ٹیگ کے محفوظات: چاندنی

مجھ کو ملا جَہاں سے یہ انعامِ آگہی

سینہ ہے زَخم زخم تو ہونٹوں پہ خامشی
مجھ کو ملا جَہاں سے یہ انعامِ آگہی
بے نغمہ و صدا ہے وہ بُت خانہِ خیال
کرتے تھے گفتگو جہاں پتھر کے ہونٹ بھی
اِک تارہ ٹوٹ کر، یمِ گردوں میں کھو گیا
اک چیخ، کائنات کے دل میں اتر گئی
کتنے ہی چاند تھے اُفقِ دل پہ جلوہ گر
یادوں سے جن کی آج بھی چھنتی ہے روشنی
کیا کیا نہ یاد آئے ہیں احساں بہار کے
جب دیکھتا ہوں کشتِ غمِ دل ہری بھری
تنہائیوں کے ساز پہ بجتا ہے دیپ راگ
جس دم ہواے شب سے سُلگتی ہے چاندنی
شا خو ! بھری بہار میں رقصِ برہنگی!
مہکی ہوئی وہ چادرِ گُل بار کیا ہوئی!
وہ پھر رہے ہیں زخم بپا آج دشت دشت
قدموں میں جن کے شاخِ گلِ تر جُھکی رہی
یوں بھی بڑھی ہے وسعتِ ایوانِ رنگ و بُو
دیوارِ گلستاں درِ زنداں سے جا ملی
رعنائیاں چمن کی تو پہلے بھی کم نہ تھیں
اب کے مگر، سجائی گئی شاخِ دار بھی
(۱ سے ۵ اشعار’روشنی اے روشنی، میں
شامل ہیں یہاں مکمل غزل قارئین کی نذر ہے)
شکیب جلالی

سر بہ سجدہ ہے آگہی توبہ

بے خودی سی ہے بے خودی! توبہ
سر بہ سجدہ ہے آگہی توبہ
ذہن و دل پر ہے بارشِ انوار
پی ہے مے یا کہ چاندنی توبہ
دُکھ کا احساس ہے نہ فِکر نشاط
پینے والوں کی آگہی! توبہ
ان کا غم ہے بہت عزیز مجھے
چھوڑ دی میں نے مے کشی توبہ
اک جہاں بن گیا مرا دشمن
آپ کا لُطفِ ظاہری توبہ
ہے تمھی سے شکستِ دل کا گِلہ
میری اُلفت کی سادگی توبہ
ایک ہے شمع، لاکھ پروانے
تیرگی سی ہے تیرگی! توبہ
کتنے دل خون ہو گئے ہوں گے
ان کی آنکھوں میں ہے نمی توبہ
رازِ غم پا گئے ہیں لوگ، شکیبؔ
ہنسنے والوں کی بے کسی توبہ
شکیب جلالی

بقدرِ ظرف ہر اک آدمی سمندر ہے

سمجھ سکو تو یہ تشنہ لبی سمندر ہے
بقدرِ ظرف ہر اک آدمی سمندر ہے
ابھر کے ڈوب گئی کشتیِٔ خیال کہیں
یہ چاند ایک بھنور، چاندنی سمندر ہے
جو داستاں نہ بنے دردِ بیکراں ہے وہی
جو آنکھ ہی میں رہے وہ نمی سمندر ہے
نہ سوچیے تو بہت مختصر ہے سیلِ حیات
جو سوچیے تو یہی زندگی سمندر ہے
تو اس میں ڈوب کے شاید ابھر سکے نہ کبھی
مرے حبیب مری خامشی سمندر ہے
شکیب جلالی

