میں گزشتہ دو ماہ سے عرفان ستار کی شاعری پر گفتگو کے لیے ذہن کو راغب کرنے کی کوشش کر رہا ہوں مگر ذہن ہے کہ وہ ہنوز یکسوئی سے محروم ہے۔ عرفان ستار کا مصرعہ لکھنے کا ڈھب، خیال کی بندش، موضوعات کا تنوع، اشاراتی معنویت، محسوساتی نظام، الفاظ کا انتخاب اور پھر ان الفاظ سے ایک آہنگ کی نموداری جیسے متعدد خیالات میرے ذہن میں تشکیلی مراحل طے کرتے رہے اور میں خوش ہوتا رہا کہ جس وقت بھی قلم کاغذ لے کر بیٹھوں گا مضمون لکھ دوں گا۔ مگر اب قلم کاغذ ہاتھ میں آیا تو معلوم ہوا کہ اظہار کے حوالے سے انگلیوں میں سناٹا منجمد اور ذہن میں خیالات کم آواز ہیں۔ یہ صورتحال میرے ساتھ پہلی مرتبہ پیش آئی ہے ورنہ میری ذود نویسی تو بطور طعنہ میرے احباب میں معروف رہی ہے۔ میں سوچتا ہوں کہ ایسا کیوں ہے؟ کیا عرفان ستار سے میری قریبی رفاقت کی بنا پر ایسا ہے اور کیا اس رفاقت نے اظہار کے لمحے میں عرفانؔ ستار کی شاعرانہ صلاحیتوں کی کہکشاں کو میری نگاہ میں دھندلا دیا ہے؟ کیا ان کی شاعری کے بانکپن تک رسائی کے لیے دوری کی شرط قابلِ اعتنا ہے؟ میں سوالات کے ایک ہجوم میں سر نہوڑائے بیٹھا ہوا سوچ رہا ہوں کہ میں کیا لکھوں اور لکھوں بھی تو کہاں سے آغاز کروں۔
گزشہ آٹھ سال کے دوران میں نے عرفان ستار کی جو شاعری پڑھی اور سنی ہے اور جس شاعری کو میں کسی نوجوان شاعر کی موثر و تہہ دار شاعری قرار دیتا رہا ہوں کیا وہ میرے اندر اپنی کوئی توضیح نہیں رکھتی، یا پھر کیا میری اظہاری صلاحیت محجوب ہو گئی ہے اور میں اپنی مبادیات میں معطل ہو گیا ہوں۔ مگر پھر مجھے خیال آتا ہے کہ ایسا نہیں ہے کیونکہ ادھر گزشتہ پندرہ دن کے اندر میں نے مذہبی، تاریخی اور ادبی موضوعات پر کئی مضامین لکھے ہیں اور ان مضامین کے اندازِ تحریر و مندرجات کے حوالے سے تحسین آمیز جملے بھی مجھ تک پہنچے ہیں۔ بس عرفانؔ ستار کے باب میں میرا قلم بھی خاموش ہے اور ذہن بھی۔۔۔۔۔۔میں خود سے بارہا سوال کرتا ہوں کہ کہیں میں نے عجلت میں عرفانؔ ستار کی شاعری کے بارے میں اپنی پسندیدگی کا اظہار تو نہیں کیا تھا، یا عرفانؔ ستار سے رفاقت کی بنا پر کسی مصلحت آثار لمحے نے میری صداقت کو میرے اظہار سے بے دخل تو نہیں کر دیا تھا۔۔۔۔۔۔ان سوالات کے جواب میں ہر مرتبہ غزل کے کئی ثقہ اور صاحبِ طرز شعراء کے چہرے میری آنکھوں میں لَو دینے لگتے ہیں۔
جونؔ ایلیا، محبؔ عارفی، احمد ہمدانیؔ، قمرؔ جمیل، رساؔ چغتائی، انور شعورؔ، عرفانؔ صدیقی، خالدؔ احمد، احمد جاویدؔ، اور اجملؔ سراج کے تحسین آمیز جملے میری سماعت میں گونجنے لگتے ہیں۔
