ٹیگ کے محفوظات: خوار

بہکے بہکے جو یہ مے خوار نظر آتے ہیں

ساغرِ چشم سے سرشار نظر آتے ہیں
بہکے بہکے جو یہ مے خوار نظر آتے ہیں
کُلفتیں آج بھی قائم ہیں قَفَس کی شاید
گُلستاں حاملِ افکار نظر آتے ہیں
جن پہ بے لوث محبت بھی بجا ناز کرے
ایسے نایاب ہی کردار نظر آتے ہیں
خود ہی آتی ہے مسرّت انھیں مژدہ دینے
جو ہر اک غم کے سزاوار نظر آتے ہیں
بے سہارا جو گزر جاتے ہیں طوفانوں سے
کچھ یہاں ایسے بھی خوددار نظر آتے ہیں
جن مراحل کو سمجھنے سے خرد قاصر ہے
وہ جنوں کے لیے شہ کار نظر آتے ہیں
کسبِ ثروت ہی، شکیبؔ، آج کا فن ہے شاید
طالبِ زر مجھے فن کار نظر آتے ہیں
شکیب جلالی

یعنی زمینِ میر کو ہموار دیکھنا

اب میں جو کہہ رہا ہوں یہ اشعار دیکھنا
یعنی زمینِ میر کو ہموار دیکھنا
پہلے تو ڈھونڈ روح کے آزار کی دوا
پھر آ کے اے طبیب یہ بیمار دیکھنا
جانے یہ کیسا شوق ہے مجھ کو کہ جاگ کر
شب بھر افق پہ صبح کے آثار دیکھنا
اب تک نہیں ہوا ہے تو کیا ہو سکے گا اب
یہ عمر جائے گی یونہی بے کار دیکھنا
اُس سمت دیکھنا ہی نہیں وہ ہو جس طرف
پھر جب وہ جاچکے تو لگاتار دیکھنا
ہے ایسا انہماک و توجہ نگاہ میں
اک بار دیکھنا بھی ہے سو بار دیکھنا
سب سانحوں میں سب سے بڑا سانحہ ہے یہ
خود کو خود اپنے آپ سے بیزار دیکھنا
اندر سے ٹوٹتے ہوئے اک عمر ہو چکی
اب کچھ دنوں میں ہی مجھے مسمار دیکھنا
کچھ تو کھلے کہ کوئی وہاں ہے بھی یا نہیں
ہے کوئی، جا کے وقت کے اُس پار دیکھنا
ویسے تو سارا شہر ہی دام و درم کا ہے
ہم ذوق مل ہی جائیں گے دوچار دیکھنا
وحشت میں جانے کون سی جانب گیا ہے وہ
اے میرے بھائی دیکھنا، اے یار دیکھنا
کیا مجھ پہ رونے والا نہیں ہے کوئی، ارے
وہ آرہے ہیں میرے عزادار دیکھنا
کوئی گیا ہے مجھ کو یہی کام سونپ کر
در دیکھنا کبھی، کبھی دیوار دیکھنا
شاعر ہو تم، نہ دیکھنا دنیا کا حالِ زار
تم بس خیالی گیسو و رخسار دیکھنا
گو آندھیوں کی زد میں رہا ہوں تمام عمر
سر سے مگر گری نہیں دستار، دیکھنا
اپنی روایتوں کا کہاں تک منائیں سوگ
اب وقت جو دکھائے سو ناچار دیکھنا
دل اُوب سا گیا ہے اکیلے میں دوستو
میرے لیے کہیں کوئی دلدار دیکھنا
مضمون ہو نیا یہ ضروری نہیں میاں
ہاں شاعری میں ندرتِ اظہار دیکھنا
کوئی تسلی، کوئی دلاسا مرے لیے
جانے کہاں گئے مرے غم خوار دیکھنا
اے عاشقانِ میر کہاں جامرے ہو سب
غالب کے بڑھ گئے ہیں طرف دار، دیکھنا
زریون، یار دیکھ یہ عرفان کی غزل
عارف امام، بھائی یہ اشعار دیکھنا
عرفان ستار

اُس نے اُتنا ہی مجھ کو خوار کیا

میں نے جتنا کسی سے پیار کیا
اُس نے اُتنا ہی مجھ کو خوار کیا
سَرسَری اُس نے کوئی کام کہا
ہم نے اعصاب پر سوار کیا
حاکمِ وقت ہی سہی باصرِؔ
وقت نے کس کا انتظار کیا
باصر کاظمی

جینے کا ہر لمحہ شب آثار لگا ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 29
قلب و نظر کو جانے کیا آزار لگا ہے
جینے کا ہر لمحہ شب آثار لگا ہے
انساں بھی آواز نہ یُوں لوٹائے، جیسے
پتّھر پتّھر جنگل کا غم خوار لگا ہے
اُس کو جانے رات گئے کیا فکر لگی تھی
بستی بھر میں چور ہی اِک بیدار لگا ہے
صَرف ہوا ہے جو بھی بحقِ پست مقاماں
حرف وُہی اپنا دُرِّ شہوار لگا ہے
اِک اِک ذہن تھا ایک ہی روگ کی زد میں جیسے
شہر کا شہر ہی اِک جیسا بیمار لگا ہے
ماجدؔ شہر میں ہر سُو جیسے سب اچّھا تھا
جس کو دیکھا سرکاری اخبار لگا ہے
ماجد صدیقی

اغیار تو کرتے تھے سو اب یار کرے ہے

احمد فراز ۔ غزل نمبر 152
جو سر بھی کشیدہ ہو اسے دار کرے ہے
اغیار تو کرتے تھے سو اب یار کرے ہے
وہ کون ستمگر تھے کہ یاد آنے لگے ہیں
تو کیسا مسیحا ہے کہ بیمار کرے ہے
اب روشنی ہوتی ہے کہ گھر جلتا ہے دیکھیں
شعلہ سا طوافِ در و دیوار کرے ہے
کیا دل کا بھروسہ ہے یہ سنبھلے کہ نہ سنبھلے
کیوں خود کو پریشاں مرا غم خوار کرے ہے
ہے ترکِ تعلق ہی مداوائے غمِ جاں
پر ترکِ تعلق تو بہت خوار کرے ہے
اس شہر میں ہو جنبشِ لب کا کسے یارا
یاں جنبشِ مژگاں بھی گنہگار کرے ہے
تو لاکھ فراز اپنی شکستوں کو چھپائے
یہ چپ تو ترے کرب کا اظہار کرے ہے
احمد فراز

کس رشک سے دیکھا مجھے غم خوار نے میرے

احمد فراز ۔ غزل نمبر 119
کل پرسش احوال جو کی یار نے میرے
کس رشک سے دیکھا مجھے غم خوار نے میرے
بس ایک ترا نام چھپانے کی غرض سے
کس کس کو پکارا دلِ بیمار نے میرے
یا گرمیِ بازار تھی یا خوف زباں تھا
پھر بیچ دیا مجھ کو خریدار نے میرے
ویرانی میں بڑھ کر تھے بیاباں سے تو پھر کیوں
شرمندہ کیا ہے در و دیوار نے میرے
جب شاعری پردہ ہے فراز اپنے جنوں کا
پھر کیوں مجھے رسوا کیا اشعار نے میرے
احمد فراز

