ٹیگ کے محفوظات: شکیب جلالی جواں فکر اور جواں مرگ شاعر از پروفیسر وارث کرمانی

شکیب جلالی جواں فکر اور جواں مرگ شاعر از پروفیسر وارث کرمانی

شکیب جلالی کے اشعار چالیس ‘ پینتالیس سال پہلے مجھے خلیل الرحمن اعظمی نے غزل کے نئے لہجے کی مثال میں سنائے تھے اور میں نے اپنے کسی نوٹ یا تبصرے میں ضمناً لکھے بھی تھے۔ پھر شکیبؔ میرے حافظے کی گہرائیوں میں کہیں کھو گئے کیوں کہ میرا تعلق یونی ورسٹی میں شعبہ ٔ اردو سے نہ تھا لیکن اتنا یاد رہ گیا کہ ان کے تمام ساتھیوں میں کسی کے شعر اتنے جاندار اور چونکا نے والے نہیں تھے۔ افسوس ہے وہ جلد دنیا سے رخصت ہو گئے اور اردو غزل اپنے ایک ہرے بھرے درخت سے محروم ہو گئی۔ مرزا غالب نے تو اپنے نہ ہونے پہ خدا بن جانے کا دعواکیا تھا :

ڈبویا مجھ کو ہونے نے، نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا

لیکن شکیب جلالی نہ ہونے پر سخت خسارے میں رہے اور آج ہونے پر نئی غزل کے خدا اگر نہیں تو نا خدا ضرور ہو چکے ہوتے مجھے ان کی نوعمری کا ایک شعر یاد آرہا ہے :

وقت کی ڈور خدا جانے کہاں پر ٹوٹے

کس گھڑی سر پہ یہ لٹکی ہوئی تلوار گرے

اب جو اُن کا مجموعہ کلام مجھے دیا گیا اور اس میں اسی شعر کی غزل پر میری نظر پڑی تو حیرت ہوئی کہ اب تقریباً نصف صدی گزرنے کے بعد بھی اردو غزل شکیب جلالی کی منزل سے آگے نہیں بڑھ سکی ہے۔ میں اس پرانی غزل کے چند اور شعر اپنی بات کے ثبوت میں پیش کر رہا ہوں ذرا اس شعر پر اہل نظر غور فرمائیں :

مجھے گرنا ہے تو میں اپنے ہی قدموں میں گروں

جس طرح سایہِ دیوار پہ دیوار گرے

شاعری کے ‘ بالخصوص غزل کے لیے خیال اور انداز بیاں کی فوقیت اور برتری کے لیے ہمیشہ بحث رہی ہے لیکن جدید تر نظریہ‘ خیال کے بجائے ادائے خیال یا زباں و الفاظ کے حق میں ہو گیا ہے جس کی طرف اٹھارویں صدی کے معروف انگریز نقاد غالباً پوپ یا ڈرائیڈن نے اشارہ کیا تھا

"What oft was thought but never so well expressed”

خیر یہ بحث بہت طویل ہے جس میں اخلاقیات و جمالیات وغیرہ سب آجاتے ہیں مندرجہ بالا شعر میں دونوں شعری عناصر اپنے بامِ عروج پر نظر آتے ہیں بقول نذیری نیشا پوری:

ز فرق بہرِ قدم ہر کجا کہ می نگرم

کرشمہ دامن دل می کشد کہ جا ایں جاست

خودداری اور عزت نفس کے لیے ایسی شدت اور اتنی ایثار و سربلندی کا اظہار ایسی ہی بے ساختہ و سادا زبان اور بالکل انوکھی تشبیہ کے ساتھ نئی غزل کے ہراول دستے میں کسی تیز رفتار شاعر کے یہاں بھی مشکل سے ملے گا۔ نئی غزل تو کیا کلاسیکی غزل میں میر‘ غالب اور داغ کے یہاں تو اس تازگیِ فکر کا سوال ہی نہیں وہاں تو آنسوؤں کے سیلاب سے دیواریں گرا کرتی تھیں :

