ٹیگ کے محفوظات: تنہا

سب کی دنیا سے ماورا، تنہا

۳ جنوری ۱۹۹۱
سب کی دنیا سے ماورا، تنہا
میَں ہوں تنہا، مرا خدا، تنہا
 
ساتھ اس کے ہجوم چل نکلے
جو بھی رستوں پہ چل پڑا تنہا
 
نوعِ ہر نسل مر گئی آخر
وقت رستوں پہ رہ گیا تنہا
 
اپنی تنہائیوں کی محفل میں
مجھ کو جو بھی ملا، ملا تنہا
 
گرد اِس کو نہ ڈھانپ دے یاؔور
دل مرا ایک آئنہ تنہا
 
یاور ماجد

میں ایسا چاہتا کب تھا پر ایسا ہو گیا ہے

مرے خواب سے اوجھل اُس کا چہرہ ہو گیا ہے
میں ایسا چاہتا کب تھا پر ایسا ہو گیا ہے
تعلق اب یہاں کم ہے ملاقاتیں زیادہ
ہجومِ شہر میں ہر شخص تنہا ہو گیا ہے
تری تکمیل کی خواہش تو پوری ہو نہ پائی
مگر اک شخص مجھ میں بھی ادھورا ہو گیا ہے
جو باغِ آرزو تھا اب وہی ہے دشتِ وحشت
یہ دل کیا ہونے والا تھا مگر کیا ہو گیا ہے
میں سمجھا تھا سیئے گی آگہی چاکِ جنوں کو
مگر یہ زخم تو پہلے سے گہرا ہو گیا ہے
میں تجھ سے ساتھ بھی تو عمر بھر کا چاہتا تھا
سو اب تجھ سے گلہ بھی عمر بھر کا ہو گیا ہے
ترے آنے سے آیا کون سا ایسا تغیر
فقط ترکِ مراسم کا مداوا ہو گیا ہے
مرا عالم اگر پوچھیں تو اُن سے عرض کرنا
کہ جیسا آپ فرماتے تھے ویسا ہو گیا ہے
میں کیا تھا اور کیا ہوں اور کیا ہونا ہے مجھ کو
مرا ہونا تو جیسے اک تماشا ہو گیا ہے
یقینا ہم نے آپس میں کوئی وعدہ کیا تھا
مگر اس گفتگو کو ایک عرصہ ہو گیا ہے
اگرچہ دسترس میں آ گئی ہے ساری دنیا
مگر دل کی طرف بھی ایک در وا ہو گیا ہے
یہ بے چینی ہمیشہ سے مری فطرت ہے لیکن
بقدرِ عمر اس میں کچھ اضافہ ہو گیا ہے
مجھے ہر صبح یاد آتی ہے بچپن کی وہ آواز
چلو عرفانؔ اٹھ جاؤ سویرا ہو گیا ہے
عرفان ستار

میری حالت تو کوئی دیکھنے والا سمجھے

جو ہو خود ایک تماشا وہ بھلا کیا سمجھے
میری حالت تو کوئی دیکھنے والا سمجھے
مجھ میں آباد ہے اک شہر، ترے حُسن کا شہر
وہ جو باہر سے مجھے دیکھے وہ تنہا سمجھے
مجھ سے ممکن یہ نہیں ہے کہ میں کھل کر کہہ دوں
اس کے بس میں یہ نہیں ہے کہ اشارہ سمجھے
آہ ایسی، کہ سنے کوئی تو سمجھے نغمہ
اشک ایسا، کوئی دیکھے تو ستارا سمجھے
ٹھیک ہے دشت بھی ہوں، باغ بھی ہوں، دریا بھی
جس کو جیسا نظر آؤں مجھے ویسا سمجھے
لفظ پردہ ہیں، اسے کاش بتا دے کوئی
اس کو سمجھائے کہ سمجھے، مرا لہجہ سمجھے
بس یہی ہے جو میّسر ہے مرے قرب کے ساتھ
جو مرے دل میں بسے وہ اِسے دنیا سمجھے
سانحہ کرکے سنایا تھا اُسے رنجِ فراق
سُن کے بس اتنا کہا اُس نے کہ ’’اچھا۔ ۔ ۔ سمجھے‘‘
دل کسی حرفِ ملائم سے سنبھل بھی جاتا
میرے سینے میں اچھلتا ہے بگولا، سمجھے؟
وصل سے اِن کے نمو پاتی ہے اک کیفیۤت
کوئی الفاظ و معانی کا یہ رشتہ سمجھے
اتنا دشوار ہوں کیا میں جو کسی پر نہ کھلوں؟
کوئی تو ہو مجھے میرے علاوہ سمجھے
ابھی سمجھو تو میں کیا خوب سخن تم سے کروں
بعد میرے مجھے سمجھے بھی تو پھر کیا سمجھے
تُو سمجھتا ہے اُسے، شکر بجا لا عرفان
وہ جسے دیر نہ کعبہ، نہ کلیسا سمجھے
عرفان ستار

پھر شہرِ کم نگاہ میں تنہا کیا مجھے

پہلے تو میری ذات میں یکتا کیا مجھے
پھر شہرِ کم نگاہ میں تنہا کیا مجھے
اک بے صدا ہجوم رہا گوش بر سخن
میں خوش بیان تھا سو تماشا کیا مجھے
عجلت میں کیوں ہیں سب، یہ کسی کو نہیں خبر
کس عہدِ بدحواس میں پیدا کیا مجھے
میں لشکرِ عدو کے مقابل ڈٹا رہا
آخر کو تیغِ یار نے پسپا کیا مجھے
بس اک غزل کا شعر سنانے کی دیر تھی
پھر حُسن انہماک سے دیکھا کیا مجھے
خوشبو تھا میں، بکھرنا مرا اختصاص تھا
ان ذمّہ داریوں نے اکھٹا کیا مجھے
ہنگامہِ جنوں کو یہ مہلت قلیل ہے
کیوں عرصہ گاہِ دہر میں برپا کیا مجھے
میری وفا نے مجھ کو کیا تھا ترے سپرد
تیری جفا نے مجھ کو مہیّا کیا مجھے
کوئی دوا، نہ کوئی دعا کارگر ہوئی
عرفان،اک نگاہ نے اچھا کیا مجھے
عرفان ستار

