توقیر عباس ۔ غزل نمبر 5
زندگی کی نبض گھٹتی جا رہی تھی
چھو کے ساحل لہر ہٹتی جا رہی تھی
زندگی کی نبض گٹھتی جا رہی تھی
اک ندی ساحل سے ہٹتی جا رہی تھی
کوئی مجھ کو یاد آتا جا رہا تھا
بیل پتھر سے لپٹتی جا رہی تھی
روح پر بھی لاکھ شکلیں پڑ رہی تھیں
دھول سے چادر بھی اٹتی جا رہی تھی
چھو رہی تھی سوئی خطرے کے نشاں کو
ایک منزل تھی سمٹتی جا رہی تھی
اس کی باتیں دوستوں پر کھل رہی تھیں
ایک چادر تھی جو پھٹتی جا رہی تھی
میں اسے اپنی محبت کہہ رہا تھا
وہ کئی رستوں میں بٹتی جا رہی تھی
روح پر بھی شکنیں پڑ رہی تھیں
دھول سے چادر بھی اٹتی جا رہی تھی
دھیرے دھیرے لوگ آگے بڑھ رہے تھے
دھیرے دھیرے دھند چھٹتی جا رہی تھی
کنکوا مغرب میں ڈوبا جارہا تھا
ڈور چرخی سے لپٹتی جا رہی تھی
لوگ بھی بے سوچے سمجھے چل رہے تھے
ذیست بھی صفحے پلٹتی جا رہی تھی
کشتیوں کے بادباں لہرا رہے تھے
ساحلوں سے دھند چھٹتی جا رہی تھی
سانس کا توقیر آرا چل رہا تھا
زندگانی اپنی کٹتی جا رہی تھی
توقیر عباس
پسند کریں لوڈ کیا جا رہا ہے۔۔۔