھا تھا سیئے گی آگہی چاکِ جنوں کو
مگر یہ زخم تو پہلے سے گہرا ہو گیا ہے
میں تجھ سے ساتھ بھی تو عمر بھر کا چاہتا تھا
سو اب تجھ سے گلہ بھی عمر بھر کا ہو گیا ہے
ترے آنے سے آیا کون سا ایسا تغیر
فقط ترکِ مراسم کا مداوا ہو گیا ہے
مرا عالم اگر پوچھیں تو اُن سے عرض کرنا
کہ جیسا آپ فرماتے تھے ویسا ہو گیا ہے
میں کیا تھا اور کیا ہوں اور کیا ہونا ہے مجھ کو
مرا ہونا تو جیسے اک تماشا ہو گیا ہے
یقینا ہم نے آپس میں کوئی وعدہ کیا تھا
مگر اس گفتگو کو ایک عرصہ ہو گیا ہے
اگرچہ دسترس میں آ گئی ہے ساری دنیا
مگر دل کی طرف بھی ایک در وا ہو گیا ہے
یہ بے چینی ہمیشہ سے مری فطرت ہے لیکن
بقدرِ عمر اس میں کچھ اضافہ ہو گیا ہے
مجھے ہر صبح یاد آتی ہے بچپن کی وہ آواز
چلو عرفانؔ اٹھ جاؤ سویرا ہو گیا ہے
عرفان ستار

اگر خوشی ہے تو کس بات کی، سبب کیا ہے؟

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 80
رگوں میں رقص کناں موجہِٗ طرب کیا ہے؟
اگر خوشی ہے تو کس بات کی، سبب کیا ہے؟
ہے میری اصل اگر ماورائے وقت تو پھر
مرے لیے یہ تماشائے روز و شب کیا ہے؟
مرے کہے سے مرے گردوپیش کچھ بھی نہیں
میں صرف دیکھنے بیٹھا ہُوا ہوں، کب کیا ہے؟
نجانے کیا ہے نظر کی تلاشِ لا موجود
نجانے دل کی تمنّائے بے طلب کیا ہے؟
یہ جستجو، یہ طلب، یہ جنون و دربدری
مآلِ عمر عدم ہے تو پھر یہ سب کیا ہے؟
ہے گفتگو میں وہ پیچیدگی کہ سوچتا ہوں
خیال کیا تھا، کہا کیا ہے، زیرِ لب کیا ہے
میں جانتا ہوں جو منظر گنوائے بیٹھا ہوں
تجھے کہاں یہ خبر تیری تاب و تب کیا ہے
پسِ زیاں جو درِ دل پہ میں نے دستک دی
‘‘کسی نے چیخ کے مجھ سے کہا، کہ ’’اب کیا ہے؟
عرفان ستار

یہ تم خود ہو کہ مجھ کو آزمایا جا رہا ہے

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 79
نظر کو پھر کوئی چہرہ دکھایا جا رہا ہے
یہ تم خود ہو کہ مجھ کو آزمایا جا رہا ہے
بہت آسودگی سے روز و شب کٹنے لگے ہیں
مجھے معلوم ہے مجھ کو گنوایا جا رہا ہے
سرِ مژگاں بگولے آ کے واپس جا رہے ہیں
عجب طوفان سینے سے اٹھایا جا رہا ہے
مرا غم ہے اگر کچھ مختلف تو اس بنا پر
مرے غم کو ہنسی میں کیوں اڑایا جا رہا ہے
بدن کس طور شامل تھا مرے کارِ جنوں میں
مرے دھوکے میں اس کو کیوں مٹایا جا رہا ہے
وہ دیوارِ انا جس نے مجھے تنہا کیا تھا
اسی دیوار کو مجھ میں گرایا جا رہا ہے
مری خوشیوں میں تیری اس خوشی کو کیا کہوں میں
چراغِ آرزو! تجھ کو بجھایا جا رہا ہے
خرد کی ساگی دیکھو کہ ظاہر حالتوں سے
مری وحشت کا اندازہ لگایا جا رہا ہے
ابھی اے بادِ وحشت اس طرف کا رخ نہ کرنا
یہاں مجھ کو بکھرنے سے بچایا جا رہا ہے
عرفان ستار

لکھا ہُوا ہے مری جان، ہاں، لکھا ہوا ہے

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 78
تمہارا نام سرِ لوحِ جاں لکھا ہوا ہے
لکھا ہُوا ہے مری جان، ہاں، لکھا ہوا ہے
لہو سے تر ہے ورق در ورق بیاضِ سخن
حسابِ دل زدگاں سب یہاں لکھا ہوا ہے
نشاں بتائیں تمہیں قاتلوں کے شہر کا ہم؟
فصیلِ شہر پہ شہرِ اماں لکھا ہوا ہے
ملی ہے اہلِ جنوں کو جہاں بشارتِ اجر
وہیں تو اہلِ خرد کا زیاں لکھا ہوا ہے
زمیں بھی تنگ ہوئی، رزق بھی، طبیعت بھی
مرے نصیب میں کیا آسماں لکھا ہوا ہے؟
یہ کیسی خام امیدوں پہ جی رہے ہو میاں؟
پڑھو تو، لوحِ یقیں پر گماں لکھا ہوا ہے
تو کیا یہ ساری تباہی خدا کے حکم سے ہے؟
ذرا ہمیں بھی دکھاوٗ، کہاں لکھا ہوا ہے؟
یہ کائنات سراسر ہے شرحِ رازِ ازل
کلامِ حق تو سرِ کہکشاں لکھا ہوا ہے
میں سوچتا ہوں تو کیا کچھ نہیں عطائے وجود
میں دیکھتا ہوں تو بس رائگاں لکھا ہوا ہے
جو چاہتا تھا میں جس وقت، وہ کبھی نہ ہُوا
کتابِ عمر میں سب ناگہاں لکھا ہوا ہے
لکھا ہوا نہیں کچھ بھی بنامِ خوابِ وجود
نبود و بود کے سب درمیاں لکھا ہوا ہے
عدو سے کوئی شکایت نہیں ہمیں عرفان
حسابِ رنج پئے دوستاں لکھا ہوا ہے
عرفان ستار

اور کہیں بیچ میں امکان کا پل پڑتا ہے

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 77
چپ ہے آغاز میں، پھر شورِ اجل پڑتا ہے
اور کہیں بیچ میں امکان کا پل پڑتا ہے
ایک وحشت ہے کہ ہوتی ہے اچانک طاری
ایک غم ہے کہ یکایک ہی ابل پڑتا ہے
یاد کا پھول مہکتے ہی نواحِ شب میں
کوئی خوشبو سے ملاقات کو چل پڑتا ہے
حجرہِٗ ذات میں سنّاٹا ہی ایسا ہے کہ دل
دھیان میں گونجتی آہٹ پہ اچھل پڑتا ہے
روک لیتا ہے ابد وقت کے اُس پار کی راہ
دوسری سمت سے جاوٗں تو ازل پڑتا ہے
ساعتوں کی یہی تکرار ہے جاری پر دم
میری دنیا میں کوئی آج، نہ کل پڑتا ہے
تابِ یک لحظہ کہاں حسنِ جنوں خیز کے پیش
سانس لینے سے توجّہ میں خلل پڑتا ہے
مجھ میں پھیلی ہوئی تاریکی سے گھبرا کے کوئی
روشنی دیکھ کے مجھ میں سے نکل پڑتا ہے
جب بھی لگتا ہے سخن کی نہ کوئی لوَ ہے نہ رَو
دفعتاً حرف کوئی خوں میں مچل پڑتا ہے
غم چھپائے نہیں چھپتا ہے کروں کیا عرفان
نام لوں اُس کا تو آواز میں بل پڑتا ہے
عرفان ستار

بات کرنا نہیں آتی ہے تو کیوں بولتا ہے؟

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 76
تیرے لہجے میں ترا جہلِ دروں بولتا ہے
بات کرنا نہیں آتی ہے تو کیوں بولتا ہے؟
پھونک دی جاتی ہے اس طرح مرے شعر میں روح
جیسے سانسوں میں کوئی کن فیکوں بولتا ہے
سننے والوں پہ مرا حال عیاں ہو کیسے
عشق ہوتا ہے تو وحشت میں سکوں بولتا ہے
تیرا اندازِ تخاطب، ترا لہجہ، ترے لفظ
وہ جسے خوفِ خدا ہوتا ہے، یوں بولتا ہے؟
عقل اس باب میں خاموش ہی رہتی ہے جناب
جب ہو موضوع حقیقت تو جنوں بولتا ہے
گفتگو کیا ہو کہ جب گویا ہوں آنکھیں تیری
چپ سی لگ جاتی ہے جب ان کا فسوں بولتا ہے
کوئی عرفان کو سمجھائے، یہ آشفتہ مزاج
جاں کا خطرہ ہو تو پہلے سے فزوں بولتا ہے
عرفان ستار

شہرِ وجود سے بابِ عدم تک ایک سا ہُو کا عالم ہے

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 75
ایک ملال تو ہونے کا ہے ایک نہ ہونے کا غم ہے
شہرِ وجود سے بابِ عدم تک ایک سا ہُو کا عالم ہے
کب تک راہ تکیں گے اُس کی کب تک اُس کو پکاریں گے
آنکھوں میں اب کتنا نم ہے سینے میں کتنا دم ہے
اُس کے ہوتے روز ہی آکر مجھے جگایا کرتی تھی
میری طرف اب بادِ صبا کا آنا جانا کم کم ہے
اب تعبیر نجانے کیا ہو خواب میں اتنا دیکھا تھا
ایک جلوس چلا جاتا ہے آگے خونیں پرچم ہے
تم لوگوں کی عادت ٹھہری جھوٹ کا شربت پینے کی
میرے پیالے سے مت پینا میرے پیالے میں سم ہے
ہاں ویسے تو حجرہءِ جاں میں بے ترتیبی ٹھیک نہیں
لیکن کیا ترتیب سے رکھوں سب کچھ درہم برہم ہے
درد کی پردہ پوشی ہے سب، کھل جائے گر غور کرو
آہوں کی تکرار ہیں سانسیں دل کی دھڑکن ماتم ہے
خوشبو کے پہلو میں بیٹھا رنگ سے ہم آغوش ہُوا
جب سے اُس کا قرب ملا ہے ہر احساس مجسم ہے
اب اظہار میں کوتاہی کی، کوئی دلیل نہیں صائب
آنکھوں کو ہے خون مہیّا دل کو درد فراہم ہے
شہرِ سخن کے ہنگامے میں کون سنے تیری عرفان
ایک تو باتیں الجھی الجھی پھر لپجہ بھی مدۤھم ہے
عرفان ستار

میری حالت تو کوئی دیکھنے والا سمجھے

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 74
جو ہو خود ایک تماشا وہ بھلا کیا سمجھے
میری حالت تو کوئی دیکھنے والا سمجھے
مجھ میں آباد ہے اک شہر، ترے حُسن کا شہر
وہ جو باہر سے مجھے دیکھے وہ تنہا سمجھے
مجھ سے ممکن یہ نہیں ہے کہ میں کھل کر کہہ دوں
اس کے بس میں یہ نہیں ہے کہ اشارہ سمجھے
آہ ایسی، کہ سنے کوئی تو سمجھے نغمہ
اشک ایسا، کوئی دیکھے تو ستارا سمجھے
ٹھیک ہے دشت بھی ہوں، باغ بھی ہوں، دریا بھی
جس کو جیسا نظر آؤں مجھے ویسا سمجھے
لفظ پردہ ہیں، اسے کاش بتا دے کوئی
اس کو سمجھائے کہ سمجھے، مرا لہجہ سمجھے
بس یہی ہے جو میّسر ہے مرے قرب کے ساتھ
جو مرے دل میں بسے وہ اِسے دنیا سمجھے
سانحہ کرکے سنایا تھا اُسے رنجِ فراق
سُن کے بس اتنا کہا اُس نے کہ ’’اچھا۔ ۔ ۔ سمجھے‘‘
دل کسی حرفِ ملائم سے سنبھل بھی جاتا
میرے سینے میں اچھلتا ہے بگولا، سمجھے؟
وصل سے اِن کے نمو پاتی ہے اک کیفیۤت
کوئی الفاظ و معانی کا یہ رشتہ سمجھے
اتنا دشوار ہوں کیا میں جو کسی پر نہ کھلوں؟
کوئی تو ہو مجھے میرے علاوہ سمجھے
ابھی سمجھو تو میں کیا خوب سخن تم سے کروں
بعد میرے مجھے سمجھے بھی تو پھر کیا سمجھے
تُو سمجھتا ہے اُسے، شکر بجا لا عرفان
وہ جسے دیر نہ کعبہ، نہ کلیسا سمجھے
عرفان ستار

گزار دیں گے یونہی کیا یہ ماہ و سال مجھے

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 73
ڈرا رہا ہے مسلسل یہی سوال مجھے
گزار دیں گے یونہی کیا یہ ماہ و سال مجھے
بچھڑتے وقت اضافہ نہ اپنے رنج میں کر
یہی سمجھ کہ ہوا ہے بہت ملال مجھے
وہ شہرِ ہجر عجب شہرِ پُر تحیر تھا
بہت دنوں میں تو آیا ترا خیال مجھے
تُو میرے خواب کو عجلت میں رائگاں نہ سمجھ
ابھی سخن گہِ امکاں سے مت نکال مجھے
کسے خبر کہ تہِ خاک آگ زندہ ہو
ذرا سی دیر ٹھہر ، اور دیکھ بھال مجھے
کہاں کا وصل کہ اس شہرِ پُر فشار میں اب
ترا فراق بھی لگنے لگا محال مجھے
اِسی کے دم سے تو قائم ابھی ہے تارِ نفس
یہ اک امید کہ رکھتی ہے پُر سوال مجھے
کہوں میں تازہ غزل اے ہوائے تازہ دلی
ذرا سی دیر کو رکھے جو تُو بحال مجھے
خرامِ عمر کسی شہرِ پُر ملال کو چل
کیے ہوئے ہے یہ آسودگی نڈھال مجھے
کہاں سے لائیں بھلا ہم جوازِ ہم سفری
تجھے عزیز ترے خواب، میرا حال مجھے
اُبھر رہا ہوں میں سطحِ عدم سے نقش بہ نقش
تری ہی جلوہ گری ہوں ذرا اُجال مجھے
یہاں تو حبس بہت ہے سو گردِ بادِ جنوں
مدارِ وقت سے باہر کہیں اچھال مجھے
پھر اس کے بعد نہ تُو ہے، نہ یہ چراغ، نہ میں
سحر کی پہلی کرن تک ذرا سنبھال مجھے
عرفان ستار

یہاں بھی ہوتا تھا ایک موسم بہار کر کے

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 72
کہاں نجانے چلا گیا انتظار کر کے
یہاں بھی ہوتا تھا ایک موسم بہار کر کے
جو ہم پہ ایسا نہ کارِ دنیا کا جبر ہوتا
تو ہم بھی رہتے یہاں جنوں اختیار کر کے
نجانے کس سمت جا بسی بادِ یاد پرور
ہمارے اطراف خوشبوئوں کا حصار کر کے
کٹیں گی کس دن مدار و محور کی یہ طنابیں
کہ تھک گئے ہم حسابِ لیل و نہار کر کے
تری حقیقت پسند دنیا میں آ بسے ہیں
ہم اپنے خوابوں کی ساری رونق نثار کر کے
یہ دل تو سینے میں کس قرینے سے گونجتا تھا
عجیب ہنگامہ کر دیا بے قرار کر کے
ہر ایک منظر ہر ایک خلوت گنوا چکے ہیں
ہم ایک محفل کی یاد پر انحصار کر کے
تمام لمحے وضاحتوں میں گزر گئے ہیں
ہماری آنکھوں میں اک سخن کو غبار کر کے
یہ اب کھلا ہے کہ اس میں موتی بھی ڈھونڈنے تھے
کہ ہم تو بس آ گئے ہیں دریا کو پار کر کے
بقدرِ خوابِ طلب لہو ہے نہ زندگی ہے
ادا کرو گے کہاں سے اتنا ادھار کر کے
عرفان ستار

ابھی تو زخم بھرے ہیں خدا خدا کر کے

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 71
ملے گا کیا تجھے تازہ یہ سلسلہ کر کے
ابھی تو زخم بھرے ہیں خدا خدا کر کے
ہمیں بھی روز جگاتی تھی آ کے ایک مہک
چمن میں کوئی ہمارا بھی تھا صبا کر کے
سخن میں تیرے تغافل سے آ گیا یہ ہنر
ذرا سا غم بھی سناتے ہیں سانحہ کر کے
اُداس تھے سو ترے در پہ آ کے بیٹھ گئے
فقیر ہیں سو چلے جائیں گے صدا کر کے
ابھی ہوئی ہے پلک سے پلک ذرا مانوس
ابھی نہ جا مجھے اس خواب سے رہا کر کے
عجب نہیں کہ کوئی بات مجھ میں ہو میری
کبھی تو دیکھ مجھے خود سے تُو جدا کر کے
عرفان ستار