سمجھ میں کچھ نہیں آتا کہ ہم کیا کررہے ہیں

غموں میں کچھ کمی یا کچھ اضافہ کر رہے ہیں
سمجھ میں کچھ نہیں آتا کہ ہم کیا کررہے ہیں
جو آتا ہے نظر میں اُس کو لے آتے ہیں دل میں
نئی ترکیب سے ہم خود کو تنہا کررہے ہیں
نظر کرتے ہیں یوں جیسے بچھڑنے کی گھڑی ہو
سخن کرتے ہیں ایسے جیسے گریہ کررہے ہیں
تمہارے ہی تعلق سے تو ہم ہیں اس بدن میں
تمہارے ہی لیے تو یہ تماشا کررہے ہیں
زوال آمادگی اب گونجتی ہے دھڑکنوں میں
سو دل سے خواہشوں کا بوجھ ہلکا کررہے ہیں
سخن تم سے ہو یا احباب سے یا اپنے دل سے
یہی لگتا ہے ہم ہر بات بے جا کررہے ہیں
تمہاری آرزو ہونے سے پہلے بھی تو ہم تھے
سو جیسے بن پڑے اب بھی گزارا کررہے ہیں
ذرا پوچھے کوئی معدوم ہوتے ان دکھوں سے
ہمیں کس کے بھروسے پر اکیلا کررہے ہیں
ہمیں روکے ہوئے ہے پاسِ ناموسِ محبت
یہ مت سمجھو کہ ہم دنیا کی پروا کررہے ہیں
بجز سینہ خراشی کچھ نہیں آتا ہے لیکن
ذرا دیکھو تو ہم یہ کام کیسا کررہے ہیں
ہمیں اس کام کی مشکل کا اندازہ ہے صاحب
بڑے عرصے سے ہم بھی ترکِ دنیا کررہے ہیں
جو ہو گی صبح تو تقسیم ہوجائیں گے پھر ہم
ڈھلی ہے شام تو خود کو اکھٹا کررہے ہیں
جنوں سے اتنا دیرینہ تعلق توڑ دیں گے؟
ارے توبہ کریں عرفان، یہ کیا کررہے ہیں؟
عرفان ستار

رُوح و بدن کا کوئی مداوا کیے بغیر

مَت جائیے علاجِ تمنّا کیے بغیر
رُوح و بدن کا کوئی مداوا کیے بغیر
حیرت ہے تُو سکون سے ہے اے مِرے طبیب
اپنے مریضِ ہجر کو اچّھا کیے بغیر
میرے خلوصِ عشق کی رفعت پَہ غور کر
دیکھا کِیا میں تجھ کو تمنّا کیے بغیر
یادوں کے اِک ہجوم میں ضامنؔ! وہ چھوڑ کر
تنہائی دے گیا مجھے تنہا کیے بغیر
ضامن جعفری

اب دیکھئے شکایتِ بیجا نہ کیجئے

کس نے کہا تھا حسن کا دیوانہ کیجئے
اب دیکھئے شکایتِ بیجا نہ کیجئے
یا غیر سے بھی کیجئے محفل میں احتیاط
یا مجھ کو انجمن میں بلایا نہ کیجئے
ناکام ہو چکی رَوِشِ عجز و انکسار
اب اُن سے عرضِ حال دلیرانہ کیجئے
سرکار مانئے تو کٹھن ہے رہِ حیات
کافی سفر طویل ہے تنہا نہ کیجئے
اے دل نگاہِ ناز بڑی مہرباں ہے آج
کیوں انتظارِ ساقی و پیمانہ کیجئے
پوچھا تھا اُن سے ہجر میں کیونکر ہوئی بسر
مُنہ پھیر کر کہا کہ ستایا نہ کیجئے
چھُٹ جائے پھر نہ دامنِ صبر و رضا کہیں
گر ہو سکے تو خواب میں آیا نہ کیجئے
کمسن ہیں سنگ دل نہیں سمجھے نہ ہوں گے بات
دامانِ صبر ہاتھ سے چھوڑا نہ کیجئے
ضامنؔ وہ لے کے بھول گئے دل تو کیا ہُوا
ہے مقتضائے ظرف تقاضا نہ کیجئے
ضامن جعفری

وہ کسی کو بھی کہیِں کا نہیں رہنے دیتا

غیر تو غیر خود اپنا نہیں رہنے دیتا
وہ کسی کو بھی کہیِں کا نہیں رہنے دیتا
اُس کی آواز ہے دشمن مرے سنّاٹوں کی
اُس کا چہرہ مجھے تنہا نہیں رہنے دیتا
وہ مجھے بھول چکا ہے تو یہ سب کچھ کیا ہے
کیوں کوئی بزم میں مجھ سا نہیں رہنے دیتا
بھرنے لگتے ہیں تو یادوں پہ اثر پڑتا ہے
دل کے زخموں کو میں اچھا نہیں رہنے دیتا
وہ کہیں راہ میں مل جائے تو پوچھوں ضامنؔ
کیوں کبھی مجھ کو اکیلا نہیں رہنے دیتا
ضامن جعفری

ہو کوئی بے بَصَر تَو بھَلا کیا دکھائی دے

حُسنِ نظر کو حُسن ہر اِک جا دکھائی دے
ہو کوئی بے بَصَر تَو بھَلا کیا دکھائی دے
خوش رنگیِ چمن بھی ہے غارت گرِ سکوں
گلشن بہ ہر نظر رخِ زیبا دکھائی دے
رشکِ صد انجمن ہے وہ تنہا اگر ملے
آجائے انجمن میں تَو تنہا دکھائی دے
اِس انجمن میں سَب کو ہے اپنی پڑی ہُوئی
دربارِ حُسن حشر کا نقشا دکھائی دے
الزامِ خودکُشی ہمیں دینے سے پیشتر
قاتل سے بھی کہیَں نہ مسیحا دکھائی دے
کب تک پیے گا شہر میں آنسو ہر ایک شخص
ہے کوئی جس کو قطرے میں دریا دکھائی دے
ضامنؔ! یہ کیسا گلشنِ امّید ہے جہاں
ہر برگِ گل پہ خونِ تمنّا دکھائی دے
ضامن جعفری

نقشِ وفا ہُوں نقشِ کفِ پا نہیں ہُوں میں

اے گردبادِ وقت! بکھرتا نہیں ہُوں میں
نقشِ وفا ہُوں نقشِ کفِ پا نہیں ہُوں میں
حیرت سرا ہُوں شہرِ تمنّا نہیں ہُوں میں
مایوس ہو نہ مجھ سے کہ تجھ سا نہیں ہُوں میں
دیکھا ضرور سب نے رُکا کوئی بھی نہیں
کہتا رہا ہر اِک سے تماشا نہیں ہُوں میں
رَستے میں مِل گیا ہُوں تَو کچھ استفادہ کر
ہُوں سنگِ مِیل پاؤں میں کانٹا نہیں ہُوں میں
بیٹھا جو لے کے خود کو تَو معلوم یہ ہُوا
تنہا دِکھائی دیتا ہُوں تنہا نہیں ہُوں میں
ہَمدَردِیوں کے خوف سے ضامنؔ یہ حال ہے
اب دل پہ ہاتھ رکھ کے نکلتا نہیں ہُوں میں
ضامن جعفری

اَب ذَوق نہیں ہے کہ تَماشا نہیں ہوتا

اے حُسنِ نَظَر کیوں تِرا چَرچا نہیں ہوتا
اَب ذَوق نہیں ہے کہ تَماشا نہیں ہوتا
تجسیمِ تصوّر کی کرامات تَو دیکھو
عاشق شبِ ہجراں میں بھی تَنہا نہیں ہوتا
کیا تَذکرۂ مہر و وفا بیٹھے ہو لے کر
پہلے کبھی ہوتا تھا اب ایسا نہیں ہوتا
یہ رَشک ہے دُنیا اِسے مانے کہ نہ مانے
رُسوا جِسے کہتے ہیں وہ رُسوا نہیں ہوتا
تُم دَردِ محبّت سے گُذَر لو تَو یقیں آئے
یہ دَرد ہے وہ جس کا مداوا نہیں ہوتا
ضامنؔ! اُنہیں اِصرار ہے جو چاہیں کہیَں ہم
اُور ہم سے سرِ بزم تقاضا نہیں ہوتا
ضامن جعفری

