ٹیگ کے محفوظات: برسات

خدا گواہ کہ برسات ہو گئی ہو گی

کبھی جو پُرسشِ حالات ہو گئی ہو گی
خدا گواہ کہ برسات ہو گئی ہو گی
جو راہِ شوق میں حائل تھے فاصلے تو کیا!
نظر نظر میں ملاقات ہو گئی ہو گی
ہوا سے آپ کی زلفیں بکھر گئی ہوں گی
فضا میں بارشِ ظلمات ہو گئی ہو گی
کسی نے شرم سے چہرہ چھپا لیا ہو گا
نگاہ محوِ جمالات ہو گئی ہو گی
وہ اجنبی کی طرح پیش آئے ہوں گے، شکیبؔ
جو راستے میں ملاقات ہو گئی ہو گی!
شکیب جلالی

حیات صَرفِ خرابات ہو گئی ہو گی

شکست خوردہِ حالات ہو گئی ہو گی
حیات صَرفِ خرابات ہو گئی ہو گی
کبھی جو پُرسشِ حالات ہو گئی ہو گی
خدا گواہ کہ برسات ہو گئی ہو گی
جو راہِ شوق میں حائل تھا اک جہان تو کیا
نظر نظر میں ملاقات ہو گئی ہو گی
جہانِ تازہ کی شمعیں بھی بجھ گئی ہوں گی
مرے جہاں میں اگر رات ہو گئی ہو گی
ہَوا سے آپ کی زلفیں بکھر گئی ہوں گی
فضا میں بارشِ ظلمات ہو گئی ہو گی
کسی نے شرم سے چہرہ چھپا لیا ہو گا
نگاہ محوِ جمالات ہو گئی ہو گی
وہ اجنبی کی طرح پیش آئے ہوں گے، شکیبؔ
جو راستے میں ملاقات ہو گئی ہو گی
شکیب جلالی

مری توبہ کی خیر برسات آئی

نظر پھر حضورِ خرابات آئی
مری توبہ کی خیر برسات آئی
اُدھر ان کے لب پر مری بات آئی
اِدھر رقص میں روحِ نغمات آئی
وہ جب سے گئے ہیں خدا جانتا ہے
نہ وہ چاند نکلا، نہ وہ رات آئی
کبھی صبحِ خنداں نے آنسو بہائے
کبھی مُسکراتی ہوئی رات آئی
ہر اک گام پر جُرأتیں کہہ رہی ہیں
یہ منزل بطورِ نشانات آئی
صراحی اٹھائی نہ ساغر سنبھالے
عجب شان سے اپنی برسات آئی
وہ خود راز داں بن کے آئے تھے لیکن
زباں تک نہ دل کی کوئی بات آئی
مجھے ان کے وعدے پہ بالکل یقیں تھا
مگر جب ستاروں بھری رات آئی
نہ کہتا، شکیبؔ، ان سے حالِ غمِ دل
مگر کیا کروں بات پَر بات آئی
شکیب جلالی

اُس کی جوانی کے مُنہ لگتا وقت کی کیا اوقات

اُس کے روپ کے آگے پانی بھرتے ہیں دن رات
اُس کی جوانی کے مُنہ لگتا وقت کی کیا اوقات
ہوش ٹھکانے عشق کے آئیں جب وہ لے انگڑائی
چشمِ حیرت بڑھتا دیکھے حسن کو دو دو ہات
پچھلے پہر وہ رات کو اُس کے ہنسنے کا انداز
روح کو بھائے جیسے سوکھی مٹّی کو برسات
چشم زدن میں ساری دنیا محوِ رقص لگی
اُس نے آہستہ سے کہی جب ایک قیامت بات
ہنستی آنکھیں کھِلتا چہرہ اور کھَنَک آواز
عشق نے اُس کے پاؤں میں رکھ دی خوشیوں کی سوغات
حسن دیالُو ہے دے جس کو جتنا چاہے دان
ضامنؔ! تُم نے کہہ دی یہ سوَ باتوں کی اِک بات
ضامن جعفری