دل تھا برباد مگر جائے اماں تھا پہلے

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 70
ایسا احوال محبت میں کہاں تھا پہلے
دل تھا برباد مگر جائے اماں تھا پہلے
ایک امکان میں روپوش تھا سارا عالم
میں بھی اُس گردِ تحیّر میں نہاں تھا پہلے
ایک خوشبو سی کیے رہتی تھی حلقہ میرا
یعنی اطراف کوئی رقص کناں تھا پہلے
اُس نے مجھ سا کبھی ہونے نہ دیا تھا مجھ کو
کیا تغیّر مری جانب نگراں تھا پہلے
اب فقط میرے سخن میں ہے جھلک سی باقی
ورنہ یہ رنگ تو چہرے سے عیاں تھا پہلے
کون مانے گا کہ مجھ ایسا سراپا تسلیم
سربرآوردۂ آشفتہ سراں تھا پہلے
کون یہ لوگ ہیں نا واقفِ آداب و لحاظ
تیرا کوچہ تو رہِ دل زدگاں تھا پہلے
اب تو اک دشتِ تمنا کے سوا کچھ بھی نہیں
کیسا قلزم میرے سینے میں رواں تھا پہلے
اب کہیں جا کے یہ گیرائی ہوئی ہے پیدا
تجھ سے ملنا تو توجہ کا زیاں تھا پہلے
میں نے جیسے تجھے پایا ہے وہ میں جانتا ہوں
اب جو تُو ہے یہ فقط میرا گماں تھا پہلے
جانے ہے کس کی اداسی مری وحشت کی شریک
مجھ کو معلوم نہیں کون یہاں تھا پہلے
دل ترا راز کسی سے نہیں کہنے دیتا
ورنہ خود سے یہ تعلق بھی کہاں تھا پہلے
اب جو رہتا ہے سرِ بزمِ سخن مہر بہ لب
یہی عرفانؔ عجب شعلہ بیاں تھا پہلے
عرفان ستار

ہم تو سیدھے لوگ ہیں یارو، وہی پرانے والے

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 69
ہمیں نہیں آتے یہ کرتب نئے زمانے والے
ہم تو سیدھے لوگ ہیں یارو، وہی پرانے والے
ان کے ہوتے کوئی کمی ہے راتوں کی رونق میں؟
یادیں خواب دکھانے والی، خواب سہانے والے
کہاں گئیں رنگین پتنگیں، لٹو، کانچ کے بنٹے؟
اب تو کھیل بھی بچوں کے ہیں دل دہلانے والے
وہ آنچل سے خوشبو کی لپٹیں بکھراتے پیکر
وہ چلمن کی اوٹ سے چہرے چھب دکھلانے والے
بام پہ جانے والے جانیں اس محفل کی باتیں
ہم تو ٹھہرے اس کوچے میں خاک اڑانے والے
جب گزرو گے ان رستوں سے تپنی دھوپ میں تنہا
تمہیں بہت یاد آئیں گے ہم سائے بنانے والے
تم تک شاید دیر سے پہنچےمرا مہذب لہجہ
پہلے ذرا خاموش تو ہوں یہ شور مچانے والے
ہم جو کہیں سو کہنے دنیا، سنجیدہ مت ہونا
ہم تو ہیں ہی شاعر بات سے بات بنانے والے
اچھا؟ پہلی بار کسی کو میری فکر ہوئی ہے؟
میں نے بہت دیکھے ہیں تم جیسے سمجھانے والے
ایسے لبالب کب بھرتا ہے ہر امید کا کاسہ؟
مجھ کو حسرت سے تکتے ہیں آنے جانے والے
سفاکی میں ایک سے ہیں سب، جن کے ساتھ بھی جاؤ
کعبے والے اِس جانب ہیں، وہ بت خانے والے
میرے شہر میں مانگ ہے اب تو بس ان لوگوں کی ہے
کفن بنانے والے یا مردے نہلانے والے
گیت سجیلے بول رسیلے کہاں سنو گے اب تم
اب تو کہتا ہے عرفان بھی شعر رلانے والے
عرفان ستار

کہ میں محروم ہوتا جا رہا ہوں روشنی سے

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 68
بتاتا ہے مجھے آئینہ کیسی بے رُخی سے
کہ میں محروم ہوتا جا رہا ہوں روشنی سے
کسے الزام دوں میں رائگاں ہونے کا اپنے
کہ سارے فیصلے میں نے کیے خود ہی خوشی سے
ہر اک لمحہ مجھے رہتی ہے تازہ اک شکایت
کبھی تجھ سے، کبھی خود سے، کبھی اس زندگی سے
مجھے کل تک بہت خواہش تھی خود سے گفتگو کی
میں چھپتا پھر رہا ہوں آج اپنے آپ ہی سے
وہ بے کیفی کا عالم ہے کہ دل یہ چاہتا ہے
کہیں روپوش ہو جاؤں اچانک خامشی سے
سکونِ خانۂ دل کے لیے کچھ گفتگو کر
عجب ہنگامہ برپا ہے تری لب بستگی سے
تعلق کی یہی صورت رہے گی کیا ہمیشہ
میں اب اُکتا چکا ہوں تیری اس وارفتگی سے
جو چاہے وہ ستم مجھ پر روا رکھے یہ دنیا
مجھے یوں بھی توقع اب نہیں کچھ بھی کسی سے
ترے ہونے نہ ہونے پر کبھی پھر سوچ لوں گا
ابھی تو میں پریشاں ہوں خود اپنی ہی کمی سے
رہا وہ ملتفت میری طرف پر اُن دنوں میں
خود اپنی سمت دیکھے جا رہا تھا بے خودی سے
کوئی خوش فکر سا تازہ سخن بھی درمیاں رکھ
کہاں تک دل کو بہلائوں میں تیری دل کشی سے
کرم تیرا کہ یہ مہلت مجھے کچھ دن کی بخشی
مگر میں تجھ سے رخصت چاہتا ہوں آج ہی سے
وہ دن بھی تھے تجھے میں والہانہ دیکھتا تھا
یہ دن بھی ہیں تجھے میں دیکھتا ہوں بے بسی سے
ابھی عرفانؔ آنکھوں کو بہت کچھ دیکھنا ہے
تمہیں بے رنگ کیوں لگنے لگا ہے سب ابھی سے
عرفان ستار

گھر ہی جاسکتے تھے آوارہءِ شب، کیا کرتے

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 67
مجلسِ غم، نہ کوئی بزمِطرب، کیا کرتے
گھر ہی جاسکتے تھے آوارہءِ شب، کیا کرتے
یہ تو اچھا کیا تنہائی کی عادت رکھّی
تب اِسے چھوڑ دیا ہوتا تو اب کیا کرتے
روشنی، رنگ، مہک، طائرِ خوش لحن، صبا
تُو نہ آتا جو چمن میں تو یہ سب کیا کرتے
دل کا غم دل میں لیے لوٹ گئے ہم چپ چاپ
کوئی سنتا ہی نہ تھا شور و شغب کیا کرتے
بات کرنے میں ہمیں کون سی دشواری تھی
اُس کی آنکھوں سے تخاطب تھا سو لب کیا کرتے
کچھ کیا ہوتا تو پھر زعم بھی اچھا لگتا
ہم زیاں کار تھے، اعلانِ نسب کیا کرتے
دیکھ کر تجھ کو سرہانے ترے بیمارِ جنوں
جاں بلب تھے، سو ہوئے آہ بلب، کیا کرتے
تُو نے دیوانوں سے منہ موڑ لیا، ٹھیک کیا
ان کا کچھ ٹھیک نہیں تھا کہ یہ کب کیا کرتے
جو سخن ساز چراتے ہیں مرا طرزِ سخن
ان کا اپنا نہ کوئی طور، نہ ڈھب، کیا کرتے
یہی ہونا تھا جو عرفان ترے ساتھ ہُوا
منکرِ میر بھلا تیرا ادب کیا کرتے
عرفان ستار

ایک قصے کی بھلا کتنی کہانی کرتے

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 66
راکھ کے ڈھیر پہ کیا شعلہ بیانی کرتے
ایک قصے کی بھلا کتنی کہانی کرتے
حسن اتنا تھا کہ ممکن ہی نہ تھی خود نگری
ایک امکان کی کب تک نگرانی کرتے
شعلہ جاں کو بجھاتے یونہی قطرہ قطرہ
خود کو ہم آگ بناتے تجھے پانی کرتے
پھول سا تجھ کو مہکتا ہوا رکھتے شب بھر
اپنے سانسوں سے تجھے رات کی رانی کرتے
ندیاں دیکھیں تو بس شرم سے پانی ہو جائیں
چشمِ خوں بستہ سے پیدا وہ روانی کرتے
سب سے کہتے کہ یہ قصہ ہے پرانا صاحب
آہ کی آنچ سے تصویر پرانی کرتے
درودیوار بدلنے میں کہاں کی مشکل
گھر جو ہوتا تو بھلا نقل مکانی کرتے؟
کوئی آجاتا کبھی یونہی اگر دل کے قریب
ہم ترا ذکر پئے یاد دہانی کرتے
سچ تو یہ ہے کہ ترے ہجر کا اب رنج نہیں
کیا دکھاوے کے لیے اشک فشانی کرتے؟
دل کو ہر لحظہ ہی دی عقل پہ ہم نے ترجیح
یارِ جانی کو کہاں دشمنِ جانی کرتے
شب اسی طرح بسر ہوتی ہے میری عرفان
حرفِ خوش رنگ کو اندوہِ معانی کرتے
عرفان ستار

ہم آج خلوتِ جاں میں بھی بے دلی سے گئے

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 65
شگفتگی سے گئے، دل گرفتگی سے گئے
ہم آج خلوتِ جاں میں بھی بے دلی سے گئے
گلہ کریں بھی تو کس سے وہ نامرادِ جنوں
جو خود زوال کی جانب بڑی خوشی سے گئے
سنا ہے اہلِ خرد کا ہے دورِ آئندہ
یہ بات ہے تو سمجھ لو کہ ہم ابھی سے گئے
خدا کرے نہ کبھی مل سکے دوامِ وصال
جیئں گے خاک اگر تیرے خواب ہی سے گئے
ہے یہ بھی خوف ہمیں بے توجہی سے سِوا
کہ جس نظر سے توقع ہے گر اُسی سے گئے؟
مقام کس کا کہاں ہے، بلند کس سے ہے کون؟
میاں یہ فکر کروگے تو شاعری سے گئے
ہر ایک در پہ جبیں ٹیکتے یہ سجدہ گزار
خدا کی کھوج میں نکلے تھے اور خودی سے گئے
سمجھتے کیوں نہیں یہ شاعرِ کرخت نوا
سخن کہاں کا جو لہجے کی دلکشی سے گئے؟
گلی تھی صحن کا حصہ ہمارے بچپن میں
مکاں بڑے ہوئے لیکن کشادگی سے گئے
برائے اہلِ جہاں لاکھ کجکلاہ تھے ہم
گئے حریمِ سخن میں تو عاجری سے گئے
یہ تیز روشنی راتوں کا حسن کھا گئی ہے
تمہارے شہر میں ہم اپنی چاندنی سے گئے
فقیہِ شہر کی ہر بات مان لو چپ چاپ
اگر سوال اٹھایا، تو زندگی سے گئے
نہ پوچھیئے کہ وہ کس کرب سے گزرتے ہیں
جو آگہی کے سبب عیشِ بندگی سے گئے
اٹھاوٗ رختِ سفر، آوٗ اب چلو عرفان
حسیں یہاں کے تو سب خوئے دلبری سے گئے
عرفان ستار

تیری یادوں کے جھونکے گزرتے رہے، تھپتھپاتے رہے، اور ہم سو گئے

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 64
دل کے پردے پہ چہرے ابھرتے رہے، مسکراتے رہے، اور ہم سو گئے
تیری یادوں کے جھونکے گزرتے رہے، تھپتھپاتے رہے، اور ہم سو گئے
یاد آتا رہا کوچۂ رفتگاں، سر پہ سایہ فگن ہجر کا آسماں
نا رسائی کے صدمے اترتے رہے، دل جلاتے رہے، اور ہم سو گئے
ہجر کے رت جگوں کا اثر یوں ہوا، وصلِ جاناں کا لمحہ بسر یوں ہوا
دوش پر اُس کے گیسو بکھرتے رہے، گدگداتے رہے، اور ہم سو گئے
کیسے تجدیدِ عہدِ وفا کیجئے، غم مزا دے رہے ہیں سو کیا کیجئے
در پہ آ کے وہ اکثر ٹھہرتے رہے، کھٹکھٹاتے رہے، اور ہم سو گئے
اوّل اوّل تو ہر شب قیامت ہوئی، رفتہ رفتہ ہمیں ایسی عادت ہوئی
گھر کے آنگن میں غم رقص کرتے رہے، غل مچاتے رہے، اور ہم سو گئے
عرفان ستار

میں سر تا پا گماں ہوں آئنہ ہوتے ہوئے بھی

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 63
وہ چہرہ پُر یقیں ہے گرد سا ہوتے ہوئے بھی
میں سر تا پا گماں ہوں آئنہ ہوتے ہوئے بھی
وہ اک روزن قفس کا جس میں کرنیں ناچتی تھیں
مری نظریں اُسی پر تھیں رِہا ہوتے ہوئے بھی
مرے قصے کی بے رونق فضا مجھ میں نہیں ہے
میں پُر احوال ہوں بے ماجرا ہوتے ہوئے بھی
شرف حاصل رہا ہے مجھ کو اُس کی ہمرہی کا
بہت مغرور ہوں میں خاکِ پا ہوتے ہوئے بھی
وہ چہرہ جگمگا اٹھا نشاطِ آرزو سے
وہ پلکیں اٹھ گئیں بارِ حیا ہوتے ہوئے بھی
مجھے تُو نے بدن سمجھا ہوا تھا ورنہ میں تو
تری آغوش میں اکثر نہ تھا ہوتے ہوئے بھی
چلا جاتا ہوں دل کی سمت بھی گاہے بہ گاہے
میں ان آسائشوں میں مبتلا ہوتے ہوئے بھی
عجب وسعت ہے شہرِ عشق کی وسعت کہ مجھ کو
جنوں لگتا ہے کم بے انتہا ہوتے ہوئے بھی
اگر تیرے لیے دنیا بقا کا سلسلہ ہے
تو پھر تُو دیکھ لے مجھ کو فنا ہوتے ہوئے بھی
مسلسل قرب نے کیسا بدل ڈالا ہے تجھ کو
وہی لہجہ وہی ناز و ادا ہوتے ہوئے بھی
وہ غم جس سے کبھی میں اور تم یکجا ہوئے تھے
بس اُس جیسا ہی اک غم ہے جدا ہوتے ہوئے بھی
نہ جانے مستقل کیوں ایک ہی گردش میں گم ہوں
میں رمزِ عشق سے کم آشنا ہوتے ہوئے بھی
عرفان ستار

بھُلا ہی دیں گے اگر دل میں کچھ گِلے ہوئے بھی

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 62
اب آ بھی جاؤ ، بہت دن ہوئے مِلے ہوئے بھی
بھُلا ہی دیں گے اگر دل میں کچھ گِلے ہوئے بھی
ہماری راہ الگ ہے، ہمارے خواب جُدا
ہم اُن کے ساتھ نہ ہوں گے، جو قافلے ہوئے بھی
ہجومِ شہرِ خرد میں بھی ہم سے اہلِ جنوں
الگ دِکھیں گے، گریباں جو ہوں سِلے ہوئے بھی
ہمیں نہ یاد دلاؤ ہمارے خوابِ سخن
کہ ایک عُمر ہوئے ہونٹ تک ہِلے ہوئے بھی
نظر کی، اور مناظر کی بات اپنی جگہ
ہمارے دل کے کہاں اب، جو سلسلے ہوئے بھی
یہاں ہے چاکِ قفس سے اُدھر اک اور قفس
سو ہم کو کیا، جو چمن میں ہوں گُل کھِلے ہوئے بھی
ہمیں تو اپنے اُصولوں کی جنگ جیتنی ہے
کسے غرض، جو کوئی فتح کے صِلے ہوئے بھی
عرفان ستار

تُو جو موجود نہ ہوتا، تو کہاں تھے ہم بھی

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 61
تیری نسبت سے زمانے پہ عیاں تھے ہم بھی
تُو جو موجود نہ ہوتا، تو کہاں تھے ہم بھی
حرمتِ حرف نہیں ہے سو یہ ارزانی ہے
ورنہ وہ دن بھی تھے جب خوابِ گراں تھے ہم بھی
ہم بھی حیراں ہیں بہت خود سے بچھڑ جانے پر
مستقل اپنی ہی جانب نگراں تھے ہم بھی
اب کہیں کیا، کہ وہ سب قصہءِ پارینہ ہُوا
رونقِ محفلِ شیریں سخناں تھے ہم بھی
وقت کا جبر ہی ایسا ہے کہ خاموش ہیں اب
ورنہ تردیدِ صفِ کجکلہاں تھے ہم بھی
رنج مت کر، کہ تجھے ضبط کا یارا نہ رہا
کس قدر واقفِ آدابِ فغاں تھے ہم بھی
تُو بھی کردار کہانی سے الگ تھا کوئی
اپنے قصے میں حدیثِ دگراں تھے ہم بھی
کیسی حیرت، جو کہیں ذکر بھی باقی نہ رہا
تُو بھی تحریر نہ تھا، حرفِ بیاں تھے ہم بھی
ہم کہ رکھتے تھے یقیں اپنی حقیقت سے سِوا
اب گماں کرنے لگے ہیں کہ گماں تھے ہم بھی
رائگاں ہوتا رہا تُو بھی پئے کم نظراں
ناشناسوں کے سبب اپنا زیاں تھے ہم بھی
تُو بھی کس کس کے لیے گوش برآواز رہا
ہم کو سنتا تو سہی، نغمہءِ جاں تھے ہم بھی
ہم نہیں ہیں، تو یہاں کس نے یہ محسوس کیا؟
ہم یہاں تھے بھی تو ایسے، کہ یہاں تھے ہم بھی
عرفان ستار