جو ہاتھ دل پہ تھا یدِ بیضا نہیں ہُوا

اِتنا بھی تجھ سے سوزِ تمنّا نہیں ہُوا
جو ہاتھ دل پہ تھا یدِ بیضا نہیں ہُوا
بخشی وفا کو اُس نے یہ کہہ کر حیاتِ نَو
حیرت ہے کوئی زخم پُرانا نہیں ہُوا
تنہائی بولنے لگی، تم جب چلے گئے
وہ انہماک تھا کہ میں تنہا نہیں ہُوا
ہم بھی ملے تھے دل سے، جب اُن سے ملا تھا دل
لیکن پھر اُس کے بعد سے ملنا نہیں ہُوا
ایوانِ دل میں گونج رہا ہے سکوتِ مرگ
اِک عرصۂ دراز سے کھٹکا نہیں ہُوا
کیوں قَیسِ عامری اُنہَیں آیا ہے یاد؟ کیا؟
دشتِ جنوں کو ہم نے سنبھالا نہیں ہُوا؟
کم ظرفیوں کے دوَر میں جینا پڑا ہمیں
معیارِ ظرف کے لئے اچھّا نہیں ہُوا
ضامنؔ! مروّتیں بھی تھیں ، مجبوریاں بھی تھیں
وہ منتظر تھے، ہم سے تقاضا نہیں ہُوا
ضامن جعفری

میں دریا دریا روتا تھا

تنہائی کا دُکھ گہرا تھا
میں دریا دریا روتا تھا
ایک ہی لہر نہ سنبھلی ورنہ
میں طوفانوں سے کھیلا تھا
تنہائی کا تنہا سایا
دیر سے میرے ساتھ لگا تھا
چھوڑ گئے جب سارے ساتھی
تنہائی نے ساتھ دیا تھا
سوکھ گئی جب سکھ کی ڈالی
تنہائی کا پھول کھلا تھا
تنہائی میں یادِ خدا تھی
تنہائی میں خوفِ خدا تھا
تنہائی محرابِ عبادت
تنہائی منبر کا دِیا تھا
تنہائی مرا پائے شکستہ
تنہائی مرا دستِ دُعا تھا
وہ جنت مرے دل میں چھپی تھی
میں جسے باہر ڈھونڈ رہا تھا
تنہائی مرے دِل کی جنت
میں تنہا ہوں میں تنہا تھا
ناصر کاظمی

پچھلے سفر کا دھیان آیا تھا

میں ترے شہر سے پھر گزرا تھا
پچھلے سفر کا دھیان آیا تھا
کتنی تیز اُداس ہوا تھی
دل کا چراغ بجھا جاتا تھا
تیرے شہر کا اسٹیشن بھی
میرے دل کی طرح سونا تھا
میری پیاسی تنہائی پر
آنکھوں کا دریا ہنستا تھا
ریل چلی تو ایک مسافر
مرے سامنے آ بیٹھا تھا
سچ مچ تیرے جیسی آنکھیں
ویسا ہی ہنستا چہرہ تھا
چاندی کا وہی پھول گلے میں
ماتھے پر وہی چاند کھلا تھا
جانے کون تھی اُس کی منزل
جانے کیوں تنہا تنہا تھا
کیسے کہوں رُوداد سفر کی
آگے موڑ جدائی کا تھا
ناصر کاظمی

دیر کے بعد تجھے دیکھا تھا

دُھوپ تھی اور بادل چھایا تھا
دیر کے بعد تجھے دیکھا تھا
میں اِس جانب تو اُس جانب
بیچ میں پتھر کا دریا تھا
ایک پیڑ کے ہاتھ تھے خالی
اک ٹہنی پر دِیا جلا تھا
دیکھ کے دو چلتے سایوں کو
میں تو اچانک سہم گیا تھا
ایک کے دونوں پاؤں تھے غائب
ایک کا پورا ہاتھ کٹا تھا
ایک کے اُلٹے پیر تھے لیکن
وہ تیزی سے بھاگ رہا تھا
اُن سے اُلجھ کر بھی کیا لیتا
تین تھے وہ اور میں تنہا تھا
ناصر کاظمی

کتنے گھروں کا حق چھینا ہے

چند گھرانوں نے مل جل کر
کتنے گھروں کا حق چھینا ہے
باہر کی مٹی کے بدلے
گھر کا سونا بیچ دیا ہے
سب کا بوجھ اُٹھانے والے
تو اس دُنیا میں تنہا ہے
میلی چادر اوڑھنے والے
تیرے پاؤں تلے سونا ہے
گہری نیند سے جاگو ناصر
وہ دیکھو سورج نکلا ہے
ناصر کاظمی

میں بھی تیرے جیسا ہوں

اپنی دُھن میں رہتا ہوں
میں بھی تیرے جیسا ہوں
او پچھلی رُت کے ساتھی
اب کے برس میں تنہا ہوں
تیری گلی میں سارا دن
دُکھ کے کنکر چنتا ہوں
مجھ سے آنکھ ملائے کون
میں تیرا آئینہ ہوں
میرا دِیا جلائے کون
مَیں ترا خالی کمرہ ہوں
تیرے سوا مجھے پہنے کون
میں ترے تن کا کپڑا ہوں
تو جیون کی بھری گلی
میں جنگل کا رستہ ہوں
آتی رُت مجھے روئے گی
جاتی رُت کا جھونکا ہوں
اپنی لہر ہے اپنا روگ
دریا ہوں اور پیاسا ہوں
ناصر کاظمی

حسن خود محوِ تماشا ہو گا

عشق جب زمزمہ پیرا ہو گا
حسن خود محوِ تماشا ہو گا
سن کے آوازۂ زنجیرِ صبا
قفسِ غنچہ کا در وا ہو گا
جرسِ شوق اگر ساتھ رہی
ہر نفس شہپرِ عنقا ہو گا
دائم آباد رہے گی دُنیا
ہم نہ ہوں گے کوئی ہم سا ہو گا
کون دیکھے گا طلوعِ خورشید
ذرّہ جب دیدۂ بینا ہو گا
ہم تجھے بھول کے خوش بیٹھے ہیں
ہم سا بیدرد کوئی کیا ہو گا
پھر سلگنے لگا صحرائے خیال
ابر گھر کر کہیں برسا ہو گا
پھر کسی دھیان کے صد راہے پر
دلِ حیرت زدہ تنہا ہو گا
پھر کسی صبحِ طرب کا جادو
پردۂ شب سے ہویدا ہو گا
گل زمینوں کے خنک رَمنوں میں
جشنِ رامش گری برپا ہو گا
پھر نئی رُت کا اشارہ پا کر
وہ سمن بو چمن آرا ہو گا
گلِ شب تاب کی خوشبو لے کر
ابلقِ صبح روانہ ہو گا
پھر سرِ شاخِ شعاعِ خورشید
نکہتِ گل کا بسیرا ہو گا
اک صدا سنگ میں تڑپی ہو گی
اک شرر پھول میں لرزا ہو گا
تجھ کو ہر پھول میں عریاں سوتے
چاندنی رات نے دیکھا ہو گا
دیکھ کر آئینۂ آبِ رواں
پتہ پتہ لبِ گویا ہو گا
شام سے سوچ رہا ہوں ناصر
چاند کس شہر میں اُترا ہو گا
ناصر کاظمی