نگارؔ صہبائی، ڈاکٹر اسلمؔ فرخّی، نسیم درانی، عبداللہ جاویدؔ، قیصرؔ عالم، آصف فرخی، اور عتیقؔ جیلانی کی عرفانؔ ستار کے اشعار کی پذیرائی میں داد و تحسین مجھے اپنی طرف متوجہ کرتی ہے اور میں مطمئن ہو جاتا ہوں کہ میں نے عرفانؔ ستار کے شاعر ہونے کی پہلے مرحلے میں جو تصدیق کی تھی وہ گماں زاد نہیں بلکہ یقیں سرشت تھی۔ پھر ہوا یہ کہ عرفان ستار نے بھی اپنی تخلیقی ذہانت کو شعر کے حوالے سے اس قدر فروح دیا کہ بعض بے تربیت اساتذہ کی مفخّر و مکلّف گردنیں اپنے ہی شانوں پر جھول گئیں۔ مجھے یاد آیا کہ جونؔ ایلیا نے پہلی ملاقات میں جب عرفانؔ ستار سے اپنی مخصوص ترنگ میں کہا تھا کہ ’’ میاں وہ شخص شاعر ہو ہی نہیں سکتا جسے جونؔ ایلیا کے اشعار یاد نہ ہوں‘‘ تو عرفانؔ ستار نے ایک سانس میں ان کے تیس پینتیس شعر سنا دیے تھے اور انہوں نے جواباً کہا تھا کہ ’’ میاں عرفان۔ اب اگر تم اپنے شعر نہ بھی سنائو تو ہم کہہ رہے ہیں کہ تم شاعر ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیونکہ تم نے بہترین تلفّظ کے ساتھ ہمیں ہمارے وہ اشعار سنائے ہیں جو ہمیں خود بہت پسند ہیں۔‘‘
میرؔ و غالبؔ اور فیضؔ و فراقؔ تو اپنی جگہ عرفانؔ ستار نے ہر اُس شاعر کا مطالعہ کیاہے جو رحجان ساز ہے یا جس میں انفرادی لب و لہجے کا کوئی امکان موجود ہے۔یہی نہیں، عرفانؔ نے اردو کے قدیم و جدید نثری ادب کے علاوہ مذہبیات اور مغربی ادب و فلسفے کے مطالعے سے بھی اپنی فکری توسیع کی ہے جس کی بنا پر عرفانؔ ستار کی غزل اپنے موضوعات اور اظہار میں ایک امتزاجی مزاج لیے ہوئے ہے۔ صنفی تقاضوں اور فنی لوازم کا پاس و لحاظ رکھتے ہوئے عرفانؔ نے نہ صرف موضوعات کی مخفی ندرت کو تلاش کیا بلکہ ایک پُر تاثیر محسوساتی اور اسلوبی وضع بھی اختراع کی ہے۔ اُن کا مصرعہ لکھنے کا طور عامیانہ نہیں خلّاقانہ ہے یہی وجہ ہے کہ اُن کے ہاں لفظ مقصود بالذّات نہیں بلکہ معنویت اور متخیلہ کی ایک بلیغ ترسیل کا وسیلہ ہیں۔ یہ ایک کُھلی ہوئی حقیقت ہے کہ جدیدیت کی پیروی میں بیسوی صدی کے نصف آخر کے دوران غزل میں جو تجربات ہوئے اُن میں خیال سے زیادہ لفظ پر انحصار کیا گیا جس کی بنا پر بوجھل اور مہمل شاعری کو رواج ملا اور غزل کسی حد تک نہ صرف ذود فہمی کی صلاحیت سے محروم ہوئی بلکہ قاری سے اُس کا ابلاغی رابطہ بھی مجروح ہوا۔