ہم آج خلوتِ جاں میں بھی بے دلی سے گئے

شگفتگی سے گئے، دل گرفتگی سے گئے
ہم آج خلوتِ جاں میں بھی بے دلی سے گئے
گلہ کریں بھی تو کس سے وہ نامرادِ جنوں
جو خود زوال کی جانب بڑی خوشی سے گئے
سنا ہے اہلِ خرد کا ہے دورِ آئندہ
یہ بات ہے تو سمجھ لو کہ ہم ابھی سے گئے
خدا کرے نہ کبھی مل سکے دوامِ وصال
جیئں گے خاک اگر تیرے خواب ہی سے گئے
ہے یہ بھی خوف ہمیں بے توجہی سے سِوا
کہ جس نظر سے توقع ہے گر اُسی سے گئے؟
مقام کس کا کہاں ہے، بلند کس سے ہے کون؟
میاں یہ فکر کروگے تو شاعری سے گئے
ہر ایک در پہ جبیں ٹیکتے یہ سجدہ گزار
خدا کی کھوج میں نکلے تھے اور خودی سے گئے
سمجھتے کیوں نہیں یہ شاعرِ کرخت نوا
سخن کہاں کا جو لہجے کی دلکشی سے گئے؟
گلی تھی صحن کا حصہ ہمارے بچپن میں
مکاں بڑے ہوئے لیکن کشادگی سے گئے
برائے اہلِ جہاں لاکھ کجکلاہ تھے ہم
گئے حریمِ سخن میں تو عاجری سے گئے
یہ تیز روشنی راتوں کا حسن کھا گئی ہے
تمہارے شہر میں ہم اپنی چاندنی سے گئے
فقیہِ شہر کی ہر بات مان لو چپ چاپ
اگر سوال اٹھایا، تو زندگی سے گئے
نہ پوچھیئے کہ وہ کس کرب سے گزرتے ہیں
جو آگہی کے سبب عیشِ بندگی سے گئے
اٹھاوٗ رختِ سفر، آوٗ اب چلو عرفان
حسیں یہاں کے تو سب خوئے دلبری سے گئے
عرفان ستار

تا ابد دھوم مچ گئی میری

دیکھ مستی وجود کی میری
تا ابد دھوم مچ گئی میری
تُو توجہ اِدھر کرے نہ کرے
کم نہ ہو گی سپردگی میری
دل مرا کب کا ہو چکا پتھر
موت تو کب کی ہو چکی میری
اب تو برباد کر چکے، یہ کہو
کیا اسی میں تھی بہتری میری؟
میرے خوش رنگ زخم دیکھتے ہو؟
یعنی پڑھتے ہو شاعری میری؟
اب تری گفتگو سے مجھ پہ کھُلا
کیوں طبیعت اداس تھی میری
دل میں اب کوئی آرزو ہی نہیں
یعنی تکمیل ہو گئی میری
زندگی کا مآل اتنا ہے
زندگی سے نہیں بنی میری
چاند حسرت زدہ سا لگتا ہے
کیا وہاں تک ہے روشنی میری؟
دھوپ اُس کی ہے میرے آنگن میں
اُس کی چھت پر ہے چاندنی میری
اک مہک روز آ کے کہتی ہے
منتظر ہے کوئی گلی میری
جانے کب دل سے آنکھ تک آکر
بہہ گئی چیز قیمتی میری
اب میں ہر بات بھول جاتا ہوں
ایسی عادت نہ تھی، کہ تھی میری؟
رات بھر دل میں غُل مچاتی ہے
آرزو کوئی سرپھری میری
میری آنکھوں میں آ کے بیٹھ گیا
شامِ فرقت اجاڑ دی میری
پہلے سینے میں دل دھڑکتا تھا
اب دھڑکتی ہے بے دلی میری
کیا عجب وقت ہے بچھڑنے کا
دیکھ، رکتی نہیں ہنسی میری
خود کو میرے سپرد کربیٹھا
بات تک بھی نہیں سنی میری
تیرے انکار نے کمال کیا
جان میں جان آگئی میری
خوب باتیں بنا رہا تھا مگر
بات اب تک نہیں بنی میری
میں تو پل بھر جیا نہیں عرفان
عمر کس نے گزار دی میری؟
عرفان ستار