لب پہ مشکل سے تری بات آئی

یہ بھی کیا شامِ ملاقات آئی
لب پہ مشکل سے تری بات آئی
صبح سے چپ ہیں ترے ہجر نصیب
ہائے کیا ہو گا اگر رات آئی
بستیاں چھوڑ کے برسے بادل
کس قیامت کی یہ برسات آئی
کوئی جب مل کے ہوا تھا رخصت
دلِ بے تاب وہی رات آئی
سایۂ زلفِ بتاں میں ناصرؔ
ایک سے ایک نئی رات آئی
ناصر کاظمی

سارے مرے منصوبے تھے اک بات کی حد تک

صد حیف رہے خواب و خیالات کی حد تک
سارے مرے منصوبے تھے اک بات کی حد تک
یہ شہر تمہارا مری بستی کے مقابل
اچھا ہے مگر صِرف عمارات کی حد تک
کر سکتے تماشا تو زمانے کو دکھاتے
لفظوں کے کمالات کرامات کی حد تک
آوارہ خرامی کی بھلا اب کسے فرصت
ہوتی ہے ملاقات ملاقات کی حد تک
خوشیوں میں تو کرتا ہوں شریک اوروں کو لیکن
رہتے ہیں مرے رنج مری ذات کی حد تک
ہوتے ہیں عموماَ یہ مِری دھُوپ کے دشمن
بادل مجھے خوش آتے ہیں برسات کی حد تک
دن دوگنی شب چوگنی کی ہم نے ترقی
کچھ راہنماؤں کے بیانات کی حد تک
افسوس کہ صاحب نے کیا اُن پہ بھروسہ
تھی جن کی وفاداری مراعات کی حد تک
اب حِکمتِ قرآن شب و روز میں اپنے
باقی ہے فقط قرأتِ آیات کی حد تک
ہر گام پہ تھا راہنما دین جو اپنا
محدود ہُوا صِرف عبادات کی حد تک
ڈرتا ہوں میں واعظ سے کہ اقبالؔ نہیں ہوں
شکوہ مرا ہوتا ہے مناجات کی حد تک
ہر چند مہذب کوئی ہم سا نہیں باصرؔ
بہکیں تو چلے جائیں خرافات کی حد تک
باصر کاظمی

یہی بہتر کہ اُٹھا رکھوں ملاقات پہ بات

خط میں کیا کیا لکھوں یاد آتی ہے ہر بات پہ بات
یہی بہتر کہ اُٹھا رکھوں ملاقات پہ بات
رات کو کہتے ہیں کل بات کریں گے دن میں
دن گزر جائے تو سمجھو کہ گئی رات پہ بات
اپنی باتوں کے زمانے تو ہوا بُرد ہوئے
اب کیا کرتے ہیں ہم صورتِ حالات پہ بات
لوگ جب ملتے ہیں کہتے ہیں کوئی بات کرو
جیسے رکھی ہوئی ہوتی ہو مِرے ہات پہ بات
مِل نہ سکنے کے بہانے اُنہیں آتے ہیں بہت
ڈھونڈ لیتے ہیں کوئی ہم بھی ملاقات پہ بات
دوسروں کو بھی مزا سننے میں آئے باصرِؔ
اپنے آنسو کی نہیں کیجیے برسات پہ بات
باصر کاظمی

خوب معلوم ہیں یہ ساری خرافات اُسے

کیا سناؤں میں بھلا دل کی حکایات اُسے
خوب معلوم ہیں یہ ساری خرافات اُسے
آج تک ایک ہی بات اُس سے ہوئی ہے اپنی
وہ بھی یہ بات کہ منظور نہیں بات اُسے
کیا جو دن رات برستی رہیں آنکھیں اپنی
اک تماشے سے زیادہ نہیں برسات اُسے
واعظو جس پہ گزرتی ہو قیامت ہر روز
کیا ڈرائے گا بھلا روزِ مکافات اُسے
زندگی بھر تو رہا خوگرِ آتش باصرِؔ
کیسے خوش آئیں گے فردوس کے باغات اُسے
باصر کاظمی

