دیوان سوم غزل 1246
آنکھیں جو ہوں تو عین ہے مقصود ہر جگہ
بالذات ہے جہاں میں وہ موجود ہر جگہ
واقف ہو شان بندگی سے قیدقبلہ کیا
سر ہر کہیں جھکا کہ ہے مسجود ہر جگہ
مو تن پہ ہم نہ سوختہ جانوں کے ہیں نمود
ہے سوزش دروں سے بروں دود ہر جگہ
دلی کے لکھنؤ کے خوش اندام خوب لیک
راہ وفا و مہر ہے مسدود ہر جگہ
پھرتی ہے اپنے ساتھ لگی متصل فنا
آب رواں سے ہم ہوئے نابود ہر جگہ
شہرہ رکھے ہے تیری خریت جہاں میں شیخ
مجلس ہو یا کہ دشت اچھل کود ہر جگہ
سوداے عاشقی میں تو جی کا زیان ہے
پھرتے ہیں میر ڈھونڈتے ہی سود ہر جگہ
میر تقی میر