گونگا بہرا خالی کمرا

خالی گھر کا خالی کمرا
گونگا بہرا خالی کمرا
زندانوں سے بھی بدتر ہے
تیرا میرا خالی کمرا
ایک عزیز بچا ہے میرا
وہ بھی تنہا خالی کمرا
تیری یاد نے چوما مجھ کو
جب بھی کھولا خالی کمرا
تم کو اکثر یاد آئے گا
باتیں کرتا خالی کمرا
مجھ سے لپٹا روہا گھنٹوں
آہیں بھرتا خالی کمرا
دونوں اک جیسے لگتے ہیں
میں اور میرا خالی کمرا
یار فلک! اک بات کہیں میں
خوب ہے تیرا خالی کمرا
افتخار فلک

وسعتِ فکر کچھ ایسی ہے کہ تنہا ٹھہرے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 3
یوں تو ہم اِس کے سبب دُنیا میں یکتا ٹھہرے
وسعتِ فکر کچھ ایسی ہے کہ تنہا ٹھہرے
تو کہ تھا موسمِ گُل ہم سے کھنچا ہے کب کا
شاخ اُمید پہ اب کیا کوئی پتّا ٹھہرے
سایۂ ابر تھے یا موجِ ہوا تھے، کیا تھے
ہائے وہ لوگ کہ تھے ہم سے شناسا ٹھہرے
کچھ تو ہو گرد ہی بر دوشِ ہوا ہو چاہے
سر پہ مجھ دشت کے راہی کے بھی سایہ ٹھہرے
پھُول باوصفِ زباں حال نہ پوچھیں میرا
خامشی اِن کی بھی تیرا نہ اشارہ ٹھہرے
نہ ہر اک سمت بڑھا دستِ تمنا ماجدؔ
یہ بھی آخر کو گدائی کا نہ کاسا ٹھہرے
ماجد صدیقی

کس کو سیراب کرے وہ کسے پیاسا رکھے

احمد فراز ۔ غزل نمبر 136
ہر کوئی دل کی ہتھیلی پہ ہے صحرا رکھے
کس کو سیراب کرے وہ کسے پیاسا رکھے
عمر بھر کون نبھاتا ہے تعلق اتنا
اے مری جان کے دشمن تجھے اللہ رکھے
ہم کو اچھا نہیں لگتا کوئی ہم نام ترا
کوئی تجھ سا ہو تو پھر نام بھی تجھ سا رکھے
دل بھی پاگل ہے کہ اس شخص سے وابستہ ہے
جو کسی اور کا ہونے دے نہ اپنا رکھے
ہنس نہ اتنا بھی فقیروں کے اکیلے پن پر
جا، خدا میری طرح تجھ کو بھی تنہا رکھے
یہ قناعت ہے اطاعت ہے کہ چاہت ہے فراز
ہم تو راضی ہیں وہ جس حال میں جیسا رکھے
احمد فراز

کہاں لے جاؤں تجھے اے دلِ تنہا میرے

احمد فراز ۔ غزل نمبر 118
یوں تو کہنے کو بہت لوگ شناسا میرے
کہاں لے جاؤں تجھے اے دلِ تنہا میرے
وہی محدود سا حلقہ ہے شناسائی کا
یہی احباب مرے ہیں، یہی اعدا میرے
میں تہِ کاسہ و لب تشنہ رہوں گا کب تک
تیرے ہوتے ہوئے، اے صاحبِ دریا میرے
مجھ کو اس ابرِ بہاری سے ہے کب کی نسبت
پر مقدر میں وہی پیاس کے صحرا میرے
دیدہ و دل تو ترے ساتھ ہیں اے جانِ فراز
اپنے ہمراہ مگر خواب نہ لے جا میرے
احمد فراز

صحرا کی تشنگی تھی سو دریا شراب پی

احمد فراز ۔ غزل نمبر 92
کل ہم نے بزمِ یار میں کیا کیا شراب پی
صحرا کی تشنگی تھی سو دریا شراب پی
اپنوں نے تج دیا ہے تو غیروں میں جا کے بیٹھ
اے خانماں خراب! نہ تنہا شراب پی
تو ہم سفر نہیں ہے تو کیا سیرِ گلستاں
تو ہم سبو نہیں ہے تو پھر کیا شراب پی
اے دل گرفتۂ غم جاناں سبو اٹھا
اے کشتۂ جفائے زمانہ شراب پی
دو صورتیں ہیں دوستو دردِ فراق کی
یا اس کے غم میں ٹوٹ کے رو،۔۔ یا شراب پی
اک مہرباں بزرگ نے یہ مشورہ دیا
دکھ کا کوئی علاج نہیں، جا شراب پی
بادل گرج رہا تھا ادھر محتسب ادھر
پھر جب تلک یہ عقدہ نہ سلجھا شراب پی
اے تو کہ تیرے در پہ ہیں رندوں کے جمگھٹے
اک روز اس فقیر کے گھر آ، شراب پی
دو جام ان کے نام بھی اے پیر میکدہ
جن رفتگاں کے ساتھ ہمیشہ شراب پی
کل ہم سے اپنا یار خفا ہو گیا فراز
شاید کہ ہم نے حد سے زیادہ شراب پی
احمد فراز

مسافر گھر کو واپس آ گئے کیا ؟

احمد فراز ۔ غزل نمبر 30
جہاں کے شور سے گھبرا گئے کیا
مسافر گھر کو واپس آ گئے کیا ؟
نہ تھی اتنی کڑی تازہ مسافت
پرانے ہم سفر یاد آ گئے کیا ؟
یہاں‌کچھ آشنا سی بستیاں تھیں
جزیروں کو سمندر کھا گئے کیا؟
مری گردن میں باہیں ڈال دی ہیں
تم اپنے آپ سے اکتا گئے کیا ؟
نہیں آیا مرا جانِ بہاراں
درختوں پر شگوفے آ گئے کیا
جہاں میلہ لگا ہے قاتلوں کا
فراز اس شہر میں تنہا گئے کیا؟
احمد فراز