منزلوں چھا گئی خامشی سو رہو سو رہو

دن ڈھلا رات پھر آ گئی سو رہو سو رہو
منزلوں چھا گئی خامشی سو رہو سو رہو
سارا دن تپتے سورج کی گرمی میں جلتے رہے
ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا پھر چلی سو رہو سو رہو
گرم سنسان قریوں کی دھرتی مہکنے لگی
خاک رشکِ ارم بن گئی سو رہو سو رہو
رزم گاہِ جہاں بن گئی جائے امن و اماں
ہے یہی وقت کی راگنی سو رہو سو رہو
کیسے سنسان ہیں آسماں چپ کھڑے ہیں مکاں
ہے فضا اجنبی اجنبی سو رہو سو رہو
تھک گئے ناقہ و سارباں تھم گئے کارواں
گھنٹیوں کی صدا سو گئی سو رہو سو رہو
چاندنی اور دھوئیں کے سوا دور تک کچھ نہیں
سو گئی شہر کی ہر گلی سو رہو سو رہو
گردشِ وقت کی لوریاں رات کی رات میں
پھر کہاں یہ ہوا یہ نمی سو رہو سو رہو
ساری بستی کے لوگ اس مدھر لے میں کھوئے گئے
دُور بجنے لگی بانسری سو رہو سو رہو
دُور شاخوں کے جھرمٹ میں جگنو بھی گم ہو گئے
چاند میں سو گئی چاندنی سو رہو سو رہو
گھر کے دیوار و دَر راہ تک تک کے شل ہو گئے
اب نہ آئے گا شاید کوئی سو رہو سو رہو
سُست رفتار تارے بھی آنکھیں جھپکنے لگے
غم کے مارو گھڑی دو گھڑی سو رہو سو رہو
منہ اندھیرے ہی ناصر کسے ڈھونڈنے چل دیے
دُور ہے صبحِ روشن ابھی سو رہو سو رہو
ناصر کاظمی

حسن کی سادگی میں کیا کچھ تھا

نازِ بیگانگی میں کیا کچھ تھا
حسن کی سادگی میں کیا کچھ تھا
لاکھ راہیں تھیں لاکھ جلوے تھے
عہدِ آوارگی میں کیا کچھ تھا
آنکھ کھلتے ہی چھپ گئی ہر شے
عالمِ بے خودی میں کیا کچھ تھا
یاد ہیں مرحلے محبت کے
ہائے اُس بے کلی میں کیا کچھ تھا
کتنے بیتے دنوں کی یاد آئی
آج تیری کمی میں کیا کچھ تھا
کتنے مانوس لوگ یاد آئے
صبح کی چاندنی میں کیا کچھ تھا
رات بھر ہم نہ سو سکے ناصرؔ
پردۂ خامشی میں کیا کچھ تھا
ناصر کاظمی

کام آتے ہیں پر کسی کسی کے

ویسے تو وہ دوست ہیں سبھی کے
کام آتے ہیں پر کسی کسی کے
پھِر آج زمین کے ستارے
مہمان ہوئے ہیں چاندنی کے
کیا بات کرتے ہو دوستی کی
قابل نہیں وہ تو دشمنی کے
باصر کاظمی

چاند خود محوِ چاندنی ہے آج

یوں فضا آئنہ بنی ہے آج
چاند خود محوِ چاندنی ہے آج
جس سے ملنے کو میں ترستا تھا
اُس نے خود مجھ سے بات کی ہے آج
کتنی مدت کے بعد لوگوں نے
کوئی سچی خبر سنی ہے آج
ایک بھی آشیاں نہیں محفوظ
آگ کچھ اِس طرح لگی ہے آج
آنکھ دھندلا گئی تو غم کیسا
دلِ پرشوق تو وہی ہے آج
صاف ظاہر ہے تیری صورت سے
تیری نیت بدل گئی ہے آج
باصر کاظمی

ہاں مرحلہ یہ بھی دیدنی ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 45
رستے میں جو شام پڑ گئی ہے
ہاں مرحلہ یہ بھی دیدنی ہے
دشوار نہ تھی کچھ ایسی رہ بھی
کیوں سانس اُکھڑ اُکھڑ گئی ہے
دیکھا تھا جو دُکھ عروج پر بھی
اَب شام اُسی کی ڈھل چلی ہے
کِس چاند کی ضَو زمیں پہ لایا
یہ جسم ترا، کہ چاندنی ہے
ماجدؔ ترے ہونٹ چُوم لوں مَیں
کیا بات پتے کی تُو نے کی ہے
ماجد صدیقی