کہ ہم نے داد کی خواہش میں شاعری نہیں کی

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 60
سخن کے شوق میں توہین حرف کی نہیں کی
کہ ہم نے داد کی خواہش میں شاعری نہیں کی
جو خود پسند تھے ان سے سخن کیا کم کم
جو کج کلاہ تھے اُن سے تو بات بھی نہیں کی
کیھی بھی ہم نے نہ کی کوئی بات مصلحتاً
منافقت کی حمایت، نہیں، کبھی نہیں کی
دکھائی دیتا کہاں پھر الگ سے اپنا وجود
سو ہم نے ذات کی تفہیمِ آخری نہیں کی
اُسے بتایا نہیں ہے کہ میں بدن میں نہیں
جو بات سب سے ضروری ہے وہ ابھی نہیں کی
بنامِ خوش نفسی ہم تو آہ بھرتے رہے
کہ صرف رنج کیا ہم نے، زندگی نہیں کی
ہمیشہ دل کو میّسر رہی ہے دولتِ ہجر
جنوں کے رزق میں اُس نے کبھی کمی نہیں کی
بصد خلوص اٹھاتا رہا سبھی کے یہ ناز
ہمارے دل نے ہماری ہی دلبری نہیں کی
جسے وطیرہ بنائے رہی وہ چشمِ غزال
وہ بے رخی کی سہولت ہمیں بھی تھی، نہیں کی
ہے ایک عمر سے معمول روز کا عرفان
دعائے ردِّ انا ہم نے آج ہی نہیں کی
عرفان ستار

تری خواہش نہیں دل میں زیادہ دیر رہنے کی

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 59
کہے دیتا ہوں، گو ہے تو نہیں یہ بات کہنے کی
تری خواہش نہیں دل میں زیادہ دیر رہنے کی
بچا کر دل گزرتا جا رہا ہوں ہر تعلق سے
کہاں اس آبلے کو تاب ہے اب چوٹ سہنے کی
رگ و پے میں نہ ہنگامہ کرے تو کیا کرے آخر
اجازت جب نہیں اس رنج کو آنکھوں سے بہنے کی
بس اپنی اپنی ترجیحات، اپنی اپنی خواہش ہے
تجھے شہرت کمانے کی، مجھے اک شعر کہنے کی
جہاں کا ہوں، وہیں کی راس آئے گی فضا مجھ کو
یہ دنیا بھی بھلا کوئی جگہ ہے میرے رہنے کی؟
جو کل عرفان پر گزری سنا کچھ اُس کے بارے میں؟
خبر تم نے سُنی طوفان میں دریا کے بہنے کی؟
عرفان ستار

تا ابد دھوم مچ گئی میری

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 58
دیکھ مستی وجود کی میری
تا ابد دھوم مچ گئی میری
تُو توجہ اِدھر کرے نہ کرے
کم نہ ہو گی سپردگی میری
دل مرا کب کا ہو چکا پتھر
موت تو کب کی ہو چکی میری
اب تو برباد کر چکے، یہ کہو
کیا اسی میں تھی بہتری میری؟
میرے خوش رنگ زخم دیکھتے ہو؟
یعنی پڑھتے ہو شاعری میری؟
اب تری گفتگو سے مجھ پہ کھُلا
کیوں طبیعت اداس تھی میری
دل میں اب کوئی آرزو ہی نہیں
یعنی تکمیل ہو گئی میری
زندگی کا مآل اتنا ہے
زندگی سے نہیں بنی میری
چاند حسرت زدہ سا لگتا ہے
کیا وہاں تک ہے روشنی میری؟
دھوپ اُس کی ہے میرے آنگن میں
اُس کی چھت پر ہے چاندنی میری
اک مہک روز آکے کہتی ہے
منتظر ہے کوئی گلی میری
جانے کب دل سے آنکھ تک آکر
بہہ گئی چیز قیمتی میری
اب میں ہر بات بھول جاتا ہوں
ایسی عادت نہ تھی، کہ تھی میری؟
رات بھر دل میں غُل مچاتی ہے
آرزو کوئی سرپھری میری
میری آنکھوں میں آکے بیٹھ گیا
شامِ فرقت اجاڑ دی میری
پہلے سینے میں دل دھڑکتا تھا
اب دھڑکتی ہے بے دلی میری
کیا عجب وقت ہے بچھڑنے کا
دیکھ، رکتی نہیں ہنسی میری
خود کو میرے سپرد کربیٹھا
بات تک بھی نہیں سنی میری
تیرے انکار نے کمال کیا
جان میں جان آگئی میری
خوب باتیں بنا رہا تھا مگر
بات اب تک نہیں بنی میری
میں تو پل بھر جیا نہیں عرفان
عمر کس نے گزار دی میری؟
عرفان ستار

میں کہ ٹھہرا گدائے دیارِ سخن مجھ کو یہ ذمّہ داری کہاں سونپ دی

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 57
مری کم مائیگی کو ترے ذوق نے دولتِ حرفِ تازہ بیاں سونپ دی
میں کہ ٹھہرا گدائے دیارِ سخن مجھ کو یہ ذمّہ داری کہاں سونپ دی
قاصدِ شہرِ دل نے مرے خیمۂ خواب میں آ کے مجھ سے کہا جاگ جا
بادشاہِ جنوں نے تجھے آج سے لشکرِ اہلِ غم کی کماں سونپ دی
میرا ذوقِ سفر یوں بھی منزل سے بڑھ کر کسی ہمرہی کا طلب گار تھا
اس لیے وصل کے موڑ پر ہجر کو اُس نے رہوارِ دل کی عناں سونپ دی
تشنگی کو مرے شوق کی لہر نے کس سرابِ نظر کے حوالے کیا
کیسے بنجر یقیں کو مرے خواب نے اپنی سر سبز فصلِ گماں سونپ دی
احتیاطِ نظر اور وضعِ خرد کے تقاضوں کی تفصیل رہنے ہی دے
یہ مجھے بھی خبر ہے کہ میں نے تجھے اپنی وارفتگی رائگاں سونپ دی
اپنے ذوقِ نظر سے تری چشمِ حیراں کو تازہ بہ تازہ مناظر دیے
تیرے پہلو میں دھڑکن جگانے کی خاطر ترے جسم کو اپنی جاں سونپ دی
رازداری کی مہلت زیادہ نہ ملنے پہ احباب سب مجھ سے ناراض ہیں
قصہ گو مجھ سے خوش ہیں کہ میں اُنہیں ایک پُر ماجرا داستاں سونپ دی
میری وحشت پسندی کو آرائشِ زلف و رخسار و ابرو کی فرصت کہاں
تُو نے کس بے دلی سے یہ امید کی یہ کسے خدمتِ مہ وشاں سونپ دی
دل پہ جب گُل رُخوں اور عشوہ طرازوں کی یلغار کا زور بڑھنے لگا
میں نے گھبرا کے آخر تری یاد کو اپنی خلوت گہِ بے اماں سونپ دی
کار گاہِ زمانہ میں جی کو لگانے سے آخر خسارہ ہی مقدور تھا
یہ بھی اچھا ہوا میں نے یہ زندگی تیرے غم کو برائے زیاں سونپ دی
اُس نے ذوقِ تماشا دیا عشق کو خوشبوئوں کو صبا کے حوالے کیا
مجھ رفاقت طلب کو نگہبانیٔ دشتِ وحشت کراں تا کراں سونپ دی
مجھ میں میرے سوا کوئی تھا جو ہوس کے تقاضے نبھانے پہ مائل بھی تھا
میں نے بھی تنگ آ کر اُسی شخص کو ناز برداریٔ دلبراں سونپ دی
ایک امکان کیا گنگنایا مرے چند اشعار میں حرفِ اظہار میں
میں یہ سمجھا خدائے سخن نے مجھے مسندِ بزمِ آئندگاں سونپ دی
عرفان ستار

تیری آسودہ حالی کی امید پر، کر گئے ہم تو اپنا زیاں یا اخی

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 56
رزق کی جستجو میں کسے تھی خبر، تُو بھی ہو جائے گا رائگاں یا اخی
تیری آسودہ حالی کی امید پر، کر گئے ہم تو اپنا زیاں یا اخی
جب نہ تھا یہ بیابانِ دیوار و در، جب نہ تھی یہ سیاہی بھری رہگزر
کیسے کرتے تھے ہم گفتگو رات بھر، کیسے سنتا تھا یہ آسماں یا اخی
جب یہ خواہش کا انبوہِ وحشت نہ تھا، شہر اتنا تہی دستِ فرصت نہ تھا
کتنے آباد رہتے تھے اہلِ ہنر، ہر نظر تھی یہاں مہرباں یا اخی
یہ گروہِ اسیرانِ کذب و ریا، بندگانِ درم بندگانِ انا
ہم فقط اہلِ دل یہ فقط اہلِ زر، عمر کیسے کٹے گی یہاں یا اخی
خود کلامی کا یہ سلسلہ ختم کر، گوش و آواز کا فاصلہ ختم کر
اک خموشی ہے پھیلی ہوئی سر بہ سر، کچھ سخن چاہیے درمیاں یا اخی
جسم کی خواہشوں سے نکل کر چلیں، زاویہ جستجو کا بدل کا چلیں
ڈھونڈنے آگہی کی کوئی رہگزر، روح کے واسطے سائباں یا اخی
ہاں کہاتھا یہ ہم نے بچھڑتے ہوئے، لوٹ آئیں گے ہم عمر ڈھلتے ہوئے
ہم نے سوچا بھی تھا واپسی کا مگر، پھر یہ سوچا کہ تُو اب کہاں یا اخی
خود شناسی کے لمحے بہم کب ہوئے، ہم جو تھے درحقیقت وہ ہم کب ہوئے
تیرا احسان ہو تُو بتا دے اگر، کچھ ہمیں بھی ہمارا نشاں یا اخی
قصۂ رنج و حسرت نہیں مختصر، تجھ کو کیا کیا بتائے گی یہ چشمِ تر
آتش غم میں جلتے ہیں قلب و جگر، آنکھ تک آ رہا ہے دھواں یا اخی
عمر کے باب میں اب رعایت کہاں، سمت تبدیل کرنے کی مہلت کہاں
دیکھ بادِ فنا کھٹکھٹاتی ہے در، ختم ہونے کو ہے داستاں یا اخی
ہو چکا سب جو ہونا تھا سود و زیاں، اب جو سوچیں تو کیا رہ گیا ہے یہاں
اور کچھ فاصلے کا یہ رختِ سفر، اور کچھ روز کی نقدِ جاں یا اخی
تُو ہمیں دیکھ آ کر سرِ انجمن، یوں سمجھ لے کہ ہیں جانِ بزمِ سخن
ایک تو روداد دلچسپ ہے اس قدر، اور اس پر ہمارا بیاں یا اخی
عرفان ستار

جبر کے اختیار میں، عمر گزار دی گئی

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 55
کاوشِ روزگار میں، عمر گزار دی گئی
جبر کے اختیار میں، عمر گزار دی گئی
لمحۂ تازہ پھر کوئی آنے نہیں دیا گیا
ساعتِ انتظار میں، عمر گزار دی گئی
سوزنِ چشمِ یار سے، شوق رفو گری کا تھا
جامۂ تار تار میں، عمر گزار دی گئی
بامِ خیال پر اُسے دیکھا گیا تھا ایک شب
پھر اُسی رہ گزار میں، عمر گزار دی گئی
کھینچ رہی تھی کوئی شے ہم کو ہر ایک سمت سے
گردشِ بے مدار میں، عمر گزار دی گئی
رکھا گیا کسی سے یوں، ایک نفس کا فاصلہ
سایۂ مشک بار میں، عمر گزار دی گئی
زخمِ امید کا علاج، کوئی نہیں کیا گیا
پرسشِ نوکِ خار میں، عمر گزار دی گئی
دھول نظر میں رہ گئی، اُس کو وداع کر دیا
اور اُسی غبار میں، عمر گزار دی گئی
ساری حقیقتوں سے ہم، صرفِ نظر کیے رہے
خواب کے اعتبار میں، عمر گزار دی گئی
آیا نہیں خیال تک، شوق کے اختتام کا
خواہشِ بے کنار میں، عمر گزار دی گئی
صحبتِ تازہ کار کی، نغمہ گری تھی رایگاں
شورِ سکوتِ یار میں، عمر گزار دی گئی
وہ جو گیا تو ساتھ ہی، وقت بھی کالعدم ہوا
لمحۂ پُر بہار میں، عمر گزار دی گئی
عرفان ستار

کہیں ہو نہ جاؤں میں رائگاں، مری آدھی عمر گزر گئی

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 54
یونہی بے یقیں یونہی بے نشاں، مری آدھی عمر گزر گئی
کہیں ہو نہ جاؤں میں رائگاں، مری آدھی عمر گزر گئی
کبھی سائباں نہ تھا بہم، کبھی کہکشاں تھی قدم قدم
کبھی بے مکاں کبھی لا مکاں، مری آدھی عمر گزر گئی
ترے وصل کی جو نوید ہے، وہ قریب ہے کہ بعید ہے
مجھے کچھ خبر تو ہو جانِ جاں، مری آدھی عمر گزر گئی
کبھی مجھ کو فکرِ معاش ہے، کبھی آپ اپنی تلاش ہے
کوئی گُر بتا مرے نکتہ داں، مری آدھی عمر گزر گئی
کبھی ذکرِ حرمتِ حرف میں، کبھی فکرِ آمد و صرف میں
یونہی رزق و عشق کے درمیاں، مری آدھی عمر گزر گئی
کوئی طعنہ زن مری ذات پر، کوئی خندہ زن کسی بات پر
پئے دل نوازیٔ دوستاں، مری آدھی عمر گزر گئی
ابھی وقت کچھ مرے پاس ہے، یہ خبر نہیں ہے قیاس ہے
کوئی کر گلہ مرے بد گماں، مری آدھی عمر گزر گئی
اُسے پا لیا اُسے کھو دیا، کبھی ہنس دیا کبھی رو دیا
بڑی مختصر سی ہے داستاں، مری آدھی عمر گزر گئی
تری ہر دلیل بہت بجا، مگر انتظار بھی تا کجا
ذرا سوچ تو مرے رازداں، مری آدھی عمر گزر گئی
کہاں کائنات میں گھر کروں، میں یہ جان لوں تو سفر کروں
اسی سوچ میں تھا کہ ناگہاں، مری آدھی عمر گزر گئی
عرفان ستار

مجھے جس کا ڈر تھا وہی ہُوا، مری ساری عمر گزر گئی

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 53
یونہی اپنے آپ میں مبتلا، مری ساری عمر گزر گئی
مجھے جس کا ڈر تھا وہی ہُوا، مری ساری عمر گزر گئی
کئی غم زدوں کے تھے قافلے، کئی دلبری کے تھے سلسلے
میں کسی کی سمت نہیں گیا، مری ساری عمر گزر گئی
کبھی سلتے سلتے اُدھڑ گیا، کبھی بنتے بنتے بگڑ گیا
کوئی مجھ کو شکل نہ دے سکا، مری ساری عمر گزر گئی
جو بڑی اٹھان کا شخص تھا، عجب آن بان کا شخص تھا
وہی شخص مجھ میں بکھر چکا، مری ساری عمر گزر گئی
کسی ماہ وش کی نگاہ میں، کسی خانقاہ کی راہ میں
یونہی در بہ در، یونہی جا بہ جا، مری ساری عمر گزر گئی
مرا اختیار نہیں میں تھا، میں تلاشِ نانِ جویں میں تھا
کوئی لمحہ اپنا نہیں جیا، مری ساری عمر گزر گئی
مری حرفِ غم کی سپاہ تھی، کبھی آہ تھی، کبھی واہ تھی
یہی شور مجھ میں رہا بپا، مری ساری عمر گزر گئی
کئی ناشنیدہ خیال تھے، مرے پاس کتنے سوال تھے
مگر اس سے قبل کہ پوچھتا، مری ساری عمر گزر گئی
میں تلاشِ شہرِ دگر میں ہوں، میں ازل سے ایک سفر میں ہوں
میں کسی بھی گھر میں نہیں رہا، مری ساری عمر گزر گئی
مرا اصل عینِ شہود تھا، کہ میں خود ورائے وجود تھا
نہ خودی ملی، نہ خدا ملا، مری ساری عمر گزر گئی
مرا اور ہی کوئی طور تھا، مرا ایک اپنا ہی دور تھا
مرا دور مجھ کو نہیں ملا، مری ساری عمر گزر گئی
مرے اپنے جوگ بجوگ تھے، نہ یہ شہر تھا، نہ یہ لوگ تھے
سو میں خود میں چھپ کے پڑا رہا، مری ساری عمر گزر گئی
مری کج نوشت عبارتیں، مری کم وفور عبادتیں
کوئی کام ٹھیک نہ کرسکا، مری ساری عمر گزر گئی
میں اسیرِ بادہءِ عشق تھا، میں فقیرِ جادہءِ عشق تھا
میں گزر چکا، میں گزر گیا، مری ساری عمر گزر گئی
ہر اک انجمن میں پڑھے گئے، مرے شعر خوب سنے گئے
مرا غم کسی نے نہیں سنا، مری ساری عمر گزر گئی
میں ہوں آپ اپنا شریکِ غم، مجھے اعتراف بہ چشمِ نم
مرا حق نہ مجھ سے ہوا ادا، مری ساری عمر گزر گئی
مری اُن صفات کا کیا بنا، مرے ممکنات کا کیا بنا
میں کہاں گیا، مرا کیا بنا، مری ساری عمر گزر گئی
مرا اختتام قریب ہے، تُو نئی غزل کا نقیب ہے
سو تری ہوئی یہ سخن سرا، مری ساری عمر گزر گئی
کہیں ہو نہ جاؤں میں رائگاں، کہیں ہو نہ جاؤں میں رائگاں
یہی خوف دل میں رہا سدا، مری ساری عمر گزر گئی
عرفان ستار