اب تو ہم بات بھی کرتے ہیں غم خوار کے ساتھ

احمد فراز ۔ غزل نمبر 83
وحشتیں بڑھتی گئیں ہجر کے آزار کے ساتھ
اب تو ہم بات بھی کرتے ہیں غم خوار کے ساتھ
ہم نے اک عمر بسر کی ہے غم یار کے ساتھ
میر دو دن نہ جئے ہجر کے آزار کے ساتھ
اب تو ہم گھر سے نکلتے ہیں تو رکھ دیتے ہیں
طاق پر عزتِ سادات بھی دستار کے ساتھ
اس قدر خوف ہے اب شہر کی گلیوں میں کہ لوگ
چاپ سُنتے ہیں تو لگ جاتے ہیں دیوار کے ساتھ
ایک تو خواب لیے پھرتے ہو گلیوں گلیوں
اس پہ تکرار بھی کرتے ہو خریدار کے ساتھ
شہر کا شہر ہی ناصح ہو تو کیا کیجیے گا
ورنہ ہم رند تو بھڑ جاتے ہیں دو چار کے ساتھ
ہم کو اس شہر میں تعمیر کا سودا ہے جہاں
لوگ معمار کو چن دیتے ہیں دیوار کے ساتھ
جو شرف ہم کو ملا کوچۂ جاناں سے فراز
سوئے مقتل بھی گئے ہیں اسی پندار کے ساتھ
احمد فراز

گرچہ کہتے رہے مجھ سے میرے غم خوار کہ بس

احمد فراز ۔ غزل نمبر 37
چشم گریاں میں وہ سیلاب تھے اے یار کہ بس
گرچہ کہتے رہے مجھ سے میرے غم خوار کہ بس
گھر تو کیا گھر کی شباہت بھی نہیں ہے باقی
ایسے ویران ہوئے ہیں در و دیوار کہ بس
زندگی تھی کہ قیامت تھی کہ فرقت تیری
ایک اک سانس نے وہ وہ دیئے آزار کہ بس
اس سے پہلے بھی محبت کا قرینہ تھا یہی
ایسے بے حال ہوئے ہیں مگر اس بار کہ بس
اب وہ پہلے سے بلا نوش و سیہ مست کہاں
اب تو ساقی سے یہ کہتے ہیں قدح خوار کہ بس
لوگ کہتے تھے فقط ایک ہی پاگل ہے فراز
ایسے ایسے ہیں محبت میں گرفتار کہ بس
احمد فراز

کبھی جان صدقے ہوتی، کبھی دل نثار ہوتا

داغ دہلوی ۔ غزل نمبر 2
عجب اپنا حال ہوتا، جو وصال یار ہوتا
کبھی جان صدقے ہوتی، کبھی دل نثار ہوتا
کوئی فتنہ تا قیامت نہ پھر آشکار ہوتا
ترے دل پہ کاش ظالم مجھے اختیار ہوتا
جو تمہاری طرح تم سے کوئی جھوٹے وعدے کرتا
تمہیں منصفی سے کہہ دو تمہیں اعتبار ہوتا
غمِ عشق میں مزا تھا جو اسے سمجھ کے کھاتے
یہ وہ زہر ہے کہ آخر مے خوشگوار ہوتا
یہ مزہ تھا دل لگی کا، کہ برابر ٓاگ لگتی
نہ تجھے قرار ہوتا، نہ مجھے قرار ہوتا
یہ مزا ہے دشمنی میں، نہ ہے لطف دوستی میں
کوئی غیر غیر ہوتا، کوئی یار یار ہوتا
ترے وعدے پر ستمگر، ابھی اور صبر کرتے
مگر اپنی زندگی کا، ہمیں اعتبار ہوتا
یہ وہ دردِ دل نہیں ہے کہ ہو چارہ ساز کوئی
اگر ایک بار مٹتا تو ہزار بار ہوتا
گئے ہوش تیرے زاہد جو وہ چشمِ مست دیکھی
مجھے کیا الٹ نہ دینے جو نہ بادہ خوار ہوتا
مجھے مانتے سب ایسا کہ عدو بھی سجدے کرتے
درِ یار کعبہ بنتا جو مرا مزار ہوتا
تمہیں ناز ہو نہ کیونکر کہ لیا ہے داغ کا دل
یہ رقم نہ ہاتھ لگتی نہ یہ افتخار ہوتا
داغ دہلوی

بیقراری قرار ہے اماں ہاں

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 87
جبر پُر اختیار ہے اماں ہاں
بیقراری قرار ہے اماں ہاں
ایزدِ ایزداں ہے تیرا انداز
اہرمن دل فگار ہے اماں ہاں
میرے آغوش میں جو ہے اُس کا
دَم بہ دَم انتظار ہے اماں ہاں
ہے رقیب اُس کا دوسرا عاشق
وہی اِک اپنا یار ہے اماں ہاں
یار زردی ہے رنگ پر اپنے
سو خزاں تو بہار ہے اماں ہاں
لب و پستان و ناف اس کے نہ پوچھ
ایک آشوبِ کار ہے اماں ہاں
سنگ در کے ہوں یا ہوں دار کے لوگ
سب پہ شہوت سوار ہے اماں ہاں
اب تو انساں کے معجزے ہیں عام
اور انسان خوار ہے اماں ہاں
جون ایلیا

یاں آ پڑی یہ شرم کہ تکرار کیا کریں

دیوانِ غالب ۔ غزل نمبر 166
دونوں جہان دے کے وہ سمجھے یہ خوش رہا
یاں آ پڑی یہ شرم کہ تکرار کیا کریں
تھک تھک کے ہر مقام پہ دو چار رہ گئے
تیرا پتہ نہ پائیں تو ناچار کیا کریں؟
کیا شمع کے نہیں ہیں ہوا خواہ اہلِ بزم؟
ہو غم ہی جاں گداز تو غم خوار کیا کریں؟
مرزا اسد اللہ خان غالب

ہے حیا مانعِ اظہار، کہوں یا نہ کہوں

دیوانِ غالب ۔ غزل نمبر 164
اپنا احوالِ دلِ زار کہوں یا نہ کہوں
ہے حیا مانعِ اظہار، کہوں یا نہ کہوں
نہیں کرنے کا میں تقریر ادب سے باہر
میں بھی ہوں واقفِ اسرار، کہوں یا نہ کہوں
شکوہ سمجھو اسے یا کوئی شکایت سمجھو
اپنی ہستی سے ہوں بیزار، کہوں یا نہ کہوں
اپنے دل ہی سے میں احوالِ گرفتارئِ دل
جب نہ پاؤں کوئی غم خوار کہوں یا نہ کہوں
دل کے ہاتھوں سے، کہ ہے دشمنِ جانی اپنا
ہوں اک آفت میں گرفتار، کہوں یا نہ کہوں
میں تو دیوانہ ہوں اور ایک جہاں ہے غمّاز
گوش ہیں در پسِ دیوار کہوں یا نہ کہوں
آپ سے وہ مرا احوال نہ پوچھے تو اسدؔ
حسبِ حال اپنے پھر اشعار کہوں یا نہ کہوں
مرزا اسد اللہ خان غالب

