زمرہ جات کے محفوظات: توقیر عباس

ہم تو لہریں ہیں

ہم تو جیسے لہریں ہیں

آسمان کو

چھونے کی خواہش میں

ہم جست لگائیں

تو لگتا ہے

پانی سے شاخیں پھوٹ پڑی ہیں

ہم تو پل چھن میں

اپنے ہونے کا مظاہرہ کر کے

اس ہیئت میں کھو جاتے ہیں

جو ہمیں بے ہیئت کر دیتی ہے

دھرتی کے تہ در تہ رازوں میں رقصاں

اس موجود میں جو موجود ہے

سب کو اپنے جال میں جکڑے ہوئے ہے

ہم سب لاکھوں تار و پود میں گندھے ہوئے ہیں

توقیر عباس

کوئی ہے؟

کوئی ہے! کوئی ہے! کی صدائیں،

لگاتے ہوئے،

میں سراپا صدا بن گیا،

لوگ آنکھوں کے گہرے گڑھوں سے

مجھے گھورتے،

ایک کیچڑ بھری لہر اُٹھتی شناسائی کی،

میری جانب لپکتی،

مگر ایک جھپکی میں معدوم پڑتی

وہ پھر اپنی گدلی خموشی سمیٹے،

کہاں، کس طرف آتے جاتے،

خبر کچھ نہیں تھی،

برسوں پہلے اسی شہر میں،

بوڑھے پیڑوں تلے آگ روشن تھی اور،

ایک خوشبو گواہی میں موجود تھی،

وہ کہ عہدِ مقدس کی تقریب تھی،

ساتھ دینے کا اک عہد تھا،

اپنی چاہت کے اقرار میں،

کہہ کے لبیک

آواز سے دستخط کر دئیے

اور پھر ایک دن

اپنے اقرار کو بھول کر

میں اسے بھول کر،

اُن دیاروں کی جانب چلا،

جن کو دینار و درہم کی خوشبو نے جکڑا ہوا تھا،

جب میں لوٹا

کھنکتی مہک کی کئی گٹھڑیاں باندھ کر،

کوئی رستہ نہ صورت شناسا ملی،

وہ شجر بھی کہیں پر نہ تھے،

اور لکیروں سے تشکیل پاتی ہوئی،

ایک بے چہرگی تھی ۔

جہاں عقل و دانش کی باتیں فقط شور تھیں

رنگوں اور خوشبوؤں کی جگہ

ایک صحرا ابھرتا نظر آ رہا تھا

اُسے ڈھونڈتے ڈھونڈتے

بے خدوخال چہرہ ہوا

میری آنکھیں کہیں بہہ گئیں

اور میں

بے صدائی کی تاریک کھائی میں گرتا گیا

اور گرتا چلا جا رہا ہوں

توقیر عباس

کہانی تونے کتنی دیر کی

کہانی تونے کتنی دیر کی

کچھ دیر پہلے

بام و در روشن تھے

آنگن جگمگاتے تھے

سلامت جگنوؤں کی روشنی تھی

تتلیوں کے رنگ قائم تھے

پرندوں کی اڑانیں تک بہت محفوظ تھیں

پیڑوں کی ساری ٹہنیاں آباد تھیں

