گوری سووے سیچ پہ مکھ پر ڈارے کیس
چل خسرو گھر آپنے سانجھ بھئی چوندیس
گوری سووے سیچ پہ مکھ پر ڈارے کیس
چل خسرو گھر آپنے سانجھ بھئی چوندیس
کھیر پکائی جتن سے چرخہ دیا جلا
آیا کتا، کھا گیا تو بیٹھی ڈھول بجا
خسرو دریا پریم کا الٹی وا کی دھار
جو اترا سو ڈوب گیا، جو ڈوبا اس پار
گوشت کیوں نہ کھایا
؎ڈوم کیوں نہ گایا
۔۔۔
؎ڈوم یعنی گانا
جواب: گلا نہ تھا
ستار کیوں نہ بجا
عورت کیوں نہ نہائی
جواب: پردہ نہ تھا
دہی کیوں نہ جما
نوکر کیوں نہ رکھا
جواب: ضامن نہ تھا
جوتا کیوں نہ پہنا
سنبوسہ کیوں نہ کھایا
جواب: تلا نہ تھا
انار کیوں نہ چکھا؟
وزیر کیوں نہ رکھا؟
جواب: دانا/دانہ نہ تھا
وہ آوے تب شادی ہووے
اس بن دوجا اور نہ کوئے
میٹھے لاگیں وا کے بول
اے سکھی ساجن نا سکھی ڈھول
ونچی اٹاری پلنگ بچھایو
میں سوئی میرے سر پر آیو
کھل گئی انکھیاں بھئی انند
اے سکھی ساجن نہ سکھی چند ؎
؎چاند
سگری رین چھتیں پر راکھا
رنگ روب سب وا کا چاکھا
بھور بھئی جب دیا اتار
اے سکھی ساجن نا سکھی ہار
سگری رین موہے سنگ جاگا
بھور بھئی تو بچھڑن لاگا
اس کے بچھڑے پھاٹت ہِیا
اے سکھی ساجن نا سکھی دیا
سرپ سلونا سب گن نیکا
وا بن سب جگ لاگے پھیکا
وا کے سر پر ہووے گون
اے سکھی ساجن نا سکھی نون؎
۔۔۔
؎ نون یعنی نمک
بن ٹھن کے سنگھار کرے
دھر منہ ہر منہ پیار کرے
بیار سے موپے دیت ہے جان
اے سکھی ساجن نا سکھی پان
انگوں موری لپٹا رہے
رنگ روپ کا سب رس پئے
میں بھر جنم نہ وا کو چھوڑا
اے سکھی ساجن نا سکھی چوڑا
آپ ہلے اور موہے ہلاوے
وا کا ہلنا مورے من بھاوے
ہل ہل کے وہ ہوا نسنکھا
اے سکھی ساجن نا سکھی پنکھا
یک نار ترور سے اتری ماسوں جنم نہ ہایو
باپ کا نام جو وا سے پوچھو آدھو نام بتایو
آدھون نام بتایو خسرو کون دیس کی بولی
وا کا نام جو پوچھا میں نے اپنے نام نبولی
جواب: ؟
گانٹھ گٹھیلا رنگ رنگیلا ایک پرکھ ہم دیکھا
مرد استری اس کو رکھیں اس کا کیا کہوں لیکھا
جواب: ؟
نر ناری کی جوڑی ڈٹھی جب بولے تب لاگے مٹِھی
اک نہائے اک تاپن ہارا چل خسرو کر کوچ نقارہ
جواب: نقارہ
نر سے پیدا ہووے نار
ہر کوئی اس سے رکھے پیار
ایک زمانہ اس کو کھاوے
خسرو پیٹ میں وہ نہ جاوے
جواب: غصہ
لود پھٹکری مردانہ سنگ
ہلدی زیرہ ایک ایک ٹنگ
افیون چنا مرچیں چار
ارد برابر تھوتھا ڈار
جواب: ؟
فارسی بولی آئی نا
ترکی ڈھونڈی پائی نا
ہندی بولوں آر سی آئے
خسرو کہے کوئی نہ بتائے
جواب: آئینہ (آرسی)