جلتا ہوں اپنی طاقتِ دیدار دیکھ کر

دیوانِ غالب ۔ غزل نمبر 124
کیوں جل گیا نہ، تابِ رخِ یار دیکھ کر
جلتا ہوں اپنی طاقتِ دیدار دیکھ کر
آتش پرست کہتے ہیں اہلَ جہاں مجھے
سرگرمِ نالہ ہائے شرربار دیکھ کر
کیا آبروئے عشق، جہاں عام ہو جفا
رکتا ہوں تم کو بے سبب آزار دیکھ کر
آتا ہے میرے قتل کو پَر جوشِ رشک سے
مرتا ہوں اس کے ہاتھ میں تلوار دیکھ کر
ثابت ہوا ہے گردنِ مینا پہ خونِ خلق
لرزے ہے موجِ مے تری رفتار دیکھ کر
وا حسرتا کہ یار نے کھینچا ستم سے ہاتھ
ہم کو حریصِ لذّتِ آزار دیکھ کر
بِک جاتے ہیں ہم آپ، متاعِ سخن کے ساتھ
لیکن عیارِ طبعِ خریدار دیکھ کر
زُنّار باندھ، سبحۂ صد دانہ توڑ ڈال
رہرو چلے ہے راہ کو ہموار دیکھ کر
ان آبلوں سے پاؤں کے گھبرا گیا تھا میں
جی خوش ہوا ہے راہ کو پُر خار دیکھ کر
کیا بد گماں ہے مجھ سے، کہ آئینے میں مرے
طوطی کا عکس سمجھے ہے زنگار دیکھ کر
گرنی تھی ہم پہ برقِ تجلّی، نہ طو ر پر
دیتے ہیں بادہ’ ظرفِ قدح خوار’ دیکھ کر
سر پھوڑنا وہ! ‘غالب شوریدہ حال’ کا
یاد آگیا مجھے تری دیوار دیکھ کر
مرزا اسد اللہ خان غالب

دودِ شمعِ کشتہ تھا شاید خطِ رخسارِ دوست

دیوانِ غالب ۔ غزل نمبر 113
آمدِ خط سے ہوا ہے سرد جو بازارِ دوست
دودِ شمعِ کشتہ تھا شاید خطِ رخسارِ دوست
اے دلِ ناعاقبت اندیش! ضبطِ شوق کر
کون لا سکتا ہے تابِ جلوۂ دیدارِ دوست
خانہ ویراں سازئ حیرت! تماشا کیجیئے
صورتِ نقشِ قدم ہوں رفتۂ رفتارِ دوست
عشق میں بیدادِ رشکِ غیر نے مارا مجھے
کُشتۂ دشمن ہوں آخر، گرچہ تھا بیمارِ دوست
چشمِ ما روشن، کہ اس بے درد کا دل شاد ہے
دیدۂ پر خوں ہمارا ساغرِ سرشارِ دوست
غیر یوں کرتا ہے میری پرسش اس کے ہجر میں
بے تکلّف دوست ہو جیسے کوئی غم خوارِ دوست
تاکہ میں جانوں کہ ہے اس کی رسائی واں تلک
مجھ کو دیتا ہے پیامِ وعدۂ دیدارِ دوست
جب کہ میں کرتا ہوں اپنا شکوۂ ضعفِ دماغ
سَر کرے ہے وہ حدیثِ زلفِ عنبر بارِ دوست
چپکے چپکے مجھ کو روتے دیکھ پاتا ہے اگر
ہنس کے کرتا ہے بیانِ شوخئ گفتارِ دوست
مہربانی ہائے دشمن کی شکایت کیجیئے
یا بیاں کیجے سپاسِ لذّتِ آزارِ دوست
یہ غزل اپنی، مجھے جی سے پسند آتی ہےآپ
ہے ردیف شعر میں غالب! ز بس تکرارِ دوست
مرزا اسد اللہ خان غالب

اگر اور جیتے رہتے ، یہی انتظار ہوتا

دیوانِ غالب ۔ غزل نمبر 63
یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصالِ یار ہوتاا
اگر اور جیتے رہتے ، یہی انتظار ہوتا
ترے وعدے پر جئے ہم تو یہ جان جھوٹ جانا
کہ خوشی سے مر نہ جاتے، اگر اعتبار ہوتا
تری نازکی سے جانا کہ بندھا تھا عہد بودا
کبھی تو نہ توڑ سکتا اگر استوار ہوتا
کوئی میرے دل سے پوچھے ترے تیرِ نیم کش کو
یہ خلش کہاں سے ہوتی، جو جگر کے پار ہوتا
یہ کہاں کی دوستی ہے کہ بنے ہیں دوست نا صح
کوئی چارہ ساز ہوتا، کوئی غم گسار ہوتا
رگِ سنگ سے ٹپکتا وہ لہو کہ پھر نہ تھمتا
جسے غم سمجھ رہے ہو، یہ اگر شرار ہوتا
غم اگر چہ جاں گسل ہے پہ کہاں بچیں کہ دل ہے
غمِ عشق گر نہ ہوتا، غم روزگار ہوتا
کہوں کس سے میں کہ کیا ہے؟شب غم بری بلا ہے
مجھے کیا برا تھا مرنا، اگر ایک بار ہوتا
ہوئے مر کے ہم جو رسوا، ہوئے کیوں نہ غرق دریا؟
نہ کبھی جنازہ اٹھتا نہ کہیں مزار ہوتا
اسے کون دیکھ سکتا، کہ یگانہ ہے وہ یکتا
جو دوئی کی بو بھی ہوتی تو کہیں دو چار ہوتا
یہ مسائل تصّوف یہ ترا بیان غالب
تجھے ہم ولی سمجھتے ،جو نہ بادہ خوار ہوتا
مرزا اسد اللہ خان غالب

اک دو دن ہی میں وہ زار و زبوں خوار ہوا

دیوان ششم غزل 1805
جس ستم دیدہ کو اس عشق کا آزار ہوا
اک دو دن ہی میں وہ زار و زبوں خوار ہوا
روز بازار میں عالم کے عجب شے ہے حسن
بک گیا آپ ہی جو اس کا خریدار ہوا
دھوپ میں آگے کھڑا اس کے جلا کرتا ہوں
چاہ کر اس کے تئیں میں تو گنہگار ہوا
ہوش کچھ جن کے سروں میں تھا شتابی چیتے
حیف صد حیف کہ میں دیر خبردار ہوا
ہو بخود تو کسو کو ڈھونڈ نکالے کوئی
وہی خود گم ہوا جو اس کا طلبگار ہوا
مرغ دل کی ہے رہائی سے مرا دل اب جمع
پرشکن بالوں میں وہ اس کے گرفتار ہوا
پیار کی دیکھی جو چتون کسو کی میں جانا
کہ یہ اب سادہ و پرکار مرا یار ہوا
تکیہ اس پر جو کیا تھا سو گرا بستر پر
یعنی میں شوق کے افراط سے بیمار ہوا
کیونکے سب عمر صعوبت میں کٹی تیری میر
اپنا جینا تو کوئی دن ہمیں دشوار ہوا
میر تقی میر