میں ایسا چاہتا کب تھا پر ایسا ہو گیا ہے

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 81
مرے خواب سے اوجھل اُس کا چہرہ ہو گیا ہے
میں ایسا چاہتا کب تھا پر ایسا ہو گیا ہے
تعلق اب یہاں کم ہے ملاقاتیں زیادہ
ہجومِ شہر میں ہر شخص تنہا ہو گیا ہے
تری تکمیل کی خواہش تو پوری ہو نہ پائی
مگر اک شخص مجھ میں بھی ادھورا ہو گیا ہے
جو باغِ آرزو تھا اب وہی ہے دشتِ وحشت
یہ دل کیا ہونے والا تھا مگر کیا ہو گیا ہے
میں سمجھا تھا سیئے گی آگہی چاکِ جنوں کو
مگر یہ زخم تو پہلے سے گہرا ہو گیا ہے
میں تجھ سے ساتھ بھی تو عمر بھر کا چاہتا تھا
سو اب تجھ سے گلہ بھی عمر بھر کا ہو گیا ہے
ترے آنے سے آیا کون سا ایسا تغیر
فقط ترکِ مراسم کا مداوا ہو گیا ہے
مرا عالم اگر پوچھیں تو اُن سے عرض کرنا
کہ جیسا آپ فرماتے تھے ویسا ہو گیا ہے
میں کیا تھا اور کیا ہوں اور کیا ہونا ہے مجھ کو
مرا ہونا تو جیسے اک تماشا ہو گیا ہے
یقینا ہم نے آپس میں کوئی وعدہ کیا تھا
مگر اس گفتگو کو ایک عرصہ ہو گیا ہے
اگرچہ دسترس میں آ گئی ہے ساری دنیا
مگر دل کی طرف بھی ایک در وا ہو گیا ہے
یہ بے چینی ہمیشہ سے مری فطرت ہے لیکن
بقدرِ عمر اس میں کچھ اضافہ ہو گیا ہے
مجھے ہر صبح یاد آتی ہے بچپن کی وہ آواز
چلو عرفانؔ اٹھ جاؤ سویرا ہو گیا ہے
عرفان ستار

میری حالت تو کوئی دیکھنے والا سمجھے

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 74
جو ہو خود ایک تماشا وہ بھلا کیا سمجھے
میری حالت تو کوئی دیکھنے والا سمجھے
مجھ میں آباد ہے اک شہر، ترے حُسن کا شہر
وہ جو باہر سے مجھے دیکھے وہ تنہا سمجھے
مجھ سے ممکن یہ نہیں ہے کہ میں کھل کر کہہ دوں
اس کے بس میں یہ نہیں ہے کہ اشارہ سمجھے
آہ ایسی، کہ سنے کوئی تو سمجھے نغمہ
اشک ایسا، کوئی دیکھے تو ستارا سمجھے
ٹھیک ہے دشت بھی ہوں، باغ بھی ہوں، دریا بھی
جس کو جیسا نظر آؤں مجھے ویسا سمجھے
لفظ پردہ ہیں، اسے کاش بتا دے کوئی
اس کو سمجھائے کہ سمجھے، مرا لہجہ سمجھے
بس یہی ہے جو میّسر ہے مرے قرب کے ساتھ
جو مرے دل میں بسے وہ اِسے دنیا سمجھے
سانحہ کرکے سنایا تھا اُسے رنجِ فراق
سُن کے بس اتنا کہا اُس نے کہ ’’اچھا۔ ۔ ۔ سمجھے‘‘
دل کسی حرفِ ملائم سے سنبھل بھی جاتا
میرے سینے میں اچھلتا ہے بگولا، سمجھے؟
وصل سے اِن کے نمو پاتی ہے اک کیفیۤت
کوئی الفاظ و معانی کا یہ رشتہ سمجھے
اتنا دشوار ہوں کیا میں جو کسی پر نہ کھلوں؟
کوئی تو ہو مجھے میرے علاوہ سمجھے
ابھی سمجھو تو میں کیا خوب سخن تم سے کروں
بعد میرے مجھے سمجھے بھی تو پھر کیا سمجھے
تُو سمجھتا ہے اُسے، شکر بجا لا عرفان
وہ جسے دیر نہ کعبہ، نہ کلیسا سمجھے
عرفان ستار

سمجھ میں کچھ نہیں آتا کہ ہم کیا کررہے ہیں

عرفان ستار ۔ غزل نمبر 47
غموں میں کچھ کمی یا کچھ اضافہ کر رہے ہیں
سمجھ میں کچھ نہیں آتا کہ ہم کیا کررہے ہیں
جو آتا ہے نظر میں اُس کو لے آتے ہیں دل میں
نئی ترکیب سے ہم خود کو تنہا کررہے ہیں
نظر کرتے ہیں یوں جیسے بچھڑنے کی گھڑی ہو
سخن کرتے ہیں ایسے جیسے گریہ کررہے ہیں
تمہارے ہی تعلق سے تو ہم ہیں اس بدن میں
تمہارے ہی لیے تو یہ تماشا کررہے ہیں
زوال آمادگی اب گونجتی ہے دھڑکنوں میں
سو دل سے خواہشوں کا بوجھ ہلکا کررہے ہیں
سخن تم سے ہو یا احباب سے یا اپنے دل سے
یہی لگتا ہے ہم ہر بات بے جا کررہے ہیں
تمہاری آرزو ہونے سے پہلے بھی تو ہم تھے
سو جیسے بن پڑے اب بھی گزارا کررہے ہیں
ذرا پوچھے کوئی معدوم ہوتے ان دکھوں سے
ہمیں کس کے بھروسے پر اکیلا کررہے ہیں
ہمیں روکے ہوئے ہے پاسِ ناموسِ محبت
یہ مت سمجھو کہ ہم دنیا کی پروا کررہے ہیں
بجز سینہ خراشی کچھ نہیں آتا ہے لیکن
ذرا دیکھو تو ہم یہ کام کیسا کررہے ہیں
ہمیں اس کام کی مشکل کا اندازہ ہے صاحب
بڑے عرصے سے ہم بھی ترکِ دنیا کررہے ہیں
جو ہو گی صبح تو تقسیم ہوجائیں گے پھر ہم
ڈھلی ہے شام تو خود کو اکھٹا کررہے ہیں
جنوں سے اتنا دیرینہ تعلق توڑ دیں گے؟
ارے توبہ کریں عرفان، یہ کیا کررہے ہیں؟
عرفان ستار

اِک ذرا شعر کہوں اور میں کیا کیا دیکھوں

پروین شاکر ۔ غزل نمبر 53
اپنی رسوائی، ترے نام کا چرچا دیکھوں
اِک ذرا شعر کہوں اور میں کیا کیا دیکھوں
نیند آ جائے تو کیا محفلیں برپا دیکھوں
آنکھ کُھل جائے تو تنہائی کا صحرا دیکھوں
شام بھی ہو گئی، دُھندلا گئیں آنکھیں بھی مری
بُھولنے والے،میں کب تک ترارَستا دیکھوں
ایک اِک کر کے مجھے چھوڑ گئیں سب سکھیاں
آج میں خُود کو تری یاد میں تنہا دیکھوں
کاش صندل سے مری مانگ اُجالےآ کر
اتنے غیروں میں وہی ہاتھ ،جو اپنا دیکھوں
تو مرا کُچھ نہیں لگتا ہے مگر جانِ حیات!
جانے کیوں تیرے لیے دل کو دھڑکتا دیکھوں !
بند کر کے مِری آنکھیں وہ شرارت سے ہنسے
بُوجھے جانے کا میں ہر روز تماشہ دیکھوں
سب ضِدیں اُس کی میں پوری کروں ،ہر بات سُنوں
ایک بچے کی طرح سے اُسے ہنستا دیکھوں
مُجھ پہ چھا جائے وہ برسات کی خوشبو کی طرح
انگ انگ اپنا اسی رُت میں مہکتا دیکھوں
پُھول کی طرح مرے جسم کا ہر لب کِھل جائے
پنکھڑی پنکھڑی اُن ہونٹوں کا سایا دیکھوں
میں نے جس لمحے کو پُوجا ہے،اُسے بس اِک بار
اب بن کر تری آنکھوں میں اُترتا دیکھوں
تو مری طرح سے یکتا ہے، مگر میرے حبیب!
میں آتا ہے، کوئی اور بھی تجھ سا دیکھوں
ٹُوٹ جائیں کہ پگھل جائیں مرے کچے گھڑے
تجھ کو میں دیکھوں کہ یہ آگ کا دریا دیکھوں
پروین شاکر

