ٹیگ کے محفوظات: اُچھالنے

سیاہ رات سے سورج نکالنے والا

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 17
مرا خدا مرے شیشے اُجالنے والا
سیاہ رات سے سورج نکالنے والا
مرا خدا مرے شیشے اُجالنے والا
شب کیسہ سے ہے ورج نکالنے والا
سنہری فصلوں کے بادل میں تجھ سے کیا مانگوں
کہ تو نہیں مرے بچوں کو پالنے والا
دھنک کی طرح کوئی چیز اس کے ہاتھ میں تھی
مرا بدن تو نہ تھا رنگ اُچھالنے والا
زمیں کا درد اُٹھانے کا ظرف تو دیتا
یہ بوجھ بھی مرے شانوں پہ ڈالنے والا
عرفان صدیقی

سیہ اُفق سے ہے سورج نکالنے والا

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 16
مرا خدا، مرے شیشے اُجالنے والا
سیہ اُفق سے ہے سورج نکالنے والا
سن اے ہرے بھرے موسم میں تجھ سے کیا مانگوں
کہ تو نہیں مرے بچوں کو پالنے والا
دھنک کی طرح بدن میں اُتر گئی کوئی چیز
میں اِس قدر تو نہ تھا رنگ اُچھالنے والا
مجھے ملی تو سپر بن گئی ہے میرے لیے
وہ شئے کہ جس سے وہ تھا تیغ ڈھالنے والا
کسی کے نام میں یہ درد کیا لکھوں کہ یہاں
ہر ایک ہے یہ امانت سنبھالنے والا
میں ان کو بانٹتا جاؤں مجھے یہ ظرف بھی دے
محبتیں مری جھولی میں ڈالنے والا
عرفان صدیقی