عرفانؔ ستار نے بیسوی صدی کے آخری عشرہ کے نصف آخر میں جب باقاعدہ شعر گوئی کا آغاز کیا تو اُن سے ایک سیڑھی اوپر جو غزل لکھی جا رہی تھی وہ کسی حد تک اپنی لفظیات میں بھی اور موضوعات میں بھی نہ صرف غیر شخصی تھی بلکہ الفاظ کا برتائو بھی غیر تخلیقی اور اتباعی تھا۔ چنانچہ عرفانؔ ستار نے اپنا قبلہ درست رکھنے کے لیے سوچتی ہوئی استفہامیہ زمینوں کے اہتمام کے ساتھ مترنم بحروں میں اپنی ہمہ جہت تخلیقی ذہانت کو بھی اس قدر صیقل کیا کہ اُن کی شاعری ایک خلّاقابہ حُسن سے ہمکنار ہو گئی۔ اسی خلّاقانہ حُسن کے سہارے وہ اپنے قاری کو انسانی احساسات کی ایک ایسی فضا میں لے جاتے ہیں جہاں شاعر کا ہر تجربہ قاری کے تجربے کا غماز ہو جاتا ہے۔ عرفانؔ ستار کے محسوساتی نظام کی اساس محبت کی لا حاصلی پر ہے ۔ لا حاصلی اپنی تاثیر میں چونکہ الم انگیز ہوتی ہے اس لیے اکثر شعراء اس الم انگیزی کو ہی اپنے تجربے کی اساس بنا لیتے ہیں۔ لیکن جن شعراء کے یہاں تخلیقی ذہانت متخیلہ سے جڑی ہوئی ہوتی ہے وہ اس الم انگیزی میں نشاط کا ایک ایسا پیوند لگا دیتے ہیں کہ یہ الم انگیزی جہاں ایک عمومی تجربہ بن کر ظاہر ہوتی ہے وہاں رسائی میں نا رسائی کا احساس شاعر کی اپنی ذات میں دو آتشہ ہو جاتا ہے۔
سنا رہے ہو ہمیں کس نگاہِ ناز کے غم
ہم اُس کے سامنے ہوتے تو پوچھتی بھی نہیں
تعلق کی یہی صورت رہے گی کیا ہمیشہ
میں اب اُکتا چکا ہوں تیری اس وارفتگی سے
عجیب ہے یہ مری لا تعلقی جیسے
جو کر رہا ہوں بسر میری زندگی ہی نہ ہو
مسلسل قرب نے کیسا بدل ڈالا ہے تجھ کو
وہی لہجہ، وہی ناز و ادا ہوتے ہوئے بھی
حُسن تیرا بہت جاں فزا ہی سہی، خوش نظر ہی سہی خوش ادا ہی سہی
سُن مگر دل رُبا تیرا نغمہ سرا، دیکھتا ہی نہیں سوچتا بھی تو ہے
کبھی تو چند لمحے خود سے بھی باہر بسر کر لوں
ذرا دیکھوں تو وحشت کی فراوانی کہاں تک ہے
جانے ہے کس کی اداسی مری وحشت کی شریک
مجھ کو معلوم نہیں کون یہاں تھا پہلے
بے خوابی کے سائے میں جب دو آنکھیں بے عکس ہوئیں
خاموشی نے وحشت کی تصویر اٹھا کر رقص کیا
یا مجھ سے گزاری نہ گئی عمرِ گریزاں
یا عمرِ گریزاں سے گزارا نہ گیا میں
ہجر کا عیش کہاں ہے مری قسمت میں کہ اب
زندگی رنج بہ اندازِ دگر کھینچتی ہے
تعلقات کے برزخ میں عین ممکن ہے
ذرا سا دُکھ وہ مجھے دے تو میں ترا ہو جاؤں
خرد کی سادگی دیکھو کہ ظاہر حالتوں سے
مری وحشت کا اندازہ لگایا جا رہا ہے