سیلابِ گریہ در پِے دیوار و در ہے آج

بلکہ دیوار اور سایہِ دیوار پر بھی سیکڑوں کی تعداد میں بہت اچھے شعر مل جائیں گے لیکن اس استعارے کو اتنے ترفّع اور اعلیٰ ظرفی کے ساتھ کسی شاعر نے ابھی تک استعمال نہیں کیا ہے۔ میں عمداً اسی ایک غز ل کے شعروں پر اکتفا کر رہا ہوں پورے دیوان سے درجنوں اچھے شعر معمولی شاعروں کے ہاں بھی مل جاتے ہیں۔ پھر یہ غزل شکیبؔ کے ابتدائی دور کی ہے جس کے بعد بقول احمد ندیم قاسمی صاحب ’’انہوں نے مزید پیش رفت کی تھی‘ ‘۔ ندیم صاحب نے اپنے پیش لفظ میں یکم جولائی ۱۹۷۲ کی تاریخ ڈالی ہے جو شکیبؔ کے انتقال کے بعد کی ہے اور زیر تبصرہ غزل کے شعر میں نے ۱۹۶۰ کے اطراف میں سنے تھے چنانچہ اس کے بعد شکیبؔ کی غزل نے کیا کچھ نہ ترقی کی ہو گی۔ اختصار کے خیال سے میں زیادہ نہیں لکھ رہا ہوں :

ہاتھ آیا نہیں کچھ رات کی دلدل کے سوا

ہائے کس موڑ پہ خوابوں کے پرستار گرے

اس شعر کے ’’ہاتھ آیا نہیں کچھ ‘ ‘ سے مولانا حسرت موہانی کا ایک مطلع یاد آگیا ہے:

کچھ بھی حاصل نہ ہوا زہد میں نخوت کے سوا

شغل بیکار ہیں سب ان کی محبت کے سوا

مولانا کا شمار ہمارے زمانے کے بہت بڑے غزل گو شاعروں میں ہوتا ہے رشید احمد صدیقی نے انھیں چار بادشاہان تغزل میں شامل کیا ہے موصوف اور شکیب جلالی میں زیادہ بعد زمانی بھی نہیں دونوں کی نوعمری ایک ہی زمانے کی ہے لیکن دونوں کے شعروں میں صدیوں کا فاصلہ معلوم ہوتا ہے مولانا نے پرانا مضمون دہرا یا ہے مجازی یا حقیقی عشق کے اعتبار سے سبھی شاعروں نے اس پر طبع آزمائی کی ہے یہ صدیوں کا فاصلہ شکیب جلالی ہی قائم کر سکتے تھے۔ میں نہیں کہہ سکتا کہ یہ شعر کہتے وقت شکیب جلالی کے ذہن میں کیا تصور تھا ممکن ہے بلکہ زیادہ امکان ترقی پسند تحریک کے زوال کی طرف اشارہ ہو کیوں کہ بربریت کے زمانے سے جاگیر داری اور سرمایہ داری کے اقتصادی نظام تک سبھی کے زوال پذیر ہونے کی بنا پر مارکسی سوشلزم کے شکست نا پذیر نظام پر سب بھروسا کیے ہوئے تھے اور اسے تمام سماجی بیماریوں کا حل سمجھا جاتا تھا۔ شکیبؔ کے زمانے میں یہ اعتقاد بھی جدید نظریات کی دلدل میں دھنسنے لگا تھا لیکن شاعر کا کمال یہ ہے کہ اس کے قلم نے اسے لامحدود کر دیا ہے اور زبان کا جادو :

ہائے کس موڑ پہ خوابوں کے پرستار گرے

ایسا جادو جس میں ہمدردی‘ رفاقت اور محبت کی طلب ایسے طنز کی شکل اختیار کر لیتی ہے جس کی کاٹ دل سے جگر تک اتر جائے۔ شعر اگر سچا اور اصیل ہو تو اس کی سادگی میں زمانے کروٹیں لیتے نظر آتے ہیں۔ دنیا کو سنوارنے اور آدمیت کو سدھارنے کی انفرادی اور اجتماعی کوششیں کیسے برباد ہوئی ہیں۔ کتنی آندھیاں اٹھیں اور خاکستر ہو گئیں۔ یہ تمام مناظر اور تمام تہذیبیں اس شعر میں سمائی ہوئی ہیں۔ احمدمشتاق نے بھی بڑا اچھا شعر کہا ہے :