ہجر کی شب اورایسا چاند؟

پروین شاکر ۔ غزل نمبر 36
پُورا دکھ اور آدھا چاند!
ہجر کی شب اورایسا چاند؟
دن میں وحشت بہل گئی تھی
رات ہُوئی اور نکلا چاند
کس مقتل سے گزرا ہو گا
اِتنا سہما سہما چاند
یادوں کی آباد گلی میں
گھوم رہا ہے تنہا چاند
میری کروٹ پر جاگ اُٹھے
نیند کا کتنا کچا چاند
میرے مُنہ کو کس حیرت سے
دیکھ رہا ہے بھولا چاند
اِتنے گھنے بادل کے پیچھے
کتنا تنہا ہو گا چاند
آنسو روکے نُور نہائے
دل دریا،تن صحرا چاند
اِتنے روشن چہرے پر بھی
سُورج کا ہے سایا چاند
جب پانی میں چہرہ دیکھا
تونے کِس کو سوچا چاند
برگد کی ایک شاخ ہٹا کر
جانے کس کو جھانکا چاند
بادل کے ریشم جُھولے میں
بھورسمے تک سویا چاند
رات کے شانوں پرسر رکھے
دیکھ رہا ہے سپنا چاند
سُوکھے پتوں کے جُھرمٹ پر
شبنم تھی یا ننّھا چاند
ہاتھ ہلا کر رخصت ہو گا
اُس کی صُورت ہجر کا چاند
صحر اصحرا بھٹک رہا ہے
اپنے عشق کا سچا چاند
رات کے شاید ایک بجے ہیں
سوتا ہو گا میرا چاند
پروین شاکر

رہ گئے حیران مجھ کو سب خود آرا دیکھ کر

مصطفٰی خان شیفتہ ۔ غزل نمبر 51
شیفتہ آیا ہوں میں کس کا تماشا دیکھ کر
رہ گئے حیران مجھ کو سب خود آرا دیکھ کر
شوقِ خوباں اُڑ گیا حوروں کا جلوہ دیکھ کر
رنجِ دنیا مٹ گیا آرامِ عقبیٰ دیکھ کر
ہے وہ آتش جلوہ، اشک افشاں ہمارے شور سے
شمع رو دیتی ہے پروانے کو جلتا دیکھ کر
خیر جو گزری سو گزری پر یہی اچھا ہوا
خط دیا تھا نامہ بر نے اس کو تنہا دیکھ کر
سائلِ مبرم کی پھبتی مجھ پہ فرمانے لگے
آرزوئے شوق کو گرمِ تقاضا دیکھ کر
ہے وہاں سستی طلب میں ، جان یاں بھاری نہیں
کام کرتے ہیں مزاجِ کارفرما دیکھ کر
ہیں تو دونوں سخت لیکن کون سا ہے سخت تر
اپنے دل کو دیکھئے میرا کلیجا دیکھ کر
گاؤں بھی ہم کو غنیمت ہے کہ آبادی تو ہے
آئے ہیں ہم سخت پُر آشوب صحرا دیکھ کر
اب کسے لاؤں گواہی کے لئے روزِ جزا
میرے دشمن ہو گئے، اس کو احبا دیکھ کر
میں کمینِ توبہ میں ہوں آپ ، لیکن کیا کروں
منہ میں بھر آتا ہے پانی جام و مینا دیکھ کر
التماسِ وصل پر بگڑے تھے بے ڈھب رات کو
کچھ نہ بن آئی مگر جوشِ تمنا دیکھ کر
دوستی کرتے ہیں اربابِ غرض ہر ایک سے
میرے عاشق ہیں عدو اب ربط اس کا دیکھ کر
بے نقط مجھ کو سناؤ گے جو دیکھو گے ستم
آپ عاشق تو ہوئے ہیں شوق میرا دیکھ کر
پھر کہو گے اس کو دل، فرماؤ اے اربابِ دل
جو نہ ہو بے تاب و مضطر، روئے زیبا دیکھ کر
یار پہلو میں نہیں، مے جام و مینا میں نہیں
تم ہوئے حیران مجھ کو نا شکیبا دیکھ کر
ناگہاں بادِ موافق شیفتہ چلنے لگی
جان پر کل بن رہی تھی شورِ دریا دیکھ کر
مصطفٰی خان شیفتہ

سب آنکھیں دم توڑ چکی تھیں اور میں تنہا زندہ تھا

جون ایلیا ۔ غزل نمبر 29
اب وہ گھر اک ویرانہ تھا بس ویرانہ زندہ تھا
سب آنکھیں دم توڑ چکی تھیں اور میں تنہا زندہ تھا
ساری گلی سنسان پڑی تھی بادِ فنا کے پہرے میں
ہجر کے دلان اور آنگن میں بس ایک سایہ زندہ تھا
وہ جو کبوتر اس موکھے میں رہتے تھے کس دیس اڑے
ایک کا نام نوازندہ تھا اور اک کا بازندہ تھا
وہ دوپہر اپنی رخصت کی ایسا ویسا دھوکا تھی
اپنے اندر اپنی لاش اٹھائے میں جھوٹا زندہ تھا
تھیں وہ گھر راتیں بھی کہانی، وعدے اور پھر دن گننا
آنا تھا جانے والے کو، جانے والا زندہ تھا
دستک دینے والے بھی تھے دستک سننے والے بھی
تھا آباد محلہ سارا ہر دروازہ زندہ تھا
پیلے پتوں کی سہ پہر کی وحشت پرسہ دیتی تھی
آنگن میں اک اوندھے گھڑے پر بس ایک کوا زندہ تھا
جون ایلیا