شہزادے بھی شہزادیاں بھی جاگتی تھیں

استعارے زندگی کے ضو فشاں تھے

اور صبحوں میں بھرا تھا نور سجدوں کا

اگر تو جلد آ جاتی

ترا باطن منور

تجھے سیراب کرتے

مگر اب خاک میں سب کچھ دبا ہے

توقیر عباس

عجب مزدور ہے

عجب مزدور ہے

ہر کام کرتا ہے

گھڑی کی سوئیوں میں گھومتا ہے

بہاو بن کے بہتا ہے

زمانوں سے زمانوں تک

شکست و ریخت کرتا ہے

کہیں تعمیر کرتا ہے

خزانے برد کرتا ہے

کہیں دھرتی کی تہہ سے

کوئی گنجِ گمشدہ بھی کھینچ لاتا ہے

کسی کا ساتھ دیتا ہے

کسی کوچھوڑ جاتا ہے

پہاڑوں جنگلوں میں بھی

نظر آتا ہے اپنا کام کرتا

لٹیرا بھی ہے جابر بھی

سخی بھی مہرباں بھی ہے

وہ چاروں سمت چلتا ہے

اسے تو چلتے جانا ہے

ازل کی وادیوں سے

ابد کے سبزہ زاروں تک

عجب مزدور ہے

توقیر عباس

دور پیڑوں کے سائے میں

دور پیڑوں کے سائے میں۔۔۔

حرکت، مسلسل

مرا دھیان اس کی طرف

اوردل میں کئی واہمے

دل کی دھڑکن میں دھڑکیں

کئی گردشیں

اور میں ہشت پائے کے پنجے میں جکڑا گیا

عجب خوف پیڑوں کے سائےمیں پلتا ہوا

اک تحرک

جو کھلتا نہیں

اور میں منتظر

جو بھی ہونا ہے اب ہو

اور اب ایک آہٹ نے دہلا دیا

بہت دھیمی آہٹ

اجل نے چھوا ہو

کہ دنیا اندھیرے میں ڈوبی

کہیں دور خوشبو میں مہکا سویرا

تحرک کی ہچکی سنی

اور ہر چیز اپنی جگہ تھم گئی

سیاہی کا پردہ گرا

قمقمے جل اُٹھے

اور گھر جگمگانے لگے

توقیر عباس

بھرا شہر اس دن پریشان تھا

بھرا شہر اس دن پریشان تھا

چوبداروں کی جاں پر بنی تھی

سپاہی ہراساں تھے

راجا کسی سوچ میں دم بخود تھا

رعایا کے چہروں پر آتے دنوں کی سیاہی کا سایہ جما تھا

کہانی مکمل نہیں تھی

وزیروں کے اذہان عاجز تھے

کیسے مکمل کریں اور عنوان کیا دیں

ادھورے کو پورا بھی کرنا کوئی کار آساں نہیں

منادی کرا دی گئی

لفظ و عنواں کوئی ڈھونڈ لائے تو انعام پائے

مگر وہ کہانی نجانے کہاں کھو گئی ہے

جسے ڈھونڈنے میں بھی صدیوں سے نکلا ہوا ہوں

توقیر عباس

