ٹیگ کے محفوظات: شام
یہ شیشے کی عمارت پتھروں کے نام ہو جائے
ہم گردشِ ایّام سے گھبرائے ہوئے ہیں
آمدِ صبحِ شب اندام پہ رونا آیا
کیا کیا نہ رنگ بھر دیے افسونِ شام نے
یہ سنّاٹا اگر حد سے بڑھے کہرام ہو جائے
شام
یہ وہ جہاں ہے جہاں قیدِ صبح و شام نہیں
وقت سے پہلے خوشیوں کا اسقاط ہمارے نام لگا
وقت سے پہلے خوشیوں کا اسقاط ہمارے نام لگا
وہ شخص جِسے اب بھی مرا نام نہ آئے
حصّۂ جان بھی اپنا میں ترے نام کروں
ہم کو جانا ہے کہیں شام سے پہلے پہلے
ہجر کی رات بام پر ماہِ تمام رکھ دیا
ماں کی ردا تو ، دن ہُوئے نیلام ہو چکی
عالمِ گردشِ ایام بدل جاتا ہے
میں نہ سمجھا تھا محبت اس قدر بدنام ہے
میری قسمت پر نکل آئے ہیں آنسو جام کے
ہر اک شاخِ چمن پر پھول بن کر جام آ جائے
اک نشیمن تھا سو وہ بجلی کے کام آ ہی گیا
بارے مرنا تو مرے کام آیا
ہم خاص نہیں اور کرم عام نہ ہو گا
نہ تھا رقیب تو آخر وہ نام کس کا تھا
مگر نہ یوں ہو کہ ہم اپنے کام کے نہ رہیں
جپ نام اس کا صبح کو تا نام بھی چلے
جی کا جانا ٹھہر رہا ہے صبح گیا یا شام گیا
رسوا ہوکر مارے جاویں اس کو بھی بدنام کریں
یہ بھی کوئی لطف بے ہنگام ہے
رسم ظاہر تمام ہے موقوف
ہاتھ ملنا کام ہے اب عاشق بدنام کا
کیا ذکر یاں مسیح علیہ السلام کا
کر اک سلام پوچھنا صاحب کا نام کیا
کاہش اک روز مجھ کو شام سے ہے
عاشق بے حال دونوں ہاتھ سے دل تھام لے
کاہش مجھے جو ہے وہی ہوتی ہے شام سے
نامے کا اس کی مہر سے اب نام بھی نہیں
جاتا ہے صید آپ سے اس دام کی طرف
واں یہ عاجز مدام ہوتا ہے
جنس تقویٰ کے تئیں صرف مئے خام کرو
دامن ہے منھ پہ ابر نمط صبح و شام یاں
گئے گذرے خضر علیہ السلام
خاطر سے ہی مجھ مست کی تائید دور جام کر
چمن کی صبح کوئی دم کو شام ہے صیاد
رونا آتا ہے مجھے ہر سحر و شام بہت
ہم خاک کے آسودوں کو آرام نہ آیا
دیکھا اس بیماری دل نے آخر کام تمام کیا
سجے گی کیسے شبِ نگاراں کہ دل سر شام بجھ گئے ہیں
شام
اس طرح ہے کہ ہر اِک پیڑ کوئی مندر ہے
کوئی اُجڑا ہوا ، بے نُور پُرانا مندر
ڈھونڈتا ہے جو خرابی کے بہانے کب سے
چاک ہر بام ، ہر اک در کا دمِ آخر ہے
آسماں کوئی پروہت ہے جو ہر بام تلے
جسم پر راکھ ملے ، ماتھے پہ سیندور ملے
سرنگوں بیٹھا ہے چپ چاپ نہ جانے کب سے
اس طرح ہے کہ پسِ پردہ کوئی ساحر ہے
جس نے آفاق پہ پھیلایا ہے یوں سحر کا دام
دامنِ وقت سے پیوست ہے یوں دامنِ شام
اب کبھی شام بُجھے گی نہ اندھیرا ہو گا
اب کبھی رات ڈھلے گی نہ سویرا ہو گا
آسماں آس لئے ہے کہ یہ جادو ٹُوٹے
چُپ کی زنجیر کٹے ، وقت کا دامن چُھوٹے
دے کوئی سنکھ دہائی ، کوئی پایل بولے
کوئی بُت جاگے ، کوئی سانولی گھونگھٹ کھولے
کوچہء یار سے بے نیلِ مرام آتا ہے
دشنام تو نہیں ہے، یہ اکرام ہی تو ہے
ہم لب سے لگا کر جام، ہوئے بدنام، بڑے بدنام
پڑھوں سلام تو خوشبو کلام سے آئے
قبول تشنہ دلاں ہو سلام پانی کا
مجھ کو اس الجھن سے کوئی کام نہ رکھنا
شام
سرخ سفینہ ڈوب گیا ہے
دھیرے دھیرے
دور اُفق پر
سرخ سفینہ ڈوب گیا ہے
نارنجی بل کھاتی لہریں
کب سے ساکت پیڑوں پر
دم توڑ چکی ہیں
پنچھی کب کے لوٹ گئے ہیں
گہرے نیلے مرغولوں نے
سرد فضا کو گھیر لیا ہے
تنہائی کا گم صم سایا
سناٹے میں گونج رہا ہے
سینے میں اِک پیاس کا صحرا
جاگ اُٹھا ہے
دیر سے پچھلی یاد کے جھونکے
دل کی خالی دِیواروں کو
چھید رہے ہیں
سانس کا ریشم الجھ گیا ہے
اور کسی بے چین گھڑی نے
رات کا رستہ روک لیا ہے
بنجر آنکھ میں شام کا منظر
ٹھہر گیا ہے …