تو جینا ہمیں اپنا دشوار ہو گا

دیوان ششم غزل 1798
جو تو ہی صنم ہم سے بیزار ہو گا
تو جینا ہمیں اپنا دشوار ہو گا
غم ہجر رکھے گا بیتاب دل کو
ہمیں کڑھتے کڑھتے کچھ آزار ہو گا
جو افراط الفت ہے ایسا تو عاشق
کوئی دن میں برسوں کا بیمار ہو گا
اچٹتی ملاقات کب تک رہے گی
کبھو تو تہ دل سے بھی یار ہو گا
تجھے دیکھ کر لگ گیا دل نہ جانا
کہ اس سنگدل سے ہمیں پیار ہو گا
لگا کرنے ہجران سختی سی سختی
خدا جانے کیا آخر کار ہو گا
یہی ہو گا کیا ہو گا میر ہی نہ ہوں گے
جو تو ہو گا بے یار و غم خوار ہو گا
میر تقی میر

جو اس چمن میں یہ اک طرفہ انتشار ہے آج

دیوان پنجم غزل 1592
کہوں سو کیا کہوں نے صبر نے قرار ہے آج
جو اس چمن میں یہ اک طرفہ انتشار ہے آج
سر اپنا عشق میں ہم نے بھی یوں تو پھوڑا تھا
پر اس کو کیا کریں اوروں کا اعتبار ہے آج
گیا ہے جانب وادی سوار ہوکر یار
غبار گرد پھرے ہے بہت شکار ہے آج
جہاں کے لوگوں میں جس کی تھی کل تئیں عزت
اسی عزیز کو دیکھا ذلیل و خوار ہے آج
سحر سواد میں چل زور پھولی ہے سرسوں
ہوا ہے عشق سے کل زرد کیا بہار ہے آج
سواری اس کی ہے سرگرم گشت دشت مگر
کہ خیرہ تیرہ نمودار یک غبار ہے آج
سپہر چھڑیوں میں کل تک پھرے تھا ساتھ اپنے
عجب ہے سب کا اسی سفلے پر مدار ہے آج
بخار دل کا نکالا تھا درد دل کہہ کر
سو درد سر ہے بدن گرم ہے بخار ہے آج
کسو کے آنے سے کیا اب کہ غش ہے کل دن سے
ہمیں تو اپنا ہی اے میر انتظار ہے آج
میر تقی میر

سو آئینہ سا صورت دیوار ہوا میں

دیوان سوم غزل 1194
تھا شوق مجھے طالب دیدار ہوا میں
سو آئینہ سا صورت دیوار ہوا میں
جب دور گیا قافلہ تب چشم ہوئی باز
کیا پوچھتے ہو دیر خبردار ہوا میں
اب پست و بلند ایک ہے جوں نقش قدم یاں
پامال ہوا خوب تو ہموار ہوا میں
کب ناز سے شمشیر ستم ان نے نہ کھینچی
کب ذوق سے مرنے کو نہ تیار ہوا میں
بازار وفا میں سرسودا تھا سبھوں کو
پر بیچ کے جی ایک خریدار ہوا میں
ہشیار تھے سب دام میں آئے نہ ہم آواز
تھی رفتگی سی مجھ کو گرفتار ہوا میں
کیا چیتنے کا فائدہ جو شیب میں چیتا
سونے کا سماں آیا تو بیدار ہوا میں
تم اپنی کہو عشق میں کیا پوچھو ہو میری
عزت گئی رسوائی ہوئی خوار ہوا میں
اس نرگس مستانہ کو دیکھے ہوئے برسوں
افراط سے اندوہ کی بیمار ہوا میں
رہتا ہوں سدا مرنے کے نزدیک ہی اب میر
اس جان کے دشمن سے بھلا یار ہوا میں
میر تقی میر

حال رکھا تھا کچھ بھی ہم نے عشق نے آخر مار رکھا

دیوان سوم غزل 1089
زار رکھا بے حال رکھا بے تاب رکھا بیمار رکھا
حال رکھا تھا کچھ بھی ہم نے عشق نے آخر مار رکھا
میلان اس کا تھا کاہے کو جانب الفت کیشوں کے
اپنی طرف سے ہم نے اب تک اس ظالم سے پیار رکھا
عشق بھی ہم میں ہائے تصرف کیسے کیسے کرتا ہے
دل کو چاک جگر کو زخمی آنکھوں کو خونبار رکھا
کیا پوچھو ہودیں کے اکابر فاضل کامل صابر رنج
عزت والے کیا لوگوں کو گلیوں میں ان نے خوار رکھا
کام اس سے اک طور پہ لیتے بے طور اس کو ہونے نہ دیتے
حیف ہے میر سپہر دوں نے ہم سے اس کو نہ یار رکھا
میر تقی میر

یہ جان سے گئے سب بیمار ایسے ہی تھے

دیوان دوم غزل 1006
مجنوں و کوہکن کو آزار ایسے ہی تھے
یہ جان سے گئے سب بیمار ایسے ہی تھے
شمس و قمر کے دیکھے جی اس میں جا رہے ہے
اس دل فروز کے بھی رخسار ایسے ہی تھے
دامن کے پاٹ سارے تختے ہوئے چمن کے
بس اے سرشک خونیں درکار ایسے ہی تھے
لوہو نہ کیوں رلائے ان کا گداز ہونا
یہ دل جگر ہمارے غم خوار ایسے ہی تھے
ہر دم جراحت آسا کب رہتے تھے ٹپکتے
یہ دیدئہ نمیں کیا خوں بار ایسے ہی تھے
آزاردہ دلوں کا جیسا کہ تو ہے ظالم
اگلے زمانے میں بھی کیا یار ایسے ہی تھے
ہو جائے کیوں نہ دوزخ باغ زمانہ ہم پر
ہم بے حقیقتوں کے کردار ایسے ہی تھے
دیوار سے پٹک سر میں جو موا تو بولا
کچھ اس ستم زدہ کے آثار ایسے ہی تھے
اک حرف کا بھی ان کو دفتر ہے کر دکھانا
کیا کہیے میر جی کے بستار ایسے ہی تھے
میر تقی میر

