فلک سے مہر بھی کھو جائے، ماہ بھی نہ رہے
تو ہر گھڑی کا یہ دکھ گاہ گاہ بھی نہ رہے
ثواب بھی نہ رہے گر گناہ بھی نہ رہے
ہمیں تمہاری تو کیا، اپنی چاہ بھی نہ رہے
شبِ سیاہ سے کہنا کہ دن میں ڈھل جائے
شبِ سیاہ سے کہنا سیاہ بھی نہ رہے
ملے وہ دشمنِ جاں جس سے دشمنی بھی نہ ہو
ملے وہ دوست کہ جس سے نباہ بھی نہ رہے
مکینِ دل وہ مری جستجو ہی جب نہ رہی
تو دل کے طاق پہ رکھی نگاہ بھی نہ رہے
ازل نہ ہوتا تو کیسا ابد، کہاں کا ابد!
مرے ابد کو ازل کی پناہ بھی نہ رہے
یاور ماجد