اَب نام ہمارے کوئی سوغات نہ آئے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 54
خوشبُو بھی صبا اُس کی لئے سات نہ آئے
اَب نام ہمارے کوئی سوغات نہ آئے
جو لہر بھی اُٹھتی ہو بھلے دل میں اُٹھے وُہ
ہونٹوں پہ مگر تُندیٔ جذبات نہ آئے
اک بار جھنجھوڑا ہو جِسے ابر و ہوا نے
اُس پیڑ پہ پھر لوٹ کے پھل پات نہ آئے
دیکھی تھی نشیمن کے اُجڑنے سے جو پہلے
ایسی بھی گلستاں میں کوئی رات نہ آئے
جو یاد بھی آئے، تو لرزتا ہے بدن تک
آنکھوں میں کہیں پھر وُہی برسات نہ آئے
ہر کوہ یہ کہتا ہے کہ آگے کبھی اُس کے
تیشے میں ہے جو لطفِ کرامات نہ آئے
کرنے کو شفاعت بھی یہ اچّھا ہے کہ ماجدؔ
نیّت ہے بُری جس کی وُہ بد ذات نہ آئے
ماجد صدیقی

کیا جبر جتانے یہ سیہ رات رُکی ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 75
تھی غنچۂ دل میں جو وُہی بات رُکی ہے
کیا جبر جتانے یہ سیہ رات رُکی ہے
کب ریت کی دیوار سے سیلاب ہے ٹھٹکا
فریاد سے کب یورشِ آفات رُکی ہے
ژالہ سا ہر اِک برگ لپکتا ہے زمیں کو
کیسی یہ بھلا باغ میں برسات رُکی ہے
کچھ اور بھی مچلے گی ابھی بُعدِ سحر سے
پلکوں پہ ستاروں کی جو بارات رُکی ہے
عجلت میں رواں، مالِ غنیمت کو سنبھالے
کب موجِ ہوا پاس لئے پات، رُکی ہے
بوندوں نے قفس میں بھی یہی دی ہے تسلی
صیّاد سے کب بارشِ نغمات رُکی ہے
ماجدؔ یہ کرم ہم پہ کہاں موسمِ گل کا
کب ہاتھ میں لینے کو صبا ہات رُکی ہے
ماجد صدیقی

اَب تو چاروں اور ہمیں وہ رات دکھائی دیتی ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 81
پل پل بُجھتی جس میں اپنی ذات دکھائی دیتی ہے
اَب تو چاروں اور ہمیں وہ رات دکھائی دیتی ہے
صحن چمن میں پہلا ہی سا رقص و سرُود ہوا کا ہے
ہر سُو گرتے پتّوں کی برسات دکھائی دیتی ہے
جانے کس کا خوف ہے جو کر دیتا ہے محتاط ہمیں
ہونٹوں پر اٹکی اٹکی ہر بات دکھائی دیتی ہے
شاخِ طرب سے جھڑنے والی، گردِ الم میں لپٹی سی
صُورت صُورت پیڑ سے بچھڑا پات دکھائی دیتی ہے
سودا ہے درپیش ہمیں جو آن کا ہے یا جان کا ہے
صُورت جینے مرنے کی اک سات دکھائی دیتی ہے
موسمِ دشت میں نم ہو ماجدؔ کب تک آبلہ پائی سے
اَب تو ہمیں اِس رن میں بھی کُچھ مات دکھائی دیتی ہے
ماجد صدیقی

آج پھر چاند کی چودہویں رات ہے

ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 68
تُجھ سے کہنے کی بس اَب یہی بات ہے
آج پھر چاند کی چودہویں رات ہے
اپنی خواہش، کہ گُل پیرہن ہو چلیں
اور فضائے چمن، وقفِ حالات ہے
چار سُو ایک ہی منظرِ بے سکوں
چار سُو خشک پتّوں کی برسات ہے
اَب تو ماجدؔ خزاں کے نہ منکر رہو
شاخ پر اَب تو کوئی کوئی پات ہے
ماجد صدیقی

کوئی صورت ہو کہ برسات کٹے

پروین شاکر ۔ غزل نمبر 106
دن ٹھہر جائے ، مگر رات کٹے
کوئی صورت ہو کہ برسات کٹے
خوشبوئیں مجھ کو قلم کرتی گئیں
شاخ در شاخ مرے ہات کٹے
موجہ ءِ گُل ہے کہ تلوار کوئی
درمیاں سے ہی مناجات کٹے
حرف کیوں اپنے گنوائیں جا کر
بات سے پہلے جہاں بات کٹے
چاند! آ مِل کے منائیں یہ شب
آج کی رات ترے سات کٹے
پُورے انسانوں میں گُھس آئے ہیں
سر کٹے ، جسم کٹے ، ذات کٹے
پروین شاکر