دل کہاں وقت کہاں عمر کہاں یار کہاں

دیوان دوم غزل 896
باغ گو سبز ہوا اب سر گلزار کہاں
دل کہاں وقت کہاں عمر کہاں یار کہاں
تم تو اب آنے کو پھر کہہ چلے ہو کل لیکن
بے کل ایسا ہی رہا شب تو یہ بیمار کہاں
دل کی خواہش ہو کسو کو تو کمی دل کی نہیں
اب یہی جنس بہت ہے پہ خریدار کہاں
خاک یاں چھانتے ہی کیوں نہ پھرو دل کے لیے
ایسا پہنچے ہے بہم پھر کوئی غم خوار کہاں
دم زدن مصلحت وقت نہیں اے ہمدم
جی میں کیا کیا ہے مرے پر لب اظہار کہاں
شیخ کے آنے ہی کی دیر ہے میخانے میں پھر
سبحہ سجادہ کہاں جبہ و دستار کہاں
ہم سے ناکس تو بہت پھرتے ہیں جی دیتے ولے
زخم تیغ اس کے اٹھانے کا سزاوار کہاں
تونے بھی گرد رخ سرخ نکالا خط سبز
باغ شاداب جہاں میں گل بے خار کہاں
خبط نے عقل کے سر رشتے کیے گم سارے
اب جو ڈھونڈو تو گریباں میں کوئی تار کہاں
گوکہ گردن تئیں یاں کوئی لہو میں بیٹھے
ہاتھ اٹھاتا ہے جفا سے وہ ستم گار کہاں
ڈوبا لوہو میں پڑا تھا ہمگی پیکر میر
یہ نہ جانا کہ لگی ظلم کی تلوار کہاں
میر تقی میر

الا کھینچ بغل میں تجھ کو دیر تلک ہم پیار کریں

دیوان دوم غزل 887
آج ہمارے گھر آیا تو کیا ہے یاں جو نثار کریں
الا کھینچ بغل میں تجھ کو دیر تلک ہم پیار کریں
خاک ہوئے برباد ہوئے پامال ہوئے سب محو ہوئے
اور شدائد عشق کی رہ کے کیسے ہم ہموار کریں
زردی رخ رونا ہر دم کا شاہد دو جب ایسے ہوں
چاہت کا انصاف کرو تم کیونکر ہم انکار کریں
باغ میں اب آجاتے ہیں تو صرفہ اپنا چپ میں ہے
خوبی بیاں کر تیری ہم کیا گل کو گلے کا ہار کریں
شیوہ اپنا بے پروائی نومیدی سے ٹھہرا ہے
کچھ بھی وہ مغرور دبے تو منت ہم سو بار کریں
ہم تو فقیر ہیں خاک برابر آ بیٹھے تو لطف کیا
ننگ جہاں لگتا ہو ان کو واں وے ایسی عار کریں
پتا پتا گلشن کا تو حال ہمارا جانے ہے
اور کہے تو جس سے اے گل بے برگی اظہار کریں
کیا ان خوش ظاہر لوگوں سے ہم یہ توقع رکھتے تھے
غیر کو لے کر پاس یہ بیٹھیں ہم کو گلیوں میں خوار کریں
میر جی ہیں گے ایک جو آئے کیا ہم ان سے درد کہیں
کچھ بھی جو سن پاویں تو یہ مجلس میں بستار کریں
میر تقی میر

بہت پرہیز کر ہم سے ہمیں بیمار کرتے ہیں

دیوان دوم غزل 884
امید دل دہی تھی جن سے وے آزار کرتے ہیں
بہت پرہیز کر ہم سے ہمیں بیمار کرتے ہیں
کوئی ہم سا بھی اپنی جان کا دشمن کہیں ہو گا
بھری مجلس میں بیٹھے عشق کے اقرار کرتے ہیں
نشاں دے ہیں جہاں اس کا وہ ہرجائی نہیں ملتا
محلے کے ہمیں اب لوگ یوں ہی خوار کرتے ہیں
حجاب ناکسی سے مر گئے روپوش کب تک ہوں
جنھوں سے عار تھی ہم کو سو ہم سے عار کرتے ہیں
چھپا لیتا ہے مجھ سے چاند سا منھ وہ خدا جانے
سخن ساز اس کنے جاجا کے کیا اظہار کرتے ہیں
الف کی رمز اگر سمجھا اٹھا دل بحث علمی سے
اسی اک حرف کو برسوں سے ہم تکرار کرتے ہیں
بہت ہے تیز آب جدول شمشیر خوباں کا
اسے پھر پار کردیں ہیں یہ جس پر وار کرتے ہیں
انوکھا تو کہ یاں فکر اقامت تجھ کو ہے ورنہ
سب اس دلکش جگہ سے رخت اپنا بار کرتے ہیں
بلا آفت ہے کچھ دل پر کہ ایسا رنگ ہے ان کا
کسو بے مہر کے تیں میر شاید پیار کرتے ہیں
میر تقی میر

گل اشتیاق سے میرے گلے کا ہار ہوا

دیوان دوم غزل 704
چمن میں جاکے جو میں گرم وصف یار ہوا
گل اشتیاق سے میرے گلے کا ہار ہوا
تمھارے ترکش مژگاں کی کیا کروں تعریف
جو تیر اس سے چلا سو جگر کے پار ہوا
ہماری خاک پہ اک بیکسی برستی ہے
ادھر سے ابر جب آیا تب اشکبار ہوا
کریں نہ کیونکے یہ ترکاں بلندپروازی
انھوں کا طائر سدرہ نشیں شکار ہوا
کبھو بھی اس کو تہ دل سے ملتے پایا پھر
فریب تھا وہ کوئی دن جو ہم سے یار ہوا
بہت دنوں سے درونے میں اضطراب سا تھا
جگر تمام ہوا خون تب قرار ہوا
شکیب میر جو کرتا تو وقر رہ جاتا
ادھر کو جاکے عبث یہ حبیب خوار ہوا
میر تقی میر

آج کل مجھ کو مار رہتا ہے

دیوان اول غزل 600
دل جو پر بے قرار رہتا ہے
آج کل مجھ کو مار رہتا ہے
تیرے بن دیکھے میں مکدر ہوں
آنکھوں پر اب غبار رہتا ہے
جبر یہ ہے کہ تیری خاطر دل
روز بے اختیار رہتا ہے
دل کو مت بھول جانا میرے بعد
مجھ سے یہ یادگار رہتا ہے
دور میں چشم مست کے تیری
فتنہ بھی ہوشیار رہتا ہے
بسکہ تیرا ہوا بلا گرداں
سر کو میرے دوار رہتا ہے
ہر گھڑی رنجش ایسی باتوں میں
کوئی اخلاص و پیار رہتا ہے
تجھ بن آئے ہیں تنگ جینے سے
مرنے کا انتظار رہتا ہے
دل کو گو ہاتھ میں رکھو اب تم
کوئی یہ بے قرار رہتا ہے
غیر مت کھا فریب خلق اس کا
کوئی دم میں وہ مار رہتا ہے
پی نہ ہرگز شراب جیسا چاہ
اس کے نشے کا تار رہتا ہے
پر ہو پیمانہ عمر کا جب تک
تب تلک یہ خمار رہتا ہے
دلبرو دل چراتے ہو ہر دم
یوں کہیں اعتبار رہتا ہے
کیوں نہ ہووے عزیز دلہا میر
کس کے کوچے میں خوار رہتا ہے
میر تقی میر

