ٹیگ کے محفوظات: بے

نزدیک ہے کہ کہیے اب ہائے ہائے اے دل

دیوان چہارم غزل 1427
دل تو گداز سب ہے کس کو کوئی کہے دل
نزدیک ہے کہ کہیے اب ہائے ہائے اے دل
اس عشق میں نکالے میں نے بھی نام کیا کیا
خانہ خراب و رسوا بے دین اور بے دل
جوں ابر رویئے کیا دل برق سا ہے بے کل
رکھے ہی رہیے اکثر ہاتھ اس پہ جو رہے دل
دل گوکہ داغ و خوں ہے رہتی ہے لاگ تجھ سے
انصاف کر کہ جا کر دکھلاویں پھر کسے دل
دل کے ثبات سے ہم نومید ہو رہے ہیں
اب وہ سماں ہے خوں ہو رخسار پر بہے دل
عاشق کہاں ہوئے ہم پانچوں حواس کھوئے
اس مخمصے میں ازبس حیراں ہے کیا کرے دل
جاتا ہے کیا کھنچا کچھ دیکھ اس کو ناز کرتا
آتا نہیں ہمیں خوش انداز بے تہ دل
ہم دردمند اپنا سوز دروں ہے بے حد
یارب ہمارے اوپر کس مرتبے جلے دل
اے میر اسے ہے نسبت کن حلقہ حلقہ مو سے
بیتاب کچھ ہے گاہے پرپیچ ہے گہے دل
میر تقی میر

کیسے وہ پھر رہی ہے جدا مجھ سے بے سبب

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 135
شاید وہ مانگتی ہے ملن کے نئے سبب
کیسے وہ پھر رہی ہے جدا مجھ سے بے سبب
کچھ اس کے کار ہائے نمایاں بھی کم نہیں
دل نے بھی کچھ بگاڑے ہیں بنتے ہوئے سبب
روشن ہے میرے صحن میں امید کا درخت
پچھلی گلی میں جلتے ہوئے بلب کے سبب
دیکھی کبھی نہیں تھیں یہ گلیاں بہار کی
جب چل پڑا تو راہ میں بنتے گئے سبب
کیا کیا نکالتی ہو بہانے لڑائی کے
آنسو کبھی سبب تو کبھی قہقہے سبب
منصور اتفاق سے ملتی ہیں منزلیں
بے رہروی کبھی تو کبھی راستے سبب
منصور آفاق