شیام برن اور دانت انیک لچکت جیسے ناری
دونوں ہاتھ سے خسرو کھینچے اور یوں کہے میں آ ری
(آ ری یعنی آ رہی)
جواب: آری
سی سی کر کے نام بتایا تا میں بیٹھا ایک
الٹا سیدھا ہر پھر دیکھو وہی ایک کا ایک
جواب: ؟
ساون بھادوں بہت چلت ہے ماگھ پوس میں تھوڑی
امیر خسرو یوں کہتے تو بوجھ پہیلی موری
جواب: موری
جل جل چلتا بستا گاؤں بستی میں نا وا کا ٹھاؤں
خسرو نے دیا وا کا ناؤں بوجھو ارتھ نہیں چھاڈو گاؤں
جواب: ناؤ یعنی کشتی
ترور سے ایک تریا اتری اس نے بہت رجھایا
باپ کا نام جو اس سے پوچھا آدھا نام بتایا
آدھا نام پِتا پر پیارے بوجھ پہیلی موری
امیر خسرو یوں کہیں اپنا نام بنولی
جواب: بنولی
بیسیوں کا سر کاٹ لیا
نہ مارا نا خون کیا
جواب: ناخون یعنی ناخن
بھید پہیلی میں کہی تُو سن لے میرے لال
عربی ہندی فارسی تینوں کرو خیال
جواب: ؟
بالا تھا جب سب کو بھایا بڑھا؎ ہوا کچھ کام نہ آیا
خسرو کہہ دیا؎ اس کا ناؤں ارتھ کرو نہیں چھاڈو گاؤں
؎ بڑھا جب بولیں گے تو بڑا سنائی دے گا –
؎ دیا یعنی چراغ ہی اس پہیلی کا جواب ہے –
جواب: دیا یعنی چراغ
ایک نار چاتر کہلاوے
مورکھ کو نہ پاس بلاوے
چاتر مرد جو ہاتھ لگاوے
کھول ستر وہ آپ دکھاوے
جواب: عربی کا لفظ نار یعنی آگ
ایک نار جب بن کر آوے
مالک کو اپنے اوپر بلاوے
ہے وہ ناری سب کے گوں کی
خسرو نام لیے تو چونکی
جواب: چونکی یعنی چوکی جو بیٹھنے کے لیے استعمال کی جاتی ہے
ایک نار بھنورا سی کالی
کان نہیں وہ پہنے بالی
ناک نہیں وہ سونگھے پھول
جتنا عرض اتنا ہی طول
جواب: ؟
اندھا گونگا بہرہ بولے گونگا آپ کہائے
ایک سفیدی بہوت انگارا گونگے سے بھڑ جائے
جواب: ؟
گوری گوری بانہاں ، ہری ہری چوڑیاں
بانہیاں پکڑ دھر لینی رے موسے
بل بل جاؤں میں تورے موسے
خسرو نظام کے بل بل جیے
موہے سہاگن کینی رے موسے
کاہے کو بیاہی بدیس رے لکھی بابل مورے
کاہے کو بیاہی بدیس
بھائیوں کو دیے محلے دو محلے ہم کو دیا پردیس
کاہے کو بیاہی بدیس ، رے بابل!
کاہے کو بیاہی بدیس
ہم تو ہیں بابل تیرے کھونٹے کی گائیاں
جد ہانکے ، ہنک جائیں
ہم تو ہیں بابل تیرے بیلے کی کلیاں
گھر گھر مانگی جائیں
ہم تو ہیں بابل تیرے پنجرے کی چریاں
بھور بھئے اڑ جائیں
ٹاکوں بھری میں نے گڑیاں جو چھوڑیں
چھوٹا سہیلی کا ساتھ
کوٹھے تلے سے پالکی نکلی
بیرن نے کھائے پشاد
ڈولی کا پردہ اٹھا کر جو دیکھا
آیا پیا کا دیس
کاہے کو بیاہی بدیس ، رے بابل!