دل کی معاملت ہے کیا کوئی خوار ہووے

دیوان اول غزل 579
وعدہ وعید پیارے کچھ تو قرار ہووے
دل کی معاملت ہے کیا کوئی خوار ہووے
فتراک سے نہ باندھے دیکھے نہ تو تڑپنا
کس آرزو پہ کوئی تیرا شکار ہووے
از بس لہو پیا ہے میں تیرے غم میں گل رو
تربت سے میری شاید حشر بہار ہووے
مرنا بھلا ہے ظالم اس زندگی بد سے
یوں چاہیے کہ کوئی تجھ سے نہ یار ہووے
میں مست مرگیا ہوں کرنا عجب نہ ساقی
گر سنگ شیشہ میرا سنگ مزار ہووے
وابست آسماں کا ملتا ہے خاک ہی میں
اس بے مدار اوپر کس کا مدار ہووے
اے غیر میر تجھ کو گر جوتیاں نہ مارے
سید نہ ہووے پھر تو کوئی چمار ہووے
میر تقی میر

مر جائے ولے اس کو یہ آزار نہ ہووے

دیوان اول غزل 507
یارب کوئی ہو عشق کا بیمار نہ ہووے
مر جائے ولے اس کو یہ آزار نہ ہووے
زنداں میں پھنسے طوق پڑے قید میں مر جائے
پر دام محبت میں گرفتار نہ ہووے
اس واسطے کانپوں ہوں کہ ہے آہ نپٹ سرد
یہ بائو کلیجے کے کہیں پار نہ ہووے
صد نالۂ جانکاہ ہیں وابستہ چمن سے
کوئی بال شکستہ پس دیوار نہ ہووے
پژمردہ بہت ہے گل گلزار ہمارا
شرمندئہ یک گوشۂ دستار نہ ہووے
مانگے ہے دعا خلق تجھے دیکھ کے ظالم
یارب کسو کو اس سے سروکار نہ ہووے
کس شکل سے احوال کہوں اب میں الٰہی
صورت سے مری جس میں وہ بیزار نہ ہووے
ہوں دوست جو کہتا ہوں سن اے جان کے دشمن
بہتر تو تجھے ترک ہے تا خوار نہ ہووے
خوباں برے ہوتے ہیں اگرچہ ہیں نکورو
بے جرم کہیں ان کا گنہگار نہ ہووے
باندھے نہ پھرے خون پر اپنی تو کمر کو
یہ جان سبک تن پہ ترے بار نہ ہووے
چلتا ہے رہ عشق ہی اس پر بھی چلے تو
پر ایک قدم چل کہیں زنہار نہ ہووے
صحراے محبت ہے قدم دیکھ کے رکھ میر
یہ سیر سر کوچہ و بازار نہ ہووے
میر تقی میر

دیکھا کریں ہیں ساتھ ترے یار ایک دو

دیوان اول غزل 402
کرتے بیاں جو ہوتے خریدار ایک دو
دیکھا کریں ہیں ساتھ ترے یار ایک دو
قید حیات قید کوئی سخت ہے کہ روز
مر رہتے ہیں گے اس کے گرفتار ایک دو
کس کس پہ اس کو ہووے نظر یاں ہر ایک شب
جی دیں ہیں اس کی چشم کے بیمار ایک دو
تو تو دوچار ہوکے گیا کب کا یاں ہنوز
گذریں ہیں اپنی جان سے ناچار ایک دو
ابروے تیغ زن کی تمھارے تو کیا چلی
کردے ہے جس کا لاگتے ہی وار ایک دو
ٹک چشم میں بھی سرمے کا دنبالہ کھینچیے
اس مست کے بھی ہاتھ میں تلوار ایک دو
کیا کیا عزیز دوست ملے میر خاک میں
کچھ اس گلی میں ہم ہی نہیں خوار ایک دو
میر تقی میر

سرو و قمری شکار ہوتے ہیں

دیوان اول غزل 315
خوش قداں جب سوار ہوتے ہیں
سرو و قمری شکار ہوتے ہیں
تیرے بالوں کے وصف میں میرے
شعر سب پیچ دار ہوتے ہیں
آئو یاد بتاں پہ بھول نہ جائو
یہ تغافل شعار ہوتے ہیں
دیکھ لیویں گے غیر کو تجھ پاس
صحبتوں میں بھی یار ہوتے ہیں
صدقے ہولیویں ایک دم تیرے
پھر تو تجھ پر نثار ہوتے ہیں
تو کرے ہے قرار ملنے کا
ہم ابھی بے قرار ہوتے ہیں
ہفت اقلیم ہر گلی ہے کہیں
دلی سے بھی دیار ہوتے ہیں
رفتہ رفتہ یہ طفل خوش ظاہر
فتنۂ روزگار ہوتے ہیں
اس کے نزدیک کچھ نہیں عزت
میرجی یوں ہی خوار ہوتے ہیں
میر تقی میر

کرتا ہے چرخ مجھ سے نئے یار ایک طرح

دیوان اول غزل 195
خاطر کرے ہے جمع وہ ہر بار ایک طرح
کرتا ہے چرخ مجھ سے نئے یار ایک طرح
میں اور قیس و کوہکن اب جو زباں پہ ہیں
مارے گئے ہیں سب یہ گنہگار ایک طرح
منظور اس کو پردے میں ہیں بے حجابیاں
کس سے ہوا دوچار وہ عیار ایک طرح
سب طرحیں اس کی اپنی نظر میں تھیں کیا کہیں
پر ہم بھی ہو گئے ہیں گرفتار ایک طرح
گھر اس کے جاکے آتے ہیں پامال ہوکے ہم
کریے مکاں ہی اب سر بازار ایک طرح
گہ گل ہے گاہ رنگ گہے باغ کی ہے بو
آتا نہیں نظر وہ طرحدار ایک طرح
نیرنگ حسن دوست سے کر آنکھیں آشنا
ممکن نہیں وگرنہ ہو دیدار ایک طرح
سو طرح طرح دیکھ طبیبوں نے یہ کہا
صحت پذیر ہوئے یہ بیمار ایک طرح
سو بھی ہزار طرح سے ٹھہراوتے ہیں ہم
تسکین کے لیے تری ناچار ایک طرح
بن جی دیے ہو کوئی طرح فائدہ نہیں
گر ہے تو یہ ہے اے جگر افگار ایک طرح
ہر طرح تو ذلیل ہی رکھتا ہے میر کو
ہوتا ہے عاشقی میں کوئی خوار ایک طرح
میر تقی میر