کیا تجھے بھی کوئی یاد آتا ہے برسات کے ساتھ

پروین شاکر ۔ غزل نمبر 68
نم ہیں پلکیں تری اے موجِ ہَوا، رات کے ساتھ
کیا تجھے بھی کوئی یاد آتا ہے برسات کے ساتھ
روٹھنے اور منانے کی حدیں ملنے لگیں
چشم پوشی کے سلیقے تھے، شکایات کے ساتھ
تجھ کو کھو کر بھی رہوں ،خلوتِ جاں میں تیری
جیت پائی ہے محبت نے عجب،مات کے ساتھ
نیند لاتا ہُوا،پھر آنکھ کو دُکھ دیتا ہُوا
تجربے دونوں ہیں وابستہ ہات کے ساتھ
کبھی تنہائی سے محروم نہ رکھّا مُجھ کو
دوست ہمدرد ہے،کتنے ،مری ذات کے ساتھ
پروین شاکر

عقل گئی زاہد بدذات کی

دیوان اول غزل 624
سن کے صفت ہم سے خرابات کی
عقل گئی زاہد بدذات کی
جی میں ہمارے بھی تھا پیویں شراب
پیرمغاں تونے کرامات کی
کوئی رمق جان تھی تن میں مرے
سو بھی ترے غم کی مدارات کی
یاد میں تجھ زلف کی گریہ سے شوخ
روز مرا رات ہے برسات کی
میر تقی میر

دو دو بچن کے ہونے میں اک بات ہو گئی

دیوان اول غزل 467
کل بارے ہم سے اس سے ملاقات ہو گئی
دو دو بچن کے ہونے میں اک بات ہو گئی
کن کن مصیبتوں سے ہوئی صبح شام ہجر
سو زلفیں ہی بناتے اسے رات ہو گئی
گردش نگاہ مست کی موقوف ساقیا
مسجد تو شیخ جی کی خرابات ہو گئی
ڈر ظلم سے کہ اس کی جزا بس شتاب ہے
آیا عمل میں یاں کہ مکافات ہو گئی
خورشید سا پیالۂ مے بے طلب دیا
پیر مغاں سے رات کرامات ہو گئی
کتنا خلاف وعدہ ہوا ہو گا وہ کہ یاں
نومیدی و امید مساوات ہو گئی
آ شیخ گفتگوے پریشاں پہ تو نہ جا
مستی میں اب تو قبلۂ حاجات ہو گئی
ٹک شہر سے نکل کے مرا گریہ سیر کر
گویا کہ کوہ و دشت پہ برسات ہو گئی
دیدار کی گرسنگی اپنی یہیں سے دیکھ
اک ہی نگاہ یاروں کی اوقات ہو گئی
اپنے تو ہونٹ بھی نہ ہلے اس کے روبرو
رنجش کی وجہ میر وہ کیا بات ہو گئی
میر تقی میر

جو بات میرے دل میں تھی وہ بات نئیں ہوئی

عرفان صدیقی ۔ غزل نمبر 215
ایسا تو نئیں کہ ان سے ملاقات نئیں ہوئی
جو بات میرے دل میں تھی وہ بات نئیں ہوئی
بہتر یہ ہے کہ وہ تنِ شاداب ادھر نہ آئے
برسوں سے میرے شہر میں برسات نئیں ہوئی
پیش ہوس تھا خوانِ دو عالم سجا ہوا
اس رزق پر مگر بسر اوقات نئیں ہوئی
تیرے بغیر بھی غم جاں ہے وہی کہ نئیں
نکلا نہ ماہتاب تو کیا رات نئیں ہوئی
ہم کون پیرِ دل زدگاں ہیں کہ عشق میں
یاراں بڑے بڑوں سے کرامات نئیں ہوئی
کیا سہل اس نے بخش دیا چشمۂ حیات
جی بھر کے سیرِ وادیِ ظلمات نئیں ہوئی
میرے جنوں کو ایک خرابے کی سلطنت
یہ تو کوئی تلافیِ مافات نئیں ہوئی
اپنا نسب بھی کوئے ملامت میں بار ہے
لاکھ اپنے پاس عزتِ سادات نئیں ہوئی
یاقوتِ لب تو کارِ محبت کا ہے صلہ
اجرت ہوئی حضور یہ سوغات نئیں ہوئی
کب تک یہ سوچ سوچ کے ہلکان ہو جیسے
اب تک تری طرف سے شروعات نئیں ہوئی
عرفان صدیقی