ہم آج خلوتِ جاں میں بھی بے دلی سے گئے

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 65
شگفتگی سے گئے، دل گرفتگی سے گئے
ہم آج خلوتِ جاں میں بھی بے دلی سے گئے
گلہ کریں بھی تو کس سے وہ نامرادِ جنوں
جو خود زوال کی جانب بڑی خوشی سے گئے
سنا ہے اہلِ خرد کا ہے دورِ آئندہ
یہ بات ہے تو سمجھ لو کہ ہم ابھی سے گئے
خدا کرے نہ کبھی مل سکے دوامِ وصال
جیئں گے خاک اگر تیرے خواب ہی سے گئے
ہے یہ بھی خوف ہمیں بے توجہی سے سِوا
کہ جس نظر سے توقع ہے گر اُسی سے گئے؟
مقام کس کا کہاں ہے، بلند کس سے ہے کون؟
میاں یہ فکر کروگے تو شاعری سے گئے
ہر ایک در پہ جبیں ٹیکتے یہ سجدہ گزار
خدا کی کھوج میں نکلے تھے اور خودی سے گئے
سمجھتے کیوں نہیں یہ شاعرِ کرخت نوا
سخن کہاں کا جو لہجے کی دلکشی سے گئے؟
گلی تھی صحن کا حصہ ہمارے بچپن میں
مکاں بڑے ہوئے لیکن کشادگی سے گئے
برائے اہلِ جہاں لاکھ کجکلاہ تھے ہم
گئے حریمِ سخن میں تو عاجری سے گئے
یہ تیز روشنی راتوں کا حسن کھا گئی ہے
تمہارے شہر میں ہم اپنی چاندنی سے گئے
فقیہِ شہر کی ہر بات مان لو چپ چاپ
اگر سوال اٹھایا، تو زندگی سے گئے
نہ پوچھیئے کہ وہ کس کرب سے گزرتے ہیں
جو آگہی کے سبب عیشِ بندگی سے گئے
اٹھاوٗ رختِ سفر، آوٗ اب چلو عرفان
حسیں یہاں کے تو سب خوئے دلبری سے گئے
عرفان ستار

تا ابد دھوم مچ گئی میری

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 58
دیکھ مستی وجود کی میری
تا ابد دھوم مچ گئی میری
تُو توجہ اِدھر کرے نہ کرے
کم نہ ہو گی سپردگی میری
دل مرا کب کا ہو چکا پتھر
موت تو کب کی ہو چکی میری
اب تو برباد کر چکے، یہ کہو
کیا اسی میں تھی بہتری میری؟
میرے خوش رنگ زخم دیکھتے ہو؟
یعنی پڑھتے ہو شاعری میری؟
اب تری گفتگو سے مجھ پہ کھُلا
کیوں طبیعت اداس تھی میری
دل میں اب کوئی آرزو ہی نہیں
یعنی تکمیل ہو گئی میری
زندگی کا مآل اتنا ہے
زندگی سے نہیں بنی میری
چاند حسرت زدہ سا لگتا ہے
کیا وہاں تک ہے روشنی میری؟
دھوپ اُس کی ہے میرے آنگن میں
اُس کی چھت پر ہے چاندنی میری
اک مہک روز آکے کہتی ہے
منتظر ہے کوئی گلی میری
جانے کب دل سے آنکھ تک آکر
بہہ گئی چیز قیمتی میری
اب میں ہر بات بھول جاتا ہوں
ایسی عادت نہ تھی، کہ تھی میری؟
رات بھر دل میں غُل مچاتی ہے
آرزو کوئی سرپھری میری
میری آنکھوں میں آکے بیٹھ گیا
شامِ فرقت اجاڑ دی میری
پہلے سینے میں دل دھڑکتا تھا
اب دھڑکتی ہے بے دلی میری
کیا عجب وقت ہے بچھڑنے کا
دیکھ، رکتی نہیں ہنسی میری
خود کو میرے سپرد کربیٹھا
بات تک بھی نہیں سنی میری
تیرے انکار نے کمال کیا
جان میں جان آگئی میری
خوب باتیں بنا رہا تھا مگر
بات اب تک نہیں بنی میری
میں تو پل بھر جیا نہیں عرفان
عمر کس نے گزار دی میری؟
عرفان ستار