جانا ہے کب خبر نہیں، تیّار ہو کے رہ

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 52
ہوکر وداع سب سے، سبک بار ہو کے رہ
جانا ہے کب خبر نہیں، تیّار ہو کے رہ
یہ لمحہ بھر بھی دھیان ہٹانے کی جا نہیں
دنیا ہے تیری تاک میں، ہشیار ہو کے رہ
خطرہ شبِ وجود کو مہرِ عدم سے ہے
سب بے خبر ہیں، تُو ہی خبردار ہو کے رہ
شاید اتر ہی آئے خنک رنگ روشنی
چل آج رات خواب میں بیدار ہو کے رہ
کس انگ سے وہ لمس کُھلے گا، کسے خبر
تُو بس ہمہ وجود طلبگار ہو کے رہ
تُو اب سراپا عشق ہُوا ہے، تو لے دعا
جا سر بسر اذیّت و آزار ہو کے رہ
شاید کبھی اِسی سے اٹھے پھر ترا خمیر
بنیادِ خوابِ ناز میں مسمار ہو کے رہ
کچھ دیر ہے سراب کی نظّارگی مزید
کچھ دیر اور روح کا زنگار ہو کے رہ
اب آسمانِ حرف ہُوا تا اُفق سیاہ
اب طمطراق سے تُو نمودار ہو کے رہ
بس اک نگاہ دُور ہے خوابِ سپردگی
تُو لاکھ اپنے آپ میں انکار ہو کے رہ
وہ زمزمے تھے بزمِ گماں کے، سو اب کہاں
یہ مجلسِ یقیں ہے، عزادار ہو کے رہ
اندر کی اونچ نیچ کو اخفا میں رکھ میاں
احوالِ ظاہری میں تو ہموار ہو کے رہ
کیسے بھلا تُو بارِ مروّت اٹھائے گا
محفل ہے دوستوں کی، سو عیّار ہو کے رہ
بے قیمتی کے رنج سے خود کو بچا کے چل
بازارِ دلبری میں خریدار ہو کے رہ
فرمانروائے عقل کے حامی ہیں سب یہاں
شاہِ جنوں کا تُو بھی وفادار ہو کے رہ
تُو ہجر کی فضیلتیں خود پر دراز رکھ
خود اپنی راہِ شوق میں دیوار ہو کے رہ
لوگوں پہ اپنا آپ سہولت سے وا نہ کر
عرفان، میری مان لے، دشوار ہو کے رہ
عرفان ستار

سو اب کسی کے نہ ہونے سے کچھ کمی بھی نہیں

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 51
طلب تو جزوِ تمنا کبھی رہی بھی نہیں
سو اب کسی کے نہ ہونے سے کچھ کمی بھی نہیں
ہمیں تمہاری طرف روز کھینچ لاتی تھی
وہ ایک بات جو تم نے کبھی کہی بھی نہیں
وہ سب خیال کے موسم کسی نگاہ سے تھے
سو اب خوشی بھی نہیں دل گرفتگی بھی نہیں
کرم کیا کہ رُکے تم نگاہ بھر کے لیے
نظر کو اس سے زیادہ کی تاب تھی بھی نہیں
وہ ایک پل ہی سہی جس میں تم میسّر ہو
اُس ایک پل سے زیادہ تو زندگی بھی نہیں
کسی کی سمت کچھ ایسے بڑھی تھی چشمِ طلب
صدائے دل پہ پلٹتی تو کیا رُکی بھی نہیں
یہ جانتے تو مزاج آشنا ہی کیوں ہوتے
جو روز تھا وہ سخن اب کبھی کبھی بھی نہیں
سنا رہے ہو ہمیں کس نگاہِ ناز کے غم
ہم اُس کے سامنے ہوتے تو پوچھتی بھی نہیں
ہزار تلخ مراسم سہی پہ ہجر کی بات
اُسے پسند نہ تھی اور ہم نے کی بھی نہیں
عرفان ستار

کس کو معلوم کہ باہر بھی ہوا ہے کہ نہیں

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 50
خانۂ دل کی طرح ساری فضا ہے کہ نہیں
کس کو معلوم کہ باہر بھی ہوا ہے کہ نہیں
جشن برپا تو ہوا تھا دمِ رخصت لیکن
وہی ہنگامہ مرے بعد بپا ہے کہ نہیں
پوچھتا ہے یہ ہر اک خار سرِ دشتِ طلب
آنے والا بھی کوئی آبلہ پا ہے کہ نہیں
دیکھ تو جا کہ مسیحائے غمِ عشق اُسے
ہاتھ اب تک یونہی سینے پہ دھرا ہے کہ نہیں
دل کے تاریک در و بام سے اکثر ترا غم
پوچھتا ہے کہ کوئی میرے سوا ہے کہ نہیں
میں کہیں ہوں کہ نہیں ہوں، وہ کبھی تھا کہ نہ تھا
خود ہی کہہ دے یہ سخن بے سر و پا ہے کہ نہیں
فیصلہ لوٹ کے جانے کا ہے دشوار بہت
کس سے پوچھوں وہ مجھے بھول چکا ہے کہ نہیں
میں تو وارفتگیٔ شوق میں جاتا ہوں اُدھر
نہیں معلوم وہ آغوش بھی وا ہے کہ نہیں
جانے کیا رنگ چمن کا ہے دمِ صبحِ فراق
گُل کھلے ہیں کہ نہیں بادِ صبا ہے کہ نہیں
اے شبِ ہجر ذرا دیر کو بہلے تو یہ دل
دیکھ عرفانؔ کہیں نغمہ سرا ہے کہ نہیں
عرفان ستار

وہ کام کر رہا ہوں جو دشوار تک نہیں

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 49
زندہ ہوں اور ہجر کا آزار تک نہیں
وہ کام کر رہا ہوں جو دشوار تک نہیں
اب میں ہوں اور تجھ کو منانے کی جستجو
کچھ بھی نہیں ہے راہ میں، پندار تک نہیں
یعنی مرا وجود ہی مشکوک ہو گیا
اب تو میں اپنے آپ سے بیزار تک نہیں
لَو بھی تھکن سے چُور ہوئی ہے، دماغ بھی
اور آسماں پہ صبح کے آثار تک نہیں
اقرار کر کے اُس کو نبھانا کسے نصیب
اس عمر میں تو مہلتِ انکار تک نہیں
تھی جس کی پور پور مری لمس آشنا
اب یاد اُس کے گیسو و رخسار تک نہیں
اس بے کراں خلا میں نگاہوں کو کیا کروں
اب تو نظر کے سامنے دیوار تک نہیں
عرفان ستار

نہ کر ملال کہ کوئی یہاں کسی کا نہیں

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 48
زمیں کسی کی نہیں آسماں کسی کا نہیں
نہ کر ملال کہ کوئی یہاں کسی کا نہیں
بھلا یہ لفظ کہاں، اور کربِ ذات کہاں
بقدرِ رنج غزل میں بیاں کسی کا نہیں
عدم وجود میں ہے، اور وجود ہے ہی نہیں
یقیں کسی کا نہیں ہے، گماں کسی کا نہیں
ہمیں جو کہنا ہے اک دوسرے سے کہہ لیں گے
سو کام تیرے مرے درمیاں کسی کا نہیں
بہت سے لوگوں کا ہے نفع میرے ہونے میں
مرے نہ ہونے میں لیکن زیاں کسی کا نہیں
مرے سوا بھی بہت لوگ جل رہے ہیں یہاں
اگرچہ ایسا چمکتا دھواں کسی کا نہیں
ہمیشہ گونجتا رہتا ہے یہ کہیں نہ کہیں
میں جانتا ہوں سخن رائگاں کسی کا نہیں
عرفان ستار

سمجھ میں کچھ نہیں آتا کہ ہم کیا کررہے ہیں

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 47
غموں میں کچھ کمی یا کچھ اضافہ کر رہے ہیں
سمجھ میں کچھ نہیں آتا کہ ہم کیا کررہے ہیں
جو آتا ہے نظر میں اُس کو لے آتے ہیں دل میں
نئی ترکیب سے ہم خود کو تنہا کررہے ہیں
نظر کرتے ہیں یوں جیسے بچھڑنے کی گھڑی ہو
سخن کرتے ہیں ایسے جیسے گریہ کررہے ہیں
تمہارے ہی تعلق سے تو ہم ہیں اس بدن میں
تمہارے ہی لیے تو یہ تماشا کررہے ہیں
زوال آمادگی اب گونجتی ہے دھڑکنوں میں
سو دل سے خواہشوں کا بوجھ ہلکا کررہے ہیں
سخن تم سے ہو یا احباب سے یا اپنے دل سے
یہی لگتا ہے ہم ہر بات بے جا کررہے ہیں
تمہاری آرزو ہونے سے پہلے بھی تو ہم تھے
سو جیسے بن پڑے اب بھی گزارا کررہے ہیں
ذرا پوچھے کوئی معدوم ہوتے ان دکھوں سے
ہمیں کس کے بھروسے پر اکیلا کررہے ہیں
ہمیں روکے ہوئے ہے پاسِ ناموسِ محبت
یہ مت سمجھو کہ ہم دنیا کی پروا کررہے ہیں
بجز سینہ خراشی کچھ نہیں آتا ہے لیکن
ذرا دیکھو تو ہم یہ کام کیسا کررہے ہیں
ہمیں اس کام کی مشکل کا اندازہ ہے صاحب
بڑے عرصے سے ہم بھی ترکِ دنیا کررہے ہیں
جو ہو گی صبح تو تقسیم ہوجائیں گے پھر ہم
ڈھلی ہے شام تو خود کو اکھٹا کررہے ہیں
جنوں سے اتنا دیرینہ تعلق توڑ دیں گے؟
ارے توبہ کریں عرفان، یہ کیا کررہے ہیں؟
عرفان ستار

ہم کسی شے کو بھی موجود کہاں چاہتے ہیں

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 46
سرِ صحرائے یقیں شہرِ گماں چاہتے ہیں
ہم کسی شے کو بھی موجود کہاں چاہتے ہیں
جس سے اٹھتے ہیں قدم راہِ جنوں خیز میں تیز
ہم بھی شانے پہ وہی بارِ گراں چاہتے ہیں
رُخ نہ کر جانبِ دنیا کہ اسیرانِ نظر
تجھ کو ہر دم اسی جانب نگراں چاہتے ہیں
ایسے گرویدہ کہاں ہیں لب و رخسار کے ہم
ہم تو بس قربتِ شیریں سخناں چاہتے ہیں
چاہتے ہیں کہ وہ تا عمر رہے پیشِ نظر
ایک تصویر سرِ آبِ رواں چاہتے ہیں
جس میں سیراب ہیں آنکھیں جہاں آباد ہیں دل
ہم اُسی شہرِ تخیل میں مکاں چاہتے ہیں
رازِ ہستی سے جو پردہ نہیں اُٹھتا، نہ اُٹھے
آپ کیوں اپنے تجسس کا زیاں چاہتے ہیں
شام ہوتے ہیں لگاتے ہیں درِ دل پہ صدا
آبلہ پا ہیں، اکیلے ہیں، اماں چاہتے ہیں
دُور عرفانؔ رہو اُن سے کہ جو اہلِ سخن
التفاتِ نگۂ کم نظراں چاہتے ہیں
عرفان ستار

پھر ایک رنج سے دیوار و در کو دیکھتے ہیں

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 45
نگاہِ شوق سے راہِ سفر کو دیکھتے ہیں
پھر ایک رنج سے دیوار و در کو دیکھتے ہیں
نہ جانے کس کے بچھڑنے کا خوف ہے اُن کو
جو روز گھر سے نکل کر شجر کو دیکھتے ہیں
یہ روز و شب ہیں عبارت اسی توازن سے
کبھی ہنر کو کبھی اپنے گھر کو دیکھتے ہیں
ہمارے طرزِ توجہ پہ خوش گمان نہ ہو
تجھے نہیں تری تابِ نظر کو دیکھتے ہیں
ہمارے سامنے دریا ہیں سلسلوں کے رواں
پہ کیا کریں کہ تری چشمِ تر کو دیکھتے ہیں
ہم اہلِ حرص و ہوس تجھ سے بے نیاز کہاں
دعا کے بعد دعا کے اثر کو دیکھتے ہیں
یہ بے سبب نہیں سودا خلا نوردی کا
مسافرانِ عدم رہ گزر کو دیکھتے ہیں
وہ جس طرف ہو نظر اُس طرف نہیں اٹھتی
وہ جا چکے تو مسلسل اُدھر کو دیکھتے ہیں
ہمیں بھی اپنا مقلد شمار کر غالبؔ
کہ ہم بھی رشک سے تیرے ہنر کو دیکھتے ہیں
عرفان ستار

چمک رہے ہیں، مگر آئینہ نہیں ہوئے ہیں

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 44
ترے جمال سے ہم رُونما نہیں ہوئے ہیں
چمک رہے ہیں، مگر آئینہ نہیں ہوئے ہیں
دھڑک رہا ہے تو اک اِسم کی ہے یہ برَ کت
وگرنہ واقعے اِس دل میں کیا نہیں ہوئے ہیں
بتا نہ پائیں، تو خود تم سمجھ ہی جاؤ کہ ہم
بلا جواز تو بے ماجرا نہیں ہوئے ہیں
ترا کمال، کہ آنکھوں میں کچھ، زبان پہ کچھ
ہمیں تو معجزے ایسے عطا نہیں ہوئے ہیں
یہ مت سمجھ، کہ کوئی تجھ سے منحرف ہی نہیں
ابھی ہم اہلِ جُنوں لب کُشا نہیں ہوئے ہیں
بنامِ ذوقِ سخن خود نمائی آپ کریں
ہم اِس مرض میں ابھی مبتلا نہیں ہوئے ہیں
ہمی وہ، جن کا سفر ماورائے وقت و وجود
ہمی وہ، خود سے کبھی جو رہا نہیں ہوئے ہیں
خود آگہی بھی کھڑی مانگتی ہے اپنا حساب
جُنوں کے قرض بھی اب تک ادا نہیں ہوئے ہیں
کسی نے دل جو دکھایا کبھی، تو ہم عرفان
اُداس ہو گئے، لیکن خفا نہیں ہوئے ہیں
عرفان ستار

یعنی وہ سب جو ترا ہجر گزارے ہوئے ہیں

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 43
بام پر جمع ہوا، ابر ، ستارے ہوئے ہیں
یعنی وہ سب جو ترا ہجر گزارے ہوئے ہیں
زندگی، ہم سے ہی روشن ہے یہ آئینہ ترا
ہم جو مشاطہءِ وحشت کے سنوارے ہوئے ہیں
حوصلہ دینے جو آتے ہیں، بتائیں انھیں کیا؟
ہم تو ہمت ہی نہیں، خواب بھی ہارے ہوئے ہیں
شوقِ واماندہ کو درکار تھی کوئی تو پناہ
سو تمہیں خلق کیا، اور تمہارے ہوئے ہیں
خود شناسی کے، محبت کے، کمالِ فن کے
سارے امکان اُسی رنج پہ وارے ہوئے ہیں
روزنِ چشم تک آپہنچا ہے اب شعلہ ءِ دل
اشک پلکوں سے چھلکتے ہی شرارے ہوئے ہیں
ڈر کے رہ جاتے ہیں کوتاہیءِ اظہار سے چُپ
ہم جو یک رنگی ءِ احساس کے مارے ہوئے ہیں
ہم کہاں ہیں، سرِ دیوارِ عدم، نقشِ وجود
اُن نگاہوں کی توجہ نے اُبھارے ہوئے ہیں
بڑھ کے آغوش میں بھر لے ہمیں اے رُوحِ وصال
آج ہم پیرہنِ خاک اُتارے ہوئے ہیں
عرفان ستار

آج فضا کے بوجھل پن سے لہجے بھی سنجیدہ ہیں

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 42
چاند بھی کھویا کھویا سا ہے تارے بھی خوابیدہ ہیں
آج فضا کے بوجھل پن سے لہجے بھی سنجیدہ ہیں
جانے کن کن لوگو سے اس درد کے کیا کیا رشتے تھے
ہجر کی اس آباد سرا میں سب چہرے نادیدہ ہیں
اتنے برسوں بعد بھی دونوں کیسے ٹوٹ کے ملتے ہیں
تُو ہے کتنا سادہ دل اور ہم کتنے پیچیدہ ہیں
سن جاناں ہم ترکِ تعلق اور کسی دن کر لیں گے
آج تجھے بھی عجلت سی ہے ہم بھی کچھ رنجیدہ ہیں
کانوں میں اک سرگوشی ہے بے معنی سی سرگوشی
آنکھوں میں کچھ خواب سجے ہیں خواب بھی صبح رسیدہیں
گھر کی وہ مخدوش عمارت گر کے پھر تعمیر ہوئی
اب آنگن میں پیڑ ہیں جتنے سارے شاخ بریدہ ہیں
اس بستی میں ایک سڑک ہے جس سے ہم کو نفرت ہے
اس کے نیچے پگڈنڈی ہے جس کے ہم گرویدہ ہیں
عرفان ستار