بکھری راکھ سے۔۔۔

اور اب دھیان میں لاؤں

وہ پل

لاکھ یگوں کے یم کا رستہ جس پر

چھدے ہوئے جسموں کی دھڑکن

نوحہ کناں تھی

ٹوٹتے جڑتے سلسلے لمحوں کے

ٹھیکریاں جب ہیروں سے مس ہو کر

تاب یاب تھیں

کتنے سورج اپنی راکھ میں غلطاں تھے

سب دھاگے ٹوٹ کے بکھر گئے تھے

جسم جلاتی گرم ہوا کی لپٹیں

رنگوں کو صحرا کے پھیکے پن میں ڈھال رہی تھیں

کوندے جھماکے لاکھ نطارے

کتنی کائناتیں جو

بود نہ بود کے ایک نظام سے جڑ کر

ایک تسلسل سے مصروف عمل تھیں

چاروں جانب اڑتی راکھ تھی

دور کہیں پربجتی بانسری

جس کی دھن میں

بکھری راکھ سے روئے زماں کی

پھر تشکیل ہوئی تھی

توقیر عباس

اس دن

اس دن تو وہ خود بھی شکستہ قابلِ رحم تھا لیکن،

کون تھا جس کے لئے

اس کی ہمدردی نہیں تھی،

جس پر اس کو ترس نہیں آیا تھا،

سو اُس نے اِس لمحے کے زیر اثر،

سب اشیا ء کو دیکھا،

دریا ندی سمندر اپنے کناروں میں سمٹے بل کھاتے ہیں،

تھل میں ویرانی رقصاں ہے،

پیڑ ہیں پاگل ہوا میں ہاتھ میں ہلاتے رہتے ہیں،

پنچھی کتنا اڑتے ہیں،

کو ہ فقط تخریب کی زد پر آ کر گرتے

زلزلےپیداکرتے رہتے ہیں،

ہوا بھی اندھی ہے،

جو سب سے مراسم رکھتی ہے،

اس جیسے سب انساں

اک کاہش میں رینگتی روحیں ہیں،

اس نے دیکھا،

سب کچھ اک مربوط نظام کی جکڑن میں ہے،

سب کچھ جدا جدا ہے،

لیکن اک دوجے سے

لاکھوں رشتے جڑے ہو ئے ہیں۔

توقیر عباس

ﺭﻧﮓ ﺗﺼﻮﯾﺮ ﺳﮯ ﻧﮑﻞ ﺁﯾﺎ

توقیر عباس ۔ غزل نمبر 10
ﮐﺮﺏ ﺗﺤﺮﯾﺮ ﺳﮯ ﻧﮑﻞ ﺁﯾﺎ
ﺭﻧﮓ ﺗﺼﻮﯾﺮ ﺳﮯ ﻧﮑﻞ ﺁﯾﺎ
ﺑﺎﺕ ﺑﻨﯿﺎﺩ ﮐﯽ ﻧﮑﻞ ﺁئی
ﻋﯿﺐ ﺗﻌﻤﯿﺮ ﺳﮯ ﻧﮑﻞ ﺁﯾﺎ
ﮐﺘﻨﺎ ﺍﭼﮭﺎ ﮨﮯ ﻧﺎﺗﻮﺍﮞ ﮨﻮﻧﺎ
ﭘﺎﺅﮞ زﻧﺠﯿﺮ ﺳﮯ ﻧﮑﻞ ﺁﯾﺎ
ﻭﺍﺭ ﺍﺗﻨﺎ ﺷﺪﯾﺪ ﺗﮭﺎ ﻣﯿﺮﺍ
زﺧﻢ ﺷﻤﺸﯿﺮ ﺳﮯ ﻧﮑﻞ ﺁﯾﺎ
ﺍﺏ ﻭﮦ ﺗﻨﮩﺎ ﮐﮭﮍﺍ ﮨﻮﺍ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻣﯿﮟ
ﺍﺱ ﮐﯽ ﺗﺼﻮ ﯾﺮ ﺳﮯ ﻧﮑﻞ ﺁﯾﺎ
ﺩﻭﺳﺖ ﻣﺤﻔﻞ ﺳﮯ ﺍٹھ ﮔئے ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ
ﺗﮭﻮﮌﯼ ﺗﺎﺧﯿﺮ ﺳﮯ ﻧﮑﻞ ﺁﯾﺎ
ﺣﺒﺲ ﭨﻮﭨﺎ ﺗﻮ ﯾﻮﮞ ﻟﮕﺎ ﺗﻮﻗﯿﺮ
ﺷﮩﺮ ﺗﻌﺰﯾﺮ ﺳﮯ ﻧﮑﻞ ﺁﯾﺎ
توقیر عباس

