ٹیگ کے محفوظات: قباؤں

بجلی کے ہیں چراغ، ہواؤں کا خوف ختم

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 217
اب آسماں نژاد بلاؤں کا خوف ختم
بجلی کے ہیں چراغ، ہواؤں کا خوف ختم
تلووں تلے لگا لیے سیارے وقت نے
ہر لمحہ سوچتے ہوئے پاؤں کا خوف ختم
بادل بڑے گرجتے ہیں باراں بکف مگر
سینہ نہیں دھڑکتا، خداؤں کا خوف ختم
اک چشمہء شعور پہ اپنی رگوں کے بیچ
ہم شیر مار آئے ہیں ، گاؤں کا خوف ختم
سورج تراش لائے ہیں صحنِ علوم سے
سہمی ہوئی سیاہ فضاؤں کا خوف ختم
ہم نے طلسم توڑ لیا ہے نصیب کا
جادو نگر کی زرد دعاؤں کا خوف ختم
اب شرم سار ہوتی نہیں ہے سنہری دھوپ
پلکوں پہ سرسراتی گھٹاؤں کا خوف ختم
میلوں تلک زمیں میں آنکھیں اتر گئیں
اندھے کنووں میں لٹکی سزاؤں کا خوف ختم
کوہ ندا کے کھل گئے اسرار آنکھ پر
آسیبِ آسماں کی صداؤں کا خوف ختم
اپنالی اپنے عہد نے تہذیب جین کی
اکڑی ہوئی قدیم قباؤں کا خوف ختم
ہم رقص کائنات ہے منصور ذات سے
اندر کے بے کنار خلاؤں کا خوف ختم
منصور آفاق