کاہے کو بیاہی بدیس؟
میں تو پیا سے نین لڑا آئی رے
گھر ناری کنواری کہے سو کرے
میں تو پیا سے نین لڑا آئی رے
سوہنی صورتیا ، موہنی مورتیا
میں تو ہریزے کے پیچھے سما آئی
گھر ناری کنواری کہے سو کرے
میں تو پیا سے نین لڑا آئی رے
موہے اپنے ہی رنگ میں رنگ لے
تو تو صاحب میرا محبوب الٰہی
موہے اپنے ہی رنگ میں رنگ لے
ہماری چنریا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پیا کی پگڑیا
وہ تو دونوں بسنتی رنگ دے
جو کچ مانگے رنگ کی رنگائی
مورا جوبن گروی رکھ لے
آن پڑی دربار تمہارے
موری لاج شرم سب رکھ لے
موہے اپنے ہی رنگ میں رنگ لے
سب سکھیوں میں چادر میری میلی
دیکھیں ہنس ہنس ناری
اب کے بہار چادر میریرنگ دے
پیا رکھ لے لاج ہماری
صدقہ باب گنج شکر کا
رکھ لے لاجک ہماری
قطب فریدل آئے براتی
خسرو راج دلاری
کوئی ساس کوئی نند سے جھگڑے
ہم کو آس تمہاری
رکھ لے لاج ہماری نظام
رکھ لے لاج ہماری
ز حالِ مسکیں مکن تغافل دُرائے نیناں بنائے بتیاں
کہ تابِ ہجراں ندارم اے جاں نہ لے ہو کاہے لگائے چھتیاں
شبانِ ہجراں دراز چوں زلف و روزِ وصلت چوں عمرِ کوتاہ
سکھی! پیا کو جو میں نہ دیکھوں تو کیسے کاٹوں اندھیری رتیاں
یکایک از دل دو چشم جادو بصد فریبم ببردِ تسکیں
کسے پڑی ہے جو جا سناوے پیارے پی کو ہماری بتیاں
چوں شمعِ سوزاں، چوں ذرہ حیراں، ہمیشہ گریاں، بہ عشق آں ما
نہ نیند نیناں، نہ انگ چیناں، نہ آپ آویں، نہ بھیجیں پتیاں
بحقِّروزِ وصالِ دلبر کہ دادِ ما را غریب خسرو
سپیت من کے ورائے راکھوں جو جائے پاؤں پیا کی کھتیاں
جب یار دیکھا نین پھر دل کی گئی چنتا اتر
ایسا نہیں کوئی عجب، راکھے اسے سمجھائے کر
جب آنکھ سے اوجھل بھیا، تڑپن لگا میرا جِیا
حقّا الہٰی کیا کیا، آنسو چلے بھر لائے کر
توں تو ہمارا یار ہے ، تجھ پر ہمارا پیار ہے
تجھ دوستی بسیار ہے ، اِک شب ملو تم آئے کر
جاناں طلب تیری کروں ، دیگر طلب کس کی کروں
تیری جو چنتا دل دھروں ، اک دن ملو تم آئے کر
میرا جو من تم نے لیا ، تم نے اُٹھا غم کو دیا
غم نے مجھے ایسا کیا جیسا پتنگا آگ پر
خسرو کہے باتاں غضب ، دل میں نہ لاوے کچھ عجب
قدرت خدا کی یہ عجب ، جب جیو دیا گل لائے کر
بہت کٹھن ہے ڈگر پنگھٹ کی
کیسے میں بھر لاؤں مدھوا سے مٹکی
پانی بھرن کو جو میں گئی تھی
دوڑ ، جھپٹ ، موری مٹکی پھٹکی
بہت کٹھن ہے ڈگر پنگھٹ کی
مورے اچھے نظام پیا جی