ٹیگ کے محفوظات: سلے

بھُلا ہی دیں گے اگر دل میں کچھ گِلے ہوئے بھی

اب آ بھی جاؤ ، بہت دن ہوئے مِلے ہوئے بھی
بھُلا ہی دیں گے اگر دل میں کچھ گِلے ہوئے بھی
ہماری راہ الگ ہے، ہمارے خواب جُدا
ہم اُن کے ساتھ نہ ہوں گے، جو قافلے ہوئے بھی
ہجومِ شہرِ خرد میں بھی ہم سے اہلِ جنوں
الگ دِکھیں گے، گریباں جو ہوں سِلے ہوئے بھی
ہمیں نہ یاد دلاؤ ہمارے خوابِ سخن
کہ ایک عُمر ہوئے ہونٹ تک ہِلے ہوئے بھی
نظر کی، اور مناظر کی بات اپنی جگہ
ہمارے دل کے کہاں اب، جو سلسلے ہوئے بھی
یہاں ہے چاکِ قفس سے اُدھر اک اور قفس
سو ہم کو کیا، جو چمن میں ہوں گُل کھِلے ہوئے بھی
ہمیں تو اپنے اُصولوں کی جنگ جیتنی ہے
کسے غرض، جو کوئی فتح کے صِلے ہوئے بھی
عرفان ستار

اس کو ڈھونڈیں تو وہ ملے بھی کہاں

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 88
خود سے ہم اک نفس ہلے بھی کہاں
اس کو ڈھونڈیں تو وہ ملے بھی کہاں
غم نہ ہوتا جو کھل کے مرجھاتے
غم تو یہ ہے کہ ہم کھلے بھی کہاں
خوش ہو سینے کی ان خراشوں پر
پھر تنفس کے یہ صلے بھی کہاں
آگہی نے کیا ہو چاک جسے
وہ گریباں بھلا سلے بھی کہاں
اب تامل نہ کر دلِ خود کام
روٹھ لے ، پھر یہ سلسلے بھی کہاں
آو، آپس میں کچھ گلے کر لیں
ورنہ یوں ہے کہ پھر گلے بھی کہاں
جون ایلیا

سِل گئے ہونٹ ، کوئی زخم سِلے یا نہ سلے

فیض احمد فیض ۔ قطعہ
آگئی فصلِ سکُوں چاک گریباں والو
سِل گئے ہونٹ ، کوئی زخم سِلے یا نہ سلے
دوستوں بزم سجاؤ کہ بہار آئی ہے
کِھل گئے زخم ، کوئی پھول کِھلے یا نہ کھلے
فیض احمد فیض