ساحلوں پر زندگی سن باتھ کرنا چاہتی ہے

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 632
تیرے کرنوں والے ہٹ میں رات کرنا چاہتی ہے
ساحلوں پر زندگی سن باتھ کرنا چاہتی ہے
اپنے بنگلوں کے سوئمنگ پول کی تیراک لڑکی
میرے دریا میں بسر اوقات کرنا چاہتی ہے
وقت کی رو میں فراغت کا نہیں ہے کوئی لمحہ
اور اک بڑھیا کسی سے بات کرنا چاہتی ہے
چاہتا ہوں میں بھی بوسے کچھ لبوں کی لاٹری کے
وہ بھی ملین پونڈ کی برسات کرنا چاہتی ہے
مانگتا پھرتا ہوں میں بھی آگ کا موسم کہیں سے
وہ بھی آتشدان کی خیرات کرنا چاہتی ہے
کیسے کی اس نے نفی جوبات کرنا چاہتی ہے
جو نہیں وہ ذات کیا اثبات کرنا چاہتی ہے
منصور آفاق

رہ رہے ہیں رات میں ہم رات کے مارے ہوئے

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 511
جا نہیں سکتے کہیں ظلمات کے مارے ہوئے
رہ رہے ہیں رات میں ہم رات کے مارے ہوئے
رات کے پچھلی گلی میں ایک میں اور ایک چاند
جاگتے پھرے ہیں دو حالات کے مارے ہوئے
دیدۂ شب میں پہن کر بارشوں کے پیرہن
پھر رہے ہیں موسمِ برسات کے مارے ہوئے
لوگ تھے اور فیض جاری تھی کسی درگاہ پر
لوٹ آئے ہم شعورِ ذات کے مارے ہوئے
ہم بھارت اور پاکستان کے منصور لوگ
دونوں کشمیری علاقہ جات کے مارے ہوئے
منصور آفاق

اٹھ گئے ہم کہ کوئی بات تھی ہونے والی

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 455
اک تعلق کی شروعات تھی ہونے والی
اٹھ گئے ہم کہ کوئی بات تھی ہونے والی
لوح پر دیکھ لیا مشرق و مغرب کا نصیب
بس کہیں صبح ، کہیں رات تھی ہونے والی
دیکھنے والا تھا، پھر مڑکے، کوئی ایک نظر
کیا ہوا ، دید کی خیرات تھی ہونے والی
اپنے قہوے کا سماوار ابھی ٹھنڈا تھا
اور مسجد میں مناجات تھی ہونے والی
لینے آئے ہوئے تھے رومی و اقبال ہمیں
اپنی باہو سے ملاقات تھی ہونے والی
کیا ہوا ، وقت بدلنے کی خبر آئی تھی
وا کہیں چشمِ سماوات تھی ہونے والی
تم نہ ملتے تو یہاں سے بھی ہمیں جانا تھا
ایسی کچھ صورتِ حالات تھی ہونے والی
اب جہاں دھوپ نکل آئی ہے کنجِ لب سے
کچھ ہی پہلے یہاں برسات تھی ہونے والی
اس کے کہنے پہ بدل آئے ہیں رستہ اپنا
جب محبت میں اسے مات تھی ہونے والی
ہم چلے آئے ہیں اُس حسن کے دستر خواں سے
جب ہماری بھی مدارات تھی ہونے والی
قتل نامہ تھا کہ جلاد نے ڈھاڑیں ماریں
کیسی اک مرگِ مفاجات تھی ہونے والی
ارتقاء آخری منزل پہ تھا میرا اُس وقت
خلق جب جنسِجمادات تھی ہونے والی
میں پلٹ آیا ہوں منصور ’’مقامِ ہو‘‘ سے
اک عجب بات مرے ساتھ تھی ہونے والی
منصور آفاق