جدید انسان چونکہ حال اور مستقبل سے جڑ کر چلتا ہے، اس لیے وہ ماضی کے کسی تجربے کو اپنا مطمعِ نظر نہیں بناتا۔ وہ کسی انتہائی تجربے اور کسی دیرپا کیفیت کی تلاش و جستجو میں رہتا ہے۔ وجود اور وجدان کی یکجائی اُس کا مسئلہ ہے۔ ایک لازوال تلاش و جستجو کی دائمی تشنگی اس کی فکر کو سیراب کرتی اور اسے حاصل سے انحراف پر آمادہ کرتی رہتی ہے۔ عرفانؔ ستار کی شاعری میں یہ انحراف ایک نامیاتی وحدت کے طور پر ہی موجود نہیں بلکہ ان کی تخلیقی ذہانت کا سر چشمہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اُن کی ایسی لفظیات، تلازمے اور استعارے جوکسی بالذّات کیفیت کی نمائندگی کرتے ہیں ان کی اپنی معنویت میں قلبِ ماہیت ہو گئی ہے اور یہ اسی قلبِ ماہیت کا نتیجہ ہے کہ عرفانؔ ستار کے ہاں یکسانیت سے بے زاری کا اعلان اپنی کلیت میں ’’ تکرارِ ساعت‘‘ کے طور پر ظاہر ہوا ہے۔ عرفانؔ ستار تغیر اور تبدل کے محاصل سے آشنا رہتے ہوئے تغیر و تبدل کے بطون میں موجود ایک تسلسل ، اور اس تسلسل میں موجود مطلق یکسانیت کے محرکات و مدرکات پر غور کرتے ہیں اور پھر ایک بے زاری سے دوچار ہو جاتے ہیں۔ یہ بے زاری زندگی کے مختلف شعبوں میں مروج اور نافذ عوامل اور اصولوں سے بیک وقت ہے ورنہ ’’ تکرارِ ساعت‘‘ کا اعلان بے معنی نظر آنے لگے گا۔ یہاں ایک وضاحت ضروری ہے کہ عرفانؔ ستار کی یہ بے زاری کسی نفسیاتی پیچیدگی
یا خالصتاً شکستِ شیشۂ دل کی پیداوار نہیں ہے۔ بلکہ جدید ترین صورتحال میں شخصی پھیلائو اور معدوم احساس کی بازیافت کا انعام ہے۔
ترا ہونا تو ہے بس ایک صورت کا اضافہ
ترے ہونے سے کیا تیری کمی کم ہو گئی ہے
اظہار میں جدید ہونا اور احساس میں جدید ہونا دو مختلف حالتیں ہیں، لیکن عرفانؔ ستار اپنی تخلیقی ذہانت کی بنا پر اظہار میں بھی جدید ہیں اور احساس میں بھی۔ یہی وجہ ہے کہ وہ رسائی سے نا رسائی اور نا رسائی سے رسائی کشید کرتے رہتے ہیں۔ ’’تکرارِ ساعت‘‘ کی ترکیب اگرچہ بظاہر اپنی ہیت میں طبیعات کی کوئی اصطلاح معلوم دیتی ہے مگر عرفانؔ ستار کے محسوسات میں یہ ترکیب نہ صرف مابعدالطبیعات کی نمائندہ ہو گئی ہے بلکہ عرفانؔ ستار کے سماجی اور روحانی شعور کا ایک شعری اظہار ہے۔
میرے سوا بھی کوئی گرفتار مجھ میں ہے
یا پھر مرا وجود ہی بیزار مجھ میں ہے
یہاں تکرارِ ساعت کے سوا کیا رہ گیا ہے
مسلسل ایک حالت کے سوا کیا رہ گیا ہے
بہت ممکن ہے کچھ دن میں اسے ہم ترک کر دیں
تمہارا قرب عادت کے سوا کیا رہ گیا ہے
سرِ صحرائے یقیں شہرِ گماں چاہتے ہیں
ہم کسی شے کو بھی موجود کہاں چاہتے ہیں
گماں میں بھی گماں لگتی ہے اب تو زندگی میری
نظر آتا ہے اب وہ خواب میں بھی خواب سا مجھ کو
اپنا دل برباد کیا تو پھر یہ گھر آباد ہوا
پہلے میں اک عرش نشیں تھا اب پاتال میں زندہ ہوں
ڈرا رہا ہے مسلسل یہی سوال مجھے
گزار دیں گے یونہی کیا یہ ماہ و سال مجھے
