آنکھوں سے اک زماں سے پانی برس رہا ہے
اک ابرِ جاوداں سے پانی برس رہا ہے
قدرت بھی رو پڑی ہے، اس رخنہ سائباں پر
خوں ہے کہ آسماں سے پانی برس رہا ہے؟
پہلے تو ایک کونے سے چھت ٹپک رہی تھی
اور اب کہاں کہاں سے پانی برس رہا ہے
بادل نہیں نظر میں اور ہو رہی ہے بارش
شاید کہ لامکاں سے پانی برس رہا ہے
ان پختہ بستیوں میں سبزہ اُگے گا اک دن
شاید اسی گماں سے، پانی برس رہا ہے
بادل ہیں اور فلک پر قوسِ قزح نہیں ہے
سو چشمِ ضو فشاں سے پانی برس رہا ہے
بادل تو برسے بن ہی کب کا چلا گیا تھا
اب ابر کے گماں سے پانی برس رہا ہے
وہ آنسوؤں کی بارش تو تھم چکی تھی یاؔور
پر جانے اب کہاں سے پانی برس رہا ہے
یاور ماجد