فوٹو گراف ہوتی ہوئی بات کے بھی دیکھ

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 413
انداز گفتگو کے، مدارات کے بھی دیکھ
فوٹو گراف ہوتی ہوئی بات کے بھی دیکھ
ممکن نہیں ہے قید میں رکھنا چراغ کو
یہ اضطراب اپنی سیہ رات کے بھی دیکھ
بادل پہن لیے ہیں درختوں کے جسم نے
یہ معجزے پہاڑ پہ برسات کے بھی دیکھ
اک آخری امید تھی مٹی میں مل گئی
کچھ روز اب تُو سختیِ حالات کے بھی دیکھ
قربت کی انتہا پہ ہیں صدیوں کے فاصلے
منصور سلسلے یہ ملاقات کے بھی دیکھ
منصور آفاق

پھر بھی میں ہوں جلتی بجھتی روشنی کے ساتھ ساتھ

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 405
چل رہی ہے زندگی کی اک بھیانک رات ساتھ
پھر بھی میں ہوں جلتی بجھتی روشنی کے ساتھ ساتھ
میں نے سوچا کیا کہیں گے میرے بچپن کے رفیق
اور پھر رختِ سفر میں رکھ لیے حالات ساتھ
میں اکیلا رونے والا تو نہیں ہوں دھوپ میں
دے رہی ہے کتنے برسوں سے مرا برسات ساتھ
چاہیے تھا صرف تعویذِ فروغِ کُن مجھے
دے دیا درویش نے اذنِ شعورِ ذات ساتھ
یہ خزاں زادے کہیں کیا گل رتوں کے مرثیے
یونہی بے مقصد ہواؤں کے ہیں سوکھے پات ساتھ
ایک بچھڑے یار کی پرسوز یادوں میں مگن
کوئی بگلا چل رہا تھا پانیوں کے ساتھ ساتھ
منصور آفاق

میرے ساتھ چلی جاؤ تم یا سورج کے ساتھ۔ ایک ہی بات

منصور آفاق ۔ غزل نمبر 139
اُس کی منزل تاریکی ہے،میری منزل رات۔ ایک ہی بات
میرے ساتھ چلی جاؤ تم یا سورج کے ساتھ۔ ایک ہی بات
موسم اور میں ایک ہی دریا کے دو پاگل فرد۔درد نورد
برکھا رت کے آنسو ہوں یاآنکھوں کی برسات۔ ایک ہی بات
تیز ہوا کی زد پر دونوں ،ایک ہی پل کا روپ۔موت کی دھوپ
جیون سے آویختہ میں یا پیڑ سے مردہ پات۔ ایک ہی بات
اس کے کنجِ لب میں میری مسکانوں کی دھول۔ ہجرکے پھول
یعنی جیت کسی کی اور مسلسل میری مات۔ ایک ہی بات
میں گمنام یہاں تو اس کا جانے کون مقام۔کون غلام
ملک سخن کامیں شہزادہ اور ہے وہ سادات۔ ایک ہی بات
تیز کراہیں ، آہیں ، چیخیں ،گرمی اور سیلاب۔سانس عذاب
پاکستان کے منظر ہو ں یادوزخ کے حالات۔ ایک ہی بات
رنگ گریں گے قوسِ قزح سے،پھولوں سے سنگیت۔میت کے گیت
صبحِ بدن پر میرا ہو یا بادصبا کا ہاتھ۔ ایک ہی بات
کیسے کہوں میں باہو ، بلھا ، وارث ، شاہ حسین۔پیر فرید
کیسے کہوں منصور کے یا اقبال کے فرمودات۔ ایک ہی بات
منصور آفاق

نیند نہ آئی ساری رات

باقی صدیقی ۔ غزل نمبر 6
یاد آئی کیا تیری بات
نیند نہ آئی ساری رات
تم بھی واپس لا نہ سکو
اتنی دور گئی ہے بات
میرے غم میں ڈوب گئی
انگڑائی لے کر برسات
رسوائی کا نام بُرا
جب چھیڑو تازہ ہے بات
دل کو روشن کرتی ہیں
بجھ کر شمعیں بعض اوقات
جب عرض غم کی باقیؔ
ہنس کر ٹال گئے وہ بات
باقی صدیقی