ﺻﺪﯾﻮﮞ ﺳﮯ ﯾﮩﺎﮞ ﮨﻢ ﺑﮭﯽ ﮨﯿﮟ ﯾﮧ ﺧﺴﺘﮧ ﻣﮑﺎﮞ ﺑﮭﯽ

توقیر عباس ۔ غزل نمبر 9
ﻣﺮﺗﯽ ﮨﻮئی ﺗﮩﺬﯾﺐ ﺑﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻧﺸﺎﮞ ﺑﮭﯽ
ﺻﺪﯾﻮﮞ ﺳﮯ ﯾﮩﺎﮞ ﮨﻢ ﺑﮭﯽ ﮨﯿﮟ ﯾﮧ ﺧﺴﺘﮧ ﻣﮑﺎﮞ ﺑﮭﯽ
ﺍﻧﺠﺎﻥ زﻣﺎﻧﻮﮞ ﮐﯽ ﺭﻭﺍﯾﺖ ﺑﮭﯽ ﺳﻔﺮ ﻣﯿﮟ
ﮨﻤﺮﺍﮦ ﻣﺮﮮ ﮨﮯ ﺧﺲ ﻭ ﺧﺎﺷﺎﮎ ﻭ ﺟﮩﺎﮞ ﺑﮭﯽ
ﺍﺱ ﮨﺠﺮ ﺳﮯ ﮐﯿﺎ ﺟﺎﻥ ﭼﮭﮍﺍﺅﮞ ﮐﮧ ﯾﮧ ﮈﺭ ﮨﮯ
ﺁﺳﯿﺐ ﺗﻮ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﻮئے ﭼﮭﻮﮌﮮ ﮔﺎ ﻧﺸﺎﮞ ﺑﮭﯽ
ﺗﻢ ﻧﮯ ﺗﻮ ﺑﭽﮭﮍﻧﮯ ﻣﯿﮟ ﺫﺭﺍ ﺩﯾﺮ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﯽ
ﮐﭽﮫ ﺩﯾﺮ ﺗﻮ ﺍﭨﮭﺘﺎ ﮨﮯ ﭼﺮﺍﻏﻮﮞ ﺳﮯ ﺩﮬﻮﺍﮞ ﺑﮭﯽ
ﻣﻤﮑﻦ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻣﺼﺮﻋﮯ ﻣﯿﮟ ﯾﮩﯽ ﺑﺎﺕ ﺍﭨﮭﺎ ﺩﻭﮞ
ﺍﮎ ﺳﺎتھ ﮔﺮﺍ ﮨﮯ ﺗﺮﺍ ﻣﻠﺒﮧ ﺑﮭﯽ ﻣﮑﺎﮞ ﺑﮭﯽ
توقیر عباس