ان دنوں کوئی بہت سخت خفا ہے مجھ میں

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 41
کیا بتاوٗں کہ جو ہنگامہ بپا ہے مجھ میں
ان دنوں کوئی بہت سخت خفا ہے مجھ میں
اُس کی خوشبو کہیں اطراف میں پھیلی ہوئی ہے
صبح سے رقص کناں بادِ صبا ہے مجھ میں
تیری صورت میں تجھے ڈھونڈ رہا ہوں میں بھی
غالباً تُو بھی مجھے ڈھونڈ رہا ہے مجھ میں
ایک ہی سمت ہر اک خواب چلا جاتا ہے
یاد ہے، یا کوئی نقشِ کفِ پا ہے مجھ میں؟
میری بے راہ روی اس لیے سرشار سی ہے
میرے حق میں کوئی مصروفِ دعا ہے مجھ میں
اپنی سانسوں کی کثافت سے گماں ہوتا ہے
کوئی امکان ابھی خاک ہُوا ہے مجھ میں
اک چبھن ہے کہ جو بے چین کیے رہتی ہے
ایسا لگتا ہے کہ کچھ ٹوٹ گیا ہے مجھ میں
یا تو میں خود ہی رہائی کے لیے ہوں بے تاب
یا گرفتار کوئی میرے سِوا ہے مجھ میں
آئینہ اِس کی گواہی نہیں دیتا، تو نہ دے
وہ یہ کہتا ہے کوئی خاص ادا ہے مجھ میں
ہو گئی دل سے تری یاد بھی رخصت شاید
آہ و زاری کا ابھی شور اٹھا ہے مجھ میں
مجھ میں آباد ہیں اک ساتھ عدم اور وجود
ہست سے برسرِ پیکار فنا ہے مجھ میں
مجلسِ شامِ غریباں ہے بپا چار پہر
مستقل بس یہی ماحولِعزا ہے مجھ میں
ہو گئی شق تو بالآخر یہ انا کی دیوار
اپنی جانب کوئی دروازہ کھلا ہے مجھ میں
خوں بہاتا ہُوا، زنجیر زنی کرتا ہُوا
کوئی پاگل ہے جو بے حال ہُوا ہے مجھ میں
اُس کی خوشبو سے معطر ہے مرا سارا وجود
تیرے چھونے سے جو اک پھول کِھلا ہے مجھ میں
تیرے جانے سے یہاں کچھ نہیں بدلا، مثلاً
تیرا بخشا ہوا ہر زخم ہرا ہے مجھ میں
کیسے مل جاتی ہے آوازِ اذاں سے ہر صبح
رات بھر گونجنے والی جو صدا ہے مجھ میں
کتنی صدیوں سے اُسے ڈھونڈ رہے ہو بے سُود
آوٗ اب میری طرف آوٗ، خدا ہے مجھ میں
مجھ میں جنّت بھی مِری، اور جہنّم بھی مِرا
جاری و ساری جزا اور سزا ہے مجھ میں
روشنی ایسے دھڑکتے تو نہ دیکھی تھی کبھی
یہ جو رہ رہ کے چمکتا ہے، یہ کیا ہے مجھ میں؟
عرفان ستار

اب ترکِ مراسم سے بھی ڈرنے کا نہیں میں

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 40
سمجھوتہ کوئی وقت سے کرنے کا نہیں میں
اب ترکِ مراسم سے بھی ڈرنے کا نہیں میں
زنجیر کوئی لا مری وحشت کے برابر
اس حلقۂ مژگاں میں ٹھہرنے کا نہیں میں
کل رات عجب دشتِ بلا پار کیا ہے
سو بادِ سحر سے تو سنورنے کا نہیں میں
کیوں مملکتِ عشق سے بے دخل کیا تھا
اب مسندِ غم سے تو اترنے کا نہیں میں
دم بھر کے لیے کوئی سماعت ہو میسّر
بے صوت و صدا جاں سے گزرنے کا نہیں میں
اب چشمِ تماشا کو جھپکنے نہیں دینا
اس بار جو ڈوبا تو ابھرنے کا نہیں میں
ہر شکل ہے مجھ میں مری صورت کے علاوہ
اب اس سے زیادہ تو نکھرنے کا نہیں میں
عرفان ستار

ہر چند آئنہ ہوں، منور نہیں ہوں میں

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 39
جس دن سے اُس نگاہ کا منظر نہیں ہوں میں
ہر چند آئنہ ہوں، منور نہیں ہوں میں
بکھرا ہوا ہوں شہرِ طلب میں اِدھر اُدھر
اب تیری جستجو کو میسر نہیں ہوں میں
یہ عمر اک سراب ہے صحرائے ذات کا
موجود اس سراب میں دم بھر نہیں ہوں میں
گردش میں ہے زمین بھی، ہفت آسمان بھی
تُو مجھ پہ رکھ نظر کہ مکرر نہیں ہوں میں
ہوں اُس کی بزمِ ناز میں مانندِ ذکرِ غیر
وہ بھی کبھی کبھار ہوں، اکثر نہیں ہوں میں
تُو جب طلب کرے گا مجھے بہرِ التفات
اُس دن خبر ملے گی کہ در پر نہیں ہوں میں
ہے بامِ اوج پر یہ مری تمکنت مگر
تیرے تصرفات سے باہر نہیں ہوں میں
میں ہوں ترے تصورِ تخلیق کا جواز
اپنے کسی خیال کا پیکر نہیں ہوں میں
کر دے سلوکِ جاں سے معطر مشامِ جاں
چُھو لے مجھے کہ خواب کا منظر نہیں ہوں میں
عرفانؔ خوش عقیدگی اپنی جگہ مگر
غالبؔ کی خاکِ پا کے برابر نہیں ہوں میں
عرفان ستار

مجھ کو کہاں خبر تھی کہ اتنا برا ہوں میں

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 38
احباب کا کرم ہے کہ خود پر کھلا ہوں میں
مجھ کو کہاں خبر تھی کہ اتنا برا ہوں میں
خود سے مجھے جو ہے وہ گلہ کس سے میں کروں
مجھ کو منائے کون کہ خود سے خفا ہوں میں
اٹھے جو اس طرف وہ نظر ہی کہیں نہیں
اک شہرِ کم نگاہ میں کھویا ہُوا ہوں میں
تجھ سے نہیں کہوں گا تو کس سے کہوں گا یار؟
پہلے سمجھ تو جاوٗں کہ کیا چاہتا ہوں میں؟
کیا اور چاہتے ہیں یہ دیدہ ورانِ عصر؟
عادی منافقت کا تو ہو ہی گیا ہوں میں
مل جائیں گے بہت سے تجھے مصلحت پسند
مجھ سے نہ سر کھپا کہ بہت سر پھرا ہوں میں
اب آئینہ بھی پوچھ رہا ہے، تو کیا کہوں
حسرت بھری نگاہ سے کیا دیکھتا ہوں میں
باہر ہے زندگی کی ضرورت میں زندگی
اندر سے ایک عمر ہوئی مر چکا ہوں میں
رہتا ہے اک ہجوم یہاں گوش بر غزل
سنتا ہے کون درد سے جب چیختا ہوں میں
ہیں حل طلب تو مسئلے کچھ اور بھی مگر
اپنے لیے تو سب سے بڑا مسئلہ ہوں میں
میں نے ہی تجھ جمال کو تجھ پر عیاں کیا
اے حسنِ خود پرست، ترا ائینہ ہوں میں
جب تک میں اپنے ساتھ رہا تھا، ترا نہ تھا
اب تیرے ساتھ یوں ہوں کہ خود سے جدا ہوں میں
پہلے میں بولتا تھا بہت، سوچتا تھا کم
اب سوچتا زیادہ ہوں، کم بولتا ہوں میں
عرفان کیا تجھے یہ خبر ہے کہ ان دنوں
ہر دم فنا کے باب میں کیوں سوچتا ہوں میں؟
عرفان ستار

بولتا کوئی کچھ بھی نہیں ہے مگر، ایک زنجیرِ در، خامشی اور میں

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 37
جاگتے ہیں تری یاد میں رات بھر، ایک سنسان گھر، چاندنی اور میں
بولتا کوئی کچھ بھی نہیں ہے مگر، ایک زنجیرِ در، خامشی اور میں
اک اذیّت میں رہتے ہوئے مستقل، ایک لمحے کو غافل نہیں ذہن و دل
کچھ سوالات ہیں ان کے پیشِ نظر، انتہا کی خبر، آگہی اور میں
تیری نسبت سے اب یاد کچھ بھی نہیں، اُس تعلق کی روداد کچھ بھی نہیں
اب جو سوچوں تو بس یاد ہے اس قدر، ایک پہلی نظر، تشنگی اور میں
کس مسافت میں ہوں دیکھ میرے خدا، ایسی حالت میں تُو میری ہمت بندھا
یہ کڑی رہ گزر، رئگانی کا ڈر،مضمحل بال و پر، بے بسی اور میں
اُس کو پانے کی اب جستجو بھی نہیں، جستجو کیا کریں آرزو بھی نہیں
شوقِ آوارگی بول جائیں کدھر، ہو گئے در بہ در، زندگی اور میں
لمحہ لمحہ اجڑتا ہوا شہرِ جاں، لحظہ لحظہ ہوئے جا رہے ہیں دھواں
پھول پتّے شجر، منتظر چشمِ تر، رات کا یہ پہر، روشنی اور میں
گفتگو کا بہانہ بھی کم رہ گیا، رشتۂ لفظ و معنی بھی کم رہ گیا
ہے یقینا کسی کی دعا کا اثر، آج زندہ ہیں گر، شاعری اور میں
عرفان ستار

یہ کہاں آگیا ہستی سے سرکتا ہُوا میں

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 36
ایک تاریک خلا، اُس میں چمکتا ہُوا میں
یہ کہاں آگیا ہستی سے سرکتا ہُوا میں
شعلہِٗ جاں سے فنا ہوتا ہوں قطرہ قطرہ
اپنی آنکھوں سے لہو بن کے ٹپکتا ہُوا میں
آگہی نے مجھے بخشی ہے یہ نارِ خود سوز
اک جہنّم کی طرح خود میں بھڑکتا ہُوا میں
منتظر ہوں کہ کوئی آکے مکمل کردے
چاک پر گھومتا، بل کھاتا، درکتا ہُوا میں
مجمعِ اہلِ حرم نقش بدیوار اُدھر
اور اِدھر شور مچاتا ہُوا، بکتا ہُوا میں
میرے ہی دم سے ملی ساعتِ امکان اِسے
وقت کے جسم میں دل بن کے دھڑکتا ہُوا میں
بے نیازی سے مری آتے ہوئے تنگ یہ لوگ
اور لوگوں کی توجّہ سے بدکتا ہُوا میں
رات کی رات نکل جاتا ہوں خود سے باہر
اپنے خوابوں کے تعاقب میں ہمکتا ہُوا میں
ایسی یکجائی، کہ مٹ جائے تمیزِ من و تُو
مجھ میں کھِلتا ہُوا تُو، تجھ میں مہکتا ہُوا میں
اک تو وہ حسنِ جنوں خیز ہے عالم میں شہود
اور اک حسنِ جنوں خیز کو تکتا ہُوا میں
ایک آواز پڑی تھی کہ کوئی سائلِ ہجر؟
آن کی آن میں پہنچا تھا لپکتا ہُوا میں
ہے کشیدِ سخنِ خاص ودیعت مجھ کو
گھومتا پھرتا ہوں یہ عطر چھڑکتا ہُوا میں
رازِ حق فاش ہُوا مجھ پہ بھی ہوتے ہوتے
خود تک آہی گیا عرفان بھٹکتا ہُوا میں
عرفان ستار

سانسیں سانسوں میں مل جائیں، آنسو آنسو میں

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 35
کاش اک ایسی شب آئے جب تُو ہو پہلو میں
سانسیں سانسوں میں مل جائیں، آنسو آنسو میں
یاد کی لَو سے آئینے کا چہرہ ہو پُرنور
نہا رہی ہو رات کی رانی خواب کی خوشبو میں
نیند مری لے کر چلتی ہے شام ڈھلے، اور پھر
رات الجھ کر رہ جاتی ہے اُس کے گیسو میں
رہے ہمارے ہونٹوں پر اک نام کا دن بھر ورد
شب بھر دل کی رحل پہ رکھا اک چہرہ چومیں
آپ اپنی ہی ضَو سے جگمگ کرنا ساری رات
دھڑک رہا ہو جیسے میرا دل اِس جگنو میں
بولتے رہنا ہنستے رہنا بے مقصد بے بات
جیسے دل آہی جائے گا میرے قابو میں
ویسے تو اکثر ہوتا تھا ہلکا، میٹھا درد
اب تو جیسے آگ بھری ہو یاد کے چاقو میں
ایک دعا تھی جس نے بخشی حرف کو یہ تاثیر
یہ تاثیر کہاں ہوتی ہے جادو وادو میں
جب مجھ کو بھی آجائے گا چلنا وقت کے ساتھ
آجائے گی کچھ تبدیلی میری بھی خُو میں
تم کیا سمجھو تم کیا جانو کون ہوں میں کیا ہوں
وہ اقلیم الگ ہے جس میں ہیں میری دھومیں
قحطِ سماعت کے عالم میں یہی ہے اک تدبیر
خود ہی شعر کہیں اور خود ہی پڑھ پڑھ کر جھومیں
لوگ ہمیں سمجھیں تو سمجھیں بے حرف و بے صوت
ہم شامل تو ہو نہیں سکتے ہیں اِس ہا ہُو میں
جن کے گھر ہوتے ہیں وہ گھر جاتے ہیں عرفان
آپ بھی شب بھر مت ایسے ان سڑکوں پر گھومیں
عرفان ستار

اک مصرعۂ تازہ بھی مگر کہہ نہ سکا میں

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 34
لفظوں کے برتنے میں بہت صرف ہوا میں
اک مصرعۂ تازہ بھی مگر کہہ نہ سکا میں
اک دستِ رفاقت کی طلب لے کے بڑھا میں
انبوہِ طرحدار میں اک شور اُٹھا میں!
آ تجھ کو تقابل میں الجھنے سے بچا لوں
سب کچھ ہے تری ذات میں، باقی جو بچا میں
میں اور کہاں خود نگری یاد ہے تجھ کو
جب تُو نے مرا نام لیا میں نے کہا میں؟
میں ایک بگولہ سا اٹھا دشتِ جنوں سے
روکا مجھے دنیا نے بہت پر نہ رُکا میں
یا مجھ سے گزاری نہ گئی عمرِ گریزاں
یا عمرِ گریزاں سے گزارا نہ گیا میں
معلوم ہوا مجھ میں کوئی رمز نہیں ہے
اک عمرِ ریاضت سے گزرنے پہ کھلا میں
جو رات بسر کی تھی مرے ہجر میں تُو نے
اُس رات بہت دیر ترے ساتھ رہا میں
عرفان ستار

چلو اب مان بھی جاو، خدا نئیں

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 33
گماں کی کھوج کا کوئ صلہ نئیں
چلو اب مان بھی جاو، خدا نئیں
وہ بن جانے سبھی کچھ کہہ گیا تھا
میں سب کچھ جانتا تھا، پر کہا نئیں
جدا ہونا ہی تھا، سو ہو رہے ہیں
ذرا سی بات یے اس کو بڑھا نئیں
مجھے صحرا سے مت تشبیہ دینا
مری وحشت کی کوئ انتہا نئیں
میں سب کچھ جانتا ہوں، دیکھتا ہوں
میں خوابیدہ سہی، سویا ہوا نئیں
نہ آتا تو نہ ہر گز ہم بلاتے
یہاں آہی گیا ہے اب، تو جا نئیں
محبت میں بدن شامل نہ ہوتا
یہ ہم بھی چاہتے تھے، پر ہوا نئیں
مجھے دیکھو، تو کیا میں واقعی ہوں
مجھے سمجھو، تو کیا میں جا بجا نئیں
ملے کیا کیا نہ چہرے دل گلی میں
میں جس کو ڈھونڈتا تھا، وہ ملا نئیں
ہمیں مت ڈھونڈ، پر خواہش کیا کر
ہمیں مت یاد کر، لیکن بھلا نئیں
ہماری خواہشوں میں کوئ خواہش
رہینِ بخششِ بندِ قبا نئیں
میں ایسا ہوں، مگر ایسا نہیں ہوں
میں ویسا تھا، مگر ویسا میں تھا نئیں
عظیم المرتبت شاعر بہت ہیں
مگر ہاں، جون سا شاعر ہوا نئیں
کہیں سبحان اللہ جون جس پر
وہی عرفان نے اب تک کہا نئیں
عرفان ستار

عمر کا کچھ احوال نہیں ہے اور مآل میں زندہ ہوں

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 32
ہونے کا اظہار نہیں ہے، صرف خیال میں زندہ ہوں
عمر کا کچھ احوال نہیں ہے اور مآل میں زندہ ہوں
ٹھیک ہے میرا ہونا تیرے ہونے سے مشروط نہیں
لیکن اتنا یاد رہے میں ایک ملال میں زندہ ہوں
اپنا دل برباد کیا تو پھر یہ گھر آباد ہوا
پہلے میں اک عرش نشیں تھا اب پاتال میں زندہ ہوں
اک امکان کی بے چینی سے ایک محال کی وحشت تک
میں کس حال میں زندہ تھا اور میں کس حال میں زندہ ہوں
دنیا میری ذات کو چاہے رد کر دے، تسلیم کرے
میں تو یوں بھی تیرے غم کے استدلال میں زندہ ہوں
کتنی جلدی سمٹا ہوں میں وسعت کی اس ہیبت سے
کل تک عشق میں زندہ تھا میں آج وصال میں زندہ ہوں
ایک فنا کی گردش ہے یہ ایک بقا کا محور ہے
ایک دلیل نے مار دیا ہے ایک سوال میں زندہ ہوں
عرفان ستار

یہ ترا واہمہ نہیں، میں ہوں

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 31
رفتگاں کی صدا نہیں، میں ہوں
یہ ترا واہمہ نہیں، میں ہوں
تیرے ماضی کے ساتھ دفن کہیں
میرا اک واقعہ نہیں، میں ہوں
کیا ملا انتہا پسندی سے؟
کیا میں تیرے سوا نہیں، میں ہوں
ایک مدت میں جا کے مجھ پہ کھلا
چاند حسرت زدہ نہیں، میں ہوں
اس نے مجھ کو محال جان لیا
میں یہ کہتا رہا نہیں، میں ہوں
میں ہی عجلت میں آ گیا تھا ادھر
یہ زمانہ نیا نہیں، میں ہوں
میری وحشت سے ڈر گئے شاید
یار بادِ فنا نہیں، میں ہوں
میں ترے ساتھ رہ گیا ہوں کہیں
وقت ٹھہرا ہوا نہیں، میں ہوں
گاہے گاہے سخن ضروری ہے
سامنے آئنہ نہیں، میں ہوں
سرسری کیوں گزارتا ہے مجھے
یہ مرا ماجرا نہیں، میں ہوں
اس نے پوچھا کہاں گیا وہ شخص
کیا بتاتا کہ تھا نہیں، میں ہوں
یہ کسے دیکھتا ہے مجھ سے اُدھر
تیرے آگے خلا نہیں، میں ہوں
عرفان ستار