بکیں گے سر اور کم خریدار ہو گا

دیوان اول غزل 77
محبت کا جب روز بازار ہو گا
بکیں گے سر اور کم خریدار ہو گا
تسلی ہوا صبر سے کچھ میں تجھ بن
کبھی یہ قیامت طرحدار ہو گا
صبا موے زلف اس کا ٹوٹے تو ڈر ہے
کہ اک وقت میں یہ سیہ مار ہو گا
مرا دانت ہے تیرے ہونٹوں پہ مت پوچھ
کہوں گا تو لڑنے کو تیار ہو گا
نہ خالی رہے گی مری جاگہ گر میں
نہ ہوں گا تو اندوہ بسیار ہو گا
یہ منصور کا خون ناحق کہ حق تھا
قیامت کو کس کس سے خوں دار ہو گا
عجب شیخ جی کی ہے شکل و شمائل
ملے گا تو صورت سے بیزار ہو گا
نہ رو عشق میں دشت گردی کو مجنوں
ابھی کیا ہوا ہے بہت خوار ہو گا
کھنچے عہد خط میں بھی دل تیری جانب
کبھو تو قیامت طرحدار ہو گا
زمیں گیر ہو عجز سے تو کہ اک دن
یہ دیوار کا سایہ دیوار ہو گا
نہ مرکر بھی چھوٹے گا اتنا رکے گا
ترے دام میں جو گرفتار ہو گا
نہ پوچھ اپنی مجلس میں ہے میر بھی یاں
جو ہو گا تو جیسے گنہگار ہو گا
میر تقی میر

تا بہ روح الامیں شکار ہوا

دیوان اول غزل 22
سنیو جب وہ کبھو سوار ہوا
تا بہ روح الامیں شکار ہوا
اس فریبندہ کو نہ سمجھے آہ
ہم نے جانا کہ ہم سے یار ہوا
نالہ ہم خاکساروں کا آخر
خاطر عرش کا غبار ہوا
جو نہ کہنا تھا سو بھی میں نے کہا
دل کی بے طاقتی سے خوار ہوا
پھر گیا ہے زمانہ کیا کہ مجھے
ہوتے خوار ایک روزگار ہوا
مر چلے بے قرار ہوکر ہم
اب تو تیرے تئیں قرار ہوا
وہ جو خنجر بکف نظر آیا
میر سو جان سے نثار ہوا
میر تقی میر

آپ کو یار پسند اور مجھے دار پسند

آفتاب اقبال شمیم ۔ غزل نمبر 23
بس کہ فطرت نے بنایا ہمیں آزاد پسند
آپ کو یار پسند اور مجھے دار پسند
جیت کر جانئے کیوں ، میں بھی ذرا خوش نہ ہوا
اور دنیا نے بھی میرے لئے کی ہار پسند
ڈال دے وہ بھی جو آنکھوں میں چھپا رکھی ہو
ایسی کنجوسیاں کرتے نہیں مے خوار پسند
ساتھ ہی لے گیا پرسش کی تمنا شاید
ہائے وہ سب سے جدا شاعرِ دشوار پسند
اُن کے آلاتِ صدا جو بھی کہیں خوب کہیں
وُہ بڑے لوگ ہیں کرتے نہیں انکار پسند
موت آسان تھی جینے سے مگر کیا کیجئے
آ گئی در کے بجائے مجھے دیوار پسند
آفتاب اقبال شمیم

خیموں میں بہت دیر سے بیدار ہیں ہم بھی

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 229
ہو صبح کہ سر دینے پہ تیار ہیں ہم بھی
خیموں میں بہت دیر سے بیدار ہیں ہم بھی
نسبت ہے اُسی قافلۂ اہل وفا سے
واماندہ سر کوچہ و بازار ہیں ہم بھی
کب لوٹیں گے وہ وادئ غربت کے مسافر
اک عمر سے روشن سر دیوار ہیں ہم بھی
ہم کو بھی مصاف لب دریا کی اجازت
کچھ تشنہ دہاں بچوں کے غم خوار ہیں ہم بھی
ہم کو بھی ملے معرکۂ صبر میں نصرت
کچھ ناقہ نشینوں کے نگہ دار ہیں ہم بھی
کوثر پہ بھی لے چل ہمیں اے قافلہ سالار
آخر تو غبار پس رہوار ہیں ہم بھی
روشن ہمیں رکھتا ہے یہی درد جہاں تاب
ان کشتہ چراغوں کے عزاوار ہیں ہم بھی
اے مالک کل، سید سجاد کا صدقہ
یہ بند گراں کھول کہ بیمار ہیں ہم بھی
عرفان صدیقی