ﻋﺸﻖ ﻣﯿﮟ ﻋﺸﻖ ﮐﮯ ﺁﺯﺍﺭ ﮐﮩﺎﮞ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ

توقیر عباس ۔ غزل نمبر 8
ﺗﯿﺮﮮ ﺩﺭ ﺳﮯ ﺗﺮﮮ ﺑﯿﻤﺎﺭ ﮐﮩﺎﮞ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ
ﻋﺸﻖ ﻣﯿﮟ ﻋﺸﻖ ﮐﮯ ﺁﺯﺍﺭ ﮐﮩﺎﮞ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ
ﺩﯾﮑﮫ ﺁﯾﺎ ﮨﻮﮞ ﺍﺑﮭﯽ ﺳﺒﺰ ﮐﺠﺎﻭﮮ ﺗﯿﺎﺭ
ﮐﻮﻥ ﺟﺎﻧﮯ ﻣﺮﮮ ﺳﺮﺩﺍﺭ ﮐﮩﺎﮞ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ
ﮐﻮئی ﺁﻭﺍﺯ ﮨﻮ ﻣﻌﻨﯽ ﺳﮯ ﺟﮍﯼ ﺭﮨﺘﯽ ﮨﮯ
ﻟﻔﻆ ﺟﯿﺴﮯ ﺑﮭﯽ ﮨﻮﮞ ﺑﯿﮑﺎﺭ ﮐﮩﺎﮞ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ
ﭘﯿﮍ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﺭﮨﮯ ﻧﻘﺶِ ﮐﻒِ ﭘﺎ ﺑﻦ ﮐﺮ
ﺻﺎﺣﺐِ ﺷﯿﻮﮦ ﻭ ﺍﯾﺼﺎﺭ ﮐﮩﺎﮞ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ
باﮨﺮ ﺁﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺳﺐ ﻣﯿﺮﯼ ﮐﮩﺎﻧﯽ ﺳﮯ ﻣﮕﺮ
ﮐﯿﺎ ﺧﺒﺮ ﭘﮭﺮ ﻣﺮﮮ ﮐﺮﺩﺍﺭ ﮐﮩﺎﮞ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ
ﮐﺴﯽ ﻓﺮﺩﻭﺱ ﻧﻈﺮ ﺗﮏ ﺗﻮ ﻧﮩﯿﮟ ﻟﮯ ﺟﺎﺗﮯ
ﯾﮧ ﺟﻮ ﮨﯿﮟ ﺭﺍﺳﺘﮯ ﺩﺷﻮﺍﺭ ﮐﮩﺎﮞ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ
ﺍﻥ ﮐﮯ ﺳﺎئے ﻧﻈﺮ ﺁﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﺳﺒﮭﯽ ﺷﺎﺧﻮﮞ ﭘﺮ
ﭘﮭﻮﻝ ﺁﺗﮯ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﺮ ﺑﺎﺭ ﮐﮩﺎﮞ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ
ﻣﯿﺮﺍ ﻣﻌﻤﻮﻝ ﮨﮯ ﺳﻮﺗﺎ ﮨﻮﮞ ﺑﻨﺎ ﮐﺮ ﺍﻥ ﮐﻮ
ﭘﮭﺮ ﺳﺤﺮ ﺩﻡ ﺩﺭ ﻭ ﺩﯾﻮﺍﺭ ﮐﮩﺎﮞ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ
ﺍﻧﮩﯿﮟ ﺗﻮﻗﯿﺮ ﺗﺠﺴﺲ ﺗﻮ ﺍﺳﯽ ﺑﺎﺕ ﮐﺎ ﮨﮯ
ﻟﮯ ﮐﮯ ﮨﻢ ﺳﺎیۂِ ﺩﯾﻮﺍﺭ ﮐﮩﺎﮞ ﺟﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ
توقیر عباس

ﮐﮩﻮﮞ ﮐﺲ ﺳﮯ ﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﺗﻨﮩﺎ ﺑﮩﺖ ﮨﻮﮞ

توقیر عباس ۔ غزل نمبر 7
ﻣﯿﺎﻥ ﺭﻭﻧﻖ ﺩﻧﯿﺎ ﺑﮩﺖ ﮨﻮﮞ
ﮐﮩﻮﮞ ﮐﺲ ﺳﮯ ﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﺗﻨﮩﺎ ﺑﮩﺖ ﮨﻮﮞ
ﺑﮑﮭﺮﻧﺎ ﭼﺎﮨﺘﺎ ﮨوںﺳﺎﺣﻠﻮﮞ ﭘﺮ
ﻣﯿﮟ ﺩﺭﯾﺎ ﮨﻮﮞ ﻣﮕﺮ ﮔﮩﺮﺍ ﺑﮩﺖ ﮨﻮﮞ
ﻧﮩﯿﮟ ﺁﺳﺎﮞ ﻣﺠﮭﮯ ﻣﺼﻠﻮﺏ ﮐﺮﻧﺎ
ﺗﺮﯼ ﺳﻮﻟﯽ ﺳﮯ ﻣﯿﮟ ﺍﻭﻧﭽﺎ ﺑﮩﺖ ﮨﻮﮞ
ﭘﺮﻧﺪﮮ ﺑﮭﯽ ﻣﺠﮭﮯ ﭘﮩﭽﺎﻧﺘﮯ ﮨﯿﮟ
ﻣﯿﮟ ﺍﻥ ﭘﯿﮍﻭﮞ ﺗﻠﮯ ﺑﯿﭩﮭﺎ ﺑﮩﺖ ﮨﻮﮞ
ﺑﮩﺖ ﺩﻟﮑﺶ ﮨﯿﮟ ﺳﻨﮓ ﻭ ﺳﺮ ﮐﮯ ﺭﺷﺘﮯ
ﺗﺮﯼ ﮔﻠﯿﻮﮞ ﺳﮯ ﻣﯿﮟ ﮔﺰﺭﺍ ﺑﮩﺖ ﮨﻮﮞ
ﻧﺠﺎﻧﮯ ﮐﯿﺎ ﺧﻄﺎ ﺳﺮ ﺯﺩ ﮨﻮئی ﺗﮭﯽ
ﻣﯿﮟ ﺍﭘﻨﮯ ﺁﭖ ﭘﺮ ﺑﺮﺳﺎ ﺑﮩﺖ ﮨﻮﮞ
توقیر عباس