زندگی کی نئی وسعتوں کا ادراک اور اپنے تخلیقی احساس میں اُن کا تجربہ جہاں کسی تخلیق کار کی محویت میں اضافہ کرتا ہے، وہاں اُس کے اندر ایسا استفہامی اضطراب پیدا کرتا ہے جو اُس کی باطنی کیفیات کو ہی زیر و زبر نہیں کرتا بلکہ اُسے ایک ایسی نوعی یکسانیت سے دوچار کردیتا ہے کہ وہ ظاہری و باطنی تمام اشیاء اور معاملات کی طرف سے ابتدائی مرحلے پر تشکیک کا شکار ہوتا ہے اور ثانوی طور پر ان سے بے زاری کا اعلان کرنے لگتا ہے۔ ایسی صورت میں خود مرکزیت بھی پیدا ہوتی ہے اور خود پسندی بھی۔ جن افراد کی تخلیقی ذہانت کُند ہوتی ہے وہ اس صورتحال سے خود رحمی میں بھی مبتلا ہو جاتے ہیں جو بلا شبہ ایک مرض ہے۔ جیسا میں نے پہلے عرض کیا کہ عرفانؔ ستار نے اپنی تخلیقی ذہانت کو مطالعے اور تفکر سے صیقل کیا ہے لہذا اُن کے ہاں شاعرانہ بے ساختگی و پُر کاری آگئی ہے اور انہوں نے استفہامی اضطراب کو اپنی تخلیقی ذہانت سے اس طرح جوڑ دیا ہے کہ اُن کی شاعری میں زندگی کی آگہی اور اُس کا تصرف ایک مزاج کے طور پر نمایاں ہو گیا ہے۔
میں کہیں ہوں کہ نہیں ہوں وہ کبھی تھا کہ نہ تھا
تو ہی کہہ دے یہ سخن بے سروپا ہے کہ نہیں
میں تو وارفتگی ٔ شوق میں جاتا ہوں ادھر
نہیں معلوم وہ آغوش بھی وا ہے کہ نہیں
سبھی زندہ ہیں اور سب کی طرح میں بھی ہوں زندہ
مگر جیسے کہیں سے زندگی کم ہو گئی ہے
یہ بے سبب نہیں سودا خلا نوردی کا
مسافرانِ عدم رہ گزر کو دیکھتے ہیں
سُن جاناں ہم ترکِ تعلق اور کسی دن کر لیں گے
آج تجھے بھی عجلت سی ہے ہم بھی کچھ رنجیدہ ہیں
تیری ہر دلیل بہت بجا، مگر انتظار بھی تا کجا
ذرا سوچ تو مرے رازداں، میری آدھی عمر گزر گئی
میں تجھ سے ساتھ بھی تو عمر بھر کا چاہتا تھا
سو اب تجھ سے گلہ بھی عمر بھر کا ہو گیا ہے
ہمارے ساتھ جب تک درد کی دھڑکن رہے گی
ترے پہلو میں ہونے کا گماں باقی رہے گا
کھینچ رہی تھی کوئی شے، ہم کو ہر ایک سمت سے
گردشِ بے مدار میں، عمر گزار دی گئی
ہمیں بھی روز جگاتی تھی آ کے ایک مہک
چمن میں کوئی ہمارا بھی تھا صبا کر کے
اس وقت رات کا ایک بج رہا ہے اور میں شام سے عرفانؔ ستار کی غزلوں پر مشتمل مجموعے کے مسودّے کو نہ صرف کئی بار پڑھ چکا ہوں بلکہ اب تو عرفانؔ ستار کے بہت سے شعر مجھے ازبر ہو چکے ہیں۔ یہی نہیں عرفان ستار کے بعض ایسے اشعار جو پہلی سماعت کے دوران اپنی معنویت مجھ پر واضح نہیں کر سکے تھے اب میری تفہیمی صلاحیت پر زیرِ الفاظ مسکرارہے ہیں اور میں کاغذ قلم سامنے رکھے ہوئے سوچ رہا ہوں کہ کیا میں کوئی مضمون لکھ کر عرفانؔ ستار کی شاعری پر کسی تشریحی گفتگو کا حق ادا کرسکوں گا ؟