میری جانب اک نظر اے دیدہ ور میں بھی تو ہوں

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 30
آج بامِ حرف پر امکان بھر میں بھی تو ہوں
میری جانب اک نظر اے دیدہ ور میں بھی تو ہوں
بے اماں سائے کا بھی رکھ بادِ وحشت کچھ خیال
دیکھ کر چل درمیانِ بام و در میں بھی تو ہوں
رات کے پچھلے پہر پُرشور سناٹوں کے بیچ
تُو اکیلی تو نہیں اے چشمِ تر میں بھی تو ہوں
تُو اگر میری طلب میں پھر رہا ہے در بہ در
اپنی خاطر ہی سہی پر در بہ در میں بھی تو ہوں
تیری اس تصویر میں منظر مکمل کیوں نہیں
میں کہاں ہوں یہ بتا اے نقش گر میں بھی تو ہوں
سن اسیرِ خوش ادائی منتشر تُو ہی نہیں
میں جو خوش اطوار ہوں، زیر و زبر میں بھی تو ہوں
خود پسندی میری فطرت کا بھی وصفِ خاص ہے
بے خبر تُو ہی نہیں ہے بے خبر میں بھی تو ہوں
دیکھتی ہے جوں ہی پسپائی پہ آمادہ مجھے
روح کہتی ہے بدن سے، بے ہنر میں بھی تو ہوں
دشتِ حیرت کے سفر میں کب تجھے تنہا کیا
اے جنوں میں بھی تو ہوں اے ہم سفر میں بھی تو ہوں
کوزہ گر بے صورتی سیراب ہونے کی نہیں
اب مجھے بھی شکل دے اس چاک پر میں بھی تو ہوں
یوں صدا دیتا ہے اکثر کوئی مجھ میں سے مجھے
تجھ کو خوش رکھے خدا یونہی مگر میں بھی تو ہوں
عرفان ستار

مجھے بدن سے نکالو، میں تنگ آ گیا ہوں

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 29
یہ کیسے ملبے کے نیچے دبا دیا گیا ہوں
مجھے بدن سے نکالو، میں تنگ آ گیا ہوں
کسے دماغ ہے بے فیض صحبتوں کا میاں
خبر اڑا دو کہ میں شہر سے چلا گیا ہوں
مآلِ عشقِ اناگیر ہے یہ مختصراً
میں وہ درندہ ہوں جو خود کو ہی چبا گیا ہوں
کوئی گھڑی ہے کہ ہوتا ہوں آستین میں دفن
میں دل سے بہتا ہوا آنکھ تک تو آ گیا ہوں
مرا تھا مرکزی کردار اس کہانی میں
بڑے سلیقے سے بے ماجرا کیا گیا ہوں
وہ مجھ کو دیکھ رہا ہے عجب تحیّر سے
نجانے جھونک میں کیا کچھ اُسے بتا گیا ہوں
مجھے بھلا نہ سکے گی یہ رہگزارِ جنوں
قدم جما نہ سکا، رنگ تو جما گیا ہوں
سب اہتمام سے پہنچے ہیں اُس کی بزم میں آج
میں اپنے حال میں سرمست و مبتلا گیا ہوں
مرے کہے سے مرے گرد و پیش کچھ بھی نہیں
سو جو دکھایا گیا ہے وہ دیکھتا گیا ہوں
اُسے بتایا نہیں ہجر میں جو حال ہُوا
جو بات سب سے ضروری تھی وہ چھپا گیا ہوں
غزل میں کھینچ کے رکھ دی ہے اپنی جاں عرفان
ہر ایک شعر میں دل کا لہو بہا گیا ہوں
عرفان ستار

تجھ سے ملنے میں ترے خواب میں آیا ہُوا ہوں

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 28
کس عجب ساعتِ نایاب میں آیا ہُوا ہوں
تجھ سے ملنے میں ترے خواب میں آیا ہُوا ہوں
پھر وہی میں ہوں، وہی ہجر کا دریائے عمیق
کوئی دم عکسِ سرِ آب میں آیا ہُوا ہوں
کیسے آئینے کے مانند چمکتا ہُوا میں
عشق کے شہرِ ابدتاب میں آیا ہُوا ہوں
میری ہر تان ہے از روزِ ازل تا بہ ابد
ایک سُر کے لیے مضراب میں آیا ہُوا ہوں
کوئی پرچھائیں کبھی جسم سے کرتی ہے کلام؟
بے سبب سایہِٗ مہتاب میں آیا ہُوا ہوں
ہر گزرتے ہوئے لمحے میں تپکتا ہُوا میں
درد ہوں، وقت کے اعصاب میں آیا ہُوا ہوں
کیسی گہرائی سے نکلا ہوں عدم کی عرفان
کیسے پایاب سے تالاب میں آیا ہُوا ہوں
عرفان ستار

عجب یقین پسِ پردہ ءِ گماں ہے یہاں

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 27
نہیں ہے جو، وہی موجود و بے کراں ہے یہاں
عجب یقین پسِ پردہ ءِ گماں ہے یہاں
نہ ہو اداس، زمیں شق نہیں ہوئی ہے ابھی
خوشی سے جھوم، ابھی سر پہ آسماں ہے یہاں
یہاں سخن جو فسانہ طراز ہو، وہ کرے
جو بات سچ ہے وہ ناقابلِ بیاں ہے یہاں
نہ رنج کر، کہ یہاں رفتنی ہیں سارے ملال
نہ کر ملال، کہ ہر رنج رائیگاں ہے یہاں
زمیں پلٹ تو نہیں دی گئی ہے محور پر؟
نمو پذیر فقط عہدِ رفتگاں ہے یہاں
یہ کارزارِ نفس ہے، یہاں دوام کسے
یہ زندگی ہے مری جاں، کسے اماں ہے یہاں
ہم اور وصل کی ساعت کا انتظار کریں؟
مگر وجود کی دیوار درمیاں ہے یہاں
چلے جو یوں ہی ابد تک، تو اِس میں حیرت کیا؟
ازل سے جب یہی بے ربط داستاں ہے یہاں
جو ہے وجود میں، اُس کو گماں کی نذر نہ کر
یہ مان لے کہ حقیقت ہی جسم و جاں ہے یہاں
کہا گیا ہے جو وہ مان لو، بلا تحقیق
کہ اشتباہ کی قیمت تو نقدِجاں ہے یہاں
عرفان ستار

ترے فراق سے پہلے ہی میں جدا ہو جاؤں

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 26
وفا کے باب میں اپنا مثالیہ ہو جاؤں
ترے فراق سے پہلے ہی میں جدا ہو جاؤں
میں اپنے آپ کو تیرے سبب سے جانتا ہوں
ترے یقین سے ہٹ کر تو واہمہ ہو جاؤں
تعلقات کے برزخ میں عین ممکن ہے
ذرا سا دُکھ وہ مجھے دے تو میں ترا ہو جاؤں
ابھی میں خوش ہوں تو غافل نہ جان اپنے سے
نہ جانے کون سی لغزش پہ میں خفا ہو جاؤں
ابھی تو راہ میں حائل ہے آرزو کی فصیل
ذرا یہ عشق سوا ہو تو جا بہ جا ہو جاؤں
ابھی تو وقت تنفس کے ساتھ چلتا ہے
ذرا ٹھہر کہ میں اس جسم سے رہا ہو جاؤں
ابھی تو میں بھی تری جستجو میں شامل ہوں
قریب ہے کہ تجسس سے ماورا ہو جاؤں
خموشیاں ہیں، اندھیرا ہے، بے یقینی ہے
رہے نہ یاد بھی تیری تو میں خلا ہو جاؤں
کسی سے مل کے بچھڑنا بڑی اذیت ہے
تو کیا میں عہدِ تمنا کا فاصلہ ہو جاؤں
ترے خیال کی صورت گری کا شوق لیے
میں خواب ہو تو گیا ہوں اب اور کیا ہو جاؤں
یہ حرف و صوت کا رشتہ ہے زندگی کی دلیل
خدا وہ دن نہ دکھائے کہ بے صدا ہو جاؤں
وہ جس نے مجھ کو ترے ہجر میں بحال رکھا
تُو آ گیا ہے تو کیا اُس سے بے وفا ہو جاؤں
عرفان ستار

وہ شے جو دل میں فراواں ہے بے دلی ہی نہ ہو

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 25
چھلک رہی ہے جو مجھ میں وہ تشنگی ہی نہ ہو
وہ شے جو دل میں فراواں ہے بے دلی ہی نہ ہو
گزر رہا ہے تُو کس سے گریز کرتا ہوا
ٹھہر کے دیکھ لے اے دل کہیں خوشی ہی نہ ہو
ترے سکوت سے بڑھ کر نہیں ہے تیرا سخن
مرا سخن بھی کہیں میری خامشی ہی نہ ہو
میں شہرِ جاں سے اُسی کی طرف ہی لوٹوں گا
یہ اور بات کہ اب میری واپسی ہی نہ ہو
وہ آج مجھ سے کوئی بات کہنے والا ہے
میں ڈر رہا ہوں کہ یہ بات آخری ہی نہ ہو
نہ ہو وہ شخص مزاجاً ہی سرد مہر کہیں
میں بے رُخی جسے کہتا ہوں بے حسی ہی نہ ہو
یہ کیا سفر ہے کہ جس کی مسافتیں گُم ہیں
عجب نہیں کہ مری ابتدا ہوئی ہی نہ ہو
ہر اعتبار سے رہتا ہے با مراد وہ دل
امید جس نے کبھی اختیار کی ہی نہ ہو
عجیب ہے یہ مری لا تعلقی جیسے
جو کر رہا ہوں بسر میری زندگی ہی نہ ہو
یہ شعلگی تو صفت ہے الم نصیبوں کی
جو غم نہ ہو تو کسی دل میں روشنی ہی نہ ہو
کہیں غرور کا پردہ نہ ہو یہ کم سخنی
یہ عجز اصل میں احساسِ برتری ہی نہ ہو
مرے سپرد کیا اُس نے فیصلہ اپنا
یہ اختیار کہیں میری بے بسی ہی نہ ہو
عرفان ستار

جیسے دکھائی دے کوئی صورت، مگر نہ ہو

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 24
اس طرح دیکھتا ہوں اُدھر وہ جدھر نہ ہو
جیسے دکھائی دے کوئی صورت، مگر نہ ہو
یہ شہرِ نا شناس ہے کیا اس کا اعتبار
اچھا رہے گا وہ جو یہاں معتبر نہ ہو
ایسے قدم قدم وہ سراپا غرور ہے
جیسے خرامِ ناز سے آگے سفر نہ ہو
میں آج ہوں سو مجھ کو سماعت بھی چاہیے
ممکن ہے یہ سخن کبھی بارِ دگر نہ ہو
ہونے دو آج شاخِ تمنا کو بارور
ممکن ہے کل صبا کا یہاں سے گزر نہ ہو
میں بھی دکھائوں شوق کی جولانیاں تجھے
یہ مشتِ خاک راہ میں حائل اگر نہ ہو
اک یہ فریب دیکھنا باقی ہے وقت کا
دل ڈوب جائے اور دوبارہ سحر نہ ہو
یہ کیا کہ ہم رکاب رہے خوفِ رہ گزر
کس کام کا جنوں جو قدم دشت بھر نہ ہو
عرفان ستار

ابھی فرہاد و قیس آئے تھے کہنے مرحبا مجھ کو

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 23
جنوں کے دم سے آخر مرتبہ کیسا ملا مجھ کو
ابھی فرہاد و قیس آئے تھے کہنے مرحبا مجھ کو
کسی صورت بھی رد ہوتا نہیں یہ فیصلہ دل کا
نظر آتا نہیں کوئی بھی تجھ سا دوسرا مجھ کو
سرِ کنجِ تمنا پھر خوشی سے گنگنائوں گا
اگر وہ لوٹ کر آئے تو پھر تم دیکھنا مجھ کو
نہ جانے رشک سے، غصے سے، غم سے یا رقابت سے
یہ کس انداز سے تکتا ہے تیرا آئنہ مجھ کو
کھلے تو سب زمانوں کے خزانے ہاتھ آ جائیں
درِ اقلیمِ صد عالم ہے وہ بندِ قبا مجھ کو
گماں میں بھی گماں لگتی ہے اب تو زندگی میری
نظر آتا ہے اب وہ خواب میں بھی خواب سا مجھ کو
کثافت بار پا سکتی نہیں ایسی لطافت میں
کرم اُس کا کہ بخشا دل کے بدلے آئنہ مجھ کو
صبا میری قدم بوسی سے پہلے گُل نہ دیکھے گی
اگر وحشت نے کچھ دن باغ میں رہنے دیا مجھ کو
نہ نکلی آج گر کوئی یہاں یکجائی کی صورت
تو کل سے ڈھونڈتے پھرنا جہاں میں جا بہ جا مجھ کو
گزر گاہِ نفس میں ہوں مثالِ برگِ آوارہ
کوئی دم میں اڑا لے جائے گی بادِ فنا مجھ کو
وہ دل آویز آنکھیں، وہ لب و رخسار، وہ زلفیں
نہیں اب دیکھنا کچھ بھی نہیں اس کے سوا مجھ کو
ازل سے تا ابد، دنیا سے لے کر آسمانوں تک
نظر آتا ہے تیری ہی نظر کا سلسلہ مجھ کو
مرے ہونے سے ہی کچھ اعتبار اس کا بھی قائم ہے
جنوں تم سے نمٹ لے گا جو دیوانہ کہا مجھ کو
کوئی عرفانؔ مجھ میں سے مجھے آواز دیتا ہے
ارے تُو سوچتا کیا ہے کبھی کچھ تو بتا مجھ کو
عرفان ستار

کوئی تازہ غزل، پھر کسی نے کہا، پھر کسی کے لیے ایک تازہ غزل

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 22
کوئی نغمہ بُنو، چاندنی نے کہا، چاندنی کے لیے ایک تازہ غزل
کوئی تازہ غزل، پھر کسی نے کہا، پھر کسی کے لیے ایک تازہ غزل
زخمِ فرقت کو پلکوں سے سیتے ہوئے، سانس لینے کی عادت میں جیتے ہوئے
اب بھی زندہ ہو تم، زندگی نے کہا، زندگی کے لیے ایک تازہ غزل
اُس کی خواہش پہ تم کو بھروسہ بھی ہے، اُس کے ہونے نہ ہونے کا جھگڑا بھی ہے
لطف آیا تمہیں، گمرہی نے کہا، گمرہی کے لیے ایک تازہ غزل
ایسی دنیا میں کب تک گزارا کریں، تم ہی کہہ دو کہ کیسے گوارا کریں
رات مجھ سے مری بے بسی نے کہا، بے بسی کے لیے ایک تازہ غزل
منظروں سے بہلنا ضروری نہیں گھر سے باہر نکلنا ضروری نہیں
دل کو روشن کرو، روشنی نے کہا، روشنی کے لیے ایک تازہ غزل
میں عبادت بھی ہوں، میں محبت بھی ہوں، زندگی کی، نمو کی علامت بھی ہوں
میری پلکوں پہ ٹھہری نمی نے کہا، اس نمی کے لیے ایک تازہ غزل
آرزوئوں کی مالا پرونے سے ہیں، یہ زمیں آسماں میرے ہونے سے ہیں
مجھ پہ بھی کچھ کہو، آدمی نے کہا، آدمی کے لیے ایک تازہ غزل
اپنی تنہائی میں رات میں تھا مگن، ایک آہٹ ہوئی دھیان میں دفعتاً
مجھ سے باتیں کرو، خامشی نے کہا، خامشی کے لیے ایک تازہ غزل
جب رفاقت کا ساماں بہم کر لیا، میں نے آخر اسے ہم قدم کر لیا
اب مرے دکھ سہو، ہمرہی نے کہا، ہمرہی کے لیے ایک تازہ غزل
عرفان ستار

تیرے پہلو میں رہا میں اور رہا بھی دم بخود

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 21
دم بخود میری انا تیری ادا بھی دم بخود
تیرے پہلو میں رہا میں اور رہا بھی دم بخود
دیکھئے پہلے لہو ٹپکے کہ پھیلیں کرچیاں
دم بخود تیری نظر بھی آئنہ بھی دم بخود
اتنا سنّاٹا ہے کہ جیسے اوّلیں شامِ فراق
دم بخود ہے آسماں بھی اور ہَوا بھی دم بخود
یاد ہے تجھ کو وہ پہلے لمس کی حدّت کہ جب
رہ گئی تھی دفعتاً تیری حیا بھی دم بخود
ایک سے عالم میں دونوں مختلف اسباب سے
دم بخود تیرا کرم میری دعا بھی دم بخود
ایسا لگتا ہے کہ دونوں سے نہیں نسبت مجھے
دم بخود عمرِ رواں سیلِ فنا بھی دم بخود
رقص کرنے پر تُلی ہیں ہجر کی ویرانیاں
دم بخود سارے دیئے بھی غم کدہ بھی دم بخود
جب کھلے میری حقیقت تم وہ منظر دیکھنا
دم بخود نا آشنا بھی آشنا بھی دم بخود
عرفان ستار

تُو کہیں کھو گیا اور پہلو میں تیری شباہت لیے اک بدن رہ گیا

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 20
اب ترے لمس کو یاد کرنے کا اک سلسلہ اور دیوانہ پن رہ گیا
تُو کہیں کھو گیا اور پہلو میں تیری شباہت لیے اک بدن رہ گیا
وہ سراپا ترا وہ ترے خال و خد میری یادوں میں سب منتشر ہو گئے
لفظ کی جستجو میں لرزتا ہوا نیم وا غنچہ سا اک دہن رہ گیا
حرف کے حرف سے کیا تضادات ہیں تُو نے بھی کچھ کہا میں نے بھی کچھ کہا
تیرے پہلو میں دنیا سمٹتی گئی میرے حصے میں حرفِ سخن رہ گیا
تیرے جانے سے مجھ پر یہ عقدہ کھلا رنگ و خوشبو تو بس تیری میراث تھے
ایک حسرت سجی رہ گئی گُل بہ گُل ایک ماتم چمن در چمن رہ گیا
ایک بے نام خواہش کی پاداش میں تیری پلکیں بھی باہم پرو دی گئیں
ایک وحشت کو سیراب کرتے ہوئے میں بھی آنکھوں میں لے کر تھکن رہ گیا
عرصۂ خواب سے وقتِ موجود کے راستے میں گنوا دی گئی گفتگو
ایک اصرار کی بے بسی رہ گئی ایک انکار کا بانکپن رہ گیا
تُو ستاروں کو اپنے جلو میں لیے جا رہا تھا تجھے کیا خبر کیا ہوا
اک تمنا دریچے میں بیٹھی رہی ایک بستر کہیں بے شکن رہ گیا
عرفان ستار

