یہ بھی کوئی لطف بے ہنگام ہے

دیوان سوم غزل 1294
دشمنوں کے روبرو دشنام ہے
یہ بھی کوئی لطف بے ہنگام ہے
محو زلف یار ہے عالم تمام
حسن کا بھی شہرہ جوش شام ہے
عشق کی ہے راہ کیا مشکل گذر
سر کا جانا جس میں ہر اک گام ہے
گر کہا ناکام ملنے کو کبھی
تو یہ کہتا ہے کہ مجھ کو کام ہے
روز و شب پھرتا ہوں اس کوچے کے گرد
کیا کہوں کیا گردش ایام ہے
چین دن کو ہے نہ شب کو خواب ٹک
اس کی دوری میں کسے آرام ہے
بزم میں پوچھا تو یوں انجان ہو
میر ان لوگوں میں کس کا نام ہے
میر تقی میر