ذرا سی دھوپ میں کچھ چاندنی کی آمیزش

پروین شاکر ۔ غزل نمبر 40
نظر کی تیزی میں ہلکی ہنسی کی آمیزش
ذرا سی دھوپ میں کچھ چاندنی کی آمیزش
یہی تو وجہِ شکستِ وفا ہُوئی میری
خلوصِ عشق میں سادہ دلی کی آمیزش
مرے لیے ترے الطاف کی وہ اُجلی رُت
عذابِ مرگ میں تھی زندگی کی آمیزش
وہ چاند بن کے مرے جسم میں پگھلتا رہا
لُہو میں ہوتی گئی روشنی کی آمیزش
یہ کو ن بن میں بھٹکتا تھا جس کے نام پہ ہے
ہوائے دشت میں آشفتگی کی آمیزش
زمیں کے چہرے پہ بارش کے پہلے پیار کے بعد
خوشی کے ساتھ تھی حیرانگی کی آمیزش
سمندروں کی طرح میری آنکھ ساکت ہے
مگر سکوت میں کس بے کلی کی آمیزش
پروین شاکر

دھواں تنکوں سے اٹھے گا چمن میں روشنی ہو گی

قمر جلالوی ۔ غزل نمبر 99
اگر صیاد یہ بجلی نشیمن پہ گری ہو گی
دھواں تنکوں سے اٹھے گا چمن میں روشنی ہو گی
ستم گر حشر میں وہ بھی قیامت کی گھڑی ہو گی
ترے دامن پہ ہو گا ہاتھ دنیا دیکھتی ہو گی
مجھے شکوے بھی آتے ہیں مجھے نالے بھی آتے ہیں
مگر یہ سوچ کر چپ ہوں کی رسوا عاشقی ہو گی
تو ہی انصاف کر جلوہ ترا دیکھا نہیں جاتا
نظر کا جب یہ عالم ہے تو دل پر کیا بنی ہو گی
اگر آ جائے پہلو میں قمر وہ ماہِ کامل بھی
دو عالم جگمگا اٹھیں گے دوہری چاندنی ہو گی
قمر جلالوی

توبہ مری پھرے گی کہاں بھیگتی ہوئی

قمر جلالوی ۔ غزل نمبر 87
بارش میں عہد توڑ کے گر مئے کشی ہوئی
توبہ مری پھرے گی کہاں بھیگتی ہوئی
پیش آئے لاکھ رنج اگر اک خوشی ہوئی
پروردگار یہ بھی کوئی زندگی ہوئی
اچھا تو دونوں وقت ملے کو سئے حضور
پھر بھی مریض غم کی اگر زندگی ہوئی
اے عندلیب اپنے نشیمن کی خیر مانگ
بجلی گئی ہے سوئے چمن دیکھتی ہوئی
دیکھو چراغِ قبر اسے کیا جواب دے
آئے گی شامِ ہجر مجھے پوچھتی ہوئی
قاصد انھیں کو جا کہ دیا تھا ہمارا خط
وہ مل گئے تھے، ان سے کوئی بات بھی ہوئی
جب تک کہ تیری بزم میں چلتا رہے گا جام
ساقی رہے گی گردشِ دوراں رکی ہوئی
مانا کہ ان سے رات کا وعدہ ہے اے قمر
کیسے وہ آسکیں گے اگر چاندنی ہوئی
قمر جلالوی

بس اے ظہورِ جلوہ اب دم نہیں کسی میں

قمر جلالوی ۔ غزل نمبر 68
برباد طور بھی ہے موسیٰؑ ہیں بے خودی میں
بس اے ظہورِ جلوہ اب دم نہیں کسی میں
آنسو بھر آئے ان کی پرسش پہ جاں کنی میں
اب اور کیا بتاتے ان کی روا روی میں
جا تو رہے ہو موسیٰ دیدار کی خوشی میں
اوپر نظر نہ اٹھے بس خیر ہے اسی میں
اب تک ہے یاد دے کر دل ان کو دل لگی میں
رونا پڑا تھا برسوں مجھ کو ہنسی ہنسی میں
قیدِ قفس میں مجھ سے ارماں کا پوچھنا کیا
صیاد اب تو جو کچھ آئے تری خوشی میں
کوزے میں بھر گیا ہے جیسے تمام دریا
یوں اس نے بن سنور کر دیکھا ہے آرسی میں
ہر صبح آ کے گلچیں گلشن کو دیکھتا ہے
یہ وقت بھی ہے نازک پھولوں کی زندگی میں
دیکھیں قمر کچھ افشاں اس مہ جبیں کے رخ پر
کتنے حسین تارے ہوتے ہیں چاندنی میں
قمر جلالوی