تنہا گئے کیوں؟ اب رہو تنہا کوئی دن اور

دیوانِ غالب ۔ غزل نمبر 121
لازم تھا کہ دیکھو مرا رستہ کوئی دِن اور
تنہا گئے کیوں؟ اب رہو تنہا کوئی دن اور
مٹ جائےگا سَر ،گر، ترا پتھر نہ گھِسے گا
ہوں در پہ ترے ناصیہ فرسا کوئی دن اور
آئے ہو کل اور آج ہی کہتے ہو کہ ’جاؤں؟‘
مانا کہ ھمیشہ نہیں اچھا کوئی دن اور
جاتے ہوئے کہتے ہو ’قیامت کو ملیں گے‘
کیا خوب! قیامت کا ہے گویا کوئی دن اور
ہاں اے فلکِ پیر! جواں تھا ابھی عارف
کیا تیرا بگڑ تا جو نہ مرتا کوئی دن اور
تم ماہِ شبِ چار دہم تھے مرے گھر کے
پھر کیوں نہ رہا گھر کا وہ نقشا کوئی دن اور
تم کون سے ایسے تھے کھرے داد و ستد کے
کرتا ملکُ الموت تقاضا کوئی دن اور
مجھ سے تمہیں نفرت سہی، نیر سے لڑائی
بچوں کا بھی دیکھا نہ تماشا کوئی دن اور
گزری نہ بہرحال یہ مدت خوش و ناخوش
کرنا تھا جواں مرگ گزارا کوئی دن اور
ناداں ہو جو کہتے ہو کہ ’کیوں جیتے ہیں غالب‘
قسمت میں ہے مرنے کی تمنا کوئی دن اور
مرزا اسد اللہ خان غالب

دو دن جوں توں جیتے رہے سو مرنے ہی کے مہیا تھے

دیوان چہارم غزل 1526
کیا کیا ہم نے رنج اٹھائے کیا کیا ہم بھی شکیبا تھے
دو دن جوں توں جیتے رہے سو مرنے ہی کے مہیا تھے
عشق کیا سو باتیں بنائیں یعنی شعر شعار ہوا
بیتیں جو وے مشہور ہوئیں تو شہروں شہروں رسوا تھے
کیا پگڑی کو پھیر کے رکھتے کیا سر نیچے نہ ہوتا تھا
لطف نہیں اب کیا کہیے کچھ آگے ہم بھی کیا کیا تھے
اب کے وصال قرار دیا ہے ہجر ہی کی سی حالت ہے
ایک سمیں میں دل بے جا تھا تو بھی ہم وے یک جا تھے
کیا ہوتا جو پاس اپنے اے میر کبھو وے آجاتے
عاشق تھے درویش تھے آخر بیکس بھی تھے تنہا تھے
میر تقی میر

محزوں ہوویں مفتوں ہوویں مجنوں ہوویں رسوا ہوں

دیوان چہارم غزل 1446
دل کے گئے بے دل کہلائے آگے دیکھیے کیا کیا ہوں
محزوں ہوویں مفتوں ہوویں مجنوں ہوویں رسوا ہوں
عشق کی رہ میں پائوں رکھا سو رہنے لگے کچھ رفتہ سے
آگے چل کر دیکھیں ہم اب گم ہوویں یا پیدا ہوں
خار و خس الجھے ہیں آپھی بحث انھوں سے کیا رکھیں
موج زن اپنی طبع رواں سے جب ہم جیسے دریا ہوں
ہم بھی گئے جاگہ سے اپنی شوق میں اس ہرجائی کے
عشق کا جذبہ کام کرے تو پھر ہم دونوں یک جا ہوں
کوئی طرف یاں ایسی نہیں جو خالی ہووے اس سے میر
یہ طرفہ ہے شورجرس سے چار طرف ہم تنہا ہوں
میر تقی میر

دخل عقل اس مقام میں کیا ہے

دیوان دوم غزل 1028
شور میرے جنوں کا جس جا ہے
دخل عقل اس مقام میں کیا ہے
دل میں پھرتے ہیں خال و خط و زلف
مجھ کو یک سر ہزار سودا ہے
شور بازار میں ہے یوسفؑ کا
وہ بھی آ نکلے تو تماشا ہے
برچھیوں میں کہیں نہ بٹ جاوے
دل صفوف مژہ میں تنہا ہے
نظر آئے تھے وے حنائی پا
آج تک فتنہ ایک برپا ہے
دل کھنچے جاتے ہیں اسی کی اور
سارے عالم کی وہ تمنا ہے
برسوں رکھا ہے دیدئہ تر پر
پاٹ دامن کا اپنے دریا ہے
ٹک گریباں میں سر کو ڈال کے دیکھ
دل بھی دامن وسیع صحرا ہے
دلکشی اس کے قد کی سی معلوم
سرو بھی اک جوان رعنا ہے
دست و پا گم کیے ہیں تو نے میر
پیری بے طاقتی سے پیدا ہے
میر تقی میر

طرح اس میں مجنوں کی سب پا گئی

دیوان اول غزل 439
ہمیں آمد میر کل بھا گئی
طرح اس میں مجنوں کی سب پا گئی
کہاں کا غبار آہ دل میں یہ تھا
مری خاک بدلی سی سب چھا گئی
کیا پاس بلبل خزاں نے نہ کچھ
گل و برگ بے درد پھیلا گئی
ہوئی سامنے یوں تو ایک ایک کے
ہمیں سے وہ کچھ آنکھ شرما گئی
جگر منھ تک آتے نہیں بولتے
غرض ہم بھی کرتے ہیں کیا کیا گئی
نہ ہم رہ کوئی ناکسی سے گیا
مری لاش تا گور تنہا گئی
گھٹا شمع ساں کیوں نہ جائوں چلا
تب غم جگر کو مرے کھا گئی
کوئی رہنے والی ہے جان عزیز
گئی گر نہ امروز فردا گئی
کیے دست و پا گم جو میر آگیا
وفا پیشہ مجلس اسے پا گئی
میر تقی میر

اک جیون ہار ڈر سا ہے ترے دل کے لیے

مجید امجد ۔ غزل نمبر 50
ان گنت امروں میں اور کیا ہے ترے دل کے لیے
اک جیون ہار ڈر سا ہے ترے دل کے لیے
رک کے اس دھارے میں کچھ سوچ اک یہ اچھا سا خیال
جو ترے حق میں ہے، کیسا ہے ترے دل کے لیے
اپنے جی میں جی، مگر اس یاد سے غافل نہ جی
جو کسی کے دل میں زندہ ہے ترے دل کے لیے
سب ضمیروں کے ثمر ہیں، پستیاں، سچائیاں
جانے تیرے ذہن میں کیا ہے ترے دل کے لیے
والہانہ رابطوں میں جبر کے پہلو بھی دیکھ
جو بھی دل ہے ایک پنجرا ہے ترے دل کے لیے
تو کہ اپنے ساتھ ہے اپنے بدن کے واسطے
کوئی تیرے ساتھ تنہا ہے ترے دل کے لیے
تیری پلکیں جھک گئیں امجد دیے جب یوں جلے
جانے کس کا ذکر چمکا ہے ترے دل کے لیے
مجید امجد

میں سنگ صفت تو نہیں رویا اسے کہنا

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 52
ٹوٹا ہوا سینے میں کوئی تھا اسے کہنا
میں سنگ صفت تو نہیں رویا اسے کہنا
اک آگ لگا دیتے ہیں برسات کے دل میں
ہم لوگ سلگتے نہیں تنہا اسے کہنا
دروازے پہ پہرے سہی گھر والوں کے لیکن
کھڑکی بھی بنا سکتی ہے رستہ اسے کہنا
اے بجھتی ہوئی شام ! محبت کے سفر میں
اک لوٹ کے آیا تھا ستارہ اسے کہنا
نازل ہوں مکمل لب و عارض کے صحیفے
ہر شخص کا چہرہ ہے ادھورا اسے کہنا
شہ رگ سے زیادہ ہے قریں میرا محمدﷺ
لولاک سے آگے ہے مدینہ اسے کہنا
منصور مزاجوں میں بڑا فرق ہے لیکن
اچھا مجھے لگتا ہے بس اپنا اسے کہنا
منصور آفاق