میں جو اک شعلہ نژاد تھا ہوسِ قرار میں بجھ گیا

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 19
وہ چراغِ جاں کہ چراغ تھا کہیں رہ گزار میں بجھ گیا
میں جو اک شعلہ نژاد تھا ہوسِ قرار میں بجھ گیا
مجھے کیا خبر تھی تری جبیں کی وہ روشنی مرے دم سے تھی
میں عجیب سادہ مزاج تھا ترے اعتبار میں بجھ گیا
مجھے رنج ہے کہ میں موسموں کی توقعات سے کم رہا
مری لَو کو جس میں اماں ملی میں اُسی بہار میں بجھ گیا
وہ جو لمس میری طلب رہا وہ جھلس گیا مری کھوج میں
سو میں اُس کی تاب نہ لا سکا کفِ داغ دار میں بجھ گیا
جنہیں روشنی کا لحاظ تھا جنہیں اپنے خواب پہ ناز تھا
میں اُنہی کی صف میں جلا کِیا میں اُسی قطار میں بجھ گیا
عرفان ستار

اک آئینہ تھا، اُسی کو سیاہ میں نے کیا

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 18
بزعمِ عقل یہ کیسا گناہ میں نے کیا
اک آئینہ تھا، اُسی کو سیاہ میں نے کیا
یہ شہرِ کم نظراں، یہ دیارِ بے ہنراں
کسے یہ اپنے ہنر کا گواہ میں نے کیا
حریمِ دل کو جلانے لگا تھا ایک خیال
سو گُل اُسے بھی بیک سرد آہ میں نے کیا
وہی یقین رہا ہے جوازِ ہم سفری
جو گاہ اُس نے کیا اور گاہ میں نے کیا
بس ایک دل ہی تو ہے واقفِ رموزِ حیات
سو شہرِ جاں کا اِسے سربراہ میں نے کیا
ہر ایک رنج اُسی باب میں کیا ہے رقم
ذرا سا غم تھا جسے بے پناہ میں نے کیا
یہ راہِ عشق بہت سہل ہو گئ جب سے
حصارِ ذات کو پیوندِ راہ میں نے کیا
یہ عمر کی ہے بسر کچھ عجب توازن سے
ترا ہُوا، نہ ہی خود سے نباہ میں نے کیا
خرد نے دل سے کہا، تُو جنوں صفت ہی سہی
نہ پوچھ اُس کی کہ جس کو تباہ میں نے کیا
عرفان ستار

یہ اہتمامِ ملاقات گاہ گاہ بھی کیا

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 17
اگر ہے شرط بچھڑنا تو رسم و راہ بھی کیا
یہ اہتمامِ ملاقات گاہ گاہ بھی کیا
نہ ہو جو ذوقِ تماشا یہاں تو کچھ بھی نہیں
نظر کی بزم بھی کیا دل کی خانقاہ بھی کیا
بہت سکون ہے بیداریوں کے نرغے میں
تو مجھ کو چھوڑ گئی خواب کی سپاہ بھی کیا
سب اپنے اپنے طریقے ہیں خود نمائی کے
قبائے عجز بھی کیا فخر کی کلاہ بھی کیا
یہ راہِ شوق ہے اس پر قدم یقین سے رکھ
گماں کے باب میں اس درجہ اشتباہ بھی کیا
نہیں ہے کوئی بھی صورت سپردگی کے سوا
ہوس کی قید بھی کیا عشق کی پناہ بھی کیا
مجھے تمہاری تمہیں میری ہم نشینی کی
بس ایک طرح کی عادت سی ہے، نباہ بھی کیا
کوئی ٹھہر کے نہ دیکھے میں وہ تماشا ہوں
بس اک نگاہ رُکی تھی، سو وہ نگاہ بھی کیا
عرفان ستار

کل تو اک احساس نے میرے سامنے آ کر رقص کیا

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 16
تیری یاد کی خوشبو نے بانہیں پھیلا کر رقص کیا
کل تو اک احساس نے میرے سامنے آ کر رقص کیا
اپنی ویرانی کا سارا رنج بُھلا کر صحرا نے
میری دل جوئی کی خاطر خاک اڑا کر رقص کیا
پہلے میں نے خوابوں میں پھیلائی درد کی تاریکی
پھر اُس میں اک جھلمل روشن یاد سجا کر رقص کیا
دیواروں کے سائے آ کر میرے جلو میں ناچ اٹھے
میں نے اُس پُر ہول گلی میں جب بھی جا کر رقص کیا
اُس کی آنکھوں میں کل شب ایک تلاش مجسم تھی
میں نے بھی کیسے بازو لہرا لہرا کر رقص کیا
اُس کا عالم دیکھنے والا تھا جس دم اک ہُو گونجی
پہلے پہل تو اُس نے کچھ شرما شرما کر رقص کیا
رات گئے جب سناٹا سر گرم ہوا تنہائی میں
دل کی ویرانی نے دل سے باہر آ کر رقص کیا
دن بھر ضبط کا دامن تھامے رکھا خوش اسلوبی سے
رات کو تنہا ہوتے ہی کیا وجد میں آ کر رقص کیا
مجھ کو دیکھ کے ناچ اٹھی اک موج بھنور کے حلقے میں
نرم ہوا نے ساحل پر اک نقش بنا کر رقص کیا
بے خوابی کے سائے میں جب دو آنکھیں بے عکس ہوئیں
خاموشی نے وحشت کی تصویر اٹھا کر رقص کیا
کل عرفانؔ کا ذکر ہوا جب محفل میں تو دیکھو گے
یاروں نے ان مصرعوں کو دہرا دہرا کر رقص کیا
عرفان ستار

بچھڑ گئے تو پھر ترا خیال کیوں نہیں رہا

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 15
شکستِ خواب کا ہمیں ملال کیوں نہیں رہا
بچھڑ گئے تو پھر ترا خیال کیوں نہیں رہا
اگر یہ عشق ہے تو پھر وہ شدتیں کہاں گئیں
اگر یہ وصل ہے تو پھر محال کیوں نہیں رہا
وہ زلف زلف رات کیوں بکھر بکھر کے رہ گئی
وہ خواب خواب سلسلہ بحال کیوں نہیں رہا
وہ سایہ جو بجھا تو کیا بدن بھی ساتھ بجھ گیا
نظر کو تیرگی کا اب ملال کیوں نہیں رہا
وہ دور جس میں آگہی کے در کھلے تھے کیا ہوا
زوال تھا تو عمر بھر زوال کیوں نہیں رہا
کہیں سے نقش بجھ گئے کہیں سے رنگ اڑ گئے
یہ دل ترے خیال کو سنبھال کیوں نہیں رہا
عرفان ستار

اس آگہی سے میں تو کہیں کا نہیں رہا

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 14
دنیا سے دور ہو گیا، دیں کا نہیں رہا
اس آگہی سے میں تو کہیں کا نہیں رہا
رگ رگ میں موجزن ہے مرے خوں کے ساتھ ساتھ
اب رنج صرف قلبِ حزیں کا نہیں رہا
دیوار و در سے ایسے ٹپکتی ہے بے دلی
جیسے مکان اپنے مکیں کا نہیں رہا
تُو وہ مہک، جو اپنی فضا سے بچھڑ گئی
میں وہ شجر، جو اپنی زمیں کا نہیں رہا
سارا وجود محوِ عبادت ہے سر بہ سر
سجدہ مرا کبھی بھی جبیں کا نہیں رہا
پاسِ خرد میں چھوڑ دیا کوچہءِ جنوں
یعنی جہاں کا تھا میں، وہیں کا نہیں رہا
وہ گردبادِ وہم و گماں ہے کہ اب مجھے
خود اعتبار اپنے یقیں کا نہیں رہا
اب وہ جواز پوچھ رہا ہے گریز کا
گویا محل یہ صرف نہیں کا نہیں رہا
میرا خدا ازل سے ہے سینوں میں جاگزیں
وہ تو کبھی بھی عرشِ بریں کا نہیں رہا
ہر ذرۤہءِ زمیں کا دھڑکتا ہے اس میں غم
دل کو مرے ملال یہیں کا نہیں رہا
آخر کو یہ سنا تو بڑھا لی دکانِ دل
اب مول کوئی لعل و نگیں کا نہیں رہا
عرفان، اب تو گھر میں بھی باہر سا شور ہے
گوشہ کوئی بھی گوشہ نشیں کا نہیں رہا
عرفان ستار

اُس کا قلق ہے ایسا کہ میں سو نہیں رہا

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 13
اک خواب نیند کا تھا سبب، جو نہیں رہا
اُس کا قلق ہے ایسا کہ میں سو نہیں رہا
وہ ہو رہا ہے جو میں نہیں چاہتا کہ ہو
اور جو میں چاہتا ہوں وہی ہو نہیں رہا
نم دیدہ ہوں، کہ تیری خوشی پر ہوں خوش بہت
چل چھوڑ، تجھ سے کہہ جو دیا، رو نہیں رہا
یہ زخم جس کو وقت کا مرہم بھی کچھ نہیں
یہ داغ، سیلِ گریہ جسے دھو نہیں رہا
اب بھی ہے رنج، رنج بھی خاصا شدید ہے
وہ دل کو چیرتا ہوا غم گو نہیں رہا
آباد مجھ میں تیرے سِوا اور کون ہے؟
تجھ سے بچھڑ رہا ہوں تجھے کھو نہیں رہا
کیا بے حسی کا دور ہے لوگو۔ کہ اب خیال
اپنے سِوا کسی کا کسی کو نہیں رہا
عرفان ستار

کچھ بھی تمہارے غم کے علاوہ نہیں رہا

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 12
اب دردِ دل کا کوئی مداوا نہیں رہا
کچھ بھی تمہارے غم کے علاوہ نہیں رہا
وہ دن بھی تھے کہ میں بھی بہت خوش لباس تھا
اب کیا کہ جب وہ دیکھنے والا نہیں رہا
میری دعا ہے تجھ سے یہ دنیا وفا کرے
میرا تو تجربہ کوئی اچھا نہیں رہا
ماحول میرے گھر کا بدلتا رہا، سو اب
میرے مزاج کا تو ذرا سا نہیں رہا
کہتے نہ تھے ہمیشہ رہے گا نہ اتنا رنج
گزرے ہیں چند سال ہی، دیکھا، نہیں رہا
کیا سانحہ ہوا ہے یہ آنکھوں کو کیا خبر
منظر نہیں رہا، کہ اجالا نہیں رہا
کیوں دل جلائیں کرکے کسی سے بھی اب سخن
جب گفتگو کا کوئی سلیقہ نہیں رہا
میں چاہتا ہوں دل بھی حقیقت پسند ہو
سو کچھ دنوں سے میں اسے بہلا نہیں رہا
دھندلا سا ایک نقش ہے، جیسے کہ کچھ نہ ہو
موہوم سا خیال ہے، گویا نہیں رہا
ویسے تو اب بھی خوبیاں اُس میں ہیں ان گنت
جیسا مجھے پسند تھا، ویسا نہیں رہا
عرفان، دن پھریں گے ترے، یوں نہ رنج کر
کیا، میری بات کا بھی بھروسہ نہیں رہا؟
عرفان ستار

ہزار زخم سہے، اور دل بڑا رکھا

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 11
کبھی کسی سے نہ ہم نے کوئی گلہ رکھا
ہزار زخم سہے، اور دل بڑا رکھا
چراغ یوں تو سرِ طاقِ دل کئی تھے مگر
تمہاری لَو کو ہمیشہ ذرا جدا رکھا
خرد سے پوچھا، جنوں کا معاملہ کیا ہے؟
جنوں کے آگے خرد کا معاملہ رکھا
ہزار شکر ترا، اے مرے خدائے جنوں
کہ مجھ کو راہِ خرد سے گریزپا رکھا
خیال روح کے آرام سے ہٹایا نہیں
جو خاک تھا سو اُسے خاک میں ملا رکھا
چھپا ہُوا نہیں تجھ سے دلِ تباہ کا حال
یہ کم نہیں کہ ترے رنج کو بچا رکھا
وہ ایک زلف کہ لپٹی رہی رگِ جاں سے
وہ اک نظر کہ ہمیں جس نے مبتلا رکھا
بس ایک آن میں گزرا میں کس تغیّر سے
کسی نے سر پہ توجّہ سے ہاتھ کیا رکھا
سنائی اپنی کہانی بڑے قرینے سے
کہیں کہیں پہ فسانے میں واقعہ رکھا
سنا جو شور کہ وہ شیشہ گر کمال کا ہے
تو ہم لپک کے گئے اور قلب جا رکھا
میں جانتا تھا کہ دنیا جو ہے، وہ ہے ہی نہیں
سو خود کو خواہشِ دنیا سے ماورا رکھا
مرے جنوں نے کیے رد وجود اور عدم
الگ ہی طرح سے ہونے کا سلسلہ رکھا
خوشی سی کس نے ہمیشہ ملال میں رکھی؟
خوشی میں کس نے ہمیشہ ملال سا رکھا؟
یہ ٹھیک ہے کہ جو مجھ پاس تھا، وہ نذر کیا
مگر یہ دل کہ جو سینے میں رہ گیا رکھا؟
کبھی نہ ہونے دیا طاقِ غم کو بے رونق
چراغ ایک بجھا، اور دوسرا رکھا
نگاہ دار مرا تھا مرے سِوا نہ کوئی
سو اپنی ذات پہ پہرا بہت کڑا رکھا
تُو پاس تھا، تو رہے محو دیکھنے میں تجھے
وصال کو بھی ترے ہجر پر اٹھا رکھا
ترا جمال تو تجھ پر کبھی کھلے گا نہیں
ہمارے بعد بتا آئینے میں کیا رکھا؟
ہر ایک شب تھا یہی تیرے خوش گمان کا حال
دیا بجھایا نہیں اور در کھلا رکھا
ہمی پہ فاش کیے راز ہائے حرف و سخن
تو پھر ہمیں ہی تماشا سا کیوں بنا رکھا؟
ملا تھا ایک یہی دل ہمیں بھی آپ کو بھی
سو ہم نے عشق رکھا، آپ نے خدا رکھا
خزاں تھی، اور خزاں سی خزاں، خدا کی پناہ
ترا خیال تھا جس نے ہرا بھرا رکھا
جو ناگہاں کبھی اذنِ سفر ملا عرفان
تو فکر کیسی کہ سامان ہے بندھا رکھا
عرفان ستار

جاگا تو میں خود اپنے ہی سرہانے بیٹھا تھا

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 10
خواب میں کوئی مجھ کو آس دلانے بیٹھا تھا
جاگا تو میں خود اپنے ہی سرہانے بیٹھا تھا
یونہی رکا تھا دم لینے کو، تم نے کیا سمجھا؟
ہار نہیں مانی تھی بس سستانے بیٹھا تھا
خود بھی لہو لہان ہُوا دل، مجھے بھی زخم دیئے
میں بھی کیسے وحشی کو سمجھانے بیٹھا تھا
لاکھ جتن کرنے پر بھی کم ہُوا نہ دل کا بوجھ
کیسا بھاری پتھر میں سرکانے بیٹھا تھا
تارے کرنوں کی رتھ پر لائے تھے اُس کی یاد
چاند بھی خوابوں کا چندن مہکانے بیٹھا تھا
نئے برس کی خوشیوں میں مشغول تھے سب، اور میں
گئے برس کی چوٹوں کو سہلانے بیٹھا تھا
وہ تو کل جھنکار سے پرکھ لیا اُس گیانی نے
میں تو پیتل کے سکۤے چمکانے بیٹھا تھا
دشمن جتنے آئے ان کے خطا ہوئے سب تیر
لیکن اپنوں کا ہر تیر نشانے بیٹھا تھا
قصوں کو سچ ماننے والے، دیکھ لیا انجام؟
پاگل جھوٹ کی طاقت سے ٹکرانے بیٹھا تھا
مت پوچھو کتنی شدت سے یاد آئی تھی ماں
آج میں جب چٹنی سے روٹی کھانے بیٹھا تھا
اپنا قصور سمجھ نہیں آیا جتنا غور کیا
میں تو سچے دل سے ہی پچھتانے بیٹھا تھا
عین اُسی دم ختم ہوئی تھی مہلت جب عرفان
خود کو توڑ چکا تھا اور بنانے بیٹھا تھا
عرفان ستار