پانی کا ہمیں خوف تھا مٹی کے گھڑے تھے

توقیر عباس ۔ غزل نمبر 6
اک وقت تو ایسا تھا کہ دن رات کڑے تھے
پانی کا ہمیں خوف تھا مٹی کے گھڑے تھے
ھم نیند کے عالم میں کوئی موڑ مڑے تھے
دیکھا تو ابد گیر زمانے میں کھڑے تھے
معلوم ہے جس موڑ پہ بچھڑے تھے اسی جا
کچھ ہاتھ ہلاتے ہوئے اشجار کھڑے تھے
ہر موڑ پہ ہوتا تھا یہاں قتل وفا کا
ہر موڑ پہ ٹوٹے ہوئے آئینے پڑے تھے
ڈر تھا کہ پکارا تھا تمھیں ذر کی چمک نے
میدان سے تم لوگ کہاں بھاگ پڑے تھے
اسطورۂِ بغداد کو شب خواب میں دیکھا
وہ حسن تھا شہزادے قطاروں میں کھڑے تھے
تم نے بھی بہت اشک بہائے تھے بچھڑ کر
پیڑوں سے بھی اس رات بہت پات جھڑے تھے
اک قافلہ بھٹکا تھا کسی خواب کے اندر
اک شہر کے رستے میں بہت موڑ پڑے تھے
توقیر عباس

چھو کے ساحل لہر ہٹتی جا رہی تھی

توقیر عباس ۔ غزل نمبر 5
زندگی کی نبض گھٹتی جا رہی تھی
چھو کے ساحل لہر ہٹتی جا رہی تھی
زندگی کی نبض گٹھتی جا رہی تھی
اک ندی ساحل سے ہٹتی جا رہی تھی
کوئی مجھ کو یاد آتا جا رہا تھا
بیل پتھر سے لپٹتی جا رہی تھی
روح پر بھی لاکھ شکلیں پڑ رہی تھیں
دھول سے چادر بھی اٹتی جا رہی تھی
چھو رہی تھی سوئی خطرے کے نشاں کو
ایک منزل تھی سمٹتی جا رہی تھی
اس کی باتیں دوستوں پر کھل رہی تھیں
ایک چادر تھی جو پھٹتی جا رہی تھی
میں اسے اپنی محبت کہہ رہا تھا
وہ کئی رستوں میں بٹتی جا رہی تھی
روح پر بھی شکنیں پڑ رہی تھیں
دھول سے چادر بھی اٹتی جا رہی تھی
دھیرے دھیرے لوگ آگے بڑھ رہے تھے
دھیرے دھیرے دھند چھٹتی جا رہی تھی
کنکوا مغرب میں ڈوبا جارہا تھا
ڈور چرخی سے لپٹتی جا رہی تھی
لوگ بھی بے سوچے سمجھے چل رہے تھے
ذیست بھی صفحے پلٹتی جا رہی تھی
کشتیوں کے بادباں لہرا رہے تھے
ساحلوں سے دھند چھٹتی جا رہی تھی
سانس کا توقیر آرا چل رہا تھا
زندگانی اپنی کٹتی جا رہی تھی
توقیر عباس