ابھی بیٹھے رہیں اس شمع رو کی انجمن والے

ابھی آوازہِ دریا سے خاکستر نہیں آیا

شعر کی بلاغت تسلیم لیکن اس کی زبان ثقیل ہو گئی ہے اس کیمیاء گری یا

علامت گری کے بغیر بھی آسانی سے بہت اچھا شعر کہا جا سکتا تھا ’’آوازہِ دریاسے خاکستر ‘ ‘ کی رعب دار بندش نے شعر کو اس کی تاثیر اور تڑپ سے محروم کر دیا ہے اس تاثر سے جو کہ شکیبؔ کے شعر میں ہمیں محسوس ہوتی ہے۔ زباں کی بھی ایک منطق ہوتی ہے ایسا نہیں کہ آپ ہر بے جوڑ بندش تیار کرکے علامت نگاری کے پیچھے چھپ جائیں اور اپنے زمانے کی واہ واہ کو تحسین شعر سمجھ لیں Mobیا بھیڑ صرف جاہلوں میں نہیں ‘ پڑھے لکھے لوگوں میں بھی ہوتی ہے۔ یہ لوگ جن میں یونی ورسٹی کے اساتذہ تک شامل ہوتے ہیں ہر نئی شعری ایجاد پر باقاعدہ تنقیدی مضامین لکھنے لگتے ہیں۔ تھوڑے عرصے تک ایک طوفان بدتمیزی برپا رہتا ہے پھر سب اپنی موت مرجاتے ہیں۔ ہم تو جب ادبی تاریخ پر نظر ڈالتے ہیں تو وقت ایک بہت بڑا قبرستان معلوم ہوتا ہے۔ اٹھارویں صدی میں صائب کی تمثیل نگاری کا بڑا شور تھا شاعروں کے جتھے پر جتھے تمثیل نگاری پر جتے ہوئے تھے اس کے بعد یہی صورتحال ایہام گوئی کی ہو ئی۔ پرانے دوارین اور مخطوطے اٹھا کر دیکھیے سب کے قبرستان ملیں گے جن پر ادبی تحریکات کے کتبے لگے ہوئے ہیں۔ شعر کا عرفان رکھنے والے ثنائی و ریزہ کاری و علامت نگاری یا کسی وقتی فیشن سے مرعوب نہیں ہوتے ہم تو بقول جگر صرف اتنا جانتے ہیں ’’زبان جو بات کہے دل کو اعتبار آئے‘ ‘۔

شکیبؔ کے حوالے سے میں جس بات پر اصرار کر رہا ہوں وہ یہ ہے کہ وہ جدیدیت کے ابتدائی شاعروں میں تھے بلکہ انھیں جدید شاعروں کے معماروں میں سے شمار کرنا چاہیے شکیبؔ کے دوسرے ساتھی بوڑھے ہو چکے ہیں یا مر چکے ہیں۔ ہماری یونیورسٹی میں خلیل الرحمن اعظمی بھی ویسے ہی ابتدائی شاعروں میں تھے ان سب لوگوں کے یہاں واضح موڑ نظر آتا ہے جو حسرت‘ جگر‘ فانی اور اصغرو یگانہ وغیرہ سے کٹا ہوا تھا اور دوسری طرف سردار ‘ مخدوم ‘ جذبی ‘ فیض اور احمد ندیم قاسمی وغیرہ سے بھی یہ لوگ بیزار او رمنحرف تھے اور ان کی شاعری کے باوجود باغیانہ تصورات کے پرانے ہی ڈکشن اور طرز اظہار کے تابع مانتے تھے۔ مجھے ایسا لگتا ہے کہ شکیبؔ اور ان کے ساتھ کے جدید شاعر زیادہ توانا اور تازہ شعر کہتے تھے ‘ لیکن اب تقریباً نصف صدی گزرنے کے بعد جدید شاعری کی دوشیزگی تو ختم ہو گئی اور بڑھاپے کا سنگار زیادہ آگیا چنانچہ یہ علامت نگاری ابہام اور لفظوں کا توڑ مروڑسب اسی سمت اور زوال کی نشانیاں ہیں یہ تغیر صرف شاعری میں نہیں بلکہ دنیا کی ہر چیز میں ہمیشہ سے رہا ہے بقول اقبال:

شمشیر و سناں اوّل‘ طاؤس و رباب آخر

میں نے اپنے مافی الضمیر کو بیان کرنے کی وجہ سے ہی شکیب جلالی کے آگے پیچھے حسرت موہانی اور احمد مشتا ق کے دو شعر لکھ دیے ہیں تاکہ بات واضح ہو سکے۔ شکیب جلالی کی جو بھی شاعری ہمارے سامنے ہے اس کی مقدار ہی کیاہے لیکن اس مختصر سرمایے کی آب و تاب مرزا مظہر جان جاناں کے خریطہِ جواہر کی طرح معلوم ہوتی ہے۔ اس میں تو خیر بہت سے شاعروں کا انتخاب تھا یہاں صرف شکیب جلالی کے شعروں کی بات ہو رہی ہے جو کبھی مدھم اور کبھی تیز روشنی پھینک کر اہل ذوق کو اپنی طرف متوجہ کرتے ہیں مجھے پورا یقین ہے کہ اردو زبان شکیبؔ کے بہت سے شعروں کو اپنے سینے سے لگائے رکھے گی۔ (دسمبر 2003)

شکیب جلالی