دل کواب دل دہی سے خطرہ ہے

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 224
عیشِ اُمید ہی سے خطرہ ہے
دل کواب دل دہی سے خطرہ ہے
ہے کچھ ایسا کہ اس کی جلوت میں
ہمیں اپنی کمی سے خطرہ ہے
جس کے آغوش کا ہوں دیوانہ
اس کے آغوش ہی سے خطرہ ہے
یاد کی دھوپ تو ہے روز کی بات
ہاں مجھے چاندنی سے خطرہ ہے
ہے عجب کچھ معاملہ درپیش
عقل کو آ گہی سے خطرہ ہے
شہر غدار جان لے کہ تجھے
ایک امروہوی سے خطرہ ہے
ہے عجب طورِ حالتِ گریہ
کہ مژہ کو نمی سے خطرہ ہے
حال خوش لکھنو کا دلّی کا
بس انہیں مصحفی سے خطرہ ہے
آسمانوں میں ہے خدا تنہا
اور ہر آدمی سے خطرہ ہے
میں کہوں کس طرح یہ بات اس سے
تجھ کو جانم مجھی سے خطرہ ہے
آج بھی اے کنارِ بان مجھے
تیری اک سانولی سے خطرہ ہے
ان لبوں کا لہو نہ پی جاؤں
اپنی تشنہ لبی سے خطرہ ہے
جون ہی تو ہے جون کے درپے
میر کو میر ہی سے خطرہ ہے
اب نہیں کوئی بات خطرے کی
اب سبھی کو سبھی سے خطرہ ہے
جون ایلیا

رہے آخر تری کمی کب تک

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 81
میں سہوں کربِ زندگی کب تک
رہے آخر تری کمی کب تک
کیا میں آنگن میں چھوڑ دوں سونا
جی جلائے گی چاندنی کب تک
اب فقط یاد رہ گئی ہے تری
اب فقط تری یاد بھی کب تک
میں بھلا اپنے ہوش میں کب تھا
مجھ کو دنیا پُکارتی کب تک
خیمہ گاہِ شمال میں۔۔۔آخر
اس کی خوشبو رچی بسی کب تک
اب تو بس آپ سے گلہ ہے یہی
یاد آئیں گے آپ ہی کب تک
مرنے والو ذرا بتاؤ تو
رہے گی یہ چلا چلی کب تک
جس کی ٹوٹی تھی سانس آخرِ شب
دفن وہ آرزو ہوئی کب تک
دوزخِ ذات باوجود ترے
شبِ فرقت نہیں جلی کب تک
اپنے چھوڑے ہوئے محلوں پر
رہا دورانِ جاں کنی کب تک
نہیں معلوم میرے آنے پر
اسکے کوچے میں لُو چلی کب تک
جون ایلیا

پیو، کہ اور زیادہ ہو روشنی روشن

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 13
کرے ہے آنکھ کے گوشوں کی تیرگی روشن
پیو، کہ اور زیادہ ہو روشنی روشن
تمام صحن شبِ یاد جگمگا اُٹھا
ہوئی جو آنکھ میں اشکوں کی پھلجھڑی روشن
تو کیا چراغ ہوں میں طاقِ روزمرہ کا
کبھی بجھا ہوا ہوتا ہوں اور کبھی روشن
سرور دینے لگا ہے مجھے اندھیرا بھی
لگے کہ اُس کے بدن میں ہے چاندنی روشن
مٹے نہ فرقِ سفید و سیاہ سورج سے
مٹے لہو سے، کرے جس کو آدمی روشن
جما ہے تن کے رہِ برف و باد میں کیسے
رکھو، مثالِ شجر جان کی نمی روشن
آفتاب اقبال شمیم

اک تھکی ہاری اونٹنی اور میں

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 320
ریگِ صحرا کی سنسنی اور میں
اک تھکی ہاری اونٹنی اور میں
تیرے نقش قدم کی کھوج میں ہیں
آج بھی تھل میں چاندنی اور میں
تیرا کمرہ، دہکتی انگیٹھی
برف پروردہ روشنی اور میں
چند فوٹو گراف آنکھوں کے
دیکھتے ہیں شگفتنی اور میں
لائٹیں آف، لائنیں انگیج
ایک کمرے میں کامنی اور میں
گنگ بیٹھا ہوا ہوں پہروں سے
ایک تصویر گفتنی اور میں
منصور آفاق