دھواں بھی اٹھ رہا تھا روشنی بھی ہو رہی تھی

توقیر عباس ۔ غزل نمبر 4
نجانے آگ کیسی آئنوں میں سو رہی تھی
دھواں بھی اٹھ رہا تھا روشنی بھی ہو رہی تھی
لہو میری نسوں میں بھی کبھی کا جم چکا تھا
بدن پر برف کو اوڑھے ندی بھی سو رہی تھی
چمکتے برتنوں میں خون گارا ہو رہا تھا
مری آنکھوں میں بیٹھی کوئی خواہش رو رہی تھی
ہماری دوستی میں بھی دراڑیں پڑ رہی تھیں
اجالے میں نمایاں تیرگی بھی ہو رہی تھی
دباؤ پانیوں کا ایک جانب بڑھ رہا تھا
نجانے ساحلوں پر کون کپڑے دھو رہی تھی
کسی کے لمس کا احساس پیہم ہو رہا تھا
کہ جیسے پھول پر معصوم تتلی سو رہی تھی
توقیر عباس

صحرا نے پھر خاک اڑائی پانی کی

توقیر عباس ۔ غزل نمبر 3
ریت پہ جب تصویر بنائی پانی کی
صحرا نے پھر خاک اڑائی پانی کی
خون کی ندیاں بہہ جانے کے بعد کھلا
دونوں کے ہے بیچ لڑائی پانی کی
کشتی کب غرقاب ہوئی معلوم نہیں
آنکھوں نے تصویر بنائی پانی کی
ہم تو خون جلا کر بھوکے رہتے ہیں
کھاتے ہیں کچھ لوگ کمائی پانی کی
اس میں جتنے لوگ بھی اترے ڈوب گئے
کون بتائے اب گہرائی پانی کی
منہ میں اب تک اس کی لذت باقی ہے
جو نمکینی تھی صحرائی پانی کی
میری خاطر خاک میں جو تحلیل ہوئے
یاد آئے تو یاد نہ آئی پانی کی
آج وہ مجھ کو ٹوٹ کے یاد آیا توقیر
آنکھوں میں پھر رت گدرائی پانی کی
توقیر عباس

ﺳﻮﭼﻨﮯ ﺳﮯ ﻣﺮﮮ ﮨﻮﺍ ﻣﺤﺪﻭﺩ

توقیر عباس ۔ غزل نمبر 2
ﻭﮦ ﺗﮭﺎ ﺍﭘﻨﯽ ﺣﺪﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﻻ ﻣﺤﺪﻭﺩ
ﺳﻮﭼﻨﮯ ﺳﮯ ﻣﺮﮮ ﮨﻮﺍ ﻣﺤﺪﻭﺩ
ﺻﺤﻦ زﻧﺪﺍﮞ ﺑﮩﺖ ﮐﺸﺎﺩﮦ ﺗﮭﺎ
ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﺗﮭﯽ ﺭﻭﺷﻨﯽ ﮨﻮﺍ ﻣﺤﺪﻭﺩ
ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﮎ ﺑﺎﺭﮔﺎﮦ ﻣﯿﮟ ﺩﯾﮑﮭﮯ
ﺳﺎﺭﮮ ﻣﺤﺪﻭﺩ ﺳﺎﺭﮮ ﻻ ﻣﺤﺪﻭﺩ
ﺧﻮﺍﮨﺸﻮﮞ ﮐﺎ ﺗﻮ ﮐﻮئی ﺍﻧﺖ ﻧﮧ ﺑﮭﺎ
ﻟﻔﻆ ﮐﺮﺗﮯ ﺭﮨﮯ ﺩﻋﺎ ﻣﺤﺪﻭﺩ
ﮔﻮﻧﺞ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺳﺪﺍ ﺑﮑﮭﺮﺗﯽ ﺭﮨﯽ
ﺍﻭﺭ ﮨﻮﺗﯽ ﮔئی ﺻﺪﺍ ﻣﺤﺪﻭﺩ
دیکھنے والے دیکھ سکتے ہیں
چار جانب ہے آئینہ موجود
انہی رستوں میں ان چھوا کب سے
کوئی دیکھے ہے راستہ موجود
توقیر عباس