ہند کی سب سے بڑی سرکار نو شہ گنج بخشؒ

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 191
برکتوں کا مطلع ء انوار نو شہ گنج بخشؒ
ہند کی سب سے بڑی سرکار نو شہ گنج بخشؒ
جا نشینِ غو ث اعظمؒ ، افتخا رِ اولیا
وا قف اسرار در اسرار نو شہ گنج بخشؒ
حاکم مِلک شر یعت ، مالک ، شہر سلوک
در سعادت نقطہ ء پرکار نو شہ گنج بخشؒ
آفتا بِ فیضِ عالم ہیں جہا ں پر غو ث پاکؒ
اُس فلک پر ثا بت و سیار نو شہ گنج بخشؒ
صر ف مشر ق میں نہیں ان کی ولا یت کا ظہو ر
خا کِ مغر ب پہ بھی رحمت بار نو شہ گنج بخشؒ
بر ق نو شاہی ؒ سے لے کر حضرت معر و ف تک
نیکیوں سے اک بھرا گلزار نو شہ گنج بخشؒ
چو متے ہیں حا ملانِ جبہ ود ستا ر پا ئو ں
محتر م اتنا سگِ دربار نو شہ گنج بخشؒ
عالمِ لاہو ت کی صبح مقد س ان کی ذا ت
رو شنی کا نر م و حد ت زار نو شہ گنج بخشؒ
بخش دیں بینا ئی نا بینا ئو ں کو اک دید سے
ہم نہیں کہتے ہیں یہ ، اوتار نو شہ گنج بخشؒ
ہر قدم اس شخص کا پھر بخت آور ہو گیا
مہر با ں جس پہ ہو ئے اک بار نو شہ گنج بخشؒ
زہد و تقو یٰ ، فقر و فا قہ اور عمل کے با ب میں
اک مجسم نو ر کا اظہار نو شہ گنج بخشؒ
وہ مجد د ہیں ہز ا ر وں سا ل پر پھیلے ہو ئے
یو ں سمجھ لو حا صلِ ادوار نو شہ گنج بخشؒ
منز ل علم و فضلیت ، رو نق را ہِ سلو ک
کشفِ مصطفو ی ؐ کے پیر و کار نو شہ گنج بخشؒ
کہتے ہیں بے رو ح جسمو ں کو جگا تا تھا مسیح
مر دہ دل کر دیتے ہیں بیدار نو شہ گنج بخشؒ
ہا ں ! سر تسلیم خم کر تا ہے در یا ئے چنا ب
پانیوں کے جیسے ہیں مختار نو شہ گنج بخشؒ
غو ثِ اعظم ؒ کے شجر کا خو شہ ء فقر و سلو ک
قا دری گلز ا ر کے پندار نو شہ گنج بخشؒ
شمعِ عر فا ن الہی ، شب زدو ں کی رو شنی
سا عتِ پر نو ر سے سر شار نو شہ گنج بخشؒ
دا ستا نو ں میں مر یدِ با صفا ہیں آپ کے
صا حبا ں مر ز ا کے بھی کر دار نو شہ گنج بخشؒ
جن و انسا ں ہی نہیں ہیں آپ کے خدا م میں
آپ کے قد سی ہیں خد متگار نو شہ گنج بخشؒ
پا ئے نو شہ کے تلے بہتے ہیں در یا ئے بہشت
سا قی ء کو ثر ؐ کے ہیں میخوار نو شہ گنج بخشؒ
آپ کا اسمِ گرا می وقت کے ہو نٹو ں پہ ہے
تذ کر ہ کر تا ہے سب سنسار نو شہ گنج بخشؒ
صر ف یو ر پ ہی نہیں ہے آپ کے ہیں معتقد
ہند سند ھ اور کا بل و قندھار نو شہ گنج بخشؒ
حکمرا نو ں کی جبینیں ان کے در پہ خم ہو ئیں
مو تیو ں والے سخی سردار نو شہ گنج بخشؒ
مو ج بن جا ئے گی کشتی تیر ے میرے وا سطے
یو ں اتا ریں گے ہمیں اس پار نو شہ گنج بخشؒ
اس شجر پر مو سمو ں کی ضر ب پڑ تی ہی نہیں
کس تسلسل سے ہیں سایہ دار نو شہ گنج بخشؒ
انبسا ط و لطف کا پہلو جہا ں کے وا سطے
نسلِ انسا نی کے ہیں غم خوار نو شہ گنج بخشؒ
کیوں نہ ہو ں عر فا ن کے مو تی در و دیوار میں
قصرِ نو شا ہی کے ہیں معمار نو شہ گنج بخشؒ
سلسہ نو شا ہیہ کا ہر جر ی ہے اولیا ء
لشکرِ حق کے جو ہیں سا لار نو شہ گنج بخشؒ
آپ کے در کے فقیر وں میں قطب اقطا ب ہیں
کون عظمت سے کر ے انکار نو شہ گنج بخشؒ
نو رو ں نہلا ئے ہو ئے چہر ے کی کر نیں اور ہم
کیا صبا حت خیز تھے رخسار نو شہ گنج بخشؒ
آپکے فیضِ نظر کی دا ستا ں اتنی ہے بس
سب مسلما ں ہو گئے کفار نو شہ گنج بخشؒ
اعتما دِ ذا ت کی کچھ غیر فا نی سا عتیں
آپ کے دم سے کر امت بار نو شہ گنج بخشؒ
بد عقید ہ زند گا نی کی سلگتی دھو پ میں
آپ ٹھہر ے سا یہء دیوار نو شہ گنج بخشؒ
ابن عر بی ؒ کے تصو ف کی کہا نی کیا کر وں
ہیں عد م کا اک عجب اظہار نو شہ گنج بخشؒ
مل گئی ان کی دعا سے کتنی دنیا کو شفا
امتِ بیما ر کے عطار نو شہ گنج بخشؒ
سن رہا ہوں آج تک عشقِ محمد ؐ کی اذا ں
مسجد نبوی کا اک مینار نو شہ گنج بخشؒ
فر ض ہے ہر شخص پر ذکر گرا می آپ کا
ایک اک نو شا ہی کا پر چار نو شہ گنج بخشؒ
تر دما غو ں میں یہ صبح فکر کی رعنا ئیاں
ٍٍٍآپ کے بس آپ کے افکار نو شہ گنج بخشؒ
معتر ف ہے ذہن انسا ں آپ کے عر فان کا
دل غلا می کا کر ے اقرار نو شہ گنج بخشؒ
خا کِ رنمل کو مسیحا ئی کی رفعت مل گئی
ہیں وہا ں جو دفن زند ہ دار نو شہ گنج بخشؒ
اک ذر اچشمِ عنا یت چا ہتا ہو ں آپ کی
آپ کا مجھ کو کر م در کار نو شہ گنج بخشؒ
کھو ل در واز ے جہا ں با نی کے میر ی ذا ت پر
میں بہت ہو ں مفلس و نا دار نو شہ گنج بخشؒ
چہر ہ ء انوا ر کی بس اک تجلی دے مجھے
خوا ب ہی میں بخش دے دیدار نو شہ گنج بخشؒ
حضرت معر و ف نو شا ہی کی فر ما ئش ہو ئی
پرُ سعا د ت یہ لکھے اشعار نو شہ گنج بخشؒ
منقبت منصو ر پڑ ھ پو رے ادب آداب سے
سن رہے ہیں شعر خو د سر کار نو شہ گنج بخشؒ
منصور آفاق

یہ نہ تھا تو کاش دل پر مجھے اختیار ہوتا

امیر مینائی ۔ غزل نمبر 2
میرے بس میں یا تو یارب وہ ستم شعار ہوتا
یہ نہ تھا تو کاش دل پر مجھے اختیار ہوتا
پس مرگ کاش یوں ہی مجھے وصل یار ہوتا
وہ سر مزار ہوتا، میں تہِ مزار ہوتا
ترا میکدہ سلامت، ترے خم کی خیر ساقی
مرا نشہ کیوں اُترتا، مجھے کیوں‌ خمار ہوتا
مرے اتقا کا باعث تو ہے مری ناتوانی
جو میں توبہ توڑ سکتا تو شراب خوار ہوتا
میں ہوں‌ نامراد ایسا کہ بلک کے یاس روتی
کہیں پا کے آسرا کچھ جو امیدوار ہوتا
نہیں پوچھتا ہے مجھ کو کوئی پھول اس چمن میں
دلِ داغدار ہوتا ہو گلے کا ہار ہوتا
وہ مزا دیا تڑپ نے کہ یہ آرزو ہے یارب
مرے دونوں پہلوؤں میں دل بیقرار ہوتا
دمِ نزع بھی جو وہ بُت مجھے آ کے منہ دکھاتا
تو خدا کے منہ سے اتنا نہ میں شرمسار ہوتا
نہ مَلَک سوال کرتے، نہ لحد فِشار دیتی
سر راہِ کوئے قاتل جو مرا مزار ہوتا
جو نگاہ کی تھی ظالم تو پھر آنکھ کیوں چُرائی
وہی تیر کیوں نہ مارا جو جگر کے پار ہوتا
میں زباں سے تم کو سچا کہوں لاکھ بار کہہ دوں
اسے کیا کروں کہ دل کو نہیں اعتبار ہوتا
مری خاک بھی لحد میں نہ رہی امیر باقی
انہیں مرنے ہی کا اب تک نہیں اعتبار ہوتا
امیر مینائی