یہی رستہ تھا صبا کا پہلے

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 217
سفر گل کا پتا تھا پہلے
یہی رستہ تھا صبا کا پہلے
کبھی گل سے،کبھی بوئے گل سے
کچھ پتا ملتا تھا اپنا پہلے
زندگی آپ نشاں تھی اپنا
تھا نہ رنگین یہ پردا پہلے
اس طرح روح کے سناٹے سے
کبھی گزرے تھے نہ تنہا پہلے
اب تو ہر موڑ پہ کھو جاتے ہیں
یاد تھا شہر کا نقشہ پہلے
لوگ آباد تو ہوتے تھے مگر
اس قدر شور کہاں تھا پہلے
دور سے ہم کو صدا دیتا تھا
تیری دیوار کا سایہ پہلے
اب کناروں سے لگے رہتے ہیں
رُخ بدلتے تھے یہ دریا پہلے
ہر نظر دل کا پتا دیتی تھی
کوئی چہرہ تھا نہ دھندلا پہلے
دیکھتے رہتے ہیں اب منہ سب کا
بات کرنے کا تھا چسکا پہلے
ہر بگولے سے الجھ جاتی تھی
رہ نوردی کی تمنا پہلے
یوں کبھی تھک کے نہ ہم بیٹھے تھے
گرچہ دشوار تھا رستہ پہلے
اب تو سینے کا ہے چھالا دنیا
دور سے شور سنا تھا پہلے
جوئے شیر آتی ہے دل سے باقیؔ
خود پہ ہی پڑتا ہے تیشہ پہلے
باقی صدیقی

تو نظر کے سامنے ہے یا نہیں

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 135
دل کسی صورت ٹھہر پاتا نہیں
تو نظر کے سامنے ہے یا نہیں
مٹ گیا ہے دل سے کیا تیرا خیال
اتنا دنیا کو کبھی چاہا نہیں
اس طرح محفل یہ ہے اس کی نظر
سب ہیں تنہا اور کوئی تنہا نہیں
سوچ کر کیا بات آ بیٹھے ہو تم
ان درختوں کا کوئی سایہ نہیں
دھوپ کا رُخ دیکھ کر چلتے ہیں لوگ
کوئی اپنے سامنے آتا نہیں
بات مظلوموں پہ آخر آئے گی
الٹے رُخ دریا کبھی بہتا نہیں
دیکھتا ہوں اس طرح ہر ایک کو
آدمی بھی آدمی گویا نہیں
یہ بھی تو پہلو ہے اک حالات کا
لوگ جو کہتے ہیں وہ ہوتا نہیں
آج باقیؔ کیا ہوا کو ہو گیا
دور تک پتا کوئی ہلتا نہیں
باقی صدیقی

ہنسنا آیا ہے نہ رونا ہم کو

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 92
غم بنا دے نہ تماشا ہم کو
ہنسنا آیا ہے نہ رونا ہم کو
ہم ابھی تک ہیں وہیں راہ نشیں
جس جگہ آپ نے چھوڑا ہم کو
اک صدا تک تھی عنایت ساری
پھر کسی نے بھی نہ پوچھا ہم کو
آج دیکھا ہے نیا رنگ ان کا
دو گھڑی چھوڑ دو تنہا ہم کو
زندگی لے گئی طوفانوں میں
دے کے تنکے کا سہارا ہم کو
تیری محفل کے چراغوں کے تلے
کچھ نشاں ملتا ہے اپنا ہم کو
ہو گئے چپ ہمیں پاگل کہہ کر
جب کسی نے بھی نہ سمجھا ہم کو
بات ہو، شعر ہو، افسانہ ہو
ہے بہت کچھ ابھی کہنا ہم کو
کوئی روزن ہو کہ دروازہ ہو
چاہئے ایک شرارا ہم کو
فصل گل آئی مگر کیا آئی
رنگ بھولا نہ خزاں کا ہم کو
لے گیا ساتھ اڑا کر باقیؔ
ایک سوکھا ہوا پتہ ہم کو
باقی صدیقی

لگ گیا رات کا دھڑکا ہم کو

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 91
صبح کا بھید ملا کیا ہم کو
لگ گیا رات کا دھڑکا ہم کو
شوق نظارہ کا پردہ اٹھا
نظر آنے لگی دنیا ہم کو
کشتیاں ٹوٹ گئی ہیں ساری
اب لئے پھرتا ہے دریا ہم کو
بھیڑ میں کھو گئے آخر ہم بھی
نہ ملا جب کوئی رستہ ہم کو
تلخی غم کا مداوا معلوم
پڑ گیا زہر کا چسکا ہم کو
تیرے غم سے تو سکوں ملتا ہے
اپنے شعلوں نے جلایا ہم کو
گھر کو یوں دیکھ رہے ہیں جیسے
آج ہی گھر نظر آیا ہم کو
ہم کہ شعلہ بھی ہیں اور شبنم بھی
تو نے کس رنگ میں دیکھا ہم کو
جلوہ لالہ و گل ہے دیوار
کبھی ملتے سر صحرا ہم کو
لے اڑی دل کو نسیم سحری
بوئے گل کر گئی تنہا ہم کو
سیر گلشن نے کیا آوارہ
لگ گیا روگ صبا کا ہم کو
یاد آئی ہیں برہنہ شاخیں
تھام لے اے گل تازہ ہم کو
لے گیا ساتھ اڑا کر باقیؔ
ایک سوکھا ہوا پتا ہم کو
باقی صدیقی

تو جہاں آخری پردا ہو گا

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 51
وہ مقام دل و جاں کیا ہو گا
تُو جہاں آخری پردا ہو گا
منزلیں راستہ بن جاتی ہیں
ڈھونڈنے والوں نے دیکھا ہو گا
سائے میں بیٹھے ہوئے سوچتے ہیں
کون اس دھوپ میں چلتا ہو گا
ابھی دل پر ہیں جہاں کی نظریں
آئنہ اور ابھی دھندلا ہو گا
راز سر بستہ ہے محفل تیری
جو سمجھ لے گا وہ تنہا ہو گا
اس طرح قطع تعلق نہ کرو
اس طرح اور بھی چرچا ہو گا
بعد مدت کے چلے دیوانے
کیا ترے شہر کا نقشہ ہو گا
سب کا منہ تکتے ہیں یوں ہم جیسے
کوئی تو بات سمجھتا ہو گا
پھول یہ سوچ کے کھل اٹھتے ہیں
کوئی تو دیدہ بینا ہو گا
خود سے ہم دور نکل آئے ہیں
تیرے ملنے سے بھی اب کیا ہو گا
ہم ترا راستہ تکتے ہوں گے
اور تو سامنے بیٹھا ہو گا
تیری ہر بات پہ چپ رہتے ہیں
ہم سا پتھر بھی کیا ہو گا
خود کو یاد آنے لگے ہم باقیؔ
پھر کسی بات پہ جھگڑا ہو گا
باقی صدیقی