ﮨﻢ ﻟﻮﮒ ﺧﻮﺵ ﮨﯿﮟ ﺁﺝ ﺑﮭﯽ ﺩﻧﯿﺎ ﺳﻤﯿﭧ ﮐﮯ

توقیر عباس ۔ غزل نمبر 1
ﮐﯿﺎ ﺁﺧﺮﺕ ﮐﺎ ﺭﻧﺞ ﮐﮧ ﺑﮭﻮﮐﮯ ﮨﯿﮟ ﭘﯿﭧ ﮐﮯ
ﮨﻢ ﻟﻮﮒ ﺧﻮﺵ ﮨﯿﮟ ﺁﺝ ﺑﮭﯽ ﺩﻧﯿﺎ ﺳﻤﯿﭧ ﮐﮯ
ﮐﺘﻨﯽ ﺗﮭﯽ ﺍﺣﺘﯿﺎﺝ ﮨﻤﯿﮟ ﺁﻓﺘﺎﺏ ﮐﯽ
ﺑﯿﭩﮭﮯ ﺗﮭﮯ ﮐﭽﮫ ﭘﮩﺎﮌ ﺑﮭﯽ ﺑﺮﻓﯿﮟ ﻟﭙﯿﭧ ﮐﮯ
ﻣﮩﮑﺎ ﮨﻮﺍ ﺗﮭﺎ ﺭﻭﺣﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺑﺎﺭﺩ ﺷﺒﻮﮞ ﮐﺎ ﻏﻢ
ﮨﻢ ﻟﻮﮒ ﮐﺎﭨﺘﮯ ﺭﮨﮯ ﺩﻥ ﮨﺎﮌ ﺟﯿﭩﮫ ﮐﮯ
ﮨﻢ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺗﮭﮯ ﻣﯿﺰ ﭘﮧ ﺍﮎ ﺩﮐﮫ ﮐﮯ ﺳﺎئے ﺗﮭﮯ
ﺑﺲ ﻧﻘﺶ ﺩﯾﮑﮭﺘﮯ ﺭﮨﮯ ﺧﺎﻟﯽ ﭘﻠﯿﭧ ﮐﮯ
ﭨﮭﻮﮐﺮ ﻟﮕﯽ ﺗﻮ ﺻﻒ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﺟﺴﻢ ﮐﮭﻞ ﮔئے
ﺍﮎ ﺳﻤﺖ ﺭکھ ﺩﯾﮯ ﺗﮭﮯ ﮐﺴﯽ ﻧﮯ ﻟﭙﯿﭧ ﮐﮯ
ﺭﮐﮭﺎ ﺗﮭﺎ ﺭﺍﺕ ﺑﮭﺮ ﮨﻤﯿﮟ ﺑﮯ ﭼﯿﻦ ﮨﺠﺮ ﻧﮯ
ﺁﺭﺍﻡ ﮨﻢ ﮐﻮ ﺑﯿٹھ ﮐﮯ ﺁﯾﺎ ﻧﮧ ﻟﯿﭧ ﮐﮯ
ﺑﺮﺳﻮﮞ ﮐﺎ ﺍﯾﮏ ﺯﺧﻢ ﮐﮩﺎﮞ ﻣﻨﺪﻣﻞ ﮨﻮﺍ
ﺑﯿﭩﮭﺎ ﺭﮨﺎ ﭘﺮﻧﺪﮦ ﭘﺮﻭﮞ ﮐﻮ ﺳﻤﯿﭧ ﮐﮯ
ﺗﻮﻗﯿﺮ ﮐﺮﭼﯿﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺍﺳﮯ ﮈﮬﻮﻧﮉﺗﮯ ﺭﮨﻮ
ﺍﮎ ﺁﺋﯿﻨﮯ ﻣﯿﮟ ﻋﮑﺲ ﺭﮐﮭﮯ ﺗﮭﮯ ﺳﻤﯿﭧ ﮐﮯ
توقیر عباس