مگر جو کچھ نہیں، وہ سب یہاں باقی رہے گا

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 9
یہاں جو ہے کہاں اُس کا نشاں باقی رہے گا
مگر جو کچھ نہیں، وہ سب یہاں باقی رہے گا
سفر ہو گا سفر کی منزلیں معدوم ہوں گی
مکاں باقی نہ ہو گا لا مکاں باقی رہے گا
کبھی قریہ بہ قریہ اور کبھی عالم بہ عالم
غبارِ ہجرتِ بے خانماں باقی رہے گا
ہمارے ساتھ جب تک درد کی دھڑکن رہے گی
ترے پہلو میں ہونے کا گماں باقی رہے گا
بہت بے اعتباری سے گزر کر دل ملے ہیں
بہت دن تک تکلف درمیاں باقی رہے گا
رہے گا آسماں جب تک زمیں باقی رہے گی
زمیں قائم ہے جب تک آسماں باقی رہے گا
یہ دنیا حشر تک آباد رکھی جا سکے گی
یہاں ہم سا جو کوئی خوش بیاں باقی رہے گا
جنوں کو ایسی عمرِ جاوداں بخشی گئی ہے
قیامت تک گروہِ عاشقاں باقی رہے گا
تمدن کو بچا لینے کی مہلت اب کہاں ہے
سر گرداب کب تک بادباں باقی رہے گا
کنارہ تا کنارہ ہو کوئی یخ بستہ چادر
مگر تہہ میں کہیں آبِ رواں باقی رہے گا
ہمارا حوصلہ قائم ہے جب تک سائباں ہے
خدا جانے کہاں تک سائباں باقی رہے گا
تجھے معلوم ہے یا کچھ ہمیں اپنی خبر ہے
سو ہم مر جائیں گے تُو ہی یہاں باقی رہے گا
عرفان ستار

تم کہانی کے کس باب پر، اُس کے انجام سے کتنی دُوری پہ ہو اِس سے قطعِ نظر، دفعتاً یہ تمہارا بیاں ختم ہو جائے گا

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 8
زندگی کا سفر ایک دن، وقت کے شور سے، ایک پُرخواب ساعت کے بیدار ہوتے ہی بس یک بیک ناگہاں ختم ہو جائے گا
تم کہانی کے کس باب پر، اُس کے انجام سے کتنی دُوری پہ ہو اِس سے قطعِ نظر، دفعتاً یہ تمہارا بیاں ختم ہو جائے گا
بند ہوتے ہی آنکھوں کے سب، واہموں وسوسوں کے وجود و عدم کے کٹھن مسئلے، ہاتھ باندھے ہوئے، صف بہ صف روبرو آئیں گے
سارے پوشیدہ اسرار ہم اپنی آنکھوں سے دیکھیں گے، سب وہم مر جائیں گے، بد گماں بے یقینی کا سارا دھواں ختم ہو جائے گا
بے دماغوں کے اِس اہلِ کذب و ریا سے بھرے شہر میں، ہم سوالوں سے پُر، اور جوابوں سے خالی کٹورا لیے بے طلب ہو گئے
چند ہی روز باقی ہیں بس، جمع و تفریق کے اِن اصولوں کے تبدیل ہوتے ہی جب، یہ ہمارا مسلسل زیاں ختم ہو جائے گا
بادشاہوں کے قصوں میں یا راہبوں کے فقیروں کے احوال میں دیکھ لو، وقت سا بے غرض کوئی تھا، اور نہ ہے، اور نہ ہو گا کبھی
تم کہاں کس تگ و دو میں ہو وقت کو اِس سے کیا، یہ تو وہ ہے جہاں حکم آیا کہ اب ختم ہونا ہے، یہ بس وہاں ختم ہو جائے گا
کوئی حد بھی تو ہو ظلم کی، تم سمجھتے ہو شاید تمہیں زندگی یہ زمیں اِس لیے دی گئی ہے، کہ تم جیسے چاہو برت لو اِسے
تم یہ شاید نہیں جانتے، اِس زمیں کو تو عادت ہے دکھ جھیلنے کی مگر جلد ہی، یہ زمیں ہو نہ ہو، آسماں ختم ہو جائے گا
عرفان ستار

مٹی تھا، سو مٹی ہو کر رہ جاوں گا

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 7
یوں ہی اک دن خاموشی سے ڈھہ جاوں گا
مٹی تھا، سو مٹی ہو کر رہ جاوں گا
ایسی وحشت، ایسا غم، ایسی بے زاری
میں تو سمجھا تھا میں سب کچھ سہہ جاوں گا
اس امید پہ مرتا ہوں میں لمحہ لمحہ
شاید کوئی زندہ شعر ہی کہہ جاوں گا
یہ تکرار_ساعت کچھ دن کی ہے، پھر میں
وقت کنارے کے اس جانب بہہ جاوں گا
میں عرفان کی کھوج میں ہوں، ٹھہروں گا کب تک
تیرے پہلو میں کچھ دن تو رہ جاوں گا
عرفان ستار

اعلان کردیا گیا میری شکست کا

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 6
امکان دیکھنے کو رکا تھا میں جست کا
اعلان کردیا گیا میری شکست کا
سائے سے اپنے قد کا لگاتا ہے تُو حساب
اندازہ ہو گیا ہے ترے ذہنِ پست کا
تجھ کو بدن کی حد سے نکلنا کہاں نصیب
سمجھے گا کیسے روح کو آلودہ ہست کا
تُو ہے۔ کہ کل کی بات کا رکھتا نہیں ہے پاس
میں ہوں کہ پاسدار ہوں عہدِ الست کا
جس سے گروہِ بادہ فروشاں حسد کرے
طاری ہے مجھ پہ نشّہ اُسی چشمِ مست کا
جا شہرِ کم نگاہ میں شہرت سمیٹ لے
یہ کام ہے بھی تجھ سے ہی موقع پرست کا
شاہِ جنوں کا تخت بچھا ہے بہ اہتمام
پہلو میں انتظام ہے میری نشست کا
وسعت ملی ہے ضبط کو میرے بقدرِ درد
بولو کوئی جواب ہے اس بندوبست کا؟
عرفان تیری لاج بھی اللہ کے سپرد
ستّار ہے وہی تو ہر اک تنگ دست کا
عرفان ستار

درد ہے، درد بھی قیامت کا

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 5
پوچھتے کیا ہو دل کی حالت کا؟
درد ہے، درد بھی قیامت کا
یار، نشتر تو سب کے ہاتھ میں ہے
کوئی ماہر بھی ہے جراحت کا؟
اک نظر کیا اٹھی، کہ اس دل پر
آج تک بوجھ ہے مروّت کا
دل نے کیا سوچ کر کیا آخر
فیصلہ عقل کی حمایت کا
کوئی مجھ سے مکالمہ بھی کرے
میں بھی کردار ہوں حکایت کا
آپ سے نبھ نہیں رہی اِس کی؟
قتل کردیجیئے روایت کا
نہیں کُھلتا یہ رشتہِٗ باہم
گفتگو کا ہے یا وضاحت کا؟
تیری ہر بات مان لیتا ہوں
یہ بھی انداز ہے شکایت کا
دیر مت کیجیئے جناب، کہ وقت
اب زیادہ نہیں عیادت کا
بے سخن ساتھ کیا نباہتے ہم؟
شکریہ ہجر کی سہولت کا
کسرِ نفسی سے کام مت لیجے
بھائی یہ دور ہے رعونت کا
مسئلہ میری زندگی کا نہیں
مسئلہ ہے مری طبیعت کا
درد اشعار میں ڈھلا ہی نہیں
فائدہ کیا ہوا ریاضت کا؟
آپ مجھ کو معاف ہی رکھیئے
میں کھلاڑی نہیں سیاست کا
رات بھی دن کو سوچتے گزری
کیا بنا خواب کی رعایت کا؟
رشک جس پر سلیقہ مند کریں
دیکھ احوال میری وحشت کا
صبح سے شام تک دراز ہے اب
سلسلہ رنجِ بے نہایت کا
وہ نہیں قابلِ معافی، مگر
کیا کروں میں بھی اپنی عادت کا
اہلِ آسودگی کہاں جانیں
مرتبہ درد کی فضیلت کا
اُس کا دامن کہیں سے ہاتھ آئے
آنکھ پر بار ہے امانت کا
اک تماشا ہے دیکھنے والا
آئینے سے مری رقابت کا
دل میں ہر درد کی ہے گنجائش
میں بھی مالک ہوں کیسی دولت کا
ایک تو جبر اختیار کا ہے
اور اک جبر ہے مشیّت کا
پھیلتا جا رہا ہے ابرِ سیاہ
خود نمائی کی اِس نحوست کا
جز تری یاد کوئی کام نہیں
کام ویسے بھی تھا یہ فرصت کا
سانحہ زندگی کا سب سے شدید
واقعہ تھا بس ایک ساعت کا
ایک دھوکہ ہے زندگی عرفان
مت گماں اِس پہ کر حقیقت کا
عرفان ستار

کس قدر خستہ و خوں بستہ دروں ہے میرا

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 4
سب پہ ظاہر ہی کہاں حالِ زبوں ہے میرا
کس قدر خستہ و خوں بستہ دروں ہے میرا
میرے اشعار کو تقریظ و وضاحت سمجھو
ورنہ دراصل سخن کن فیکوں ہے میرا
یہ جو ٹھہراوٗ بظاہر ہے اذیّت ہے مری
جو تلاطم مرے اندر ہے سکوں ہے میرا
یہ جو صحراوٗں میں اڑتی ہے یہ ہے خاک مری
اور دریاوٗں میں بہتا ہے جو خوں ہے میرا
وہ جو اخفا میں ہے وہ اصل حقیقت ہے مری
یہ جو سب کو نظر آتا ہے، فسوں ہے میرا
بیچ میں کچھ بھی نہ ہو، یعنی بدن تک بھی نہیں
تجھ سے ملنے کا ارادہ ہے تو یوں ہے میرا
رازِ حق اس پہ بھی ظاہر ہے ازل سے عرفان
یعنی جبریل کا ہم عصر جنوں ہے میرا
عرفان ستار

کیا حال کہہ سکے گی، یہ چشمِ تر ہمارا

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 3
پیارے جدا ہوئے ہیں، چھوٹا ہے گھر ہمارا
کیا حال کہہ سکے گی، یہ چشمِ تر ہمارا
بس گاہ گاہ لے آ، خاکِ وطن کی خوشبو
اے بادِ صبح گاہی، یہ کام کر ہمارا
ہیں بزمِ عاشقاں میں، بے وقعتی کے موجب
سینے میں دم ہمارے، شانوں پہ سر ہمارا
ہم اور ہی جہاں کے، یعنی کہ لامکاں کے
ہے صرف اتفاقاً ، آنا اِدھر ہمارا
اتمامِ دل خراشی، اسلوبِ سینہ چاکی
اظہارِ کرب ناکی، بس یہ ہنر ہمارا
اک سعئِ بے مسافت، بے رنگ و بے لطافت
مت پوچھیئے کہ کیسے، گزرا سفر ہمارا
پہلے سے اور ابتر، گویا جنوں سراسر
بس یہ بتاوٗ پوچھے، کوئی اگر ہمارا
دم سادھنے سے پہلے، چپ سادھ لی گئی ہے
اظہار ہو چکا ہے، امکان بھر ہمارا
ایسے نہ آس توڑو، سب کچھ خدا پہ چھوڑو
اس مشورے سے پہلے، سمجھو تو ڈر ہمارا
عرفان ستار

یا کسی دن مری فرصت کو میسّر ہو جا

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 2
یا ملاقات کے امکان سے باہر ہو جا
یا کسی دن مری فرصت کو میسّر ہو جا
تجھ کو معلوم نہیں ہے مری خواہش کیا ہے
مجھ پہ احسان نہ کر اور سبک سر ہو جا
ارتقا کیا تری قسمت میں نہیں لکھا ہے؟
اب تمنّا سے گزر میرا مقدّر ہو جا
بے حسی گر تری فطرت ہے تو ایسا کبھی کر
اپنے حق میں بھی کسی روز تُو پتھر ہو جا
اس سے پہلے تو غزل بھی تھی گریزاں مجھ سے
حالتِ دل تُو ذرا اور بھی ابتر ہو جا
میں جہاں پائوں رکھوں واں سے بگولا اُٹھّے
ریگِ صحرا مری وحشت کے برابر ہو جا
اے مرے حرفِ سخن تُو مجھے حیراں کر دے
تُو کسی دن مری امید سے بڑھ کر ہو جا
عرفان ستار

فرد فرد

تعلق کو نبھانے کے بہت دُکھ سہہ چکے ہم
سو باقی عمر اپنے ساتھ رہنا چاہتے ہیں
ایک ملال تو ہونے کا ہے، ایک نہ ہونے کا غم ہے
شہرِ وجود سے بابِ عدم تک، ایک سا ہُو کا عالم ہے
تحیر خیز موجیں ہیں نہ پُر ہیبت تلاطم
عجب اک بے تغیر بے کرانی رہ گئی ہے
تکمیل تو زوال کا پہلا پڑائو ہے
خود کو اسی سبب سے مکمل نہیں کیا
بے رنگ ترے در سے کب، خاک بسر اٹھے
یا پیراہنِ گُل میں، یا خون میں تر اٹھے
چلے آئے ہیں آنکھوں میں کسی کا عکس پا کر
یہ آنسو آج پھر کوئی تماشا چاہتے ہیں
جس دن سے روزگار کو سب کچھ سمجھ لیا
راتیں خراب ہو گئیں اور دن سنور گئے
کچھ آنکھ بھی ہے سطح سے آگے کی کھوج میں
کچھ دل بھی اک خیال میں ڈوبا ہوا سا ہے
بے رونقی سے کوچہ و بازار بھر گئے
آوارگانِ شہر کہاں جا کے مر گئے
ہمیں بھی سودا کہاں تھا ایسا کہ اپنے دل میں ملا ل رکھتے
اگر تُو اپنا خیال رکھتا تو ہم بھی اپنا خیال رکھتے
بہارِ جاں سے تجھے باریاب کر دیں گے
نظر اٹھائیں گے چہرہ گلاب کر دیں گے
خیالِ ترکِ تعلق جو ہو، تو مل لینا
کسی دعا کو ترا ہم رکاب کر دیں گے
اک عکس کھو گیا ہے مرے دن کے پیچ میں
اک خواب میری رات سے الجھا ہوا ساہے
قدم جما نہ سکا رہگزارِ وقت پہ میں
میں اک اُچٹتا سا لمحہ، مری کہانی کیا
زندگی ہم سے ہی روشن ہے یہ آئینہ ترا
ہم جو مشّاطۂ وحشت کے سنوارے ہوئے ہیں
بڑھ کے آغوش میں بھر لے ہمیں اے روحِ وصال
آج ہم پیرہنِ خاک اتارے ہوئے ہیں
متفرق اشعار
عرفان ستار

چہرے پہ خاک ،زخم پہ خوشبو بکھیریے

پروین شاکر ۔ غزل نمبر 126
عکسِ شکستِ خواب بہر سُو بکھیریے
چہرے پہ خاک ،زخم پہ خوشبو بکھیریے
کوئی گزرتی رات کے پچھلے پہر کہے
لمحوں کو قید کیجئے ، گیسو بکھیریے
دھیمے سُروں میں کوئی مدھر گیت چھیڑیے
ٹھہری ہُوئی ہَواؤں میں جادُو بکھیریے
گہری حقیقتیں بھی اُترتی رہیں گی پھر
خوابوں کی چاندنی تو لبِ جُو بکھیریے
دامانِ شب کے نام کوئی روشنی تو ہو
تارے نہیں نسصیب تو آنسو بکھیریے
دشتِ غزال سے کوئی خوبی تو مانگیے
شہرِ جمال میں رمِ آہو بکھیریے
پروین شاکر

چاند کے ہمراہ ہم ہر شب سفر کرتے رہے

پروین شاکر ۔ غزل نمبر 125
جستجو کھوئے ہُوؤں کی عُمر بھر کرتے رہے
چاند کے ہمراہ ہم ہر شب سفر کرتے رہے
راستوں کا علم تھا ہم کو نہ سمتوں کی خبر
شِہر نامعلوم کی چاہت مگر کرتے رہے
ہم نے خود سے بھی چھپایا اور سارے شہر کو
تیرے جانے کی خبر دیوار و دَر کرتے رہے
وہ نہ آئے گا ہمیں معلوم تھا،اس شام بھی
انتظار اس کا مگر کچھ سوچ کر،کرتے رہے
آج آیا ہے ہمیں بھی اُن اُڑانوں کا خیال
جن کو تیرے زعم میں ، بے بال و پر کرتے رہے
پروین شاکر

قسمت میں میری، صلہ نہیں ہے

پروین شاکر ۔ غزل نمبر 124
تجھ سے تو کوئی گلہ نہیں ہے
قسمت میں میری، صلہ نہیں ہے
بچھڑے تو حال نجانے کیا ہو
جو شخص ابھی ملا نہیں ہے
جینے کی تو آرزو ہی کب تھی
مرنے کا بھی حوصلہ نہیں ہے
جو زیست کو معتبر بنا دے
ایسا کوئی سلسلہ نہیں ہے
خوشبو کا حساب ہو چکا ہے
اور پھول ابھی کھلا نہیں ہے
سرشاری رہبری میں دیکھا
پیچھے میرا قافلہ نہیں ہے
اک ٹھیس پہ دل کا پھوٹ بہنا
چھونے میں تو آبلہ نہیں ہے !
پروین شاکر

تری جُدائی کا منظر ابھی نگاہ میں ہے

پروین شاکر ۔ غزل نمبر 123
دُعا کا ٹوٹا ہُوا حرف، سرد آہ میں ہے
تری جُدائی کا منظر ابھی نگاہ میں ہے
ترے بدلنے کے با وصف تجھ کو چاہا ہے
یہ اعتراف بھی شامل مرے گناہ میں ہے
اب دے گا تو پھر مجھ کو خواب بھی دے گا
میں مطمئن ہوں ،مرا دل تری پناہ میں ہے
بکھر چُکا ہے مگر مُسکراکے ملتا ہے
وہ رکھ رکھاؤ ابھی میرے کج کلاہ میں ہے
جسے بہار کے مہمان خالی چھوڑ گئے
وہ اِک مکا ن ابھی تک مکیں کی چاہ میں ہے
یہی وہ دن تھے جب اِ ک دوسرے کو پایا تھا
ہماری سالگرہ ٹھیک اب کے ماہ میں ہے
میں بچ بھی جاؤں تو تنہائی مار ڈالے گی
مرے قبیلے کا ہر فرد قتل گاہ میں ہے!
پروین شاکر