ٹیگ کے محفوظات: انتظار
ہم غمِ بے کنار کھو بیٹھے
بس اک نگاہِ کرم کا اُمیدوار ہوں میں
پستی سے ہم کنار ملے کوہ سار بھی
جبر کے اختیار میں، عمر گزار دی گئی
ہوا کہیں کی ہو سینہ فگار اپنا ہے
ہوتا اگر اختیار کچھ دیر
بہت دنوں سے ترا انتظار بھی تو نہیں
کسی گنتی کسی شمار میں تھے
ہے خزاں بھی بہار میں مصروف
اُس نے اُتنا ہی مجھ کو خوار کیا
کہ دم بہ دم ہے بہاروں کا انتظار ہمیں
زوالِ عمر کے دن، ٹُوٹتے خمار کے دن
ٹل جائیں تجھ نگار سے ایسے بھی ہم نہیں
یہ ستم مجھ پہ بار بار نہ کر
گلاب رکھ کے کتابوں میں یار، بُھول گئے
یہ ستم مجھ پہ بار بار نہ کر
آنکھیں پگھل چلی ہیں، اسی انتظار میں
اِتنا اوچھا بھی مجھ پہ وار نہ کر
فغاں کی طرز وُہی ہم بھی اختیار کریں
کسی نے آکر ہمیں ہے کب بے قرار دیکھا
خزاں کے دور میں ذکرِ بہار کیا کرنا
دیا ہے بادِصبا نے مزہ خمار آسا
کہ ہم کو تیرا نہیں انتظار اپنا ہے
جبر کے اختیار میں، عمر گزار دی گئی
بچھڑ گیا تری صُورت، بہار کا موسم
عشق کو حسن ساز گار نہیں
اے سرو آ تجھے بھی دلا دوں ہزار پھول
سخت بے تاب ہیں مزار میں ہم
تمام رات قیامت کا انتظار کیا
خزاں سے کچھ نہیں ہوتا ، بہار دل میں رہے
ترا انتظار بہت کیا ترا انتظار بھی اب نہیں
بیقراری قرار ہے اماں ہاں
طاقتِ بیدادِ انتظار نہیں ہے
نافہ دماغِ آہوئے دشتِ تتار ہے
اگر اور جیتے رہتے ، یہی انتظار ہوتا
وہی جی مارے جس کو پیار کرے
ایسی طرح روزگار دیکھیے کب تک رہے
کہ دیکھا جب تجھے تب جی کو مار مار رہے
تو کیا رہیں گے جیتے ہم اس روزگار میں
ہم پھینک دیں اسے ترے منھ پر نثار کر
دل کلیجے کے پار ہوتا ہے
اس کا ہو جاتا دل شکار اے کاش
جو اس چمن میں یہ اک طرفہ انتشار ہے آج
یاں کام جا چکا ہے اب اختیار سے بھی
نہ گیا دل سے روے یار ہنوز
دن آج کا بھی سانجھ ہوا انتظار میں
میں اور یار اور مرا کاروبار اور
پر جانیں جو گئی ہیں سو رہ پر غبار ہے
صورت اک اعتبار سا ہے کچھ
تصدیع کھینچی ہم نے یہ کام اختیار کر
کہیو ہم صحرانوردوں کا تمامی حال زار
ہوا وہ بے مروت بے وفا ہرگز نہ یار اپنا
شاعری تو شعار ہے اپنا
اس وہم کی نمود کا ہے اعتبار کیا
آج کل مجھ کو مار رہتا ہے
زمانہ ہووے مساعد تو روزگار کریں
اے انتظار تجھ کو کسی کا ہو انتظار
اس شوخ کم نما کا نت انتظار کھینچا
اس آستاں پہ مری خاک سے غبار رہا
ایک تجھ کو ہزار میں دیکھا
جیتوں نہ جیت سے کبھی ہاروں نہ ہار سے
میں جانتا ہوں فلک میرے رہ گزار میں ہے
شبِ سیہ سے طلب حسنِ یار کرتے رہے
کہ جن دنوں سے مجھے تیرا انتظار نہیں
انتظار
گزر رہے ہیں شب و روز تم نہیں آتیں
ریاض زیست ہے آزردۂ بہار ابھی
مرے خیال کی دنیا ہے سوگوار ابھی
جو حسرتیں ترے غم کی کفیل ہیں پیاری
ابھی تلک مری تنہائیوں میں بستی ہیں
طویل راتیں ابھی تک طویل ہیں پیاری
اداس آنکھیں تری دید کو ترستی ہیں
بہار حسن پہ پابندیٔ جفا کب تک
یہ آزمائش صبر گریز پا کب تک
قسم تمہاری بہت غم اٹھا چکا ہوں میں
غلط تھا وعدۂ صبر و شکیب آجاؤ
قرار خاطر بے تاب تھک گیا ہوں میں
حسن مجبور انتظار نہیں
دم گھٹ رہا ہے سایۂ ابرِ بہار میں
اب تو لوٹے گی پرندوں کی قطار اگلے برس
انتظار
بوڑھے پیپل پہ بیٹھی ہوئی
ملگجی شام نے
جھک کے انگڑائی لی
ڈگمگائی ہوا
سر اُٹھایا کسی مُردہ پتے نے
شاخوں سے چمٹی ہوئی
ننھی چڑیوں کا ہنگام
تھمنے لگا
تم نہیں آئے تھے
وقت چلتا رہا
قطرہ قطرہ ٹپکتی رہی چاندنی
اور گرتے رہے
چاند کی زرد آنکھوں سے
اُلجھی ہوئی آس کے پیلے سکے
پگھلتی ہوئی رات کے …دو …پہر
لمحہ لمحہ منڈیروں پہ جمتے رہے
کچھ سلگتے ہوئے سائے
یادوں کی گدلائی الگن پہ
لٹکے رہے
ایک آہٹ تھی کیا
بڑھ کے دیکھا مگر
تم نہیں آئے تھے
کرچیوں سے بھری
دو نگاہیں لگی ہی رہیں
موڑ کے اس طرف
اَن چھوئے، اَدھ کِھلے
خواب رکھے رہے
رات ڈھلنے لگی
تم نہیں آئے تھے