ٹیگ کے محفوظات: باصِر کاظمی کی غزل ۔ از پروفیسر مشکور حسین یاد

باصِر کاظمی کی غزل ۔ از پروفیسر مشکور حسین یاد

پروفیسر مشکور حسین یاد

باصِر کاظمی کی شاعری میں عوام کی روزمرّہ زندگی کے بارے میں زیادہ باتیں ہیں اور ایسی زبان اور ایسے انداز میں ہیں کہ جن کو آج کے ادب ناپسند عوام بھی سمجھ سکتے ہیں اور سمجھتے ہیں… ایسی آسان زبان جس میں معنی کی گہرائی اس انداز سے پیدا ہوئی ہو جس میں عام معمولی پڑھا لکھا آدمی بھی غوطہ لگا سکے۔یعنی جہاں زبان کی سادگی کو نظر انداز کر کے عام آدمی بھی مفہوم کی طرف متوجہ ہو جائے… خالصتہَ باصِر کے اسلوبِ کی مثال ملاحظہ کیجیے:

دل چھوٹی چھوٹی باتوں پہ جلتا ہے اِس لیے

ہوتے ہیں اصل بات سے ہم لوگ بے خبر

لوگ جب مِلتے ہیں کہتے ہیں کوئی بات کرو

جیسے رکھی ہوئی ہوتی ہو مِرے ہات پہ بات

کیا کیا وہ ہمیں سنا گیا ہے

رہ رہ کے خیال آ رہا ہے

اِک بات نہ کہہ کے آج کوئی

باتوں میں ہمیں ہرا گیا ہے

یہ ناصِر کاظمی کا اسلوب تو قطعی نہیں ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ باصِر اپنے اسلوبِ خاص سے ہٹتا بھی ہے تو کمال دکھاتا ہے یعنی عام آدمی کو بڑی حد تک اِس تجربہ میں شامل کرنے کی کوشش کرتا ہے:

کچھ دکھائی نہیں دیتا ترے سودائی کو

دل کے بجھتے ہی یہ کیا ہو گیا بینائی کو

مگر اس کے اسلوب میں معنی خیزی کا کمال بھی دیکھیے۔ بڑی عام سی بات ہے:

ہے جس کا انتظار وہ ممکن ہے آ ہی جائے

تھوڑی سی دیر کے لیے بارش رکی تو ہے

اب آپ اس شعر کے ایک لفظ بارش سے جتنے چاہے معانی نکال سکتے ہیں۔ لیکن باصِر جیسے جیسے آگے بڑھتا ہے یعنی دوسرے دور سے تیسرے میں داخل ہوتا ہے تو اپنے خاص اسلوب کی طرف زیادہ متوجہ نظر آتا ہے:

ہم کو اپنا شہر یاد آتا نہ شاید اِس قدر

کیا کریں رہتا ہے تیرے شہر کا موسم خراب

باصِرؔ تمہیں یہاں کا ابھی تجربہ نہیں

بیمار ہو پڑے رہو، مر بھی گئے تو کیا

بدنام ہے نادانی میں لیکن اِسی دل نے

میرے تو کئی بِگڑے ہوئے کام سنوارے

کہا ہم نے کہ ہو تم بے مروّت

کہا ہم بے مروّت ہی سہی، تو

باصِر عام طورپر شاعرانہ حربے استعمال نہیں کرتابلکہ کبھی کبھی تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے وہ جان بوجھ کر بڑے بڑے شاعروں کو اور بڑی بڑی قسم کی شاعری کو دور سے اپنا ٹھینگا دکھا رہا ہے اور اس طرح یہ ثابت کرنا چاہتا ہے کہ خالص شاعری میں حربے استعمال نہیں ہوا کرتے۔ یعنی خالص شاعری کو کسی طرح کے حربوں کی ضرورت نہیں البتہ بصیرت کی ضرورت ہوتی ہے…باصِر کے دو چار شعر اور سن لیجیے:

کتنا کام کریں گے

اب آرام کریں گے

ویسے تو وہ دوست ہیں سبھی کے

کام آتے ہیں پر کسی کسی کے

زخم تمہارے بھر جائیں گے تھوڑی دیر لگے گی

بے صبری سے کام لیا تو اور بھی دیر لگے گی

اللہ ایسے موقعے مجھے بار بار دے

جتنا ادھار ہے مرے سر سے اتار دے

پڑا ہے آج ہمیں ایک مطلبی سے کام

خدا کرے کہ اُسے ہم سے کام پڑ جائے

برا ہرگز نہیں اُس کا رویّہ

مگر کچھ حوصلہ افزا نہیں ہے

…اب ذرا باصِر کاظمی کاشعر زندگی کے تماشے کے بارے میں سنیے۔ کسی طمطراق اور طنطنے کے بغیر باصِر زندگی کو ایک عام آدمی کی طرح بھی دیکھتا ہے اوراُس کو اِس پر غور و فکر کے لیے بھی اکسا رہا ہے لیکن کسی شورو غوغا کے ساتھ نہیں:

دیکھتے ہی دیکھتے کیا ہو گئی ہے زندگی

ہاں مگر حیراں نہ ہو اے دل یہی ہے زندگی

موجِ خیال پڑھتے وقت مجھے بار بار قرآنِ پاک کی سورہ شعرا کی آخری آیات یاد آتی رہیں جن میں پہلی بات تو یہ کہی گئی ہے کہ شعراکی پیروی گمراہ لوگ کرتے ہیں کیونکہ شعرا اپنے اشعار میں جو چاہتے ہیں بلا ضرورت بیان کر دیتے ہیں اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ و ہ جو کہتے ہیں کرتے نہیں۔وہی بات کہ شعرا کی شاعری میں حقائق کا اظہار اس طرح نہیں ہوتاجس سے عام آدمی صحیح معنی میں مستفید ہو سکے۔ غالباَ باصِر کے لاشعور میں یا شعور میں یہ بات کچھ زیادہ ہی مضبوطی کے ساتھ جاگزیں ہے کہ وہ چاہتا ہے کہ ایسی شاعری کرے جس سے ہر آدمی مستفید ہو سکے… باصِر خواہ مخواہ کے وہم و گمان کی وادیوں میں بھٹکتا نہیں پھرتابلکہ اپنے بظاہر دھیمے لہجے میں ظلم و ستم کے خلاف آواز ہی بلند کرتا رہا ہے۔

( مطبوعہ ’علامت‘، مئی 1999ئ)

باصر کاظمی